اردومحفل پر تعارف اور انٹرویو
Posted: Fri Jul 25, 2008 12:35 pm
یہ انٹرویو اردو محفل پر5جولائی 2008کو شائع ہوا۔ محفل کے شکریے کے ساتھ یہاں پوسٹ کر رہا ہوں۔(خاور)
تعارف اورانٹرویو:
سجاد علی
(تعارف)
خاورچودھری منجھے ہوئے صحافی اور ادیب ہیں۔اُن کی تحریریں ملک کے کئی ایک ادبی جراید میں کئی برسوں سے شائع ہورہی ہیں۔علاقہ چھچھ ایسے خطے میں جہاں علمی وادبی حوالے سے کوئی فضا ہی نہیں ہے ،وہ نہ صرف اپنی علمی و ادبی خدمات جاری رکھے ہوئے ہیں بلکہ انھوں نے شعروادب کے فروغ کے لیے ادبی رسالے اور اخبارات کااجرا کیااور ساتھ ساتھ صحافت کے شعبے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔
خاورچودھری نے زمانہ ٴ طالب علمی میں ہی لکھنااورچھپنا شروع کردیا تھا۔انھوں نے ڈائجسٹوں میں کہانیاں اور مختصرمضامین لکھے ۔نعتیں کہیں جو 1990ء میں شمعِ فروزاں کے عنوان سے شائع ہوئیں۔اُس وقت خاورچودھری فنِ شاعری سے پوری طرح آگاہ نہیں تھے۔کیوں کہ مقامی طور پر کوئی باقاعدہ فضا نہیں تھی جس سے انھیں سیکھنے میں مدد ملتی۔ کتاب چھب جانے کے بعد ان کارابطہ کراچی کے معروف شاعرڈاکٹرمبارک بقاپوری(مرحوم) سے ہوا۔اُن سے خط و کتابت کے ذریعے انھوں نے علم ِعروض میں راہنمائی لی اوراپناسفرجاری رکھا۔اس دوران وہ راولپنڈی سے شائع ہونے والے ہفت روزہ اخبار” راولپنڈی ویوز“ کے ساتھ بہ طور بیوروچیف منسلک ہوگئے۔اس اخبار میں اُن کا کلام اور کالم چھپتے رہے۔انھی دنوں وہ کھاریاں سے چھپنے والے”کھاریاں ٹائمز“ اور”قلم قافلہ“ کے بھی بیوروچیف مقرر ہوئے۔ بعدازاں جب وہ1994ء میں کراچی گئے تو وہاں ڈاکٹرصاحب سے مسلسل ملاقاتوں میں ان کی قوتِ گویائی مزید نکھر کر سامنے آئی۔اس عرصہ میں خاورچودھری نے مشاعروں میں بھی شرکت کی مگراُن کی زیادہ توجہ چھپنے کی طرف ہی رہی۔
کراچی سے پلٹے تواسلام آباد کی ایک نیوز ایجنسی” ایشین نیوز نیٹ ورک“ کے ساتھ بہ طورنامہ نگار منسلک ہو گئے۔کچھ عرصہ خدمات سرانجام دیں۔ پھر کنارہ کش ہو گئے۔کیوں کہ اس پلیٹ فارم سے وہ اپنے خطے کی مناسب انداز سے خدمت نہیں کر سکتے تھے۔اس حوالے سے وہ اپنے نوجوان دوست فہیم احمد سے اکثرگفتگو کرتے۔اُن کا خیال تھا جب تک ”حضرو“ شہر سے موٴثرآوازبلند نہیں ہوگی ملکی منظرنامے میں ہماری شناخت مشکل ہوگی۔ان دوستوں کے درمیان طے پایا کہ ” تقلیب“ کے نام سے ادبی رسالہ شروع کیاجائے جواس کمی کوپورے کرنے کی کوشش کرے گا۔لیکن یہ منصوبہ نہ شروع ہو سکا۔کچھ عرصہ بعدان کی سوچ میں تبدیلی آئی اور انھوں نے شہر سے اخبار جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انھوں نے حکومت سے باقاعدہ اجازت لی اور 14اگست1998ء کو یہاں سے پہلا باقاعدہ ہفت روزہ اخبار” حضرو“ نکالا۔