سفرنامہ ’’ پریوں کی تلاش ‘‘ پندرہویں قسط از وارث اقبال

اردو نثری قلم پارے اس فورم میں ڈھونڈئے
Post Reply
وارث اقبال
کارکن
کارکن
Posts: 69
Joined: Wed May 30, 2012 10:36 am
جنس:: مرد

سفرنامہ ’’ پریوں کی تلاش ‘‘ پندرہویں قسط از وارث اقبال

Post by وارث اقبال »

سرزمینِ پوٹھوہار وارث اقبال

کلر کہار بہت پیچھے رہ گیا تھا، رات کی تاریکی میں ڈوبے سر سبز پہاڑ سیاہ لبادہ اوڑھے تیزی سے پیچھے کوبھاگ رہے تھے۔
ہم پنڈی کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ہمارے سامنے موٹر وے کسی ڈریگن کی مانند ہماری طرف بھاگی چلی آرہی تھی۔ آج یہ فقط ایک سڑک نہیں تھی بلکہ تاریخ کی ایک ایسی کتاب تھی جو مجھے کروڑہا سال پیچھے لے جا رہی تھی جب کچھ نہ تھا، سیارے ٹکرائے، آگ کے گولے جگہ جگہ جا تھمے۔۔۔ وقت کی برف نے انہیں ٹھنڈا کر دیا۔ پھر ایک گولے سے حیات کی ’پہلی کونپل نے شرماتے ہوئے اپنا چہرہ باہر نکالا‘، پہاڑ وجود میں آ نے لگے،سمندرنمودار ہو گئے۔۔، پہاڑ بنتے بگڑتے رہے، سمندر اچھلتا رہا، اپنی جگہ بدلتا رہا۔۔۔ پتہ نہیں کتنے کروڑسال بیت گئے اور پھر تہذیبوں کی نمو ہوئی۔ انہی میں ایک تہذیب تھی پوٹھوہار، سون سکیسریا وادیٔ سون، وادیٔ سوان۔۔۔۔۔۔۔۔ایک قدیم ترین تہذیب۔ پھولوں، جھرنوں، جھیلوں اورشفق دھنک سے معمورتہذیب۔ آج سے ساڑھے بارہ لاکھ سال پہلے۔وادی سوان کی تہذیب یعنی وادی سندھ کی تہذیب سے بھی پہلے۔
میں یہاں ایکسپریس کے ایک مضمون ’’پوٹھوہار: جہاں زندگی نے اپنا اوّلیں گیت گایا“ کے حوالے سے بات کروں گا جس نے اس علاقے کے بارے میں میری سوچوں کو ایک نیا رخ دیا۔
پوٹھوہار کا پھیلاؤ دریائے جہلم کے مشرقی کنارے سے دریائے سندھ تک، شمال میں کالا چٹا سلسلہ کوہ سے کوہ مارگلہ تک اور جنوب میں کوہستان نمک تک پھیلا ہوا ہے۔ 45 میل رقبے پر پھیلا کالا چٹا سلسلہ کوہ، پوٹھوہار اور پنجاب کے درمیان حد قائم کرتاہے۔ اس کے چار اضلاع جہلم، چکوال، راول پنڈی اور اٹک ہیں۔ دریائے سواں مری کے قریب سے طلوع ہوتاہے اور کالا باغ کے قریب دریائے سندھ میں غروب ہوتا ہے، علاقے کا بلند ترین پہاڑ سکیسر ہے۔
اس خطے میں دو طرح کے قبائل تھے جن سے یہاں کی ذاتیں بنیں ان قبائل میں ایک وہ جو فاتحین کے ساتھ باہر سے آئے اور دوسرے وہ جو یہاں کے رہنے والے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ اپنی وفاداریاں اور مذہب بدلتے رہے۔ معاشی اور سیاسی وجوہات کی بنا پر ایک دوسرے سے برسرِ پیکار رہے۔ اگر گننے کو آئیں تو ان ذاتوں کی تعداد ہزاروں میں بنتی ہے۔
