فوزیہ (ناولٹ)تحریر ایم اے رضاFOZIA (NOVELLET) BY MA RAZA

سید تفسیراحمد صاحب کی نوکِ قلم سے نکلنے والے منتخب ناول
Post Reply
ایم اے رضا
کارکن
کارکن
Posts: 13
Joined: Fri Jan 16, 2009 9:26 pm

فوزیہ (ناولٹ)تحریر ایم اے رضاFOZIA (NOVELLET) BY MA RAZA

Post by ایم اے رضا »

فوزیہ ناولٹ رائٹر ایم اے رضا
[/center]ایک ایسی عورت کی کہانی جس کے والدین نے اسکا نام کامیابی سے منسوب (فوزیہ) کر کے رکھا مگر اس نے ساری زندگی میںکوئی خاص کامیابی حاصل نہ کی اور اذیت ناک زندگی گزاری
٭----------------٭------٭--------------------٭
٭----------------٭------٭--------------------٭
٭----------------٭------٭--------------------٭
چاچا کرملی(کرم علی)او چاچا کرملی ----مجھے دو روپے کی املی دے دے----او دھیے تو ہن نکی جئی بالکی نہی رہی توں ہن وڈی ہو گئی ایں----تے----ھولی بولیا کر----چاچے کرم علی نے دو روپے کی املی تول کر کاغذ میں تہ کر کے فوزیہ کو دیتے ہوئے کہا ----تو ----فوزیہ بولی ----چاچا ابھی تو میں صرف چھٹی جماعت میں ہوںجب آٹھویں میں جاؤں گی تو دیکھ لوں گی----اس نے املی لی اور گلی کی نکٹر کی طرف بھاگنے لگی ----اوئے دھیے ھولی ٹر تو کڑی ایں منڈا نہی ایں----مگر اس نے چاچے کرم علی کی آواز کو سنی ان سنی کیا اور موڑ مڑ کر سکول جانے لگی ابھی اسنے سکول کے دروازے سے اندر قدم رکھا ہی تھا کہ ساتھ ہی تفریح بند ہونے کی گھنٹی کی آواز اس کے کانوں میں پڑی ----اور----ساتھ ہی اسے سھیلیوں نے گھیر لیا اس نے تھوڑی تھوڑی املی سب میں بانٹی اور باقی مٹھی میں رکھ کر واپس کلاس میں چلی گئی ----فوزیہ پتر ----فوزیہ پتر---- فوزیہ پتر----اسکی اماں کی آواز نے اسے ایک دم خیالوں سے چونکا دیا اور وہ خیالوں سے باہر آتے ہوئے بولی ----جی اماں ----پتر دروازے تے ویکھ کوئی آیا اے ----جی اماں جا رہی ہوں ----دروازہ بند کر کے کنڈی لگا کر واپس آتے ہوئے کہا----اماں فقیر تھا چلا گیا----پتر اہناں نوں خالی نئیں موڑی دا ایہہ بہت پہنچے ہوندے نے ----اونہہ ہوں اتنے پہنچے ہوئے ہوتے تو بھیک مانگ رہے ہوتے اس نے زیر لب کہا اور کہہ کر اندر چلی گئی اور اپنی آٹھویں جماعت کی کتابیں دیکھنے لگی اور سوچنے لگی کہ ----کیااماں مجھے نویں جماعت میں داخلہ لے کر دے گی یا مجھے بھی اماں کی طرح بس آٹھ جماعت پاس کا انعام ملے گا ----کیوں ؟؟----کیوں نہیں ----میں ---- ضرور پڑھوں گی میں نے پورے سکول میں سب سے زیادہ نمبر لیے ہیں مجھے ----مجھے ----کون روک سکتا ہے پڑھنے سے ----میں ----ضرور پڑھوں گی ----آگے----ہر صورت ----پڑھوں گی مجھے کوئی نہیں روک سکتا ----میں پڑھوں گی ضرور پڑھوں گی----اسکی نظریں کمرے کی اندرونی سیلی دیواروں کے برسوں پرانے بوسیدہ کاغذ پڑھنے لگی گویا---- وہ---- اس کے لیے نویں جماعت کانصاب ہو جس کا اس نے امتحان دینا ہے ----اسیں اثناء میں کندھے پرہاتھ کا دباؤ پڑتے ہی اس نے والدہ کا ہاتھ سمجھا مگر دباؤ اپنے وقت سے طویل ہوا تو اس نے مڑ کر دیکھا ----
سِجو تو----جی میں ----تو----تو کب آئی ----فوزیہ نے پوچھا ----اچھا جی ما بدولت کے دروازہ پیٹنے او راندر آنے تک موصوفہ کو پتا ہی نہیں چلا ----کیا ہٹ دھرمی ہے یہ----نہیں نہیں میرا مطلب ہے کہ سسرال سے کب آئی فوزیہ نے پوچھا تو اس کا چہرہ کچھ مرجھا سا گیا مگر وہ چھپاتے ہوئے بولی ''کل ہی آئی ہوں بس ذرا کام کاج کی وجہ سے دیر ہو گئی اور کچھ دیگر وجوہات کی بنا پر فراغت نہ مل سکی آج ذرا فرصت ملی تو دوڑی آئی تیری طرف''بہت اچھا کیا''میں بھی آج کل کچھ زیادہ پریشان ہوں اپنی پڑھائی اور دیگر کئی وجوہات کی وجہ سے تم سے چند باتیں کر لو گی تو دل کا بوجھ ہلکا ہو جائے گا فوزیہ نے کہا اور فوراًاس کو اپنی چارپائی پر سرہانے کی طرف بٹھا کر خود پائینتی کی طرف بیٹھ گئی اور ----یک زبان ہو کر پر تکلف لفاظ کی بھر مار کر دی ''سِجو کیا کھائے گی؟کیا پیے گی؟دیکھے گی ؟سِییے گی ؟وغیرہ وغیرہ '' اوئے بس بس جناب آپ تو لگتا ہے مجھے مارنے کا بھر پور پروگرام بنائے ہوئے ''سنا ہے تمھارے ہاتھ کی چاہے بہت مشہور ہے ''سِجو بولی''تمھیں کیسے پتا چلا فوزیہ نے پوچھا ''چاچی مہیداںبتا رہی تھی کہ فوزئی چائے اتنی اچھی بناتی ہے کہ جواب نہیں سجو بولی ''اچھا چل تو بیٹھ میں تیرے لیے چائے بنا کر لاتی ہوں فوزیہ نے کہا اور اٹھ کر دروازے کی طرف چل دی اور لکڑی کے دروازے سے وہ چھجے نما ٹین والے چھت والے برآمدے میںداخل ہوئی اور اس تکون نما ۷ مرلے کے گھر کی چاردیواری کے ایک طرف کونے پر بنے کوٹھڑی نما باورچی کھانے کی جانب چل دی ''''باورچی کھانے میں مٹی کے تیل والے چولہے پر چاہے بنانے میں تو اسے چند ساعتیں لگیں مگرچائے کو پیالیوں میںانڈیلنے میں جیسے برسوں لگے چونکہ اسکی والدہ کی ڈانٹ پھٹکار بھی ----جو اسے برتنوں کے کھڑکھڑانے پر اسے پرابر موصول ہو رہی تھی ----اس لیے---- جو کہ درحقیقت اس کے مستقبل کے فائدے کی چیز تھی کہ برتن کو یوں نہ کروفلاں چیز کو آرام سے استعمال کرو ----فلاں ایسے استعمال کرتے ہیں ----اس لیے اسے محسوس ہو رہا تھا کہ----گویا وہ ایتھنز اور سپارٹا کے دور سے چاہے انڈیلنے کی سزا پر معمور ہے جو اسے ابھی تک دی جارہی ہے اور اسکی والدہ کی جلی کٹی باتیںبقول انکے اسکے فائدے کے لیے تھی اضافتاًسزائے با مشقت کا تصور واضح کر رہی تھی اور اسکے اندر یہ بات کسی خنجر کی نوک یا تیر کی اَنی کی طرح چبھ رہی تھی کہ وہ اپنی والدہ کی ڈانٹ پھٹکار بھی چائے کے ساتھ ساتھ پیالیوں میں ڈالنے کی کوشش کر رہی ہو مگر مقطِر اس میں مانع تھی اور وہ چاہے کی پتی کے ساتھ ساتھ گویا ان کثیف باتوں کو بھی الگ کر کے چائے کو صاف شفاف کر رہی تھی ----وہ چائے لے کر واپس پلٹی
٭----------------٭------٭--------------------٭
سِجو نے چارپائی کے تکیے کے نیچے موجود پھٹے گتوں والی ڈائری نکال کر ورق گردانی کرنے لگی تو اچانک ایک صفحے پر اسکی نظر ٹک گئی----
ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دواکرے کوئی
آؤ چپ کی زباں میں خاور
اتنی باتیں کریں کہ تھک جایں
غالب کی شاعری میں حقیقت اور مجاز دونوں؟ ------------معروف قول یہی ہے------------لیکن --------اسکو رد نہیں؟ --------
غالب کی شاعری میں حقیقت اور مجاز دونوں؟ ------------معروف قول یہی ہے------------لیکن --------اسکو رد نہیں؟ --------
زندگی نام ہے مرمر کے جیے جانے کا
وضاحتیں بھی کبھی تِشنہ رہ جاتی ہیں --------مربوط تربیت نہ ہو تو؟--------اذیتیں ملتی ہیں؟ ------------راحتیں بھی کبھی اذیت بن جاتی ہیں ------------
