ہزارے کا آتش فشاںاور اس کا حل؟

ملکی اور عالمی‌ سیاست پر ایک نظر
Post Reply
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

ہزارے کا آتش فشاںاور اس کا حل؟

Post by اعجازالحسینی »

پاکستان میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے اس پر پاکستان کا سنجیدہ اور محب وطن طبقہ تو پریشان ہے ہی لیکن ان حالات میں عالم اسلام جن میں ترکی اور سعودی عرب سمیت عرب ممالک چین اور اب وسطی ایشیائی ریاستیں بھی شامل ہیں‘ کے ارباب بست وکشاد سے لے کر عوام تک پاکستان کے متحارب حالات پر نجی ملاقاتوں میں اپنی مایوسی ہی نہیں اتھاہ شدت جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ مغربی ممالک بھی پاکستان کے خلاف اپنے تمام تر تحفظات (RESERVATIONS) کے ساتھ ساتھ پاکستان پر خصوصی نظر رکھے ہوئے ہیں وہ ازراہ مذاق‘ طنزیہ ہمدردی کہتے ہیں.... ”یہ عجب ملک ہے جسے خدا تعالیٰ نے لاتعداد قدرتی وسائل سے مالا مال کر رکھا ہے جس کی سرزمین پر سربفلک پہاڑوں کے سلسلوں سے لے کر سمندروں‘ دریاﺅں اور ندی نالوں تک ایسے گوشے بھی موجود ہیں جو باعث صدر شک فردوس ہیں۔ آج اپنے لئے انرجی بھی پیدا نہیں کر سکتا‘ لیکن آپس میں لڑنے مرنے میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں۔ اس طرح پاکستان کی ہمدردی میں انرجی بحران کے حوالے سے جرمن سفارتخانے نے ایک انتہائی شاندار پمفلٹ بھی شائع کیا ہے‘ جس میں جامع طور پر پاکستان میں موجود انرجی وسائل کا ذکر کیا ہے۔ اسی جرمن سفارتخانے کے ایک ڈپلومیٹ کہنے لگے یہ دنیا کا واحد یعنی (بیوقوف) ملک ہے جو اپنا پانی سمندر کی نذر کر کے ضائع کر رہا ہے‘ لیکن انرجی کے حصول کیلئے ڈیم نہیں بناتا.... پھر وہ اس امر کا بھی اعتراف کرتے ہیں کہ اس ملک کے عوام بڑے توانا اور جی دار بھی ہیں۔ اس ملک میں جب وکلاءکی تحریک اٹھتی ہے تو پورے معاشرے کو متحرک کرتے ہوئے امریکی یورپی پروردہ آمریت کے بتوں کو پاش پاش کر کے جمہوریت کے ساتھ عدلیہ کو بحال کرا لیتی ہے۔ یہ مغربی ڈپلومیٹ ان تضادات پر حیران پریشاں تو کیا دم بخود ہو جاتے ہیں۔ وہ حیران ہیں کہ 17ویں ترمیم کے خاتمے اور 18ویں ترمیم کے اجراءپر انگریز کے دیئے گئے انتظامی نام شمال مغربی سرحدی صوبہ کی بجائے خیبر پختونخوا کے نئے نام کے بعد ہزارہ ڈویژن میں ایک طوفان پیدا ہو گیا ہے‘ جس میں پیر 12 اپریل 2010ءکو ہزارہ کے پاکباز سچے اور پکے پاکستانیوں کا خون بھی شامل ہو گیا ہے۔ یہ خون کیا رنگ لاتا ہے اس پر تبصرہ کرنے سے پہلے میں یہ عرض کروں گا کہ 22 جولائی 1952ءکو لاہور سے براستہ مری‘ نتھیا گلی‘ ایبٹ آباد اور ہری پور سے ہوتا حسن ابدال کو پیچھے چھوڑتا ہوا پشاور پہنچا۔
اب جبکہ 58سال کا عرصہ 22جولائی کو مکمل ہونے والا ہے قومی اور بین الاقوامی سطح پر انسان کتنے ہی نشیب و فراز سے گزر چکا ہے اس نشیب و فراز میں پاکستان کی سیاسی تاریخ کے درخشاں اور خونچکاں دونوں ابواب شامل ہیں۔
