جھوٹی کہانی

اردوادب کے ممتاز لکھاری محترم خاور چوہدری کی نوکِ قلم سے نکلنے والے شہکار افسانے
Locked
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

جھوٹی کہانی

Post by چاند بابو »

[center]جھوٹی کہانی[/center]

’’آج میں آپ کو ایک کہانی سناتا ہوں ۔طاؤس منہ میں سونے کاچمچہ لے کر پیدا ہوا تھا۔ اس کی ماں زرتاب بیگم نواب زادی تھی اور والدبھی بڑی جاگیر کا مالک ۔زرتاب بیگم اپنے جہیز میں بہت کچھ لائی تھی۔ ۔ ۔ یہاں تک کہ اس کے ساتھ چھ خادمائیں بھی آئیں ۔طاؤس اپنے والدین کا اکلوتا تھا۔ اس کی ولادت پر دُور دراز سے ڈھول باجے والوں کو بلایا گیا تھا اور چا لیس دن تک جشن منایا جاتارہا۔آٹھوں پہرزرتاب بیگم کی حویلی نور و نکہت سے روشن ومعطر رہتی۔قرب و جوارکے جاگیر داروں نے نواب زادے کی ولادت پرتحائف کے انبار لگا دیے ۔ نواب کلیم الملک نے تو اپنی جاگیرکا ایک بڑاحصہ بھی طاؤس کو دے دیا۔ماں باپ پہلے ہی خوشی سے نہال تھے ، اور نومولودان کی ذات کامحور تھا۔ اس کی ناز برداریاں کر تے کر تے صبح سے شام ہوجاتی، مگر پھر بھی ان کاجی نہ بھرتا۔
خادمائیں واری جاتیں ، راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر اُسے لوریاں سناتیں اور جوکبھی اس کے رونے کی معمولی سی آواز حلق سے نکلتی تو ان بے چاریوں کی شامت آ جاتی۔
وقت پورے پر پھیلائے اُڑتاگیا۔ ۔ ۔ جب اس کی عمر دس سال ہوئی تو گھر میں اس کے لیے اتا لیق مقرر کر دیا گیا۔والدین کے بے جا لاڈپیارنے اسے بگاڑ دیا تھا، جبھی اس کے دل میں استاذکالحاظ بھی نہیں تھا۔ جو سلوک وہ اپنے خادموں کے ساتھ کر تاوہی استاذ سے روا رکھتا۔استاذکچھ عرصہ تک تو اپنے طورپراُسے سمجھانے کی کوشش کر تارہا، مگربے سود ۔ ابھی استاذاس کش مکش میں تھاکہ، وہ نواب صاحب کو اس ضمن میں آگاہ کر ے ، اس کی اپنی طلبی ہو گئی اور نواب زادے کی گستاخی کر نے پراُسے علاقہ بدر کر دیاگیا۔
نیا اتا لیق مقررہوا اور اسے طاؤس کے مزاج سے متعلق آگاہ کر نے کے ساتھ تنبیہ کی گئی کہ ، خاص حد میں رہ کر نواب زادے کی تربیت کر نی ہے ۔ ۔ ۔ اگر یوں نہ ہوا تو زندان مقدر ہو سکتا ہے ۔ جب استاذنے یہ بندشیں دیکھیں تو اس نے ٹھان لیاکہ وہ وہی کر ے گاجو طاؤس چاہے گا۔طاؤس کادھیان علم کی طرف کہاں تھا، جو اسے اس میدان میں کام یابی ہوتی۔اپنے لا اُبا لی پن کے باعث بے کار مشغولات میں رہنے لگا۔ ابھی اس کی مسیں بھی نہیں بھیگی تھیں کہ ایک خادم کی بیٹی پرفریفتہ ہو گیا۔اَدب کا تقاضا تھا۔ ۔ ۔ کنیز خود میں سمٹی رہی، اس کی نظروں سے اوجھل رہنے کی تگ ودوکر تی رہی، مگرکب تک؟مآلِ کار اُس کی ہوس کا نشانہ بنی۔باپ کو معلوم ہواتو اس نے اپنی بیٹی کاگلادبا دیا۔زبان پر حرفِاحتجاج نہیں لایا، بل کہ یوں ظاہرکیاجیسے کچھ ہواہی نہیں تھا۔ ۔ ۔ اور اس کی بیٹی تو طبعی موت مری ہے ۔
اُدھرنواب صاحب کے کانوں میں کہیں سے بھنک پڑگئی اور بیٹے سے ایک ملاقات میں اس واقعہ کی بابت سوال کیا ۔ بیٹا جو رذالت میں گھر چکا تھا ، کہاں ڈرنے والا تھا۔خودباپ نے بیٹے کے جوان ہونے
