سمرقند کی فتح 87 ہجری کی تاریخ کا ایک حیرت انگیز واقعہ

مذاہب کے بارے میں گفتگو کی جگہ
Post Reply
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

سمرقند کی فتح 87 ہجری کی تاریخ کا ایک حیرت انگیز واقعہ

Post by چاند بابو »

سمرقند کی فتح 87 ہجری کی تاریخ کا ایک حیرت انگیز واقعہ
Image
یہ 87 ہجری کی ایک نہایت سرد رات تھی لیکن سمرقند کے سب سے بڑے معبد میں‌موجود پادریوں کے سینوں میں آگ بھری ہوئی تھی، انہیں کسی پل چین نہیں آ رہا تھا وہ سراسیمگی سے ایک دوسرے کی شکلیں دیکھ رہے تھے، سب کے چہروں پر خوف عیاں تھا، معبد میں موجود سب سے بڑے پادری اور اس کے تمام ساتھیوں کو یقین تھا کہ ان کی موت یقینی ہے۔ بڑے پادری کی ہراساں آواز سنائی دی جو اپنے ساتھیوں سے اس موجودہ صورت حال سے نکلنے کی تجاویز طلب کر رہا تھا لیکن کسی کے پاس اس مسئلے کا حل موجود نہیں تھا سب اسی ایک بات پر متفق تھے کہ راتوں رات یہاں سے نکل کر عام لوگوں میں مل جایا جائے اور اپنی جان بچانے کی فکر کی جائے۔
معبد میں موجود دیگر افراد اپنے پادریوں کی اس حالت سے مزید خوف میں‌ مبتلا ہو گئے کیونکہ ان کی نظر میں ان کے ملک میں‌بڑے کاہن سے زیادہ صاحب اقتدار شخصیت کوئی نہ تھی انہی کے کہنے پر حکومتیں بنتی اور بگڑتی تھیں اور یہی تمام لوگوں کے تحفظ کے ذمہ دار سمجھے جاتے تھے، لیکن آج انہیں اس طرح ہراساں دیکھ کر ہر شخص پریشان تھا اور انہیں اپنا ماضی بالکل تاریک نظر آ رہا تھا، یہی نہیں ہر کوئی اپنی زندگی سے مایوس ہو چکا تھا اور انہیں آنے والے دنوں میں اپنی یقینی موت نظر آ رہی تھی۔
اتنے میں ایک کونے میں کھڑے بڑے کاہن کے نائب کی آواز ابھری کہ کوشش کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہے میں نے سنا ہے کہ ان کا بادشاہ جو دمشق میں‌رہتا ہے ایک عادل شخص ہے اور مظلوموں‌کی داد رسائی کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرتا ہے اگر اس سے شکایت کی جائے تو شاید کوئی بات بن سکے۔ بڑے کاہن نے اس کی بات کو غور سے سنا دیگر ساتھیوں سے بہت دیر تک گفتگو کرتا رہا اور آخر میں‌فیصلہ کن انداز میں بولا کہ اب اس کے سوا ہمارے پاس کوئی رستہ بھی تو نہیں ہے اس لئے اس تجویز پر عمل کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
فوری طور پر ایک قاصد کو طلب کیا گیا جو قرب و جوار میں ہی رہائش پذیر تھا، قاصد بڑے کاہن کا پیغام ملتے ہی فورا حاضر ہو گیا، بڑے کاہن نے اپنے ہاتھ سے اسی رقعہ لکھ کر اس قاصد کو تھمایا اور اسے کہا کہ رات کے اسی پہر دمشق کی طرف روانہ ہو جاؤ اور میرا یہ پیغام وہاں مسلمانوں کے امیر عمر بن عبد العزیز کے پاس لے جاؤ اور اس کا جو بھی جواب ہو فورا یہاں لے کر چلے آنا، دوسرے لوگوں کو قاصد کے زاد راہ کا بندوبست کرنے کی ہدایت کرنے کے ساتھ ہی یہ مجلس برخاست کر دی گئی۔
قاصد اپنے برق رفتار گھوڑے پر سوار ہوا، بڑے کاہن کی ہدایت کے مطابق اس نے نہایت تیز رفتاری سے سفر کیا مہینوں کی مسافتیں ہفتوں میں طے کرتا یہ اپنی آخری منزل دمشق کے قریب جا پہنچا، آخری سرائے جہاں اس نے پڑاؤ‌کیا وہاں سے دمشق کے درودیوار بالکل واضح نظر آ رہے تھے، صبح سرائے سے روانگی سے پہلے قاصد سرائے کے مسلمان مالک سے ملا اور اس سے دریافت کیا کہ میں مسلمانوں کے بادشاہ عمر بن عبد العزیز سے ملنا چاہتا ہوں اس سے ملاقات کیوں کر ممکن ہو سکے گی، سرائے کے مالک نے جواب دیا کہ ہمارے خلیفہ سے ملنا نہایت آسان سے دمشق پہنچ کر کسی سے بھی خلیفہ کے بارے میں دریافت کر سکتے ہو اور بلا روک ٹوک ملاقات بھی کر سکتے ہو۔
