پرانامنظر

اردوادب کے ممتاز لکھاری محترم خاور چوہدری کی نوکِ قلم سے نکلنے والے شہکار افسانے
Locked
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

پرانامنظر

Post by چاند بابو »

[center]پرانامنظر[/center]

’’اسکندرکانام تم نے ضرورسن رکھا ہو گا، اس کی فتوحات کاسلسلہ دنیاتک پھیلا ہوا تھا۔اس کی ہیبت سے انسان لرزاں رہتے تھے ، ملکوں کے سربراہ اس کانام سن کر چکر ا جاتے تھے ۔جو دم خم ظاہر کر تاوہ کچلا جاتا تھا اور جو زندہ رہنا چاہتاوہ اس کاتابع فرماں ہو جاتا۔ ہلاکو اور چنگیزکی کہانیاں بھی تو تم نے سن رکھی ہوں گی۔ ۔ ۔ اور ہٹلر کو تو تم جانتے ہی ہو گے ؟وہی نازی آمر ایڈولف ہٹلرجس نے دوسری جنگ عظیم میں اپنی سربراہی میں قائم کیے گئے کیمپوں میں مقیم لاکھوں یہودیوں کاصفایا کر دیا تھا۔جس نے روس نوازہندوستانی راہ نما سبھاش چندربوس کو ہندوستان کی آزادی کے لیے ان قیدیوں پرمشتمل فوج بنانے میں مدد دی تھی جنھیں جنرل رومیل نے اتحادی افواج کے لیے لڑنے پر گرفتار کیا تھا۔ اور اسی ہٹلرکی ہیبت ناکی سے دنیاکا سکون غارت ہوکر رہ گیا تھا۔ ۔ ۔ مگروہ لمحہ بھی آیاجب اس نے اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کاچراغ گل کر دیا۔ اور اب بش کی وحشت ناکیوں سے انسان کا سکون برباد ہوکر رہ گیا ہے ۔پُرامن رہنے والے بے گناہ لوگوں کو ان کے گھروں کے اندرموت کی وادی میں دھکیلاگیا۔بغدادکے گلیوں سے شروع ہونے والے ظلم کاسفرکابل اور اس کے نواحی علاقوں کو محیط ہو گیا۔خون کے ذائقہ سے زبان عادی ہو گئی تھی، اس لیے صبرنہ ہو سکا اور اب پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دندناتاپھر رہا ہے ۔ہزاروں کاخون پی چکا ہے ، مگر ہنوز پیاسا ہے ۔ پہلے طالبان کی یہاں موجودگی کا بہانہ بنا کر یہاں نکل آتا تھا اور اب براہِ راست اسامہ کی یہاں موجودگی کا الزام لگا کر آیاکھڑا ہے ۔بے گناہ انسانوں کو ان کی اپنی زمین پر روند دینا چاہتا ہے ۔
ہاں ۔ ۔ ۔ !میں جانتا ہوں بش بھی اسکندرکی طرح دنیاکو فتح کر نے کے خواب دیکھ رہا ہے ۔ اسی پرکیاموقوف عراق میں شب خون تو اس کے باپ نے مارا تھا اور اس کے پیش رو، ویت نام میں بھی تو اُترے اور لڑے تھے ، مگر۔ ۔ ۔ مگر کیا ہوا، کیا ہوتا ہے ؟ کسی کو بھی اپنی سانس پر قدرت نہیں ، کوئی بھی اپنی مرضی سے اپنی زندگی کو طول نہیں دے سکتا۔اسکندر نہیں رہا ، چنگیز ، ہلاکو اور ہٹلربھی ۔ ۔ ۔ تو بش کیوں کر رہ سکتا ہے ۔البتہ تاریخ کے اور اق پران کے مظالم کی تصویریں اب بھی ملتی ہیں اور انسان اب بھی ان کے نام سن کرناگواری ظاہر کر تے ہیں ۔‘‘
