پاکستان اور اس کے دشمن !
Posted: Thu Nov 19, 2009 2:58 pm
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہماری حکومت نے قرطاسِ ابیض شائع کرکے امت پر بڑا احسان کیا، حکومت ہی کی زبان سے مشرقی پاکستان کی انسانیت سوز بربریت سامنے آگئی اور مجیب وبھاشانی کی امت نے جس درندگی کا ثبوت دیا اس کی پہلی مرتبہ نقاب کشائی ہوئی ،ان لرزہ خیز مظالم کے تصور سے بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔انسانیت کی تاریخ قیامت تک اس کا ماتم کرے گی، حکومتِ ہند کے ناپاک عزائم بھی ایک مرتبہ پھر دنیا کے سامنے آگئے، برطانیہ کے ناپاک ارادوں پر سے بھی پردہ اٹھ گیا اور بی بی سی لندن جو خود ساختہ خبریں اپنی منحوس خواہشات کے پیشِ نظر شائع کرکے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہے ،اس کا پردہ بھی چاک ہوگیا۔ اس قرطاسِ ابیض کو انگریزی اور عربی میں لاکھوں کی تعداد میں شائع کرنے کی ضرورت ہے اور اپنے سفارت خانوں کے ذریعہ دنیا کے گوشے تک پہنچانے کی حاجت ہے۔
اس کا افسوس ہے کہ ہمارے اکثر سفارت خانے خصوصاً مشرقِ اوسط کے پاکستانی سفارتخانے اپنے منصبی فرائض کے ادا کرنے میں انتہائی افسوسناک حد تک مقصر ہیں، برطانیہ اور امریکہ کے ناپاک ارادے تو پہلے سے معلوم ہوچکے تھے، اب روس کی منافقانہ چالوں کا پردہ بھی چاک ہوتا جارہا ہے، سچ کہا ہے: ”الکفر ملة واحدة،، یہ تمام داستانیں ہمارے لئے عبرت کے صحیفے ہیں کہ ہمیں خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی شدید ضرورت ہے اور انتہائی کوشش کرنی چاہئے کہ ہم ان دشمنانِ اسلام سے بھیک مانگنے سے اجتناب کریں اور ہم ان کفر کی طاقتوں کے سامنے ہاتھ پھیلا کر مزید رسوا اور ذلیل نہ ہوں اور اس غیبی طاقت سے اپنا رشتہ جوڑیں جس کے قبضہ ٴ قدرت میں تمام کائنات کی طاقتیں ہیں جو ایک پلک جھپکنے میں تمام کائنات کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کی طاقت رکھتی ہے اور جب تک ملک میں اسلامی قانون نافذ نہ ہو چین سے نہ بیٹھیں، مگر قوم میں اجتماعی دینی روح جب تک پیدا نہ ہو اس وقت تک اس کا کوئی امکان نہیں ہے۔
ضروریاتِ دین کا انکار موجب ِ کفر ہے
چند روز پہلے اخبار جنگ میں یہ خبر نظر سے گذری کہ ایک مسلمان خاتون نے عدالت میں دعویٰ دائر کرکے عدالت سے چارہ جوئی کی ہے کہ میرا شوہر زکوٰة سے منکر ہے، اسلام سے خارج ہوگیا، مجھے اس کے نکاح میں رہنا جائز نہیں، اس لئے قانوناً بھی اس کے حق زوجیت کو ختم کردیا جائے۔ اس مایوس کن فضا میں یہ خبر اور ایک مسلمان عورت کا یہ مطالبہ ایک مسلمان کے لئے انتہائی امید افزا ہے، بلاشبہ یہ مطالبہ بالکل صحیح ہے، شرعاً تو اس کی تفریق ہو ہی گئی، نماز، روزہ، زکوٰة، حج یہ بنیادی اسلامی قوانین واحکامات ہیں ،ان میں اگر عملی تقصیر ہوجائے تو دائرہ اسلام سے انسان نہیں نکلتا، ہاں! معصیت وفسق میں مبتلا ہوجاتا ہے، لیکن اگر ایک سیکنڈ کے لئے بھی ان کی فرضیت سے انکار کر دے تو فوراً دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے، یہی حکم وقانون ان تمام احکام کا ہے جن کا ثبوت اور دینِ اسلام کا جزو ہونا قطعی ویقینی ہے کہ ان کے انکار سے کفر لازم آتا ہے، مثلاً :شراب کی حرمت ،زنا کی حرمت، سود کی حرمت، خنزیر کے گوشت کی حرمت وغیرہ وغیرہ، یہ سب چیزیں دینِ اسلام میں حرام ہیں، اگر کوئی شخص عملی تقصیر کرکے مبتلا ہوجائے تو فاسق ہوگا، کافر نہیں ہوگا۔ لیکن اگر کوئی مسلمان ان کی حرمت سے انکار کرے اور حلال سمجھے، چاہے عملاً بچتا ہی رہے پھر بھی کافر ہو جائے گا۔ اسی طرح حضرت رسول اللہ ا کے آخری نبی ورسول ہونے کا یعنی ختم نبوت کا عقیدہ بھی قطعی ویقینی ہے، قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا آخری آسمانی پیغام ہے اور ابدی ہے، اگر کوئی شخص قرآن کریم کے اللہ تعالیٰ کا کلام ہونے سے انکار کرے ،چاہے روزانہ تلاوت بھی کرتا ہے وہ مسلمان نہیں رہ سکتا۔ اسی طرح جو شخص آنحضرت اکے بعد کسی اور کی نبوت کا قائل ہو کہ آپ کے بعد کوئی اور بھی نبی ہوسکتا ہے تو وہ بھی کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے (خواہ کلمہ طیبہ پڑھتا رہے)۔
الغرض جو چیز بھی دینِ اسلام کا یقینی جزو ہو، اس کو اسلام سے خارج کرنے سے انسان خود اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ یہی عقیدہ اور عمل کا بنیادی فرق ہے۔ موٹی سی بات ہے، اگر انسان غور کرے ایک شخص کا اگر یہ عقیدہ ہو کہ موجودہ حکومت صحیح نہیں، بلکہ غلط اور غیر آئینی ہے، اس کی اطاعت اور احکامات کی پابندی ضروری نہیں تو اس کو یقینا باغی قرار دیا جائے گا اور وہ کسی بھی رعایت کا مستحق نہ ہوگا، لیکن اگر حکومت کو تو صحیح اور آئینی مانے، البتہ کسی بھی وجہ سے کسی قانونی پابندی میں کوتاہی کرے تو یہ جرم پہلے جرم سے بہت ہلکا ہوگا اور قابلِ معافی بھی ہوسکتا ہے۔
علماءِ امت نے بہت وضاحت سے اس کی تحقیق کی ہے کہ جو احکام شرعیہ ”قطعی،، ہیں جن کی علمی تعبیر یہ ہے کہ جو ”ضروریات ِ دین،، ہیں یعنی ان کا دینِ اسلام سے ہونا قطعی اور بدیہی ہے، ان کا انکار کرنا یا ان میں تاویل کرنا اور ان کو ان حقائق ومفہومات سے نکالنا جو تیرہ سوسال سے مسلم چلے آتے ہیں، یہ سب کفر ہے، مثلاً نماز جو مخصوص عبادت ہے، جس کے لئے وضو کرنا بھی فرض ہے، استقبال قبلہ بھی فرض ہے، جس جگہ پڑھی جائے اس کا پاک ہونا بھی فرض ہے، جن کپڑوں میں نماز پڑھی جاتی ہے ان کا پاک ہونا بھی فرض ہے، تکبیر ۔اللہ اکبر۔ سے شروع ہوتی ہے، سلام ۔السلام علیکم ورحمة اللہ۔ پر ختم ہوتی ہے، قیام، رکوع وسجود اورقعود اس کے ارکان ہیں ،وغیرہ وغیرہ، لہذا جس طرح نماز کی فرضیت سے انکار کرنا کفر ہے، ٹھیک اسی طرح نماز کے معنی بدلنا یا اس کی یہ تاویل کرنا کہ نماز سے محض اللہ کی یاد مراد ہے اور وہی کافی ہے، یقینا یہ بھی کفر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غلام احمد پرویز اپنی تحریرات وتالیفات میں نماز، زکوٰة، روزہ، حج، اطاعتِ رسول اور اطاعت اللہ کے مفہومات بدلنے کی وجہ سے ہی کافر ہوگیا اور اسی لئے مرزا غلام احمد قادیانی جہاں اس کے اور سینکڑوں کفریات ہیں وہاں ختمِ نبوت یا نزولِ مسیح علیہ السلام کے معنی میں تاویل کرنے کی وجہ سے مسلمہ طور پر باتفاق امت کافر ہے۔ بہرحال ایک خاتون کے اس اسلامی جذبے اور دینی غیرت وحمیت سے بہت مسرت ہوئی ،مگر ہمیں توقع ہے کہ اگر اس کے شوہر کو سمجھایا جائے تو وہ بھی اس انکار سے توبہ کرلے گا۔
روز افزوں خرابیاں اور ان کا تدارک
پاکستانی معاشرے میں روز افزوں خرابیاں پیدا ہورہی ہیں اور نئی نسل اخلاق اور دین کے تقاضوں سے یکسر آزاد ہورہی ہے، یہ صورتِ حال انتہائی دردناک ہے اور اس کے عواقب ونتائج انتہائی خطرناک ہیں، بنیادی چیز جس پر زیادہ تر دار ومدار ہے، وہ تعلیم ہے۔ تعلیم کے دو مؤثر عوامل ہیں :
۱:…نصابِ تعلیم، ۲:… اور اساتذہٴ تعلیم ۔ انتہائی ضروری ہے کہ ان دونوں عوامل ِ تعلیم کی بنیاد دین پر ہو، قرآن کریم کی تعلیمات، احادیثِ نبویہ کے اخلاقی جواہر گرانمایہ اور حضرت رسول اللہ ااور صحابہ کرام کی سیرتِ مقدسہ، نصابِ تعلیم کا اہم جزو ہونا چاہئے، جب تک اس نصاب کی اصلاح نہ ہو، کیونکر یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ افکار وخیالات اور زندگی میں کوئی انقلاب آسکتا ہے، مشرقی پاکستان کی تباہی وبربادی کی داستان جو آج کل زبان زدِ خاص وعام ہے، اس میں زیادہ تر مؤثر تعلیمی نصاب تھا ،جو نصاب پڑھایا جاتا تھا وہ وہی نصاب تھا جو بھارت نے مغربی بنگال کے مدارس میں ہندونسل کے لئے تیار کروایا تھا، پڑھانے والے اساتذہ جو دوسرا مؤثر ترین عامل ہے، زیادہ تعداد میں ہندو اساتذہ تھے، ہندو استاذوں کی تربیت ہو اور نصابِ تعلیم ہندوانہ ہو ،اس کے نتائج وہی نکلنے تھے جو سامنے آئے۔ کسی زمین میں جو تخم ڈالا جائے گا وہی پھوٹ کر نکلے گا،اس لئے انتہائی ضروری ہے کہ نصابِ تعلیم کے ہر مرحلے پر ابتدائی اسکول سے لے کر ایم اے کے نصاب تک درجہ بدرجہ دینی عنصر مؤثر انداز سے شامل کیا جائے۔
اساتذہ کے انتخاب میں دین واخلاق اور کردار کی پختگی کو معیار قرار دینا بہت ہی ضروری ہے، اگر اساتذہ غیر اسلامی ذہنیت کے ہوں گے یا اسلامی اخلاقی اقدار سے آزاد ہوں گے تو ظاہر ہے کہ نرا نصاب کچھ نہیں کرسکتا ہے، ان کی زندگی کا اثر طلبہ پرلا محالہ پڑے گا۔ افسوس یہ ہے کہ ایک طرف تو مؤثر اصلاحی عوامل کی کم یابی بلکہ نایابی ہے اور دوسری طرف یورپ کی تہذیب کی پوری نقالی کی ہر ممکن ترغیب ہے، ایسی صورت میں جو فساد پیدا ہورہا ہے اس کی کس طرح اصلاح ہوسکتی ہے، سب سے دردناک چیز یہ ہے کہ درحقیقت جو مرض ہے اس کو صحت وتندرستی سمجھ لیا گیا ہے، دنیا وی زندگی میں عیش پرستی اور تن آسانی، دین واخلاق کے تقاضوں سے آزادی کو ہی عملاً ترقی کا معیار قرار دے لیا گیا ہے اور یہی تصور ذہنوں میں راسخ ہوچکا ہے، بقول شاعر:
