دقیانوسیت

اردوادب کے ممتاز لکھاری محترم خاور چوہدری کی نوکِ قلم سے نکلنے والے شہکار افسانے
Locked
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

دقیانوسیت

Post by چاند بابو »

[center]دقیانوسیت[/center]

’’ہربات کی حدہوتی ہے ۔ ۔ ۔ جب تم یوں ہی بے دھیانی کو اوڑھنابچھونابنالوگے تو جینا مشکل ہوجائے گا‘‘
اماّں بی نے اوندھے منہ پڑے علی احسن سے کہاتو وہ تکیہ ایک طرف اُچھالتے ہوئے ایک دم سے اُٹھا اور انھیں اپنی بانہوں کے حصار میں لے لیا۔ ۔ ۔
’’چل ہٹ!۔ ۔ ۔ اب خوشامدیں نہ کر ‘‘
’’تو کیا اپنی پیاری سی امّاں بی سے محبت کرناخوشامدہے ؟‘‘
’’اچھا اچھا۔ ۔ ۔ چھوڑمجھے اور جلدی سے تیارہوکر نیچے آ جا۔ ۔ ۔ سب تمھارا انتظار کر رہے ہیں ‘‘
’’جی آپ چلیے ۔ ۔ ۔ میں آیا‘‘
سلطانہ ڈھیلے قدموں واپس لوٹ آئیں ۔ ۔ ۔ ماربل کی چکنی سیڑھیوں سے اُترنا ان کے لیے پل صراط طے کر نے سے کسی بھی طرح کم نہیں تھا۔ ۔ ۔ سیڑھیوں کے ساتھ لگے ہوئے آہنی پائپ کو اگرپکڑنہ رکھیں تو ایک سیڑھی نہ اُترسکیں ۔ ۔ ۔ ہال میں لگے فانوس کی سارے بلب روشن تھے ۔ ۔ ۔ ٹی وی بھی چل رہا تھا۔ ۔ ۔ باہرلان میں فوارہ بھی اپنے جوبن پرتھا۔ ۔ ۔ لان کے چاروں اور گنبدنمابلبوں نے رات کو دن میں بدل رکھا تھا۔ ۔ ۔ مین گیٹ کے اُوپر دونوں جانب تیزروشنی والے بلب ضیاتابی کا عنواں بنے ہوئے تھے ۔جب وہ حمنہ کے کمرے کے قریب سے گزر رہی تھیں تو وہ اپنے کمپیوٹرپرکسی سے وائس چیٹنگ میں مصروف تھی۔ ۔ ۔ اے ئر کنڈیشن آن تھامگر۔ ۔ ۔ ا س کے کمرے کا دروازہ کھلا تھا۔
’’کس قدرلاپروا اور بے دھیان ہے یہ مخلوق؟‘‘
سلطانہ نے خودکلامی کی۔ ۔ ۔ ٹہلتے ٹہلتے وہ صحن تک آ گئی جہاں ریٹائرڈپروفیسرعبدالصمداپنے چاروں بیٹوں اور بہوکے ساتھ پہلے سے بیٹھے تھے ۔
’’میاں صاحب زادے نہیں آئے آپ کے ساتھ؟‘‘
پروفیسرصاحب نے سلطانہ سے پوچھا۔ ۔ ۔ مگروہ خاموش رہیں
’’اَجی ہم سے کیابھول ہو گئی جو جناب کا مزاج نا آشنا ہو گیا ہے ؟‘‘
عبدالصمدنے اپنی بیگم کوکچھ مضطرب دیکھ کر کہا
’’پروفیسرصاحب!یہ سب کیادھرا آپ کا ہے ۔ ۔ ۔ اچھی گزر رہی تھی گاؤں میں ، مگرآپ کی ضد ہمیں یہاں لے آئی۔ ۔ ۔ نہ کوئی ادب آداب ہی سیکھ پایا ہے اور نہ ہی نفع نقصان کی پروا ہے کسی کو۔ ۔ ۔ میں پوچھتی ہوں ہزاروں یونٹ بجلی ضائع کر نے کی کیاضرورت ہے ؟بہورانی آپ کے پہلومیں بیٹھی ہیں ، مگران کے کمرے کا اے ئرکنڈیشن اور بلب بے کار چل رہے ہیں ۔ ۔ ۔ حمنہ اور علی احسن کے کمروں کا بھی یہی عالم ہے ۔کوریڈور اور ہال سمیت صحن کی حالت بھی مختلف نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ‘‘
