عکس درعکس

اردوادب کے ممتاز لکھاری محترم خاور چوہدری کی نوکِ قلم سے نکلنے والے شہکار افسانے
Locked
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

عکس درعکس

Post by چاند بابو »

[center]عکس درعکس[/center]

’’یہ 27جنوری2005ئ؁ کادن تھا۔ ۔ ۔ جنوبی پولینڈکے شہرآشوچ کی جسموں کو جامد کر دینی وا لی سردی جسموں میں اُتر رہی تھی۔لوگ موٹے کمبل اوڑھے اُن لوگوں کویاد کر رہے تھے ۔ ۔ ۔ جن کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ ہٹلرکی افواج نے انھیں انتہائی ذلت آمیز طریقہ سے قتل کیا تھا ۔ ۔ ۔ اُن کی ننگی نعشوں کو اُوپرنیچے رکھاگیا تھا۔ ۔ ۔ اور ان تہ بہ تہ رکھی گئی نعشوں میں خواتین کے برہنہ۔ ۔ ۔ مگرمردہ جسم بھی تھے ۔ان باتوں میں کتنی صداقت ہے اس حوالے سے کوئی بھی حتمی بات ابھی تک سامنے نہیں آ سکی ہے ۔فطرت کے عین مطابق ان واقعات کے حوالے سے بھی دوگرہوں نے جنم لیا ہے ۔ایک وہ لوگ ہیں جو ان واقعات کو تسلیم کر تے ہیں اور دوسرے وہ لوگ ہیں جو ان کی نفی کر تے ہیں ۔
خیر۔ ۔ ۔ آشوچ میں منعقدہ تقریب میں ہٹلرکی فوج کے ہاتھوں یہودیوں کے نسل کش کیمپ سے بچ جانے والے افراد اور عالمی راہ نماشریک تھے ۔ آشوچ کے یخ بستہ ماحول کو آنسوؤں کی گرمی سے بھی گرم نہیں کیا جا سکا تھا۔ ۔ ۔ تب اسرائیل کے صدر موشے کاتساؤ نے کہا تھاکہ
’’ہم اب بھی مرنے والوں کی چیخیں سن سکتے ہیں ۔ اب جب کہ میں کیمپ کی زمین پرقدم رکھ رہا ہوں ، تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میں مرنے والوں کی راکھ پر چل رہا ہوں ۔‘‘
موشے کاتساؤکی یہ باتیں شرکا کے لیے سخت اذیت ناک ثابت ہوئیں ۔ ۔ ۔ اور سسکنے وا لی آوازیں چیخوں اور آہوں میں بدل گئیں ۔کیمپ میں سوگواری تھی ، مگر آشوچ کا ماحول جوں کا توں تھا۔تقریب میں بتایا گیاکہ اس کیمپ میں دس لاکھ افراد کو ریل گاڑیوں کے ذریعہ سے لایاگیا تھا اور 1940ء سے لے کر ستائیس جنوری1945ئ؁ تک ایک ملین سے زائد افراد کو ہلاک کیا جا چکا تھا۔ہلاک ہونے والوں میں بیشتر مرکزی یورپ کے یہودی تھے ۔ جنھیں ہم جنس پرستوں ، پولینڈ اور روسی قیدیوں کے ساتھ ٹرکوں میں آشوچ بھر کر لایا گیا تھا ۔ان تمام ہلاک ہونے والوں کی تعدادگیارہ لاکھ بتائی گئی۔ جن میں سے دس لاکھ یہودی تھے ۔آشوچ کی اس تقریب میں موشے کاتساؤکے علاوہ فرانسیسی صدرژاک شیراک، امریکی نائب صدرڈک چینی، برطانوی وزیر خارجہ جیک سٹرا، روسی صدر ولادی میرپوٹن، پولینڈ کے صدرا لیگزینڈرکو ازنیوسکی اور جرمن صدرہارسٹ کوہلربھی شریک تھے ۔ آخرالذکر پر مکمل سکوت طاری تھا۔آشوچ کے کیمپ سے زندہ بچ جانے والے ایک یہودی آرنولو سٹیگر نے اُس وقت کویادکیاجب وہ آشوچ میں قیدتھا۔ بانوے سالہ روسی فوج کے افسر اناتولی شپیرونے اُن دنوں کی دھندکو سرکاتے ہوئے بتایاکہ
’’یہاں ننگی عورتوں کے ایک کے اُوپرایک رکھی گئی نعشوں کے انبارتھے ۔چاروں طرف خون ہی خون تھا۔ ۔ ۔ اور بدبونتھنوں کی چیر رہی تھی ۔ کوئی شخص اس ماحول میں پانچ منٹ کے لیے نہیں رُک سکتا تھا۔‘‘
یوں لگتا تھاجیسے آشوچ میں ہونے وا لی اس روزکی برف باری نے زندوں کاخون بھی منجمد کر دیا ہے ۔‘‘