گاڑی سے باہر اندھیرے کا راج تھا اور ہم راولپنڈی میں داخل ہو رہے تھے ۔ ٹرکوں کی لمبی قطاروں نے سڑکوں پر اپناراج قائم کر رکھا تھا۔ غالب امکان ہے کہ ہر ہیت، ہر شکل اور ہر ملک کا ٹرک ان سڑکوں پر موجود ہو گا۔ ان ٹرکوں کا چلنا بھی دیکھنے کے لائق ہوتا ہے۔ یہ اس طرح چلتے ہیں جیسے نشہ میں غرق ہوں۔۔۔۔ ایک رفتار، ایک لے، ایک کردار اور ایک ہی اندازِ تخاطب۔
ایک طالب علم کو ان ٹرکوں سے سیکھنے کو بہت کچھ ملتا ہے مثلاً سجاوٹ؛ اس طرح کہ رنگ و نور کا مرقع۔ ان کے مالکان کا بس نہیں چلتا ورنہ ہر رنگ اس پر لگا دیں اور ہر شے کی مورت ان پر سجا دیں۔ دوسری اہم بات جو ان سے سیکھنے کوملتی ہے وہ ان کا ایکا اور اتحاد ہے۔ ایک ہی ہوٹل پر رکنا، ایک طرح کا لباس، ایک طرح کا چال چلن اور اگر کسی نے ان کے استحقاق کو مجروع کرنے کی کوشش کی تو سڑک پر ٹریفک جیم پھر کسی کا باپ بھی ان سے جان نہیں چھڑ اسکتا۔ یہ ٹرک چلتی پھرتی شاعری کی کتاب بھی ہوتے ہیں۔ ہر ٹرک پرکم از کم ایک شعر اور کم ازکم ایک جملہ ضرور ملتاہے۔ یہ شعر اور دانائی و حکمت کی باتیں اس لئے لکھی جاتی ہیں کہ ٹرک نے تو راستہ دینا نہیں ہوتا اس لئے جو پیچھے آرہا ہو وہ انتظار کے ان لمحات میں اُکتاہٹ اور بے زاری کا شکار نہ ہو۔ بس انواع و اقسام کی شاعری سے لطف اندوز ہوتا رہے۔ ٹرک کا مالک شاعر تو نہیں ہوتا لیکن شاعری کا دلدادہ ضرور ہوتا ہے یہ شاعری کے اس انتخاب کو دنیا کی اعلیٰ پائے کی شاعری سمجھتا ہے ۔جیسے ہر شاعر اپنی شاعری دوسروں کو سنانا یا پڑھوانا چاہتا ہے۔ یہ بھی اپنا انتخاب ِ شاعری ہر کسی کی آنکھوں میں ٹھونسنا چاہتا ہے۔ اس لئے وہ اپنے پیچھے آنے والوں کو کچھ دیر کے لئے راستہ نہیں دیتا تاکہ وہ آرام سے یہ انتخاب پڑھ لیں۔
بس جیسے ہر خدائی خدمتگار سے دور رہنے میں ہی بچت ہے اسی طرح اس خدائی خدمت گار سے بھی فاصلہ بنا کر ہی چلنا چاہئے۔۔ کوئی پتہ نہیں یہ کبھی بھی ٹرانسپورٹ کی کسی خوبصورت صنفِ نازک سے اظہارِ محبت کر ڈالے۔ ا س کا اظہارِ محبت فلائنگ کِس نہیں ہوتا بلکہ سیدھا سیدھا ’’ جپھی ‘‘ہوتا ہے۔ یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ سڑک کی اصناف میں یہی ایک اکلوتا صنفِ گراں ہے باقی ساری ٹرانسپورٹ اس کے سامنےصنف نازک ہے۔
ایک ٹرک سڑک کے درمیان میں چل رہا تھا ۔جب ہم نے اُس سے آگےنکلنے کی کوشش کی تو اُس کی عزتِ ٹرکی شدید طریقے سے مجروع ہوئی اور اُس نے اسے ہتکِ عزتِ صنف گراں سمجھتے ہوئے ہمارے آگے آ کر ہمارا راستہ بند کر دیا۔ خاص بات تو یہ تھی کہ ظالم نے پیچھے لکھوا رکھا تھا۔ تو لنگ جا ساڈی خیر اے۔
