آزادی

اردوادب کے ممتاز لکھاری محترم خاور چوہدری کی نوکِ قلم سے نکلنے والے شہکار افسانے
Locked
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

آزادی

Post by چاند بابو »

[center] آزادی[/center]

یہ14اگست1995ئ؁ کی سہ پہرتھی۔مزارقائدکے چاروں اور بچوں ، عورتوں اور بوڑھوں کاہجوم تھا۔لوگ اپنے قائدسے عقیدت کے اظہار کے لیے یہاں جمع تھے ۔ بچے خصوصیت کے ساتھ مزارکی جا لیوں تک پہنچنے کی کوشش کر تے اور جوکام یاب ہوجاتے وہ اندر جھانک کر منظر کو آنکھوں میں بھرلینے کی کوشش کر تے ۔
مجھے دفتر سے چھٹی تھی اور صبح ہی سے میں اپنے دوست خالدمحمودکے ساتھ شہرِقائدکی گلیوں میں مٹر گشت کر رہا تھا۔صدر سے مزارقائدتک کاسفرہم نے پیدل ہی طے کیا تھا۔اب جو یہاں بیٹھے تھے تو قوم کی تین نسلوں کو قائد سے محبت کا اظہار کر تے ہوئے دیکھ رہے تھے ۔ جب میں نے مزارپرفاتحہ خوانی کی تو کم وبیش میرے بھی وہی جذبات تھے جو ایک پاکستانی کے ہو سکتے ہیں ۔ ۔ ۔ تب بھی میں نے سوچا تھا اور اب بھی سوچ رہا ہوں کہ14اگست تو اس خطہ کی آزادی کادن ہے پھرمیری آنکھوں میں اشکوں کاسیلاب کیوں اُترا تھا۔ ۔ ۔ کیوں میری ہچکیاں تھمنے کانام نہیں لی رہی تھیں ۔ ۔ ۔ کیوں میرے پاؤں بھاری ہو گئے تھے ؟ہوش کی دنیا میں تو تب لوٹا تھاجب میرے ساتھی نے ٹھنڈامشروب میرے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا
’’تمھیں یوں اچانک کیا ہوجاتا ہے ؟23مارچ کو ہونے وا لی تقریب کے موقع پربھی تم یوں ہی روتے رہے ہو‘‘
میں اسے کیا جواب دیتا، مجھے تو خودمعلوم نہیں تھاکہ میرے ساتھ ایساکیوں ہوتا ہے ۔خوشی کے ان موقعوں پرمیری آنکھوں سے چشموں کا جاری ہوناخودمیرے لیے بھی عجیب ہی نہیں بہت عجیب ہے ۔آج بارہ سال بعدبھی میری کیفیت وہی ہے ۔ اگرچہ میں مزار قائدسے سیکڑوں میل دورہوں ۔ ۔ ۔ مگر میرے دل ودماغ کی کیفیت بالکل ویسی ہی ہے جیسی کہ تھی۔ لیکن اب مجھے یہ معلوم ہو گیا ہے کہ اس خوشی کے موقع پرمیری آنکھوں میں نمی کیوں اُترآتی ہے ۔خیر۔ ۔ ۔ !
میں 14اگست1995ئ؁ کی بات کر رہا تھا۔جس لمحے میں ٹھنڈامشروب اپنے حلق میں انڈیل رہا تھاعین اسی وقت ایک باریش نحیف ونزاربزرگ میرے سامنے آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئے ۔ان کے ہاتھ میں بچوں کے لیے ٹافیاں پکڑی ہوئی تھیں ۔میرے دوست خالد محمود نے بزرگ کو مخاطب کر کے کہا
’’بابا!کچھ نہیں چاہیے ‘‘۔ ۔ ۔
مگر وہ اپنی جگہ سے نہ سرکے اور برابر میرے چہرے پرنظریں جمائے رہے ۔ میں آنسوؤں کو پونچھتا ہوا۔ ۔ ۔ اپنی ہچکیوں پرقابوپانے کی کوشش کر تا اور وقفہ وقفہ سے شربت کاگھونٹ بھی حلق سے اُتار دیتا۔یوں ہی کچھ دیرگزری تو بزرگ گویا ہوئے