احسان الٰہی صاحب کاسلسلہ ء کلام دفتر میں آنے والے ایک شخص نے کچھ دیرکے لیے معطل کر دیا تھا، سلسلہ بہ حال ہواتو کہنے لگے :
’’انقلابی راہ نماسبھاش چندربوس ہندوستان کو آزاد دیکھنا چاہتا تھا۔اس کی آزادی کی خاطروہ گیارہ مرتبہ برطانوی حکومت کے ہاتھوں پابہ زنجیر ہوا اور آخرکارایڈولف ہٹلر کے کہنے پرہندوستان سے فرارہوکر جرمنی چلاگیا۔جس طرح کہ سبھاش چندربوس کی فوج بنانے میں ہٹلر نے معاونت کی تھی، اسی طرح اس نے اسے ہندوستان کا جلاوطن راہ نما بھی تسلیم کر نے کاعندیہ دے رکھا تھا۔ ۔ ۔ مگرجب روس نوازاس ہندوستانی انقلابی پرہٹلرکے سویت یونین سے ٹکر انے کے عزائم ظاہرہوئے تو وہ وہاں سے فرارہوکر جاپان چلاگیا۔
تم جانتے ہوہٹلرنے اسے ہندوستان کاحکم ران تسلیم کر نے کاعندیہ کیوں دیا تھا ؟ اس لیے کہ وہ اتحادی افواج پرظاہر کرنا چاہتا تھا کہ ’’ہٹلرکی طاقت ہندوستان تک پھیلی ہوئی ہے ‘‘ اسے ہندوستان اور اس کے عوام کی غلامی یا آزادی سے کوئی مطلب نہیں تھا، بالکل اسی طرح بش کے پیشواؤں نے کیا اور اب وہ خود کر رہا ہے ۔ عراق، افغانستان اور پاکستان کی ترقی اور خوش حا لی سے اسے کوئی دل چسپی نہیں اور نہ ہی ان ممالک کے راہ نماؤوں سے ۔ ۔ ۔ اگرہے تو اسے اپنے ذاتی مقاصدسے ۔جنھیں حاصل کر نے کے لیے گاہے وہ ’’امداد‘‘ دیتا ہے اور گاہے دھمکیاں ۔ جب ان سے کام بن نہیں پڑتاتو بلاروک ٹوک ان ممالک پرچڑھ دوڑتا ہے ۔‘‘
’’تم ہٹلرکاپوچھتے ہو!ہٹلربہت منظم شخص تھا۔نازی افواج کے کاندھے اس کے لیے ایسے استعمال ہوئے جیسے خوداس کے اپنے ہوں ۔ اس کے ساتھی ایسے تھے کہ اس کے اَبرو کی جنبش پرجان وارنے کو تیار رہتے ۔چٹانوں سے ٹکر ا جاتے ، مگرپیچھے نہ ہٹتے ۔ہٹلرکے نظم وضبط کا اندازہ اس سے کر وکہ اس کے پروپیگنڈا چیف جوزف گوبلز(جوہٹلرکے مرنے کے بعد نازی افواج کاخودساختہ سالاربنا)کی بیوی نے اپنے چھ کم سن بچوں کو زہر دے کر ہلاک کر دیا تھا اور خود بھی زہرکھا لیا تھا، تاکہ مخالف افواج کی قید میں نہ آئے ۔یہی نہیں اس کے اکثر ساتھیوں نے خود اپنے ہاتھوں اپنی جان پرگولیاں چلائیں اور بعض بھاگ نکلے مگر ۔ ۔ ۔ مگرانھیں میں اس کا ایک انتہائی قریبی ساتھی ، فوج کا اعلیٰ افسر سٹوفن برگ جو جرمنی کے رئیس خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ ۔ ۔ بھی شامل تھا۔اس شخص نے 22 جولائی1944ء کو مشرقی پروشیہ(اب پولینڈ)میں واقع ہٹلرکے دفتر میں بریف کیس کے اندربم نصب کر کے رکھ دیا تھا۔وہ تو ہٹلر کا جینا باقی تھا، اس لیے بچ گیا اور پھراس دھماکا کے صرف چند گھنٹوں کے بعدہٹلرنے سٹوفن برگ اور اس کے ساتھیوں کو گرفتار کر واکے تختہ دارپرلٹکا دیا تھا۔
