بھیانک آدمی

جاسوسی کہانیوں پرمبنی اردوکتابیں پڑھیں اور ڈاونلوڈ کیجئے
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

بھیانک آدمی

Post by چاند بابو »

[center]بھیانک آدمی[/center]

[center]Image اور اردونامہ کی مشترکہ پیشکش[/center]
[hr]

روشی اسے بہت دیر سے دیکھ رہی تھی! وہ سر شام ہی ہوٹل میں داخل ہوا تھا اور اب سات بج رہے تھے۔ سمندر سے آنے والی ہوائیں کچھ بوجھل سی ہو گئی تھیں۔

جب وہ ہوٹل میں داخل ہوا تو روشی کی میز کے علاوہ اور ساری میزیں خالی پڑی تھیں۔ لیکن اب ہوٹل میں تل دھرنے کی جگہ بھی نہیں تھی۔

وہ ایک خوبصورت اور جامہ زیب نوجوان تھا۔ لیکن یہ کوئی ایسی خاص بات نہیں تھی جس کی بنا پر روشی اس کی طرف متوجہ ہو جاتی۔ اسی ہوٹل میں اس نے اب سے پہلے درجنوں خوبصورت آدمیوں کے ساتھ سینکڑوں راتیں گذاری تھیں اور اس کی وہ حس کبھی کی فنا ہو چکی تھی، جو صنف قوی کی طرف متوجہ کرنے پر اکساتی ہے۔

روشی ایک اینگلوبرمیز عورت تھی۔۔۔ کبھی لڑکی بھی رہی ہو گی لیکن اب یہ بہت پرانی بات ہو چکی تھی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب سنگاپور پر جاپانیوں نے بمباری کی تھی اور جدھر جس کے سینگ سمائے تھے بھاگ نکلا تھا۔ روشی چودہ سال کی ایک لڑکی تھی۔ اس کا باپ سنگا پور کا ایک بہت بڑا تاجر تھا۔ لیکن بہت بڑے تاجر کی بیٹی ہونے کا یہ مطلب تو نہیں کہ روشی تین دن کے فاقے کے بعد ایک کپ چائے کے عوض لڑکی سے عورت نہ بن جاتی! ہو سکتا ہے کہ اس کے باپ کو ایک کپ چائے بھی میسر نہ آئی ہو کیوں کہ اس میں لڑکی سے عورت بننے کی صلاحیت توتھی نہیں۔۔۔ بہر حال روشی اس کے انجام سے آج بھی ناواقف تھی اور اب وہ ایک پچیس سال کی پختہ کار عورت تھی! لیکن گیارہ سال قبل کی روشی نہیں تھی۔۔۔ چائے کا وہ کپ اسے آج بھی یاد تھا۔۔۔ اور وہ اب تک ایسے درجنوں آدمیوں کو ایک ایک کپ چائے کے لئے محتاج کر چکی تھی۔

اب اس کے پاس ایک عمدہ سا آرام دہ فلیٹ تھا۔ دنیا کی ساری آسائشیں میسر تھیں اور اسے یقین تھا کہ اب وہ کبھی فاقے نہیں کرے گی۔

یہ ہوٹل اس کے کاروبار کے لئے بہت موزوں تھا اور وہ زیادہ تر راتیں یہیں گذارتی تھی۔ یہ ہوٹل کاروبار کے لئے یوں مناسب تھا کہ بندرگاہ یہاں سے قریب تھی اور دن رات یہاں غیر ملکیوں کا تار بندھا رہتا تھا جن میں زیادہ تر سفید نسل کے لوگ ہوتے تھے۔۔۔ اور یہ ہوٹل چلتابھی انہی کے دم سے تھا۔ ورنہ عام شہری تو ادھر کا رخ بھی نہیں کرتے تھے۔ مگر روشی اس بنا پر بھی اس نوجوان میں دلچسپی نہیں لے رہی تھی کہ وہ کوئی جہاز راں نہیں تھا۔

بات دراصل یہ تھی کہ وہ جب آیا تھا قدم قدم پر اس سے حماقتیں سرزد ہو رہی تھیں۔ جیسے ہی ویٹر نے پیشانی تک ہاتھ لے جا کر اسے سلام کیا اس ہوٹل کے سارے ویٹر آنے والے گاہکوں کو سلام کرنا ضروری خیال کرتے تھے خواہ وہ نئے ہوں خواہ پرانے، اس نے بھ باقاعدہ طور پر نہ صرف اس کے سلام کا جواب دیا بلکہ مؤدب انداز میں کھڑے ہوکر اس سے مصافحہ بھی کرنے لگا اور کافی دیر تک اس کے بال بچوں کی خیریت پوچھتا رہا۔

پہلے اس نے چائے منگوائی۔۔۔ اور خاموش بیٹھا رہا! حتٰی کہ چائے ٹھنڈی ہو گئی۔ پھر ایک گھونٹ لے کر برا سا منہ بناتے کے بعد اس نے چائے واپس کرکے کافی کا آرڈر دیا!

کافی شائد ٹھنڈی چائے سے زیادہ بدمزا معلوم ہوئی اور اس نے کچھ اس قسم کا منہ بنایا جیسے ابکائی روک رہا ہو۔ پھر اس نے کافی بھی واپس کردی اور پے در پے ٹھنڈے گلاس چڑھا گیا۔

اندھیرا پھیل گیا اور ہوٹل میں برقی قمقمے روشن ہو گئے۔ لیکن اس احمق نوجوان نے شاید وہاں سے نہ اٹھنے کی قسم کھا لی تھی۔

روشی کی دلچسپی بڑھتی رہی! وہ بھی اپنی جگہ پر جم سی گئی تھی!

رات کے کھانے کا وقت ہونے سے قبل ہی میز پوش تبدیل کر دئے گئے اور میزوں پر تروتازہ پھولوں کے گلدانوں کے ساتھ ہی ایسے گلاس بھی رکھے گئے جن میں نیپکن اڑسے ہوئے تھے۔

اس بیوقوف نوجوان نے اپنی کرسی پیچھے کھسکا لی تھی اور ایک ویٹر اس کی میز بھی درست کر رہا تھا۔ ویٹر کے ہٹتے ہی وہ ایک گلاب کا پھول گلدان سے نکال کر سونگھنے لگا! وہ خیالات میں کھویا ہوا سا معلوم ہو رہا تھا اور اس نے ایک بار بھی اپنے گردوپیش نظر ڈالنے کی زحمت گوارا نہیں کی تھی۔ شائد وہ وہاں خود کو تنہا محسوس کر رہا تھا۔

روشی اسے دیکھتی رہی اور اب وہ نہ جانے کیوں اس میں خاص قسم کی کشش محسوس کرنے لگی تھی۔۔۔ اس نے کئی بار اٹھنا بھی چاہا لیکن کامیاب نہ ہوئی۔

اتنے میں کھانے کا وقت ہو گیا۔ اور اس نوجوان نے کھانے کا آرڈر دیا۔ پھول ابھی تک اس کی چٹکی میں دبا ہوا تھا جسے وہ کبھی سونگھنے لگتا اور کبھی آنکھیں بند کرکے اس طرح سے اس گال سہلانے لگتا جیسے ضرورتاً ایسا کر رہا ہو۔
Last edited by چاند بابو on Sun Aug 31, 2008 10:33 pm, edited 1 time in total.
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

کھانا میز پر چن دیا گیا۔لیکن وہ بدستور بے حس و حرکت بیٹھا رہا۔ وہ اب بھی کچھ سوچ رہا تھا اور ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے ویٹر کے آنے اور کھانے کی موجودگی کا اسے علم ہی نہ ہو۔

روشی اب بھی اسے دیکھ رہی تھی۔ اچانک اس نے دیکھا کہ وہ گلاب کا پھول شوربے میں ڈبو رہا ہے اور پھر وہ اسے چبا بھی گیا۔ لیکن دوسرے ہی لمحہ اس نے اتنا بُرا منہ بنایا کہ روشی کو بیساختہ ہنسی آگئی۔ اس کے منہ سے کچلے ہوئے پھول کے ٹکڑے پھسل پھسل کر گر رہے تھے۔

"بوائے"۔ اس نے رو دینے کے سے انداز میں ویٹر کو آواز دی اور کئی لوگ چونک کر اسے گھورنے لگے۔۔ ڈائننگ ہال اب کافی آباد ہو چکا تھا۔ شائد پانچ میزیں خالی ہوں گی۔

"سب چوپٹ" اس نے ویٹر سے گلوگیر آواز میں کہا۔ "سب لے جاؤ۔۔۔ بل لاؤ!"

ویٹر برتن سمیٹ کر واپس چلا گیا۔ لیکن اسے واپس آنے میں دیر نہیں لگی۔ نوجوان نے طشتری میں رکھے ہوئے پرچے پر نظر ڈالی اور اپنی جیبیں ٹٹولنے لگا۔

پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کی جیبوںسے نوٹوں کی کئی گڈیاں نکل آئیں۔ جنہیں وہ میز پر ڈالتا ہوا کھڑا ہو گیا اور اب وہ اپنی اندرونی جیبیں ٹٹول رہا تھا۔
آخر اس نے ایک کھلی ہوئی گڈی نکالی اور اس میں سے سو کا ایک بڑا نوٹ کھینچ کر طشتری میں رکھ دیا۔

روشی کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی تھیں اور وہ نوجوان بڑی لاپروائی سے میز پر پڑی ہوئی نوٹوں کی گڈیوں کو کوٹ کی جیبوں میں ٹھونس رہا تھا۔

روشی نے چاروں طرف نظر دوڑائی اور اس نے دیکھا کہ ڈائننگ ہال کے سارے لوگ اس احمق کو بری طرح گھور رہے ہیں اور اس نے وہاں کچھ برے لوگ بھی دیکھے جو للچائی ہوئینظروں سے اسے دیکھ رہے تھے۔

روشی اپنی جگہ سے اٹھی اور آہستہ آہستہ چلتی ہوئی اس احمق کی میز کے قریب پہنچ گئی۔ وہ جانتی تھی کہ اس کا کیا حشر ہونے والا ہے۔ ڈائننگ ہال کے بعد دوسرے ہی کمرے میں بہت ہی اعلٰی پیمانے پر جوا ہوتا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ ابھی دو تین دلال اسے گھیر کر اس کمرے میں لے جائیں گے۔۔۔ اور وہ چند ہی گھنٹوں کے اندر اندر کوڑی کوڑی کو محتاج ہو جائے گا۔

"کہو طوطے اچھے تو ہو!" روشی نے نوجوان کے شانے پر ہاتھ رکھ کر اتنے بے تکلفانہ انداز میں کہا جیسے وہ نہ صرف اس سے واقف ہو بلکہ دونوں گہرے دوست بھی ہوں۔

نوجوان چونک کر اسے احمقوں کی طرح دیکھنے لگا۔ اس کے ہونٹ کھلے تھے اور آنکھیں حیرت سے پھیل گئی تھیں۔

"اب تم کہو گے کہ میں نے تمھیں پہچانا ہی نہیں۔" روشی اٹھلا کر بولی اور کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔ دوسری طرف قمار خانے کے دلال ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔

"آہا، کیا تمہیں بولنا نہیں آتا!" روشی پھر بولی۔

"مم۔۔۔ دو۔۔۔ ہپ!" نوجوان ہکلا کر رہ گیا۔

"تم شاید پاگل ہو!" وہ میز پر کہنیاں ٹیک کر آگے جھکتی ہوئی آہستہ سےبولی۔ "اس خطرناک علاقے میں اپنی امارت جتاتے پھرنے کا یہی مطلب ہو سکتا ہے۔"

"خطرناک علاقہ!" نوجوان آنکھیں پھاڑ کر کرسی کی پشت سے ٹک گیا۔

"ہاں میرے طوطے! کیا تم پہلی بار یہاں آئے ہو۔"

نوجوان نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

"کیوں آئے ہو"۔

"اس نے یہیں ملنے کا وعدہ کیا تھا!" نوجوان نے شرما کر کہا۔

"کس نے!۔۔۔ کیا کوئی لڑکی ہے!"