کچھ مقامی دوستوں کو ساتھ ملایامگروہ زیادہ عرصہ ساتھ نہ دے سکے اور یہ ”ون مین شو“کرتے رہے۔ایک سال تک کامیابی سے حضرواخبارچلایا ۔اسی عرصہ میں انھوں نے اپنے استاذمرحوم کی شاعری کا مجموعہ” جیون صحرا“ کے نام سے شائع کیا۔ اس مشنری اخبارنے خاور# کوسخت مالی بحران کا شکار کردیا۔ اس لیے انھوں نے محمداعظم خان کواخبار میں شریک کرلیامگریہ شراکت انھیں مزید مسائل میں الجھا گئی ، یوں انھوں نے اخبار سے علیحدگی اختیارکرلی۔
سال بھر مقامی صحافت سے کنارہ کش رہے مگرقومی اخبارات میں کالم لکھتے رہے۔تاہم یہ کنارہ کشی دیرپا ثابت نہ ہوئی اور انھوں نے ایک ادبی رسالہ” سحرتاب“ جاری کردیا۔اس رسالے میں برصغیر کے نام ورلوگوں کی نگارشات شامل کیں مگر یہاں انھیں خسارے کے سوا کچھ نہ ملا۔صرف دو ہی شمارے شائع کرنے کے بعد اپنی پوٹلی سمیٹ کر بیٹھ گئے۔
سن2000ء وہ ایک بارپھرصحافتی میدان میں اُترے اوراَب ” تِیسرارُخ“ کے نام سے ہفت روزہ شروع کیا۔اس اخبار کواپنی سنجیدگی کی بناپر انفرادیت حاصل ہوئی۔مقامی طورپرتواس اخبارنے بہترین خدمات انجام دی ہیں قومی سطح پراس نے ادبی لوگوں سے موٴثر رابطہ قائم کرکے حضرو کی شہرت کو چارچاند لگائے۔اخبارکے ادبی ایڈیشن کو زبردست پذیرائی ملی۔اخبار نے ڈاکٹرانورسدید،مشکورحسین یاد،قاضی جاوید،اُمراوٴطارق،احمدصضی رصدیقی،عذرا اصغر، ڈاکٹرمرزاحامدبیگ، ڈاکٹرانعام الحق جاوید،اکبرحمیدی، سلطان سکون اور آصف ثاقب جیسی نام ور شخصیات سمیت نصف صد کے قریب ادیبوں کے انٹرویوشائع کیے۔ملک بھر سے ادیب اپنی تحریریں بھیجتے۔یہی دن تھے جب اخبار کو ہفت روزہ سے روزنامہ میں بدل دیا گیا۔کچھ عرصہ روزنامہ ” تِیسرارُخ“ شائع ہوتا رہا۔محدودعلمی پس منظر کے حامل شہر میں مقامی روزنامہ کی کھپت مشکل تھی۔اس مرتبہ خاورچودھری نے راولپنڈی کارُخ کیا اور وہاں سے روزنامہ” تعلّم“ جاری کر دیا۔ اور تِیسرارُخ کو واپس ہفت روزہ میں تبدیل کردیا۔
ڈیڑھ سال تک روزنامہ تعلّم اور ہفت روزہ تیِسرارُخ محدود پیمانے پر شائع ہوتے رہے پھر ان کی اشاعتوں میں تعطل آنے لگا۔جمع پونجی ٹھکانے لگانے کے بعدخاورچودھری ایک بار پھر پرسمیٹ کر بیٹھ گئے مگریہ اخبارات کسی نہ کسی طرح چھپ رہے ہیں۔کچھ عرصہ پہلے تیسرارُخ نے معروف علمی شخصیت ڈاکٹرارشدمحمودناشادکے حوالے سے خصوصی نمبر بھی شائع کیا۔
سحرتاب کے اجرا کے ساتھ ہی انھوں نے ”سحرتاب پبلی کیشنز“ کے نام سے اشاعتی ادارے کا ڈول ڈالا۔ اس ادارے نے”جیون صحرا“ ، ”دوچاردل کی باتیں“،”بغیرتیرے“،”خواب ،کرچیاں اور مسافر“،”ٹھنداسورج“ اور ”چراغ بہ کف“ جیسی کتابیں شائع کیں۔اشاعتی ادارے کایہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔تیسرارُخ میں چھپنے والے مشاہیر کے ادبی انٹرویوز کو یک جا کر کے شائع کرنا بھی ادارے کے منصوبوں میں شامل ہے۔
