نیلا خون

اردوادب کے ممتاز لکھاری محترم خاور چوہدری کی نوکِ قلم سے نکلنے والے شہکار افسانے
Locked
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

نیلا خون

Post by چاند بابو »

[center]نیلاخون[/center]

یہ وسط بہارکا کوئی دن تھا۔ٹھنڈی ہوائیں جامن کے سوکھے درخت کی ٹہنیوں کو چُھو کر کھلے صحن کے دل سے گزرتے ہوئے کچے راستے کے اطراف پودوں کی روش کو چومتی جارہی تھیں ۔ما لی ان پودوں کی نلائی کر تا جاتا اور ساتھ ہی گرے ہوئے پتوں کو اٹھا کر ہتھ ریڑھی میں ڈالتا جاتا۔کوٹھی کے چاروں اور مخملی گھاس یوں دِکھ رہی تھی جیسے زمین پر زمرد جڑے ہوئے ہوں ۔ ابھی پھولوں کے نئے پودے پوری طرح مٹی سے مانوس نہیں ہوئے تھے اور ان میں سے بعض مرجھا رہے تھے ۔بانوخاتون ادبی رسالے کا نیاشمارہ گود میں رکھے مطالعہ میں یوں گم تھیں جیسے بہ جز اس کے دنیا میں کوئی کام ہی نہ ہو۔ایک ایک حرف یوں پڑھتیں گویایاد کرنا چاہتی ہوں ۔ایک ہی نشست میں سارے افسانے اور منظومات پڑھ گئیں ۔رسالہ ایک طرف رکھتے ہوئے انھوں نے ماحول کا جائزہ لیا۔دائیں ہاتھ میں بندھی ہوئی گھڑی پراچٹتی ہوئی نظرڈا لی اور پھر کچھ سوچتے ہوئے اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑی ہوئیں ۔زمردیں فرش پربے تابی سے گھومتے ہوئے ا ن کی نگاہ بار بارآسمان کی طرف اُٹھ رہی تھی۔دفعتاًوہ رُکیں اور ما لی کو آواز دی
’’ریاض۔ ۔ ۔ اِدھر تو آنا‘‘
’’جی بیگم صاحبہ‘‘
کہہ کر بوڑھاما لی اپنے کپڑے جھاڑتا ہواچلا آیا
’’ریاض!تمھیں کتنے مہینوں سے تنخواہ نہیں ملی؟‘‘
ریاض نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے جلدی سے جواب دیا
’’میری کوئی تنخواہ باقی نہیں ہے ، بیگم صاحبہ‘‘
’’تو پھریہ پودے کیوں سوکھ رہے ہیں ؟کیوں تم بروقت نلائی نہیں کر تے اور پوراپانی نہیں دیتے ہو ؟‘‘
’’بیگم صاحبہ!خدا جانتا ہے ان پودوں سے اپنے بچوں کی طرح محبت کر تا ہوں اور اپنی طاقت سے زیادہ محنت کر تا ہوں ۔ ۔ ۔ نہ معلوم پھربھی کچھ پودے اجنبیت کیوں برت رہے ہیں ۔‘‘
’’سب سمجھتی ہوں ، محبت اور محنت۔ ۔ ۔ ہونہہ۔ ۔ ۔ ‘‘
بوڑھاریاض کسی بت کی مانندزمین میں گڑچکا تھا اور بانوخاتون کی بے کلی اور بڑھ گئی۔
’’محبت۔ ۔ ۔ محنت، محبت۔ ۔ ۔ محنت، محبت۔ ۔ ۔ محنت ‘‘
ان دولفظوں کی تکر اراس قدربڑھی کہ بانوخاتون کو اپناسرچکر اتا ہوامحسوس ہوا۔وہیں زمین پربیٹھ رہیں ۔ ۔ ۔ جب ہوش آیا تو آغاخان اسپتال میں ڈاکٹروں کی نگاہ داشت میں تھیں ۔ ذہن پر دباؤ ڈالتے ہوئے انھوں نے سوچاکہ ان کے ساتھ کیا ہوا تھا؟کون سا ایسا درد اُٹھا تھا، جس نے ہوش ہی نہ رہنے دیا۔ ۔ ۔ اور جب وہی دولفظ دوبارہ یادآئے تو دماغ کے خوابیدہ خلیوں نے رینگنا شروع کر دیا ۔ ۔ ۔ تاریک ہوتی ہوئی آنکھوں سے دونمکین قطرے نکل کر چہرے کی جھریوں میں راہ بناتے ہوئے کانوں تک چلے گئے ۔
’’اُف خدایا!کس قدربھاری ہیں یہ دولفظ‘‘
بانوخاتون نے بڑبڑاتے ہوئے کہا، توکمرے میں موجودماسی اچانک ان کے چہرے پر جھک کر
’’بیگم صاحبہ، بیگم صاحبہ ‘‘
پکارنے لگی۔
’’کون لایا تھایہاں مجھے ؟‘‘
ساری قوتیں جمع کر کے بانوخاتو ن نے پوچھا۔ماسی نے اپنی اوڑھنی سے ان کی آنکھیں صاف کر تے ہوئے کہا
’’ریاض اور میں جی‘‘
’’احسان اور بہوکو اطلاع دی تھی‘‘
’’جی بیگم صاحبہ‘‘
بانو خاتون کے دماغ پر وہ دو لفظ پھرہتھوڑے برسارہے تھے ۔کر اہتے ہوئے انھوں نے پہلو بدل کر اپنا منہ دیوارکی طرف پھیرلیا۔ ۔ ۔ ماسی پیچھے ہٹ کر بیٹھ گئی۔
٭٭٭