’’بجا ارشادفرمایا آپ نے ۔ ۔ ۔ ہم نے اس بٹا لین کا انچارج آپ کو بنا دیا تھا، تو یہ آپ کی ذمہ داری تھی کہ سپاہیوں سے مناسب کام لیتیں ۔‘‘
شرارت کے سے انداز میں پروفیسرصاحب گویا ہوئے تو سلطانہ بیگم کو جیسے موقع مل گیا ہو ۔ ۔ ۔ وار کر نے کے لیے
’’خوب سمجھتی ہوں آپ کو۔ ۔ ۔ آپ کی بٹا لین کو۔ ۔ ۔ کہے دیتی ہوں اب مجھ سے مزیدیہ چونچلے برداشت نہیں ہوں گے ۔ ۔ ۔ سیدھی طرح سے اپنی عادتیں بدل ڈا لیے ، ورنہ میں بھائی صاحب کے ہاں گاؤں لوٹ جاؤں گی۔‘‘
فیصلہ کن اندازسے جب انھوں نے کہاتو سب نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا۔بہونے گھبراتے ہوئے کہا
’’امّاں بی!بس آخری موقع دے دیں ۔ ۔ ۔ ان شاء اللہ کل سے ویساہی ہو گاجیسا آپ چاہتی ہیں ۔‘‘
تب تک سلطانہ اپنے کمرے کی جانب بڑھ چکی تھیں ۔
’’ٹھیک کہتی ہیں سلطانہ بیگم۔ ۔ ۔ بجلی کم خرچ ہو گی تو بل بھی کم آئے گا اور بچنے وا لی رقم کہیں اور کام آئے گی‘‘
پروفیسرصاحب نے سمجھانے کے اندازمیں کہا
’’مگراباّجی صرف ہمارے گھر میں یوں نہیں ہوتا۔ ۔ ۔ پورے بلاک پرنظرڈا لیے ہربنگلے کی یہی کیفیت ہے ۔ ۔ ۔ آپ بھی امّاں بھی کا ساتھ دے رہے ہیں ‘‘
علی محسن نے قدرے ترشی سے کہاتو عبدالصمدنے فکر مندنظروں سے اُسے گھورا
’’اباّجی بل ہم دیتے ہیں ۔ ۔ ۔ کماتے ہم ہیں ، پھرآپ لوگوں کو فکر مند ہونے کی کیاضرورت ہے ؟‘‘
پروفیسرصاحب بیٹے کی باتوں سے دُکھی ہو گئے تھے ۔ ۔ ۔ مگرانھوں نے خودپرضبط کر تے ہوئے کہا
’’بیٹا!ہم دونوں تو تمھارے ہی بھلے کاسوچتے ہیں ۔ ۔ ۔ ایک بات یادرکھو!بھرا کنواں بھی سوکھ جایا کر تا ہے ‘‘
’’ہوتا ہو گا اس طرح بھی۔ ۔ ۔ مگریہ سب اس دورکی ضرورتیں ہیں ‘‘
پروفیسرعبدالصمدکے دماغ میں ایک حقیقی کر دار روشن ہورہا تھا۔ ۔ ۔ وہ اپنے بیٹوں کو بھی چونتیس سال اُدھرلے گئے
’’جھریوں بھرے چہرے پر دوآنکھیں یوں وا ہوتی تھیں ۔ ۔ ۔ جیسے تاریک غاروں کے دہانے سے بھاری سلوں کو سرکایا جارہا ہو۔زبان میں لکنت بھی آخری حدکو چھو چکی تھی۔بل کہ یوں تھاکہ منہ میں دانت نہ ہونے کے باعث بات ہی ٹھیک طرح سے نہیں ہو سکتی تھی۔اپنی طرف سے پوری قوت کے ساتھ بات کہی جاتی۔ ۔ ۔ مگرسننے والے کوہمہ تن گوش سے بھی کچھ زیادہ ہوناپڑتا۔اُدھربھی یہی عالم تھا، اِدھر سے بات ہوتی تو ایک کان کے ساتھ ہتھیلی کی دیوار بنا کر دوسرے کان پرہاتھ رکھا جاتا۔اچھاخاصاچیخنے کی مشق کر نے کے بعدوہاں بات پہنچتی۔اُوپر سے کمرکاخم بھی اپنی جگہ موجود تھا۔