سن2005ء میں خاور# چودھری نے قومی اخبارات کے لیے باقاعدہ کالم نویسی شروع کی۔اس عرصہ میں ”چراغ بہ کف“ کے عنوان سے اُن کے کالم روزنامہ نوائے وقت،روزنامہ اوصاف،روزنامہ اذکار،روزنامہ اسلام، روزنامہ ہمدرد میں شائع ہوتے رہے۔جنگ میں بھی ان کے کچھ کالم شائع ہوئے۔مئی2005ء میں روزنامہ”اسلام “ کے ساتھ باقاعدہ طورپر منسلک ہوگئے اور بامعاوضہ کالم لکھناشروع کیا۔ہردوسرے دن ان کا کالم چھپنے لگا۔اخبار نے انھیں اضافی ذمہ داری دے کر اٹک ضلع کے لیے بیوروچیف بھی بنادیا۔تب سے اب تک ان کے ہزاروں کالم شائع ہوچکے ہیں۔یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
کچھ عرصہ پہلے خاورچودھری نے انٹرنیٹ پر بھی لکھنا شروع کیا۔وہ معروف براڈ کاسٹرصفدرہمدانی کی ویب سائٹ کے لیے کالم بھی لکھتے ہیں اور بلاگ بھی۔علمی ادبی ویب سائٹ ”القلم“ کے شعبہ اَدب کے مدیرہیں اور”اُردونامہ“ ویب سائٹ کے ناظم۔حال ہی میں ”اُردو محفل“ نے اُن کے لیے سال کے بہترین لکھاری کا اعلان کیا ہے۔
خاورچودھری حضروپریس کلب(رجسٹرڈ) کے جنرل سیکرٹری ہیں۔اس سے پہلے وہ نائب صدرکی حیثیت سے فرائض انجام دے چکے ہیں۔ادبی تنظیم بزمِ علم وفن کے بھی سیکرٹری جنرل ہیں۔
خاورچودھری نے ادبی میدان میں اپنے کام کاآغازکہانی نویسی اورشعرگوئی سے ایک ساتھ کیا۔شروع میں انھوں نے نعتیں کہیں۔پھرغزل اورنظم کی طرف آگئے۔بعد میں ہائیکو،ماہیا،دوہااورواکاب ھی کہے۔نثری اَدب میں انھوں نے پہلے ایک طویل ناولٹ” زنگ آلودخواہشیں “لکھا،جو1996ء کوایک ڈائجسٹ میں شائع ہوچکا ہے۔پھرافسانے بھی لکھے۔
خاورچودھری کی شخصیت اور فن کے حوالے سے بیسیوں علمی و ادبی شخصیات نے مضامین لکھے اورتاثرات بیان کیے۔ان میں پروفیسرڈاکٹرفرمان فتح پوری،محسن بھوپالی،سلطان جمیل نسیم،سلطان سکون،پروفیسرڈاکٹرارشدمحمو دناشاد، آصف ثاقب،عذرا اصغر،محمدحامدسراج،ملک حق نوازخاں،احسان بن مجید،دُردانہ نوشین خان، پروفیسرہارون الرشید، پروفیسرملک محمداعظم خالد،طفیل کمالزئی اورپروفیسرعامرسہیل بھی شامل ہیں۔حال ہی میں انڈیا سے شائع ہونے والے سہ ماہی ”سمت“ نے خاورچودھری کے حوالے سے خصوصی گوشے کی اشاعت کا اعلان کیا ہے۔(مذکورہ گوشہ شائع ہوچکا ہے)
خاورچودھری کی تصانیف یہ ہیں:
(1) خواب،کرچیاں اور مسافر (کالم/مطبوعہ نومبر2001ء۔سحرتاب پبلی کیشنز)
(2) ٹھنڈا سورج (شاعری/مطبوعہ جنوری2006ء۔سحرتاب پبلی کیشنز)
(3) چراغ بہ کف (کالم/ مطبوعہ نومبر2007ء۔سحرتاب پبلی کیشنز)
(4) چیخوں میں دبی آواز (افسانے/جنوری2008ء۔مثال پبلشرز،فیصل آباد)
غیرمطبوعہ تصانیف:
(1) پریم جل (دوہا)
(2) نہ جنوں رہا (غزلیات)
(3) امید (واکا)