پروفیسرصاحب ایک منٹ کے لیے خاموش ہوئے ۔ ۔ ۔ سگرٹ سلگایا اور دوبارہ گویا ہوئے
’’ایران میں ہولوکاسٹ پرکانفرنس ہورہی ہے ۔کانفرنس میں اس بات کا جائزہ لیا جارہا ہے کہ آیا ہولوکاسٹ ہوابھی تھاکہ نہیں ۔ گزشتہ سال دسمبرکے وسط میں جنوب مشرقی ایرانی شہرزاہدان میں ہزاروں افراد سے خطاب کے موقع پر ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے ہولو کاسٹ کو مفروضہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا
’’انھوں نے ایک کہانی گھڑلی ہے جسے وہ یہودیوں کاقتل عام کہتے ہیں اور اب وہ اسے خدا، پیغمبر اور مذہب سے اونچادرجہ دیتے ہیں ۔‘‘
انھوں نے اس موقع پریہ بھی کہا تھا
’’اگریورپ نے یہودیوں کاقتل عام کر کے ظلمِ عظیم کیا ہے تو مظلوم فلسطینیوں کو اس کی سزا کیوں دی جارہی ہے ۔ ۔ ۔ ؟ہماری پیش کش یہ ہے کہ آپ یورپ یا امریکا یا پھر الاسکا، آسٹریا یاجرمنی میں زمین کا ایک حصہ یہودیوں کو دے دیں تاکہ وہ اس پراپنی حکومت قائم کر سکیں ۔‘‘
خدالگتی بات ہے کہ اس سے صائب مشورہ کوئی اور انھیں نہیں دیا جا سکتا تھا۔ ۔ ۔ اور نہ دیا جا سکتا ہے ۔اگرہولوکاسٹ کا انکارجرم ہے تو پھرمغرب کو اپنے گنا ہوں کا کفارہ بھی خودادا کرنا چاہیے ۔
خیر۔ ۔ ۔ ہم واپس ایران میں ہونے وا لی اس کانفرنس کی جانب آتے ہیں جس میں تیس مختلف ممالک سے 67مفکر ین کی شرکت کی اطلاع آئی ہے اور ساتھ ہی ایرانی وزیر خارجہ منوچہرمتقی کایہ کہنابھی سننے کو ملا ہے کہ
’’کانفرنس کامقصدہولوکاسٹ کی تصدیق یا تردید کرنا نہیں ، بل کہ ان مفکر ین کو موقع فراہم کرنا ہے جو اس کے بارے میں یورپ میں اظہارِخیال نہیں کر سکتے ۔ ‘‘
منوچہر متقی نے حقیقتاًمغرب کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے ۔ وہ جو آزادی ء اظہار کے راگ الاپ الاپ کر مسلم معاشروں کوکھوکھلا کرنا چاہتے ہیں ، آج خوداپنے کہے ہوئے سے مکر رہے ہیں ۔ ۔ ۔ بل کہ اُلٹے پاؤں بھاگناشروع ہو گئے ہیں ۔اس کی ایک مثال امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک حا لیہ بیان کی صورت دی جا سکتی ہے ، جس میں اس نے اس کانفرنس کو ایرانی حکومت کا ایک اور ہتک آمیزقدم قرار دیا ہے ۔ویسے سچی بات تو یہ ہے کہ محمود احمدی نژاد صاحب کایہ کہناوزن رکھتا ہے کہ
’’کس طرح ساٹھ لاکھ یہودیوں کاقتل عام ممکن ہے ۔‘‘
مجھے اقوام متحدہ کے سیکر ٹری جنرل کوفی عنان کاوہ بیان یادآرہا ہے جو انھوں نے گزشتہ سال جنوری کے تیسری ہفتے میں نیویارک کی اس تقریب میں دیا تھاجو نازی کیمپوں سے آزادی کی ساٹھویں سالگرہ کے حوالے سے منعقدکی گئی تھی۔موصوف نے فرمایا تھا
’’وہ برائی جس نے ساٹھ لاکھ یہودیوں اور دوسروں کو ایذارسانی کے کیمپوں میں مصائب میں مبتلاکیا۔آج بھی وہ برائی اقوام عالم کو دھمکا رہی ہے ۔‘‘
اس بیان پرتبصرے کی گنجائش نہیں ۔یہ ان عالمی طاقتوں کی طرف واضح اشارہ ہے جو دنیا کا امن تباہ کر نے کے درپے ہیں ۔‘‘
پروفیسرصاحب نے سگرٹ کے دھوئیں کو سانس کے ذریعہ سے اپنے اندر کھینچا ؛ اور پھرایک خاص اندازسے دھوئیں کو فضا میں چھوڑتے ہوئے سلسلہ ء کلام جوڑا