ہوا میں بکھرتے ہوئے خزاں رسیدہ پتوں کی مانندسوچیں بے نشاں و بے سمت بھٹکنے لگیں ۔ جوں جوں ماضی کی کتاب کے اور اق کھلتے جاتے تھے ، توں توں بانوخاتون کا حلق آنسوؤں کی گرمی سے کڑوا ہوتا جاتا اور اس کڑواہٹ کو وہ چاہتے ہوئے بھی نہیں تھوک سکتی تھیں ۔
پندرہ دن بعدجب ان کی پڑوسن بیگم ضرارآئیں تو ان کے دکھ کو مزید سوا کر گئیں ۔
’’بیگم صاحبہ!مجھے بتا دیا ہوتا میں تصدق کویہاں بھیج دیتی۔ہم غیر تو نہیں ہیں ، آخرکوہم سایے ہیں اور ہم سایے تو ماں جائے ہوتے ہیں ۔‘‘
’’مجھے ہوش کہاں تھا‘‘
تھڑدلی سے بانوخاتون اتنا ہی کہہ پائی تھیں ، کہ بیگم ضرارنے جلتا ہوا انگارہ ان کے دماغ پر رکھ دیا
’’احسان میاں تو اپنی بیوی کے ساتھ کل ساحلِ سمندر کلفٹن میں گھڑسواری میں مشغول تھے ، کیا عیادت کے لیے نہیں آئے ؟، اَجی میں تو کہتی ہوں کیافائدہ ایسی اولادکا جو بڑھاپے میں تنہا چھوڑ جائے ، ایسوں کا تو پیدا ہوتے ہی گلاگھونٹ دیناچاہیے ۔‘‘
بانوخاتون ساکت و جامدخلاؤں میں گھورتی رہیں اور بیگم ضرارجلتی پرتیل ڈال کر نکل گئیں ۔
٭٭٭
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

دن گزرتے رہے اور خیالات مسلسل غزل کی ردیف کی طرح ایک تو اتر سے وارد ہوتے گئے ۔اباّجی کی حویلی یادآئی تو لسوڑوں کی چپچپاہٹ سے دماغ کے خلیے باہم اُلجھنے لگے ۔ حویلی کے دالان میں ایستادہ لسوڑے کا درخت ان کا ہم جولی و ہم رازتھا۔جس کی شاخیں ان کی سانسوں کی مہک اور جسم کے لمس کی امین تھیں ۔پہروں اس کے تنے کو اپنی نوجواں بانہوں میں سمیٹ کر اپنی آنکھوں کے موتی اس میں اتارتی رہتی تھیں ۔ ۔ ۔ اور وہ اپنے اندران کو سمیٹتارہتا تھا۔ اور اس سے پہلے جب وہ صرف دس برس کی تھیں تب بھی ان کے لیے حویلی میں جائے اماں صرف یہی تو ایک درخت تھا۔وہ اپنی گڑیالے کر اپنے ساتھ ہی کھیلتی رہتیں ۔اپنی گڈی کی شادی، اپنے ہی گڈے سے کر تیں ، خودہی بارات کے ساتھ ہوتیں اور خودہی رخصتی کا اہتمام کر تیں ۔ڈھول بجانا ، گیت گانا، تا لی بجاناحویلی میں ممکن نہ تھا ۔ ۔ ۔ کھکھلا کر ہنسنے اور قہقہے لگانے کی بھی ا جازت نہیں تھی۔ ۔ ۔ زیادہ سے زیادہ مسکر اہٹ کی ایک لکیرہونٹوں پرپھیل جاتی یاپھر دبی آوازمیں کچھ لفظ ادا ہوجاتے ۔ ۔ ۔ ایسے میں بھی اگر کہیں پھوپھوکی نظرپڑجاتی تو وہ بانوخاتون کی ساری خوشیوں کو اٹھا کر تندور میں ڈال دیتیں ۔ ۔ ۔ اس ظلم اور جبرپر رونے کا بھی اختیار نہیں تھا۔جس ماں نے جنا تھا وہ تو دیکھ بھی نہ پائیں تھی انھیں ۔ ۔ ۔ رشتے کی خالہ نے دودھ پلایا اور دوسال تک اپنے پاس رکھا۔اباّجی ان کی جھولی میں ڈال کر خود سبک دوش ہو گئے تھے ۔تب ایک جھگڑے میں پھوپھوکے خاوند مارے گئے تو اباّجی کی اکلوتی بہن اپنے دوبچوں سمیت حویلی اُٹھ آئیں ۔ ۔ ۔ اور یوں بانو خاتون بھی اپنے گھر لوٹ آئیں ۔
٭٭٭
بہروز اور نو روز دونوں ان سے بڑے تھے اور ہمہ وقت اپنی ماں سے نازاٹھواتے رہتے ۔جو چاہا کھایا، جو چاہا پیا۔جب چاہا اُٹھ بیٹھے ، جب چاہاسولیے ۔جو چاہا پہن لیا، جو چاہا اتار دیا۔پابندیاں تھیں تو فقط ان کے لیے ۔ادھرپوپھٹی اور انھیں جگا دیاگیا۔گھر بھر کا کام کروایا اور دونوں بھائیوں کے بچے ہوئے لقمے ان کے آگے ڈال دیے ۔ ۔ ۔ اور پھر سرکاری اسکول کی طرف ہانک دیا۔اسکول سے لوٹتیں تو پھر گھر داری میں مصروف ہو جاتیں ۔