(4) زنگ آلودخواہشیں (ناولٹ)
(5) گفتگوئے یار (انٹرویوز)
________________________
تعارف اورانٹرویو:
سجاد علی
(تعارف)
خاورچودھری منجھے ہوئے صحافی اور ادیب ہیں۔اُن کی تحریریں ملک کے کئی ایک ادبی جراید میں کئی برسوں سے شائع ہورہی ہیں۔علاقہ چھچھ ایسے خطے میں جہاں علمی وادبی حوالے سے کوئی فضا ہی نہیں ہے ،وہ نہ صرف اپنی علمی و ادبی خدمات جاری رکھے ہوئے ہیں بلکہ انھوں نے شعروادب کے فروغ کے لیے ادبی رسالے اور اخبارات کااجرا کیااور ساتھ ساتھ صحافت کے شعبے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔
خاورچودھری نے زمانہ ٴ طالب علمی میں ہی لکھنااورچھپنا شروع کردیا تھا۔انھوں نے ڈائجسٹوں میں کہانیاں اور مختصرمضامین لکھے ۔نعتیں کہیں جو 1990ء میں شمعِ فروزاں کے عنوان سے شائع ہوئیں۔اُس وقت خاورچودھری فنِ شاعری سے پوری طرح آگاہ نہیں تھے۔کیوں کہ مقامی طور پر کوئی باقاعدہ فضا نہیں تھی جس سے انھیں سیکھنے میں مدد ملتی۔ کتاب چھب جانے کے بعد ان کارابطہ کراچی کے معروف شاعرڈاکٹرمبارک بقاپوری(مرحوم) سے ہوا۔اُن سے خط و کتابت کے ذریعے انھوں نے علم ِعروض میں راہنمائی لی اوراپناسفرجاری رکھا۔اس دوران وہ راولپنڈی سے شائع ہونے والے ہفت روزہ اخبار” راولپنڈی ویوز“ کے ساتھ بہ طور بیوروچیف منسلک ہوگئے۔اس اخبار میں اُن کا کلام اور کالم چھپتے رہے۔انھی دنوں وہ کھاریاں سے چھپنے والے”کھاریاں ٹائمز“ اور”قلم قافلہ“ کے بھی بیوروچیف مقرر ہوئے۔ بعدازاں جب وہ1994ء میں کراچی گئے تو وہاں ڈاکٹرصاحب سے مسلسل ملاقاتوں میں ان کی قوتِ گویائی مزید نکھر کر سامنے آئی۔اس عرصہ میں خاورچودھری نے مشاعروں میں بھی شرکت کی مگراُن کی زیادہ توجہ چھپنے کی طرف ہی رہی۔
کراچی سے پلٹے تواسلام آباد کی ایک نیوز ایجنسی” ایشین نیوز نیٹ ورک“ کے ساتھ بہ طورنامہ نگار منسلک ہو گئے۔کچھ عرصہ خدمات سرانجام دیں۔ پھر کنارہ کش ہو گئے۔کیوں کہ اس پلیٹ فارم سے وہ اپنے خطے کی مناسب انداز سے خدمت نہیں کر سکتے تھے۔اس حوالے سے وہ اپنے نوجوان دوست فہیم احمد سے اکثرگفتگو کرتے۔اُن کا خیال تھا جب تک ”حضرو“ شہر سے موٴثرآوازبلند نہیں ہوگی ملکی منظرنامے میں ہماری شناخت مشکل ہوگی۔ان دوستوں کے درمیان طے پایا کہ ” تقلیب“ کے نام سے ادبی رسالہ شروع کیاجائے جواس کمی کوپورے کرنے کی کوشش کرے گا۔لیکن یہ منصوبہ نہ شروع ہو سکا۔کچھ عرصہ بعدان کی سوچ میں تبدیلی آئی اور انھوں نے شہر سے اخبار جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انھوں نے حکومت سے باقاعدہ اجازت لی اور 14اگست1998ء کو یہاں سے پہلا باقاعدہ ہفت روزہ اخبار” حضرو“ نکالا۔کچھ مقامی دوستوں کو ساتھ ملایامگروہ زیادہ عرصہ ساتھ نہ دے سکے اور یہ ”ون مین شو“کرتے رہے۔ایک سال تک کامیابی سے حضرواخبارچلایا ۔اسی عرصہ میں انھوں نے اپنے استاذمرحوم کی شاعری کا مجموعہ” جیون صحرا“ کے نام سے شائع کیا۔ اس مشنری اخبارنے خاور# کوسخت مالی بحران کا شکار کردیا۔ اس لیے انھوں نے محمداعظم خان کواخبار میں شریک کرلیامگریہ شراکت انھیں مزید مسائل میں الجھا گئی ، یوں انھوں نے اخبار سے علیحدگی اختیارکرلی۔