’’کیوں روئے تھے میاں ۔ ۔ ۔ ؟‘‘
میں کیابتاتا، میں تو خودنہیں جانتا تھا۔ ۔ ۔ بس اتناکہا
’’معلوم نہیں ‘‘
تو بزرگ نے سرگوشی کے سے انداز میں کہا
’’مگرمجھے معلوم ہے ‘‘
اور پھرخلاؤں میں گھورنے لگے ۔ ۔ ۔ تب آنسوؤں کی ایک ایک لڑی ان کی دونوں آنکھوں سے جدا ہوکر ان کے جھریوں بھرے چہرے پرپھیل گئی۔ان کے چہرے کارنگ لمحہ لمحہ بدلتا گیا ۔ ۔ ۔ اور پھر ان کی ہچکیاں بند ھ گئیں ۔پھر میں نے وہی سوال دہرایا جو انھوں نے مجھ سے کیا تھا۔میں نے دیکھاکہ، ان کی آنکھوں میں ایک غیرمانوس سی چمک نے سراُٹھایا اور پھر یکایک غائب ہو گئی ۔انھوں نے اپنی میلی آستین کو آنکھوں پر یوں ملاجیسے ان کے سامنے سے اندھیارے کی دیوارہٹارہے ہوں ۔
’’میں گیارہ برس کا تھاجب پاکستان بنا۔اباّ جالندھر کے نواح میں اسکول میں استاد تھے ۔ اماں گھرکاکام کاج ہی کر تی تھیں ۔تین بڑی بہنیں تھیں مجھ سے ، جو گھر میں ہی پڑھی تھیں اور اماں کاہاتھ بٹاتی تھیں ۔بجیاشائستہ میرے پھوپھی زادمنیراحمدسے منسوب تھیں ، اپیا آمنہ ان کے چھوٹے بھائی نذیراحمدسے اور میرا رشتہ ان کی بہن عذرا سے طے تھا۔ہمارے خاندان میں مذہبی تعلیم عام تھی، اسی سبب سے اڑوس پڑوس کے لوگ احترام کی نگاہ سے دیکھتے ۔ ہمارے اباّجی تو کبھی کبھار محلہ کی مسجد میں نمازبھی پڑھا دیا کر تے تھے ۔
یہ پاکستان بننے کے کچھ دن اِدھر کی بات ہے ۔ہماراقافلہ ہماری پھوپھو اور ان کے بچوں اور دیگر رشتہ داروں کو ملا کر ستائیس افرادپرمشتمل تھا۔ اماں نے دو گٹھڑیوں میں ضروری سامان باندھا۔ ایک گٹھڑی اپنے پہلومیں دبا لی اور دوسری اباّ کو دے دی۔دوسرے رشتہ داروں کے پاس بھی رختِ سفراس سے زیادہ ہر گز بھی نہیں تھا۔ ہر ایک کو ایک ہی لگن تھی کہ، بس کسی طرح سے اپنے دیس کی خوابوں ایسی سرزمین کو چوم لے ۔اپنے دیس تک پہنچنے کی خوشی میں قدم تیزی سے اُٹھتے جا رہے تھے ۔
ابھی صبح کے آثارنہیں جاگے تھے ، جب ہم روانہ ہوئے ۔خوشی سے قدم خود بہ خود اُٹھ رہے تھے ۔قیامت تو تب ٹوٹی جب تاک میں بیٹھے ہوئے ہندوؤں کے جتھے نے ہمیں آلیا۔گننے میں نہیں آتے تھے ۔ خاندان کے مردوں نے اپنی جانیں کٹوادیں ۔ ۔ ۔ مگراپنی عورتوں کی عصمتوں پرآنچ نہ آنے دی۔ ۔ ۔ مگرکب تک جوں ہی ان کے لاشے گرے ظالم ہندو ، بھیڑیوں کی طرح خواتین پرٹوٹ پڑے ۔‘‘
تب ایک چیخ سی ان کے حلق میں دم توڑگئی۔یوں معلوم ہوتا تھاجیسے ساون کی جھڑی برس کر ہی دم لے گی۔ زبان ان کاساتھ نہیں دے رہی تھی۔ایسالگتا تھاجیسے ان کی آوازکو قتل کیا جا چکا ہے ۔میلی آستین کو بار بار اپنی آنکھوں پرملتے اور پھر خلاؤں میں گھورنے لگتے ۔کچھ سنبھلے تو دوبارہ کہنے لگے
