’’IMPOSTOR‘‘

اردوادب کے ممتاز لکھاری محترم خاور چوہدری کی نوکِ قلم سے نکلنے والے شہکار افسانے
Locked
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

’’IMPOSTOR‘‘

Post by چاند بابو »

[center]’’IMPOSTOR‘‘[/center]

’’ اُسے خواب میں چلنے کی عادت تھی یاپھرچلنے میں سونے کی، جب ہی تو وہ راتوں کو اپنی آرام گاہ میں ٹہلتارہتا۔اگر بستر پر وجود کو گرا بھی دیتا تو اس کا دماغ اور آنکھیں جاگتے رہتے ۔اکثراوقات وہ خودکلامی میں ایسی ایسی باتیں کہہ جاتاکہ سننے والے انگشت بہ دنداں رہ جاتے ۔ ۔ ۔ حیران ہو جاتے اور سوچتے بھلایہ بھی کوئی کہنے کی باتیں ہیں ۔ ۔ ۔ خود کلامی ہی سہی ؛ہے تو پریشان کن۔اس کاخیال تھاکہ اس کے اردگردرہنے والے تمام لوگ زرخریدغلام اور لونڈیاں ہیں ۔ روشنیوں ، ہواؤں ، پانیوں ، موسموں ، آسمانوں ، زمینوں اور دُھوپ چھاؤں جیسی سبھی نعمتوں کاحق دار بہ جز اس کے کوئی اور نہیں ہے ۔ان شدت پسند اور غیر حقیقت پسندانہ خیالات سے اس کے سوچنے ، سمجھنے ، بولنے اور برتننے کی حسیات زنگ آلود ہونے لگی تھیں ۔ اس کے قریب رہنے والے لوگوں کے خیال میں وہ نفسیاتی مریض بن چکا تھا اور انھیں یہ بھی دھڑکالگارہتا تھاکہیں اس کے ہاتھوں کسی کی جان نہ ضائع ہوجائے ۔ مجبوراًقرابت داراس کی جائزونا جائزفرمائشوں اور مطالبات کو بے چون و چرامان لیتے ۔ ۔ ۔ اور پھروہ اس راہ ہولیتاجس پر اس کاجی چاہتا۔
مہینوں وہ غائب رہتا، اس کے جاننے والے نہیں جانتے تھے کہ وہ کہاں نکل جاتا ہے اور کیا کر تا رہتا ہے ، مگریہ ضرورجانتے تھے کہ وہ خودکوکبھی نقصان نہیں پہنچا سکتا، کیوں کہ اس نے کسی بھی حالت میں ، کبھی بھی ، کوئی ایسی حرکت نہیں کی تھی ، جس سے اندازہ ہو سکتا ہوکہ وہ ایسا کر سکتا ہے ۔البتہ یہ ممکن تھا، جب وہ کسی اور کو نشانہ بنائے تو سامنے والابھی وار کر دے ۔ وہ بلاکاذہین دکھائی دیتا تھا، کبھی کبھی تو یوں معلوم ہوتا جیسے علوم کے تمام دفاتراس کے دماغ میں کھلے ہوئے ہیں اور وہ انھیں صرف ایک نظر دیکھ کر آگے نکلتا جارہا ہے ۔علم الکلام کا ماہر تھایاکم ازکم اندھوں میں کانا تھا، اس کے ہم محفلوں اور جاننے والوں میں اس جیساخوش گفتار ، خوش سلیقہ اور موقع شناس کوئی اور نہیں تھا۔ بولتا تھا تو یوں دکھائی دیتاجیسے اب کبھی خاموش نہیں ہو گا۔ ۔ ۔ مگرجب خاموش ہواتو سالوں کسی سے بات نہیں کی ۔ آس پاس کے لوگوں میں بعض کاخیال تھاکہ وہ ’’مرشدکے حکم سے چلّہ کاٹ رہا ہے ‘‘ اور بعض اسے IMPOSTORکہتے ، مکار اور مکر وہ خیال کر تے ۔یہ تمام باتیں وہ جانتا تھا۔ ۔ ۔ وہ جانتا تھا کہ اس کے قریب رہنے والوں میں کون کیارائے رکھتا ہے ، لیکن وہ عموماًاپناتاثر ظاہر نہیں کر تا تھا اور پھرکسی دوسرے وقت میں کسی اور طریقہ سے حساب بے باق کر دیتا۔اس کے اس ردعمل کوکم لوگ جانتے تھے ۔ ۔ ۔ کیوں کہ وہ براہِ راست کچھ نہیں کر تا تھا، جس طرح اس کی ہربات تہ درتہ ہوتی ، اسی طرح اس کاعمل تھا۔ ۔ ۔ ہرپرت کے نیچے سے دوسری پرت نکل آتی اور آدمی حیران رہ جاتا۔اگروہ پیا لی توڑنا چاہتاتو اسے سیدھے اندازسے پکڑ کر زمین پر نہیں پٹخ دیتا تھا۔ ۔ ۔ بل کہ اس کے لیے وہ میزسے ٹھوکر کھاتا اور اپنی ٹانگ سہلانے کے ساتھ ساتھ ٹوٹی پیا لی کو دیکھ کر آنکھوں ہی آنکھوں میں اپنی حکمت پر مسکر اتا رہتا۔ اس کی ان عادتوں اور حکمت عملیوں سے کم لوگ واقف تھے ۔ایک دفعہ اس نے کہا تھا کہ
’’طاقت صرف طاقت ہوتی ہے ، خیر اور شرکی بحث بے معنی ہے ، مجھے کوئی بھی طاقت ہاتھ آ جائے میں اسے استعمال کر وں گا۔شیطان اگر دنیا کو زیر کر نے میں معاونت کر تا ہے تو اسے دوست کہنے اور دوست رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔میں طاقت چاہتا ہوں ، حکم رانی چاہتا ہوں ، دوام چاہتا ہوں ۔‘‘
اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتا، اس کے ایک ہم محفل نے اپناجوتا اُتار کر اس کے منہ پر دے مارا۔ ۔ ۔ اور پھرایک ساعت کے اندراسے گردن سے پکڑ کر دبوچ لیا، اس کے کندھوں پر اپنے دانت گاڑھ لیے اور اس دوران اپنی لاتوں کا استعمال بھی جاری رکھا، جب خود نڈھال ہواتو اس کی جان چھوٹی۔مٹی اور خون میں لتھڑا وجود لیے جب وہ اپنے گھر پہنچا تھا تو گھر والے حیران نہیں ہوئے تھے ۔ ۔ ۔ اسی لیے انھوں نے اس سے کوئی سوال بھی نہیں کیا، کیوں کہ وہ جانتے تھے وہ انھیں کچھ نہیں بتائے گا۔اس واقعہ کا اتنا اثرضرورہوا تھاکہ وہ اب کھلے عام اس طرح کی باتیں نہیں کر تا تھا اور جاننے والوں کو تو اس پربھی حیرت ہوئی تھی کہ اس نے مارنے والے سے نہ صرف معافی مانگ لی تھی ، بل کہ اس کی غیرموجودگی میں اس کی تعریفیں بھی شروع کر دی تھیں ۔‘‘
بزرگِمحترم کی بات کاٹتے ہوئے سائل نے کہاکہ یہ فرضی داستان مجھے کیوں سنانا چاہتے ہیں آپ۔ ۔ ۔ ؟کیوں آپ چاہتے ہیں کہ میں اس سوا ل کو بھول جاؤں جو میں نے آپ سے کیا ہے ۔جواباًان کے چہرے پر مسکر اہٹ کی ہلکی سے لکیرکھنچ گئی اور کہنے لگے
’’یہ تمھارے سوال کاجواب ہی تو ہے ، ذراصبر سے کام لو‘‘
اب سائل نے تفنن طبع کے لیے ان سے کہا۔ ۔ ۔ کہیں یہ غلام عباس کی کہانی’’بہروپیا‘‘ کا دوسرا ظہورتو نہیں ۔
’’قطعاًبھی نہیں ۔ ۔ ۔ وہ مثبت کر دارتھا، جس کی جستجو اور طلب خیرکی جانب تھی جب کہ جو تذکر ہ ہم کر رہے ہیں وہ منفی ہے ۔ ۔ ۔ سراسر منفیIMPOSTORکالفظ اس کے لیے کم ہے ۔ وہ اس سے کہیں زیادہ خطرناک اور مہلک شخصیت کا مالک تھا۔‘‘
مکر رقطع کلامی پرمعافی کاخواست گارہوں ، میراسوال تو ابھی تک جواب طلب ہے ، سائل نے کہاتو محترم فرمانے لگے