سال بھر مقامی صحافت سے کنارہ کش رہے مگرقومی اخبارات میں کالم لکھتے رہے۔تاہم یہ کنارہ کشی دیرپا ثابت نہ ہوئی اور انھوں نے ایک ادبی رسالہ” سحرتاب“ جاری کردیا۔اس رسالے میں برصغیر کے نام ورلوگوں کی نگارشات شامل کیں مگر یہاں انھیں خسارے کے سوا کچھ نہ ملا۔صرف دو ہی شمارے شائع کرنے کے بعد اپنی پوٹلی سمیٹ کر بیٹھ گئے۔
سن2000ء وہ ایک بارپھرصحافتی میدان میں اُترے اوراَب ” تِیسرارُخ“ کے نام سے ہفت روزہ شروع کیا۔اس اخبار کواپنی سنجیدگی کی بناپر انفرادیت حاصل ہوئی۔مقامی طورپرتواس اخبارنے بہترین خدمات انجام دی ہیں قومی سطح پراس نے ادبی لوگوں سے موٴثر رابطہ قائم کرکے حضرو کی شہرت کو چارچاند لگائے۔اخبارکے ادبی ایڈیشن کو زبردست پذیرائی ملی۔اخبار نے ڈاکٹرانورسدید،مشکورحسین یاد،قاضی جاوید،اُمراوٴطارق،احمدصضی رصدیقی،عذرا اصغر، ڈاکٹرمرزاحامدبیگ، ڈاکٹرانعام الحق جاوید،اکبرحمیدی، سلطان سکون اور آصف ثاقب جیسی نام ور شخصیات سمیت نصف صد کے قریب ادیبوں کے انٹرویوشائع کیے۔ملک بھر سے ادیب اپنی تحریریں بھیجتے۔یہی دن تھے جب اخبار کو ہفت روزہ سے روزنامہ میں بدل دیا گیا۔کچھ عرصہ روزنامہ ” تِیسرارُخ“ شائع ہوتا رہا۔محدودعلمی پس منظر کے حامل شہر میں مقامی روزنامہ کی کھپت مشکل تھی۔اس مرتبہ خاورچودھری نے راولپنڈی کارُخ کیا اور وہاں سے روزنامہ” تعلّم“ جاری کر دیا۔ اور تِیسرارُخ کو واپس ہفت روزہ میں تبدیل کردیا۔
ڈیڑھ سال تک روزنامہ تعلّم اور ہفت روزہ تیِسرارُخ محدود پیمانے پر شائع ہوتے رہے پھر ان کی اشاعتوں میں تعطل آنے لگا۔جمع پونجی ٹھکانے لگانے کے بعدخاورچودھری ایک بار پھر پرسمیٹ کر بیٹھ گئے مگریہ اخبارات کسی نہ کسی طرح چھپ رہے ہیں۔کچھ عرصہ پہلے تیسرارُخ نے معروف علمی شخصیت ڈاکٹرارشدمحمودناشادکے حوالے سے خصوصی نمبر بھی شائع کیا۔
سحرتاب کے اجرا کے ساتھ ہی انھوں نے ”سحرتاب پبلی کیشنز“ کے نام سے اشاعتی ادارے کا ڈول ڈالا۔ اس ادارے نے”جیون صحرا“ ، ”دوچاردل کی باتیں“،”بغیرتیرے“،”خواب ،کرچیاں اور مسافر“،”ٹھنداسورج“ اور ”چراغ بہ کف“ جیسی کتابیں شائع کیں۔اشاعتی ادارے کایہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔تیسرارُخ میں چھپنے والے مشاہیر کے ادبی انٹرویوز کو یک جا کر کے شائع کرنا بھی ادارے کے منصوبوں میں شامل ہے۔