٭----------------٭------٭--------------------٭
دروازے کے پردے کے پیچھے سے فوزیہ ہاتھ میں ٹرے پر چائے کی پیالیاں اور کچھ بسکٹس سجائے برآمد ہوئی ----اسی اثنا میں سِجوں نے چپکے سے ڈائری واپس تکیے کے نیچے دھکیل دی اور فوزیہ کا دھیان نہ پڑا ----لیجئیے جناب ایسی چائے آپ کو پورے جلالپور میں کہیں بھی نہیں ملے گی فوزیہ نے شوخ ادا سے کہا اور -دونوں چائے کی شڑوں شڑوں میں مصروف ہو گئیں ادھر اُدھر کی ہانکتے ہانکتے اچانک سجو نے فوزیہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا اور اچھوتے لفظوں سے پوچھا فوزئی یہ ابن مریم کا کیا چکر ہے--میں سمجھی نہیں فوزیہ نے نادانی کا اظہار کیا --اتنے میں سجوں نے پھٹے گتوں والی ڈائری کو تکیے کے نیچے سے واپس نکالا اور اس کے سامنے چند صفحات کھول کر رکھ دئیے تو جیسے فوزیہ کو کوئی سیاق و سباق مل گیا ہو بات سمجھنے کے لیے --اوہو یار یہ تو ویسے ہی بس یونہی ----بس یونہی----َسجو نے بات کاٹتے ہوئے کہاں اور فوزئی کے چہرے پر رنگ اترنے لگے ---اس نے با ت بدلنے کی کوشش کرتے ہوئے کہاَسجو چھوڑ---- نا ----یار---- کوئی اور بات کرو تم کوئی سسرال کے بارے بتاؤ یا جیجا جی کے بارے میں کچھ بتاؤوغیرہ وغیرہ ؟یار تو سیدھی طرح بہنوئی نہیں بول سکتی اتنا برا لگتا ہے یہ لفظ مجھے ---پتا نہیں زمانے کو کیا ہو گیا ہے فیشن کی دوڑمیں پہلے پہلے کپڑے اور چہرے خراب ہوئے اور اب زبان بھی برباد ہونے لگی --اچھا جی تو ----تو---- اب بھی دقیانوس کی دقیانوس ہی ہے فوزیہ نے چڑکر کہا اس پر سجو ہنس پڑی سِجوبندے کو زمانے کے ساتھ بھی چلنا چاہیے؟--ہاں ضرور چلنا چائے مگر اسکا مطلب ----یہ---- قطعاًنہیں ہے کہ زمانہ بھی حیران ہو جائے کہ اتنا تیز تومیں بھی نہیں دوڑ رہا--سجو نے جواب دیا
اچھا چھوڑ تو ان باتوں کو کچھ سسرال بارے بتا کہ کیا حال ہے احوال ہے؟-----بخیر----یا؟---فوزیہ نے پوچھا ---کچھ خاص نہیں غلط فہمیاں بھی وہی ہیں اور میں بھی وہی ہوں صرف اتنا فرق پڑا ہے کہ پہلے اپنے گھر والوں کو وضاحتیں دینی پڑتی تھیں اب اب اپنے سسرال والوں کو دینی پڑتی ہیں ---یہ خدا کا شکر ہے کہ میری ساس زیادہ شکیکک المزاج نہیں ہے اس جواب کے ساتھ سجو کی آنکھیں کچھ نم ہو گئیں مگر فوزئی کی موجودگی کا احساس کرتے ہوئے اس نے دوبارہ ضبط سے کام لیا اور دوبارہ طبیعت کو معمول پر لانے میں کامیاب ہو گئی سجو کیا بات ہے تو کچھ چپ چپ سی ہو گئی ہے فوزیہ نے اسے جھنجھوڑا؟؟نہیں فوزئی کوئی خاص بات نہیں اگر زندگی میں کامیاب رہنا چاہتی ہو تو میری ایک بات پلے باندھ لوکہ زندگی میں جتنا ضبط سے کام لو گی اتنا لوگ تمھیں اپنا سمجھیں گے تمھارے سے اپنے دکھ سکھ سنے سنائیں گے اور اگر تم اپنے دکھڑے لے کر بیٹھ جاؤ گی تو سب تمھیں بوجھ سمجھیں گے اور تم سے دور ہونے کی کوشش کریں گے---- ٹھیک ہے جناب مابدولت سر تسلیم خم کرتے ہیں سجو کے فلسفیانہ اور حقیقت سے پر کشیدہ جواب پر گویا ظرافت کی لکیر کھینچ دی ہو
٭----------------٭------٭--------------------٭
گلی والے دروازے کی ٹین کی چادر پر جب چند ضربیں لگیں تو ساتھ ہی آواز آئی زینب دھیے ----او---- زینب دھیے بواء کھول میں تیری ماسی بشیراں کھلوتی پئی آں زینب نے آواز سنی تو گویا ہوئی ماسی ----بوائ---- تے---- نا---- بھن ----آؤنی پئی آں --زینب دروازہ کھولتے ہوئے --آ ماسی آجا لنگ اندر--ماسی کے اندر آنے پر اسنے دروازہ بند کیا اور پردہ واپس گرا دیا --ماسی صحن میں بچھی ہوئی چارپائی پر بیٹھ گئی تو زینب ساتھ پڑے مورے پر بیٹھ کر بولی --ماسی سنا کی حال نی ---فوزیہ پتر ماسی بشیراں آئی اے تے کوئی چاہ پانی دا بندوبست کر ---اچھا امی جی فوزیہ نے جواب دیا ---نا --نا--نا--- دھیے رھن دے --آ--ھُن رانیاں دے گھروں کھا پی کے آئی آں---ماسی آج کیویں ٹانگ لگ گیا تیرا ایدھر پھیراں پاون واسطے---زینب نے پوچھا ؟؟؟---دھیے میں ھُن رانیاں دے گھروں آئیں آں -----ماسی کیہڑے رانیاں دے وَلوں -----زینب نے تفصیلاًپوچھا-----اوہی رانا فیاض اشرف ---جھیٹرے جامع مسجد دے پِچھے رہندے نے----رانے فیاض دا نِکا پتر رانا نیاز اشرف ----پُتر---- ماسی نے تفصیل بتائی ---- اچھا اچھا رانا فیاض اشرف صاحب اوہناں دا پُتر----پر خیر سی ماسی اوہناں وَل---- ؟؟؟ہاں ہاں دھیے خیر اے---- اوہ اپنے پتر ارباز دا ویاہ کرن دا ارادہ رکھدے نے ---- یعنی رانا فیاض اشرف صاحب دے پوتے رانا نیاز ----دے پُتر دا ---- تے اوہناں مینوں رشتے دے بارے اکھییا ----اے تے ھالے میں ایہہ گل صرف تیرے آگے کیتی اے فوزیہ دے حوالے نال جے توں بہتر سمجھیں تے میں اوہناں نال آگے گل ودہاواں---- دھیے کھاندا پیندا گھر تے ماشااللہ اوہناں دا پُتر آپ وی کسے بیکری تے لگیا ہویا اے تے نال اوہدے پیوُ دی اپنی منیاری دی دکان وی اے---- ماسی ایہہ ساریاں گلاں تے ٹھیک نے پر توں مینوں کجھ سوچن دا موقع تے دے تے میں فیر تِن دساں دی ---- زینب نے استفسار کیا؟؟---- ہاں ہاں دھیے کیوں نئیںتوں رج کے تے سوچ لے تے میں اینی دیر وچ ایہہ گل اپنے تک ای رکھاں گی تودھیے پریشان نہ ہوؤیں میرا اپنا وی ایہہ ای دل اے کہ فوزیہ دی شادی اوہدے نال ہووئے---- ایہہ گل سن کے تے زینب ڈُوہنگی سوچ وچ پئے گئی
٭----------------٭------٭--------------------٭
زینب فوزیہ کے ساتھ ٹانگے کی پچھلی سیٹ پر بیٹھتے ہی خیالات کے بہت بڑے بھنور میں کھو گئی-----اشتیاق حسین د ھلی ہوئی اجلی ڈا کیے کی وردی پہنے صحن میں سلیقے سے بچھی چارپائی پر بیٹھا ناشتہ کر نے کے بعد چنگیرمیں رکھے پونے کے ساتھ ہاتھ صاف کر رہا تھا کہ اتنے میں اس کی بیوی اسکے لیے چائے لے آئی تو وہ چائے پینے لگا اور چائے پینے کے بعد وہ اٹھا اور بر آ مدے کی طرف بڑھا اور برآ مدے کے ستون کے اندر کی طرف لٹکے آئینے میں اس نے اپنی ادھیڑ عمر پر اچکتی نظر ڈا لی اور ایک نظر اپنے بالوں پر ڈالی اور ان میںہاتھ پھیرتے وقت اس نے چند سفید بال دیکھے تو کچھ پر یشان ہوا مگر ڈا کخانے جلدی جانے کی فکر نے اس پریشانی پر قابو پا لیااور صحن میں نلکے کی پا نچ فٹی چار دیوار ی کے پاس کھڑے اپنے سھراب کے سا ئیکل کے پاس آگیا اور سا ئیکل کی گدی کے نیچے سے صافی نکا ل کر اس نے سا ئیکل صا ف کی اور پھر صا فی واپس رکھنے کے دوران اس نے باہر وا لے دروازے پر آ واز سنی ’’اشتیاق حسین ‘‘ اوبھا ئی اشتیاق حسین ’’یہ تو ماسٹر نعمت اللہ صا حب کی آ واز لگ رہی ہے اس نے خو د سے کہا اور سا ئیکل سٹینڈ پاوں سے ہٹا کر----سائیکل کو---- دروازے کی طرف سر کا نے لگااس اثناء میں اس کی بیوی نے دوپہرکے کھانے کا ٹفن اسے دیا تو اس نے ٹفن ہینڈ ل کے ساتھ لٹکا لیا تو اس کی بیوی نے گلی والے دروازے کا پردہ ہٹا یا اور دروازہ کھولا تاکہ اشتیاق حسین سائیکل باہر نکال سکے اتنے میں اپنے پیکو کے سائیکل کے ساتھ کھڑے ماسٹر نعمت اللہٓصاحب سے نظر ٹکرا گئی تو اس نے ادب سے سلام کیا تو جواباًما سٹرصا حب نے سلام کے جواب کے ساتھ ’’جیوندی رہ دھیے ‘‘کی دعا ۔