ہیروں کا سوداگر

اردوادب کے ممتاز لکھاری محترم خاور چوہدری کی نوکِ قلم سے نکلنے والے شہکار افسانے
Locked
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

ہیروں کا سوداگر

Post by چاند بابو »

[center]ہیروں کا سوداگر[/center]

دل آرام ریسٹورنٹ کے باہرجب پہلی مرتبہ میری نظراُس پرپڑی تو میں نے اُسے کوئی اہمیت نہیں دی تھی۔ ۔ ۔ مگرجب وہ اکثرشام کے بعد وہاں دکھائی دینے لگاتو میں نے ایک دن اُس سے پوچھ ہی لیا۔
’’میں یہاں ہیرے فروخت کر نے آتا ہوں ‘‘
اُس کے اِس جواب سے میں شش در و متعجب ہوکر اُس کا منہ تکنے لگا۔میری حیرتوں کو بھانپتے ہوئے اُس نے اپنے کندھے سے بوری اتاری اور گویاہُوا
’’اِس طرح کیوں تک رہے ہو؟‘‘
اور پھر جلدی سے بوری کامنہ کھولا اور اُس سے درجنوں رنگ بہ رنگ پتھرنکال کر زمین پر پھیلادیے ۔ایک گول مٹول سرخی مائل پتھرمیری طرف بڑھاتے ہوئے کہنے لگا
’’یہ ملکہ الزبتھ دوم کے استعمال میں رہا ہے ، جب وہ آئینے کے سامنے جایا کر تی تھی تو یہ پتھر سنگھار میزپرموجودہوتا۔اس کی قیمت ایک لاکھ امریکن ڈالرہے ۔‘‘
سرمئی پتھرمیرے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا
’’براہم لنکن کویہ موتی اُس کی اعلیٰ خدمات پیش نظر رکھتے ہوئے ایک امریکی سرمایہ کارجان ای ایگرنے تحفہ میں دیا تھا؛ اس کی قیمت پچپن لاکھ امریکن ڈالر ہے ۔، ،
بادامی رنگ کے چھوٹے سے پتھر کو دکھاتے ہوئے اس نے کہاکہ
’’یہ محبت کی نشانی ہے ۔ ۔ ۔ ویسے تو اربوں ڈالربھی اگرمجھے کوئی دے تو میں اسے نہ دوں ۔ ۔ ۔ مگر میراکاروباراس نوعیت کا ہے کہ میں اسے زیادہ دیرتک اپنے پاس نہیں رکھ سکتا؛یہ دو کر وڑ ڈالرکا ہے ۔لیڈی ڈیاناکو اس کے آخری عاشق دودی الفائدنے محبت کے آخری تحفے کے طور پر دیا تھا۔جب ان کی گاڑی کو حادثہ پیش آیا تو وہاں موجودایک شخص نے اِسے اُٹھا لیا تھا۔‘‘
نہ جانے کتنے اور موتی اور ہیرے اس کی بوری میں تھے ۔ ۔ ۔ جو کئی نام ور ہستیوں کے زیر استعمال رہ چکے تھے ۔میں نے اس سے پوچھا
’’یہ موتی کون خریدتا ہے ؟‘‘
تو اس نے بتایا
’’یہاں کورین، چائنیز، ملائشینز ، جرمنز اور عریبک لوگ آتے رہتے ہیں ۔میرازیادہ کاروبار ان سے رہتا ہے ، تاہم بعض اوقات کوئی پاکستانی تاجربھی مال اُٹھا لیتا ہے ، لیکن میں اِن سے زیادہ تجارت اِس لیے بھی نہیں کر تاکہ یہ لین دین ٹھیک نہیں کر تے ۔چھ ماہ پہلے کر اچی کے ایک تاجرکوڈیڑھ ارب ڈالرکے ہیرے دیے تھے ۔ ۔ ۔ اُس نے ایک ماہ کے اندر رقم دینے کاوعدہ کیا تھا، مگرتاحال رقم نہیں آئی۔‘‘