یہ تھیں مائی فضیلت!شادی کے بعدایک بیٹے کی ماں بنیں اور جوانی میں بیوگی کی چادراوڑھ کر بیٹھ رہیں ، اللہ جانے کیوں ۔ ۔ ۔ ؟اسّی کی دہائی میں ہم ان کے پڑوسی بنے ۔ بیٹا ان کاکسی عرب ملک میں بڑھئی کاکام کر تا تھا اور اِدھربہو اور دوپوتیوں کی موجودگی کے باوجود بھی اپنا کھاتی پکاتیں ۔اسّی کے سن سے بہ ہر حال متجاوزتھیں ۔ ہماری طرف آ جایا کر تیں اور پھراپنی عمربھرکے تجربات سے آگاہ کر تیں ۔ان کی باتیں اب جو یاد آتی ہیں تو احساس ہوتا ہے کس قدرحقیقت پسند خاتون تھیں ۔خوا جہ رحمت اللہ جری کایہ شعر
جب بڑھاپے کا موڑ ملتا ہے
تجربوں کا نچوڑ ملتا ہے
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

ان پرصادق آتا تھا۔نصف کنال کے قریب صحن میں مائی فضیلت موسموں کی سبزیاں اُگایا کر تی تھیں ۔بازاری آٹے سے انھیں سخت اذیت ہوتی تھی۔اپنے ہاتھوں سے گھر میں پڑی چکی میں گندم کے دانے ڈالتی جاتیں اور جتنے وظائف یادہوتے ، ساتھ ساتھ پڑھتی رہتیں ۔ مائی کا کہنا تھا جو عورتیں رزق کو بے وضو ہاتھ لگاتی ہیں یاپھرپکاتے وقت اللہ کویاد نہیں رکھتیں ان کے ہاتھوں میں لذت نہیں آتی۔قدرت ان کے ہاتھوں سے ذائقہ چھین لیتی ہے ۔وہ ہر لقمہ منہ میں ڈالنے سے پہلے ’’بسم اللہ‘‘ اور جب حلق سے اُترجاتاتو ’’الحمدللہ‘‘کہتیں ۔وہ بازاری کھانوں اور سبزیوں پر اُٹھنے والے خرچ کو اسراف کاعنوان دیتیں ۔مائی کا خیال تھا جو لوگ صبح، دوپہر، شام کپڑے بدلتے ہیں اور خوامخواہ کی تیاریوں میں جُتے رہتے ہیں وہ حق داروں کا حق مارتے ہیں ، ضرورت مندوں پرظلم کر تے ہیں ۔ مائی کی کل ماہانہ آمدن ڈیڑھ سو روپے تھی، جو انھیں مکان کے کر ایہ کی مد میں آتی تھی۔ اسی رقم سے وہ اپناچولھاگرم رکھتیں اور کچھ پس انداز بھی کر لیتیں ۔پائی پائی جوڑ کر مائی نے مکہ اور مدینہ بھی دیکھے ۔ ۔ ۔ حج کی سعادت بھی حاصل کی۔
کمرے میں انھوں نے چا لیس واٹ کابلب اس اندازسے لگوایا تھاکہ وہ بہ یک وقت کمرے اور صحن کو روشن رکھتا۔مغرب سے عشا اور پھرصبح کی نماز کے لیے بلب روشن ہوتا ۔ ۔ ۔ باقی وقت میں بجھارہتا۔گرمیوں میں مائی کے کمرے کاپنکھاصرف دوپہر کو چلتا اور اگر رات میں گرمی بہت زیادہ ہوتی تو چلا دی اور نہ چارپائی صحن میں ڈال کر اس پر ’’مچھر دانی‘‘ تان لی جاتی اور چادرکو پانی سے بھگو کر اپنے پاس رکھ لیا جاتا۔ جب جب گرمی محسوس ہوتی ، چادر سے ٹھنڈ حاصل کی جاتی۔وہ پانی کے زیادہ استعمال پربھی ناراض ہوتی تھیں ۔ا یک بار ہمارے گھرکی ٹینکی سے پانی چھلکتا دیکھا تو کہا