دی تو اشتیاق حسین نے سا ئیکل باہر نکالی اور ماسٹر صاحب سے سلام دعا کرنے لگاتو اس کی بیوی نے پیچھے سے دروازہ بند کر لیا اشتیا ق حسین کیا بات ہے آج کل تھوڑا پریشان نظر آتا ہے ماسڑصا حب کی بات کے دوران دونو ںنے سائیکل سرکا کر پاوںپیڈل پر رکھا اور دوسرا پاوںکیر ئیر کے اوپر سے گزارتے ہوے گدی پر بیٹھے اور سائیکل چلانے لگے تو اشتیاق حسین نے جواب دیا ماسٹر صاحب ریٹائر منٹ میں صرف ایک سال باقی ہے بس اسی وجہ سے کچھ پریشان تھااس پر ماسٹر صاحب اسے قدرت ،قسمت ،مقدر،نامی چیزیںسمجھانے لگے اور اس دوران انکی بات وقفوں کا شکار ہو جاتی جب سامنے سے آنے والے تانگوںاور اکا دکا مو ٹر کاروںکی زد سے بچ بچا کے نکلتے؟---- اگلے موڑپر دونوںکو جداگانہ اور تنہا رستوں میںچلنا پڑتا---- منزل پر پہنچنے کے لیے روزانہ کی طرح وہ آج کی صبح بھی جب میر عالم چوک پر پہنچے تو ماسٹر صاحب خدا حا فظ کہہ کر دائیںجانب ُمٹرنے لگے اور اشتیاق حسین بھی ڈاکخانے جانے کے لیے بائیں جانب ُمڑنے لگا ----ماسٹر صاحب ابھی تھوڑا آگے ہی گئے تو پیچھے کسی مو ٹر کی بریک لگنے کی زور دار آواز کے ساتھ ایک ٹکر کی آواز سنی تو سائیکل روک کر پیچھے دیکھا تو اشتیاق حسین پر نظر پڑ ی وہ خون میں لت پت زمین پر پڑا تھا----اپنے سائیکل کے قریب ہی ---- اور لوگ ا س طرف دوڑ رہے تھے ماسٹر نعمت اللہ بھی پاس پہنچے سائیکل ایک طرف پھینکا---- اور اشتیاق حسین کے پاس بیٹھ کر اس کا سر اپنے ہا تھوںمیں لیکر نیچے بیٹھے اور گودی میںرکھااور باقی ارد گرد کھڑے لوگوںکو آوازدے کر کہا کہ ۔۔۔۔جلدی سے ایمبولینس بلاؤ اور اشتیاق حسین کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا تمھیں کچھ نہیں ہو گا ؟۔۔۔اشتیاق حسین شدید زخمی حالت میں کراہتے ہوئے اکھٹرے لہجے میں ٹوٹتے لفظوں کے ساتھ بولا ما۔۔س۔۔ٹر۔۔صاح۔۔ب ۔۔میر۔۔ے ۔۔۔گ۔۔ھر والوں کا خیال رکھیے ۔۔۔۔گا اسکا سر ڈھلک گیا ۔۔۔اتنے میں کسی کے لئے اطلاع دینے پر مقامی رفاہی تنظیم MWFکی ایمبولینس آچکی تھی ماسٹر صاحب نے بغیر کسی توقف کے اشتیاق حسین کو اس میں ڈالا اور ہیڈ کواٹر ہاسپٹل میں لے گئے مگر ڈاکٹر وں نے اسکی موت کی تصدیق کر دی اور لمحوں کے اندر اسکے جنازہ اور تدفین کا سلسلہ مکمل ہوا اور ہنستا بستا ادھیڑ عمر اشتیاق حسین منوں مٹی تلے دبا دیا گیا ۔۔۔۔بہن جی ۔۔۔بہن جی۔۔۔ آں ہاں قبرستان آ گیاکو چوان کی آواز نے زینب کو اپنے خیالوں کے گہرے بھنور سے نکالا اور اس نے کوچوان کو کرائے کے پیسے دئیے اور فوزیہ کے ساتھ اتر کر قبرستان کے دروازے کی طرف چل پڑیں اور دروازے کے قریب لگے پھٹے والے سے کچھ پھول اور اگر بتیاں خریدی اپنے باپ کی قبر پر سجانے کے لیے ما ں سے پیسے لے کر اس پھٹے والے کو دیتے وقت شکایت لگائی چاچاجمعرات کے دن تو تازہ پھول رکھ لیا کر و اور وہ والدہ کے ساتھ قبرستان میں داخل ہو گئی اور قبروں کے بیچ بنی راہداریوں سے ہوتی ہوئی ایک قبر کے پاس رکی جس کے کتبے پر جلی حروف میں کالی روشنائی میںاشتیاق حسین لکھا تھا زینب قبر کے دائیں طرف کھٹری ہو کر فا تحہ خوانی کے لیے چند زبانی یاد کردہ سورتیں پڑھنے لگی اور فوزیہ اپنے باپ کی قبر سے کانٹے دار جھاڑیاں صاف کر کے پھول پھیلانے میںاور اگر بتیاںسجانے میں مصروف ہو گئی
٭----------------٭------٭--------------------٭
برقی قمقموںاور چونے سے بنے زاویوں سے سجے زینب زوجہ اشتیاق حسین کا گھر مکمل طو ر پر شادی کی خو شیوں کی بہار میںبکھیر رہا تھا نکاح ہو چکا تھا اور دلہن رخصتی سے چند ساعتیں قبل اپنے چھوٹے بڑے دورنزدیک کے رشتے داروں سے ملنے میںمصروف تھی اور گلی والے دروازے پر گلی میں ایک پرانے ماڈ ل کی لینسر پھو لو ں سے سجی سجائی کھڑ ی تھی اور اس کا ہارن وقفے وقفے سے بج رہا تھا ----جیسے---- وہ کسی ٹرین کی طرح اسٹیشن پرکھڑی اپنی روانگی سے قبل تنبیہاً متنبع کر رہی ہو کہ پھر ----نہ کہنا گاڑی چھو ٹ گئی---- مگر یہاں ایک مسئلہ اور بھی در پیش تھا کہ گلی چھوٹی ہونے کی و جہ سے دیگرگاڑیاںرکھنے والے اور موٹر سائیکل سوار پیچھے رکنے پر مجبور تھے اس وجہ سے بھی ڈرائیور ہارن دینے پر مجبور تھاجبکہ ادھر دلہن اپنے رشتے داروں سے ملنے کے بعد اپنی والدہ سے گلے لپٹ کے رو رہی تھی اور دلھے میاں بغل میںکھڑے تھے چہرے پر پریشانی کے تا ثرات جمائے پھر سب دلھن کو صحن سے دروازے کی طرف لے جانے لگے اوردولھامیاںبھی کچھ فاصلے پر آگے آگے چل رہے تھے اچانک ۔ ۔ ۔ گلی والا دروازہ کھلا اوردولھن گلی والے دروازے سے دولھے میاں کے ساتھ باہر نمودار ہوئی اور دونوں گاڑی کی طرف بڑھے اور کسی نے آگے بڑھ کر اس پرانی لینسر کا دروازہ کھولا اور دولھن کے بیٹھنے کے بعد دروازہ بند کر دیا گیادولھا دوسری طرف والے دروازے سے موٹر کار میں بیٹھ گیاگاڑی چلنے لگی توپیچھے طرف والی ٹریفک کو بھی چلنا نصیب ہوا اب وہ تین گاڑیوں پر مشتمل بارات کافی لمبی لائن میں جت گئی تھی اور یوں محسوس ہوتا تھا گویا وہ ساری بارات ہی تھی یوں فوزیہ ارباز اشرف کی دولھن بن کر اپنے سسرال یعنی پیا گھر سدھارنے کے لیے جانے لگی اور اسکی والدہ کی نظریں گلی کی نکڑ تک بارات کا تعاقب کرتی کرتی واپس مڑ آئیں مگر دماغ سوچ کا جسم بن کر اشتیاق حسین سے ملنے چلا گیا تاکہ اسے بتائے ------اشتیاق حسین تم نے جو بوجھ اپنی رفیقہ حیات کے کندھوں پر ڈال گئے تھے وہ اس سے سبک دوش ہو چکی ہے اشتیاق حسین اب تو بس تیری طرف آنے کے لئے دن گِن رہی ہوں زینب نے سوچا اور گھر کے اندر چلی گئی ------

