میری کتاب کی تیاریاں. از خرم ابن شبیر
Posted: Mon Apr 12, 2010 3:07 am
"تحریریں" سے کچھ سمجھ نہیںآیا کسی کی تحریریں منتخب تحریریں یا اپنی تحریریں خیر کچھ بھی ہو میں نے یہاں اپنی بونگی مار ہی دی ہے آج پہلی حاضری ہے اس لیے معاف کر دیجئے گا آئندہ خیال رکھا جائے گا جزاک اللہ
[center]میری کتاب کی تیاریاں[/center]
میں جب گھر میں داخل ہوا تو گھر میں رونق لگی ہوئی تھی شاہد میری ہی کوئی بات چل رہی تھی۔ کیونکہ میرے اندر آتے ہی یاسر نے کہا
“لو جی شاعر صاحب آ گے ہیں”
یاسر میرا کزن ہے بہت ہی ہنس مکھ ہے اور اس کا ساتھ ہمیشہ عمر دیا کرتا ہے عمر میرا چھوٹا بھائی ہے ان دونوں کی جوڑی مشہور ہے کسی کو آگے نہیں نکلنے دیتے۔ آج بھی دونوں ایک ساتھ ہی بیٹھے ہوئے تھے مجھے لگا کوئی نیا ڈرامہ شروع ہے میرے خلاف لیکن جب ابو جی اور چچا جی کو بھی ساتھ بیٹھے دیکھا تو کچھ سکون ہوا مجھے کیا پتہ تھا آج سب ہی تماشائی بنے ہوئے ہیں۔یاسر پھر بولا
” جی جی خرم شہزاد خرم صاحب یہاں آئیں آپ چچا کے ساتھ بیٹھے بہت ضروری بات کرنی ہے آپ سے”
سب بہت سنجیدہ تھے لیکن مجھے دال میں کچھ کالا لگ رہا تھا جب یہ دونوں بہت سنجیدہ ہوتے تھے تو مجھے ضروری نشانہ بناتے تھے اور آج بھی مجھے اسی طرح کے نشانے کا انتظار تھا۔ اتنے میں عمر بولا
“یار کہاں تھے تم تمہاری ہی باتیں ہو رہی تھی آج ہم نے تمہاری خاطر ایک پروگرام بنایا ہے”
میں حیران ہو کربولا
“کیا”
کہنے لگا
“پہلے تم بتاؤ تمہاری شاعری کتنی ہے میرا مطلب ہے غزلیں اور نظمیں کتنی ہیں”
مجھے پھر ایسا لگا جیسے میرے ساتھ کوئی بہت بڑا مذاق ہونے والا ہے اس لیے میں نے بات ہنسی میں ٹال دی۔ لیکن وہ دونوں بھی بہت تیز تھے انھوں نے اب کے بہت بڑا شکار کیا تھا اور اس شکار میں ابو جی اور چچا جی بھی شامل تھے۔ لیکن میں ان پر شک نہیں کر سکتا تھا ویسے تو سب ہی میرے ساتھ مذاق کرتے تھے لیکن سنجیدہ ہو کر کبھی مذاق نہیں کیا یہ پہلا واقعہ تھا
“یار خرم کبھی تو سنجیدہ ہو جایا کرو بتاؤ نا تمہاری شاعری کتنی ہے”
جو کبھی خود سنجیدہ نہیں ہوئے وہ مجھے سنجیدہ ہونے کا کہہ رہے تھے میں سمجھنے سے قاصر تھا خیر پھر بھی سنجیدہ ہوا اور بولا
“کچھ تیس چالیس کے قریب ہونگی غزلیں اور نظمیں ”
پھر یاسر بولا
“کتاب شائع کرنے کے لیے کتنی شاعری کی ضرورت ہے”
میں ہنس کر بولا خیر ہے آج بڑے سنجیدہ ہو
تو یاسر نے عمر کی طرف دیکھا اور پھر عمر بولا
” یار میں آج چچا سے بات کر رہا تھا کہ تمہاری غزلیں اور نظمیں اخبار میں آتی ہیں کیوں نا تمہاری کتاب شائع کریں ہمارے خاندان میں بھی کوئی شاعر نازل ہو ہم بھی کہہ سکیں کے ہمارا بھائی شاعری ہے”
اتنے میں چچا نے پوچھا
کتنے پیسے لگ جاتے ہیں کتاب شائع کروانے میں
جب چچا بولے تو میں سنجیدہ ہو گیا اور کہا چچا جی کتاب شائع کروانا مشکل کام نہیں ہے لیکن مجھے ابھی اساتذہ کی طرف سے اجازت نہیں ہے
خیر کچھ دیر ہماری آپس میں گفتگو ہوئی اور پھر آخر میں یاسر اور عمر نے فیصلہ کیا۔
” ہم مل کر خرم کی کتاب شائع کریں گے ہم نے آج سارا دن اسی پر سرچ کیا ہے اور سروے بھی کیا ہے میری دو تین ڈیلروں سے بات بھی ہوئی ہے وہ خرم کی کتاب ہاتھوں ہاتھ لیں گے ہمیں بہت فائدہ ہوگا”
میں حیران ہو کر ان دونوں کی طرف دیکھنے لگا
چچا کے چہرے پر کچھ مسکراہٹ آ گی اور میرا شک یقین میں بدل گیا مجھے یقین ہو گیا یہ کوئی بڑا ڈرامہ ہے
اور پر آخر میں عمر اور یاسر نے کہا ہماری بات ہوئی ہے صوفی سموسے والے کے ساتھ اور چچا مشتاق کے ساتھ
وہ آپ کی کتابیں ہاتھوں ہاتھ لیں گے