’’مجھے اماں نے پکڑ کر سرکنڈوں کی اوٹ میں چھپا لیا تھا۔وحشت سے میرے اوسان خطا ہو چکے تھے ۔ اس کے بعدکیا ہوا، مجھے معلوم نہیں ۔جب مہاجرکیمپ میں ہزاروں افراد میں خودکو موجود پایاتو ستائیس میں سے صرف دوباقی تھے ۔ اور لوگ کیا ہوئے ان کا کچھ سراغ نہ ملا۔ ہمیں بتایاگیاکہ ، ہم لوگ خوابوں کی سرزمین تک پہنچ آئے ہیں ۔ ۔ ۔ مگراب خوابوں کی تعبیر لانے والے جو نہیں رہے تھے ۔ ۔ ۔ بجیا، اپیا، شازیہ اور عذرا۔ ۔ ۔ اباّ، کوئی ایک بھی تو نہیں رہا تھا۔اماں کو تو جیسے چپ ہی لگ گئی تھی۔ ۔ ۔ اور جب بولتیں تو کسی ایک کانام پکار کر بے سدھ ہوجاتیں ۔ ۔ ۔ انہیں غشی کے دورے پڑنے لگے تھے ۔ کیمپ میں موجودڈاکٹروں نے کوشش کی انھیں بچانے کی۔ ۔ ۔ مگر وہ پچیس جانوں کاصدمہ نہ برداشت کر پائیں اور مجھے باربار مرنے کے لیے زندہ چھوڑگئیں ۔‘‘
رونے کاسلسلہ تھماکہاں تھا۔ ۔ ۔ روتے گئے ، روتے گئے ۔ ادھر میری اور خالدکی آنکھیں بھی جل تھل تھیں ۔
’’ کیمپ سے نکلاتو خوابوں کی زمین کاٹنے کو دوڑتی تھی۔ ۔ ۔ کہیں جائے پناہ نہ ملی۔کسی نے رحم کھا کر سیٹھ چونے والے تک پہنچا دیا۔انھی کے پاس جوان ہوا۔تنخواہ تو نہیں تھی ، البتہ ان کے گھر اور دکان پرکام کے عوض کھانا اور رہائش میسر آ گئے تھے ۔سیٹھ کاہے کو تھے بس نام ہی نام تھا۔ جب وہ دنیاسے رخصت ہوئے تو میں بھی دنیا کے رنگ دیکھنے نکل کھڑا ہوا۔ ریلوے اسٹیشن پر قلی گیری شروع کر دی۔ایک مزدورساتھی نے بتایاکہ صبح کے وقت میں اخباربیچنے سے آمدن بڑھتی ہے ؛تو یہ بھی کیا۔کب گھربسا، بچے ہوئے اور انھیں پالاپوسا ۔ ۔ ۔ اور پھر وہ جوان ہوئے ، سب رام کتھا ہے ۔بس اتنایادہے جب بڑے بیٹے نے ماسٹر کیا تو ایک لمحہ کے لیے مجھے یوں محسوس ہوا، جیسے خوابوں کی سرزمین تعبیرآشنا ہونے کو ہے ۔ ۔ ۔ مگر بدقسمتی ایسی نہ تھی جو جان چھوڑتی۔ایک نودولتیے نے اپنی گاڑی کے نیچے اسے کچل کر ہمیشہ کے لیے معذور کر دیا۔یہاں تو اچھے بھلے شخص کو نوکر ی آسانی سے نہیں ملتی پھر میرا معذور بیٹا کیوں کر میراسہارابن سکتا تھا۔تین بیٹیاں ہیں ۔وہ اپنے گھروں کی ہو گئی ہیں ۔ ۔ ۔ اور میں اپنے ناکارہ ڈگری ہولڈر کے ساتھ زندگی کے دن گن رہا ہوں ۔‘‘
ایک لمحہ کے لیے وہ خاموش ہوئے اور پھرگویا ہوئے
’’ویسے سچی بات یہ ہے کہ یہ وہ پاکستان نہیں ہے جس کے خواب اباّنے مجھے دکھائے تھے ۔‘‘
میں جس شہر میں رہ رہا ہوں ، وہاں سے ہندوؤں کی بڑی تعدادنکلنے پرمجبور ہوئی تھی۔ ۔ ۔ وہی دکھ بے چارگی، لوٹ مار اور تشدد کی کہانیاں ۔ ۔ ۔ خدا جانے ان ہندوؤں کے ساتھ وہاں ہندوستان میں کیاپیش آیا ہو گا۔ کیا وہ بھی دو وقت کی روٹی کے لیے اپنے بانی کی سمادھی پرٹافیاں بیچتے پھر رہے ہوں گے یا پھر ۔ ۔ ۔ ؟
***
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Locked

Return to “چیخوں میں دبی آواز”