بے لحاظ پھوپھوکی جلی کٹی اور ظلم تو بہ ہرحال سہے جاتی رہیں ۔ ۔ ۔ مگرایک دوپہر تو اندھیروں میں بدل گئی۔وہ کھانے کے برتن دھوکر خشک کر نے کے لیے ٹوکر ی میں رکھ آئی تھیں ۔پھوپھو کے گھڑے میں تازہ پانی بھی ڈال دیا تھا۔بہروز اور نوروزکے نہانے کے لیے الگ سے دو بالٹیاں بھی بھر کر غسل خانہ میں رکھ دی تھیں ۔اباّجی کے کمرے کے فرش کو ٹھنڈا کر نے کے لیے بھی کئی بالٹیاں ڈال آئی تھیں اور اب لسوڑے کے تنے سے لپٹ کر سسکیوں کی زبانی اسے اپنی بپتا سنا رہی تھیں ۔ ۔ ۔ دفعتاًان کے جسم میں بجلی کوند گئی۔ ۔ ۔ نوروز نے پیچھے سے آ کر انھیں اپنے سینے سے چمٹا لیا اور اپنے ہاتھ مضبوطی سے ان کے سینے کے ابھاروں پر رکھ دیے ۔ایک چیخ ان کے حلق میں قتل ہو گئی۔نوروزبھائی کے سامنے ہاتھ جوڑے ، خداکے واسطے دیے ، گڑگڑائیں ، روئیں ۔ ۔ ۔ مگراس نے اپنی گرفت ڈھیلی نہ کی۔
نہ جانے پھوپھوکس وقت سے یہ منظر دیکھ رہی تھیں ۔ ۔ ۔ اور پھربڑے بڑے ڈگ بھرتے ہوئے حویلی کے دالان میں آ گئیں
’’حرام زادی!یہ لچھن ہیں تیرے ، میں بھی کہوں تو دو پہروں کو سوتی کیوں نہیں ۔آلینے دے اپنے باپ کو۔منحوس تمھیں دیوار میں چنوا کر دم لوں گی۔کتیا تو نے رشتوں کا بھی خیال نہ رکھا ۔ ۔ ۔ اپنی آگ کہیں اور ٹھنڈی کیوں نہ کی تو نے ۔ ۔ ۔ ؟۔ کیوں میرے معصوم بیٹے کو تباہ کر رہی ہے ۔‘‘
پھوپھوکے منہ میں جو آیا بکے گئیں اور بانو خاتون کی آنکھوں کی ندیاں سوکھنے کا نام ہی نہ لیتی تھیں ۔دوپہر، سہ پہر میں ڈھلی اور سہ پہرشام میں ۔ ۔ ۔ مگر بانو خاتون کے لیے وقت رُک گیا تھا۔ ۔ ۔ یوں جیسے بھاری سلوں تلے آ گیا ہو۔ ۔ ۔ ایک ایک پل صدی کو محیط ہو گیا۔روروکر اپنا براحال کر لیا اور اب ایسے معلوم ہوتا تھاجیسے آنکھوں سے پانی کی بجائے لہو ٹپک رہا ہو۔پھوپھو نے ان کے کمرے کی باہر سے چٹکی لگادی تھی۔بانوخاتون نے سوچا آج اباّ جی کو پھوپھو کے تمام ظلموں کے بارے میں بتائیں گی۔ ۔ ۔ بتائیں گی کہ وہ انھیں کیسی کیسی ننگی گا لیاں دیتی ہیں ۔ ۔ ۔ اور آج جس شیطنت کا مظاہرہ نوروز نے کیا ہے وہ بھی صاف صاف بتا دیں گی۔دل سے بہہ جانے والے لہوکو قطرہ قطرہ کر کے سمیٹا اور تہیہ کیاکہ اب مزید ظلم نہیں سہیں گی اور ان ماں بیٹوں کو حویلی سے نکلوا کر رہیں گی۔
٭٭٭
اباّجی کے کمرے سے مسلسل آوازیں آتی رہیں اور شام رات میں مدغم ہوتی رہی۔بھوک اور پیاس سے بانوخاتون کا برا حال ہو گیا تھا۔غم اور غصہ کی شدت نے مزید نڈھال کر رکھا تھا اور اب اتناوقت گزرگیا تھا۔ ۔ ۔ مگرکوئی انھیں قیدسے رہائی دلانے نہیں آیا تھا۔ ۔ ۔ تب انھوں نے بلند آوازمیں روناشروع کر دیا۔
بھاری قدموں کی آہٹ جوں جوں بڑھتی گئی ان کے دل کی دھڑکنیں بھی بے ترتیب ہونے لگیں ۔ایک جھٹکے سے دروازہ کھلا اور اباّجی نے انھیں چوٹی سے پکڑ کر ننگے فرش پرگھسیٹنا شروع کر دیا۔ ۔ ۔ بغیرکچھ کہے سنے ان کے وجود پر لاتوں اور مکوں کی بارش کر دی۔پیڑو اور پسلیوں میں دردکی ایسی لہراُٹھی کہ اس نے دہرا کر دیا۔ جب جب یہ دردسے دہری ہوتیں اباّجی انھیں بالوں سے پکڑ کر سیدھا کر تے ۔ ۔ ۔ اور پھرپیٹناشروع کر دیتے ۔چہرہ چھلنی ہو گیا تھا، ہونٹوں سے خون کے فوارے پھوٹ بہے تھے ، نس نس میں گویادردکی لکیریں بن گئی تھیں ۔ اور جب اباّجی مارمار کر تھک گئے تو انھیں دھکا دے کر زمین پرڈال دیا۔ ۔ ۔
’’اباّجی!میری بھی تو سنتے ‘‘
جب انھوں نے اپنی چیخیں ضبط کر تے ہوئے کہاتو اباّ جی نے سیدھے پاؤں سے زور دار ٹھوکر ان کے ماتھے پرلگائی اور وہ دردسے بلک اُٹھیں ۔اس لیے نہیں کہ چوٹ بہت گہری تھی، اس لیے کہ اباّجی نے بھی انھیں بدذات، حرام کار اور رنڈی کہا تھا۔پھوپھو، بہروز اور نوروزیہ منظر دیکھتے رہے ، مگرکسی نے مداخلت نہ کی۔ ۔ ۔ اور کر تے بھی کیسے کہ وہی تو ان کی جان کے دشمن تھے ۔
٭٭٭