اب تو آرام سے گذرتی ہے
عاقبت کی خبر خدا جانے
جب قوم اس مرحلے پر پہنچ جاتی ہے تو عواقب ونتائج انتہائی خطرناک ہوجاتے ہیں، قرآن کریم میں ارشاد ہے:
”واذا اردنا ان نہلک قریة امرنا مترفیہا ففسقوا فیہا فحق علیہا القول فدمرناہا تدمیراً،،۔ (اسراء:۱۶)
ترجمہ:۔”جب بداعمالیوں کی شامت کی بنا پر کسی بستی کو ہلاک کرنا ہوتا ہے تو دفعةً ان کو نہیں پکڑتے بلکہ اتمامِ حجت کے طور پر ان کو احکامِ الٰہی پہنچائے جاتے ہیں لیکن وہاں کے امراء اور اربابِ عیش وعشرت جب فسق وفجور میں مبتلا ہوکر تمام معاشرے کو برباد کردیتے تو وہ پوری بستی عذابِ الٰہی کی مستحق بن جاتی ہے اور ہم اسے ملیامیٹ کردیتے ہیں،،۔ (العیاذ باللہ)
جب گھروں کی زندگی میں دینی اقدار ختم ہوجائیں، اسکول، کالج اور یونیورسٹی کی زندگی میں اسلامی اقدار باقی نہ رہیں، باہر کے معاشرے میں ٹیلی ویژن، ریڈیو، سنیما، عریاں مناظر، حیا سوز مظاہر قدم قدم پر سامنے ہوں اور پھر ہم توقع رکھیں کہ صالح معاشرہ پیدا ہو ،کیوں کر ممکن ہے؟ وہی مضمون ہوگا جو کسی شاعر نے لکھا ہے:
اندرونِ قعرِ دریا تختہ ہندم کردئ
بازمی گوئی کہ دامن ترمکن ہوشیار باش
بلاشبہ اس وقت راہنمایانِ قوم وملت کو انتہائی خلوص اور بے جگری کے ساتھ ٹھوس قدم اٹھانے کی ضرورت ہے، نوجوان نسل پر یورپ کی کورانہ تقلید کی جو وبا مسلط ہوگئی ہے، اس کے خلاف جہاد کرنے کا وقت ہے، تب ممکن ہے کوئی مؤثر کام ہوسکے، بالفرض اگر ناکامی بھی ہوتی ہے تو ہماری مسؤلیت تو ختم ہوجائے گی،
والله سبحانہ ہو الموفق والمستعان وصلی الله علیٰ سیدنا محمد وآلہ واصحابہ واتباعہ وصالحی عبادہ وبارک وسلم۔
(بشکریہ ماہنامہ بینات )
اس کا افسوس ہے کہ ہمارے اکثر سفارت خانے خصوصاً مشرقِ اوسط کے پاکستانی سفارتخانے اپنے منصبی فرائض کے ادا کرنے میں انتہائی افسوسناک حد تک مقصر ہیں، برطانیہ اور امریکہ کے ناپاک ارادے تو پہلے سے معلوم ہوچکے تھے، اب روس کی منافقانہ چالوں کا پردہ بھی چاک ہوتا جارہا ہے، سچ کہا ہے: ”الکفر ملة واحدة،، یہ تمام داستانیں ہمارے لئے عبرت کے صحیفے ہیں کہ ہمیں خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی شدید ضرورت ہے اور انتہائی کوشش کرنی چاہئے کہ ہم ان دشمنانِ اسلام سے بھیک مانگنے سے اجتناب کریں اور ہم ان کفر کی طاقتوں کے سامنے ہاتھ پھیلا کر مزید رسوا اور ذلیل نہ ہوں اور اس غیبی طاقت سے اپنا رشتہ جوڑیں جس کے قبضہ ٴ قدرت میں تمام کائنات کی طاقتیں ہیں جو ایک پلک جھپکنے میں تمام کائنات کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کی طاقت رکھتی ہے اور جب تک ملک میں اسلامی قانون نافذ نہ ہو چین سے نہ بیٹھیں، مگر قوم میں اجتماعی دینی روح جب تک پیدا نہ ہو اس وقت تک اس کا کوئی امکان نہیں ہے۔