نوجوان نے پھر سر ہلا دیا! لیکن اس بار اس نے شرم کے مارے اس سے آنکھیں نہیں ملائیں! وہ کسی ایسی کنواری لڑکی کی طرح لجا رہا تھا جس کے سامنے اس کی شادی کا تذکرہ چھیڑ دیا گیا ہو!

روشی نے اس پر ترحم آمیز نظر ڈالی۔

"اگر اس نے یہاں ملنے کا وعدہ کیا ہے تو وہ کوئی اچھی لڑکی نہیں ہو سکتی!"
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

کیوں!" نوجوان چونک کر بولا۔

"لیکن یہ تو بتاؤ کہ تم اتنے روپے کیوں ساتھ لئے پھر رہے ہو!"

روشی نے اس کے سوال کو نظرانداز کرتے ہوئے پوچھا۔

"جب تک اتنی ہی رقم میری جیب میں نہ ہو۔۔۔ میں گھر سے باہر نہیں نکلتا۔"

اچانک ایک دلال نے روشی کو اشارہ کیا۔! غالباً اس اشارے کا یہی مطلب تھا کہ اسے قمار خانے میں لے چلو!۔۔۔ لیکن روشی نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا۔

"تب تو پھر ہو سکتا ہے کہ یہ تمہاری زندگی کی آخری رات ہو۔" روشی نے نوجوان سے کہا۔

"کیوں خوامخواہ ڈرا رہی ہو!" نوجوان خوف زدہ سی آواز میں بولا۔ "میں یونہی بڑا بدنصیب آدمی ہوں۔ پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھا سکتا! کوئی چیز ٹھنڈی معلوم ہوتی ہے اور کوئی چیز کڑوی۔ بڑا تھرڈ کلاس ہوٹل ہے میرے نانا کے گاؤں والی سرائے میں اس سے بدرجہا بہتر کھانا ملتا ہے۔"

روشی عجیب سی نظروں سے اسے دیکھ کر رہ گئی۔کچھ دیر خاموش رہی پھر وہ اٹھتا ہوا بولا۔ "اچھا اب میں جاؤں گا۔"

"شاید تم اس شہر کے ہی نہیں ہو۔" روشی نے تشویش آمیز لہجے میں کہا۔

"کیا تم غیب کی باتیں بھی بتا سکتی ہو!" نوجوان کے لہجے میں حیرت تھی۔ وہ پھربیٹھ گیا۔

"یہاں سے نکلنے کے بعد تمہیں سڑک تک پہنچنے کے لئے ایک ویرانہ طے کرنا پڑے گا!" روشی نے کہا۔ "ہوسکتا ہے کہ تم چیخ بھی نہ سکو اور کئی انچ ٹھنڈا لوہا تمہارے جسم میں اتر جائے۔"

"میں نہیں سمجھا۔"

"تم باہر مار ڈالے جاؤ گے بدھو!" روشی دانت پیس کر بولی۔ "کیا تم نے اس علاقے کی ہولناک وارداتوں کے متعلق اخبارات میں بھی نہیں پڑھا۔"

"میں کچھ نہیں جانتا!" نوجوان نے بے چینی سے پہلو بدل کر کہا۔
"وہ لڑکی کس وقت آئے گی!"

"اوہ اب تو آٹھ بج گئے! اس نے سات بجے ملنے کا وعدہ کیا تھا!"

"تم اسے کب سے جانتے ہو۔"

"کل سے"

"کیا مطلب!"

"ہاں ہاں کل سے! کل وہ مجھے ریلوے کے ویٹنگ روم میں ملی تھی!"

"اور تم آج یہاں دوڑے آئے! واقعی بدھو ہو۔"

"بات یہ ہے۔۔۔۔ کک۔۔۔۔ کہ۔۔۔"

"فضول باتیں نہ کرو! تمہارے لئے دونوں صورتیں خطرناک ہیں۔ لیکن ایک میں جان جانے کا خدشہ نہیں! البتہ لٹ ضرور جاؤ گے!"

"تمہاری کوئی بات میری سمجھ میں نہیں آرہی!"

"باہر پھیلے ہوئے اندھیرے میں ایک خطرناک آدمی کی حکومت ہے اور وہ آدمی بعض اوقات یونہی تفریحاً کسی نہ کسی کو ضرور قتل کردیتا ہے! مگر تم۔۔۔ تم تو سونے کی چڑیا ہو اس لئے تمہیں جان و مان دونوں سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔"

"کس مصیبت میں پھنس گیا!" نوجوان نے گلوگیر آواز میں کہا۔

"جب تک میں کہوں خاموشی سے یہی بیٹھے رہو!" روشی نے کہا۔

"لیکن تم نے یہاں بھی کسی خطرے کا تذکرہ کیا تھا۔"

"یہاں تم لٹ جاؤ گے پیارے طوطے!" روشی نے مسکرا کر پلکیں جھپکاتے ہوئے کہا۔ "ادھر جوا ہوتا ہے اور جوئے خانے کے دلال تمہاری تاک میں ہیں۔"
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

"واہ۔۔۔ وا۔۔۔" احمق نے ہنس کر کہا۔" یہ تو بہت اچھی بات ہے! میں جوا کھیلنا پسند کروں گا۔ مجھے وہاں تک لے چلو۔"

"اوہ! میں سمجھی! تم یہاں جوا کھیلنے آئے ہو!"

"نہیں۔۔۔ یہ بات نہیں۔۔۔ اف وہ ابھی تک نہیں آئی۔۔۔ ارے بھئی قسم لے لو۔۔۔ میں جوا کھیلنے کی نیت سے نہیں آیا تھا۔ مگر اب کھیلوں گا ضرور۔ ایسے مواقع روز روز نہیں ملتے!"

"یعنی تم حقیقتاً جواری نہیں ہو!"

"نہیں! میں تو یہ بھی نہیں جانتا کہ جوا کھیلا کس طرح جاتا ہے۔"

"تب پھر کیسے کھیلو گے!"

"بس کسی طرح! صرف ایک بار تجربے کے لئے کھیلنا چاہتا ہوں! سچ کہتا ہوں ایسا موقع پھر کبھی نہیں ملے گا!"

"کیسا موقع!"

"بات یہ ہے!" احمق آگے جھک کر رازدارانہ انداز میں بولا۔ "نہ یہاں ڈیڈی ہیں اور نہ ممی!"

روشی بے اختیار ہنس پڑی۔ لیکن اس نوجوان کے چہرے پر حماقت آمیز سنجیدگی دیکھ کر خود بھی سنجیدہ ہو گئی اور نہ جانے کیوں اس وقت وہ خود کو بھی بیوقوف محسوس کرنے لگی تھی۔

"ڈیڈی اور ممی!" نوجوان پھر بولا "مجھے کڑی پابندیوں میں رکھتے ہیں! لیکن میں دنیا دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں اب بڑا ہو گیا ہوں نا۔۔۔ ہے کہ نہیں!۔۔۔ دیکھ لو وہ اب تک نہیںآئی۔۔۔"

"میں تمہیں جوا نہ کھیلنے دوں گی! سمجھے!"

"کیوں!۔۔۔ واہ۔۔۔ یہ اچھی رہی! تم ہوکون مجھے روکنے والی۔ میںنے آج سے پہلے کبھی تمہیں دیکھا تک نہیں۔"

"تم جوا نہیں کھیلو گے!" روشی اپنا اوپری ہونٹ بھینچ کر بولی۔

"دیکھتا ہوں۔ تم کیسے روکتی ہو مجھے!"

اتنے میں قمار خانے کا ایک دلال اپنی جگہ سے اٹھ کر ان کی میز کی طرف بڑھا۔ صورت ہی سے خطرناک آدمی معلوم ہورہا تھا! چہرے پر گھنی مونچھیں تھیں اور خفیف سے کھلے ہوئے ہونٹوں سے دانت دکھائی دیتے تھے! آنکھوں سے درندگی جھانک رہی تھی! وہ ایک کرسی کھینچ کر روشی کے سامنے بیٹھ گیا۔

“کیا یہ تمھارے دوست ہیں!” اس نے روشی سے پوچھا۔

“ہاں!” روشی کے لہجے میں تلخی تھی۔

“کیا پہلی بار یہاں آئے ہیں۔”

ہاں۔۔۔ ہاں!” روشی جھلا گئی۔

“ناراض معلوم ہوتی ہو!” وہ لگاوٹ بھرے انداز میں بولا!

"جاؤ! اپنا دھندا دیکھو! یہ جواری نہیں ہے!”

“میں ضرور جوا کھیلوں گا!” احمق نے میز پر گھونسہ مار کر کہا!” تم مجھے نہیں روک سکتیں! سمجھیں!”

“اوہ یہ بات ہے!” دلال روشی کوگھورنے لگا! اس کی آنکھوں میں کینہ توزی کی جھلک تھی۔ پھر وہ احمق کی طرف مڑ کر بولا۔ “نہیں مسٹر آپ کو کوئی نہیں روک سکتا! آپ جیسے خوش قسمت لوگ یہاں سے ہزاروں روپے بٹور کر لے جاتے ہیں اور ان کی یہ کشادہ پیشانی آآہاہا۔۔۔ فتحمندی اور نصیب وری کی نشانی ہے! میرے ساتھ آئیے۔ میں آپ کو کھیلنے کے گر بتاؤں گا۔ جیت پر صرف پندرہ فیصدی کمیشن۔۔۔ بولئے ٹھیک ہے نا!”
“بالکل ٹھیک ہے یار" احمق اس کے پھیلے ہوے ہاتھ پر ہاتھ مارتا ہوا بولا۔ “اٹھو۔”

روشی وہیں بیٹھی رہ گئی اور وہ دونوں اٹھ کر قمار خانے کی طرف چلے گئے
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

روشی خوامخواہ بور ہو رہی تھی! اسے تکلیف پہنچی تھی! نہ جانے کیوں؟ جہاں وہ تھی وہاں بیٹھی رہی! اس کے ذہن میں آندھیاں سی اٹھ رہی تھیں! بڑی عجیب بات تھی! آج اس سے پہلی ملاقات تھی۔ وہ بھی زبردستی کی! لیکن اس کے باوجود بھی وہ محسوس کر رہی تھی جیسے اس احمق کے رویے کی بنا پر برسوں پرانی دوستی ٹوٹ گئی ہو! اس نے اس کا کہنا کیوں نہیں مانا! اس کی بات کیوں رد کردی۔

