Page 1 of 1

حد سے توقعات زیادہ کیے ُہوئے

Posted: Fri Jul 25, 2008 7:36 am
by سیدتفسیراحمد

  • حد سے توقعات زیادہ کیے ُہوئے

    حد سے توقعات زیادہ کیے ُہوئے
    بیٹھے ہیں دل میں ایک ارادہ کیے ُہوئے

    اس دشت بے وفائی میں جائیں کہاں کہ ہم
    ہیں اپنے آپ سے کوئی وعدہ کیے ُہوئے

    دیکھو تو کتنے چین سے اک درجہ مطمئن!
    بیٹھے ہیں ارض پاک کو آدھا کیے ہوئے

    ق

    پاؤں سے خواب باندھ کے شام وصال کے
    اک دشت انتظار کو جادہ کیے ہوئے

    آنکھوں میں لے کے جلتے ہوئے موسموں کی راکھ!
    درد سفر کو تن کا لبادہ کیے ہوئے

    دیکھو تو کون لوگ ہیں!آئے کہاں سے ہیں !
    اور اب ہیں کس سفر کا لبادہ کیے ہوئے

    اس سادہ رُوکے بزم میں آتے ہی بجھ گئے
    جتنے تھے اہتمام کا زیادہ کیے ہوئے

    اُٹھے ہیں اُس کی بزم سے امجد ہزار بار
    ہم ترک آرزو کا ارادہ کیے ہوئے

[center]Image اور اردونامہ کی مشترکہ پیشکش[/center]

Posted: Fri Jul 25, 2008 10:16 am
by رضی الدین قاضی
بہت خوب جناب۔

Posted: Fri Jul 25, 2008 10:22 am
by خاورچودھری
واہ تفسیر صاحب

Posted: Fri Jul 25, 2008 3:50 pm
by چاند بابو
اُٹھے ہیں اُس کی بزم سے امجد ہزار بار
ہم ترک آرزو کا ارادہ کیے ہوئے

بہت خوب تفسیر بھیا بہت اچھی شئیرنگ ہے۔ بہت بہت شکریہ