صوفی سموسے والے انکل تمہاری کتاب کے صفحوں کے اوپر سموسے پکوڑے رکھ کر سیل کریں گے اور چچا مشتاق اپنی دوکان کے لیے لفافے بنائیں گے
خرم ابن شبیر
[center]میری کتاب کی تیاریاں[/center]
میں جب گھر میں داخل ہوا تو گھر میں رونق لگی ہوئی تھی شاہد میری ہی کوئی بات چل رہی تھی۔ کیونکہ میرے اندر آتے ہی یاسر نے کہا
“لو جی شاعر صاحب آ گے ہیں”
یاسر میرا کزن ہے بہت ہی ہنس مکھ ہے اور اس کا ساتھ ہمیشہ عمر دیا کرتا ہے عمر میرا چھوٹا بھائی ہے ان دونوں کی جوڑی مشہور ہے کسی کو آگے نہیں نکلنے دیتے۔ آج بھی دونوں ایک ساتھ ہی بیٹھے ہوئے تھے مجھے لگا کوئی نیا ڈرامہ شروع ہے میرے خلاف لیکن جب ابو جی اور چچا جی کو بھی ساتھ بیٹھے دیکھا تو کچھ سکون ہوا مجھے کیا پتہ تھا آج سب ہی تماشائی بنے ہوئے ہیں۔یاسر پھر بولا
” جی جی خرم شہزاد خرم صاحب یہاں آئیں آپ چچا کے ساتھ بیٹھے بہت ضروری بات کرنی ہے آپ سے”
سب بہت سنجیدہ تھے لیکن مجھے دال میں کچھ کالا لگ رہا تھا جب یہ دونوں بہت سنجیدہ ہوتے تھے تو مجھے ضروری نشانہ بناتے تھے اور آج بھی مجھے اسی طرح کے نشانے کا انتظار تھا۔ اتنے میں عمر بولا
“یار کہاں تھے تم تمہاری ہی باتیں ہو رہی تھی آج ہم نے تمہاری خاطر ایک پروگرام بنایا ہے”
میں حیران ہو کربولا
“کیا”
کہنے لگا
“پہلے تم بتاؤ تمہاری شاعری کتنی ہے میرا مطلب ہے غزلیں اور نظمیں کتنی ہیں”
مجھے پھر ایسا لگا جیسے میرے ساتھ کوئی بہت بڑا مذاق ہونے والا ہے اس لیے میں نے بات ہنسی میں ٹال دی۔ لیکن وہ دونوں بھی بہت تیز تھے انھوں نے اب کے بہت بڑا شکار کیا تھا اور اس شکار میں ابو جی اور چچا جی بھی شامل تھے۔ لیکن میں ان پر شک نہیں کر سکتا تھا ویسے تو سب ہی میرے ساتھ مذاق کرتے تھے لیکن سنجیدہ ہو کر کبھی مذاق نہیں کیا یہ پہلا واقعہ تھا
“یار خرم کبھی تو سنجیدہ ہو جایا کرو بتاؤ نا تمہاری شاعری کتنی ہے”
جو کبھی خود سنجیدہ نہیں ہوئے وہ مجھے سنجیدہ ہونے کا کہہ رہے تھے میں سمجھنے سے قاصر تھا خیر پھر بھی سنجیدہ ہوا اور بولا
“کچھ تیس چالیس کے قریب ہونگی غزلیں اور نظمیں ”
پھر یاسر بولا
“کتاب شائع کرنے کے لیے کتنی شاعری کی ضرورت ہے”
میں ہنس کر بولا خیر ہے آج بڑے سنجیدہ ہو
تو یاسر نے عمر کی طرف دیکھا اور پھر عمر بولا
” یار میں آج چچا سے بات کر رہا تھا کہ تمہاری غزلیں اور نظمیں اخبار میں آتی ہیں کیوں نا تمہاری کتاب شائع کریں ہمارے خاندان میں بھی کوئی شاعر نازل ہو ہم بھی کہہ سکیں کے ہمارا بھائی شاعری ہے”
اتنے میں چچا نے پوچھا
کتنے پیسے لگ جاتے ہیں کتاب شائع کروانے میں
جب چچا بولے تو میں سنجیدہ ہو گیا اور کہا چچا جی کتاب شائع کروانا مشکل کام نہیں ہے لیکن مجھے ابھی اساتذہ کی طرف سے اجازت نہیں ہے
خیر کچھ دیر ہماری آپس میں گفتگو ہوئی اور پھر آخر میں یاسر اور عمر نے فیصلہ کیا۔
” ہم مل کر خرم کی کتاب شائع کریں گے ہم نے آج سارا دن اسی پر سرچ کیا ہے اور سروے بھی کیا ہے میری دو تین ڈیلروں سے بات بھی ہوئی ہے وہ خرم کی کتاب ہاتھوں ہاتھ لیں گے ہمیں بہت فائدہ ہوگا”
میں حیران ہو کر ان دونوں کی طرف دیکھنے لگا
چچا کے چہرے پر کچھ مسکراہٹ آ گی اور میرا شک یقین میں بدل گیا مجھے یقین ہو گیا یہ کوئی بڑا ڈرامہ ہے
اور پر آخر میں عمر اور یاسر نے کہا ہماری بات ہوئی ہے صوفی سموسے والے کے ساتھ اور چچا مشتاق کے ساتھ
وہ آپ کی کتابیں ہاتھوں ہاتھ لیں گے
صوفی سموسے والے انکل تمہاری کتاب کے صفحوں کے اوپر سموسے پکوڑے رکھ کر سیل کریں گے اور چچا مشتاق اپنی دوکان کے لیے لفافے بنائیں گے
خرم ابن شبیر