پھر اسے اپنی حماقت پر ہنسی آنے لگی۔ آخر وہ اسے منع کرنے والی ہوتی ہی کون ہے!۔۔۔ پتہ نہیں۔۔۔ وہ کون ہے۔ کہاں سے آیا ہے؟ کل کہاں ہوگا؟ ایسے آدمی کے لئے اس قسم کا جذبہ رکھنا حماقت نہیں تو اور کیا ہے اس سے پہلے ایک نہیں سینکڑوں آدمیوں سے مل چکی تھی اور انہیں اچھی طرح لوٹتے وقت بھی اس کے دل میں رحم کا جذبہ بیدار نہیں ہوا تھا۔ لیکن اس احمق نوجوان کو دوسروں کے ہاتھوں لٹتے دیکھ کر نہ جانے کیوں اس کی انسانیت جاگ اٹھی تھی۔ اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کا کوئی نالائق لڑکا اس کا دل توڑ گیا ہو۔

“وہ جہنم میں جائے!” وہ آہستہ سے بڑبڑائی اور ویٹر کو بلا کر ایک پگ وہسکی کا آرڈر دیا۔

پھر اس نے اس طرح اپنے سر کو جھٹکا دیا جیسے اس احمق آدمی کے تصور سے پیچھا چھڑانا چاہتی ہو۔

اس نے سوچا کہ وہ پی چکنے کے بعد یہاں سے اٹھ ہی جائے گی! ضرور ہی اٹھ جائے گی ۔

لیکن اٹھ جانے کا تہیہ کرلینے کے باوجود بھی وہ وہیں بیٹھی رہی۔۔۔ سوچتی رہی۔۔۔ اسی احمق نوجوان کے متعلق۔۔۔ ایک گھنٹہ گزر گیا اور پھر وہ اسے دوبارہ دکھائی دیا۔

وہ قمار خانے کے دروازے میں کھڑا اپنے چہرے سے پسینہ پونچھ رہا تھا دونوں کی نظریں ملیں اور وہ تیر کی طرح اس میز کی طرف آیا۔

"تم ٹھیک کہتی تھیں " وہ ایک کرسی پربیٹھ کر ہانپستاہوا بولا۔ " میں نے تین ہزار روپے کھو دیئے!"

روشی اسے گھورتی رہی پھر دانت پیس کر بولی۔ "جاؤ چلے جاؤ! ورنہ الٹا ہاتھ رسید کردوں گی۔"

"نہیں۔۔۔ میں نہیں جاؤں گا۔۔۔ تم نے کہا تھا کہ باہر خطرہ ہے۔!"

روشی خاموش ہو گئی۔ وہ کچھ سوچ رہی تھی۔!

"بتاؤ میں کیا کروں۔" احمق نے پھر کہا۔

"جہنم میں جاؤ۔"

"میں بھی کتنا گدھا ہوں!" احمق خود سے بولا " بھلا یہ بیچاری کیا بتائے گی۔"

احمق کرسی سے اٹھ گیا! روشی بری طرح جھلائی ہوئی تھی! اس نےذرہ برابر بھی پرواہ نہ کی۔ وہ اسے باہر جاتے دیکھتی رہی۔ حتٰی کہ وہ صدر دروازے سےگذر گیا!"

اچانک اس کے خیالات کی رو پلٹی اور وہ پھر اس کیلئے بے چین ہوگئی! اس کے ذہن میں باہر کے اندھیرے کا تصور رینگنے لگا او روہ مضطربانہ انداز میں اٹھ کھڑی ہوگئی!۔۔۔ وہ پھر اس احمق کے متعلق سوچ رہی تھی! اس نے صرف تین ہزار گنوائے تھے لیکن اس کے بعد بھی اس کی جیبوں میں کافی رقم ہوگی! وہ بڑے نوٹوں کی گڈیاں تھیں۔۔۔ یقینا تیس یا چالیس ہزار ہو سکتا ہے کہ اس سے بھی زیادہ۔۔۔!

اس نے بڑی تیزی سے اپنا وینٹی بیگ اٹھایا اور ہوٹل سے نکل گئی۔ باہر اندھیرے کی حکمرانی تھی۔ کافی فاصلے پر ایک تاریک سایہ نظر آرہا تھا! متحرک سایہ۔۔۔ جو اس احمق کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا تھا۔۔۔ سامنے چھوٹے چھوٹے ٹیلے تھے اور بائیں طرف گھنی جھاڑیوں کا سلسلہ میلوں تک پھیلا ہوا تھا۔ سڑک تک پہنچنے کے لئے ان ٹیلوں کے درمیان سے گزرنا ضروری تھا! لیکن موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ وقت اس کے لئے موزوں نہیں تھا! خود پولیس اس علاقے کو خطرناک قرار دے چکی تھی!

روشی دل ہی دل میں خود کو برا بھلا کہہ رہی تھی۔ کیوں نہ اس نے اس کو ادھر جانے سے باز رکھا ۔ اس نے اسے وہ راستہ کیوں نہ بتا دیا جو بندرگاہ کی طرف جاتا تھا۔

اب وہ اس الجھن میں پڑگئی تھی وہ اسے کس طرح آواز دے۔ وہ اس کے نام سے بھی واقف نہیں تھی!

اچانک اسے تھوڑے ہی فاصلے پرایک دوسرا سایہ دکھائی دیا جو پہلے سائے کے پیچھے تھا اور یک بیک کسی ٹیلے کی اوٹ سے نمودار ہوا تھا! پھر اس نے اسے اگلے سائے پر جھپٹتے دیکھا۔ اور وہ اپنی بے ساختہ قسم کی چیخ کو کسی طرح نہ دبا سکی جو اس کے سنبھلنے سے پہلے ہی سناٹے میں دور تک لہراتی چلی گئی تھی!
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

دونوں سائے گھتے ہوئے زمین پر گرے۔ پھر ایک فائر ہوا اور ایک سایہ اچھل کر جھاڑیوں کی طرف بھاگا۔
روشی بدحواسی میں سیدھی دوڑی چلی گئی۔

اس نے تاروں کی چھاؤں میں ایک آدمی کو زمین پر پڑے دیکھا۔ دوسرا غائب ہو چکا تھا۔

اسے یقین تھا کہ وہ اس احمق آدمی کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔۔۔
"
کیا ہوا!" وہ بوکھلائے ہوئے انداز میں اس پر جھک پڑی۔

"نیند آ رہی ہے!‘ احمق نے بھرائی ہوئی آواز میں جواب دیا۔

"اٹھو!" وہ اسے جھنجھوڑنے لگی۔ "بھاگو پوری قوت سے ہوٹل کی طرف بھاگو!"

احمق اچھل کر کھڑا ہوگیا اور پھر اس نے بڑی پھرتی سے روشی کو کندھے پر لاد کر ہوٹل کی طرف بھاگنا شروع کردیا۔ روشی "ارے ارے" ہی کرتی رہ گئی!

پھر تھوڑی دیر بعد ہی دونوں ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہانپ رہے تھے اور وہ ہوٹل کے صدر دروازے کے قریب تھے! فائر اور چیخ کی آواز سن کر یہاں پہلے ہی سے بھیڑ جمع ہو گئی تھی!

"کہیں چوٹ تو نہیں آئی۔" روشی نے اس سے پوچھا۔

"چوٹ آئی نہیں بلکہ چوٹ ہوگئی! میں اس وقت کوڑی کوڑی کو محتاج ہوں!"

ہوٹل کا مینیجر انہیں اندر لایا اور سیدھا اپنے کمرے میں لیتا چلا گیا۔

"آپ نے بڑی غلطی کی ہے!" اس نے احمق سے کہا۔

"ارے جناب! میں شام کو ادھر ہی آیا تھا!"

"کیا آپ نے سڑک کے کنارے لگے ہوئے بورڈ پر نظر نہیں ڈالی تھی جس پر تحریر ہے کہ سات بجے کے بعد اس طرف جانے والوں کی جان وہ مال کی حفاظت نہیں کی جاسکتی! یہ بورڈ محکمہ پولیس کی طرف سے نصب کرایا گیا ہے۔"

"میں نے نہیں دیکھا تھا!"

"کتنی رقم گئی!" مینیجر نے متاسفانہ لہجے میں پوچھا۔

"سینتالیس ہزار۔۔۔!"

"میرے خدا!" مینیجر کی آنکھیں متحیرانہ انداز میں پھیل گئیں!

"اور تین ہزار میں آپ کے قمار خانے میں ہار گیا۔"

"مجھے افسوس ہے!" مینیجر نے مغموم انداز میں کہا۔ "مگر جوا تو مقدر کا کھیل ہے ہو سکتا ہے کہ کل آپ چھ ہزار کی جیت میں رہیں۔"

وہ دونوں مینیجر کے کمرے سے باہر نکل آئے۔ ایک بار پھر لوگ ان کے گرد اکٹھا ہونے لگے تھے! لیکن روشی اسے ان کے نرغے سے صاف نکال لے گئی۔

وہ دوسری طرف کے دروازے سے پیدل بندرگاہ کی طرف جا رہے تھے۔

"کیوں طوطے اب کیا خیال ہے۔" روشی نے اس سے پوچھا۔

"اب خیال یہ ہے کہ میں اپنے روپے وصول کئے بغیر یہاں سے نہیں جاؤں گا! پچاس ہزار کی رقم تھوڑی نہیں ہوتی۔۔۔"

"لیکن تم اتنی رقم لے کرآئے ہی کیوں تھے۔"
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

"مجھے پچاس بھینیسں خریدنی تھیں!"

"بھینسیں!"

"ہاں بھینسیں۔۔۔ اور میں ان بھینسوں کے بغیر واپس نہیں جاسکتا کیونکہ میرے ڈیڈی ذرا غصہ ور قسم کے آدمی ہیں!"

"کیا وہ بھینسوں کی تجارت کرتے ہیں!"

"نہیں۔ انہیں بھینسوں سے عشق ہے!" احمق نے سنجیدگی سے کہا اور روشی بے ساختہ ہنس پڑی۔

"ہائیں تم مذاق سمجھی ہو کیا!" احمق نے حیرت سے کہا۔ "یہ حقیقت ہے کہ وہ اپنے گردو پیش سے زیادہ بھینسیں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں!"

"وہ اور کیا کرتے ہیں! یعنی ذریعہ معاش کیا ہے!"

"یہ تو مجھے نہیں معلوم!"

"اب تمہارے پاس کتنی رقم ہے۔"

"شاید ایک چونی! رقم کی فکر نہ کرو۔ میں ایک ایک پائی وصول کرلوں گا!"

"کس سے!"

"جس نے چھینی ہے اس سے!"

"طوطے تم بالکل گدھے ہو!" روشی ہنسنے لگی۔ "پتہ نہیں زندہ کیسے ہو! وہ آدمی اپنے شکاروں کو زندہ نہیں چھوڑتا۔"

"وہ آخر ہے کون!"

"کوئی نہیں جانتا۔ پولیس والے اس علاقے میں قدم رکھتے ہوئے تھراتے ہیں! وہ اب تک نہ جانے کتنے آفیسروں کو جان سے مار چکا ہے۔"

"ہوسکتا ہے۔۔۔ مگر میں اپنے روپے وصول کر لوں گا۔"

"کس طرح بڈھے طوطے۔"

"کل سرشام ہی ان جھاڑیوں میں چھپ جاؤں گا۔"

روشی بے تحاشہ ہنسنے لگی!