پر دل ہی دل میں خوشی ظاہرکی اور مسکر اتے ہوئے ، لاڈسے کہا
’’ہوجاتا ہے اس عمر میں ، لیکن دھیان رکھو، کہیں اُلجھ نہ پڑو۔‘‘
باپ کی طرف سے گویایہ ایک طرح کا ا جازت نامہ تھا۔اب اس نے پر پھیلانا شروع کر دیے ، جس چیزپراس کی نظر رُکتی جھپٹ پڑتا اور بے فکر ی سے راہ لیتا۔
اُدھرنواب صاحب کوکسی موذی مرض نے آلیا تھا، خاندانی حکیم نے تمام نسخے آز ما لیے ، مگرقرارتھاکہ آکے ہی نہیں دیا۔ جاگیر دار دوستوں نے بھی اپنے طبیب بھیجے ، مگرکچھ نہ بن پڑا ۔ ۔ ۔ اور بیماری نے جان لے کر چھوڑا۔باپ کامرنا تھاکہ طاؤس تمام قیودسے آزاد ہو گیا۔اب کلیاں نوچنا، پھول مسلنا اور ہوش چھوڑنا اس کامعمول بن چکا تھا۔اس کے گرد ایسے لوگوں کا ہر وقت جم گھٹارہتاجو رذیل خصلت رکھتے ۔اپنی جیب بھرنے کے لیے اُسے خباثت کے گڑھوں میں اُتارتے چلے گئے ۔ ۔ ۔ یہاں تک کہ اب کوئی بھی رات رقص و سرود اور لب وجام سے خا لی نہ جاتی۔زرتاب بیگم بیٹے کی اس حالت پرکڑھتی۔ ۔ ۔ مگراُسے بدکاریوں سے نہ روک پاتی۔نواب زادے کی یہ حالت دیکھ کر شروع میں اس کے والدکے دوستوں نے بھی سمجھانے کی کوشش کی، مگرجب طاؤس نے لحاظ نہ کیاتو وہ بھی اپنی راہ ہو لیے ۔ ماں بیٹے کے سدھرنے کی خواہش لیے سانس توڑ گئی۔
بگڑے ہوؤوں کا راہِ راست پرآنا اتنا آسان کہاں ہوتا ہے ؟بُروں سے تعلقات جو بڑھے تو انھوں نے بھی گھات لگاناشروع کی۔عیش کوشی نے جاگیر کے بوجھ سے آزاد کر دیا۔خادم ایک ایک کر کے ساتھ چھوڑتے گئے ، مگروہ جس نے اپنے ہاتھوں سے اپنی مظلوم بیٹی کا گلا دبایا تھا، ساتھ رہا۔وہ حویلی جوکبھی طاؤس کے لیے راحتوں کی جاتھی قید خانہ میں بدل گئی۔باہرنکلتاتو قرض خوا ہوں کے تانتے بندھ جاتے ، مجبوراًحویلی کے تاریک کمرے میں دبکا رہتا۔
ایک شام نواب زادے نے ابھی آبِ احمرکاپہلاگھونٹ حلق سے اُتارا ہو گاکہ اس کے دماغ میں ماضی کے تمام منظر روشن ہوتے چلے گئے ۔جام ہتھیلی میں تھامے حویلی کے دالان میں چلا آیا، خادم پہلے ہی وہاں موجود تھا۔طاؤس حال سے بے گانہ ہوکر گویا ہوا
’’تم جانتے ہوپہلے گھونٹ کاذائقہ میں آج تک نہیں بھلاپایا ہوں اور پہلے لمس کی خوش بو سے ۔ ۔ ۔ آج بھی میراتن بدن معطر ہے ۔ پوچھوگے نہیں پہلالمس کس کا تھا؟‘‘
خادم نے سوا لیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھاتو اس نے کہا
’’تمھاری بیٹی کا، نہ جانے اچانک وہ مرکیسے گئی؟‘‘
اب خادم نے احتجاج نہیں کیا، بل کہ نہایت تیزی سے اُٹھا اور اسے دبوچ لیا۔خنجر سے اس کا سینہ چاک کر تے ہوئے کہا
’’اُسے میں نے قتل کیا تھا اور تمھارے باپ اور ماں کو بھی میں ہی زہر دیتارہا ہوں ۔‘‘
پھراس کاتن سر سے جدا کر کے حویلی کے دروازے پرڈال دیتا ہے اور خود رو پوش ہو جاتا ہے ۔‘‘
راوی خاموش ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ ایک ادھیڑعمرسامع اپنی سانس تازہ کر کے راوی سے کہتا ہے
’’تم جھوٹ کہتے ہو۔ ۔ ۔ طاؤس شہر میں اب بھی پھرتا ہے ۔‘‘

***
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Locked

Return to “چیخوں میں دبی آواز”