ضروریاتِ دین کا انکار موجب ِ کفر ہے
چند روز پہلے اخبار جنگ میں یہ خبر نظر سے گذری کہ ایک مسلمان خاتون نے عدالت میں دعویٰ دائر کرکے عدالت سے چارہ جوئی کی ہے کہ میرا شوہر زکوٰة سے منکر ہے، اسلام سے خارج ہوگیا، مجھے اس کے نکاح میں رہنا جائز نہیں، اس لئے قانوناً بھی اس کے حق زوجیت کو ختم کردیا جائے۔ اس مایوس کن فضا میں یہ خبر اور ایک مسلمان عورت کا یہ مطالبہ ایک مسلمان کے لئے انتہائی امید افزا ہے، بلاشبہ یہ مطالبہ بالکل صحیح ہے، شرعاً تو اس کی تفریق ہو ہی گئی، نماز، روزہ، زکوٰة، حج یہ بنیادی اسلامی قوانین واحکامات ہیں ،ان میں اگر عملی تقصیر ہوجائے تو دائرہ اسلام سے انسان نہیں نکلتا، ہاں! معصیت وفسق میں مبتلا ہوجاتا ہے، لیکن اگر ایک سیکنڈ کے لئے بھی ان کی فرضیت سے انکار کر دے تو فوراً دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے، یہی حکم وقانون ان تمام احکام کا ہے جن کا ثبوت اور دینِ اسلام کا جزو ہونا قطعی ویقینی ہے کہ ان کے انکار سے کفر لازم آتا ہے، مثلاً :شراب کی حرمت ،زنا کی حرمت، سود کی حرمت، خنزیر کے گوشت کی حرمت وغیرہ وغیرہ، یہ سب چیزیں دینِ اسلام میں حرام ہیں، اگر کوئی شخص عملی تقصیر کرکے مبتلا ہوجائے تو فاسق ہوگا، کافر نہیں ہوگا۔ لیکن اگر کوئی مسلمان ان کی حرمت سے انکار کرے اور حلال سمجھے، چاہے عملاً بچتا ہی رہے پھر بھی کافر ہو جائے گا۔ اسی طرح حضرت رسول اللہ ا کے آخری نبی ورسول ہونے کا یعنی ختم نبوت کا عقیدہ بھی قطعی ویقینی ہے، قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا آخری آسمانی پیغام ہے اور ابدی ہے، اگر کوئی شخص قرآن کریم کے اللہ تعالیٰ کا کلام ہونے سے انکار کرے ،چاہے روزانہ تلاوت بھی کرتا ہے وہ مسلمان نہیں رہ سکتا۔ اسی طرح جو شخص آنحضرت اکے بعد کسی اور کی نبوت کا قائل ہو کہ آپ کے بعد کوئی اور بھی نبی ہوسکتا ہے تو وہ بھی کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے (خواہ کلمہ طیبہ پڑھتا رہے)۔
الغرض جو چیز بھی دینِ اسلام کا یقینی جزو ہو، اس کو اسلام سے خارج کرنے سے انسان خود اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ یہی عقیدہ اور عمل کا بنیادی فرق ہے۔ موٹی سی بات ہے، اگر انسان غور کرے ایک شخص کا اگر یہ عقیدہ ہو کہ موجودہ حکومت صحیح نہیں، بلکہ غلط اور غیر آئینی ہے، اس کی اطاعت اور احکامات کی پابندی ضروری نہیں تو اس کو یقینا باغی قرار دیا جائے گا اور وہ کسی بھی رعایت کا مستحق نہ ہوگا، لیکن اگر حکومت کو تو صحیح اور آئینی مانے، البتہ کسی بھی وجہ سے کسی قانونی پابندی میں کوتاہی کرے تو یہ جرم پہلے جرم سے بہت ہلکا ہوگا اور قابلِ معافی بھی ہوسکتا ہے۔