بانوخاتون کو جب ہوش آیا تو وہ اپنے کمرے کی چارپائی سے بندھی ہوئی تھیں اور ان کے جسم پرلباس کے نام پر دھجیاں تھیں ۔انگ انگ سے خون رس رہا تھا اور رُواں رُواں درد سے پھٹ رہا تھا۔انھیں اپنے جسم پرلگنے والے گھاؤسے زیادہ روح پرآنے والے زخموں سے تکلیف ہوئی تھی۔ان کے ذہن میں لسوڑے کے درخت تلے پیش آنے والا منظر پوری طرح جاگ چکا تھا ۔ ۔ ۔ اور پھوپھوکی زبان سے نکلے ہوئے غلیظ لفظ پہلے سے زیادہ کر یہہ معلوم ہورہے تھے ۔ وہ نوروز جسے وہ ہمیشہ اپناسگابھائی سمجھتی آئی تھیں مجسم شیطان نظر آرہا تھا۔ ۔ ۔ وہ نہیں جانتی تھیں کہ انھوں نے اباّجی کے سامنے کیاکہانی گھڑی تھی، مگروہ ان دونوں ماں بیٹوں کا خون پینا چاہتی تھیں ۔
’’مجھے حرام زادی کہتی ہیں اور خودوارث ماموں کو دن بھراپنے کمرے میں بند رکھتی ہیں ‘‘
بانو خاتون نے نفرت سے سوچا۔
’’حرافہ تو خود ہیں ، اباّجی کے گھر سے نکلتے ہی حویلی کے دروازے سے لگ جاتی ہیں اور ہر آتے جاتے مرد کا وجود ماپتی ہیں ، گلی میں بیٹھے ہوؤں کو تاکتی ہیں ۔‘‘
سوچیں بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کے دماغ میں زہربھی بڑھتا جارہا تھا۔
٭٭٭
گھڑیاں ، گھنٹوں ، دنوں ، ہفتوں اور مہینوں میں بدل گئیں ۔ ۔ ۔ مگرقیدختم نہ ہوئی۔ پھوپھو ان کے سامنے کھانا ایسے رکھ کر جاتیں جیسے کسی کوڑھی اور جذامی کے آگے ڈال رہی ہوں ۔اُن کا بس نہیں چلتا تھاکہ وہ پھوپھو کو دبوچ کر ان کی گردن سے لہوپی جاتیں ۔اس سارے عرصہ میں ایک باربھی اباّجی اس طرف نہیں آئے تھے ۔ ۔ ۔ اور وہ اپنے نا کر دہ گنا ہوں کی سزاکاٹتی رہیں ۔ پھرایک دن اباّجی آئے اور درشت لہجہ میں کہا
’’بانو!تمھیں کمرے سے رہائی مل رہی ہے ۔ ۔ ۔ اور جان لو ایساکوئی قدم نہیں اُٹھاناکہ میں تمھیں قتل کر نے پرمجبورہوجاؤں ۔ ۔ ۔ اور ہاں ڈھنگ کے کپڑے پہن لینا، کچھ لوگ تمھیں دیکھنے آ رہے ہیں ۔‘‘
بانوخاتون نے منت کے سے اندازمیں پکارا
’’اباّجی۔ ۔ ۔ !‘‘
’’مت کہومجھے اباّجی‘‘
اور پھراباجی نفرت سے منہ پھیر کر چلے گئے
بانوخاتون کے وجود میں جیسے شعلے سے لپک گئے ہوں ۔انھوں نے دکھ اور گھبراہٹ کی حالت میں سوچا
’’کیا میں واقعی بدذات اور حرام کی جنی ہوں ، جواباّجی مجھ سے اس قدر نفرت کر تے ہیں ‘‘ گولی کی سی سرعت کی طرح ایک اور حقیقت ان پرواضح ہوئی کہ اباّجی نے تو کبھی ان سے محبت کی ہی نہیں تھی۔ ۔ ۔ وہ تو اپنے کاروبار اور جاگیر میں ہمیشہ مصروف رہے ۔ ۔ ۔ اور یہ پھوپھو کی لعن طعن اور باسی ٹکڑوں پرپلتی رہیں ۔اب ان کے دل میں اباّجی کے لیے بھی نفرت بڑھ رہی تھی۔
٭٭٭
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

یوں ہی ایک شام انھیں سلیم کے کھونٹے پر باندھ دیاگیا۔ ۔ ۔ وہ سلیم جس کا نہ پہلے نام سنا تھا، نہ دیکھا تھا۔خود میں چھپی ہوئی یہ ایک پلنگ میں دبکی بیٹھی رہیں ۔ ۔ ۔ سلیم آتا ہے ، حکم جاری کر تا ہے ۔ ۔ ۔ ایسے جیسے کسبیوں اور زرخریدوں کو جاری کیا جاتا ہے اور پھر رات بھر کتاگوشت کے لوتھڑے کو بھنبھوڑتا رہا ۔ آنے والے کئی دن بھی اسی طرح گزر گئے ۔ ۔ ۔ دونوں کے درمیان کوئی بات نہ ہوئی۔ ۔ ۔ سُورپلتارہا، کھیت اجڑتارہا۔تین ماہ گزرگئے پھر ایک صبح سلیم نے تین لفظ کہہ کر انھیں رونے کے لیے چھوڑدیا اور کہہ گیا
’’میں لوٹوں تو تمھاری شکل نہ دیکھوں ‘‘
خدائے زندہ کے سامنے دوزانوہوکر وہ اپنے نا کر دہ گنا ہوں کی معافی مانگتی رہیں ۔ جب دردچیخوں ، آہوں اور سسکیوں میں بدل گیاتو پڑوسن چلی آئی
’’اری کیوں جی ہلکان کر تی ہے کم بخت!نہ رو۔تم سے پہلے چارجیون ا جاڑچکا ہے موا۔ ارے لعنت ہوایسے والدین پرجوبن دیکھے ایسوں سے باندھ دیتے ہیں ۔‘‘