قاصد دمشق پہنچا اور خلیفہ کے متعلق دریافت کیا تو لوگوں نے بتایا کہ وہ اس وقت اپنے گھر میں موجود ہوں گے اور اسے ان کے گھر کا راستہ سمجھا دیا، قاصد بتائے ہوئے پتہ پر اس گھر کے سامنے پہنچا تو حیران ہو گیا کیونکہ وہاں مسلمانوں کے خلیفہ کے محل کی بجائے ایک عام سا گھر تھا جہاں اس وقت ایک مزدور سیڑھی پر کھڑا چھت کی مرمت کر رہا تھا نیچے اس شخص کی بیوی کھڑی اسے مٹی پکڑا رہی تھی جس کی وہ چھت پر لپائی کر رہا تھا تاکہ بارشوں سے ہونے والے نقصان کا ازالہ ہو سکے اور ٹپکنے والی چھت اگلی بارشوں میں محفوظ رہے۔
قاصد جس راستے سے آیا تھا اسی راستے سے پتہ بتانے والوں کے پاس واپس چلا آیا اور انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگا کہ میں یہاں مسافر ہوں اور ایک بہت طویل اور کٹھن سفر کے بعد یہاں پہنچا ہوں اور آپ لوگوں کو مجھ سے یوں ٹھٹھا کرنا زیب نہیں دیتا آپ نے جو پتہ بتایا تھا اس پر تو کوئی محل سرے سے موجود ہی نہیں ہے یا تو میں سمجھنے میں غلطی کر گیا ہوں یا جان بوجھ کر آپ لوگوں نے میرے ساتھ مذاق کیا ہے، قاصد کی یہ بات سن کر وہاں موجود لوگ مسکرائے اور کہا کہ شریف آدمی نہ تو ہم نے آپ سے مذاق کیا ہے اور نہ ہی آپ سے سمجھنے میں کوئی بھول ہوئی ہے بلکہ جس گھر کے بارے میں آپ بتا رہے ہو وہی ہمارے امیر المومنین کا گھر ہے۔ یہ سننا تھا کہ قاصد کے چہرے پر مایوسی کے سائے رقص کرنے لگے اور اسے یقین ہو گیا کہ اس کی اتنی طویل مسافت ضائع ہو گئی اور وہ جس مقصد کے لئے یہاں تک آیا ہے اس کا حل ناممکن ہے۔
خیر مرتا کیا نہ کرتا کے مصادق قاصد وبارہ انہیں گلیوں سے ہوتا ہوا اسی مکان کے سامنے پہنچا تو اس وقت وہ شخص اور وہ عورت جو تھوڑی دیر پہلے چھت کی مرمت کر رہے تھے وہاں موجود نہ تھے، اس نے دروازے پر دستک دی اندر سے وہی شخص جو کچھ دیر پہلے چھت مرمت کر رہا تھا باہر آیا، قاصد نے اسے بتایا کہ وہ سمرقند کے بڑے کاہن کا امیر المومنین کے نام خط لے کر آیا ہے اور ان سے ملاقات کا خواہاں ہے آپ براہ کرم انہیں اطلاع کر دیں تاکہ وہ مجھے شرف بازیابی دیں، مکان کے اندر سے نکلنے والے شخص نے قاصد کو اندر آنے کا کہا اور ایک کمرے میں اسے بٹھایا اور دریافت کیا کہ کہو بڑے کاہن کا کیا پیغام لائے ہو قاصد نے کہا کہ پیغام انتہائی اہم ہے اور وہ کسی دوسرے شخص کو یہ پیغام نہیں دے سکتا اس لئے یہ پیغام صرف امیر المومنین کو ہی سنائے گا، قاصد کی یہ بات سن کر وہ شخص مسکرایا اور کہا کہ میں ہی عمر بن عبد العزیز ہوں اور مسلمانوں کا امیر ہوں اب کہو کیا پیغام ہے۔
اتنا سننا تھا کہ قاصد مزید پریشان ہو گیا اور سوچنے لگا کہ جس کام کے لئے میں یہاں تک پہنچا ہوں کیا اس شخص سے اس کی ذرہ بھر بھی امید کی جا سکتی ہے جسے مسلمانوں نے رہنے کے لئے محل نہیں دیا کام کرنے کے لئے مزدور نہیں دیا اور دروازہ کھولنے کے لئے دربان تک نہیں دیا، اسے اب یقین ہو چکا تھا کہ اس کا سفر رائیگاں ہو چکا ہے اور اس کی قوم جو امیدیں اس کی اس مہم سے لگائے بیٹھی ہے جب وہ انہیں ساری بات بتائے گا تو وہ اپنے اس فیصلے پر ماتم کرے گی۔
قاصد نے بغیر کوئی مزید سوال جواب دیئے بڑے کاہن کا رقعہ عمر بن عبد العزیز کے سامنے پیش کر دیا انہوں نے مہربند رقعہ کھولا اور اسے پڑھا کاہن کی طرف سے اس پر ایک بہت مختصر تحریر لکھی گئی تھی جس کا متن یہ تھا۔

