کر پٹ ونڈوز

اردوادب کے ممتاز لکھاری محترم خاور چوہدری کی نوکِ قلم سے نکلنے والے شہکار افسانے
Locked
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

کر پٹ ونڈوز

Post by چاند بابو »

[center]کر پٹ ونڈوز[/center]

’’علی دیکھنایارکمپیوٹرپھرنہیں آن ہورہا‘‘
’’جی سر‘‘
’’کون بیٹھتا ہے میری سیٹ پر؟‘‘
’’کوئی نہیں سر‘‘
’’پھرکیوں روزمیراکمپیوٹرڈسٹرب ہوجاتا ہے ؟‘‘
علی خاموشی سے سسٹم آن کر نے کی کوشش کر تا ہے ، مگراسے بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے
’’سر۔ ۔ ۔ ونڈوزکر پٹ ہو گئی ہے ‘‘وہ کہتا ہے
’’ایک تو مارکیٹ میں کوئی چیزبھی معیاری نہیں آتی، جو بھی شے خریدودونمبر۔ایکس پی ونڈوز کی نئی سی ڈی پچھلے ہفتے ہی تو منگوائی تھی۔ایک ہفتہ میں دوبار انسٹا لیشن، حدہو گئی۔‘‘
تحسین نے تلخی سے کہاتو علی کے ہونٹوں پرمعنی خیزمسکر اہٹ پھیل گئی۔ ۔ ۔
’’کیوں بتیسی دکھارہے ہو؟‘‘
’’سر!اگرہم براہِ راست بل گیٹس سے معاہدہ کر کے مائیکر وسافٹ کے ونڈوزاستعمال کر تے تو وہ یوں کر پٹ نہ ہوتے ۔‘‘
علی نے کہاتو تحسین کی باچھیں کانوں کو چھونے لگیں ۔ ۔ ۔ اپنے قہقہے پرقابوپاتے ہوئے اس نے کہا
’’ہاں یار۔ ۔ ۔ ٹھیک کہتے ہوتم۔ہم خودبھی دونمبریے ہیں اور چور راستے سے آگے بڑھ رہے ہیں ۔بل گیٹس کو معلوم ہوا، تو وہ ہم پربھی ہرجانہ کا دعویٰ کر دے گا۔روسی استاد تو خوش نصیب تھا اس کے لیے میخائل گورباچوف نے بل گیٹس سے دست بستہ معذرت کر لی تھی ، مگر ہمارے لیے کوئی نہیں بولے گا۔‘‘
اب قہقہ لگانے کی باری علی کی تھی
’’ سر!مطمئن رہیے ۔بل گیٹس اتنی آسانی سے یہاں تک نہیں پہنچ سکے گا۔چائنہ کی آسمان سے باتیں کر تی ہوئی مارکیٹوں میں بیٹھے ہوئے جعلسازوں سے نبٹتے نبٹتے اس کی عمر گزر جائے گی۔ ۔ ۔ اس کے چین سے لوٹنے تک ہم چین سے رہ سکتے ہیں ۔‘‘
’’ہوں ۔ ۔ ۔ چلودیکھتے ہیں ۔ ۔ ۔ ‘‘
تحسین نے کہا
’’فائروال لگادوں سر۔ ۔ ۔ ؟‘‘
علی نے پوچھا
’’ہاں یہ بہتر رہے گا‘‘
’’ویسے سرآپ بھی تو کسی کو معاف نہیں کر تے ہیں ، پھرآپ کے کمپیوٹرپروائرس کا اٹیک نہ ہو تو کیا ہو؟‘‘
’’تو کیا میں کسی سے زیادتی کر تا ہوں ۔ ۔ ۔ ؟‘‘
’’میں نے یہ تو نہیں کہاسر!‘‘
علی نے قدرے لجاجت سے کہا
’’تمام پروگرامزانسٹال ہوجائیں تو مجھے بتادینا۔میں نیوزروم میں بیٹھا ہوں ‘‘تحسین یہ کہہ کر اپنے دفتر سے نکل جاتا ہے ۔ ۔ ۔
’’سرکے دماغ میں بھی ناں ۔ ۔ ۔ ‘‘
علی بڑبڑاتا ہوا کی بورڈاپنی جانب کھینچتا ہے
٭٭٭