پڑوسن اور نہ جانے کیا کیا کچھ کہتی رہی۔ ۔ ۔ اور یہ تو جیسے ہوش ہی کھوبیٹھی تھیں ۔ جائیں تو جائیں کہاں ؟اباّجی نے تو گھر سے نکالنے کے بعدپلٹ کر بھی نہ دیکھا۔ ۔ ۔ پھوپھو اور نوروز کا خیال آیا تو روح کو آگ لگ گئی۔ پورے وجود میں جیسے چنگاریاں رینگنے لگی ہوں ۔ ۔ ۔ روم روم سلگتارہا، دردبڑھتارہا، خون گھٹتا رہا ، وقت گزرتا رہا، دم نکلتارہا۔بہت سوچنے کے بعد وارث ماموں کا خیال آیا تو اس کے ساتھ ہی یہ منظربھی ذہن میں جاگ بیٹھاکہ وہ تو خود اپنی بیوی سے چھپ چھپ کر پھوپھوکی آگ بجھاتے ہیں ۔ ۔ ۔ تب انھوں نے اپنے ٹوٹے ہوئے وجود کی کر چیوں کو سمیٹنا شروع کیا۔ایک ایک کر کے انھیں زمین سے اُٹھایا اور صاف کر کے اپنے پوٹلی میں باندھ لیا۔اب منزل کوئی نہیں تھی، صرف راستہ تھا۔ ۔ ۔ پُرخار ، پُر پیچ، پُر درد ۔ ۔ ۔ دکھوں ، تکلیفوں ، آہوں ، سسکیوں ، یادوں اور نفرتوں سے پُر۔ ۔ ۔ ایک لمبانہ ختم ہونے والابے انت راستہ ؂
جتنی دُورچلوں میں پیارے
عمر کا رستہ بڑھتا جائے
امرت دھاراکیسے پاؤں
وہ چلتی رہیں ، جلتی رہیں ۔ ۔ ۔ اور اس چلنے اور جلنے میں انھیں ایک کر ن دکھائی دے گئی۔سلیم کے ساتھ گزرا ہواوقت یاد کرنا ان کے لیے سوہان روح تھا، مگراس نوزائدہ کاکیادوش جس نے ابھی دنیا میں سانس لیا تھا۔ ۔ ۔ احسان۔ ۔ ۔ نہ جانے کیاسوچ کر انھوں نے اس پھوٹنے وا لی روشنی کو احسان کا نام دیا تھا۔
٭٭٭
اب بانوخاتون تھیں ، احسان تھا اور کوچنگ سینٹر۔دن کے پہلے پہروہ ایک پبلک اسکول میں پڑھاتیں اور پچھلے پہراپنے کوچنگ سینٹر میں ۔ دونوں ماں بیٹاعموماًساتھ ہوتے یا یوں کہیے ماں نے کوکھ سے جنم دینے کے بعدبھی بیٹے کو خودسے جدانہیں کیا تھا۔ ۔ ۔ اور خود چند لمحوں کے لیے بھی ماں کی شفقت نہ پا سکی تھیں ۔ اِدھریہ پیدا ہوئیں ، اُدھرماں ساتھ چھوڑ گئی ۔نہ بہن ، نہ بھائی، نہ گھر، نہ در۔ ۔ ۔ اباّجی۔ ۔ ۔ ؟انھوں نے تو جیسے زہر میں بجھا ہواتیران کے سینے میں چبھو چھوڑا تھا۔کوچنگ سینٹر، اسکول میں بدل گیا۔محنت رنگ لائی اور احسان سے محبت بھی۔ ۔ ۔ معیشت بھی جواں ہوئی اور اولادبھی۔اب شایدان کے زخموں کے بھرنے کا وقت آن پہنچا تھا۔ ۔ ۔ یقینا وہ ماضی کو بھولنا چاہتی تھیں ۔ ۔ ۔ اور ماضی سے وابستہ سب لوگوں کو بھی، مگرایساممکن نہیں تھا۔وہ جب کبھی پرنسپل روم میں کسی بچے کے ساتھ اس کے والد کو دیکھتیں توبے اختیارانھیں احسان پر ترس آنے لگتا اور ان کی آنکھوں سے سیلابِ بلاخیز رواں ہوجاتا۔ ۔ ۔ اپنے اباّجی یادآ جاتے ، جن کے سایے میں نہ سہی قربت میں تو انھوں نے زندگی کے بیس برس گزارے تھے ۔
’’پھوپھو۔ ۔ ۔ کیوں کیامیرے ساتھ اس طرح آپ نے ؟‘‘
وہ سوچتیں اور پھربندآنکھوں آنسو اپنے حلق سے سینہ میں اُتارنے لگتیں ۔ اور وہ دن کتنا بھاری تھا جب احسان نے پوچھا تھا
’’اماں !بابا اور آپ کا کوئی رشتہ داراس دنیا میں زندہ نہیں ہے ؟‘‘
’’نہیں بیٹے !‘‘
اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رودیں ۔ ۔ ۔ بالکل اسی طرح جیسے وہ اپنے اباّجی کی طرف سے دی گئی گا لیوں پر روئی تھیں ۔ ۔ ۔ تب احسا ن نے بڑھ کر ماں کاہاتھ تھاما اور پھر اپنی آنکھوں سے لگا لیا
٭٭٭
یہ احسان کی شادی سے چندبرس اُدھرکی بات ہے ۔ایک روزوہ عوامی مرکزسے خریداری کر رہی تھیں ، اچانک ان کی نگاہ ایک شخص پرپڑی اور پھران کے وجود پرلرزہ طاری ہو گیا۔ جو کچھ منتخب کیا تھا، اسے وہیں چھوڑا اور لجاجت سے کاؤنٹرپربیٹھے شخص کوکچھ کہا اور آ کر گاڑی میں بیٹھ گئیں ۔ ۔ ۔ گاڑی کے پہیے اور ہینڈل گھومتے رہے اور ان کا دماغ بھی۔
’’سلیم کے ساتھ نوجوان لڑکی کون ہو سکتی ہے ؟اس کی نوعمربیوی ؟نہیں ۔ ۔ ۔ نہیں ، پھر بیٹی ہو گی۔‘‘
انھوں نے سوچا۔ ۔ ۔