[quote]مسلمانوں کے بادشاہ عمر بن عبد العزیز کے نام، ہم نے سنا ہے کہ مسلمان کسی بھی علاقے میں داخل ہونے کے بعد جنگ اور حملے سے پہلے قبول اسلام کی دعوت دیتے ہیں۔ اگر اس علاقے کے عوام اسلام قبول کرنے کی دعوت قبول نہیں کرتے تو پھر ان سے جزیہ ادا کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور کسی علاقے کے رہنے والے ان دونوں شرائط کو ماننے سے انکار کردیتے ہیں پھر مسلمان ان لوگوں سے جنگ کے لئے تیار ہو جاتے ہیں. مگر آپ کے مسلم جرنیل اور سپہ سالار قیبہ بن مسلم نے سمرقند پر حملہ آور ہوتے وقت ہمارے ساتھ ایسا ہرگز نہیں کیا گیا اور ہم پر راتوں رات حملہ کر کے سمرقند پر قابض ہو کر ہمیں مفتوح کر لیا گیا ہے
[/quote]

امیرالمومنین عمر بن عبد العزیز نے اسی وقت اسی رقعہ کے پچھلی طرف ایک تحریر لکھی جس کا متن یہ تھا

[quote]عمر بن عبدالعزیز کی طرف سے سمرقند میں تعینات اپنے عامل قیبہ بن مسلم کے نام "فوری طور پر ایک قاضی کا تقرر کرو، جو پادری کی شکایت سنے اور اس پر قوانین کے مطابق عمل کرے"[/quote]

