روبوٹ

اردوادب کے ممتاز لکھاری محترم خاور چوہدری کی نوکِ قلم سے نکلنے والے شہکار افسانے
Locked
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

روبوٹ

Post by چاند بابو »

[center]روبوٹ [/center]

شہروں میں تماشے ہوتے رہے ہیں ۔ آنکھوں والے دیکھتے اور مسقبل کے امکانات سے آگاہ کر تے رہتے ہیں ۔یہ الگ بات ہے کہ کوئی اس روشنی سے فیض یاب ہوتا ہے یا نہیں ، مگر اب کہ جویہ نیاتماشا دیکھنے کو ملا ہے اپنے اندراس قدرجاذبیت رکھتا ہے کہ ہر کوئی اس جانب کھنچا جارہا ہے ۔ یوں لگتا ہے جیسے پوری قوم اس تماشے کے سحر میں آ گئی ہے اور اسی عمل کو اپنارہی ہے جو تماشادکھانے والا چاہتا ہے ۔تماش بینوں میں چندایک ایسے ضرور ہیں جو ظاہرکیے جانے والے منظرکے پس منظر میں جھانکنے کی قوت رکھتے ہیں اور اس تماشے کے اصل سے آگاہ ہوکر دوسروں کو بیدار کرنا چاہتے ہیں ، تماشے کے طلسم سے نکالنا چاہتے ہیں ۔ تاجدارعادل بھی ان تماش بینوں میں شامل ہیں جوکھلی آنکھوں سے تماشے کے منظر اور پس منظرکو دیکھ کر مستقبل کے امکانات کی خبر دیتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں
تم بھی دیکھو جو ہم نے دیکھا ہے
شہر میں اک نیا تماشا ہے
کام یاب تماش گروہ ہے ، جو اپنے تماش بینوں کو شیشے میں اُتار کر من چاہی فضا قائم کر لے ۔شہرکا نیاتماش گربھی انتہائی زیرک اور مکارہے ، ا پنے فن پراس قدر قادرہے کہ کئی مستقل تماش بینوں اور نام ورتماش گروں کو بھی اپنے جادوکا اسیر کر لیا ہے ۔ بڑے بڑے جغادری چاروں شانے چت دکھائی دے رہے ہیں ۔ تاہم کھلی آنکھوں والے اس کی مکاری عیاں کر رہے ہیں ، قوم کو جگانے کے عمل سے گزر رہے ہیں ۔
واقعہ یہ ہے جب نیامداری فصیل شہرکو گرا کر شہر میں داخل ہوا تو شہروالوں نے بجائے اس کاراستہ روکنے کے اسے پھولوں کے ہار پہنائے ، اس کا شان دار استقبال کیا، اس کے قدموں تلے ہتھیلیاں رکھیں ، اس کے اشاروں پر رقصِ نجات پیش کیا، اسے مسیحا سمجھا ، اسے فرشتہ جانا، فاتح مانا، دلوں کی سرزمین کاوا لی گردانا۔مگرتھے کچھ۔ ۔ ۔ جنھوں نے شہر کی دیوارتوڑنے والے گھس بیٹھیے کو بُرا بھلا کہنے کے ساتھ ساتھ شہروالوں کی کور چشمی کا ماتم کیا ۔ انھیں اندھے پن سے چھٹکارادلانے کی جدوجہدشروع کی اور اس کوشش میں اپنی اور اپنے ساتھیوں کی جانیں تک قربان کر بیٹھے ۔ انھیں پابہ جولاں کر چکے ، انھیں نذرِ زنداں کر گئے ۔ ۔ ۔ لیکن ان کی کھلی آنکھیں مزیدروشن ہو گئیں وہ قوم کو جگانے کے عمل میں اور زیادہ مستعدا ور متحرک ہو گئے ۔تماش بینوں میں سے بعض ان کی آواز پر اب جاگ رہے ہیں ، مگر اکثریت مداری کے سحر میں مبتلا ہوکر اس کے بتائے ہوئے عمل پر کار بند ہے ۔یہ عمل جو انھیں تباہی کی طرف لے جارہا ہے ۔یہ عمل جو انھیں ذلت و رسوائی کی طرف لے جارہا ہے ۔یہ عمل جو ان سے ان کی شناخت چھین رہا ہے ۔یہ عمل جو ان کی زبان و تہذیب اور مذہب واقدار کو ملیامیٹ کر رہا ہے ۔یہ عمل جو ان کے چہروں پر سیاہی مل رہا ہے ، ان کے چہروں کو مسخ کر رہا ہے ۔