کئی دن تک وہ اس وجہ سے بیمار رہیں ۔ماضی کی یادیں ان کے ساتھ سایوں کی طرح چمٹ چکی تھیں ۔ ۔ ۔ پھرایک ایک رات کا اُجاڑپن ان کی روح اور دل کو زخمی کر نے لگا۔نفرت اور کر اہت سے وہ وقت کاٹتی رہیں ۔ ۔ ۔ اور اباّجی، پھوپھو، بہروز، نوروز، وارث ماموں اور سلیم کا نام لے لے کر تھوکتی رہیں
’’تف ایسے رشتوں پر۔ ۔ ۔ حیف میرا اُن لوگوں کے ساتھ وقت گزرا‘‘
انھوں نے سوچا، مگر ؂
ہونی ، ہوکے رہتی ہے
فرق کچھ نہیں پڑتا
آنسوؤں کے بونے سے
٭٭٭
ایم بی اے کے بعداحسان فارغ تھا۔جاب کے لیے چندجگہوں پرکوشش کی ، مگر وہ ایسی کوشش نہیں تھی کہ باراور ثابت ہوتی۔ ۔ ۔ ویسے بھی اسکول کی آمدن اس قدرتھی کہ دونوں ماں بیٹاوقار سے وقت گزارسکتے تھے ۔تب احسان، بانوخاتون کے اسکول میں ان کا ہاتھ بٹانے لگا اور یہیں اس کی ملاقات عفت سے ہوئی۔عفت سائنس کی ٹیچرتھی۔ ۔ ۔ اپنے مضمون کے ساتھ پورا انصاف کر تی تھی، اسی سبب سے بانوخاتون بھی اسے پسند کر تی تھیں ۔پھر ایک دن احسان نے ماں کے سامنے اپنے دل کی بات رکھ دی۔ماں کوکیا اعتراض ہو سکتا تھا۔اِکو اِک بیٹا اور وہ بھی نازوں پلا۔ ۔ ۔ اور پھرعفت میں بھی کچھ کمی نہیں تھی۔
بانوخاتون کویادآیاعفت کی ماں نے دوسری شادی رچا لی تھی اور یہ بے چاری اپنی بیوہ نانی کے پاس رہتی تھی۔انھیں نے پالاپوسا اور پڑھایالکھایا۔ شادی طے ہو گئی۔نیشنل کر کٹ اسٹیڈیم کے کھلے میدان میں ولیمہ کی دعوت رکھی گئی۔بانوخاتون کا کون تھاجسے بلاتیں ۔لے دے کے اسکول اسٹاف۔ ۔ ۔ چند سہیلیاں اور احسان کے کچھ دوست ۔عفت کی طرف سے بہت لوگ تھے ۔بانوخاتون کو بتایاگیاکہ عفت کی ماں بھی اپنے شوہر سمیت شادی میں شریک ہو رہی ہیں ۔اِنھیں کیا اعتراض ہو سکتا تھابھلا۔
نیشنل اسٹڈیم کے صدر دروازے پرب اور دی گارڈمہمانوں کا استقبال کر تے رہے ۔ ان سے چندگزکے فاصلہ پر احسان کے دوست آنے والوں کو خوش آمدیدکہنے کے لیے کھڑے تھے ۔صدر دروازہ اور اس سے نکلنے وا لی شاہراہ کی دونوں اطراف میں روشنی کے قمقوں نے ایسا سماں باندھا تھا، جیسے ستارے زمین پر اُترآئے ہوں ۔زرق برق لباس پہنے بوڑھی عورتیں اور جوان لڑکیاں اپنے ہونے کی گواہی دے رہی تھیں ۔طرح طرح کے ذائقوں کی خوشبونے ماحول پر وجد کی سی کیفیت طاری کر رکھی تھی۔ ۔ ۔ مہمان آتے جاتے اور مخملیں نشستوں پربیٹھتے جاتے ۔ اسٹیج پر دولہا اور دلہن اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ موجود تھے ۔ رسمیں شروع ہوئیں ، سلامی دی جانے لگی۔ ۔ ۔ تب ایک شعلہ لپکا اور بانو خاتون کے جسم کو بھسم کر گیا۔
ہاتھوں میں پھول لیے سلیم ان کے سامنے تھا۔وہ سلیم جس نے ان کی زندگی کانٹوں سے بھر دی تھی اور ۔ ۔ ۔ اور اب اس کے ہاتھوں میں پھول تھے ۔عفت کی نانی نے تعارف کر اتے ہوئے بتایا
’’یہ سلیم ہیں ، عفت کے سوتیلے باپ‘‘
بانوخاتون کے اندرتباہی آمیزجھکڑچلنے لگے ، اعتمادکی دیواریں یکایک زمین بوس ہونے لگیں ، یوں لگتا جیسے ان کی دنیا اندھیرہوجائے گی۔ ۔ ۔ شادی کے سارے منظر ماضی کے زہر میں بجھ گئے ۔ چیخیں حلق کے اندر دم توڑنے لگیں ۔ ۔ ۔ ایک ایک کر کے اُن ساری راتوں کا دُکھ ان کی آنکھوں میں اُتر آیاجو انھوں سلیم کے ساتھ کاٹی تھیں ۔ اور اُدھرسلیم کے ہاتھ سے گل دستہ گر کر دونوں کے پاؤں چوم رہا تھا
’’بانوخاتون۔ ۔ ۔ تم!‘‘
سلیم نے کہاتو اسٹیج پرموجودسبھی لوگ چونک کر ان کی جانب دیکھنے لگے ۔عفت کی ماں نے احسان کی اماں کو مخاطب کر تے ہوئے کہا
’’آپ انھیں جانتی ہیں ؟‘‘
تب تک بانوخاتون خودکو سنبھال چکی تھیں ۔انھوں نے وقار اور طمانیت سے کہا
’’جی۔ ۔ ۔ لیکن تفصیلات بعد میں بتاؤں گی‘‘
’’قاضی جی نکاح پڑھوایے ‘‘