پیراگون پلازا کی ساتویں منزل پر روزاس طرح کی باتیں ہوتی رہتی تھیں ۔ بیسیوں کمپیوٹرزپرکام کر نے والے کمپوزرز، پیج میکر ز اور سب ایڈیٹرزعلی کی خدمات حاصل کر تے ۔ ۔ ۔ علی ایم سی ایس کر نے کے بعدطویل عرصہ تک ملکی وغیرملکی اداروں کی دُھول پھانک چکا تھا، مگراسے کہیں بھی مناسب جاب نہ ملی۔ ۔ ۔ تب اس نے اِس روزنامہ میں کمپیوٹر لیب انچارج کی حیثیت سے نوکر ی کر لی۔ ۔ ۔ تنخواہ ۔ ۔ ۔ بس اتنی تھی کہ وہ خود کو صاحبِ روزگار کہہ سکتا تھا۔ ۔ ۔ اور وہ عمراحمد ۔ ۔ ۔ جس نے اس کے ساتھ ہی اپنی تعلیم مکمل کی تھی، ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں قابلِ رشک تنخواہ پرکام کر رہا تھا
’’چا لیس ہزار روپے ماہ وار، سیلولرفون کا خرچ الگ اور رہائش کی سہولت الگ۔ ۔ ۔ ‘‘
علی اکثر سوچتا تھا اور پھرعمراحمدکے والدکے اثرورسوخ کا سوچ کر خاموش ہو جاتا ۔
’’ظاہرہے لمبی سفارشوں سے ہی ایسی نوکر یاں ملتی ہیں اور جن کے پاس سفارشیں نہیں ہوتیں وہ معمولی تنخواہ پرکام کر نے پرمجبورہوتے ہیں ‘‘
اس دن بھی علی نے سوچا تھا۔ویسے تحسین صاحب جب سے ریذیڈنٹ ایڈیٹر ہو کر یہاں آئے تھے علی زیادہ خوشی سے کام کر نے لگا تھا۔وہ کارکنوں کے ساتھ خوش سلیقگی سے پیش آتے ، ہنس مکھ ، کم گو، کام سے کام رکھنے والے اور بلاوجہ رعب نہ ڈالنے والے تحسین تو جیسے علی کے دل میں ہی اُترگئے تھے ۔ ۔ ۔ اور وہ پہلے والا ایڈیٹر۔ ۔ ۔ خبیث !ہروقت زیرِلب بکتا رہتا۔ ۔ ۔ مالکوں کو بھی معاف نہیں کر تا تھا اور کارکنوں کو بھی نہیں بخشتا تھا۔ہروقت ایڈیٹری جھاڑتا ۔ ۔ ۔ سڑیل۔ ۔ ۔ خودکو، ٹی ایس ایلیٹ، حسرت موہانی ، فیض احمدفیض اور احمدندیم قاسمی سے بھی بڑاصحافی اور ایڈیٹر سمجھتا تھا۔ ۔ ۔ آغاشورش کاشمیری اور حمیداخترتو گویا اس کے سامنے پانی بھرتے تھے ۔ ۔ ۔ علی کی چکنی جبیں پرناگوارشکنیں نمودارہوئیں تو اس نے سرجھٹک کر اپناکام شروع کر دیا۔
٭٭٭
صوبہ کے سینئرصحافیوں کا وفد ترکی جانے کے لیے تیارہواتو تحسین بھی ان میں شامل تھا۔پاسپورٹ پرویزا لگ کر آ گیا تھا۔ ۔ ۔ مگرنہ جانے کیابات ہوئی کہ، اس نے اپنا ارادہ ملتوی کر دیا۔ ۔ ۔ علی جو اس کے ساتھ صحافتی اموربھی انجام دینے لگا تھاوہ اس وفد کے ساتھ چلاگیا۔ ۔ ۔ یہ بارباراُس کو تاکید کر تا
’’علی کھلی آنکھوں دورہ مکمل کرنا۔ ۔ ۔ ہراہم شخصیت اور مقام کی تصویرلینا۔ ۔ ۔ جس جگہ جاؤ وہاں کا حدوداربعہ، تاریخ اور خصوصیات ضرورنوٹ کرنا۔ ۔ ۔ اور ہاں ! عام لوگوں سے بھی ملنا اور ان سے برصغیرخصوصاًپاکستان کے مسلمانوں کے حوالے سے رائے لینا۔ ۔ ۔ یہ نہ ہوتم جا کر وہاں سوجاؤ اور پھر دوسرے اخبارات بازی لے جائیں ‘‘
٭٭٭