مرلے کا دو منزلہ مکان وائٹ واش کے ساتھ بہت خوبصورت لگ رہا تھا اور اس پر بجلی کے قمقے سونے پر سہاگہ کا کام کر رہے تھے ایک دیو قامت گیٹ جو کشادہ گلی کی جانب کھلا ہوا تھا---- گیٹ کے بالکل سامنے اندر کی طرف گیرج اور ------جب باہر گلی سے گھر میں داخل ہوتے تو گیرج کے دائیں طرف ------مگر گھر سے نکلتے وقت بائیں طرف------ چھوٹا سادالان سلیقے سے سجے ہوئے چند گملوں سے بہت ہوش ربا منظر پیش کر رہا تھا ------لیکن ایک طرف کچھ جگہ کھدی ہوئی تھی اور اسکے اردگرد چند دیگیں رکھیں ہوئیں تھیں اور اس سے منظر میں کچھ عجیب سا پن پیدا ہو گیا تھا ------اور گیرج کے اندر سے ہی دوسری منزل کو جانے والی سیڑھیوں کی ریلنگ کافی نفاست سے سجائی گئی تھی اور سیڑھیوں کے اوپری اختتام سے لے کر دلھن کے کمرے تک خوبصورت سرخ قالین بچھا ہوا تھا جس کے ایک کونے پر سیاہ دھاگے سے حق کیٹرنگ سروس لکھا ہوا تھا مگر باریک بینی کے بغیر نظر نہیں آتا تھا ------دلھن کے کمرے کو کافی محنت سے سجایا گیا تھا بالخصوص مسہری جس پر دلھن براجمان تھی مگر رنگوں میں امتزاج اور امتیاز روا نہ رکھنے کی وجہ سے کافی عامیانہ پن آگیا تھا جو تقریباًمحنت کو اکارت ہی کر رہا تھامگر دلھن کے اردگرد بیٹھنے والی خواتین ان چیزوں سے بے پرواہ دلھن کے اوپر نظریں جمائیں ہوئے تھیں جو میجنٹا کلر کے لہنگے میں ملبوس چہرے پر سوفٹ میک اَپ سجائے------جوکہ سِجوکی محنت کا کمال تھا ------کافی خوبصورت اوردلربا لگ رہی تھی اسکی نندیں اسکو اسکی جیٹھانی اور جیٹھ کا تعارف کروا رہی تھیں اور اس کے ساتھ ساتھ کافی خوشگپیوں اور لطیفہ بازی کا ماحول بھی ساز گار تھا پھر اچانک اسکی ساس کی آواز کمرے میں گونجی اور سب سہم گئے ارشاد یہ ہوا کہ دلھن تھک چکی ہے اسے مکمل طور پر آرام کا موقع فراہم کیا جائے ----کیوں کی یہ شائد فوزیہ کی زندگی کے وہ پہلے اور آخری الفاظ ثابت ہونے والے تھے جو اس نے اپنی بہو کے لیے شائد نرمی محبت اور الفت سے ادا کیے ہوں گے ----یہ معتدل سا اندازہ اسکی چھوٹی نند کا تھا جو ابھی تک ناولوں اور کہانہیں کے کرداروں کو حقیقی زندگی کے قرین قیاس سمجھا کرتی تھیں اور سمجھتی تھی کہ حقیقت کو جھٹلا کر اسے بدلا بھی جا سکتا ہے اور جو مستقبل میں فوزیہ کے کیے اس کے سسر کے بعد واحد خیر خواہ بنے والی تھی ---- یوں چپ چاپ محفل برکاست ہو گئی اور ماحول میں شور کی کیفیت اور تناسب بھی کم ہو گیا اور سب لوگ تقریباًسونے کی تیاریوں میں مصروف ہو گئے
٭----------------٭------٭--------------------٭
اسکی سادہ زندگی میں اچانک اضطراب اور پریشانیوں کا پلٹرا بھاری ہونے لگا گو اسنے پہلی زندگی دکھوں اور آہوں کے بغیر نہیں گزاری تھی مگر اس میں اسے یہ تسلی رہتی تھی کہ کوئی اسکی سادگی سچے پن اور اخلاص پر شک نہیں کرتا تھا ------مگر یہاں پر تو حالات اسے چکمے پر چکمہ دے رہے تھے پلٹے پر پلٹا کھارہے تھے چہرے وہی تھے انداز بدلنا شروع ہو گئے ------تعلق وہی رہا جہتیں بدلنا شروع ہو گئیں اور سوائے اسکے سر صاحب اور اسکی چھوٹی نندکے باقی ہرشخص ہر منظر ہر چیزکے انداز بدل چکے تھے ------وہ اپنی ذات کے اندر صورت اور معنوی دونوں انداز میں ان چیزوں کا مقابلہ کر رہی تھی اور اب مکمل طور پر عورت بن چکی تھی اور اسکا منجھا ہوا جسم اور بھاری سینہ اسکی شخصیت میں بے پناہ دلکشی کا اضافہ کر رہا تھا اور وہ چہرے سے بہت پر سکون نظر آتی تھی مگر اسکے دل میں بے پناہ طوفان بلکہ سونامی اٹھ رہے ہوتے تھے------زلزلے بپا ہو رہے تھے---- اور وہ---- ان کو چہرے پر آنے سے روک لیتی تھی مگر پھر بھی کبھی کبھی اسکا چہرہ متغیر اور مضطرب ہوجاتا تھا مگر ابھی تو ابتدائے عشق سے آگے آگے بہت کچھ ہونا تھا اور بقول غالب ؔ
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا [center]
فوزیہ ۳سالہ شانزہ کے ساتھ گھر کی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی کہ اچانک اسکو چکر آیا اور اس دوران بیٹی کا ہاتھ اسکے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور وہ سیڑھیوں لڑھکتی ہوئی نیچے آرہی اور شانزہ گرنے سے تو بچ گئی مگر والدہ کی حالت دیکھ کر گھبراہٹ سے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی سب لوگ اکٹھے ہوئے اور فوزیہ کو قریبی ھسپتال پہنچایا گیا اس دوران اسکی ساس نے کچھ گِھسی پِٹی روایتی باتیں کی مگر اس وقت کسی نے ان باتوں پر دھیان نہ دیا ------ہسپتال سے واپسی پر سب کے چہرے دمک رہے تھے کہ فوزیہ پھر ماں بننے والے ہے ------اسکی نند نے اسکو اسکے کمرے میں بیڈ پر لیٹتے وقت سہارا دیا------یہ بات بہت حد تک چھپانے کی کوشش کی گئی مگر نہ چھپائی جا سکی اور جب سِجو کو پتا چلی تو وہ فوراً فوزیہ سے ملنے چلی آئی فوزیہ کے پاس بیٹھتے ہی اس نے ڈھیر سارے سوال کر ڈالے ------سِجو شائد قدرت نے مجھ سے بس یہ امتحان لینے تھے بس تم دعاکیا کرو کہ میری بیٹی کا مقدر اچھا ہو------فوزیہ کیا بات ہے کیا پھر کوئی جھگڑا ہوا ہے ------سِجو تو گھر والی ہے اور مجھ سے سوال پوچھ رہی ہے------فوزی میں تو یہ سب سن کر بے حس ہو چکی ہوں ------سِجو تم ٹھیک کہتی ہو پر اس طبیعت کا کیا کروں جو آج بھی اتنی ہی لطیف اور حساس ہے جتنی کہ اس وقت ہوا کرتی تھی جب ہم اپنی اپنی کاپیوں میں سے ایک ایک کاپی کو کور چڑھا کر ڈائری بنا کر اس پر مختلف رنگوں کے مارکر سے سجا سجا کر شعر لکھا کرتیںتھیں------
فوزئی تم بہت ہی باہمت ہو جو اتنا کچھ چپ چاپ برداشت کرتی ہو کو ئی میرے ساتھ کرتا تو میں اسکا خون پی جاتی ------؟
اچھا فوزی اب میں چلتی ہو ں دیر ہو رہی ہے میری ساس بھی جل بھن رہی ہو گی سِجو نے اجازت مانگی اتنے میں فوزئی کی ساس دوبارہ ان کے پاس آکر بیٹھ گئی ------سِجو------او ------سِجو ------فوزئی پکاری ------ہاں میری جان ------حکم فرمائیے------سِجو کیااسی پرانے انداز میں جو وہ پچپن سے اس کے لیے استعمال کرتی آرہی تھی----اس ---- انداز میں بے پناہ پیار اور خلوص چھپا ہوا ------فوزئی نے ------ دوپٹے کے نیچے سینے تک ہاتھ لے جا کر جب واپس نکالا تو اس ------کے ہاتھ ------میں ایک چھوٹی سی چابی تھی ------سِجو یہ چابی لے اور ڈریسنگ ٹیبل کا دراز کھولو اوپر والا---- پہلا----فوزئی کا حکم ملتے ہی سِجو بجا لائی ------جی اب کیا کروں سِجو نے پوچھا------یہ جو فیروزی رنگ کے کپڑے کی پوٹلی ہے اسے اٹھا لے ------لیکن کیوں ؟؟؟ یہ تمہاری امانت ہی تو ہے ------مانتی ہوں ------مگر------کوئی اگر ------مگر------نہیں
یار میں اب تیری یہ امانت نہیں سنبھال سکتی فوزئی کے شدید اسرار پر سِجو نے پوٹلی اٹھائی اور اسے اپنے پرس میں رکھ لیا اس حیرانی کے ساتھ کہ فوزئی نے اگر یہ پیسے استعمال نہیں کیے تو اس کے کمرے سے چوری ہونے والے پیسوں کو اس نے کیسے پورا کیا ------اور کیسے حالات پر کنٹرول کیا ------جبکہ فوزیہ کی ساس یہ سارا منظر ایسے دیکھ رہی تھی انتہائی عجب اور حیران کنی کے عالم میں ------اور ------سوچ رہی تھی کہیں فوزیہ اپنے گھر خرچ میں سے پیسے بچا کر ------تو------نہیں سِجو کو دے رہی ------میں بھی کہوں کہ سودا سلف اتنی جلدی کیسے ختم ہو جاتا ہے؟ کمبخت سودا ہی کم منگوائے گی تو پورا کیسے ہو گا؟------اس کی ساس بظاہر مطمئن تھی مگر اندورنی طور پر بے پناہ وسوسوں کا شکار تھی اور کئی باتیں اس کا ذہن ماننے سے انکاربھی کر رہا تھا مگر وہ جان بوجھ کر ان کوغلط رنگ میں سوچ رہی تھی ------کہ ------جیسے ------ بذات خود بہو ہوتے وقت اس کی ساس نے اس بارے خدشا ت رکھے تھے ان کا پورا پورا بدلہ چکا رہی ہو ------مگر پھر وہ خیالات کی دنیا سے باہر نکل آئی اور اپنی بہو اور اسکی سہیلی کی طرف متوجہ ہوئی ------؟
