میں
Posted: Thu Jul 24, 2008 5:54 pm
[center]میں[/center]
’’صبح بیدارہواتو پہلی نظروال کلاک پرپڑی۔11:45 کا وقت دکھاتے ہوئے گھڑیال کی سوئیوں پرغورکیاتو وہ جامدتھیں ۔میں نے سوچا گزشتہ رات تو نئی بیٹری ڈا لی گئی تھی پھر کیوں اس کی سوئیاں چلنابھول گئیں ۔موبائل آن کیاتو سگنل غائب تھے ، البتہ موبائل کی گھڑی 4:53 بجا رہی تھی۔جلدی سے بسترچھوڑا اور باہرگلی میں نکل آیا۔گلی کی بہتی نا لیوں میں محلے کے گھروں کے واش رومزسے برآمدہونے والا مواد شامل ہو رہا تھا۔کچھ خواتین اپنے گھروں کا کوڑا کر کٹ اپنے دروازوں سے باہرپھینک رہی تھیں ۔ ۔ ۔ جس سے ماحول میں مزید تعفن پھیل رہا تھا۔ میں جس وقت گلی سے گزر رہا تھامیرے لیے آزادانہ سانس لینا ناممکن تھا۔بڑے بڑے ڈگ بھرتا ہوا آبادی سے دومیل باہر کھیتوں میں نکل آیا۔
ابھی پو نہیں پھٹی تھی۔ ارد گردکی چیزیں پوری طرح واضح نہیں دکھائی دے رہی تھیں ۔میں چلتے چلتے گندم کے کھیتوں کے قریب پہنچ گیا ۔ ۔ ۔ مگر اب بھی گلی کا بدبو دار ماحول میرے نتھنوں کو چیر رہا تھا۔اوس میں ڈوبے ہوئے گندم کے کھیتوں کو دیکھ کر مجھے قدرے راحت محسوس ہوئی ، البتہ ایک پگ ڈنڈی پرچلتے ہوئے اچانک جب میرے پاؤں سے کوئی چیزٹکر ائی تو فطرتاًمیں نے ٹھوکر میں آنے والے چیزکو دیکھا ۔ یہ جڑی بوٹیوں کی تلفی کے زہرکی خا لی بوتل تھی۔میں نے سوچا کسی کسان نے کھیتوں پراسپرے کر کے بوتل یہیں پھینک دی ہو گی۔چندقدم اور بڑھائے تو مزیدکچھ بوتلیں نظرآئیں ۔ مجھے کسانوں کی اس لاپروائی پر سخت افسوس ہوا۔ان زہرآلودخا لی بوتلوں کویوں راستے میں چھوڑدینامجھے بہت بُرا لگا ۔
صبح کی اذانیں گونجنے لگی تھیں ۔ مؤذن سونے والوں کو اُٹھ کر عبادت کی ترغیب دلا رہے تھے ۔میں اس معمول کی چہل قدمی سے واپس سیدھامحلہ کی جامع مسجدکی طرف لوٹا۔ محلے کی گلیوں میں ابھی تک تعفن کا راج تھا۔مسجد میں وضوبنانے کے لیے استنجا خانہ میں داخل ہوا تو یہاں بھی بدبونے میری ناک چیر کر رکھ دی۔ خود پر ضبط کر کے وضو کیا اور جوتیاں ہاتھ میں اُٹھا کر مسجدکے اندر داخل ہو گیا۔کہ، اس سے پہلے ایک بار اپنی جوتیاں گنوا بیٹھا تھا۔ امام صاحب نے نہایت اہتمام اور قرأت کی پابندی کے ساتھ نمازمیں سورئہ رحمٰن کی مقفیٰ آیات تلاوت کیں ۔ نماز کے بعدمختصروعظ میں انھوں نے ان آیات سمیت دیگر کچھ آیتو ں کا ترجمہ بھی پڑھ کر سنایا۔ ۔ ۔ جن میں قول وفعل کے تضادکے حوالے سے تنبیہ کی گئی ہے ۔ کچھ باتیں گرہ میں باندھ لیں ۔ ۔ ۔ کچھ کانوں سے سرک گئیں ۔ گھر آیاتو خاتون خانہ ناشتا تیار کر رہی تھیں ۔
خاتون خانہ سے شکایت کی کہ ، آج کیوں ناشتا بنانے میں دیر کر دی ہے ؟ تو جواب ملا