اس خط کو خلیفہ نے اپنے ہاتھ سے مہربند کیا اور اس قاصد کے حوالے کر دیا اور اسے تاکید کی کہ یہ خط بڑے کاہن کو لے جا کر دے تاکہ وہ اسے قیبہ بن مسلم کے پاس لے جائے، قاصد خط لے کر چلا آیا سارے راستے اس کی پریشانی دیدنی تھی اسے رہ رہ کر افسوس ہو رہا تھا کہ اس نے اتنا طویل سفر بالکل رائیگاں طے کیا اسے تو امید تھی کہ مسلمانوں کا خلیفہ اگر ان سے انصاف کرنے پر راضی ہو گیا تو اس کے ساتھ ایک بہت بڑی فوج روانہ کر گا جو فوری طور پر قیبہ بن مسلم کو معزول کرکے انہیں پر سے آزادی دلائے گی لیکن یہاں تو ایسی کوئی بات ہی نہ تھی، پھر جس حال میں وہ خلیفہ کا رہن سہن دیکھ کر آیا تھا اسے یقین ہو گیا کہ خلیفہ صرف نام کا خلیفہ ہے اور اس کی کسی بات میں کوئی اثر کیونکر ہو گا کہ اس کے پاس تو اپنی بات منوانے کی طاقت ہی نہیں بلکہ اس کے پاس تو خود اپنے گھر کے کاموں کے لئے ایک بھی نوکر نہیں تو پھر وہ بھلا اس عظیم لشکر کے خلاف کیا کاروائی کر سکتا ہے۔
ٹوٹے دل کے ساتھ قاصد سمرقند پہنچا، فورا بڑے معبد میں بڑے کاہن کے پاس پیش ہوا اور اسے سارے واقعات من و عن سنا دیئے اور خلیفہ کا رقعہ بھی اسے تھما دیا، کاہن جو قاصد سے خلیفہ کے حالات سن کر ہی بد دل ہو چکا تھا جب اس نے یہ خط پڑھا تو رہی سہی کسر بھی نکل گئی اور اسے یقین ہو گیا کہ قاصد نے جو بھی واقعات سنائے ہیں بالکل درست ہیں اور خلیفہ کا اپنی فوج پر کوئی زور نہ ہے اسے معلوم پڑ چکا تھا کہ سمرقند کو غلامی کی دلدل سے نکالنے کی آخری تدبیر بھی بری طرح ناکام ہو چکی ہے اور اب انہیں اپنا وطن اپنا گھر بار اور سب سے بڑی بات یہ معبد ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھوڑنا پڑے گا۔
اس سب کچھ پر یقین ہونے کے باوجود چونکہ کاہن کے پاس اور کوئی راستہ نہ تھا اس لئے اگلے دن وہ رقعہ لے کر مسلمان جرنیل قیبہ بن مسلم کے پاس گیا اور اسے خلیفہ کا پیغام پکڑا کر واپس آ گیا۔

ادھر قیبہ بن مسلم نے خلیفہ کا پیغام پڑھا اور فورا ایک قاضی کا تقرر کر دیا جو سمرقند کے لوگوں کی شکایت سنے اور ان کی داد رسی کرے

قاضی نے اپنی عدالت لگائی جس میں بڑے کاہن اور قیبہ بن مسلم دونوں کو مساوی سطح پر بلایا گیا اور قاضی پادری سے گویا ہوا کہ وہ اپنی شکایت بیان کرے۔
پادری نے خط میں مندرج کیئے گئے الفاظ دہرا دیئے اور کہا کہ ہمیں مسلمانوں سے اس عمل کی امید نہیں تھی اور ہمیں کوئی الٹی میٹم اور سوچنے کا موقع دیئے بغیر مسلم فوجیں راتوں رات سمرقند پر قابض ہو گئیں

قاضی نے یہ سب سننے کے بعد قیبہ بن مسلم کو طلب کیا اور اس سے دریافت کیا کہ اس کا جواب کیا ہے، کیا بڑے کاہن کی بات درست ہے اور کیا تم نے سمرقندی لوگوں کو یہ موقع دیئے بغیر سمرقند کو فتح کیا ہے؟