گورنرہاؤس کے سامنے معمول سے زیادہ گاڑیاں تھیں ۔تحسین اپنے تاجر دوست نجم کے ساتھ اپنی پرانی خیبرکار میں بہت دیرتک ٹریفک کی بے ترتیبی میں پھنسا رہا۔ بڑی مشکلوں سے وہ وہاں سے نکل کر مال روڈپرطاہرپلازاتک پہنچا۔وہاں بھی انسانوں کا بے کر اں ہجوم تھا۔یوں معلوم ہوتا تھاجیسے آدمی میں آدمی کاشت کیا ہوا ہے ۔ شایدتل دھرنے کو جگہ نہ ہونا والامح اور ہ ایسی ہی کیفیت دیکھ کر کسی نے تخلیق کیا ہو گا۔ شام کے سایے پھیل رہے تھے ۔ ۔ ۔ ہجوم بھی بڑھ رہا تھا۔گاڑی ایک طرف کھڑی کر کے یہ دونوں طاہر پلازا کی جانب بڑھ گئے
’’کوٹ ماسٹر‘‘
سائن بورڈپڑھ کر دونوں ایک ٹیلرکے شوروم میں داخل ہوئے ۔چاروں طرف مختلف النوع اور اعلیٰ کوالٹی کے سوٹ ترتیب سے چھت تک اونچی الماریوں میں لٹکے ہوئے تھے ۔ دروازے کی سمت میں شیشوں سے اندرمجسموں کو بھی خوبصورت پہناوے پہنائے گئے تھے ۔کچھ لوگ جو ابھی کچھ دیرپہلے آئے تھے ان مجسموں کو محویت سے دیکھ رہے تھے ۔عیدکے لیے سلائے گئے سوٹ تحسین اور نجم نے اُٹھائے ۔ ۔ ۔ رقم اداکی اور نیچے اُتر آئے ۔ باہر اندھیرا تھا۔ ۔ ۔ شایدلوڈشیڈنگ کے باعث بجلی کی رومعطل ہوچکی تھی۔ ۔ ۔ البتہ کچھ دُکانوں میں آن ہوجانے والے جنریٹروں کے باعث بلبوں کی ہلکی لوچھن چھن کر باہرآرہی تھی یا پھر سڑک سے گزرنے وا لی گاڑیوں کی ہیڈلائٹس اندھیرے کا سینہ اچانک چیر جاتیں تو دُور تک روشنی کی لہرپھیل جاتی۔
٭٭٭
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

’’خاموشی سے بیٹھ جاؤگاڑی میں ‘‘
گھبراہٹ سے پلٹ کر تحسین نے دیکھاتو دومسلح نقاب پوش اس کے پیچھے کھڑے تھے ۔ نجم کو دو اور نقاب پوشوں نے پکڑ کر پہلے ہی اپنی گاڑی میں ڈال لیا تھا ۔ تحسین نے یک بارگی سوچا
’’ڈاکوہوں گے ۔ ۔ ۔ لوٹ کر چھوڑدیں گے ، ان سے اُلجھنابے کا رہے ۔چندروپوں کے لیے خود کو زخمی کر وانادانش مندی نہیں ‘‘
پھرفیصلہ کن اندازسے آگے بڑھا اور کالے رنگ کی ٹیوٹا کر ولاکار میں بیٹھ گیا۔دونوں کی آنکھوں پرپٹیاں باندھی جانے لگیں ، تو انھوں نے مزاحمت کر نے کی کوشش کی مگراب یہ بے بس ہو گئے تھے ۔ ۔ ۔ ایک نقاب پوش نے اُلٹے ہاتھ سے وارکیا۔ ۔ ۔ واراس قدراچانک اور شدیدتھاکہ تحسین کے لیے سنبھلناممکن نہ رہا۔ ۔ ۔ نجم بھی سراپابے بسی کی تصویرتھا۔آنکھوں کے ساتھ ساتھ ہونٹوں پربھی ٹیپ چپکا دیاگیا اور ان کے ہاتھ پلاسٹک کی ڈوری سے باندھ دے ئے گئے ۔ ۔ ۔ اب تحسین کو اپنی حماقت کا احساس ہورہا تھا
’’مزاحم ہوتاتو زیادہ سے زیادہ ایک گولی چلا کر یہ لوگ بھاگ جاتے ‘‘اس نے سوچا