"طوطے تم سچ مچ پاگل ہو!" اس نے کہا۔ "یہ بتاؤ تمہارا قیام کہاں ہے!"

"ہوٹل نبراسکا میں!"

"لیکن اب تمہاری جیبیں خالی ہو چکی ہیں! وہاں کیسے رہو گے۔"

"اس کی فکر نہیں! وہاں سے کسی خیراتی مسافر خانے میں چلا جاؤں گا، لیکن بھینسوں کے بغیر واپسی ناممکن ہے!"
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

روشی خاموش ہو گئی۔ بندرگاہ کے قریب پہنچ کر اس نے ایک ٹیکسی رکوائی۔

"چلو بیٹھو!"

"مجھے بھوک لگ رہی ہے!"

"تو اب تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں کھانا بھی کھلاؤں۔" روشی اسے ٹیکسی میں دھکیلتے ہوئے بولی۔
وہ دونوں ٹیکسی میں بیٹھ گئے اور ٹیکسی چل پڑی۔

"تم یہ نہ سمجھو کہ میں مفلس ہوں۔ میں نے یہ کہا تھا کہ میری جیب میں ایک چونی ہے۔ لیکن ٹھہرو میں الو نہیں ہوں! پردیس میں اپنا سارا روپیہ ایک جگہ نہیں رکھتا!"

احمق خاموش ہو کراپنے جوتے کا فیتہ کھولنے لگا۔ اس نے دونوں جوتے اتار دیے اور انہیں الٹا کر کے جھٹکنے لگا! دوسرے لمحے اس کے ہاتھ پر دو نوٹوں کی گڈیاں تھیں!"

٬یہ ڈھائی ہزار ہیں!" احمق نے بڑی سادگی سے کہا۔

"اگر اب میں انہیں ہتھیا لوں تو!" روشی مسکرا کر بولی۔

"تم ہرگز ایسا نہیں کرسکتیں۔ میں تمہیں ڈرا دوں گا۔"

"ڈرا دو گے!"

"ہاں میرے پاس ریوالور ہے اور میں نے اس آدمی پر فائر بھی کیا تھا۔"

"کیا تمہارے پاس لائسنس ہے۔"

"میں لائسنس وغیرہ کی پروا نہیں کرتا۔۔۔ یہ دیکھو میں جھوٹ نہیں کہہ رہا۔"

احمق نے جیب سے ریوالور نکال کر روشی کی طرف بڑھا دیا۔ اور روشی بے تحاشہ ہنسنے لگی۔

ریوالور کی چرخی میں پٹاخوں کی ریل چڑھی ہوئی تھی اور وہ ساڑھے چار روپے والا ٹوائے ریوالور تھا۔

"طوطے!" اس نے سنجیدگی سے کہا۔ "میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تم آدمیوں کے کس ریوڑ سے تعلق رکھتے ہو!"

"دیکھو! تم بہت بڑھتی جا رہی ہو۔" احمق غصےمیں بولا۔ "ابھی تم مجھے طوطا کہتی رہی ہو لیکن میں کچھ نہں بولا تھا۔۔۔ لیکن اب جانور کہہ رہی ہو!"

"نہیں میں نے جانور تو نہیں کہا۔"

"پھر ریوڑ کا کیا مطلب ہوتا ہے! بھینس میرے ڈیڈی کی کمزوری ہے! میری نہیں۔"

"پھر بھی تم طوطے سے مشابہت رکھتے ہو!" روشی نے چھیڑنے والے انداز میں کہا۔

"ہرگز نہیں رکھتا۔۔۔ تم جھوٹی ہو۔۔۔ تم اسے ثابت نہیں کرسکتیں کہ میں طوطے سے مشابہت رکھتا ہوں۔"

"پھر بھی ثابت کردوں گی! یہ بتاؤ کہ تم۔۔۔!"

لیکن جملہ پورا ہونے سے قبل ہی اس کی آواز ایک بے ساختہ قسم کی چیخ میں تبدیل ہوگئی!

برابر سے گزرتی ہوئی ایک کار سے فائر ہوا تھا۔

"روکو۔۔۔ ڈرائیور۔۔۔ روکو۔" احمق چیخا۔

کار ایک جھٹکے کے ساتھ رک گئی۔ ڈرائیور پہلے ہی خوف زدہ ہو گیا تھا۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

دوسری کار فراٹے بھرتی ہوئی اندھیرے میں گم ہوگئی۔ اس کی عقبی سرخ روشنی بھی غائب تھی! احمق روشی پر جھکا ہوا تھا۔

"عورت۔۔۔ اے عورت۔۔۔ ار۔۔۔ لل۔۔۔ لڑکی!" وہ اسے جھنجھوڑ رہا تھا۔

روشی کی آنکھیں کھلی تھیں اور وہ اس طرح ہانپ رہی تھی۔ جیسے گھونسلے سے گرا ہوا چڑیا کا بچہ ہانپتا ہے!

عمران کے جھنجھوڑنے پر بھی اس کے منہ سے آواز نہ نکلی۔

"ارے کچھ بولو بھی۔۔۔ کیا گولی لگی ہے۔"

روشی نے نفی میں سر ہلادیا۔

یہ حقیقت تھی کہ وہ صرف سہم گئی تھی! اس نے قریب سے گزرتی ہوئی کار کی کھڑکی میں شعلے کی لپک دیکھی تھی۔۔۔ اور پھر فائر کی آواز۔۔۔ ورنہ گولی تو شاید ٹیکسی کی چھت پر پھسلتی ہوئی دوسری طرف نکل گئی تھی۔

"یہ کیا تھا صاحب!" ڈرائیور نے سہمی ہوئی آواز میں پوچھا۔

"پٹاخہ۔۔۔!" احمق سرہلا کر بولا۔ "میرے ایک شریر دوست نے مذاق کیا ہے!۔۔۔ چلو آگے بڑھاؤ! ہاں۔۔۔ لیکن اندر کی روشنی بجھا دو۔ ورنہ وہ پھر مذاق کرے گا۔"

پھر وہ روشی کا شانہ تھپکتا ہوا بولا۔ "گھر کا پتہ بتاؤ۔۔۔ تاکہ تمہیں وہاں پہنچا دوں!"

روشی سنبھل کر بیٹھ گئی! اس کی سانسیں ابھی تک چڑھی ہوئی تھیں!

"کیا یہ وہی ہو سکتا ہے!" احمق نے آہستہ سے پوچھا۔

"پتہ نہیں۔" روشی ہانپتی ہوئی بولی۔

"تو اب یہ مستقل طور پر پیچھے پڑ گیا!" احمق نے بڑے بھولپن سے پوچھا۔

"اوہ۔۔۔ طوطے! اب میری زندگی بھی خطرے میں ہے!"

"ارے۔۔۔ تمہاری کیوں؟"

"وہ پاگل ہے جس کے بھی پیچھے پڑ جائے ہرحال میں مار ڈالتا ہے! اسیے کیس بھی ہو چکے ہیں کہ بعض لوگ اس کے پہلے حملے سے بچ جانے کے بعد دوسرے حملے میں مارے گئے ہیں!"

"آخر وہ ہے کون؟ اور کیا چاہتا ہے؟ روپے تو وہ چھین چکا! پھر اب کیا چاہئے؟"

"میں نہیں جانتی کہ وہ کون ہے کہ اور کیا کیا چاہتا ہے۔ بہرحال یہ سب کچھ تمہاری حماقتوں کی وجہ سے ہوا!"

"یعنی تم چاہتی ہو کہ میں چپ چاپ مر جاتا!" احمق نے بڑی سادگی سے سوال کیا۔

"نہیں طوطے! تمہیں اس طرح اپنی امارت کا اظہار نہیں کرنا چاہئے تھا!"

"مجھے کیا معلوم تھا کہ یہاں کے لوگ پچاس ہزار جیسی حقیر رقم پر بھی نظر رکھ سکتے ہیں!"

"تم اسے حقیر رقم کہتے ہو۔" روشی نے حیرت سے کہا۔ "ارے میں نے اپنی ساری زندگی میں اتنی رقم یکمشت نہیں دیکھی۔۔۔ طوطے! تم آدمی ہو یا ٹکسال۔۔۔"

"چھوڑو اس تذکرے کو! تم کہہ رہی تھیں کہ تم خود کو خطرے میں محسوس کر رہی ہو!"

"ہاں یہ حقیقت ہے!"

"کہو تو میں یہ رات تمہارے ساتھ ہی گذاروں!"

"اوہ طوطے ضرور۔۔۔ ضرور۔۔۔ ایک بات میں نے ضرور مارک کی ہے! تم بالکل طوطے ہونے کے باوجود بھی لاپرواہ اور نڈر ہو! لیکن تمہارا یہ ریوالور ابھی تک میری سمجھ میں نہیں آسکا۔"

"اچھا تو پھر۔۔۔ میں تمہارے ساتھ ہی چل رہا ہوں! لیکن کیا تمہارے گھر پر کچھ کھانے کو مل سکے گا!"
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

"دیکھو یہ رہا میرا چھوٹا سا فلیٹ!" روشی نے کہا۔

وہ دونوں فلیٹ میں داخل ہو چکے تھے اور احمق اتنے اطمینان سے ایک ایک صوفے میں گر گیا تھا جیسے وہ ہمیشہ سے یہیں رہتا آیا ہو!

"یہ مجھے اس صورت میں اور زیادہ اچھا معلوم ہوگا اگر کھانے کو کچھ مل جائے!" احمق نے سنجیدگی سے کہا۔

"اس کے لئے تمہیں میرا ہاتھ بٹانا پڑے گا! میں یہاں تنہا رہتی ہوں!"

تقریبا ایک گھنٹے بعد وہ کھانے کی میز پر تھے اور احمق بڑھ بڑھ کر ہاتھ مار رہا تھا۔

"اب مزا آرہا ہے!" وہ منہ چلاتا ہوا بولا۔ "اس ہوٹل کے کھانے بڑے واہیات ہوتے ہیں!"

"طوطے۔۔۔ کیا تم حقیقتا ایسے ہی ہو جیسے نظر آتے ہو۔" وہ اسے غور سے دیکھنے لگی!

"میں نہیں سمجھا!"

"کچھ نہیں۔ میں نے ابھی تک تمہارا نام تو پوچھا ہی نہیں! "

"تو اب پوچھ لو۔۔۔ لیکن مجھے اپنا نام قطعی پسند نہیں!"

"کیا نام ہے!"

"عمران۔۔۔ علی عمران!"

"کیا کرتے ہو!"

"خرچ کرتا ہوں! جب پیسے نہیں ہوتے تو صبر کرتا ہوں!"

"پیسے کہاں سے آتے ہیں۔"

"آہ۔۔۔"عمران ٹھنڈی سانس لے کر بولا۔ "یہ بڑا بیڈھب سوال ہے اگر کسی انٹرویو مین پوچھ لیا جائے تو مجھے نوکری سے مایوس ہونا پڑے۔ میں بچپن سے یہی سوچتا آیا ہوں کہ پیسے کہاں سے آتے ہیں! لیکن افسوس آج تک اس کا جواب پیدا نہیں کر سکا! بچپن میں سوچا کرتا تھا شائد کلدار روپے بسکٹ سے نکلتے ہیں۔"

"بہرحال تم اپنے متعلق مجھے کچھ بتانا نہیں چاہتے!"

