چیخوں میں دبی آواز

اردوادب کے ممتاز لکھاری محترم خاور چوہدری کی نوکِ قلم سے نکلنے والے شہکار افسانے
Locked
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

چیخوں میں دبی آواز

Post by چاند بابو »

[center]چیخوں میں دبی آواز[/center]

میں بہت دیر سے اپنے وجود کو نوچ رہا ہوں ، چٹکیاں لے رہا ہوں ، چوٹ لگا رہا ہوں ۔میں جاننا چاہتا ہوں کہ کیامجھ میں زندگی کی کوئی رمق باقی ہے ؟ میں بہت دیر سے اپنے دماغ کے خوابیدہ خلیوں کو جگانے میں مصرو ف ہوں ، اپنے دل کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے خون کی حالت دیکھنا چاہتا ہوں ، مگرشایدمیرے وجود کی ساری حسیات زنگ آلودہوچکی ہیں ، میرے دماغ کے تمام ترخلیے مرچکے ہیں ، ٹھاٹیں مارتا ہوادل کا لہو برف میں بدل چکا ہے اور میری ذات کے اظہار کی تمام علامتیں مٹی میں مٹی ہوچکی ہیں ۔میرے وجود کی گواہی دینے وا لی تمام قدریں تباہ ہوچکی ہیں ، میرے جسم کو خوب صورتی اور رعنائی عطا کر نے والے تمام لباس وقت کی بے لحاظ وبے قدرہواؤں کی نذرہوچکے ہیں ۔ ۔ ۔ اور میں اپنے شکستہ و برہنہ وجود کے ساتھ کھڑا ہوا ہوں ۔نہیں جانتا ہوں کہ دنیاکی نظریں ایسے انسان میں کیاتلاش کر رہی ہیں جو اپنے دماغ کے مردہ خلیوں اور اپنے دل کے سرد اور جمے ہوئے لہو کے ساتھ عریاں موجود ہے ۔
آپریشن کاپہلادن۔ ۔ ۔ دوسرا۔ ۔ ۔ تیسرا۔ ۔ ۔ چوتھا۔ ۔ ۔ اور پھرآخری دن بھی گزر گیا ۔میں ساکت ومبہوت ان تمام واقعات سے ایک طرف مٹی میں گڑارہا۔
کتنی جانیں اپنے بھائیوں کے ہاتھوں جل کر خاکسترہوئیں ، کتنے ارمان رزقِ خاک ہوئے ، کتنے جواں بدن گولیوں کی آگ پی گئے ، کتنی اَدھ کھلی کلیاں بے لحاظ بارُودسے جھلس گئیں ، کتنے تازہ کھلے پھول مٹی میں روندگئے ۔ ۔ ۔ ؟میں نہیں جانتا۔
باپوں نے اپنے بیٹوں کے زخموں کوکیسے چاٹایاچاٹاہی نہیں ، میں نہیں جانتاکہ ماؤں نے اپنی بیٹیوں کو اپنے سینے سے کیسے لگایایاپھرلگایاہی نہیں ، میں نہیں جانتا بھائیوں نے اپنی بہنوں کے سروں پر دستِ شفقت کیسے رکھایاپھر رکھاہی نہیں ، میں نہیں جانتابے تاب گودیں اپنے وجودکے حصوں کی حدت سے کیسے لذت آشنا ہوئیں یا پھر ہوئیں ہی نہیں ۔میں نہیں جانتا سہاگنوں کے سروں کے تاج کیسے سلامت لوٹے یاپھرلوٹے ہی نہیں ۔جلتی آگ اور کھولتی گولیوں کی بارش نے کتنے گھر اُجاڑے اور کتنے در توڑے ، میں کہاں جانتا ہوں ۔ ۔ ۔ رسول مکر م صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے سینۂ پاک سے نکلی ہوئی کتاب کی حالت کیا ہوئی، منبرومحراب کی عظمتوں کاکیابنا، حدیث وفقہ کے اظہاریے کیا ہوئے ؟میں نہیں جانتا۔ ۔ ۔