علماءِ امت نے بہت وضاحت سے اس کی تحقیق کی ہے کہ جو احکام شرعیہ ”قطعی،، ہیں جن کی علمی تعبیر یہ ہے کہ جو ”ضروریات ِ دین،، ہیں یعنی ان کا دینِ اسلام سے ہونا قطعی اور بدیہی ہے، ان کا انکار کرنا یا ان میں تاویل کرنا اور ان کو ان حقائق ومفہومات سے نکالنا جو تیرہ سوسال سے مسلم چلے آتے ہیں، یہ سب کفر ہے، مثلاً نماز جو مخصوص عبادت ہے، جس کے لئے وضو کرنا بھی فرض ہے، استقبال قبلہ بھی فرض ہے، جس جگہ پڑھی جائے اس کا پاک ہونا بھی فرض ہے، جن کپڑوں میں نماز پڑھی جاتی ہے ان کا پاک ہونا بھی فرض ہے، تکبیر ۔اللہ اکبر۔ سے شروع ہوتی ہے، سلام ۔السلام علیکم ورحمة اللہ۔ پر ختم ہوتی ہے، قیام، رکوع وسجود اورقعود اس کے ارکان ہیں ،وغیرہ وغیرہ، لہذا جس طرح نماز کی فرضیت سے انکار کرنا کفر ہے، ٹھیک اسی طرح نماز کے معنی بدلنا یا اس کی یہ تاویل کرنا کہ نماز سے محض اللہ کی یاد مراد ہے اور وہی کافی ہے، یقینا یہ بھی کفر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غلام احمد پرویز اپنی تحریرات وتالیفات میں نماز، زکوٰة، روزہ، حج، اطاعتِ رسول اور اطاعت اللہ کے مفہومات بدلنے کی وجہ سے ہی کافر ہوگیا اور اسی لئے مرزا غلام احمد قادیانی جہاں اس کے اور سینکڑوں کفریات ہیں وہاں ختمِ نبوت یا نزولِ مسیح علیہ السلام کے معنی میں تاویل کرنے کی وجہ سے مسلمہ طور پر باتفاق امت کافر ہے۔ بہرحال ایک خاتون کے اس اسلامی جذبے اور دینی غیرت وحمیت سے بہت مسرت ہوئی ،مگر ہمیں توقع ہے کہ اگر اس کے شوہر کو سمجھایا جائے تو وہ بھی اس انکار سے توبہ کرلے گا۔
روز افزوں خرابیاں اور ان کا تدارک
پاکستانی معاشرے میں روز افزوں خرابیاں پیدا ہورہی ہیں اور نئی نسل اخلاق اور دین کے تقاضوں سے یکسر آزاد ہورہی ہے، یہ صورتِ حال انتہائی دردناک ہے اور اس کے عواقب ونتائج انتہائی خطرناک ہیں، بنیادی چیز جس پر زیادہ تر دار ومدار ہے، وہ تعلیم ہے۔ تعلیم کے دو مؤثر عوامل ہیں :
۱:…نصابِ تعلیم، ۲:… اور اساتذہٴ تعلیم ۔ انتہائی ضروری ہے کہ ان دونوں عوامل ِ تعلیم کی بنیاد دین پر ہو، قرآن کریم کی تعلیمات، احادیثِ نبویہ کے اخلاقی جواہر گرانمایہ اور حضرت رسول اللہ ااور صحابہ کرام کی سیرتِ مقدسہ، نصابِ تعلیم کا اہم جزو ہونا چاہئے، جب تک اس نصاب کی اصلاح نہ ہو، کیونکر یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ افکار وخیالات اور زندگی میں کوئی انقلاب آسکتا ہے، مشرقی پاکستان کی تباہی وبربادی کی داستان جو آج کل زبان زدِ خاص وعام ہے، اس میں زیادہ تر مؤثر تعلیمی نصاب تھا ،جو نصاب پڑھایا جاتا تھا وہ وہی نصاب تھا جو بھارت نے مغربی بنگال کے مدارس میں ہندونسل کے لئے تیار کروایا تھا، پڑھانے والے اساتذہ جو دوسرا مؤثر ترین عامل ہے، زیادہ تعداد میں ہندو اساتذہ تھے، ہندو استاذوں کی تربیت ہو اور نصابِ تعلیم ہندوانہ ہو ،اس کے نتائج وہی نکلنے تھے جو سامنے آئے۔ کسی زمین میں جو تخم ڈالا جائے گا وہی پھوٹ کر نکلے گا،اس لئے انتہائی ضروری ہے کہ نصابِ تعلیم کے ہر مرحلے پر ابتدائی اسکول سے لے کر ایم اے کے نصاب تک درجہ بدرجہ دینی عنصر مؤثر انداز سے شامل کیا جائے۔