’’آپ باہر گئے تو چندمنٹ بعدبجلی غائب ہو گئی۔ سوئی گیس کے لگے پائپوں سے ہوا برآمد ہو رہی تھی۔ ماچس کی پوری ڈبیاجلا چکنے کے بعدتو کہیں جا کر چولھا روشن ہوا۔‘‘
خیر۔ ۔ ۔ لقمہ توڑ کر منہ میں ڈالا تو عجیب سی بوسانسوں میں اٹک گئی۔ خاتون خانہ سے پوچھا
پکانے میں کوئی کسرتو نہیں رہ گئی؟ جواب ملا
’’اس بار جو آٹا آیا ہے اسے پکاتے ہوئے یوں معلوم ہوتا ہے جیسے باسی ٹکڑوں کو پیس کر بنایا گیا ہو۔‘‘
چائے کا گھونٹ بھراتو ذائقہ ایساجیسے کوئی کیمیائی محلول گلے سے اُتر کر اس کی ساخت کوکھرچ رہا ہو۔
خاتون خانہ سے پوچھاکیاچائے کا برانڈ بدل لیا ہے ؟جواب ملا
’’نہیں ، دودھ سے بُوآرہی ہے ۔گوالے سے شکایت کی تھی ۔وہ کہتا ہے ان دنوں بھینسوں کو گوبھی کے پتے ڈال رہے ہیں ، اس وجہ سے شایدکچھ اثرآیا ہے ۔ذائقہ کے عادی ہو گئے تو بُو نہیں آئے گی۔‘‘
مجھے وہ رپورٹ یاد آئی جس میں بتایاگیا تھاکہ چائے کی پتی میں جان وروں کا خون ملایا جاتا ہے ، چنوں کے چھلکوں پر رنگ چڑھا کر بیچا جاتا ہے ۔معروف برانڈز کے خا لی ڈبوں میں خود ساختہ چائے ڈال کر بیچی جاتی ہے ۔میں نے وال کلاک پرنظرڈا لی وہ وہیں رُکا ہوا تھا ۔ قدرے جلدبازی سے لباس تبدیل کیا اور محلے کی بدبو دارگلیوں سے نکل کر ویگن اسٹاپ پر آ گیا ۔وین کی سامنے وا لی نشست خا لی تھی۔میں ایک طرف ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔ گاڑی کے ہیلپر نے مجھ سے پوچھا
’’کیانہیں جانا؟‘‘
جاناتو ہے لیکن خواتین کے لیے مخصوص نشست پرکیسے بیٹھوں ؟
۔ ۔ ۔ میں نے کہاتو گاڑی میں موجو دسبھی لوگ میری جانب دیکھ کر مسکر ادیے ۔ایک ادھیڑعمر شخص اپنی نشست سے اُتر کر نیچے آ گیا۔اس کے ساتھ ایک جواں عمرشخص بھی تھا۔ دونوں نے فرنٹ سیٹ سنبھال لی۔میں ان کی خا لی کر دہ نشستوں میں سے ایک پربیٹھ گیا ۔ اگر ہیلپر کو انسان سمجھ کر دیکھا جائے تو نشستیں مکمل ہو چکی تھیں ۔ ۔ ۔ مگرنہیں ، ڈرائیورکے حساب سے ایک سیٹ خا لی تھی۔قریباًآدھ گھنٹہ انتظارکے بعد دو مسافر آ گئے ۔ ۔ ۔ اب ایک کو تو سیٹ پر بٹھا لیا گیا اور دوسراوین کے اندرکھڑا ہو گیا۔اس کھڑے ہوئے شخص کی وجہ سے پورا سفر عذاب بن کر اُترا۔
’’کیوں بھائی!دوروپے زیادہ کیوں کاٹ لیے ، ڈیزل کی قیمت کم ہوئی ہے بڑھی تو نہیں ، ،
ایک مسافرکی آواز آئی۔ہیلپرنے اسے جواب دینا ضروری نہ سمجھتے ہوئے ڈرائیور سے کہا ایک طرف گاڑی روکے اور احتجاج کر نے والے کو اُتار دے ۔سب خاموش تھے ۔ ۔ ۔ کسی نے بھی احتجاج کر نے والے کا ساتھ نہ دیا اور دوروپے زائد کے حساب سے سب نے خود بھی کر ایہ اداکیا۔ کفرٹوٹا خداخدا کر کے ۔ ۔ ۔ دفتر پہنچا تو ب اور دی گارڈ ’’ری پیٹرگن‘‘اپنی دونوں ٹانگوں کے درمیان دابے اونگھ بل کہ، سورہا تھا ۔اسے سلام کیاتو وہ گھبرا کر کھڑا ہو گیا۔ میں نے پوچھاکیوں بھائی رات کو سوئے نہیں ؟۔ ۔ ۔ کہنے لگا