فوزئی نے ------اٹھنے کی کوشش تو بہت کی مگر ------سِجو کے شدید اسرار پر ------لیٹے لیٹے ------سِجو سے گلے مل کر اسے الوداع کیا ------اور سِجو چلی گئی ------کئی دن لوگ اسی طرح تیمارداری کے لیے آئے جن میں اڑوس پڑوس کی عورتو ں سے لے کر دورونزدیک کے جاننے والے شامل تھے ------ان سب کی خاطر تواضع بھی اس کی ساس کے رویہ میں اتار چڑھاؤ کا سبب بنا رہا ------ ------
فوزیہ نے لیٹے لیٹے تپائی پر سے دختران اسلام میگزین اٹھایا اور اس کے چند ورق الٹ پلٹ کر دیکھے اور ان پر نظریں ٹکا کر سوچ میں پڑ گئی اس انداز سے کہ اگر کسی کی بھی نظر اس پر پڑتی تو نظر یہی آتا کہ وہ مطالعہ میں مصروف ہے ------یہ سارے انداز رویے مسائل اور چیزیں اسکے اندر ہیجان اضطراب ،پریشانیاں اور سوالوں کے بھنور اور سونامی پیدا کر رہے تھے کبھی وہ خود کشی کے آسان طریقوں کے بارے میں سوچتی اور کبھی وہ کوئی ایسا طریقہ سوچنے کی کوشش کرتی کہ وہ مر بھی جائے اور اسکا ایمان بھی بچ جائے مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ------اب وہ اک نئی سوچ میں پڑ گئی ------قدرت کے انداز بھی بہت نرالے ہیں اور اس نے جو انسان کو تسخیر کی قوت دی اس کا بھی اپناایک عجب اندازکہ وہ کوبرا ہیلی کوپٹر اور بوئینگ کو لے کر ہواؤں اور فضاؤں کا سینہ تو چیر سکتا ہے مگر خزاں کے موسم میں کسی درخت سے گرا ہوا ایک پتا بھی واپس اس درخت پر نہیں لگا سکتا وہ بڑے بڑے خطرناک اور مہیب جانوروں ،اژدھوں اور ---- اجگروں کو سُدھا کر اپنا غلام تو بنا سکتا ہے ------مگر ------ سیب کے درخت پر نیا سیب اگانا تو درکنار ------وہ اس درخت پر اگے سیب میں اپنی مرضی کا ذائقہ نہیں بھر سکتا وہ ایک کٹھے کینو میں مٹھاس بھرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ------بس ------ان قدرتی نشانیوں کی وجہ سے وہ خدا نہیں بنتا ------مگر ------جزواً وہ گھر سے لیکر آفس تک پتانہیں کتنی دفعہ خدا بن بیٹھتا ہے اور عملی شرک کا مظاہرہ کرتا ہے ------اور ------اگر شرک نہ کرے تو پھر بغیر کسی واسطے اور وسیلے کے اس تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے ------اور ------ یہاں پر بھی وہ بے اعتدالی کا شکار ہو جاتا اور بھول جاتا ہے کہ قدرت نے بھی تو اعتدال رکھا ہے دن کے ساتھ رات کا دھوپ کے ساتھ چھاؤں کا مرد کے ساتھ عورت کا ------اس نے تو شروع سے پلڑے برابر کر کے دیے ہیں اور ہم کبھی ایک طرف جھک جاتے ہیں اور کبھی دوسرے پلڑے کو اونچا کر دیتے ہیں ------اور ------ہمارے ہاں اکثریت میں بلکہ اسَی (۸۰)فیصد سے زائد بے اعتدالیاں نامساعدیت،بے وزنیت،اور تضادات تو مورثی ہیں اور ہم ورثہ ----در---- ورثہ حاصل کرتے چلے آرہے ہیں اور مزید پال پوس کر اسے آگے منتقل کر دیتے ہیں ------اور ------نتیجہ نکالتے ہیں قدرت کو یہی منظور تھا ------دھت تیرے کی؟ ------ یہ ساری چیزیں تو ورثے میں شدومد سے بڑھتی چلی آرہی ہیں ------مگر ------ ورثے میں تو ہمیں اسلام بھی ملا تھا ؟؟؟ ------ورثے میں تو ہم امت وسط تھے ------؟؟؟ورثے میں تو ہمارے پاس ہر طرح کی خوبیاں بھی تھیں جو---- اب صرف اسلاف کے کارنامے اور قصے کہانیاں بن کر ہمارے پاس کتابوں ناولوں اور تاریخ کی صورت میں موجود ہیں ------یہ سب چیزیں آگے کیوں منتقل نہیں ہو رہی ہیں ------کیوں ہم اپنی غلطیوں کو قدرت کی آڑ اور پردہ دے کر اپنے جرم سے پردہ پوشی کی کوشش کرتے ہیں ------اور کہتے ہیں کہ قدرت کو یہی منظور تھا مگر جب کوئی بھی کام پوری صحت کے ساتھ ٹھیک ہو جاتا ہے اور بن جاتا ہے تو وہاں پے اپنی محنت کے گن کیوں گائے جاتے ہیں کیوں یہ راگ الاپے جاتے ہیں کہ ------بڑی محنت اور مشقت سے ٹھیک کیا ہے ------بنایا ہے وغیرہ وغیرہ اگرچہ وہ ایک معمولی سی گاڑی ہی کسی مکینک کے ہاتھوں کیوں نہ ٹھیک ہو رہی ہو ------فوزیہ کسی آہٹ کو پا کر حقیقتاً دختران اسلام میگزین کی طرف متوجہ ہوئی اور اس صفحے پر کھلے ہوئے آرٹیکل کوصفحے کے وسط سے پڑھنا شروع کر دیا ------
پھر ہمیں علامہ کا سہارا لینا پڑتا ہے
برطر از اندیشہ ء سودوذیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی
حکیم الامت ہی اس اضطراب کے اونٹ کو کسی کروٹ بٹھانے میں ممدومعاون نظر آتے ہیں ------جب فوزیہ نے محسوس کیا کہ اس کے کمرے کی طرف آنے والی پیروں کی آہٹ رک گئی اور کسی اور طرف جانے لگی ہے تو اس نے اپنی سوچ کے کبوتر دوبارہ محو پرواز کر دئیے ------ ------

فوزیہ کا بیٹا اب سال کا ہونے والا تھا اس کے آنے سے گھر کی کشیدگیوں پر سکون کا ہلکا سا پردہ تو پڑ گیا مگر اس پردے میں کچھ سوراخ ایسے ہی تھے جیسے ہماری زمیں کے اردگرد لپٹے اوزن کے غلاف میں سوراخ ہیں اور نقصان دہ الٹرا وائلٹ شعائیں رکاوٹ کے باوجود کچھ نہ کچھ تناسب کے ساتھ اس زمین پر آکر ہمیں پریشان اور بیمار کر ہی دیتی ہیں ------اس ادھورے سکون کا اثریہ ہوا کہ وہ ان بچھڑے لوگوں بھی یاد کرنے لگی جن کے جسم منوں مٹی کے نیچے تھے آج پہلی دفعہ اسے صحیح معنوں میں وہ سب لوگ یاد آرہے تھے ------واقعات کی ایک فلم چل رہی تھی ------جب ------ وہ کچن میں بیٹے کے لیے دودھ گرم کر رہی تھی اور شانز ہ کے لیے کھچڑی پکارہی تھی ------والد کے ساتھ ساتھ والدہ کی وفات اسکے ذھن میں تازہ ہورہی تھی ------آبائی مکان کا بیچ دینا اور اس طرح کے دیگر واقعات ------کئی سھیلیوں کا بچھڑنا رشتے داروں کی فوتیدگیاں جو ننھیال اور ددھیال دونوں طرف سے تھیں پھر وہ لوگ جو اسکے سسرال میں اسکے خیرخواہ تھے ان کا بچھڑنا اور دیگر کئی چھوٹے موٹے واقعات یہ سب ایک اضطراب کی صورت اس کی بے چینی میں اضافہ در اضافہ کرتے چلے جارہے تھے اور وہ خود بھی نہیں سمجھ رہی تھی کہ وہ کس طرف اور کس رخ پر سوچ رہی ہے بس اسکا ذہن 280کی رفتار سے کسی فراری یا کسی FZR2000 کی طرح380 کی رفتار سے دوڑ رہا تھا اور باقی تما م واقعات وسوسے خیالات احساسات اور جذبات دوسری گاڑیوں کی طرح ریس میں ------ابھی دوسرے لیپLAP) (میں تھے ------ اور اس کے تعاقب میں دوڑتے چلے آرہے تھے------اور اس ریس میں نہ تو وہ جیت رہی تھی اور نہ ہی پوری طرح سے ہار رہی تھی ------گویا اس کی NEED FOR SPEED میں لیپ تو بڑھ رہے تھے مگر نتیجہ نہیں نکل رہا تھا کسی جیت یا ہار کی صورت میں ------اس