5 اپریل 2010ءکو پاکستان کی تاریخ کے ایک نئے آئینی جمہوری باب کا آغاز اٹھارویں ترمیم کی صورت میں ہوا ہے‘ جس کے نتیجے میں اب اس ملک میں فوجی آمریت کے امکانات اگرناپید نہیں تو ان کا امکان نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔ یہ بہت بڑا تاریخی کارنامہ ہے جو بظاہر الجھے ہوئے ناقابل حل مسائل میں گرفتار پاکستانی قوم کے نمائندوں نے انجام دیا ہے۔ ہمارے نزدیک 18ویں ترمیم اعتدال فہم اور فکر وفراست کے راستے کھولنے کیلئے بڑی اہم حیثیت کی حامل ہے۔ اس راستے کو کھولنے میں شمال مغربی صوبہ سرحد کو خیبر پختونخوا نام دینے کے خلاف ہزارہ کے عوام کا شدید ردعمل ہم سب کے گہرے غور وفکر کا متقاضی ہے۔ ہزارہ کے عوام اس ناقابل تصور ردعمل کا کیوں اظہار کر رہے ہیں‘ اسے سمجھنے کیلئے ہمیں کچھ جغرافیائی‘ تاریخی اور لسانی عوامل کو بھی سمجھنا ہو گا۔
1901ءکے بعد جب انگریز نے لسانی کی بجائے اپنے سامراجی انتظامی IMERIALISTIC DESIGNS OR INTERESTSتقاضوں کے مطابق اسے پنجاب سے الگ کر کے نئے صوبے کی بنیاد رکھی تو انہوںنے اس کا نام شمال مغربی اورسرحدی صوبہ رکھ دیا۔ اس میں ہزارہ کا ریجن بھی شامل کردیا گیا۔ ہزارہ ریجن وہی علاقہ ہے جہاں حضرت سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیلؒ اوران کے فکری مریدوں نے سکھوں کے بعد انگریزوں کے خلاف ناقابل تصور جگر داری‘ بے پناہ شجاعت اور ناقابل فراموش شجاعت وشہامت سے کام لیا۔ اس جدوجہد کے اثرات بالخصوص قبائلی علاقوں سمیت ہزارہ کے عوام کے حصے میں آئے اور یہاں کے عوام اسلامی فکر ونظر‘ اسلامی بصیرت اور اسلامی تشخص سے ایسے وابستہ ہوئے کہ اس حقیقت کے باوجود کہ پشاور سے لے کر مردان‘ تخت بھائی‘ شیر گڑھ اور دیر‘ سوات تک ہی نہیں دنیا میں جہاں بھی کہیں پختون ہیں وہ صحیح العقیدہ یا DEDICATED مسلمان ہیں۔ ہزارہ کے عوام بھی اپنے دوسرے پختون بھائیوں سے پیچھے نہ رہے بلکہ کچھ آگے ہی نکل گئے۔ اس پر پختون نسل کے ترین‘ جدون‘ تنولی‘ طاہر خیلی وغیرہ قبائل ہزارے کے شب و روز پر چھا گئے‘ لیکن کوہستان اور بشام کو چھوڑ کر ہزارہ کی بھاری اکثریت نے اپنی زبان ہزارے وال یا ہزارہ ہندکو جو پنجابی زبان سے ملتی جلتی ہے‘ اسے اختیار کر لیا۔ زبان کا یہ اثر ان کے کلچر اور سیاسی فکر ونظر پر بھی بہت گہرا پڑا۔
دوسرا تغیر یہ ہوا کہ ہزارہ ریجن شمال مغربی سرحدی صوبہ کا حصہ ہونے کے باوجود 50/60 میل کا راستہ پنجاب کے اضلاع حسن ابدال‘ کامرہ اور اٹک سے ہوتا ہوا خیر آباد پل (دریائے اٹک) سے ملتا یا پیوستہ ہو جاتا ہے۔ پنجاب کے علاقوں کے راستہ کے بغیر کوئی بھی خیر آباد کا پل جہاں سندھ اور دریائے کابل دونوں دریا آپس میں ملتے ہیں‘ نہیں پہنچ سکتا۔