گاڑی مسلسل بڑھتی رہی۔ ۔ ۔ راستہ پھیلتارہا اور اس کی سوچیں بھی۔اس کی آنکھوں میں ان تمام صحافیوں کے چہرے گھوم گئے ، جنھیں نامعلوم لوگوں نے اغوا کر کے یا تو قتل کر دیا تھایاپھراپاہج بنا دیا۔ ۔ ۔ اس کے دماغ کے پردے پرقبائلی صحافی کی تصویر روشن ہوئی جس کی پشت پرہاتھ بندھے لاش اس کے غائب ہونے کے کئی دن بعدملی تھی۔ ۔ ۔ ایک اور قبائلی صحافی کا چہرہ سامنے آیاجس کے بھائی اور بھتیجے کو قتل کیاگیا تھا۔ ۔ ۔ خوداُسے اغوا کر کے کئی دن اذیت کا نشانہ بنایا جاتارہا۔ ۔ ۔ اُسے ملک کے دارالحکومت کے پوش ایریا میں قتل کیے جانے والے سینئرصحافی کا بھی خیال آیا۔ ۔ ۔ پھراس کی بند آنکھوں کے سامنے ا لیکٹرونکس میڈیاسے وابستہ کیمرہ مین اور رپورٹر کا چہرہ گھوم گیا۔تکلیف کی شدت سے اس کی کنپٹیاں سلگ رہی تھیں ۔ ۔ ۔ وہ اپنی بے بسی پر کڑھتا رہا۔ ۔ ۔ واہموں اور سوچوں کے ناگ اسے ڈستے رہے ۔کئی گھنٹوں کی اذیت ناک مسافت کے بعدجب انھیں گاڑی سے اُتاراگیاتو ان کا جسم بوجھل ہوچکا تھا۔ ۔ ۔ تھکاوٹ اور خوف نے ان کے قدموں کو زمین میں گاڑ دیا تھا۔ ۔ ۔ یوں معلوم ہوتا تھاجیسے ان کے کاندھوں پرکسی نے نانگاپربت اُٹھا کر رکھ دیا ہے ۔رات خاموش تھی۔ ۔ ۔ دُور کہیں سے گیدڑوں کی آوازگونجتی تو کتے بھی بھونکنے لگتے تھے ۔ ۔ ۔ اغوا کار مخصوص لہجہ میں آپس میں باتیں کر تے ۔ ۔ ۔ سرگوشی میں ایک دوسرے کو کچھ کہتے اور ساتھ ہی ساتھ انھیں بھی گھسیٹتے جاتے ۔ ۔ ۔ گھنٹہ بھرکا پیدل سفرصدیوں کو محیط لگتا تھا۔ ۔ ۔ رواں رواں چٹخ رہا تھا
٭٭٭
’’کیا ہو گاہمارے ساتھ۔ ۔ ۔ نہ جانے کون لوگ ہیں یہ۔ ۔ ۔ اور کیا چاہتے ہیں ‘‘
تحسین نے سوچا اور اس کے دماغ میں چیونٹیاں رینگنے لگیں
’’کھولودروازہ ۔ ۔ ۔ جلدی کر و۔ ۔ ۔ ‘‘
ایک کر خت آوازگونجی۔دروازہ اس طرح کھٹکھٹایا جا رہا تھا جیسے ہتھوڑے برس رہے ہوں ۔
’’کھولوسور۔ ۔ ۔ کہاں مرگئے ‘‘
دوبارہ صدابلند ہوئی۔ ۔ ۔ گڑگڑ۔ ۔ ۔ ڑڑڑڑڑ۔ ۔ ۔ دروازہ کھلنے کی آوازپیدا ہوئی۔ ۔ ۔ پھرایک کمرے میں انھیں دھکیل کر دروازے کو باہر سے چٹخنی چڑھا دی گئی۔ ۔ ۔ تحسین نے چیخنے کی کوشش کی، مگرچیخ اس کے گلے میں قتل ہوکر رہ گئی۔ ۔ ۔ بندھے منہ سے چیخ کہاں نکل پاتی ہے ۔دروازہ بند ہوا تو کچھ دیرسرگوشیوں کی آہٹ ان کے کانوں سے ٹکر اتی رہی، پھرخاموشی چھا گئی۔ ۔ ۔ قبرکی سی خاموشی۔رات جیسے تھم گئی تھی ۔ اور وقت جیسے زنجیروں سے باندھ دیا گیا تھا۔ ۔ ۔ جکڑے ہاتھوں ، ٹیپ چپکے مونہوں اور بندھی آنکھوں نے ان کے دماغوں کو بھی تاریک کر دیا تھا۔خوف کے سیاہ ناگ پھن پھیلائے انھیں ڈسنے کو دوڑ رہے تھے ۔ ۔ ۔ کچی اور ننگی زمین کے فرش پرنہ ان سے بیٹھا جاتا نہ لیٹا۔ ۔ ۔ حشرات الارض کی آوازیں گہری خاموشی کا سینہ چیر رہی تھیں ۔کبھی کبھی کتوں کے بھونکنے کا شوربھی خاموشی توڑدیتا۔