"اپنے متعلق میں نے سب کچھ بتا دیا ہے! لیکن تم زیادہ تر ایسی باتیں پوچھ رہی ہو جن کا تعلق مجھ سے نہیں بلکہ میرے ڈیڈی سے ہے!"

"میں سمجھی! یعنی تم خود کوئی کام نہیں کرتے!"

"اف فوہ۔۔۔! ٹھیک۔۔۔ بالکل ٹھیک!۔۔۔ بعض اوقات میرا دماغ غیر حاضر ہوتا ہے۔۔۔ غالبا مجھے تمہارے سوال کا یہی جواب دینا چاہئے تھا!۔۔۔ اچھا تمہارا کیا نام ہے!"

"روشی!"

"واقعی! تم صورت ہی سے روشی معلوم ہوتی ہو!"

"کیا مطلب؟"

"پھر وہی مشکل سوال! جو کچھ میری زبان سے نکلتا ہے اسے میں سمجھا نہیں سکتا! بس یونہی پتہ نہیں کیا بات ہے! غالبا مجھے یہ کہنا چاہئے تھا کہ تمہارا نام بھی تمہاری ہی طرح۔۔۔ ہے۔۔۔ اچھا بتاؤ کیا کہیں
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

گے بڑی مشکل ہے! ابھی وہ لفظ ذہن میں تھا۔۔ غائب ہو گیا۔۔۔!"

عمران بے بسی سے اپنی پیشانی رگڑنے لگا۔

روشی اسے عجیب نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اسے کیا سمجھے! نیم دیوانہ یا کوئی بہت بڑا مکار۔۔۔ مگر مکار سمجھنے کے لئے کوئی معقول دلیل اس کے ذہن میں نہیں تھی۔ اگر وہ مکار ہوتا تو اتنی بڑی رقم اس طرح کیسے گنوا بیٹھتا!

"اب آہستہ آہستہ ساری باتیں میری سمجھ میں آرہی ہیں!" عمران ٹھنڈی سانس لے کر بولا! "وہ لڑکی جو ویٹنگ روم میں ملی تھی اس بدمعاش کی ایجنٹ رہی ہوگی!۔۔۔ ہاں۔۔۔ اور کیا ورنہ وہ مجھے اس ہوٹل میں کیوں بلاتی۔۔۔ مگر جوشی۔۔۔ آر۔۔۔ کیا نام ہے تمہارا۔۔۔ اوہ۔۔۔ روشی۔۔۔ روشی! وہ لڑکی مجھے اچھی لگتی تھی۔۔۔ اور اب نہ جانے کیوں تم اچھی لگنے لگی ہو! مجھے بڑا افسوس ہے کہ میں نے تمہارے کہنے پر عمل نہ کیا۔۔۔ کیا اب تم میری مدد نہ کرو گی!"

روشی بڑے دلآویز انداز میں مسکرا رہی تھی۔

"میں کس طرح مدد کرسکتی ہوں؟" اس نے پوچھا۔

"دیکھو روشی۔۔۔ روشی۔۔۔ واقعی یہ نام بہت اچھا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے زبان کی نوک مصری کی ڈلی سے جا لگی ہو۔۔۔ روشی۔۔۔ واہ۔۔۔ وا۔۔۔ ہاں تو روشی میں اپنی کھوئی ہوئی رقم واپس لینا چاہتا ہوں!"

"ناممکن ہے۔ تم بالکل بچوں کی سی باتیں کررہے ہو! تم نے وہ رقم بینک میں کیوں نہیں رکھوائی تھی کہ واپس مل جائے گی۔"

"کوشش کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا!۔۔۔ آہا۔۔۔ آہا۔۔۔ کیا تم نے نیپولین کی زندگی کے حالات نہیں پڑھے!"
"میرے طوطے!" روشی ہنس کر بولی۔ "تم اتنی جلدی پالنے سے باہر کیوں آگئے!"

"میں مذاق کے موڈ میں نہیں ہوں!" عمران کسی ضدی بچے کی طرح جھلا کر بولا۔

روشی کی ہنسی تیز ہو گئی! وہ بالکل اس طرح ہنس رہی تھی جیسے کسی نا سمجھ بچے کو چڑا رہی ہو!

"اچھا تو میں جا رہا ہوں!" عمران بگڑ کر اٹھتا ہوا بولا۔

"ٹھہرو! ٹھہرو!" وہ یک بیک سنجیدہ ہوگئی۔ "چلو بتاؤ۔ کیا کہہ رہے تھے!"

"نہیں بتاتا!" عمران بیٹھتا ہوا بولا۔ "میں کسی سے مشورہ لئے بغیر ہی نپٹ لوں گا!"

"نہیں مجھے بتاؤ کہ تم کیا کرنا چاہتے ہو!"

"کتنی بار حلق پھاڑوں کہ میں اس سے اپنے روپے وصول کرنا چاہتا ہوں!"

"خام خیالی ہے بچپنا!" روشی کچھ سوچتی ہوئی بولی۔ "اس علاقے میں پولیس کی بھی دال نہیں گلی! آخر تھک ہا رکر اسے وہاں خطرے کا بورڈ لگانا پڑا۔"

"کیا ہوٹل والےبھی اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔" عمران نے پوچھا۔

"میں وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتی!"

"پولیس نے انہیں بھی ٹٹولا ہوگا۔"

"کیوں نہیں! عرصے تک اس ہوٹل میں پولیس کا ایک دستہ دن اور رات متعین رہاہے لیکن اس کے باوجود بھی وہ خطرناک آدمی کام کر ہی گذرتا تھا۔"

"روشی روشی! تم مجھے باز نہیں رکھ سکتیں!" عمران ڈائیلاگ بولنے لگا! "میں اس کا قلع قمع کئے بغیر یہاں سے واپس نہ جاؤں گا۔"
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

"بکواس مت کرو!" روشی جھنجھلا گئی۔ پھر اس نے کہا۔ "جاؤ اس کمرے میں سو جاؤ۔ بستر صرف ایک ہے۔ میں یہاں صوفے پر سو جاؤں گی۔"

"نہیں۔۔۔ تم اپنے بستر پر جاؤ۔۔۔ میں یہاں صوفے پر سو جاؤں گا۔" عمران نے کہا۔

اس پر دونوں میں بحث ہونے لگی۔ آخر کچھ دیر بعد عمران ہی کو خواب گاہ میں جانا پڑا اور روشی اسی کمرے کے ایک صوفے پر لیٹ گئی۔

ہلکی سردیوں کا زمانہ تھا! اس لئے اس نے ایک ہلکا کمبل اپنے پیروں پر ڈال لیا تھا! وہ اب بھی عمران ہی کے متعلق سوچ رہی تھی۔ لیکن اس خطرناک اور گمنام آدمی کا خوف اب بھی اس کے ذہن پر مسلط تھا۔

وہ آدمی کون تھا!اس کا جواب شاداب نگر کی پولیس کے پاس نہیں تھا۔ اس نے اب تک درجنوں وارداتیں کی تھیں۔ لیکن پولیس اس تک پہنچنے میں ناکام رہی تھی! او رپھر سب سے عجیب بات تو یہ کہ ایک مخصوص علاقہ ہی اس کی چیرہ دستیوں کا شکار تھا! شہر کے دوسرے حصوں کی طرف وہ شاذ و نادر ہی رخ کرتا تھا!

روشی اسی کے متعلق سوچتی اور اونگھتی رہی! اسے خوف تھا کہ کہیں وہ ادھر ہی کا رخ نہ کرے۔ اس لئے اس نے روشنی بھی گل نہیں کی تھی اس کے ذہن پر جب بھی غنودگی طاری ہوتی اسے ایسا محسوس ہوتا جیسے اس کے کان کے پاس کسی نے گولی چلائی ہو۔ وہ چونک کر آنکھیں کھول دیتی!

دیوار کے ساتھ لگی ہوئی کلاک دو بجا رہی تھی اچانک وہ بوکھلا کر اٹھ بیٹھی! نہ جانے کیوں اسے محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ خطرے میں ہو۔

وہ چند لمحے خوفزدہ نظروں سے ادھر ادھر دیکھتی رہی پھر صوفے سے اٹھ کر پنجوں کے بل چلتی ہوئی اس کمرے کے دروازے تک آئی جہاں وہ احمق نوجوان سو رہا تھا۔

اس نے دروازہ پر ہاتھ رکھ کر ہلکا سا دھکا دیا۔ دروازہ کھل گیا لیکن ساتھ ہی اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ بستر خالی پڑا تھا اور کمرے کا بلب روشن تھا اس کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں اور حلق خشک ہونے لگا۔

اچانک ایک خیال بڑی تیزی سے اس کے ذہن میں چکرا کر رہ گیا۔ کہیں یہ بیوقوف نوجوان اسی خوفناک آدمی کاکوئی گرگا نہ رہا ہو!۔

وہ بے تحاشہ پلنگ کے سرہانے رکھی ہوئی تجوری کی طرف لپکی اس کا ہینڈل پکڑ کر کھینچا۔ تجوری مقفل تھی! لیکن وہ سوچنے لگی۔۔۔ تجوری کی کنجی تو تکیے کے نیچے ہی رہتی ہے۔۔۔ ایک بار پھر اس کی سانسیں تیز ہو گئیں! اس نے تکیہ الٹ دیا۔ تجوری کی کنجی جوں کی توں اپنی جگہ پر رکھی ہوئی ملی۔ لیکن روشی کو اطمینان نہ ہوا! وہ تجوری کھولنے لگی۔۔۔ مگر پھر آہستہ آہستہ اس کا ذہنی انتشار کم ہوتا گیا! اس کی ساری قیمتی چیزیں اور نقد رقم محفوظ تھی۔

پھر آخر وہ گیا کہاں؟ تجوری بند کرکے وہ سیدھی کھڑی ہوگئی! پچھلا دروازہ کھول کر باہر نکلی اور تب اسے احساس ہوا کہ وہ اسی دروازے سے نکل گیا ہوگا! دروازہ مقفل نہیں تھا۔ ہینڈل گھماتے ہی کھل گیا تھا! دوسرے طرف کی راہداری تاریک پڑی تھی! وہ باہر نکلنے کی ہمت نہ کرسکی! اس نے دروازہ بند کر کے اندر سے مقفل کر دیا۔

وہ پھر اسی کمرے میں آگئی جہاں صوفے پر سوئی تھی۔۔۔ آخر وہ احمق اس طرح کیوں چلا گیا۔ وہ سوچتی رہی! آخر اس طرح بھاگنے کی کیا ضرورت تھی؟ وہ اسے زبردستی تو لائی نہیں تھی۔ وہ خود ہی آیا تھا! لیکن کیوں آیا تھا؟۔۔۔ اس کا مقصد کیا تھا؟

اچانک اسے محسوس ہواجیسے کسی نے بیرونی دروازہ پر ہاتھ مارا ہو۔ وہ چونک کر مڑی مگر اتنی دیر میں شیشے کے ٹکڑے جھنجھناتے ہوئے فرش پر گر چکے تھے۔

پھر ٹوٹے ہوئے شیشے کی جگہ سے ایک ہاتھ داخل ہو کر چٹخنی تلاش کرنے لگا بڑا سا بھلا ہاتھ! جو بالوں سے ڈھکا ہوا تھا! روشی کے حلق سے ایک دبی دبی چیخ نکلی۔ لیکن دوسرے ہی لمحے وہ ہاتھ غائب ہو گیا اور روشی کو ایسا محسوس ہوا جیسے باہ راہداری میں دو آدمی ایک دوسرے سے ہاتھا پائی پر اتر آئے ہوں۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

روشی بیٹھی ہانپتی رہی! پھر اس نے ایک کریہہ سی آواز سنی اور ساتھ ہی ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی بہت وزنی چیز زمین پر گری ہو۔

پھر بھاگتے ہوئے قدموں کی آوازیں۔

اور اب بالکل سناٹا تھا! قریب یا دور کہیں سے کسی قسم کی آواز نہیں آرہی تھی البتہ خود روشی کے ذہن میں ایک نہ مٹنے والی "جھائیں جھائیں" گونج رہی تھی حلق خشک تھا اور آنکھوں میں جلن سی ہونے لگی تھی۔

وہ بے حس و حرتک سمٹی سمٹائی صوفے پر بیٹھی رہی! اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے۔ تھوڑی دیر بعد اچانک پھر کسی نے دروازہ تھپتھپایا اور ایک بار پھر اسے اپنی روح جسم سے پرواز کرتی ہوئی محسوس ہوئی۔

"میں ہوں! دروازہ کھولو۔۔۔" باہر سے آواز آئی لیکن روشی اپنے کانوں پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھی۔۔۔ آواز اسی نوجوان احمق کی معلوم ہوئی تھی۔

"پھوسی۔۔۔ پھوسی۔۔۔ آرر۔۔۔ روشی دروازہ کھولو!۔۔۔ میں ہوں، عمران!"