’’کیابتائے صیب، یہ کو مپنی والا ہے ناں ! دودوڈپٹیاں لیتا ہے ۔ رات کو ایک سیٹھ کے بنگلے پر جاتا ہے ۔سیٹھ لوگ کم بخت پارٹیوں پرجاتا ہے اور دیر سے آتا ہے ، اس لیے اَم سو نہیں سکتا ہے ۔صبح امارا’’ری لیور‘‘آتا ہے تو اَم یہاں آ جاتا ہے ۔‘‘
میں نے اس سے پوچھا کیا تمھاری کمپنی تم سے زبردستی دو ڈیوٹیاں کر اتی ہے ؟کہنے لگا
’’نہیں صیب، پہلے اَم کاری لیورنہیں آتا تھا، تو زبردستی کر تا تھا۔ ۔ ۔ اب اَم خودڈبل ڈپٹی کر تا ہے ۔صیب تم تو جانتا ہے مہنگائی کتنا ہو گیا ہے ، گذر مشکل ہے ۔‘‘
میں اس کی باتیں سن کر سوچنے لگایہ محافظ ہے جو خود مسائل کا شکار ہے ۔ دفتر کا چپڑاسی ابھی نہیں آیا تھا۔ میں نے ’’ڈسٹر‘‘اُٹھایا۔ ۔ ۔ اپنی میز اور کر سی صاف کر کے بیٹھ گیا۔ مجھ سے آدھ گھنٹہ بعدچپڑاسی آیاتو میرے پوچھنے پر ہمیشہ کی طرح کہنے لگا
’’ سر! آپ کے علاوہ سبھی لوگ تو دس کے بعدآتے ہیں اور بڑے صاحب ۔ ۔ ۔ وہ تو بارہ بجے سے پہلے کبھی آئے نہیں ۔ پھر میں اتنی صبح آ کر کیا کر وں ۔‘‘
لیکن تمھیں تو صبح ساڑھے آٹھ بجے یہاں ہوناچاہیے ۔بجائے میری بات کا جواب دینے کے چپڑاسی
’’بڑے صاحب کاکمرہ صاف کر تا ہوں ‘‘ کہہ کر چلاگیا۔
’’صبح بیدارہواتو پہلی نظروال کلاک پرپڑی۔11:45 کا وقت دکھاتے ہوئے گھڑیال کی سوئیوں پرغورکیاتو وہ جامدتھیں ۔میں نے سوچا گزشتہ رات تو نئی بیٹری ڈا لی گئی تھی پھر کیوں اس کی سوئیاں چلنابھول گئیں ۔موبائل آن کیاتو سگنل غائب تھے ، البتہ موبائل کی گھڑی 4:53 بجا رہی تھی۔جلدی سے بسترچھوڑا اور باہرگلی میں نکل آیا۔گلی کی بہتی نا لیوں میں محلے کے گھروں کے واش رومزسے برآمدہونے والا مواد شامل ہو رہا تھا۔کچھ خواتین اپنے گھروں کا کوڑا کر کٹ اپنے دروازوں سے باہرپھینک رہی تھیں ۔ ۔ ۔ جس سے ماحول میں مزید تعفن پھیل رہا تھا۔ میں جس وقت گلی سے گزر رہا تھامیرے لیے آزادانہ سانس لینا ناممکن تھا۔بڑے بڑے ڈگ بھرتا ہوا آبادی سے دومیل باہر کھیتوں میں نکل آیا۔
ابھی پو نہیں پھٹی تھی۔ ارد گردکی چیزیں پوری طرح واضح نہیں دکھائی دے رہی تھیں ۔میں چلتے چلتے گندم کے کھیتوں کے قریب پہنچ گیا ۔ ۔ ۔ مگر اب بھی گلی کا بدبو دار ماحول میرے نتھنوں کو چیر رہا تھا۔اوس میں ڈوبے ہوئے گندم کے کھیتوں کو دیکھ کر مجھے قدرے راحت محسوس ہوئی ، البتہ ایک پگ ڈنڈی پرچلتے ہوئے اچانک جب میرے پاؤں سے کوئی چیزٹکر ائی تو فطرتاًمیں نے ٹھوکر میں آنے والے چیزکو دیکھا ۔ یہ جڑی بوٹیوں کی تلفی کے زہرکی خا لی بوتل تھی۔میں نے سوچا کسی کسان نے کھیتوں پراسپرے کر کے بوتل یہیں پھینک دی ہو گی۔چندقدم اور بڑھائے تو مزیدکچھ بوتلیں نظرآئیں ۔ مجھے کسانوں کی اس لاپروائی پر سخت افسوس ہوا۔ان زہرآلودخا لی بوتلوں کویوں راستے میں چھوڑدینامجھے بہت بُرا لگا ۔