ان کے ڈرائیوراکثر سو بھی جاتے ہیں۔ اگر یہ آپ کو راستہ نہ دیں اور سڑک پر اٹکھیلیاں کریں تو کرنے دیں اور شکر کریں کہ وہ جاگ رہے ہیں۔ ایسے ٹرک رفتا کی حد توڑ بھی دیں تو یہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی نہیں۔ ہاں اُس ٹرک پر شک کیا جاسکتا ہے جو سوگوار انداز میں سڑک کے ایک بے زار کنارے پرمنہ لٹکائے ہوئے چل رہا ہو۔ ایسے ٹرک کو ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی پر روکا جانا چاہئے۔ کیونکہ ان کے ملاح نیند کی وادیوں میں کھوئے ہوتے ہیں۔ یہ شترِ ِبے مہار کی طرح کبھی بھی کسی طرف منہ کر سکتے ہیں۔
چلتے چلتے سوتے جاگتے ہم اپنے اس پڑاؤ پر پہنچے جہاں ہم نے رات کا قیام کرنا تھا۔ گاڑی سے سامان اتارا، گھر والوں کا حال چال پوچھا، مروت میں چائے کا ایک ایک کپ پیا اور بستروں میں گھس گئے۔ گرمیوں کے موسم میں اے سی کی سہولت میسر آجائے تو رات جنت کی رات بن جاتی ہے۔ تھکے تو تھے ہی اے سی نے تھپکیاں دے کر ایسا سلایا کہ دوپہر کو ایک بجے آنکھ کھلی۔ مجھے نیند کے ہاتھوں ا س طرح چاروں شانے چت ہونا بالکل پسند نہیں لیکن کیاکریں کبھی بدن بھی اپنا حق مانگتا ہے۔
شام کو شہر کی سیر کے لئے نکلے تو محسوس ہوا کہ ایک شہر دوسرے شہر پر اس طرح چڑھ کر بیٹھا ہے جس طرح کسی چھوٹی کتاب پر بڑی کتاب۔ چھوٹی کتاب کتنی ہی قیمتی کیوں نہ ہو بڑی کتاب اُس کی مت مار دیتی ہے۔ پنڈی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ اسلام آباد بسا کر اسے ایساپابند کر دیاگیا ہے کہ اب یہ اپنے اندر ہی اندر گھلتا رہتا ہے۔ کسی جھونپڑی کے ایسے مکینوں کی طرح جن کی ہمسائیگی میں محل بنا دیا جائے۔
آسائشیں اور سہولتیں دیتے ہوئے حاکمانِ وقت نے دونوں کے درمیان نااصافی کی کبھی ختم نہ ہونے والی ایک لکیر کھینچ دی تھی۔ رہی سہی کمی ان لوگوں نے پوری کر دی جو معاش کی غرض سے اس شہر میں آ بیٹھے. مالکِ کائنات کو بھی کیا منظور تھا کہ دو ایسے شہر بنا دئیے جن کے درمیان دوری تو ایک جست کی بھی نہیں ہے لیکن دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ دونوں کاڈھانچہ مختلف ، باسی مختلف، اشیا،مختلف ، اندازِٹریفک مختلف ، ، رہن سہن مختلف یہاں تک کہ موسم بھی مختلف۔ اسلام آباد بنانے والوں نے انتہائی مہارت سے اس شہر کوایسا پابند حدود کیاکہ آج یہ شہر پلوں کا قیدی بن کر رہ گیا۔ اسلام آباد کے شہری مارگلہ کی سبزہ و شادابی سے فیضیاب ہوتے ہیں اور پنڈی کے شہری اپنی چھت پر کھڑے ہو کر دھندسے اٹے مارگلہ کے پہاڑوں کو دیکھ کر ہی خوش ہوتے رہتے ہیں۔ کبھی یہ شہر ایسا نہ تھا۔۔۔ بتانے والے تو کچھ اور ہی بتاتے ہیں۔
یہ شہرکراچی، لاہور کی طرح کاہی اہم اور تاریخی شہر تھا جس کی اپنی میراث اور اپنی تاریخ تھی۔ خیر اب بھی کچھ کم نہیں۔ کم از کم عساکرِ پاکستان کا ہیڈ کواٹر ہونے اور سستی اشیا کے باڑہ بازارکی موجودگی کا شرف تو حاصل ہے۔