’’نعمتیں جب اس طرح ضائع کی جائیں تو اللہ ناراض ہوکر ان میں کمی کر دیتا ہے ۔ یاد کر و ان لوگوں کو جو اُن جوہڑوں سے پانی پیتے ہیں جہاں سے جان وربھی پیتے ہیں ۔‘‘
مائی کاخیال تھاجن عورتوں کے تین سے زائدجوڑی کپڑے ہیں ان سے قیامت کے دن پوچھ ہو گی کہ، انھوں نے فضول خرچی کیوں کی۔سُرخی پاؤڈرکی لیپاپوتی کر نے وا لیاں تو انھیں ایک آنکھ نہیں بھاتی تھیں ۔مائی کہتیں
’’یہ اشیا ان عورتوں کے لیے جہنم کی آگ ثابت ہوں گی۔‘‘
ایک بارہمارے گھر میں ان سے کسی نے پوچھ لیامائی دوسری شادی کیوں نہیں کی؟تو ان کاجواب تھا
’’کم زورتھی، سوچتی تھی اگر کسی دوسرے شخص سے بول پڑھا لیے تو کہیں یتیم کی حق تلفی نہ ہو جائے ۔ ۔ ۔ یتیم کامال دوسرا استعمال کر لیتاتو روزمحشرمیری گردن پرگرفت ہوتی۔‘‘
کبھی کوئی اپنی تنگ دستی کاتذکر ہ کر تاتو وہ کہتیں
’’انسان پراللہ نے بہت سی نعمتیں اتاری ہیں ، اگروہ ان کا استعمال دیانت داری اور سلیقہ سے کر ے تو کبھی تنگ دستی کا شکار نہیں ہو گا۔جب اعتدال کی حدوں کو چھوڑدیا جاتا ہے ، لالچ اور بے ضمیری کو فروغ دیا جاتا ہے ، حق تلفی کو عادت بنا لیا جاتا ہے تو پھرانسان کی بھوک کبھی نہیں مٹتی۔وہ پیسوں سے نکل کر روپوں ، سیکڑوں اور ہزاروں کے پیچھے لگ جاتا ہے ۔اس کی زندگی ختم ہوجاتی ہے ، مگرہوس کی آندھیاں نہیں رُکتیں ۔جوں جوں وقت گزرتا ہے یہ تیز جھکڑوں میں اُڑتا رہتا ہے ۔‘‘
ایک بار کسی نے کہہ دیامائی مہنگائی بہت ہو گئی ہے ، خاوندپورے نوسوروپے مہینے کے کماتا ہے ، مگرمہینے کے اخیر میں ادھاراُٹھاناپڑتا ہے ۔مائی کاجواب تھا
’’مہنگائی نہیں ہوئی ہم نے اپنی ضروریات بڑھا لی ہیں ۔اپنی چادر سے پاؤں نکال لیے ہیں ۔میں اپنے بچپن میں ایک انڈے کے بدلے پاؤدودھ لاتی تھی۔ اب بھی انڈافروخت کر کے اسی رقم سے پاؤدودھ منگوا لیتی ہوں ۔‘‘
کیاوضع دار اور حقیقت پسندخاتون تھیں وہ۔ ۔ ۔ پودینہ کی چٹنی سے کھا کر اللہ کا شکر ادا کر تیں ، پنج گانہ نمازکے علاوہ نفلی عبادت میں بھی مصروف رہتیں ۔میں نے انھیں کبھی ناشکر ی کر تے ہوئے یا مایوس بیٹھے نہیں دیکھا۔اس قدر مطمئن، اس قدرشا کر وصابرشایدکوئی اور ہو ۔ پھرایک صبح بہونے دیکھامائی جائے نمازپربے سدھ پڑی ہیں ۔