تحسین جب تھکاوٹ سے بے حال ہوکر مٹی کے فرش پرلیٹاتو کچھ دیربعداسے اپنے وجود پر کوئی کیڑارینگتا ہوامحسوس ہوا۔ ۔ ۔ اس نے سوچا
’’لال بیگ۔ ۔ ۔ ٹڈی ہو سکتی ہے ۔ ۔ ۔ یاکوئی زہریلاحشرہ؟‘‘
وہ بدک کر اُٹھ بیٹھا اور باقی رات اس نے اٹھتے ، بیٹھتے کاٹی۔کیاقیامت کی رات تھی وہ۔ ۔ ۔
’’فہمیدہ کس حال میں ہو گی؟۔ ۔ ۔ اور بچے راہ تکتے تکتے سوگئے ہوں گے ۔جانے کتنی بار اس نے دفترفون کر کے معلوم کیا ہو گا اور ہرمرتبہ اسے بتایاگیا ہو گاکہ ’’تحسین صاحب تو سہ پہر کو گھرکے لیے نکل گئے تھے ۔ ۔ ۔ ‘‘اس نے اپنے بوڑھے ماں باپ کے بارے میں سوچا ۔ اور شائستہ۔ ۔ ۔ وہ سوچ رہی ہو گی کہ بھائی عید کے لیے چوڑیاں لے کر آئے گا۔ ۔ ۔ اس نے نجم کے بارے میں سوچاجو اس کے ساتھ ہی کہیں پڑا تھا۔اسے خیال آیاممکن ہے اس کی وجہ سے اغوا کیا گیا ہو۔ ۔ ۔ اغوا برائے تاوان ہو۔ ۔ ۔ نہیں ، نہیں میری وجہ سے اسے اغوا کیاگیا ہے ۔ ۔ ۔ اُف خدایا!دکھ تو سینے سے پارہوکر رہے گا۔ ۔ ۔ ‘‘
سوچوں کی کڑیاں زنجیربنتی گئیں اور زنجیروں کا پھیلاؤبڑھتا رہا۔ ۔ ۔ بڑھتا رہا ۔ ۔ ۔ بڑھتا رہا۔ ۔ ۔
٭٭٭
دروازے کی چرچراہٹ نے اس کے دماغ کو خیالوں کی دنیاسے نکالا۔قدموں کی آہٹ مسلسل اس کے قریب آتی جارہی تھی۔ ۔ ۔ دفعتاًکوئی ہاتھ اس کے سرتک پہنچا اور پھر بالوں کو جکڑلیا۔لاتو ں اور گھونسوں کا سلسلہ نہ تھمنے کے لیے شروع ہوا۔پسلیاں ایک دوسرے میں گھستی ہوئی معلوم ہوئیں ، پیٹ میں اُٹھنے والے دردکا طوفان بڑھتاہی گیا۔ جب تکلیف سے ذرا آگے کی طرف جھکتاتوپیچھے سے کمر میں لات جڑدی جاتی اور وہ گھٹی آوازمیں کر اہ کر رہ جاتا۔ ۔ ۔ وہ اندازہ نہیں کر پارہا تھاکہ مارنے والے کتنے ہیں ۔بس ایک ہی طرح کی آوازیں گونجتیں
’’ اور مارو۔ ۔ ۔ ہڈیاں توڑدو۔ ۔ ۔ زندہ نہ چھوڑو‘‘
مکوں اور ٹھوکر وں کا دورختم ہواتو ڈنڈے کی عمل داری شروع ہو گئی۔ ۔ ۔ جہاں چوٹ پڑتی وہاں بجلی سی کوند جاتی۔ ۔ ۔ آنکھیں راکھ کاڈھیرہو گئیں ، دماغ سن اور ماؤف۔یوں محسوس ہوتا تھاجیسے جسم کا بال بال خون کی راہ گزربن چکا ہے ۔کیا ہونے والا ہے اور کیا ہو گاوہ یہ نہیں جان سکتا تھا۔ ۔ ۔ البتہ ایک آوازاس کے کانوں سے ہوتی ہوئی روح تک اُترگئی تھی۔
’’باقی کسر دوپہرکو نکا لیں گے ۔ ۔ ۔ چلو‘‘
دروازہ اسی چرچراہٹ کے ساتھ بندہو گیا۔تحسین کویوں محسوس ہوتا تھاجیسے اس کا سر، چہرہ اور پوراجسم لہوسے ترہوچکے ہیں ۔خون کی نمکین قطرے اس کے پھٹے ہوئے ہونٹوں سے حلق میں اُتر رہے تھے ۔وہ اپناچہرہ صاف کرنا چاہتا تھا، مگراس کے بندھے ہاتھ اس کے ارادے پرپانی پھیر دیتے تھے ۔ ۔ ۔ اس کے بعد کیا ہوا؟اسے کچھ یادنہیں ۔ ۔ ۔
٭٭٭