وہ ایک شخص۔ ۔ ۔ ایک شخص، جسے ہٹ دھرم، انتہاپسند، خودغرض، ایجنسیوں کاگماشتہ، ریاکار، بڑبولا، اغواکارومنتشر دماغ کہاگیا۔سیکڑوں بے گناہ جانوں کے ضیاع کاقصوروار ٹھہرایاگیا ، کیا ہوا؟۔ ۔ ۔ میں نہیں جانتا۔
لوگ جلتے رہے ، پھول گرتے رہے ، کلیاں مسلتی رہیں ، سہاگ لٹتے رہے ، کوکھیں اُجڑتی رہیں ، بیبیاں بے پردہ ہوتی رہیں ، بیٹیاں درد سے بلکتی رہیں ، بھائی زخموں سے کر اہتے رہے ۔ ۔ ۔ اور ۔ ۔ ۔ اور میں ایک طرف زمین میں گڑارہا۔
کتنے لوگ معبدخانہ میں بھوک اور پیاس سے نڈھال وبدحال رہے ؛ میں نہیں جانتا۔کون پتے کھا کر اور بارش کے پانی کی بوندیں پی کر زندگی سے جنگ لڑتا رہا اور کون دھوئیں کی آندھیوں سے نبردآزمارہا، میں نہیں جانتا ہوں ۔
آپریشن کاپہلادن ۔ ۔ ۔ دوسر ا۔ ۔ ۔ تیسرا۔ ۔ ۔ چوتھا۔ ۔ ۔ اور پھر آخری دن بھی گزر گیا۔میں زمین میں گڑا ہوا تھا، گڑا ہوا ہوں ۔وہ جگہ جہاں سروسینہ خالق کے سامنے جھکتے تھے ۔ ۔ ۔ خون سے لال تھی۔ ۔ ۔ گولیوں کی آوازمدھم ہوئی تو اس کی جگہ بوٹوں کی آواز نے لے لی۔ میرے بھائی اپنی ’’فتح‘‘ پر بکتربند گاڑیوں سے سرنکالے ’’وکٹری‘‘ کا نشان بنائے گزرتے رہے ، میرے بھائی اپنی فتح کی داستانیں مسلسل سناتے رہے ۔
لوگ چلتے رہے ، جیتے رہے اور میں مرتا رہا۔ ۔ ۔ مرتا رہا۔ اور دُوربیٹھے ہوئے لوگ ہماراتماشادیکھتے رہے ۔ہماراتماشا!کہ ہم نے اپنے ہی ہاتھوں اپنے جسموں کو چھلنی کیا ، اپنی ہی زبانوں سے خود پر زہراُگلا اور اپنے ہی غلبہ سے خودکو مغلوب کیا۔
اور اب۔ ۔ ۔ اب میں ’’زندہ‘‘ہوا ہوں تو مجھے اس ظلم کا احساس ہوا ہے ، جو آپریشن کی صورت ظاہرہوا تھا۔اب میں احتجاج کر وں گا ۔ ۔ ۔ پُرامن احتجاج۔ ۔ ۔ غیرمسلح احتجاج۔ ۔ ۔ اور پھر آنے والے دنوں میں ، نئے موقعوں سے مستفیدہوں گا۔ ۔ ۔
یہ احتجاج، دکھ، غم تو چندگھڑی کے ہیں یا پھر دکھلاوے کے ۔ ۔ ۔
حیف ، صدحیف!دماغ کے مردہ خلیوں اور سینے کے ٹھنڈے لہو کے باوجود میں خود کو زندہ سمجھتا ہوں ، سمجھتارہا، سمجھتا رہوں گا ۔ ۔ ۔ گولیاں چلتی رہیں گے ، معبدیں پامال ہوتی رہیں گی، سینہ ء پاک صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم سے نکلی ہوئی باتیں بے قدروں کا نشانہ بنتی رہیں گی ، بوٹوں کی آواز سنائی دیتی رہے گی اور وکٹری کا نشان بنائے ہاتھ اُٹھتے رہیں گے ۔
ہم اپنے زخموں کو چاٹتے رہے ہیں ، چاٹتے رہیں گے ۔ ۔ ۔
الاماں و الحفیظ! بہروپوں ، خود غرضوں ، مکاروں اور بے ترسوں میں گھری ہوئی یہ قوم اپنے دماغ کے مردہ خلیوں کے باوجودخود کو زندہ سمجھتی ہے ، اپنی نسوں میں جمے ہوئے خون کو زندگی کی علامت تصور کر تی ہے ۔ اور آسماں بھی خاموش ہے ، نہ ہی ٹوٹ کر گرا۔ ۔ ۔ اور نہ ہی زمین پھٹی۔ ۔ ۔ مگر میں زندہ ہوں