صبح کی اذانیں گونجنے لگی تھیں ۔ مؤذن سونے والوں کو اُٹھ کر عبادت کی ترغیب دلا رہے تھے ۔میں اس معمول کی چہل قدمی سے واپس سیدھامحلہ کی جامع مسجدکی طرف لوٹا۔ محلے کی گلیوں میں ابھی تک تعفن کا راج تھا۔مسجد میں وضوبنانے کے لیے استنجا خانہ میں داخل ہوا تو یہاں بھی بدبونے میری ناک چیر کر رکھ دی۔ خود پر ضبط کر کے وضو کیا اور جوتیاں ہاتھ میں اُٹھا کر مسجدکے اندر داخل ہو گیا۔کہ، اس سے پہلے ایک بار اپنی جوتیاں گنوا بیٹھا تھا۔ امام صاحب نے نہایت اہتمام اور قرأت کی پابندی کے ساتھ نمازمیں سورئہ رحمٰن کی مقفیٰ آیات تلاوت کیں ۔ نماز کے بعدمختصروعظ میں انھوں نے ان آیات سمیت دیگر کچھ آیتو ں کا ترجمہ بھی پڑھ کر سنایا۔ ۔ ۔ جن میں قول وفعل کے تضادکے حوالے سے تنبیہ کی گئی ہے ۔ کچھ باتیں گرہ میں باندھ لیں ۔ ۔ ۔ کچھ کانوں سے سرک گئیں ۔ گھر آیاتو خاتون خانہ ناشتا تیار کر رہی تھیں ۔
خاتون خانہ سے شکایت کی کہ ، آج کیوں ناشتا بنانے میں دیر کر دی ہے ؟ تو جواب ملا
’’آپ باہر گئے تو چندمنٹ بعدبجلی غائب ہو گئی۔ سوئی گیس کے لگے پائپوں سے ہوا برآمد ہو رہی تھی۔ ماچس کی پوری ڈبیاجلا چکنے کے بعدتو کہیں جا کر چولھا روشن ہوا۔‘‘
خیر۔ ۔ ۔ لقمہ توڑ کر منہ میں ڈالا تو عجیب سی بوسانسوں میں اٹک گئی۔ خاتون خانہ سے پوچھا
پکانے میں کوئی کسرتو نہیں رہ گئی؟ جواب ملا
’’اس بار جو آٹا آیا ہے اسے پکاتے ہوئے یوں معلوم ہوتا ہے جیسے باسی ٹکڑوں کو پیس کر بنایا گیا ہو۔‘‘
چائے کا گھونٹ بھراتو ذائقہ ایساجیسے کوئی کیمیائی محلول گلے سے اُتر کر اس کی ساخت کوکھرچ رہا ہو۔
خاتون خانہ سے پوچھاکیاچائے کا برانڈ بدل لیا ہے ؟جواب ملا
’’نہیں ، دودھ سے بُوآرہی ہے ۔گوالے سے شکایت کی تھی ۔وہ کہتا ہے ان دنوں بھینسوں کو گوبھی کے پتے ڈال رہے ہیں ، اس وجہ سے شایدکچھ اثرآیا ہے ۔ذائقہ کے عادی ہو گئے تو بُو نہیں آئے گی۔‘‘
مجھے وہ رپورٹ یاد آئی جس میں بتایاگیا تھاکہ چائے کی پتی میں جان وروں کا خون ملایا جاتا ہے ، چنوں کے چھلکوں پر رنگ چڑھا کر بیچا جاتا ہے ۔معروف برانڈز کے خا لی ڈبوں میں خود ساختہ چائے ڈال کر بیچی جاتی ہے ۔میں نے وال کلاک پرنظرڈا لی وہ وہیں رُکا ہوا تھا ۔ قدرے جلدبازی سے لباس تبدیل کیا اور محلے کی بدبو دارگلیوں سے نکل کر ویگن اسٹاپ پر آ گیا ۔وین کی سامنے وا لی نشست خا لی تھی۔میں ایک طرف ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔ گاڑی کے ہیلپر نے مجھ سے پوچھا