اس کے اپنے بازار ہیں، اپنی سڑکیں ہیں اور اپنا رکھ رکھاؤ ہے۔ سڑکوں پر دھول سہی، بازاروں میں ہجوم سہی لیکن یہ شہر اپنا الگ تشخص رکھتا ہے۔ لاکھوں کی آبادی کے ا س شہر کی تاریخ کی لکیر لاکھوں سال تک جا پہنچتی ہے۔ یہاں کے مشہور دریا ئے سواں کے نواح سے ملنے والے بڑے جانوروں کے ڈھانچوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس شہر کے قرب و جوار میں کبھی ڈائینو سارز بھی رہتے ہوں گے۔
تاریخی طور پر یہ شہر بڑے قوی اعصاب کا مالک ہے۔ افغانستان کی طرف سے آنے والے حملہ آوروں کے راستے میں ہونے کی وجہ سے یہاں سے گزرنے والے ہمیشہ یہاں قیام کرنے یا آرام بسرام کرنے کی بجائے ا س شہر کو لوٹتے رہے۔ یہ شہر برباد ہوتا، اٹھتا، بستا اور پھر برباد ہو جاتا۔ سب سے زیادہ تباہی منگولوں اور ’ہن‘ قوم نے کی کہ اس شہر کو صفحہ ہستی سے ہی مٹا دیا۔
محمود غزنوی کے دور میں اسے بسانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن بس کر بھی یہ بس نہ سکا۔ پھر 1493 میں سردار جھنڈا خان نے راول گاؤں کے نام پر راول پنڈی کی بنیاد رکھی۔ جس کامطلب ہے راول کا چھوٹا گاؤں۔
میرے کافی رفیقان مکتب پنڈی میں بستے تھے لیکن میرے پاس اتنا وقت نہ تھاکہ میں ایک ایک کے پاس جاؤں تاہم اپنے ایک دوست کو نظرا نداز کرنا مشکل تھا۔
یہ ہیں ”پادری حنوک ڈیوڈ انجم“ یہ صاحب اپنی کمیونٹی کے بڑے سرگرم رکن ہیں اور خاصے پڑھے لکھے لوگوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ اُن دنوں یہ راجہ بازار کے ایک بڑے چرچ میں پادری کی خدمات انجام دے رہے تھے۔ ان کے ہاں جانا اس لئے بھی ضروری تھا کہ میرے بچوں اور مسز نے کبھی چرچ نہیں دیکھا تھا اس لئے انہیں چرچ دکھانے کا یہ ایک اچھا موقع تھا۔
پنڈی کی بہت سی سڑکوں اور بازاروں سے گزرنے کے بعد ہم ایک ایسے بازار میں پہنچے جہاں سوائے آدم زاد اور گاڑیوں کے کچھ دکھائی نہ دیتا تھا۔ دھوئیں اور دھول نے ماحول سے آ کسیجن کا تقریباً خاتمہ کر رکھا تھا۔ سانس لینے کے لئے انسان کو اپنے پھیپڑوں پر کچھ زیادہ ہی بوجھ ڈالناپڑتا تھا۔
سڑک کے دونوں کناروں کوبے ہنگم دکانوں نے گھیر رکھاتھا اور ان دکانوں کو پٹھانوں نے۔ مجھے شک تھا کہ یہ دکانیں چینی مصنوعات سے بھری ہوئی تھیں۔ ہجومِ مرداں دیکھ کر لگتا تھا جیسے یہاں سب کچھ مفت مل رہا ہو۔ چھوٹے سے کمرے کی طرح کی پک اپ ویگنیں کسی دلہن کی ڈولی یا پالکی کی طرح سجنے کے باوجود باطن سے وہی بے ڈہنگی تھیں جہاں جس کا جی چاہا وہیں پڑاؤ کر دیا۔ رہی سہی کمی ہر نوع کے رکشوں نے پوری کر دی تھی۔