حیران ہونے کی ضرورت نہیں اب جرمن قوم ہٹلر کو ولن اور سٹوفن برگ کوہیرو سمجھتی ہے ۔20جولائی 2004ء کو جرمن چانسلرنے برلن میں ہزاروں افراد اور ملک کے صدر کے ساتھ مل کر سٹوفن برگ اور اس کے ساتھیوں کو خراج عقیدت پیش کر نے کا اہتمام کیا تھا۔ اب 18اگست 2006ئ؁ میں ممبئی میں شا کر صدیقی اور اس کے ہندوساتھی نے مل کر ’’ہٹلر کر اس‘‘کے نام سے کیفے کا افتتاح کیا تو اسرائیلی قونصلرجنرل ڈینیل زونشائین نے برہمی ظاہرکی۔ اس کاحق بنتا تھا ، مگرہندوستان میں موجودجرمنی قونصلرجنرل نے بھی کیفے کوہٹلرکے نام منسوب کر نے پرافسوس کا اظہار کیا۔ گویا ہٹلر خود جرمنوں میں بھی ناپسندیدہ ٹھہر چکا ہے ۔
ٹھیک ہے کچھ لوگ ہٹلرکے حامی ہو سکتے ہیں اور ہونے بھی چاہییں کہ شر اور خیر کی طاقتوں کاسفرساتھ ساتھ رہتا ہے ، مگرضروری نہیں جو ہٹلرکانام لے وہ اس کے نظریات اور فلسفے کی حمایت بھی کر تا ہو۔تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو، جن لوگوں نے ہٹلرکے ہاتھوں کی بنی ہوئی پینٹنگز اور اسکیچ 2 لاکھ 24 ہزارڈالرز میں انگلینڈ کے نواحی قصبہ میں خریدے ہیں ۔ ۔ ۔ وہ ہٹلر سے عقیدت رکھتے ہیں ، مگرممکن ہے یہ لوگ بھی سٹوفن برگ کی طرح ہوں ۔ ۔ ۔
وہ جو خود کو طاقت کا سر چشمہ سمجھنے لگا تھا۔ ۔ ۔ مگرآخرآخراپنے آپ سے خوف کھانے لگا۔ہٹلرکی ذاتی نرس 93سالہ ایرنافلیگیل نے 2 مئی2005ئ؁ کو اپنے انٹرویو میں بتایا تھاکہ ایڈولف ہٹلرآخری دنوں میں بہت زیادہ خوف زدہ تھا۔اسے یہ بھی دھڑکا لگا رہتا تھا ، کہیں جاسوس اس کے زہریلے کیپسولوں سے زہر نکال کر نقلی زہرنہ ڈال دیں اور وہ زندہ بچ جانے پر دشمنوں کے ہتھے چڑھ جائے ۔دشمنوں کی طرف سے ممکنہ اذیت کا تصور اس کے لیے ناقابل برداشت تھا۔‘‘
’’آپ کے خیال میں ہٹلر ہیرو تھا یا ولن؟‘‘
میں نے سوال کیا، جس کے جواب میں انھوں نے کہا
’’راشدمنہاس شہیدکے حوالے سے نذیرناجی کاکالم تم نے ضرور پڑھا ہو گا، میراجواب وہی ہے ۔‘‘
احسان الٰہی صاحب خاموش ہوئے تو میں نے اپناسوال دہرایاجس کے جواب میں کہنے لگے
’’میں سمجھتا ہوں کوئی بھی شخص اعتدال کی حدیں تجاوزکر تا ہے وہ خیر کا ساتھی نہیں ہو سکتا، اب ہیرو اور ولن کا لیبل خودلگا لیجیے ۔‘‘
احسان صاحب چلے گئے ہیں اور میں ۔ ۔ ۔ پرانے اور نئے منظرکے درمیان کی گم شدہ کڑیاں تلاش کر رہا ہوں ۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Locked

Return to “چیخوں میں دبی آواز”