ہائے بدبختی !یہ تماشے کے خمار سے نہیں نکل رہے ۔ اور جب ان کی پلکوں سے پتھروں کی بھاری سلیں سرکیں گے ، ان کے دماغوں پر پڑا اندھیراچھٹے گا، تو بہت دیرہوچکی ہو گی۔مداری بدل چکا ہو گا، تماشابدل چکا ہو گا، ماحول بدل چکا ہو گا، روایت بدل چکی ہو گی ، اقداربدل چکی ہوں گی، چہرے بدل چکے ہوں گے ، زبان بدل چکی ہو گی۔ایسے میں یہ تماش بین کسی نئے تماشے میں کھوجائیں گے اور پھر ان کی زندگیاں تماشوں میں گزرتی جائیں گے ۔دنیاکے سب کام، آخرت کے سب جام، ان سے چھٹ جائیں گے ۔پانی کے رُخ پربہتے جائیں گے ۔ ۔ ۔ بہتے جائیں گے اور راہ میں آنے والے پتھروں سے ٹکر اٹکر ا کر اپنے چہروں کو مسخ کر بیٹھیں گے ۔آئینہ ان اسے ان کی پہچان تک چھین چکا ہو گا۔ میں اس وقت کو سوچتا ہوں تو لرز۔ ۔ ۔ لرزجاتا ہوں ۔میری آوازیں مدہم ہو جاتی ہیں ۔ایک گھٹن سی پورے ماحول پرچھائی ہوئی محسوس ہوتی ہے ، اسی عالم میں شہرکے کسی کونے سے صدا بلند ہوتی
’’تماش بینو!جاگو، طلسم سے نکلو، مداری مکار ہی نہیں دھوکے بازبھی ہے ۔‘‘
جب یہ گونج میری سماعتوں سے ٹکر اتی ہے تو مجھے اپنے ہونے کا احساس ہوتا ہے ، مجھے نئی زندگی کی نویدملتی ہے ، میں سوچتا ہوں کہ تماش بین اب زیادہ دیرتک مدہوش نہیں رہ پائیں گے ۔ مہینوں میں نہیں ، ہفتوں میں نہیں ، دنوں میں نہیں ، گھنٹوں میں نہیں ، منٹوں میں نہیں ، لمحوں میں بیدار ہو جائیں گے اور ایک نعرئہ مستانہ لگا کر مکار، دھوکے بازمداری کو دبوچ لیں گے ۔اس سے پل پل کاحساب لیں گے ۔اس سے جان جان کا حساب لیں گے ۔اس سے بات بات کاحساب لیں گے ، اس سے گل گل کاحساب لیں گے ، اس سے پات پات کا حساب لیں گے ، اس سے خار خارکاحساب لیں گے ۔یہ آب وگل جب اس کی مکاریوں کی داستان سنائیں گے تو جاگنے والے کیاکچھ نہیں کر گزریں گے ؟
مگریہ کیایہ سب تو میرے تصورات ثابت ہوئے ۔ظلم جاری وساری ہے ، تاریکیوں اور تباہیوں کے دن اسی طرح سے ہیں ۔تماش بین تو تماش گزارکے طلسم میں پہلے سے زیادہ کھوچکے ہیں ۔اب تو جاگنے والوں کی آوازیں بھی مدہم۔ ۔ ۔ اور مدہم اور پھرمعدوم ہوتی جارہی ہیں ۔ یوں لگتا ہے جیسے وہ بھی مداری کے سحر میں آنے لگے ہیں ۔ان کی زبانیں خاموش ، ان کے قلم ساقط اور ان کی نگاہیں پتھرہونے کو آئی ہیں ۔ان کے چہرے بھی پیلے پڑنے لگے ہیں ۔
نہیں ، نہیں ۔ ۔ ۔ اس طرح تو ہم سب اپنی اصل سے ہٹ جائیں گے ۔ہم اپنی شناخت کھوبیٹھیں گے ، ہمارے چہرے مسخ ہوجائیں گے ۔جاگنے والوں کو جاگنا ہو گا۔ ہمارے سامنے اس عظیم انسان کے مثال موجود ہے جس نے مکاروں سے نبٹنے کے لیے میدان لگایا اور بھوک سے نڈھال ہوکر اپنے پیٹ پر پتھرباندھے ، مگر میدان نہیں چھوڑا۔ لڑتا رہا۔ ۔ ۔ اور جیتارہا ہے ۔اس کے ماننے والے ایک سے دو، دوسے چار اور چار سے تین سوتیرہ ہوئے اور اب ان کی تعدادایک ارب سے زیادہ ہے ۔کیایہ سب سو چکے ہیں ؟ کیا انھیں روبوٹ بنا دیا گیا ہے ؟کیایہ اب کبھی ہوش میں نہیں آئیں گے ؟

٭٭٭
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Locked

Return to “چیخوں میں دبی آواز”