ہم ایک ہی چوک کے گرد تین چکر لگا چکے تھے لیکن ہمیں چرچ دکھائی نہ دیا تھا۔پوچھنے پر لوگ چوک کی قربت کی طرف اشارہ کر دیتے۔ مجھے تو یوں لگا جیسے ہم ہر اُس بندے سے پتہ پوچھ رہے تھے جسے اپنا پتہ بھی معلوم نہیں تھا۔ اگر پتہ بھی تھا تو سورج، دھول اور ٹریفک نے اُس کی ویسے ہی مت ماری ہوئی تھی۔ ایسی جگہوں پر معمولی باتوں پر جھگڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ معمولی جھگڑے اچھی خاصی لڑائی میں بدل جاتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ لڑنے والے کوئی اور ہوتے ہیں اور جھگڑا شروع کرنے والے کوئی اور۔ ہمارے ہیں پتہ بتانے والا اس کا م کو بہت بڑا بوجھ سمجھتا ہے۔ لیکن اگر کوئی چار بندے کسی ایک پر چڑھ دوڑیں تو یہ وہاں آرام سے بے حیل و حجت شامل ہو جائے گا۔
خیر ہم ایک بھلے مانس کی مدد سے بہت سی دکانوں کے پیچ ایک گھر کے گیٹ نما گیٹ کے سامنے پہنچ ہی گئے۔کافی دیر ہم گیٹ پر کھڑے رہے۔ موصوف نے تو بتایا تھا کہ بہت بڑا چرچ ہے مگر یہ تو ایک چھوٹا سا گھر نکلا۔ جب نظر گیٹ کے اوپر لکھی ہوئی عبارت پر پڑی تو یقین ہوا کہ چرچ ہی ہے۔ گیٹ کے اندرجھانک کر دیکھا تو سامنے ایک دیوار کے سواکچھ دکھائی نہ دیا۔ آخر حوصلہ کر کے دروازہ کھٹکھٹاہی دیا۔ اندر سے ایک طویل و عریض جسامت کے ایک صاحب برآمد ہوئے۔ پوچھنے پر ہم نے اپنا تعارف کروایا لیکن ہمارے تعارف کا ان صاحب پر کوئی خاص اثر نہ ہوا۔ ہمیں ہاتھ سے رکنے کاا شارہ کر کے خود زنجیر پکڑ کر ایک کرسی پر براجمان ہوگئے۔ میرے جی میں تو آیا کہ زنجیر ہٹا کر گاڑی آگے بڑھوا لو ں لیکن کچھ سوچ کر رک گیا۔ خوش قسمتی سے ایک صاحب باہر سے اندر داخل ہوئے تو اس چوکیدار نما مخلوق نے ہماری طرف اشارہ کر کے اسے کچھ سمجھایا اور پھر جا اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔ اپنی کرسی پر بیٹھتے ہی اُس نے ایمبیسی سگریٹ کے ایک بدحال پیکٹ سے اُس کے اپنے ہی بوجھ کامارا سگریٹ نکالا اورسلگا کر کش پہ کش لینے لگا۔ مجھے نہ تواُ س کے رنگ کی گرمی پر حیرت تھی نہ اُس کے جُسے کے غیر معمولی طول وعرض پر اور نہ اُ س کے جامنی رنگ کے دو ہونٹوں میں سے نکلتے غلیظ دھوئیں پر۔مجھے تو اس کی شاہانہ بے بیازی کو دیکھ دیکھ کر حیرت کیا حیرانی ہو رہی تھی۔ تھوڑی ہی دیر میں اندر جانے والا شخص واپس لوٹا، چوکیدار نما مخلوق کے کان میں کچھ کہاتو اس مخلوق نے زنجیر ہٹا کر ہمیں آگے بڑھنے کا اشارہ کیا۔ ہمارے سامنے دیوار تھی جس کے پاس جاکر بائیں مڑتے ہوئے دو گاڑیاں گزرنے کا رستہ بنایاگیاتھا۔
جونہی ہم چرچ کے اس موڑ سے نکلے تو سامنے انگریزی طرز کی ایک وسیع و عریض عمارت دیکھ کر حیرانی بھی ہوئی اور اطمینان بھی۔ ایک سر سبز و شادب لان سے گذرے ہی تھے کہ سامنے پادری صاحب لوہے کی جالی والے قدیمی دروازے سے نمودار ہوئے۔