روشی اٹھ کر دروازے پر جھپٹی دوسرے ہی لمحے عمران اس کے سامنے کھڑا برے برے سے منہ بنا رہا تھا۔ اس کے چہرے پر کئی جگہ ہلکی ہلکی سی خراشیں تھیں اور ہونٹوں پر خون پھیلا ہوا تھا۔ روشی نے مضطربانہ انداز میں اسے اندر کھینچ کر دروازہ بند کردیا۔

" یہ کیا ہوا۔۔۔ تم کہاں تھے۔"

"تین پیکٹ میں نے وصول کر لئے دو ابھی باقی ہیں! پھر سہی!" عمران نوٹوں کے تین بنڈل فرش پر پھینکتا ہوا بولا۔

"کیا وہی تھا" روشی نے خوفزدہ آواز میں پوچھا۔

"وہی تھا۔۔۔ نکل گیا۔۔۔ دو پیکٹ ابھی باقی ہیں!"

"تم زخمی ہو گئے ہو! چلو باتھ روم میں۔۔۔" روشی اس کا ہاتھ پکڑ کر غسل خانے کی طرف کھینچی ہوئی بولی۔

کچھ دیر بعد وہ پھر صوفے پر بیٹھے ایک دوسرے کو گھور رہے تھے!

"تم باہر کیوں چلے گئے!" روشی نے پوچھا!

"میں تمہاری حفاظت کے لئے آیا تھا نا۔۔۔ میں جانتا ھتا کہ وہ ضرور آئے گا! وہ آدمی جو بیچ سڑک پر فائر کر سکتا ہے اسے مکانوں کے اندر گھسنے میں کب تامل ہوگا!"

"کیا تم واقعی بیوقوف ہو؟" روشی نے حیرت سے پوچھا۔

"پتہ نہیں! میں تو خود کو افلاطون کا دادا سمجھتا ہوں مگر دوسرے کہتے ہیں کہ میں بیوقوف ہوں۔ کہنے دو! اپنا کیا بگڑتا ہے! اگر میں عقلمند ہوں تو اپنے لئے احمق ہوں تو اپنے لئے۔"

"تو اب وہ نامعلوم آدمی میرا بھی دشمن ہو گیا!" روشی خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر بولی!

"ضرور ہو جائے گا! تم نے کیوں میری جان بچانے کی کوشش کی تھی؟"

"اوہ۔۔ مگر۔۔۔ میں کیا کروں؟ کیا تم ہر وقت میری حفاظت کرتے رہو گے؟"
"
دن کو وہ ادھر کا رخ ہی نہیں کرے گا! رات کی ذمہ داری میں لیتا ہوں۔"

"مگر کب تک۔۔۔"

"جب تک میں اسے جان سے نہ مار دوں۔" عمران بولا۔

"مگر کب تک۔۔۔"

"جب تک میں اسے جان سے نہ مار دوں۔" عمران بولا۔

"تم۔۔۔ تم آخر ہو کیا بلا!"

"میں بلا ہوں!" عمران برا مان گیا۔
"
اوہ۔۔۔ ڈیئر۔۔۔ تم سمجھے نہیں!"

"ڈیئر۔۔۔ یعنی کہ تم مجھے ڈیئر کہہ رہی ہو!" عمران مسرت آمیز لہجے میں چیخا۔

"ہاں کیوں کیا حرج ہے!کیا ہم گہرے دوست نہیں ہیں۔" روشی مسکرا کر بولی۔

"مجھے آج تک کسی عورت نے ڈیئر نہیں کہا!" عمران مغموم آواز میں بولا۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

شاداب نگر کے محکمہ سراغ رسانی کے دفتر میں سب انسپکٹر جاوید کی خاصی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ ایک ذہین اور نوجوان آفیسر تھا! تعلق تو اس کا محکمہ سراغ رسانی سے تھا لیکن اس کے لئے بے تکلف دوست عموما اسے تھانیدار کہا کرتے تھے! وجہ یہ تھی کہ ذہن کے ساتھ ہی ساتھ ڈنڈے کے استعمال کو بڑی اہمیت دیتا تھا۔ اس کا قول تھا کہ آج تک ڈنڈے سے زیادہ خوفناک سراغرساں اور کوئی پیدا ہی نہیں ہوا۔

اکثر وہ شبے کی بنیاد پر ملزموں کی ایسی مرمت کرتا کہ انہیں چھٹی کا دودہ یاد آجاتا۔

وہ کافی لحیم شحیم آدمی تھا۔ بہتیرے تو اس کی شکل ہی دیکھ کر اقرار جرم کر لیتے! مگر وہ شاداب نگر کے اس مجرم کی جھلک بھی نہ دیکھ سکا تھا جس نے بندرگاہ کے علاقہ میں بسنے والوں کی نیند حرام کر رکھی تھی۔

اس وقت سب انسپکٹر جاوید اپنے محکمے کے سپرنٹنڈنٹ کے آفس میں بیٹھا تھا غالبا اس بات کا منتظر تھا کہ سپرنٹنڈنٹ اپنا کام ختم کرکے اس کی طرف متوجہ ہو!

سپرنٹنڈنٹ سرجھکائے کچھ لکھ رہا تھا! تھوڑی دیر بعد قلم رکھ کر اس نے ایک طویل انگڑائی لی اور جاوید کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگا۔

"بھئی میں نے تمہیں اس لئے بلایا ہے کہ تمہیں عمران صاحب کو اسسٹ کرنا ہوگا! اس سے بڑی بے بسی اور کیا ہوگی کہ ہمیں سینٹرل والوں سے مدد طلب کرنی پڑی ہے۔"

"عمران صاحب!" جاوید نے حیرت سے کہا۔"وہی لی یوکا والے کیس کے شہرت یافتہ!"

"وہی۔۔۔ وہی!" سپرنٹنڈنٹ سرہلا کر بولا۔ "وہ حضرت یہاں پرسوں تشریف لائے ہیں اور ابھی تک اس کی شکل نہیں دکھائی دی۔ یہ سینٹرل والے بہت چالاک ہوتے ہیں! اس کا خیال رہے کہ ڈیپارٹمنٹ کی بدنامی نہ کرانا۔ یہاں تمہارے علاوہ اور کسی پر میری نظر نہیں پڑی!"

"آپ مطمئن رہیں! میں حتی الامکان کوشش کروں گا۔"

"خود سے کسی معاملے میں پیش پیش نہ رہنا۔ جو کچھ وہ کہی کرنا!"

"ایسا ہی ہوگا!"

فون کی گھنٹی بجی اور سپرنٹنڈنٹ نے ریسیور اٹھا لیا۔

"ہیلو۔۔۔! اوہ آپ ہیں۔۔۔ جی۔۔۔ جی۔۔۔ اچھا ٹھہریئے! ایک سیکنڈ!"

سپرنٹنڈنٹ نے پنسل اٹھا کر اپنی ڈائری میں کچھ لکھنا شروع کردیا۔ ریسیور بدستور اس کے کان سے لگا رہا۔

کچھ دیر بعد اس نے کہا۔ "تو آپ مل کب رہے ہیں۔۔۔ جی۔۔۔ اچھا اچھا! بہت بہتر!" اس نے ریسیور رکھ دیا اور کرسی کی پشت گاہ سے ٹیک لگا کرکچھ سوچنے لگا۔

"دیکھو جاوید" وہ تھوڑی دیر بعد بولا۔ "عمران صاحب کا فون تھا! انہوں نے کچھ جعلی نوٹوں کے نمبر لکھوائے ہیں اور کہا ہے کہ ان نمبروں پر کڑی نظر رکھی جائے جس کے پاس بھی ان نمبروں کا کوئی نوٹ نظر آئے اسے بیدریغ گرفتار کر لیا جائے۔ ان نمبروں کو لکھ لو۔ مگر اس کا مطلب کیا ہے، یہ میں بھی نہی جانتا!"

"وہ یہاں کب آئیں گے!" جاوید نے پوچھا۔

"ایک بج کر ڈیڑھ منٹ پر۔ بھئی سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کس قسم کا آدمی ہے۔ ویسے کہا جاتا ہے کہ آفیسر آن سپیشل ڈیوٹیز ہے اور اس نے اپنا سیکشن بالکل الگ بنایاہے جو براہ راست ڈائریکٹر جنرل سے تعلق رکھتا ہے!"

" میں نے سنا ہے کہ ڈائریکٹر جنرل صاحب ان کے والد ہیں۔"

"ٹھیک سنا ہے۔۔۔ مگر یہ کیا لغویت ہے۔۔۔ ایک بج کر ڈیڑھ منٹ!"
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

عمران ریلوے اسٹیشن پر ٹہل رہا تھا! اسے اپنے ماتحت ہدہد کی آمد کا انتظار تھا! ہدہد جو ہکلا کر بولتا تھا اور دوران گفتگو بڑے بڑے الفاظ ادا کرنے کا شائق تھا۔

ٹرین آئی۔۔۔ اور نکل بھی گئی۔۔۔ لیکن ہد ہد کا کہیں پتہ نہ تھا۔ عمران گیٹ کے پاس آکر کھڑا ہو گیا۔ بھیڑ زیادہ تھی۔ اس لئے ہدہد کافی دیر بعد دستیاب ہو سکا۔

"ادھر آؤ!" عمران اس کا ہاتھ پکڑ کر ویٹنگ روم کی طرف کھینچتا ہوا بولا۔

ہدہد اس کے ساتھ گھسٹتا ہوا چلا جا رہا تھا۔۔۔ ویٹنگ روم میں پہنچ کر اس نے کہا۔

"مم۔۔۔ میرے۔۔۔۔ اوسان۔۔۔ بج۔۔۔ بجا نہیں تھے! لل لہٰذا اب آداب بجا لاتا ہوں۔"

اس نے نہایت ادب سے جھک کر عمران کو فرشی سلام کیا۔

"جیتے رہو!" عمران اس کے سر پر ہاتھ پھیرتا ہوا بولا۔ "کیا تم اس شہر سے واقفیت رکھتے ہو۔"

"جی ہاں یہ۔۔۔ مم۔۔۔ میرے برادر نسبتی کا وطن مالوف ہے!"