’’میں مختصر کر تا ہوں !وہ فریبی تھا، اپنی حیثیت سے زیادہ جھوٹے دعوے کر تا تھا، جس عرصہ میں وہ غائب رہانہ جانے وہ کیا کر تا رہا۔ ۔ ۔ لیکن واپسی پر اس نے مشہور کر دیا تھاکہ جس طاقت کے حصول کے لیے وہ برسوں ماراماراپھرتارہا ہے ، اسے حاصل ہو گئی ہے ، اب وہ دنیا پر حکم رانی کی قدرت رکھتا ہے ، مگروہ ایسا کر ے گا نہیں ، کیوں کہ جس مرتبہ پروہ فائزہے اس کا تقاضایہ ہے کہ اس چھوٹے کام کو اور وں کے لیے چھوڑدیا جائے ۔ وہ کہتا
’’حکومت اور حکم رانی تو چھوٹے کام ہیں ؛ میرامنصب ان سے بڑا ہے ۔‘‘
کج فہموں نے اس کی اس بات کو مان لیا تھا اور اس کے ساتھ ہوبھی لیے ۔ان نادانوں کی تعداد میں روزبہ روزاضافہ ہوتاچلاگیا۔ ۔ ۔ جوں جوں یہ طبقہ بڑھتا گیا بہروپیے کی طاقت بھی بڑھنے لگی۔پھر اس نے اپنی اسی حکمت کے تحت شہر پرقبضہ کر لیا۔وہ جوکہتا تھاکہ حکومت اور حکم رانی سے مجھے کوئی نسبت نہیں باقاعدہ حکم ران ، بل کہ جابرحکم ران بن بیٹھا۔اس نے اپنے معاون کے کہنے پر چن چن کر ان لوگوں کو خس و خاشاک بنایاجو ان کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے تھے مگر۔ ۔ ۔
مگراب اسے سونے میں چلنے یاپھرچلتے میں سونے کی عادت ہو گئی تھی۔رات رات بھروہ عام لوگوں کی طرح سو نہیں سکتا تھا۔ ۔ ۔ اور ایسے عالم میں جب وہ خودکلامی کر تا تو اس کے گھروالے اس کی ہذیان گوئی پراپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ۔دل ہی دل میں اس پرلعنت بھیجتے اور پھر اس کی یہ خودکلامی اس کے گھرکی دیوارپھلانگ کر باہرنکل آئی ۔ ۔ ۔ سڑکوں اور گلیوں پرپھیل گئی اور اب اسے اپنی بھی خبرنہیں رہی تھی۔ ۔ ۔ !شیطانی طاقت اس سے چھن چکی تھی اور اس کے معاون نے ایک اور IMPOSTOR کا تقر ر کر دیا
تھا ۔ ‘‘
وہ خاموش ہوئے تو سائل نے عرض کیا، جناب آپ نے تو ساری بات کو اُلجھا کر رکھ دیا ہے میں نے تو صرف اتناپوچھا تھاکہ ’’بادشاہ مکر م‘‘ نے جاپانی وزیراعظم جونی شیرو کوئی زومی کو ملّا محمد عمر کی بابت جو لطیفہ سنایا ہے اس پرآپ کاکیاردعمل ہے ۔ ۔ ۔ ؟جس کے جواب میں آپ نے فرضی داستان سناڈا لی۔بزرگ بولے
’’کہانی کوئی بھی فرضی نہیں ہوتی۔ ۔ ۔ اور کوئی کہانی عبرت سے خا لی بھی نہیں ہوتی۔ میں تمھارے سوال کاجواب وضاحت سے دے چکا ہوں ، مگر ایک بات تمھارے سامنے اور بھی رکھتا ہوں ۔ ہیو گو شاویز نے بش کو بر سر عام شیطان کہا۔ ۔ ۔ بہ قول شاویزکے
’’ شیطان اور اس کی قوتیں خیرکاتعاقب کر رہی ہیں ۔‘‘
بزرگ خاموش ہوئے ۔ ۔ ۔ اپنی چادراُٹھا کر کاندھے پر رکھی اور چلے گئے ۔ ۔ ۔
ریڈیوپرخبرنگارکی آوازآئی
’’آج فلوجہ، تکر یت، بغداد اور بعقوبہ میں امریکی افواج کی فائرنگ سے سات سوکے قریب شہری جاں بہ حق ہو گئے ۔ ۔ ۔ اُدھرافغانستان کے علاقہ زابل میں بھی امریکی بمباری سے سیکڑوں شہریوں کی ہلاکت کی اطلاع آئی ہے اور پاکستان کے قبائل میں جھڑپوں سے سینتا لیس شرپسندہلاک اور چھ سیکورٹی اہل کارشہیدہو گئے ہیں ۔‘‘

٭٭٭
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Locked

Return to “چیخوں میں دبی آواز”