سوچ کی دوڑدھوپ میں اس نے فیڈر بیٹے کے منہ میں ڈالا اور کھچڑی کی پلیٹ شانزہ کے سامنے رکھ دی اورچمچ شانزہ کے ہاتھ میں دینے کے باوجود وہ اسکے ننھے ننھے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لے کر اسکی کھانے میں مدد بھی کر رہی تھی تاکہ وہ بیڈ پر کھچڑی کے چاول نہ گرائے ------زندگی کے پچھلے سال انکے مہینے انکے ہفتے ،دن اور دن کے پہر ایک فلم کی طرح ریوائنڈ ہو رہے تھے اور اسکے اندر بے چینی اور اضطراب کا بے پناہ طوفان کھڑا کر رہے تھے جیسے ------ابھی ایک نیا سونامی آنے والا تھا ------اس کے بعد اس نے کئی دیگر کاموں کو سر انجام دے کر طبیعت کو معمول پر لانے کی کوشش کی ------مگر بے سود ------فیملی میگزین بھی بے بس ہو گیا ،سرگزشت شعاع ،سسپنس بھی اس کی سوچ کی بے چینی کے آگے بند باندھنے میں ناکام رہے ------اور------ وہ----انکی ورق گردانی میں مصروف رہی ------ جب تک کہ بچے سو نہ گئے------بچوں کو سلا کر وہ نیچے آئی ------بھابی کیا بات ہے آپ کچھ پریشان لگ رہی ہو اسکی چھوٹی نند نے پوچھا ------کچھ نہیں بس ذرا تکان ہے ------ فوزیہ اتنا جواب دے کر باہر لان میں آگئی کچھ دیر ٹہلنے کے باوجود اس نے خود کو مزید بے چین پایا اور اچانک اس کے ذہن میں کوئی سوچ آئی اور اس نے اوپر جا کر گاؤ ن پہنااور نیچے آکر گیٹ سے نکلنے سے پہلے نقاب کرنے لگی ------بھابی کہاں جا رہی ہیں اسکی چھوٹی نند نے پوچھا ------کہیں نہیں بس ذرا قبرستان تک جا رہی ہوں امی کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے ------بھابی میں بھی ساتھ چلو ں ------ پھر کبھی لے چلو گی فوزیہ نے جواب دیا اور گیٹ سے باہر نکل گئی
٭----------------٭------٭--------------------٭
فوزیہ کیا کرہی ہو ------------آہ ہ ہ ہ ہ ------پلیز گاڑی آہستہ چلاؤ ؟------پلیز------فوز ------فوز------ فوز پلیز ------شارقہ کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی جب فوزیہ نے تیزی کے ساتھ ڈرائیو کرتے ہوئے موڑ کاٹا اور تالی بجا کر پھر سٹئیرنگ مضبوطی سے پکڑ لیا شارقہ بے پناہ ڈر رہی تھی اور فوزیہ اسکے چہرے سے ابھرنے والے خوف اور ڈر سے بہت محظوظ ہورہی تھی ------فوزیہ اپنے شوہر کی طرف سے ملنے وا لی نئی پراڈو کو اندھا دھند ڈرائیو کر رہی تھی اور------اسکی رف ڈرائیونگ کے ساتھ بے پناہ خوشی بھی موجود تھی ------اسی لیے یہ خوشی اس پر شراب کے نشے سے زیادہ اثر کر رہی تھی اور وہ اس خوشی میں بے پناہ خوش ہو رہی تھی ،بہک رہی تھی اور بے خود ہو رہی تھی ------خطرناک قسم کے کٹس ------یو ٹرنز------سکریچیں اور ڈرِفٹس ------وہ اتنی بڑی گاڑی کو یوں چلارہی تھی جیسے چھوٹا بچہ اپنی کھلونا گاڑی کو اپنی من چاہی الفت سے دوڑاتا ہے اور اسکے لیے سیڑھیوں کی ریلنگ بھی سڑک ہوتی ہے اور وہ ڈرائینگ روم کی تمام چیزوں کو اپنی گاڑی کی سڑک سمجھ کر ان پر گاڑی دوڑاتا ہے ------فوزیہ اس ملنے والے تحفے پر یوں ہی زور آزمائی کر رہی تھی ------کبھی یہ کٹ------کبھی اس طرف کٹ------کبھی دائیں سے ریڑھی بان مشکل سے جان بچا کر گزرا ------کبھی کوئی سائیکل والابمشکل ------------جان بچا پاتا اور کبھی کوئی ------------موٹرسائیکل والا کراسنگ کے بعد------------زچ ہو کر چند گالیاں عنایت کر کے گزر جاتا ------پیدل چلنے والے ------کیچڑ کے چھینٹے پڑنے پر مختلف قسم کے القابات سے اس کو نوازتے جا رہے تھے------اچانک ------سامنے چوراہے پر ایک تانگہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا آرہا تھا ------جب وہ اچانک گاڑی کے سامنے آیا تو ------اس افتاد ------ کے اچانک سامنے آنے کے لیے فوزیہ تیار نہ تھی ------لہذٰا ------وہ بوکھلا گئی اور اس بوکھلاہٹ میں بریک پر دباؤ بڑھانے کی بجائے ------ایکسیلیٹر پر دباؤ بڑھا دیا مگر پھر اچانک دوبارہ بریک پرپاؤں رکھ کر دباؤ بڑھایا------مگر ------اب دیر ہو چکی تھی اور ایکسیلیٹر پر پڑنے والے دباؤ نے اپنا کام دکھا دیا تھا ------گاڑی تانگے سے ٹکرا گئی ------اور ------گاڑی تو رک گئی مگر تانگہ گھوڑے،کوچوان اور ایک خاتون سواری جو برقعہ نما گاؤن میں تھیں ------سمیت------قلابازیاں کھانے لگا تانگے کا ایک ٹائر ٹوٹ چکا تھا اور دو انسان اور ایک جانور خون میں لت پت پڑے تھے ------اور ------فوزیہ گاڑی کی ونڈ سکرین ------جس میں چند دراڑیں پڑ چکی تھیں ------وہاں سے------بت بنی ------حواس باختہ ------یہ منظر دیکھ رہی تھی ------فوزیہ ------فوزیہ------ فوزیہ ------شارقہ نے تقریباً چلا کر کہا ------آں ------ہاں ہاں ------
فوزیہ چلوجلدی کرو گاڑی سٹارٹ کرو ------بھاگ چلیں ------ابھی تک کسی نے نہیں دیکھا دور تک کوئی بھی نہیں ------نہیں شارقہ ------شارقہ کی شدید مزاحمت اور روکنے کے باوجود وہ گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلی اور ------نعشوں کے قریب جا کر انکا معائنہ کرنے لگی ------کہ------شائد کوئی زندہ ہو ------تب تک ------ ایک دو ادھیڑ عمر سائیکل سوار اور چند پیدل افراد بھی قریب آچکے تھے ------فوزیہ نے مقامی رفاہی تنظیم MWF کو اپنے موبائل فون سے فون کیا تاکہ ایمبولینس منگوائی جا سکے ------اتنے میں پولیس بھی جائے وقوعہ پر پہنچ چکی تھی ------اس وقت فوزیہ اپنے شوہر کو تمام تر تفصیلات بتا رہی تھی اسکے انسٹا فون پر ------پولیس والوں نے فوزیہ کو حراست میں لے لیا اور وہ پولیس کی گاڑی میں بیٹھی تو شارقہ فوزیہ کی گاڑی میں ------پولیس کی گاڑی کا تعاقب کر کے پولیس اسٹیشن جانے لگی اور پریشانی سے اس کے چہرے کے رنگ اڑچکے تھے پولیس نے فوزیہ اور گاڑی کو حراست میں لے کر قانونی کاروائی شروع کر دی ------اُدھر شارقہ ------فوزیہ پر بے پناہ غصے ہو رہی تھی ------مگر ------ شائد فوزیہ اس سے بے نیاز اس قدر کھوئی ہوئی تھی کہ اسے اپنے آنسوؤں کے گرنے کی خبر تک نہ تھی
٭----------------٭------٭--------------------٭
مقامی رفاہی تنظیم MWF کی ایمبولینس سائرن بجاتی ہوئی رانا ارباز اشرف کے گھر کے سامنے رکی اور اس میں سے ایک لاش نکال کر گھر والوں کے حوالے کی گئی جس پر گھر میں کہرام مچ گیا ------اور ہر طرف فوزیہ کے جاں بحق ہونے کی خبر محلے میں آگ کی طرح پھیل رہی تھی اور گھر میں ایک قیامت صغریٰ بپا تھی ہر طرف فوزیہ کے جاں بحق ہونے پر چہ میگوئیاں ہورہی تھیں اور صف ماتم الگ بچھی ہوئی تھی ------عجیب بلکہ عجیب ترین صورتحال تھی اس سے عداوت بغض اور کینہ رکھنے والے لوگ بھی اس کی خاطر غش کھا کھا کر گر رہے تھے ------جیسے اسکے سب سے زیادہ چاہنے والے تو وہی تھے ------اس کی پڑوسن جو اس پر سب سے زیادہ جز بز ہوا کرتی تھی ------وہ------ اب تک تین دفعہ بے ہوش ہو چکی تھی رو رو کر اور غم سے نڈھال ہو کر ------