قیبہ نے جواب دیا کہ قاضی صاحب جنگیں اسی طرح کے دھوکے اور فریب سے لڑی جاتی ہیں،
اس سے پہلے سمرقند کے قرب و جوار میں موجود ملکوں کو ہم نے یہ تمام شرائط پوری کرنے کے لئے خاصہ وقت دیا لیکن ان میں سے ایک ملک نے بھی ہماری کوئی شرط نہیں مانی اور ہمیں ان سے لڑ کر ہی فتح حاصل کرنا پڑی، اور چونکہ سمرقند ان سب سے زیادہ زرخیز اور خوبصورت ملک ہے اس لئے ہمیں یقین تھا کہ وہ کبھی بھی ہماری یہ بات نہیں مانیں گے اور ہمیں ان سے ہر صورت لڑنا پڑے گا اس لئے ہمارے لئے بہترین وقت اور حکمت عملی یہی تھی کہ ہم رات کے وقت جب یہ سب اپنی حفاظت کی طرف سے غافل ہوں حملہ کریں اور شہر فتح کر لیں۔

قیبہ کی اس بات پر قاضی نے ایک بار پھر دریافت کیا کہ کیا تم یہ قبول کر رہے ہو کہ بڑے کاہن کی شکایت بالکل درست ہے اور تمہاری فوج نے نہ تو انہیں اسلام کی دعوت دی، نہ جزیہ دینے کی آفر کی اور انہیں سوچ بچار کا وقت دیئے بغیر ان پر حملہ کر کے شہر میں داخل ہو گئے؟

قیبہ بن مسلم نے کہا جی یہ بات درست ہے اور اس وقت کی بہترین جنگی حکمت عملی یہی تھی جو ہم نے روا رکھی۔

قاضی نے یہ کہتے ہوئے عدالت برخاست کر دی کہ اب جب قیبہ بن مسلم اپنے فعل کا اقرار کر رہا ہے اور یہ تسلیم کر رہا ہے کہ بڑے کاہن کا الزام درست ہے،
[quote]اللہ رب العزت نے دین اسلام کو فتح اور عظمت صرف اس لئے عطا کی ہے کہ اس میں عدل و انصاف کا نظام موجود ہے اور اسی عدل و انصاف کی بنیاد پر اسلام کی ساری عمارت قائم ہے جس میں‌ دھوکہ دہی اور موقع پرستی کی کوئی جگہ موجود نہیں ہے۔ یہ عدالت قیبہ بن مسلم اور تمام مسلمان لشکریوں کو یہ حکم دیتی ہے کہ تمام مسلمان فوجی اور انکے عہدہ داران اپنے بیوی بچوں کے ساتھ فورا سمرقند کی حدود سے باہر نکل جائیں اور ہر قسم کی املاک اور مال غنیمت یہیں چھوڑ دیں اور کل تک سمر قند میں کوئی مسلمان فوجی یا اس کا تعلق دار باقی نہ رہنے پائے۔ واپس جا کر فوج دوبارہ سمرقند کے لوگوں کو اسلام قبول کرنے یا جزیہ ادا کرنے کی دعوت دے اور اگر وہ یہ بات ماننے سے انکار کر دیں تو انہیں جنگ کے لئے مہلت دینے کے بعد ان سے جنگ کرے۔[/quote]