وقت گزرگیا، بیٹا اور بہو بھی دنیا چھوڑ گئے ۔ ۔ ۔ اور اب پوتیاں ولایت میں اپنے خاوندوں کے ساتھ رہ رہی ہیں ۔ ۔ ۔ ان سب باتوں کو بھول کر جوان کی دادی کہا کر تی تھیں ۔ مجھے ایک جاننے والے نے بتایا تھاکہ وہ وہاں کسی فیکٹری میں کام کر تی ہیں ۔گھرکاخرچ مشکل سے چلتا ہے ، اس لیے انھیں اپنی ضروریات کے لیے کام کرنا پڑتا ہے ۔ بچوں کے اخرا جات کے لیے انھیں خاوندکاہاتھ بٹاناپڑتا ہے ۔ ‘‘
پروفیسرصاحب مائی فضیلت کی کہانی سنا کر خاموش ہوئے ہی تھے کہ علی محسن کہنے لگا
’’تو امّاں بی مائی فضیلت سے کون سی کم ہیں ۔ ۔ ۔ ہرمعاملہ میں کنجوسی اور دقیانوسیت دکھاتی ہیں ۔ ۔ ۔ اور ابّاجی اسّی کے سن کو گزرے ہوئے چھبیس برس ہو گئے ہیں ، اب بھی اگرہم اسی طرح سوچنے لگے تو ہم دنیاکے پاؤں کی دُھول بن جائیں گے ۔ ۔ ۔ ہرزمانے کی اپنی ضروریات اور تقاضے ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ مائی فضیلت بغیر پنکھے کے سوسکتی ہوں گی، مگراب اے ئرکنڈیشن کے بناسوناممکن نہیں رہا ہے ۔ ۔ ۔ اب چا لیس واٹ کے بلبوں سے گھر نہیں روشن ہوتے بل کہ روشنی کے لیے کئی ہزارواٹ کے بلب درکارہوتے ہیں ۔‘‘
علی محسن نے اپنی تقریرختم کی تو پروفیسرصاحب بغیرکچھ کہے اُٹھ کھڑے ہوئے ۔
حمنہ ہاتھ میں کاغذلیے دوڑتی آرہی تھی۔ ۔ ۔ عبدالصمدجانے لگے تو پوتی نے کہا
’’داداجی!یہ نئی رپورٹ بی بی سی پرشائع ہوئی ہے ۔میں پرنٹ آؤٹ کر کے لے آئی ہوں ۔ ۔ ۔ دیکھیے تو‘‘
’’بٹیا اپنے باپ کو دو۔ ۔ ۔ میں صبح دیکھ لوں گا، اب تھک گیا ہوں ‘‘
’’مگرآپ بیٹھیے تو۔ ۔ ۔ بہت دل چسپ رپورٹ ہے ‘‘
کاغذاپنے باپ کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے حمنہ نے کہا
علی محسن نے کاغذپرلکھی ہوئی رپورٹ پڑھناشروع کی
’’آسٹریلیاکے سب سے بڑے شہرسڈنی میں ہفتہ کی شام سات بج کر تیس منٹ پرمشہوراوپیراہاؤس پربنے ٹ اور بلاکس کی بتیاں بجھا دی گئیں ۔اس کے اطراف میں بنے گھروں میں بھی کم وبیش یہی صورت حال تھی۔اس کے علاوہ ہاربربرج اور شہرکے تجارتی مرکزمیں آسمان کو چھوتی ہوئی عمارتوں کی روشنیاں بھی گل کر دی گئیں ۔ ۔ ۔ ’’ارتھ اور ‘‘نامی اس مہم کا مقصدعالمی حدت میں کمی کی کوشش کرنا ہے ، جس وقت سڈنی میں ’’بلیک آؤٹ ‘‘ کیا گیا اس وقت شہرکے بڑے ریستورانوں اور تجارتی مراکزمیں موم بتیوں کی روشنی سے کام لیاگیا۔ ‘‘
علی محسن نے کاغذ واپس حمنہ کو دیا۔ ۔ ۔ پروفیسرصاحب بیٹے کے چہرے پرنظریں جمائے ہوئے تھے ۔ ۔ ۔ بیٹا خاموش تھا۔ ۔ ۔ مسلسل خاموش۔ ۔ ۔
٭٭٭
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Locked

Return to “چیخوں میں دبی آواز”