سن2005ء میں خاور# چودھری نے قومی اخبارات کے لیے باقاعدہ کالم نویسی شروع کی۔اس عرصہ میں ”چراغ بہ کف“ کے عنوان سے اُن کے کالم روزنامہ نوائے وقت،روزنامہ اوصاف،روزنامہ اذکار،روزنامہ اسلام، روزنامہ ہمدرد میں شائع ہوتے رہے۔جنگ میں بھی ان کے کچھ کالم شائع ہوئے۔مئی2005ء میں روزنامہ”اسلام “ کے ساتھ باقاعدہ طورپر منسلک ہوگئے اور بامعاوضہ کالم لکھناشروع کیا۔ہردوسرے دن ان کا کالم چھپنے لگا۔اخبار نے انھیں اضافی ذمہ داری دے کر اٹک ضلع کے لیے بیوروچیف بھی بنادیا۔تب سے اب تک ان کے ہزاروں کالم شائع ہوچکے ہیں۔یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
کچھ عرصہ پہلے خاورچودھری نے انٹرنیٹ پر بھی لکھنا شروع کیا۔وہ معروف براڈ کاسٹرصفدرہمدانی کی ویب سائٹ کے لیے کالم بھی لکھتے ہیں اور بلاگ بھی۔علمی ادبی ویب سائٹ ”القلم“ کے شعبہ اَدب کے مدیرہیں اور”اُردونامہ“ ویب سائٹ کے ناظم۔حال ہی میں ”اُردو محفل“ نے اُن کے لیے سال کے بہترین لکھاری کا اعلان کیا ہے۔
خاورچودھری حضروپریس کلب(رجسٹرڈ) کے جنرل سیکرٹری ہیں۔اس سے پہلے وہ نائب صدرکی حیثیت سے فرائض انجام دے چکے ہیں۔ادبی تنظیم بزمِ علم وفن کے بھی سیکرٹری جنرل ہیں۔
خاورچودھری نے ادبی میدان میں اپنے کام کاآغازکہانی نویسی اورشعرگوئی سے ایک ساتھ کیا۔شروع میں انھوں نے نعتیں کہیں۔پھرغزل اورنظم کی طرف آگئے۔بعد میں ہائیکو،ماہیا،دوہااورواکاب ھی کہے۔نثری اَدب میں انھوں نے پہلے ایک طویل ناولٹ” زنگ آلودخواہشیں “لکھا،جو1996ء کوایک ڈائجسٹ میں شائع ہوچکا ہے۔پھرافسانے بھی لکھے۔
خاورچودھری کی شخصیت اور فن کے حوالے سے بیسیوں علمی و ادبی شخصیات نے مضامین لکھے اورتاثرات بیان کیے۔ان میں پروفیسرڈاکٹرفرمان فتح پوری،محسن بھوپالی،سلطان جمیل نسیم،سلطان سکون،پروفیسرڈاکٹرارشدمحمو دناشاد، آصف ثاقب،عذرا اصغر،محمدحامدسراج،ملک حق نوازخاں،احسان بن مجید،دُردانہ نوشین خان، پروفیسرہارون الرشید، پروفیسرملک محمداعظم خالد،طفیل کمالزئی اورپروفیسرعامرسہیل بھی شامل ہیں۔حال ہی میں انڈیا سے شائع ہونے والے سہ ماہی ”سمت“ نے خاورچودھری کے حوالے سے خصوصی گوشے کی اشاعت کا اعلان کیا ہے۔(مذکورہ گوشہ شائع ہوچکا ہے)
خاورچودھری کی تصانیف یہ ہیں:
(1) خواب،کرچیاں اور مسافر (کالم/مطبوعہ نومبر2001ء۔سحرتاب پبلی کیشنز)
(2) ٹھنڈا سورج (شاعری/مطبوعہ جنوری2006ء۔سحرتاب پبلی کیشنز)
(3) چراغ بہ کف (کالم/ مطبوعہ نومبر2007ء۔سحرتاب پبلی کیشنز)
(4) چیخوں میں دبی آواز (افسانے/جنوری2008ء۔مثال پبلشرز،فیصل آباد)
غیرمطبوعہ تصانیف:
(1) پریم جل (دوہا)
(2) نہ جنوں رہا (غزلیات)
(3) امید (واکا)
(4) زنگ آلودخواہشیں (ناولٹ)
(5) گفتگوئے یار (انٹرویوز)
________________________