بقول احمد ندیم قاسمی صاحب
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ اور بات کہ دفنائیں گے اعزاز ساتھ
یہ ساری صورتحال نہ صرف غم گین تھی بلکہ اس پر فوزیہ کی بیٹی شانزہ اوربیٹے کی معصومیت اور بھولا پن ------اس غم کی حدت میں اور اضافہ کر رہا تھا ------ہر کس وناکس اس پر غم گین تھا
٭----------------٭------٭--------------------٭
عدالت لگی ہوئی تھی اور سب لوگ انہماک کے ساتھ بیٹھے جج کے فیصلے کے انتظار میں تھے اچانک بیٹھے ہوئے حاضرین میں باتیں شروع ہو گئیں اور چند آوازیں بلندہوئیں
_[L:0][L:0][L:0]آڈر ------آڈر------آڈر------کہ کر جج صاحب مخاطب ہوئے
تمام شواہدات کی روشنی میں مجرم کی طرف سے دائر کی جانے والی اپیل پر ورثاء کے تاثرات اور بیان کو مدنظر رکھتے ہوئے مجرم کو مقتولہ فوزیہ زوجہ رانا ارباز اشرف کے لواحقین کو قصاص ادا کرنے کی صورت میں رہا کر دیا جائے اور تین سال تک کے لیے ان کا ڈرائیونگ لائسنس معطل کر دیا جائے تیز رفتاری کے قوانین کے مطابق حسب ضابطہ جرمانہ بھی کی جائے تاکہ آئندہ یہ تیز رفتاری سے باز رہیں اور قوانین کو ملحوظ خاطر رکھ کر ڈرائیونگ کرئیں
دَا کوٹ از ایجرنڈ------عدالت برخاست کی جاتی ہے
طلعت وہ میری ہم نام تھی ------اور کس بے بسی کی موت مری ------کہٹرے سے طلعت کے سہارے اترے ہوئے فوزیہ نے رندھی ہوئی آواز میں کہا------
[L:31][L:0][L:0][L:0]جو خدا کی مرضی
}[L:4 R:0][L:0]نہیں طلعت یہ سب میری خطا ہے ------طلعت یہ میری غلطی ہے؟ ------طلعت پلیز تم مانتے کیوں نہیں؟ یہ میری غلطی ہے؟ ------ہے نا------ہاں ------ٹھیک ہے ------مگر اب تو تم اپنی غلطی کی سزا بھگت چلی ہو ------نا------طلعت سزا سے بچی ہو ں مگر ------گناہ کا داغ تو باقی ہے ابھی ------فوز ------پلیز ------سنبھالو ------خود کو ------؟؟؟------اخباروں میں کتنا چھپا ہو گا تمہارے متعلق ------میڈیا نے کتنا اچھالا ہو گا ------تمھیں ------ہے نا------یہ سب میری وجہ سے ہو ا------میں کس کس سے معافی مانگوں خداورسول،معاشرہ ،فوزیہ گھر والے اسکے چھوٹے چھوٹے بچے ------کتنے لوگوں کو میں نے دکھ دیا فقط اک گناہ سے ------کتنے لوگوں کو ------کتنے لوگوں کو ناراض کیا------؟؟؟
راناارباز اشرف S.A.Kایس اے کے کمپنی کے ہیڈ آفس کی ریسیپشنسٹ کے پاس پہنچ کر بولا
السلامُ علیکم ------جی مجھے طلعت کادوانی صاحب سے ملنا ہے------آپ کا نام------ریسیپشنسٹ نے ایک موٹے سے رجسٹر کی طرف جھکتے ہوئے اور پنسل کو ایک خاص خانے کے وسط میں رکھ کرکچھ لکھنے کے انداز میں پوچھا ------جی راناارباز اشرف ------کس سلسلے میں ملنا ہے ------اس خانے میں تیزی سے کچھ لکھ کر اگلے خانے میں وہ اور پنسل کا سکہ بھی شائد اس انتظار میں تھا کہ کب اور کیا جواب ملتا ہے ؟------اور وہ گویا کوئی لیڈی ڈاکٹر ہے جو نسخہ لکھتے وقت انجکشن کو لکھنے کے بعد موزوں ترین ٹیبلٹس یا اینٹی بائیوٹکس میں سے کسی خاص کا نام لکھنے کے لیے ایک لمحہ کو رکی ہوئی ہے
------جی وہ عدالت والے کیس کے سلسلے میں ملنا تھا------
ریسیپشنسٹ نے ایک دم اسے گھورا------جیسے اس نے کوئی گالی دے دی ہو محترمہ کو ------اس نے انٹر کام پر کسی سے بات کی اور کچھ پوچھااور جواب ملنے پر آفس اٹنڈنٹ کو آواز دی غفور چاچا ------او------غفور چاچا
جی ------جی ------بی بی جی
ان کو بڑے صاحب کے آفس تک پہنچا دو اور خیا ل رہے یہ صاحب کے بہت خاص مہمان ہیں ------
جی بی بی جی ------آپ فکر ہی نہ کریں
آئیے میرے ساتھ ------رانا ارباز اشرف اسکے ساتھ چلنے لگا گویا وہ ایک ٹورسٹ ہے اور ٹورسٹ گائیڈ کے پیچھے چل رہا ہے ------غفور نے آفس کے دروازے سے اندر داخل ہو کر بڑے صاحب کو سلام کیا ------اور کہاصا حب یہ آپ سے ملنے آئے ہیں ------یہ کہہ کر الٹے پاؤں باہر نکل آیا ------آئیے آئیے ------رانا صاحب ------تشریف لائے اتنے میں طلعت کادوانی اپنی سیٹ سے اٹھ کر میز کے گرد سے گزر کر دروازے کے کافی قریب پہنچ گیا تاکہ اس کا استقبال کر سکے ------اس کا استقبال کیا اور اسے صوفے پر بٹھا کر خود پاس ہی بیٹھ گیا اور کوٹ کی جیب سے کچھ نکالتے ------ایک دم رکا ------اور سیکٹری کو انٹر کام پر کچھ کہا اور واپس آکر دوبارہ بیٹھ گیا ------اور------کوٹ کی اندرونی جیب سے ایک چیک بک نکال کر ایک چیک پر پچاس لاکھ کی رقم پر کر کے اس کے نیچے اپنے دستخط کرنے لگا اس کام کو مکمل کرنے کے بعد اس نے چیک کو ایک خاکی لفافے میں بند کیا اور انتہائی عقیدت سے دونوں ہاتھوں میں لفافہ پکڑکر رانا ارباز اشرف کے سپرد کیا ------اتنے میں غفور ڈرنکس اور چاہے کی ٹرالی لے کر آیا اور بیٹھ کر چائے بنانے لگا ------تو------طلعت نے اس کو بھیج کر چائے خود بنانی شروع کی اور گویا ہوا------اس سارے عرصے میں رانا ارباز اشرف بت بنا یہ سب دیکھتا رہا ------اور کچھ حد تک احساس کمتری میں مبتلا ہوتا رہا ------کہ شائد وہ کسی اور دنیا میں جا بسا ہے ------اور یہ سب اسکی آنکھوں کو خیرہ کر رہا تھا ------طلعت نے چاہے بننے تک ------کولڈ ڈرنک اسکی طرف بڑھائی تھی جسے وہ اب تک ختم کر چکا تھا ------نہایت ادب و احترام کے ساتھ ------جیسے ------وہ نہایت مؤ دب شاگرد ہے اور استاد کی طرف سے ملنے والے ایک سوال کے حل کی بجائے اس نے چار مزید سوال بھی حل کردئیے ہوں ------طلعت چائے کی پیالی کو اس کے سامنے رکھتے ہوئے بولا ------رانا صاحب زندگی اور موت تو خدا کے ہاتھ میں ہے ہم سب تو بہانے ہیں ------مگر پھر بھی آپ نے اور آپ کی پوری فیملی نے جواحسان ہمارے اوپر کیا ہے و ہ اتنا بڑا ہے کہ ہم ساری زندگی بھی اسے نہ چکا سکیں گے ------روپے کبھی بھی انسان کا نعم البدل نہیں ہو سکتے مگر انسان ان دونوں چیزوں کو اکٹھا رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور اسی میں زندگی تمام ہوتی ہے کہیں رشتے کم پڑ جاتے ہیں توکہیں روپے کم پڑ جاتے ہیں ------ہم سب تو محنت کر رہے ہیں ------اوپر والا اپنے بہت ہی پیارے بندوںسے کئی گُنا زیادہ آزمائش کرتا ہے جیسے کہ مثال آپ کے سامنے ہے ------میری فیملی پر اُترنے والا غم آپ پر اور آپ کی فیملی پر اُترنے والے گم کا عشر عشیر بھی نہیں ہو سکتا ------کیونکہ ------آپ اسکے زیادہ قریب ہیں اس لیے اس نے آپکو بڑی آزمائش کے لیے چنا ہے ------ایک طرف آپ اس گم کو برداشت کررہے ہیں اور ایک طرف آپ اتنے بڑے صبر کا مظاہرہ کر رہے ہیں ------جو ------کسی حوصلہ مند بے