اس تاریخی‘ لسانی اور جغرافیائی صورتحال کے پیش نظر پشاور سٹی کے سوا ضلع پشاور ہشت نگر (چارسدہ) تنگی‘ مردان‘ صوابی سے لے کرتخت بھائی‘ شیر گڑھ‘ سوات‘ دیر اور چترال وغیرہ جہاں بھی 1935ءکے انڈیا ایکٹ کے تحت انتخابات ہوئے‘ تو ان متذکرہ علاقوں کی اکثریت نے (سرخ پوشوں‘ خدائی خدمت گاروں .... یعنی کانگرس کا ساتھ دیا‘ جبکہ ہزارہ جو ابھی تک ایبٹ آباد‘ مانسہرہ وغیرہ کے اضلاع میں تقسیم نہیں ہوا تھا اس کی بھاری اکثریت نے پہلے سرصاحبزادہ عبدالقیوم خان مرحوم اور اس کے بعد مسلم لیگ کا ساتھ دیا۔ جب تحریک پاکستان کا آغاز ہوا تو ہزارہ کے عوام نے اس تحریک کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ کر لیا‘ یہی کیفیت اور یہی جذبہ ہزارے کے عوام کی بھاری اکثریت کے ساتھ ریفرنڈم کے موقع پر بھی دیکھنے میں آیا۔ گویا ذہنی طور پر ہزارہ کے عوام مسلم لیگی ذہن کے حامل قرار دیئے جانے لگے۔ اس تسلسل میں میاں نواز شریف کو سعودی عرب جلاوطنی سے پہلے اور بعدازاں ہر انتخاب میں بڑی بھرپور کامیابی ہوئی‘ بلکہ میاں صاحب کا وجود اور نام ہی مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کا ضامن ٹھہرا‘ لیکن اسے گردش زمانہ ہی کہنا چاہئے کہ جس خطے کو میاں نواز شریف کے نام پر کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا .... دو تین ماہ قبل مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کو بڑی بری شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی کئی ایک وجوہ تھیں جن میں میاں صاحب کا اپنے داماد کیپٹن صفدر کے بھائی کو ٹکٹ دینا تھا‘ ویسے بھی مانسہرہ کے عوام کیپٹن صفدر سے ان کے رویہ سے سخت نالاں ہو چکے ہوئے تھے۔ عام طور پر یہ کہا جا رہا تھا کہ کیپٹن صفدر کا غرور وتکبر انتہا کو پہنچا ہوا ہے۔ ان کے خلاف یہ باتیں بھی ہزارہ میں کی جا رہی تھیں کہ کیپٹن صفدر کے بھائی اور عزیز واقارب مال بنانے میں لگے ہوئے ہیں‘ چنانچہ کیپٹن صفدر کے دو انتخابی امیدواروں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا‘ لیکن میاں صاحب جو ہمارے ملک کے اکثر سیاستدانوں کی طرح حقائق سے دور ہو چکے ہوئے تھے‘ حقائق کو نہ سمجھ سکے۔ اس کے علاوہ خود ان کی اپنی جماعتی صفوں میں باہمی بے اعتمادی اور حسدو عناد نے جنم لینا شروع کر دیا۔ اس میںبالخصوص سردار مہتاب احمد خان عباسی کا نشہ¿ اقتدار بھی مسلم لیگ کی جڑیں ہلانے کا باعث بنا۔
آخری بات یہ ہوئی کہ خود جلاوطنی کے بعد میاں نواز شریف نے نہ صرف ہزارے سے رابطہ و تعلق توڑ رکھا تھا‘ بلکہ انہوں نے ہزارہ سمیت صوبہ سرحد کے (خیبر پختونخوا) کا کوئی دورہ نہ کیا ‘ چنانچہ مانسہرہ کی نشست ہار گئے۔
میاں صاحب کی خود فراموشی اور سیاسی استکبار کے بارے میں یہ شکایات صرف سرحد تک محدود نہیں‘ بلکہ ایک قومی لیڈر ہونے کی وجہ سے بہت سے دوسرے گوشوں میں بھی یہی کیفیت ہے۔ اگر میاں صاحب کا رابطہ ہزارہ کے عوام سے نہ ٹوٹتا تو شاید یہ حالات پیدا نہ ہوتے۔ بدقسمتی یہ ہوئی کہ ہزارہ میں 18ویں ترمیم کی منظوری کے بعد جو صورت حال پیدا ہوئی اسے مسلم لیگ (ق) کے رہنماﺅں نے جو پرویز مشرف کی مونچھ کا بال اور ان کی سیاسی ہوس رانیوں پر ہر وقت فدا ہو رہے تھے اور اسے تادم مرگ پاکستان کا صدر بنانے پر تلے ہوئے تھے۔ عوام میں اپنی حیثیت کھو بیٹھے تھے ہزارے کی نئی صورتحال کو ایکسپلائٹ کرنے کا سب سے بڑا ہتھیار بن گئے‘ اگر ان کے دل میں وطن عزیز کا حقیقی درد ہوتا تو وہ بے شک ہزارہ کو الگ صوبہ کا درجہ دینے کی حمایت کرتے‘ لیکن وہ جلتی پر پٹرول ڈالنے کا باعث نہ بنتے اور قومی استحکام کا رہنما یا نہ کردار انجام دیتے۔ اسی طرح اس موقع پر اے این پی کی حکومت کا مو¿قف تو واضح رہا‘ لیکن اے این پی کی قیادت نے غلط راستہ تلاش کر لیا۔ چنانچہ 10اپریل کو صوابی جو اے این پی کا STRONG HOLD قرار دیا جاتا ہے‘ اے این پی کے قائد اول سینیٹر اسفند یار ولی نے جہاں ہزارہ کے عوام کو اے این پی کی طرف سے یقین دہانی کرانے کا اعلان کیا کہ ہم ہزارہ کے عوام کے ساتھ مل بیٹھ کر ان کے مسائل حل کریں گے۔ وہیں انہوں نے ایک عجیب وغریب بات کہہ دی کہ ”ہم سرائیکی صوبہ کے قیام کی حمایت تو کرتے ہیں جبکہ ہم ہزارہ کو صوبائی درجہ دینے کے مطالبہ کو مسترد کرتے ہیں....!“ اس واضح تضاد کی وجہ سے اس کا حاصل یہ نکلا کہ اے این پی جو پہلے ہی ہزارہ میں مقبول نہیں تھی‘ انکے خلاف بے اعتمادی کو مزید تقویت حاصل ہو گئی۔
بات واضح تھی کہ اگر اسفند یار خان صاحب لسانی بنیادوں پر سرائیکی صوبہ کے قیام کو جائز قرار دیتے ہیں تو ہزارہ صوبہ کے قیام کے کیوں مخالف ہیں؟ ہزارے کو نیا صوبہ کا درجہ دینے کیلئے وہاں کے عوام صدر زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو بھی بخشنے کیلئے تیار نہیں کہ انہوںنے ہزارہ سے کہیں کم آبادی والے علاقہ کو صوبائی درجے دینے کیلئے سر دھڑ کی بازی لگا دی۔ وزیر اعظم انتخابی مہم میں بھی حصہ لیتے رہے‘ لیکن ہزارے کے عوام نے کیا قصور کیا ہے وہ کہتے ہیں جب ہم ہزارے کا الگ صوبہ کا مطالبہ کرتے ہیں تو ہمارا مطالبہ کیوں نہیں ماناجاتا۔ہم پاکستان سے علیحدگی کا مطالبہ تو نہیں کر رہے ہوتے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ قتل وغارت گری‘ لوٹ مار اور لاقانونیت کی جو فضا پیدا ہو گئی ہے اس سے عہدہ برآ ہونے کے لئے ہم سب کو مل کر غیر معمولی اقدامات کرنا ہوں گے۔ اب ہزارہ کے مشتعل عوام کے آتشیں جذبات پر اختلافات انتقام اور بدلے کا پٹرول ڈالنے کی بجائے محبت‘ مفاہمت‘ حب الوطنی کا پانی ڈالنا چاہئے اور وہاں کے عوام کو پاکستان کی آنے والی نسلوں کے درخشاں مستقبل کا راستہ اختیار کرنے پر آمادہ کیا جائے۔
ہم جانتے ہیں کہ اس تحریک میں بابا حیدر زمان قسم کے کئی آتش فشاں موجود ہیں‘ لیکن بابا حیدر زمان سمیت ہزارہ صوبہ کی تحریک کے دوسرے آتش فشاں سچے اور پکے پاکستانی بھی ہیں تو اس نازک ترین موقع پر پاکستان کو سنگین مسائل سے نکالنے کا تاریخ ساز کردار انجام دے سکتے ہیں۔

نوائے وقت
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
انصاری آفاق احمد
مشاق
مشاق
Posts: 1263
Joined: Sun Oct 25, 2009 6:48 am
جنس:: مرد
Location: India maharastra nasik malegaon
Contact:

Re: ہزارے کا آتش فشاںاور اس کا حل؟

Post by انصاری آفاق احمد »

:cry: :cry: :cry: :cry: :cry: :cry:
یا اللہ تعالٰی بدگمانی سے بد اعمالی سےغیبت سےعافیت کے ساتھ بچا.
Image
Post Reply

Return to “سیاست”