"میرے پاس وقت کم ہے! ورنہ تم سے برادر نسبتی اور وطن مالوف کے معن پوچھتا! خیر تم یہاں مچھلیوں کا شکار کھیلنے کے لئے آئے ہو!"

"جی۔۔۔!" ہد ہد حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر بولا۔ "اس بات کا۔۔۔ مم۔۔۔مطلب۔۔۔ مم۔۔۔ میرے ذہن نشین نن۔۔۔ نہیں ہوا!"

"تم یہاں بندرگاہ کے علاقے میں مچھلیوں کا شکار کھیلو گے۔۔۔ قیام اے بی سی ہوٹل میں ہوگا! بازار سے مچھلیوں کے شکار کا سامان خریدو اور چپ چاپ وہیں چلے جاؤ!۔۔۔ جاؤ اور شکار کھیلو!"

"معاف کیجئے گا یہ مم میرے لئے ناممکن ہے!"

"ناممکن کیوں ہے؟" عمران اسے گھورنے لگا۔

"والد مرحوم کی وصیت۔۔۔ فف۔۔۔۔ فرماتے تھے۔۔۔ شکار ماہی کار بیکاران است۔۔۔"

"مطلب کیا ہوا! مجھے عربی نہیں آتی ۔"

"فف۔۔۔ فارسی ہے جناب! اس کا مطلب یہ ہو اکہ مچھلی کا شکار کھیلنا بیکار آدمیوں کا کام ہے۔"

"اچھی بات میں تمھیں اسی وقت ملازمت سے برطرف کئے دیتا ہوں تاکہ تم اطمینان سے مچھلی کا شکار کھیل سکو۔"

"اوہ۔۔۔ آپ کو۔۔۔ کک۔۔۔ کس طرح سمجھاؤں!" ہدہد نے کہا۔ پھر سمجھانے کے سلسلے میں کافی دیر تک ہکلاتا رہا! عمران بھی جلدی میں نہیں تھا۔ورنہ وہ اس طرح وقت نہ برباد کرتا۔

"چلو اب جاؤ۔" وہ اسے دروازے کی طرف دھکیلتا ہوا بولا۔ "یہ سرکاری کام ہے! اور کام ضرورت پڑنے پر بتایا جائے گا بھولنا نہیں۔۔۔ بندرگاہ کے علاقے میں اے، بی، سی ہوٹل ہے۔۔۔ تمہیں وہیں قیام کرنا ہوگا۔ شکار کا گھاٹ وہاں سے دور نہیں ہے! لیکن خبردار۔۔۔ شام کو سات بجے کے بعد ادھر ہرگز نہ جانا۔"

ہدہد تھوڑی دیر تک کھڑا سوچتا رہا پھر بولا۔ "اچھا جناب! میں جا رہا ہوں! لل۔۔۔ لیکن۔۔۔ میں نہیں جانتا کہ مچھلیوں کے شکار۔۔۔ کک۔۔۔ کے لئے مجے کیا۔۔۔ خخ۔۔۔ خریدنا پڑے گا!"

عمران اسے سامان کی تفصیل بتاتا رہا۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

عمران ٹھیک ایک بجکر ڈیڑھ منٹ پر سپرنٹنڈنٹ کے آفس میں داخل ہوا اور سپرنٹنڈنٹ اپنے سامنے ایک نوعمر آدمی کو کھڑا دیکھ کر پلکیں جھپکانے لگا۔

"تشریف رکھیئے۔ تشریف رکھیئے!" اس نے تھوڑی دیر بعد کہا۔

"شکریہ!" عمران بیٹھتا ہوا بولا۔ اس وقت اس کے چہرے پر حماقتیں نہیں برس رہی تھی وہ ایکا چھی اور جاذب نظر شخصیت کا مالک معلوم ہو رہا تھا۔

"بہت انتظار کرایا آپ نے" سپرنٹنڈنٹ نے اس کی طرف سیگرٹ کا ڈبہ بڑھاتے ہوئے کہا۔

"شکریہ! میں سیگرٹ کا عادی نہیں ہوں!" عمران نے کہا۔ "دیر سے ملاقات کی وجہ یہ ہے کہ میں مشغول تھا! اب تک اپنے طور پر حالات کا جائزہ لیتا رہا ہوں۔"

"میں پہلے ہی جانتا تھا۔" سپرنٹنڈنٹ ہنسنے لگا۔

"نوٹوں کے متعلق کچھ معلوم ہوا۔"

"ابھی تک تو کوئی رپورٹ نہیں ملی! لیکن۔۔۔!"

"نوٹوں کے متعلق پوچھنا چاہتے ہیں آپ!" عمران مسکرا کر بولا۔

"ہاں! میں اپنی معلومات کے لئے جاننا چاہتا ہوں۔"

"اس آدمی کے پاس جعلی نوٹوں کے دو پیکٹ ہیں اور یہ میرے ہی ذریعے سے اس کے پاس پہنچے ہیں۔"

"آپ کے ذریعہ سے!" سپرنٹنڈنٹ کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔

"جی ہاں! میں دیدہ دانستہ کل رات کو اس خطرناک علاقے میں گیا تھا اور میری جیبوں میں جعلی نوٹوں کے پیکٹ تھے۔"

"ارے تو کیا آج کے اخبار میں آپ ہی کے متعلق خبر تھی!"

"غالبا"

"لیکن یہ ایک خطرناک اقدام تھا۔"

"ہاں۔ بعض اوقات اس کے بغیر کام بھی تو نہیں چلتا۔۔۔ مگر اس سے ٹکرانے کے بعد اب میں نے اپنا خیال بدل دیا ہے۔ جعلی نوٹ بازار میں نہیں آسکیں گے! وہ تو بس یونہی احتیاطا میں نے آپ کو اطلاع دیدی تھی! وہ بہت چالاک ہے اور اس قسم کے حربے اس پر کام نہیں کر سکتے!"

سپرنٹنڈنٹ خاموشی سے عمران کی صورت دیکھ رہا تھا۔

"سوال یہ ہے کہ رات کو وہ علاقہ خطرناک کیوں ہوجاتا ہے۔" عمران بڑبڑایا۔ "ظاہر ہے کہ سرکاری طور پر وہاں سڑک ہی پر خطرے سے ہوشیار کرنے کے لئے بورڈ لگا دیا ہے! اس لئے عام طور پر وہ راستہ ٹریفک کے لئے بند ہو گیا ہے! لیکن اس کے باوجود بھی مجھ جیسے بھولے بھٹکے آدمی پر حملہ کیا گیا!۔۔۔ اس کا یہی مطلب تو یہ ہوا کہ ساری رات وہاں اس آدمی کی حکومت رہتی ہے۔"

"جی ہاں! قطعی یہی بات ہے اور اسی لئے وہاں خطرے کا بورڈ لگایا گیا ہے!"

"لیکن مقصد جناب! آخر اس اجاڑ علاقے میں ہے کیا! اگر یہ کہا جائے کہ وہ اجاڑ علاقہ لٹیروں کا اڈہ ہے تو یہ سوچنا پڑے گا کہ اے بی سی ہوٹل پر کبھی حملہ کیوں نہیں ہوتا۔ وہاں روزانہ ہزاروں روپے کا جوا ہوتا ہے۔"

"شبہ تو ہمیں بھی ہے کہ اے بی سی والوں کا اس سے کوئی نہ کوئی تعلق ضرور ہے! لیکن ہم ابھی تک ان کے خلاف کوئی ثبوت فراہم نہیں کر سکے ہیں۔"
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

عمران کچھ نہ بولا! اس نے جیب سے چیونگم کا پیکٹ نکالا اور اس کا کاغذ پھاڑ کر ایک سپرنٹنڈنٹ کو پیش کیا جو بوکھلاہٹ میں شکریئے کے ساتھ قبول کر لیا گیا۔ لیکن سپرنٹنڈنٹ کے چہرے پر ندامت کی ہلکی سی سرخی دوڑ گئی اور وہ چھینپ کر دوسری طرف دیکھنے لگا۔

اس کے برخلاف عمران بڑے اطمینان سے اسے اپنے دانتوں میں کچل رہا تھا۔

تھوڑی دیر بعد اس نے کہا۔ "اس واقعہ کا تذکرہ آپ ہی تک محدود رہے تو بہتر ہے۔"

"ظاہر ہے!" سپرنٹنڈنٹ بولا۔

اس نے چیونگم کو عمران کی نظر بچا کر میز کی دراز میں ڈال دیا تھا!

"آپ کا قیام کہاں ہے؟" اس نے عمران سے پوچھا۔

"کسی ہوٹل میں ٹھہرا ہوا ہوں۔" عمران نے جواب دیا۔

سپرنٹنڈنٹ نے پھر کچھ اور پوچھنا مناسب نہ سمجھا۔
چند لمحے خاموشی رہی اس کے بعد سپرنٹنڈنٹ بولا۔ "آپ کو اسسٹ کرنے کے لئے میں نے ایک آدمی منتخب کر لیا ہے۔ کہیئے تو ابھی ملا دوں۔"

"نہیں فی الحال ضرورت نہیں۔ آپ مجھے نام اور پتہ لکھوا دیجئے۔ پتہ ایسا ہونا چاہیئے جہاں اس سے ہر وقت رابطہ قائم کیا جاسکے۔ ویسے میری کوشش یہی رہے گی کہ آپ لوگوں کو زیادہ تکلیف نہ دوں۔"

آخری جملہ شاید سپرنٹنڈنٹ کو گراں گذرا تھا! اس کے چہرے پر سرخی پھیل گئی! لیکن وہ کچھ بولا نہیں۔

عمران تھوڑی دیر تک غیر ارادی طور پر ٹانگیں ہلاتا رہا! پھر مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھاتا ہوا بولا۔ "اچھا بہت بہت شکریہ۔"

"اوہ۔۔۔ اچھا! لیکن اگر آج شام کا کھانا آپ میرے ساتھ کھائیں تو کیا حرج ہے؟"

"ضرور کھاؤں گا!" عمران مسکرا کر بولا۔ "مگر آج نہیں! ویسے مجھے آپ کے تعاون کی اشد ضرورت ہوگی۔"

"ہماری طرف سے آپ مطمئن رہیں۔"

"اچھا اب اجازت دیجئے!" عمران کمرے سے باہر نکل گیا۔

اور سپرنٹنڈنٹ بڑی دیر تک خاموش بیٹھا سر ہلاتا رہا!۔۔۔ پھر اس نے میز کی دراز کھول کر عمران کی دی ہوئی چیونگم نکالی اور ادھر ادھر دیکھ کر اسے منہ میں ڈال لیا۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

سات بجے عمران روشی کے فلیٹ میں پہنچا! وہ شاید اسی کا انتظار کر رہی تھی! عمران کو دیکھ کر اس نے برا سا منہ بنایا اور جھلائے ہوئے لہجے میں بولی۔ "اب آئے ہیں، صبح کے گئے ہوئے! میں نے لنچ پر آپ کا انتظار کیا! شام کو کافی دیر تک چائے کے لئے بیٹھی رہی!"