یہ کہتے ہوئے وہ انتہائی تیزی سے ہوٹل کی طرف دوڑا۔ ۔ ۔
٭٭٭
صحیح نام اس کا غالباً عبدالشکور ہے ۔ ۔ ۔ لیکن لوگوں میں وہ کئی ناموں سے مشہور ہے ۔کچھ نام اس نے خودچُنے تھے اور بعض اس کے القابات اور خطابات شمارکیے جا سکتے ہیں ۔ایک زمانے میں وہ’’شِکر ا‘‘کے نام سے شہرت کو پہنچا۔ ۔ ۔ یہ اس کا اپنارکھا ہوانام ہے ۔ پھروہ’’دونمبر‘‘کے نام سے جانا گیا۔یہ نام اُسے ان لوگوں نے دیاجو اس کے ’’کاروبار‘‘ کو جعلی سمجھتے ہیں ۔ کچھ لوگ’’آن وڑئی اوئے ‘‘(*)کہہ کر بھی اُسے مخاطب کر تے ہیں ۔جس کے جواب میں اس کے منہ سے پھول جھڑناشروع ہوجاتے ہیں ۔ ۔ ۔ اور وہ ہیرے جن کی ما لیت اربوں سے زیادہ ہوتی ہے مخاطب کی جانب برسناشروع ہوجاتے ہیں ۔ اپنی توہین شکر ے سے کبھی برداشت نہیں ہوپاتی ، بھلے اس کا اربوں میں نقصان ہوجائے ۔پھینکے ہوئے ہیروں کو دوبارہ سمیٹنے کے بعدبیس کلوسے زیادہ وزن دار بوری کاندھے پراُٹھا کر کسی اور جانب چل پڑے گا۔
میں نے جب ہوش سنبھالاتو وہ اس شہر میں موجودتھا۔اُس وقت یہ حالت نہیں تھی اُس کی۔ 1986ء میں ایک مرتبہ اس نے بتایا تھاکہ وہ سائیکل پر دو مرتبہ تین ہزارکلومیٹر فاصلہ طے کر کے کر اچی گیا اور آیا ہے ۔تن سازی کے مقابلوں میں بھی حصہ لیتارہا۔جس وقت مجھے یہ بتارہا تھا اُس وقت وہ اپنے موٹر سائیکل کو رکشا میں تبدیل کر رہا تھا۔ رکشا جب تیار ہوا تو وہ بڑے فخر سے شہر میں اُسے پھراتارہا۔ ۔ ۔ کیوں کہ اس کی بناوٹ میں استعمال ہونے والے پرزے اس کی اپنی انجینئرنگ کانتیجہ تھے ۔ دوسری بات یہ بھی تھی کہ وہ اس شہر کا پہلارکشا تھا۔رکشا کی تکمیل کے بعداُس نے خواہش ظاہرکی تھی
’’اگرمیرے پاس وسائل ہوتے تو میں بڑے پیمانے پر رکشا سازی کاکام شروع کر تا۔‘‘ دیکھنے والوں نے دیکھاکہ’’شکر ا‘‘دن بھرمیلوں کی مسافت طے کر کے رکشاپرآئس کر یم ، اچار اور دیگرکئی چیزیں بیچا کر تا۔ پھر یوں ہوا کہ اس کی موٹرسائیکل خراب رہنے لگی۔ ۔ ۔ اور آخرکار اس نے موٹرسائیکل بیچ کر گدھا خرید لیا۔موٹرسائیکل کے پیچھے باندھی گئی گاڑی کو اس نے موٹرسائیکل سے جدا کر دیا تھا۔ ۔ ۔ پھروہی گاڑی اس کے گدھے کے کام آئی۔یعنی رکشا ، چاند گاڑی میں بدل گیا۔میں بتا چکا ہوں کہ شِکر ا میلوں پھرنے کاعادی تھا اور گدھے کے لیے یہ مسافت ناقابل برداشت تھی ۔ ۔ ۔ اس لیے وہ جلدہی اسے چھوڑگیا۔بس یہی دن تھے جو اسے معاشرے کی ٹھوکر وں پرچھوڑگئے ۔شروع میں وہ تفننِطبع کے لیے اپنی ذات کے حوالے سے بھی مزاح کر تا تھا ۔لوگ سن کر خوش ہوجاتے اور اسے چائے ۔ ۔ ۔ سگریٹ پیش کر تے ۔پھرلوگوں نے اسے مذاق کا نشانہ بنانامعمول بنا لیا۔ اور اب تو چھوٹے بڑے نے اس کی وہ خبرلی تھی کہ وہ خودسے بے خبر ہو گیا۔ اس کی حالت یہ ہے کہ وہ نصف من پتھروں کوہیرے سمجھ کر دن بھرکاندھے پر اٹھائے پھرتا ہے ۔ ۔ ۔ اور رات کو ان کو اپنے پہلو میں دبا کر سوتا ہے ۔