قیبہ بن مسلم قاضی کا فیصلہ سننے کے بعد بغیر کچھ کہے عدالت سے واپس چلے گئے، بڑے کاہن کو قاضی کے ان الفاظ پر یقین نہیں آ رہا تھا اور اسے یہ سب ڈرامہ محسوس ہو رہا تھا اور پھر قیبہ بن مسلم کا عدالت سے یوں بغیر کوئی مزید گفتگو کرنے کے اٹھ جانا اس بات کی غمازی کرتا تھا کہ وہ اس قاضی اور اس کی عدالت کو کچھ بھی نہیں سمجھتا۔ بڑا کاہن واپس معبد میں آیا اپنے ساتھیوں کو ساری کاروائی بتائیں اور کہا کہ مسلمانوں نے ایک بار پھر ان سے دھوکہ کیا ہے اور ایک نام نہاد عدالتی کاروائی سے ان کا ٹھٹھا اڑایا گیا ہے اب مجھے یقین ہے کہ قیبہ بن مسلم کی فوجوں کا عتاب عوام پر بھی نازل ہو گا اور وہ ان سے اس بات کا بدلہ ضرور لیں گے کہ ان کی شکایت کیوں کی اور سب سے زیادہ ان کے ظلم کا شکار پادری ہوں گے اس لئے سب لوگ اپنا سامان باندھ لو اور یہاں سے راتوں رات فرار کی کوشش کرو تاکہ ہم اپنی جانیں بچا سکیں۔ پادری کی یہ بات سن کر تمام لوگ پریشانی کے عالم میں اپنا اپنا زاد راہ سمیٹنے لگے۔

ابھی سورج ڈھلنا شروع ہوا ہی تھا کہ سمرقند کے لوگوں نے ایک عجیب منظر دیکھا، مسلمان فوج شہر خالی کر رہی ہے تمام سپاہی اپنا اپنا سامان باندھے شہر سے باہر جانے والے راستے پر گامزن تھے، بڑی سرعت سے بڑے پادری کو یہ اطلاع دی گئی جو دوڑتا ہوا شہر کی فصیل تک آیا اور یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گیا،
سمرقند کے درودیوار نے آج یہ ایک نرالہ منظر دیکھا ہے دنیا کی تاریخ میں بھی انہوں نے کبھی ایسا منظر نہیں دیکھا ہو گا جب ایک فاتح قوم ایک مفتوح قوم کو بعد از فتح یوں ایک ادنیٰ سے قاضی کے فیصلہ پر بلا چوں چراں عمل پیرا ہو کر آزادی دے گئی ہو اور ان کا طاقتور سپہ سالار یوں ایک قاضی کا فیصلہ سن کر خاموشی سے اٹھا جاتا ہو اور اپنی ساری فوج کو من و عن اس فیصلہ پر عمل کرنے کا حکم دے گیا ہو۔

تاریخ نے پھر اس سے بھی زیادہ عجیب منظر دیکھا، ابھی اسلامی لشکر سمرقند کے شہر سے تھوڑی دور ہی پہنچا تھا کہ سمرقند کی عوام بڑے کاہن کی قیادت ایک بڑے قافلے کی صورت میں لشکر کے پیچھے دوڑے اور لا الٰہ الاّ اللہ محمّد الرّسول اللہ کا اقرار کرتے ہوئے اسلامی لشکر کو واپس سمرقند لے آئے کہ یہ سلطنت آپ کی ہی ہے اور ہم آپ کی رعایا بن کر رہنا اپنے لئے ٖفخر سمجھیں گے۔

پھر دینِ حق کے عدل و انصاف کے نظام نے وہاں ایسے نقوش چھوڑے کہ ایک عرصہ دراز تک سمرقند مسلمانوں کا دارالخلافہ رہا۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
umer.ch
کارکن
کارکن
Posts: 1
Joined: Mon Apr 13, 2020 1:07 am

Re: سمرقند کی فتح 87 ہجری کی تاریخ کا ایک حیرت انگیز واقعہ

Post by umer.ch »

سر جی بہت خوب بہت اچھا لکھا ہے آپ نے تو.
اس کی وجہ سے ھمارے علم میں اضافہ ہوا ہے. اللہ پاک آپ کو اس کا اجر دے اور آپ کو اور ترقی دے آمین ثم آمین.
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: سمرقند کی فتح 87 ہجری کی تاریخ کا ایک حیرت انگیز واقعہ

Post by چاند بابو »

عمر چوہدری صاحب پسندیدگی کا بہت بہت شکریہ
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Post Reply

Return to “مذہبی گفتگو”