’’یہ باتیں ضمناًدرآئی ہیں ، واپس کانفرنس پرآتے ہیں ۔کانفرنس میں شریک برطانیہ سے آنے والے ایک یہودی عالم اہرن کوہن نے کس قدرضبط سے یہ کہا ہے
’’ہم کہتے ہیں ہولوکاسٹ ہوئی ہے ۔ ۔ ۔ لیکن اسے کسی طورپربھی فلسطینیوں کے خلاف زیادتیوں کے لیے جواز نہیں بنانا چاہیے ۔‘‘
اہرن کوہن جان لیں کہ ایرانی صدر کابھی یہی مؤقف ہے ۔ ۔ ۔ اور عام مسلمانوں کابھی کہ۔ ۔ ۔ یہودی اپنے اُوپرظلم کر نے والوں کو پہچانیں نہ کہ نہتے فلسطینیوں پر ظلم ڈھائیں ۔
میں سمجھتا ہوں ایران نے کانفرنس کا انعقاد کر کے ایک جرأت مندانہ قدم اُٹھایا ہے ۔دوسرے اسلامی ملکوں کو بھی اس کی تقلید کر نی چاہیے ۔ کیوں کہ جب کوئی ایک یورپی ملک نبی آخرالزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے حوالے سے گستاخانہ خاکے شائع کر تا ہے تو پورا یورپی میڈیا اس کی تتبع کر تا ہے ۔ یہاں کوئی سلمان رشدی پیدا ہوتا ہے تو ’’آزادی ء اظہار‘‘کو جواز بنا کر اسے وہاں پناہ دے دی جاتی ہے ۔ ۔ ۔ مگر جب کوئی ان کا اپنا ’’ہولوکاسٹ‘‘کی حقیقت جاننے کی کوشش کر تا ہے تو اس پرمقدمہ قائم کر نے کا کہا جاتا ہے ۔کیابرطانوی مؤرخ ڈیوڈ آرونگ کی آسٹریا میں گرفتاری کو بھلایا جا سکتا ہے ۔ ۔ ۔ ؟ آرونگ وہی شخص ہے جس نے اپنی کتاب میں کہا تھاکہ
’’ہولوکاسٹ کے حوالے سے ہلاکتوں کی تعدادکو بڑھا چڑھا کر پیش کیاگیا تھا۔ ۔ ۔ اور آشوچ کیمپ میں گیس چیمبربھی نہیں تھے ۔‘‘
یہ ایک حوالہ ہے ۔کئی اور باتیں بھی ہیں جن سے ہمارے مؤقف کو تقویت ملتی ہے ۔ہم تو وہ ہیں جن کے نزدیک ایک انسان کو قتل کرناپوری انسانیت کو قتل کر دینے کے مترادف ہے ۔ اس لیے ہم کسی کے قتلِ عام پرخوش نہیں ہوتے ۔ ۔ ۔ لیکن اگرایران نے حقائق کی جان کاری کے لیے کانفرنس کا انعقادکیا ہے تو امریکا اور مغرب کو اپنے آپ پر قابو رکھنا چاہیے کہ، ہم بھی گوشت پوست کادل رکھتے ہیں ۔‘‘
پروفیسرصاحب بات مکمل کر کے خاموش ہوئے اور اپنی کر سی کی پشت کے ساتھ سرٹکا کر خلاؤں میں گھورنے لگے ۔ ۔ ۔ محفل میں موجود لوگوں کی آنکھوں سے چشمے جاری ہو چکے تھے ۔ ۔ ۔ شایدآشوچ کے چیمبروں میں دم توڑنے والوں کے لیے ۔ ۔ ۔ یامسجداقصیٰ کی خاطرقربان ہونے والوں کے لیے ۔ ۔ ۔ یا پھر بغداد، تکر یت اور بعقوبہ میں رزقِخاک ہونے والوں کے لیے ۔ ۔ ۔ پکتیا، تورابورا اور کابل کی مٹی میں مٹی ہوجانے والوں کے لیے ۔ ۔ ۔ یاکوہلو، بگٹی اور سوئی کی گلیوں میں مار دیے جانے والوں کے لیے ۔ ۔ ۔ یا پھر وانا، وزیرستان اور کر اچی میں اَن دیکھی گولیوں کانشانہ بننے والوں کے لیے ۔ ۔ ۔ اور یاپھرلال مسجد اور جامعہ حفصہ کے معاصرے کے دوران جاں بہ حق ہونے والوں کے لیے ۔ ۔ ۔ خود کش حملوں میں موت کو گلے لگانے والے سپاہیوں کے لیے ۔ ۔ ۔ یاپھران مقتولوں کے لیے جنھیں اپنا جرم تک معلوم نہیں تھا۔ ۔ ۔ بس آنسوؤں کی لکیریں بڑھتی جارہی تھیں ۔ ۔ ۔ مگر دماغ کی دیواروں سے ایک ہی جملہ باربارٹکر ارہا تھا
’’ہم وہ ہیں جو ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کاقتل سمجھتے ہیں ۔‘‘

٭٭٭
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Locked

Return to “چیخوں میں دبی آواز”