"میں دوسری روڈ کی ایک بلڈنگ پر تمہارا فلیٹ تلاش کر رہا تھا۔!" عمران نے سر کھجاتے ہوئے جواب دیا۔

"دن بھر کہاں رہے!"

"اسی مردود کو تلاش کرتا رہا جس سے ابھی دو پیکٹ وصول کرنے ہیں!"

"اپنی زندگی خطرے میں نہ ڈالو! میں تمہیں کس طرح سمجھاؤں!"

"میرا خیال ہے کہ وہ اے بی سی ہوٹل میں ضرور آتا ہوگا!"

"بکواس نہیں بند کرو گے تم!" روشی اٹھ کر اسے جھنجھوڑتی ہوئی بولی۔ "تم ہوٹل سے اپنا سامان کیوں نہیں لائے؟"

"سامان۔۔۔ دیکھا جائے گا۔۔۔ چلو کہیں ٹہلنے چلتی ہو؟"

"میں نے آج دروازے کے باہر قدم بھی نہیں نکالا۔" روشی نے کہا۔

"کیوں؟"

"خوف معلوم ہوتا ہے!"

عمران ہنسنے لگا پھر اس نے کہا۔ "وہ صرف رات کا شہزادہ معلوم ہوتا ہے دن کا نہیں!"

"کچھ بھی ہو! مگر۔۔۔!" روشی کچھ کہتےکہتے رک گئی۔ اس نے پلٹ کر خوفزدہ نظروں سے دروازہ کی طرف دیکھا اور آہستہ سے بولی۔ "دروازہ مقفل کردو!"

"اوہو! بڑی ڈرپوک ہو تم!" عمران پھر ہنسنے لگا۔

"تم بند توکردو! پھر میں تمہیں ایک خاص بات بتاؤں گی۔"

عمران نے دروازہ بند کرکے چٹخنی چڑھا دی۔

روشی نے اپنے بلاوز کے گریبان میں ہاتھ ڈال کر ایک لفافہ نکالا اور عمران کی طرف بڑھاتی ہوئی بولی۔ "آج تین بجے ایک لڑکا لایا تھا۔ پھر لفافہ چاک کرنے سے قبل ہی وہ بھاگ گیا۔"

عمران نے لفافے سے خط نکال لیا۔ انگریزی کے ٹائپ میں تحریر تھا۔


"روشی
تم مجھے نہ جانتی ہوگی! لیکن میں تم سے اچھی طرح واقف ہوں اگر تم
اپنی خیریت چاہتی ہو تو مجھے اس کے متعلق سب کچھ بتا دو جو پچھلی رات
تمہارے ساتھ تھا وہ کون ہے! کہاں سے آیا ہے؟ کیوں آیا ہے؟ تم یہ
سب کچھ مجھے فون پر بتا سکتی ہو! میرا فون نمبر سکس ناٹ ہے! میں تمہیں
معاف کردوں گا۔
ٹیرر"

"بہت خوب!" عمران سر ہلا کر بولا۔ "فون پر گفتگو کرے گا۔"

"مگر سنو تو! میں نے ساری ٹیلیفون ڈائریکٹری چھان ماری ہے مگر مجھے نمبر کہیں نہیں ملا۔"

"تمہارے پاس ہے ڈائریکٹری!" عمران نے پوچھا۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

"نہیں پڑوس میں ہے اور فون بھی ہے!"

"ذرا لاؤ تو ڈائریکٹری٬" عمران نے کہا۔

"تم بھی ساتھ چلو!"

"اوہ۔۔۔ چلو!"

وہ دونوں دروازہ کھول کر باہر نکلے۔ روشی برابر والے فلیٹ میں چلی گئی اور عمران باہر اس کا انتظار کرتا رہا۔

شاید پانچ منٹ بعد روشی واپس آگئی!

واپسی پر پھر روشی نے بہت احتیاط سے دروازہ بند کیا! ڈائریکٹری میں سکس ناٹ کی تلاش شروع ہوگئی۔ یہ نمبر کہیں نہ ملا۔

"مجھے تو یہ بکواس ہی معلوم ہوتی ہے۔" روشی نے کہا۔ "ہوسکتا ہے کہ یہ خط کسی اور نے مجھے خوفزدہ کرنے کے لئے بھیجا ہو!"

"مگر ان واقعات سے اور کون واقف ہے!"

"کیوں! کل جب تم پر حملہ ہوا تھا تو ہوٹل میں درجنوں آدمی موجود تھے اور ظاہر ہے کہ تم ہی مجھے اپنے کاندھے پر اٹھا کر ہوٹل تک لے گئے تھے!۔۔۔ تم میرے ہی پاس سے اٹھ کر جوئے خانے میں بھی گئے تھے!"

عمران خاموش رہا۔ وہ کچھ سوچ رہا تھا۔ پھر چند لمحے بعد اس نے کہا۔ "ہم اس وقت کا کھانا کسی شاندار ہوٹل میں کھائیں گے۔"

"پھر وہی پاگل پن! نہیں ہم اس وقت کہیں نہیں جائیں گے۔" روشی نے سختی سے کہا۔

"تمہیں چلنا پڑے گا۔" عمران نے کہا۔ "ورنہ مجھے رات بھر نیند نہیں آئے گی۔"

"کیوں نیند نہ آئے گی!"

"کچھ نہیں!" عمران سنجیدگی سے بولا۔ "بس یہی سوچ کر کڑھتا رہوں گا کہ تم میری ہوکون جو میرا کہنا مان لو گی!"

روشی اب اسے غور سے دیکھنے لگی۔

"کیا تمہیں واقعی اس سے دکھ پہنچے گا!" اس نے آہستہ سے کہا۔

"جب میری کوئی خواہش پوری نہیں ہوتی تو میرا دل چاہتا ہے کہ خوب پھوٹ پھوٹ کر روؤں۔" عمران نے بڑی معصومیت سے کہا۔

روشی پھر اسے غور سے دیکھنے لگی! عمران کے چہرے پر حماقت پھیل گئی تھی!

"اچھا میں چلوں گی!" روشی نے آہستہ سے کہا اور عمران کی آنکھیں مسرور بچوں کی طرح چمکنے لگیں۔

تھوڑی دیر بعد روشی تیار ہو کر نکلی اور عمران کو اس طرح دیکھنے لگی جیسے حسن کی داد طلب کر رہی ہو۔

عمران نے برا سا منہ بنا کر کہا۔ "تم سے اچھا میک اپ تو میں کر سکتا ہوں۔"

"تم"

"ہاں کیوں نہیں! اچھا پھر سہی! اب ہمیں باہر چلنا چاہیئے!"

"تم خوامخواہ چڑاتے ہو!" روشی جھنجھلا کر بولی۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

"افسوس کہ تمہیں اردو نہیں آتی ورنہ میں کہتا

ان کو آتا ہے پیار پر غصہ
ہم ہی کر بیٹھے تھے غالب پیشدستی ایک دن!"

"چلو بکواس مت کرو!" وہ عمران کو دروازے کی طرف دھکیلتی ہوئی بولی۔

روشی اس وقت سچ مچ بہت حسین نظر آرہی تھی! عمران نے نیچے اتر کر ایک ٹیکسی کی اور وہ دونوں "وہائٹ ماربل" کے لئے روانہ ہو گئے! یہ یہاں کا سب سے بڑا اور شاندار ہوٹل تھا۔

"روشی کیوں نہ میں اسے فون کروں!" عمران بولا۔

"مگر ڈائریکٹری میں اس کا نمبر کہاں ملا۔ نہیں ڈئیر کسی نے مذاق کیا ہے مجھ سے!"
"میں ایسا نہیں سمجھتا۔"

"تمہاری سمجھ ہی کب اس قابل ہے کہ کچھ سمجھ کو۔ تمہارا نہ سمجھنا ہی اچھا ہے۔"

"میں کہتا ہوں تم سکس ناٹ پر ڈائل کرو۔ اگر جواب نہ ملے تو اپنے کان اکھاڑ لینا۔۔۔ ارے نہیں۔۔۔ میرے کان!"

"مگر میں کہوں گی کیا۔۔۔!"

"سنو راستے میں کسی پبلک بوتھ سے فون کریں گے! تم کہنا کہ وہ ایک پاگل رئیس زادہ ہے! کہیں باہر سے آیا ہے! لیکن آج ایک مشکل میں پھنس گیا تھا۔ رشوت دے کر بڑی دشواریوں سے جان چھڑائی۔ اس کے پاس غلطی سے کچھ جعلی نوٹ آگئے ہیں جنہیں استعمال کرتا ہوا پکڑا گیا تھا۔"

"جعلی نوٹ!" روشی نے گھبرا کر کہا۔

"ہاں روشی یہ درست ہے!" عمران نے دردناک لہجے میں کہا۔ "آج میں بال بال بچا۔ ورنہ جیل میں ہوتا! میرے نوٹوں میں کچھ جعلی نوٹ مل گئے ہیں! میں نہیں جانتا کہ وہ کہاں سے آئے ہیں۔"

"لیکن وہ انہیں پیکٹوں سے تعلق نہ رکھتے ہوں جو تم نے اس سے پچھلی رات چھینے تھے۔"

"پتہ نہیں۔" عمران مایوسانہ انداز میں سرہلا کر بولا "مجھ سے حماقت یہ ہوئی کہ میں نے ان نوٹوں کو دوسرے نوٹوں میں ملا دیا ہے!"

"تم مجھے سچ کیوں نہیں بتاتے کہ تم کون ہو!" روشی بھنا کر بولی۔

"میں نے سب کچھ بتا دیا ہے روشی!"

"یعنی تم واقعی احمق ہو!"

"تم بات بات پر میری توہین کرتی ہو۔" عمران بگڑ گیا۔

"ارے نہیں! نہیں!" روشی اس کے سر پر ہاتھ پھیرتی ہوئی بولی۔ "اچھا جعلی نوٹوں کا کیا معاملہ ہے!"

"میں تو کہتا ہوں کہ یہ اسی لڑکی کی حرکت ہے جو مجھے ریلوے اسٹیشن کے ویٹنگ روم میں ملی تھی! اس نے اصلی نوٹوں کے پیکٹ غائب کرکے جعلی نوٹ رکھ دیئےاور پھر مجھے اے بی سی ہوٹل میں آنے کی دعوت دی! میرا دعوٰی ہے کہ وہ اسی نامعلوم آدمی کی ایجنٹ تھی اور اب میں یہ سوچ رہا ہوں کہ پچھلی رات میں نے جو پیکٹ چھینے ہیں وہ دراصل میں نےچھینے نہیں بلکہ وہ خود ہی میرے حوالے کر گیا ہے! جانتی ہو اس کا کیا مطلب ہوا یعنی جو پیکٹ اب بھی اس کے پاس ہیں وہ اصلی نوٹوں کے ہیں۔ یعنی وہ پھر مجھ سے اصلی ہی نوٹ لے گیا ہے اور جعلی میرے سر پٹخ گیا۔"

"اچھا وہ نوٹ!۔۔۔ جو تم نے جوئے میں ہارے تھے!" روشی نے پوچھا۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Post Reply

Return to “جاسوسی ادب”