احسان کی اماں نے خوش دلی سے کہا، جیسے کوئی اَن ہونی ہوئی ہی نہیں ۔ حالانکہ ان کے دل و دماغ سمیت روح پربھی ایک قیامت گزر چکی تھی۔جسم کے سمندر میں ٹھاٹھیں مارتی ہوئی لہروں کو اس اندازسے سہا، جیسے بڑی تباہی کے آنے سے پہلے خودسمندر سہتا ہے ۔ ۔ ۔ وہ چاہتیں تو اس شادی کو رکوا سکتی تھیں ۔ ۔ ۔ مگرانھوں نے اپنے دکھوں پربیٹے کی خوشیوں کو قربان نہیں کیا۔
شادی کے ہنگامے ختم ہوئے ۔عفت، بانوخاتون کے نازوں پلے بیٹے کی بیوی بن کر ان کی کوٹھی میں آ چکی تھی۔شادی کا تیسرادن تھا۔ ۔ ۔ احسان کے سسرا لیوں نے آنا تھا اور اِدھر بانو خاتون کے دماغ کی رگیں چٹخ رہی تھیں ۔
’’یقیناسلیم بھی ان کے ساتھ ہو گا‘‘
انھوں نے نفرت سے سوچا اور پھرایک طرف تھوک دیا۔ ۔ ۔ مگر اب پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا تھا ۔ گئی بات کو تو گھوڑا نہیں پہنچ سکتا، زمانہ کی ستم رسیدہ بانو خاتون کیا کر سکتی تھیں ۔ انھوں نے اپنے وجودکو سمیٹا بالکل اُسی طرح جیسے پچیس سال پہلے سلیم کے گھر سے نکلتے ہوئے پوٹلی میں اپنے وجود کی کر چیوں کو باندھا تھا ۔ ۔ ۔ ایک وقار سے مہمانوں کا استقبال کر نے لگیں ۔سلیم سرجھکائے ، ندامت وپشیمانی کا پہاڑسرپراُٹھائے عفت کی ماں کے پیچھے پیچھے چلا آرہا تھا۔کھانے کے دوران سلیم اور بانوخاتون ایک دوسرے سے نظریں چراتے رہے ۔ کھاناختم ہواتو اچانک عفت کی ماں نے احسان کو مخاطب کر تے ہوئے کہا
’’بیٹا!ہم پرانے رشتہ دارہیں ‘‘
بانوخاتون نے چونک کر اپنے بیٹے کی ساس اور اپنے سابقہ خاوندکی منکوحہ کی طرف دیکھا۔ وہ سمجھتی تھیں سلیم ایسی کوئی حرکت نہیں کر ے گا، جس سے بچوں کی زندگی متاثر ہو۔ ۔ ۔ مگرازل کے خود غرض شخص نے وہی کیاجو اس کی سرشت میں شامل تھا۔
’’امی یہ کیاکہہ رہی ہیں آپ؟‘‘
عفت نے اپنی ماں سے پوچھا
’’ٹھیک کہہ رہی ہوں بیٹی، بانوخاتون ، سلیم کے عقد میں رہ چکی ہیں اور احسان ان کا بیٹا ہے ۔‘‘
بانوخاتون نے چاہاکہ وہ چیخ چیخ کر اس بات سے انکار کر دیں اور کہہ دیں کہ احسان اس سانپ کا بیٹانہیں ہے ، مگروہ ایسانہ کر پائیں ۔ ۔ ۔ نہ جانے کیوں ؟
تب احسان کی سوا لیہ نظریں اپنی ماں کی جانب اٹھیں تو انھوں نے اثبات میں سرہلا دیا
’’لیکن اماں آپ نے مجھ سے کیوں کہا تھاکہ میرا اس دنیا میں کوئی نہیں رہا؟‘‘
’’تو پھرکیابتاتی تمھیں ؟‘‘
یہ لفظ اماں کی زبان سے نکلے ہی تھے کہ ان کے چہرے پرموجود کچھ شکنیں آنسوؤں سے بھر گئیں ۔اس چہرے پر جو وقت سے پہلے بڑھاپے کی چادراوڑھ چکا تھا ۔
’’مگراماں اتنی بڑی بات آپ نے مجھ سے آج تک چھپائے رکھی‘‘
احسان نے قریباًروتے ہوئے کہا۔
’’کیسے بتاتی کہ تمھارے باپ نے مجھے کبھی بیوی سمجھاہی نہیں تھا، کیسے بتاتی کہ میں تین ماہ نُچتی رہی اور پھرنوچنے والے نے مجھے گھر سے نکال کر گلی میں پھینک دیا ۔ ‘‘
انھوں نے سوچا
ندامت اور تاسف سے ہاتھ ملتے ہوئے سلیم کی زبان اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی اور وہ صرف اتنا کہہ پایا
’’بانوخاتون مجھے معاف کر دو۔ ۔ ۔ احسان میں تمھارے سامنے ہاتھ جوڑتا ہوں ‘‘
بانوخاتون نے نفرت سے زمین پرتھوکا اور وہاں سے اُٹھ کر اپنے کمرے میں چلی آئیں ۔ ۔ ۔ انھیں ایک ایک رات اور اُن سے وابستہ دکھ یادآتے رہے ۔ دل کے سمندر میں اُٹھنے وا لی خاموش موجوں نے طوفان کھڑا کر دیا۔وہ روتی رہیں ، دل کا لہو جلاتی رہیں ۔ انھیں دیکھنے کوئی نہ آیا۔ صبح جب وہ اُٹھیں تو ان کی طبیعت بوجھل تھی۔ ۔ ۔ مگرپھربھی ناشتے کی میز تک آ گئیں
’’ماسی کیابہونہیں اُٹھیں ؟‘‘
’’بیگم صاحبہ چھوٹی بیگم اور صاحب تو رات کوہی مہمانوں کے ساتھ چلے گئے تھے ‘‘