اساتذہ کے انتخاب میں دین واخلاق اور کردار کی پختگی کو معیار قرار دینا بہت ہی ضروری ہے، اگر اساتذہ غیر اسلامی ذہنیت کے ہوں گے یا اسلامی اخلاقی اقدار سے آزاد ہوں گے تو ظاہر ہے کہ نرا نصاب کچھ نہیں کرسکتا ہے، ان کی زندگی کا اثر طلبہ پرلا محالہ پڑے گا۔ افسوس یہ ہے کہ ایک طرف تو مؤثر اصلاحی عوامل کی کم یابی بلکہ نایابی ہے اور دوسری طرف یورپ کی تہذیب کی پوری نقالی کی ہر ممکن ترغیب ہے، ایسی صورت میں جو فساد پیدا ہورہا ہے اس کی کس طرح اصلاح ہوسکتی ہے، سب سے دردناک چیز یہ ہے کہ درحقیقت جو مرض ہے اس کو صحت وتندرستی سمجھ لیا گیا ہے، دنیا وی زندگی میں عیش پرستی اور تن آسانی، دین واخلاق کے تقاضوں سے آزادی کو ہی عملاً ترقی کا معیار قرار دے لیا گیا ہے اور یہی تصور ذہنوں میں راسخ ہوچکا ہے، بقول شاعر:
اب تو آرام سے گذرتی ہے
عاقبت کی خبر خدا جانے
جب قوم اس مرحلے پر پہنچ جاتی ہے تو عواقب ونتائج انتہائی خطرناک ہوجاتے ہیں، قرآن کریم میں ارشاد ہے:
”واذا اردنا ان نہلک قریة امرنا مترفیہا ففسقوا فیہا فحق علیہا القول فدمرناہا تدمیراً،،۔ (اسراء:۱۶)
ترجمہ:۔”جب بداعمالیوں کی شامت کی بنا پر کسی بستی کو ہلاک کرنا ہوتا ہے تو دفعةً ان کو نہیں پکڑتے بلکہ اتمامِ حجت کے طور پر ان کو احکامِ الٰہی پہنچائے جاتے ہیں لیکن وہاں کے امراء اور اربابِ عیش وعشرت جب فسق وفجور میں مبتلا ہوکر تمام معاشرے کو برباد کردیتے تو وہ پوری بستی عذابِ الٰہی کی مستحق بن جاتی ہے اور ہم اسے ملیامیٹ کردیتے ہیں،،۔ (العیاذ باللہ)
جب گھروں کی زندگی میں دینی اقدار ختم ہوجائیں، اسکول، کالج اور یونیورسٹی کی زندگی میں اسلامی اقدار باقی نہ رہیں، باہر کے معاشرے میں ٹیلی ویژن، ریڈیو، سنیما، عریاں مناظر، حیا سوز مظاہر قدم قدم پر سامنے ہوں اور پھر ہم توقع رکھیں کہ صالح معاشرہ پیدا ہو ،کیوں کر ممکن ہے؟ وہی مضمون ہوگا جو کسی شاعر نے لکھا ہے:
اندرونِ قعرِ دریا تختہ ہندم کردئ
بازمی گوئی کہ دامن ترمکن ہوشیار باش
بلاشبہ اس وقت راہنمایانِ قوم وملت کو انتہائی خلوص اور بے جگری کے ساتھ ٹھوس قدم اٹھانے کی ضرورت ہے، نوجوان نسل پر یورپ کی کورانہ تقلید کی جو وبا مسلط ہوگئی ہے، اس کے خلاف جہاد کرنے کا وقت ہے، تب ممکن ہے کوئی مؤثر کام ہوسکے، بالفرض اگر ناکامی بھی ہوتی ہے تو ہماری مسؤلیت تو ختم ہوجائے گی،
والله سبحانہ ہو الموفق والمستعان وصلی الله علیٰ سیدنا محمد وآلہ واصحابہ واتباعہ وصالحی عبادہ وبارک وسلم۔
(بشکریہ ماہنامہ بینات )