نجم کے پکارنے پرتحسین کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھاوہ پہچانانہیں جا رہا تھا۔ خون اور دھول کے دھبوں نے اس کی شناخت چھین لی تھی اور یہی حالت اس کی اپنی بھی تھی۔وہ اُس کا چہرہ صاف کر نے کے لیے اٹھنا چاہتا تھا، مگراس کے اپنے سینہ پر رکھی ہوئی دردکی گانٹھ نے اسے بے بس کر دیا۔ ۔ ۔ ایک کر اہ اس کی چھاتی سے نکلی اور فضا میں تحلیل ہو گئی۔ اس کے نتھنے بدبوسے پھٹ رہے تھے ۔ ۔ ۔ ناک صاف کر نے کے لیے ہاتھ قریب کرنا چاہا ، مگر وہ دماغ کا حکم بجالانے سے قاصر تھا۔یوں لگتا تھاجیسے اس کی دونوں بانہیں شل ہوچکی ہیں ۔بڑی مشکلوں سے وہ اپنی کلائیوں کو دیکھ پایا تھا، جن پر رسیوں کے نشان پوری طرح روشن تھے ۔
’’تحسین۔ ۔ ۔ کون لوگ ہیں یہ؟‘‘نجم نے پوچھا
’’مجھے اندازہ نہیں ۔ ۔ ۔ شایدمیرے دشمن ہیں ‘‘تحسین نے کہا
ایک جھٹکے سے دروازہ کھلتا ہے اور ایک باریش مسلح شخص اندرآن دھمکتا ہے
’’سناؤکیسی رہی ؟۔ ۔ ۔ فیچرلکھتے ہو۔ ۔ ۔ تحقیقی فیچر۔ ۔ ۔ سمگلنگ میں حکومتی شخصیات ملوث ہیں ، سپاہی سے لے کر آئی جی تک سب کو حصہ ملتا ہے ۔ ۔ ۔ معاشرہ کو ان ناسوروں سے پاک کرنا ضروری ہے ۔ ۔ ۔ ‘‘
کہہ کر وہ تحسین کی جانب بڑھتا ہے اور انتہائی حقارت سے اپنی آنکھیں اس کے وجود میں گاڑ دیتا ہے ۔ بے رحمانہ اندازسے اپنادایاں پاؤں اُٹھا کر پوری قوت سے اس کے پیٹ پر مارتا ہے تو اس کی چیخ چھت کو پھاڑنے لگتی ہے ۔
’’تم کر وگے معاشرہ کو پاک۔ ۔ ۔ تم‘‘
ایک اور پاؤں اس کے سینے پرپڑتا ہے ۔
’’ہمیں آئینہ دکھاتے ہو۔ ۔ ۔ ہمیں ۔ ۔ ۔ ؟اپنی منحوس شکل دیکھو‘‘
وہ جیب سے نسوارکی ڈبیا نکالتا ہے اور اس سے چمٹا ہوا آئینہ اس کی آنکھوں کے سامنے کر دیتا ہے ۔
سارے منظر دُھندلے ۔ ۔ ۔ پوراچہرہ خون۔ ۔ ۔ ٹیسوں کو ضبط کر تے ہوئے تحسین نے کہا
’’میراموبائل فون دومیں گھربات کرنا چاہتا ہوں ‘‘
’’دیتا ہوں تمھیں فون۔ ۔ ۔ ‘‘
مسلح شخص غصہ سے دھاڑتا ہوا اس کی جانب بڑھتا ہے اور بندوق کا بٹ اس کے سینے پراس شدت سے مارتا ہے کہ اسے اپنی چھاتی کی ہڈیاں ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں ۔وہ درد سے دہرا ہوجاتا ہے ۔ ۔ ۔ مزاحمت چاہے بھی تو نہ کر سکے کہ، وجود میں دم ہی نہیں رہا تھا ۔ ۔ ۔ نجم ۔ ۔ ۔ اس کی بھی صرف زبان کار آمدتھی اور وہ اس سے کام لیتارہا
’’مت ظلم کر واتنا۔ ۔ ۔ خداسے ڈرو۔ ۔ ۔ اس کے قہرکو آواز مت دو‘‘
’’خاموش ہوجاؤ، دلیہ بنادوں گاتمھارا۔ ۔ ۔ ‘‘و ہ اس پرچیختا ہے
٭٭٭