میں زندہ ہوں ، تبھی تو اس گونجتی آواز
’’تو کیاکوئی معجزہ نہ ہو گا؟
ہمارے سب خواب وقت کی بے لحاظ آندھیوں میں جل بجھیں گے
دونیم دریاوچاہِ تاریک وآتشِ سردجاں نوازی کے سلسلے ختم ہو گئے کیا؟
تو کیاکوئی معجزہ نہ ہو گا؟
خدائے زندہ!تیری سجدہ گزاربستی کے سب مکینوں کی التجا ہے
کوئی ایسی سبیل نکلے کہ تجھ سے منسوب گل زمینوں کی عظمتیں پھر سے لوٹ آئیں
وہ عفوکی، درگزرکی، مہرووفاکی بھولی روایتیں پھر سے لوٹ آئیں
وہ چاہتیں ، وہ رفاقتیں ، وہ محبتیں پھر سے لوٹ آئیں ۔ ۔ ۔ ‘‘
کو میں نے سنا اور اس کاہم نوا ہوا۔ ۔ ۔ مگرکیامحض لفظوں ، خواہشوں سے یہ سب ممکن ہوا ہے ؟ اگرممکن ہوتاتو سانحہ ء لال مسجدرونمانہ ہوتا۔اپنے جسے ایجنسیوں کا آلہ کار کہتے رہے ؛ پیوندِ خاک نہ ہوتا۔
اب خدا جانے کون سرخ روہوا؟۔ ۔ ۔ اگرچہ ہرایک خودکو داناوحق پرست سمجھتا ہے ، میں سوچتا ہوں ، اپنی بات پرجم جانے والوں اور وعدوں کو توڑ کر فخر کر نے والوں میں کتنا فرق ہوتا ہے ؟
بادشاہِ وقت کو للکارنے والے اس شخص کاجرم۔ ۔ ۔ ؟
مسجدوں کی شہادت کاگلہ اور نفاذشریعت کامطالبہ سبھی نے کیا۔ ۔ ۔ مگرمجرم ایک وہ ۔ ۔ ۔ ؟ آنٹی
کاقضیہ۔ ۔ ۔ مساج سینٹرکی روداد ، ویڈیوسینٹرزکاجلاؤ گھیراؤ ۔ ۔ ۔ جرم ہی نہیں بہت بڑے جرائم ہیں ۔ ۔ ۔ کر اچی میں گرنے وا لی اڑتا لیس بے گناہ لاشوں سے بھی بڑے ۔
بات کچھ اور تھی ، بات کچھ اور ہے ۔جسے ہرایک جانتا ہے ، مگرزبان پرلانے کی قدرت نہیں رکھتاکہ جان ہر ایک کو عزیز ہے ۔
جہاں بولنے والوں کا انجام ’’اس‘‘ کی طرح ہو، وہاں بولنے کی جرأت کون کر ے ؟جلتی آگ میں کون کو دے کہ، جب یہ ایمان ہی نہ ہوکہ نارگلزارہوبھی سکتی ہے ۔گھاٹے کا سودا کون کر ے ؟مگراُس نے کیا، جان گنوادی، الزام سرلیے اور لیتا رہے گا۔
اب رونے ، کر لانے والوں کو خبر ہو کہ ، جو سفر بادشاہ نے شروع کیا تھا۔ ۔ ۔ وہ جاری ہے اور رونے والوں کی زندگیوں تک جاری رہے گا۔
بادشاہ کی ڈھیل۔ ۔ ۔ ؟مذا کر ات۔ ۔ ۔ ؟مذا کر ات میں ناکامی۔ ۔ ۔ ؟وقت پرست عالموں کی خاموشی۔ ۔ ۔ ؟بادشاہ کے دنیاوی بادشاہ کی خوشی اور بادشاہ کے دوست کی ناراضگی ۔ ۔ ۔ ؟ حقیقت کیا ہے ؟ سب جانتا ہوں ، سب جانتے ہیں ، مگر۔ ۔ ۔ !
وقت کے بے ہنگم شور میں اس کی آوازبھی دب گئی تھی۔ ۔ ۔ تو میری آوازکون سنے ؟چیختا ہوں تو اپنے ہی کانوں کے پردے پھٹتے ہیں ۔ ۔ ۔ اور آواز۔ ۔ ۔ آوازتو مردہ چیخوں میں دب بھی چکی۔ ۔ ۔ مربھی چکی۔

٭٭٭
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Locked

Return to “چیخوں میں دبی آواز”