’’کیانہیں جانا؟‘‘
جاناتو ہے لیکن خواتین کے لیے مخصوص نشست پرکیسے بیٹھوں ؟
۔ ۔ ۔ میں نے کہاتو گاڑی میں موجو دسبھی لوگ میری جانب دیکھ کر مسکر ادیے ۔ایک ادھیڑعمر شخص اپنی نشست سے اُتر کر نیچے آ گیا۔اس کے ساتھ ایک جواں عمرشخص بھی تھا۔ دونوں نے فرنٹ سیٹ سنبھال لی۔میں ان کی خا لی کر دہ نشستوں میں سے ایک پربیٹھ گیا ۔ اگر ہیلپر کو انسان سمجھ کر دیکھا جائے تو نشستیں مکمل ہو چکی تھیں ۔ ۔ ۔ مگرنہیں ، ڈرائیورکے حساب سے ایک سیٹ خا لی تھی۔قریباًآدھ گھنٹہ انتظارکے بعد دو مسافر آ گئے ۔ ۔ ۔ اب ایک کو تو سیٹ پر بٹھا لیا گیا اور دوسراوین کے اندرکھڑا ہو گیا۔اس کھڑے ہوئے شخص کی وجہ سے پورا سفر عذاب بن کر اُترا۔
’’کیوں بھائی!دوروپے زیادہ کیوں کاٹ لیے ، ڈیزل کی قیمت کم ہوئی ہے بڑھی تو نہیں ، ،
ایک مسافرکی آواز آئی۔ہیلپرنے اسے جواب دینا ضروری نہ سمجھتے ہوئے ڈرائیور سے کہا ایک طرف گاڑی روکے اور احتجاج کر نے والے کو اُتار دے ۔سب خاموش تھے ۔ ۔ ۔ کسی نے بھی احتجاج کر نے والے کا ساتھ نہ دیا اور دوروپے زائد کے حساب سے سب نے خود بھی کر ایہ اداکیا۔ کفرٹوٹا خداخدا کر کے ۔ ۔ ۔ دفتر پہنچا تو ب اور دی گارڈ ’’ری پیٹرگن‘‘اپنی دونوں ٹانگوں کے درمیان دابے اونگھ بل کہ، سورہا تھا ۔اسے سلام کیاتو وہ گھبرا کر کھڑا ہو گیا۔ میں نے پوچھاکیوں بھائی رات کو سوئے نہیں ؟۔ ۔ ۔ کہنے لگا
’’کیابتائے صیب، یہ کو مپنی والا ہے ناں ! دودوڈپٹیاں لیتا ہے ۔ رات کو ایک سیٹھ کے بنگلے پر جاتا ہے ۔سیٹھ لوگ کم بخت پارٹیوں پرجاتا ہے اور دیر سے آتا ہے ، اس لیے اَم سو نہیں سکتا ہے ۔صبح امارا’’ری لیور‘‘آتا ہے تو اَم یہاں آ جاتا ہے ۔‘‘
میں نے اس سے پوچھا کیا تمھاری کمپنی تم سے زبردستی دو ڈیوٹیاں کر اتی ہے ؟کہنے لگا
’’نہیں صیب، پہلے اَم کاری لیورنہیں آتا تھا، تو زبردستی کر تا تھا۔ ۔ ۔ اب اَم خودڈبل ڈپٹی کر تا ہے ۔صیب تم تو جانتا ہے مہنگائی کتنا ہو گیا ہے ، گذر مشکل ہے ۔‘‘
میں اس کی باتیں سن کر سوچنے لگایہ محافظ ہے جو خود مسائل کا شکار ہے ۔ دفتر کا چپڑاسی ابھی نہیں آیا تھا۔ میں نے ’’ڈسٹر‘‘اُٹھایا۔ ۔ ۔ اپنی میز اور کر سی صاف کر کے بیٹھ گیا۔ مجھ سے آدھ گھنٹہ بعدچپڑاسی آیاتو میرے پوچھنے پر ہمیشہ کی طرح کہنے لگا
’’ سر! آپ کے علاوہ سبھی لوگ تو دس کے بعدآتے ہیں اور بڑے صاحب ۔ ۔ ۔ وہ تو بارہ بجے سے پہلے کبھی آئے نہیں ۔ پھر میں اتنی صبح آ کر کیا کر وں ۔‘‘
لیکن تمھیں تو صبح ساڑھے آٹھ بجے یہاں ہوناچاہیے ۔بجائے میری بات کا جواب دینے کے چپڑاسی
’’بڑے صاحب کاکمرہ صاف کر تا ہوں ‘‘ کہہ کر چلاگیا۔