کئی دن گزرگئے ۔ ۔ ۔ ان کے زخم مندمل ہونے لگے ۔جو لوگ انھیں اغوا کر کے لائے تھے وہ اب نہیں آتے تھے ۔ ۔ ۔ ان کی نگرانی پر دونوجوان مامور تھے جو انھیں کھانا بھی کھلاتے اور دوسری بدنی حاجات کا بھی خیال رکھتے ۔ ۔ ۔ کپڑے تو نئے لا کر نہیں دیے تھے ، البتہ نہانے اور پرانے کپڑوں کو دھونے کے لیے پانی ضرورمہیا کر تے رہے ۔ان کی حالت قدرے بہترہوئی تو انھوں نے خداکے سامنے سجدہ ریزہوناشروع کر دیا۔عبادت کر نے لگے ۔ ۔ ۔ تب ایک اور وضع کا ظلم شروع ہوا۔جوں ہی یہ نمازکے لیے کھڑے ہوتے ، ان کے پہرے داربلندآوازمیں گانے لگادیتے ۔ ۔ ۔ یہ منتیں کر تے اور وہ ٹھٹھامذاق۔ پھر ایک دن پہرے داروں کے ریڈیوپرانھوں نے اپنی گم شدگی کی خبرسنی۔ ۔ ۔ ان کے صحافی دوستوں نے ملک بھر میں ان کی باحفاظت بازیابی کے لیے بھوک ہڑتا لی کیمپ اور احتجاجی ریلیوں کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔ریڈیوکی خبروں سے انھیں معلوم ہواکہ ان کو اغوا ہوئے انتا لیس دن گزرچکے ہیں ۔نوجوان چوکیداروں کو اپنی حماقت کا احساس ہواتو انھوں نے فوراً ریڈیو بند کر دیا۔
مگراب انھیں حوصلہ ہو گیا تھاکہ ان کے صحافی دوست انھیں رہا کر وا لیں گے ۔ ۔ ۔ دونوں اپنے بچوں کے لیے فکر مندتو تھے ، مگراب انھیں اطمینان سا ہو گیا تھاکہ ان کے رفیقِ کاران کا بھی خیال رکھ رہے ہوں گے ۔
٭٭٭
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

’’گورنرصاحب سے بات ہوچکی ہے ، وہ کہتے ہیں تحسین اور نجم کے اغواکو زیادہ نہ اچھا لیں ۔انشاء اللہ وہ برآمدہوجائیں گے ۔‘‘
احتجاجی کیمپ پہنچتے ہی پریس کلب کے صدر اور ایکشن کمیٹی کے چے ئرمین نے دیگر صحافیوں کو بتایا ۔
’’وزیراعلیٰ نے بھی یقین دہانی کر ائی تھی‘‘ایک صحافی نے کہا
’’وزیراعظم کی طرف سے دیے گئے ظہرانے میں بھی تو صحافیوں نے وزیراعظم کو آگاہ کیا تھا۔‘‘
دوسراصحافی بولا
ُ’’پولیٹیکل ایجنٹ اور وفاقی وزیر داخلہ نے بھی تعاون کر نے کوکہا تھا‘‘
ایکشن کمیٹی کا چیئرمین گویا ہوا
٭٭٭
کر اچی سے لے کر خیبرتک تمام چھوٹے بڑے شہروں میں صحافتی اور سماجی تنظیموں نے احتجاجی ریلیاں نکا لیں ۔خودتحسین کے اخباری مالکان کا رویہ انتہائی حوصلہ افزا رہا۔ ہر سطح پران لوگوں نے نہ صرف آوازاٹھائی بل کہ روزانہ اپنے اخبار میں ان کے اغوا سے متعلق خبروں اور مضامین کو نمایاں شائع کر تے رہے ۔ اخبارکے ادارتی صفحہ سے وابستہ سینئر صحافیوں نے بھی کالم لکھے ۔ ۔ ۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ غیرملکی میڈیاپربھی کوریج آئی۔ یقینا یہ اسی کوریج کا نتیجہ تھاکہ دنیا میں صحافت کی آزادی کے لیے کام کر نے وا لی تنظیم متحرک ہوئی اور اس نے یہاں آ کر احتجاج کر نے کا فیصلہ کیا۔ اور پھرغیرملکی صحافیوں کی اس تنظیم کے آنے کا دن مقرر ہو گیا۔ ۔ ۔ قبائل کے ایک گروہ نے بھی اغوا کاروں پرلشکر کشی کا اعلان کیا ۔جس دن سہ پہر کو صحافتی تنظیم کے وفدنے پہنچنا تھا اُسی روزدن کے پہلے پہروفاقی وزیر اطلاعات نے تحسین اور اس کے ساتھی کی بازیابی کا اعلان کر دیا۔ ۔ ۔ کچھ دیربعدٹیلی ویژن پر انھیں دکھایابھی گیا۔ ۔ ۔ وزیرموصوف نے انکشاف کیا