کئی برس گزرگئے ۔ ۔ ۔ شکر ے سے متعلق باتیں ہوا میں تحلیل ہونے لگیں ۔ ۔ ۔ لوگوں کی دل چسپیاں بدلنے لگیں ۔ ۔ ۔ ماحول میں تبدیلی آئی۔ میں اپنے ایک دوست کے ساتھ دل آرام ریسٹورنٹ کے باہرپڑی کر سیوں پر بیٹھا ہوں ۔ ۔ ۔ دفعتاً دو نمبر آ جا تا ہے ۔ ۔ ۔ اب اس کی حالت انتہائی قابل رحم ہے ۔ چوکور میز کے ایک کونے پرپیرجما کر کہتا ہے
’’مال چاہیے ۔ ۔ ۔ ؟‘‘
میں اُسے اس کے پرانے حال میں سمجھتے ہوئے کہتا ہوں
’’کیا جارج ڈبلیوبش سے ڈیل نہیں ہوئی۔ ۔ ۔ ؟‘‘
وہ اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے پرتا لی کے سے اندازمیں مارتے ہوئے بہ آوازبلندقہقہہ لگاتا ہے ۔ ۔ ۔ تو سب لوگ ہماری طرف متوجہ ہوجاتے ہیں ۔قدرے توقف کے بعدکہنے لگتا ہے
’’جناب۔ ۔ ۔ !وہ پرانی باتیں ہیں ۔ ۔ ۔ اب اور مال بکتا ہے ‘‘
’’اب کون سامال بکتا ہے ۔ ۔ ۔ شکر یا؟‘‘میں نے دل چسپی سے پوچھا
’’شراب۔ ۔ ۔ افیون۔ ۔ ۔ ہیروئن۔ ۔ ۔ چرس۔ ۔ ۔ نن باؤ۔ ۔ ۔ ویاگرا۔ ۔ ۔ ‘‘
دونمبرکے اس انکشاف سے میں چونک ساگیا۔ ۔ ۔ اب وہ مجھے حقیقتاًدونمبرمحسوس ہورہا تھا ۔ ۔ ۔ میں نے سوچاشایداس نے پاگل پن کابہروپ بھر رکھا ہے اور وہ اس اندازسے اپنا گھٹیا کام کر تاچلا آرہا ہے ۔مجھ سے رہانہ گیاتو میں نے پوچھا
’’تم بیچتے ہویہ سب چیزیں ۔ ۔ ۔ ؟‘‘
وہ پھرکھلکھلا کر ہنسا اور اُسی اندازسے اپنے ایک ہاتھ پر دوسراہاتھ مارا۔ ۔ ۔ کہنے لگا
’’میں کہاں بیچتا ہوں ۔ ۔ ۔ چودھری صاحب، راناصاحب، میاں صاحب اور شیخ صاحب بیچتے ہیں ‘‘
’’کیاوہ خودبیچتے ہیں ۔ ۔ ۔ ؟‘‘
’’بھلاخودکیوں بیچیں گے ؟کیاوہ شرفانہیں ہیں ؟‘‘
’’تو کون بیچتا ہے پھر۔ ۔ ۔ ؟‘‘
’’پیپا۔ ۔ ۔ لاٹو۔ ۔ ۔ سوہنا۔ ۔ ۔ مندری۔ ۔ ۔ بجنس۔ ۔ ۔ کارتوس۔ ۔ ۔ ‘‘
وہ خاموش ہوتا ہے اور پھر ٹکٹکی باندھے مجھے دیکھتا ہے ۔ ۔ ۔ جیسے مجھے سننا چاہتا ہو۔ میں پھر اُس سے سوال کر تا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
’’تم کیابیچتے ہو۔ ۔ ۔ ؟‘‘
’’میں ۔ ۔ ۔ میں تو آئینے بیچتا ہوں ۔ ۔ ۔ آنکھیں بیچتا ہوں اور آنکھوں کے موتی بیچتا ہوں ۔ ۔ ۔ لفظوں کے ہیرے بیچتا ہوں ۔‘‘
٭٭٭
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Locked

Return to “چیخوں میں دبی آواز”