پناہ صابر اور زِیرک انسان ہی کا کام ہو سکتا ہے ------کوئی بھی عام شخص ہوتا تو شائد اتنی بڑی قربانی نہ دیتا ------اور ------اتنا بڑا احسان ہمارے اوپر نہ کرتا آپ یقینا بہت مہان ہیں بہت ہی عظیم دیوتا ہیں ------ارباز یہ زندگی بہت سو کو ملتی ہے مگر اتنا بڑا جگراور اتنا صبر ہر کسی کو نہیں ملتا یہ میرے خیال میں صبر ایوب کا خاص حصہ ہے جو آپ کو عطا ہوا ----ارباز منہ اٹھائے اسے یوں تکے جا رہا تھا جیسے کہ کوئی انہونی ہو رہی ہو اور جیسے کہ وہ کسی عظیم عالم سے واعظ سن رہا ہو اسکے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ اسے یو ںگھر کا فرد سمجھا جائے گااور بات ہو گی وہ ہمہ تن گوش ہو کر پھر طلعت کی بات سننے لگا ------اور ------جس طرح میر ے آقاﷺ نے اپنے چچا ؓ کے قاتلوں کو معاف فرما دیا تھا یہ اس پَرتَو کا خاص فیض آپ کو عطا ہوا ------ورنہ ------یو ں دور پر فتن میں تو بھائی بھائی کا گلہ کاٹ رہا ہے ------اور ------جس دین کو ہمارے لیے ضابطہ حیات ،فلسفہ زندگی اور فلسفہ انقلاب بنایا گیا تھا ------اسکے سینے میں ------تضادات ،تفرقہ اور انتہا پسندی کے ایسے خنجر گھونپ دیے گئے ہیں ------کہ ------مرغ بسمل کی طرح نہ جان جاتی ہے نہ چین اآتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔جس طرح میر ے آقاﷺ نے اپنے چچا ؓ کے قاتلوں کو معاف فرما دیا تھا یہ اس پَرتَو کا خاص فیض آپ کو عطا ہوا ------ورنہ ------یو ں دور پر فتن میں تو بھائی بھائی کا گلہ کاٹ رہا ہے ------اور ------جس دین کو ہمارے لیے ضابطہ حیات ،فلسفہ زندگی اور فلسفہ انقلاب بنایا گیا تھا ------اسکے سینے میں ------تضادات ،تفرقہ اور انتہا پسندی کے ایسے خنجر گھونپ دیے گئے ہیں ------کہ ------مرغ بسمل کی طرح نہ وہ مر رہا ہے اور نہ پوری طرح سے جی رہا ہے ------ہم سب کسی عجیب اور شائد خطرناک بیماری کا شکار ہورہے ہیں کہ ہمارے پاس اکٹھے ہونے کے لیے ------اور ------ اکٹھے رہنے کے لیے ہزاروں وجوحات ہونے کے باوجود ------ہم ------ ان سے صرفِنظر کر کے نہ ہوتے ہوئے بھی لڑائی جھگڑے کے لئے کوئی نہ کوئی وجہ نکال لیتے ہیں ------کبھی ------ذاتی طور پر دانستہ اور کبھی غیر ارادی طور پر یعنی نا دانستہ ------جانے کیوں ہم رخنہ اندازیوں کو ہوا دے رہے ہیں ------یہ ------جانتے ہوئے بھی کہ جس عمارت میں رہتے ہیں اسی کی اینٹیں نکال رہے ہیں گرے گی ------تو اپنے اوپر ہی لیکن کیا کریں ------ان تضادات سے جان چھوٹے تو بندہ کسی سمجھانے والے کے پیچھے چلے ------اب ------تو حالت یہ ہے کہ جو سچے ہیں ان پر بھی شک ہونے لگتا ہے؟؟؟ ------کہ ------ کہیں اپنی دوکان تو نہیں چمکا رہے یا اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد تو نہیں بنا رہے اور میں تو کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ میں جس تنظیم کو ڈونیشن دے رہا ہوں کل کو وہی ملک کے امن کی دشمن تو نہیں بن جائے گی ------لیکن ------خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے ان لوگوں کا کہ جنکی بیس پچیس سالہ کی گئی محنت اور کوشش اتنی صاف اور نکھری ہوئی اور سابقہ ریکارڈ اتنا شاندار ہے امن ، علم اور فلاح عام پھیلانے میں کہ ان کے ورکر یا کارکنوں کو دیکھ کر ہی اطمینان ہونے لگتا ہے کی اب کی بار میری جیب سے نکلنے والے پیسے میرے ان بھائیوں پر خرچ ہوں گئے جن کے پاس میرے جتنی دولت تو نہیں مگر خدا نے ان کے حصے کی جو دولت مجھے دی تھی ان کا حصہ با حفاظت اور صحیح سلامت ان تک پہنچ گیا ہے ------خیر جہاں سیر ہوتا ہے وہاں سوا سیر بھی تو ہوتا ہے ------میں جانتا ہوںکہ آپکی برادری نے آپکو کافی تنگ کیا ہو گا اس مسئلے کے بارے میں کہ بزدل مت بنو!بدلہ لو بدلہ قصاص مت لو ------مگر آپ نے اپنی سوچ سے فیصلہ کیا اور اتنا بڑا فیصلہ کہ جسے کرتے وقت آپ نے جانے کتنے پتھر اپنے دل پر رکھے ہوں ؟؟جانے کتنا صبر کیا ہو گا ------طلعت نے کچھ دیر توقف کی ------اور ------ اس اثناء میں اس نے رانا ارباز اشرف کے چہرے بالخصوص آنکھوں میں دیکھا جہاں کچھ نمی تھی اور اس اچانک دیکھنے پر وہ کچھ حیران اور پریشان ہوا ------جیسے ------وہ کسی کلاس میں بیٹھا ہے لیکچر سن رہا تھا اور پروفیسر کے لیکچر دینے کے بعد اچانک فیڈبیک کے لیے اچانک سوال کر دیا ہو ------کہ ------آپ کو کیا کچھ سمجھ میں آیا ہے ------طلعت پھر گویا ہوا چائے کا آخری گھونٹ لے کر ------رانا صاحب میری خواہش ہے کہ فوزیہ نے جان دے کر ہمیں ایک سوسرے کے قریب کیا ہے ------اگر ------آپ کبھی بھی کہیں بھی کسی بھی مشکل ،تکلیف یا مسئلہ میں اپنی فیملی یا اپنی برادری کے کسی فرد کی نسبت مجھے موقع دیں گے تو میں سمجھوں گا ------کہ ------ میرااور میری بیوی کا قصور اس سے مزید ہلکا ہو گا ------اور ------میں بھر پور درخواست کرتا ہوں کہ آپ مجھ پر یہ مہربانی ضرور فرمایا کریں گے؟؟؟ ------اور اس بات پر طلعت نے چارو ناچار اس سے وعدہ لے لیااور اسے چھوڑنے
ریسیپشن تک آیا ------رانا ارباز اشرف اسے ملنے کے بعد سیدھا بنک پہنچا اور اپنی بیوی کے اکاؤنٹ میں موجود رقم کو اپنے اکاونٹ میں ٹرانسفر کرنے کے لیے مینجر کو درخواست دی ------یہ ------ وہ رقم تھی جواسکے والد کی بچی کھچی پنشن جو اسکی والدہ نے اسے دی تھی شادی کے اخراجات پورے کر کے اور اسکی والدہ کی وفات کے بعد جو فوزیہ کا آبائی گھر بکنے کے بعد اسے ملی اس نے وہ اپنے اکاؤنٹ میں جمع کر رکھی تھی مبلغ ایک لاکھ ستائیس ہزار دو سو نو روپے ------بنک نے کچھ ضروری دستاویزات پر اس کے دستخط لیے اور کچھ ضروری جانچ پڑتا ل کی ------اس دوران اس نے قصاص والی رقم کا چیک بھی اپنے اکاؤنٹ میں جمع کروایا اور جب فوزیہ کے اکاؤنٹ کی رقم اسکے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہو گئی اور مینجر نے فوزیہ کے اکاؤنٹ فارم اور بہی کھاتوں پر اکاؤنٹ کلوزڈ کی مہر لگا ئی ------تو ------وہ وہاں سے اٹھا اور کچھ ضروری دستاویزات اور رسیدیں سنبھالیں اور انکو لے کر بنک سے باہر نکلا اور گھر کی راہ لی
------ ------ ------ ------ ------ ------ ------ ------ ------ ------ ------ ------ ------ ------
رانا ارباز اشرف اسکے بچے اور دیگر تمام گھر والے لان میں بیٹھے تھے اور مغرب کے وقت مختلف اطراف سے اذانوں کی مختلف لَے کے ساتھ آوازیں موصول ہورہی تھیں اور ہر شخص اس وقت اداس اور غم گین حالت کو روکنے میں ناکام تھا بقول شخصے
بچھڑا وہ کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

فوزیہ (ناولٹ)
تحریر
ایم اے رضاؔ
Post Reply

Return to “ناول”