’’اغواکار اپنی گرفتاری کے خوف سے گھبراگئے تھے ۔وہ مغویوں کو دوسرے کسی مقام پر منتقل کرنا چاہتے تھے ۔جب ان کا گزر آبادی سے ہواتو وہاں تحسین اور نجم نے شورمچاناشروع کر دیا۔لوگ بیدارہو گئے ۔ ۔ ۔ اور فائرنگ شروع کر دی۔اغوا کارگھبرا گئے اور انھیں وہیں چھوڑ کر فرارہو گئے ۔ ۔ ۔ ‘‘
تحسین ، اس کے گھروالوں اور صحافیوں کے لیے اتناہی بہت تھاکہ وہ زندہ سلامت لوٹ آیا ہے ۔ ۔ ۔ پورے باسٹھ دن بعد۔ ۔ ۔ ورنہ یہاں کون سلامت لوٹتا ہے ۔
’’پاپا!آپ ہمیں چھوڑ کر کہاں چلے گئے تھے ؟‘‘
ننھی فریال نے پوچھاتو بے اختیارتحسین کی آنکھوں سے چشمہ جاری ہو گیا۔ ۔ ۔ تب کسی اور نے کوئی سوال نہ کیا۔ ۔ ۔ فہمیدہ نے بھی نہیں ، ماں جی اور اباّنے بھی نہیں اور شائستہ نے بھی نہیں ۔کسی نے اس سے نہیں کہاکہ اس کے بغیرعیدکیسے گزری اور یہ دوماہ اور دودن کا عرصہ کتنی صدیوں کو محیط ہوا۔ ۔ ۔
’’اللہ نے فضل کیا۔ ۔ ۔ تحسین لوٹ آیا‘‘
بوڑھے مرزاصاحب، تحسین کے اباّجی سے کہہ رہے تھے ۔ ۔ ۔ رشتہ داروں ، دوستوں اور صحافیوں کے چہرے خوشی سے سرخ ہورہے تھے ۔ ۔ ۔ مگرتحسین ابھی تک ان چودہ سوبیاسی گھنٹوں کی گرفت میں تھا جو اس نے اغوا کاروں کے ساتھ گزارے تھے ۔ایک ایک لمحہ سوئی بن کر اس کے احساس میں چبھتارہا
’’کیاقصورتھامیرا۔ ۔ ۔ سچ لکھناجرم ہے ۔ ۔ ۔ ؟کیوں مجھے اذیت میں مبتلاکیاگیا۔ ۔ ۔ کیوں میرے دماغ میں کیلیں ٹھونکی گئیں ۔ ۔ ۔ کیوں میرے گھروالوں کی نیندیں حرام کی گئیں ۔ ۔ ۔ یہ کیسامعاشرہ ہے جہاں جھوٹ کی حکم رانی ہے اور سچ پاؤں سمیٹے چھپابیٹھا ہے ۔ ۔ ۔ ‘‘
اس نے نفرت سے سوچامگراگلے ہی لمحے وہ دفترجوائن کر نے کا فیصلہ کر چکا تھا۔
’’قریشی صاحب!اغوا کارکوئی بھی تھے وہ مجھے سچ لکھنے سے روکنا چاہتے تھے ۔‘‘
تحسین نے دوسرے صوبہ سے آئے ہوئے ایک صحافی کو بتایا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
’’ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
علی ترکی کا سفرنامہ کمپوزکر رہا تھا۔ ۔ ۔ ایک کمپوزرنئے فیچر کا مسودہ دیکھ رہا تھا۔ ۔ ۔
تحسین نے اپناکمپیوٹرآن کرناچاہا، مگراس کی ونڈوز کر پٹ تھی۔ ۔ ۔
٭٭٭
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Locked

Return to “چیخوں میں دبی آواز”