دکھ کا ایک پہاڑآسمان سے گراجس کے بوجھ تلے بانوخاتون دب گئیں ۔ ۔ ۔
’’واہ احسان وا!خوب میر ی محنتوں اور محبتوں کا صلہ دیاتو نے ‘‘
انھوں نے سوچا اور ماسی سے کہا
’’میں کمرے میں جارہی ہوں ، میرے لیے کچھ مت لانا‘‘
اور پھراپنے کمرے میں چلی آئیں ۔
’’سانپ کا بیٹا سانپ ہی ہوتا ہے ‘‘وہ بڑبڑائیں ۔ ۔ ۔ ’’محنت اور محبت‘‘
یہ دولفظ ان کے لبوں سے پھسلے ۔ ۔ ۔
’’بیگم صاحبہ جی!کچھ کھاپی لیں ، آپ رات کو بھی ایسے ہی سوگئی تھیں ‘‘
ماسی نے کہاتو بانوخاتون نے چاہاکہ وہ چیخ چیخ کر اس عورت کو بتائیں وہ رات کو سوئی کہاں تھیں ، وہ تو شب بھرپل صراط سے گزرتی رہیں ۔پھرانھوں نے کچھ سوچتے ہوئے کہا
’’اچھاچلو!جوس کا گلاس یہاں رکھ دو، میں پی لوں گی‘‘
ماسی نے بیڈکے ساتھ داہنی طرف پڑی ہوئی میزپرگلاس رکھا اور باہرچلی گئی۔
’’ماسی پھراچھی ہے ، اسے میراخیال تو ہے ۔احسان جس پر میں نے زندگی لٹا دی یوں پل بھر میں سارے رشتے توڑ کر چلاگیا۔ ۔ ۔ اور اباّجی جن کی محبتوں کے لیے ہمیشہ ترستی رہی ۔ ۔ ۔ اور پھوپھو جن کے لیے میں نے اپنے معصوم ہاتھ جلا کر روٹیاں پکائیں ۔ ۔ ۔ اور بہروزبھائی جن کے نہانے تک کا پانی میں نے بھرا۔ ۔ ۔ اور نوروز۔ ۔ ۔ (گھن آتی ہے اسے بھائی کہتے ہوئے )اس کے لیے کوئلے دہکا دہکا کر کپڑے استری کیے ۔ ۔ ۔ اور سلیم۔ ۔ ۔ جو تین ماہ صرف اپنی ہوس مٹاتارہا۔
اوہ ۔ ۔ ۔ خدایا!میں کس عذاب سے گزر رہی ہوں ۔اب تو ان دکھوں کی اخیر کر دے ۔‘‘
انھوں نے خودکلامی کی۔ ۔ ۔
پھرانھوں نے اپنے محنت آشناہاتھوں کو پیالہ بنا کر آنکھ سے نکلنے والے موتیوں کو ان میں بھر لیا۔ ماسی دوبارہ آئی تو جوس کا گلاس وہیں رکھا تھا۔ ۔ ۔ اور بانوخاتون کا چہرہ ہتھیلیوں کے پردے میں تھا۔
ان کے لیے وقت ایک بارپھرتھم چکا تھا۔ ۔ ۔ یاپھرماضی کی طرح پتھروں کی چٹان تلے آ چکا تھا ۔ وہ ان واقعات کو بھولنا چاہتی تھیں ، مگریہ ممکن نہ تھا ؂
دوست ، کہاں ہیں دوست
نیلے خون کی خوشبونے
رازاُگل ڈالے
لوگوں نے تو سنا تھا۔ ۔ ۔ مگربانوخاتون مارِآستین سے ڈسی گئیں ، ڈسی جاتی رہیں ۔
اب احسان اپنے باپ کے ساتھ رہ رہا ہے ۔اماں نے حصہ میں اسے اسکول لکھ دیا ہے ۔کبھی کبھاروہ اپنی بیوی اور بچوں رامش اور دانش کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کے لیے یہاں چلا آتا ہے ۔ ۔ ۔ لیکن اب کی بارتو نہیں آئے وہ لوگ۔ ۔ ۔ اماں کی بیماری پربھی نہیں ۔ماسی نے تو یہی بتایا تھا کہ احسان اور بہو کو اطلاع کر دی گئی تھی۔ ۔ ۔ اور بیگم ضراربتارہی تھیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
’’اُف اللہ۔ ۔ ۔ یہ میرے ساتھ کیا ہوا؟‘‘
بانوخاتون نے سوچا۔
٭٭٭
ڈاکٹرکمرے میں داخل ہوتا ہے
’’بیگم صاحبہ اب آپ کی طبیعت کیسی ہے ؟‘‘
’’بہترہوں ، ڈاکٹرصاحب‘‘
بانوخاتون کی آوازدُورکسی وادی سے آتی ہوئی معلوم ہوتی ہے ۔
٭٭٭
وہ بوڑھے ما لی اور ماسی کے ساتھ گھرلوٹ چکی ہیں ۔کوٹھی کے چاروں اور پھیلے ہوئے سبزے سے ہوا اٹھکھیلیاں کر رہی ہے ۔ریاض پودوں کو پانی دے رہا ہے اور پودوں سے جدا ہو جانے والے پتوں کو اُٹھا کر ہتھ ریڑھی میں ڈال رہا ہے ۔بانوخاتون ادبی رسالے کا نیا شمارہ جھولی میں رکھے مطالعہ کر رہی ہیں ۔ دفعتاًاُٹھتی ہیں اور بے چینی سے زمرد سار گھاس کے فرش پر ننگے پاؤں چلتی ہیں اور بے تابی کے ساتھ ریاض کو پکارتی ہیں
’’ریاض۔ ۔ ۔ اِدھرتو آنا‘‘
’’جی بیگم صاحبہ‘‘
کہہ کر بوڑھاما لی اپنے کپڑے جھاڑتا ہواچلا آتا ہے
’’ریاض!تمھیں کتنے مہینوں سے تنخواہ نہیں ملی؟‘‘
٭٭٭
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Locked

Return to “چیخوں میں دبی آواز”