کچھ دیر پہلے ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ چھوٹے سے گیٹ کے اندر لاتعداد کمروں پر مشتمل اتنی بڑی اور خوبصورت عمارت موجود ہوگی۔ اس عمارت کے آس پاس ایک دنیا آباد تھی۔لگتا تھا جیسے ہم کسی چھوٹی سی کالونی میں آگئے ہوں۔
اگر ہم مساجد کو دیکھیں تو ہمیں ایرانی اور ترکی فنِ تعمیر نمایاں دکھائی دیتا ہے اور اگر چرچ کو دیکھیں تو انگریزی فنِ تعمیر۔ ڈیوڈ صاحب جن کا اصل نام حنوک ہے اور ڈیوڈ ان کے دادا کانام ہے جبکہ شاعر ہونے کے ناطے تخلص انجم کرتے ہیں میرے فرسٹ ائیر کے دوست ہیں۔ ہمیں ڈیوڈ یاد رہا اس لئے انہیں ڈیوڈ ہی کے نام سے مخاطب کرتے رہے، نہ انہوں نے توجہ دلائی نہ ہم نے غور کیا۔
ہم پادری صاحب سے پادری بننے سے پہلے اور پادری بننے کے بعد بحث و مباحث کے ہزاروں سیشن کر چکے تھے۔ کوئی نشست ایسی نہیں ہوتی تھی جب بحث و مباحث کا کوئی نیاباب نہ کھلتا۔ یہ اکثر لاہور آتے جاتے رہتے ہیں اور ہمیشہ مجھے ہی شرفِ میزبانی بخشتے ہیں۔ اس لئے میرے بچوں کے ساتھ بھی ان کی خصوصی محبت ہے۔
اس عمارت کو دیکھ کر یہ حقیقت واضح بھی ہوئی اور مضبوط بھی کہ مذاہب کے پھیلنے کے عوامل میں شاہوں کے کرداراور عمل دخل سے انکار ممکن نہیں۔ رعایا کو اپنے شاہ کے جسم پر لپٹا ہو ا ہر وہ لباس خوبصورت لگتا ہے جو اُس کے اپنے ہی خون پسینے سے وجود میں آتا ہے۔ عام آدمی رہتا تو جھونپڑی میں ہے لیکن اُسے شاہ کا محل بہت اچھا لگتا ہے حالانکہ وہ محل اُ سی کی جھونپڑی کی راکھ پر بنتا ہے۔ویسے رعایا کرے تو کیا کرے اپنی مجبوریوں کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے شاہ کی تابع فرمان بن جاتی ہے۔ پھر شاہ کا فرمان اور شاہ کا قول بھی نافذ کرواتی ہے۔ ضرورت پڑنے پر شاہ کو ظلِ الٰہی کا خطاب بھی دیتی ہے اور اُ س کے کہے کو قانون کا درجہ بھی دے دیتی ہے۔ خلقِ خداکا استحصال بھی شاہ انہی کے ہاتھوں کرواتا ہے اور یہی رعایا چند سکوں یا چند لقموں کے لئے بادشاہ کی غرض کے لئے نئے مکاتیبِ فکر پیدا کرتی ہے اور انہیں نافذ بھی کرواتی ہے۔
بنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے
اس عمارت میں چرچ کے خدمت گزاروں کی رہائش گاہوں کے علاوہ پادری صاحب کا دفتر اور ایک چھوٹا سا اسکول بھی تھا۔ چرچ کی خوبصورتی لاجواب تھی۔انگریزی طرز کی محرابوں میں گھری ہوئی عمارت جس میں ہر شے ترتیب وقرینے سے رکھی گئی تھی۔ لکڑی کی کڑیوں اور لوہے کے گاڈروں سے بنائی گئی چھت اخبار میں دئیے گئے ذہنی آزمائش کے کسی معمہ سے کم نہ تھی۔ میرے بچوں کے لئے چرچ کی عمارت اور اُ س کے فرنیچرسمیت ہر چیز میں دلچسپی کا سامان موجود تھا۔ اس چرچ کا ہونا اور اس میں ہونے والی مذہبی سرگرمیوں کا ہونا ہماری بحیثیت قوم رواداری اور ہم آہنگی کی علامت تھا۔ خاص بات جس نے مجھے بہت متاثر کیا وہ اس چرچ کے سامنے ایک مسجد کا ہونا تھا۔ پادری صاحب نے بتایا کہ ہمیں کبھی اس مسجدوالوں کی طرف سے کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ اللہ سب کی عبادت گاہوں کو محفوظ رکھے اور سب کو اپنے نظرئیے پر قائم رہنے اور دوسروں کے نظریات کا احترام کرنے کا حوصلہ دے۔ مذہبی اختلافِ رائے کو برداشت کرنا مشکل ہی نہیں بہت بڑا امتحان بھی ہوتا ہے۔ جو قومیں اس امتحان میں سرخرو ہو جاتی ہیں تو سمجھ لینا چاہئے کہ ان کی ترقی اور کامیابی کادور دُورنہیں۔
ہم راجہ بازار میں موجود تھے ہم سے کچھ ہی دور صرافہ بازار اور صدر بازار تھے۔ صدر بازار انگریزوں نے بنایاتھا جبکہ صرافہ بازار کے اندر کا رہن سہن بتاتاہے کہ یہ شاید مغلائی دور سے بھی پہلے کا ہو۔”صرافہ بازار سے گزریں تو آپ بھابڑا بازار میں داخل ہوتے ہیں۔ یہ علاقہ جین مت کے پیروکاروں کا تھا۔ جین مت، بدھوں کی طرح جانوروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے پر زور دیتا ہے بلکہ جینی اُس مخلوق کو بھی تکلیف دینے سے گریز کرتے ہیں جو انسانی آنکھ سے دکھائی نہیں دیتی۔ اسی لیے وہ اپنے مکان اور گلیاں تنگ و تاریک رکھا کرتے تھے۔ کہتے ہیں کہ یہ لوگ شہر میں ننگے پاؤں پھرا کرتے تھے تاکہ کیڑے مکوڑے محفوظ رہیں۔ بھابڑا بازار کی گلیاں ایسی ہیں کہ دو آدمی کندھے سے کندھا ملا کربھی نہیں چل سکتے، شائستہ لوگ گلی کے سرے پر رک کر دوسری طرف سے آنے والے کے گزرنے کا انتظار کرتے ہیں۔ ان ہی گلیوں میں سجان سنگھ کی پراسرار حویلی بھی ہے۔ یہ عمارت اس وقت بہت برے حالات میں ہے اور اپنے پرانے مکینوں کے سوگ میں گھل گھل کر گھلتی جارہی ہے۔
یہ حویلی رائے بہادر سجان سنگھ نے1893 میں بنوائی تھی۔ اپنے زمانے کے مطابق اس کی خوبصورتی کے لئے جو کچھ کیا جاسکتاتھا کیا گیا، قیمتی لکڑی جہاں سے ملی حاصل کی گئی اور لوہا گلاسکو انگلستان سے منگویا گیا۔ اپنے وقت کے بہترین معمار حاصل کئے گئے۔
جب یہ بن کر تیار ہوئی تو اپنے وقت کا ایک عظیم شاہکار تھی۔ جس کے صحنوں میں اسد و طاؤس چھلانگیں لگاتے پھرتے تھے۔ اس کے کمروں میں قہقہوں کی آوازیں گونجتی تھیں۔ پھر اس کے مکین اسے چھوڑ کر بھارت چلے گئے۔ یہاں ہجرت کر کے آنے والے مسلمان قابض ہوگئے۔ اسے بانٹ لیا گیا. اور اس کا حلیہ ہی بگڑ گیا۔ حکومت نے خالی کروائی اور یہ فاطمہ جناح یونیورسٹی کو دے دی گئی۔ یہ تجربہ بھی ناکام رہا تو یہاں خواتین کا کالج بنادیا گیا۔
اس کے چوبارے جھک گئے ہیں، چھتوں کی آرائش پر دھوئیں کے بادل چھا گئے ہیں، محرابوں کے اندر محرابوں میں کیل ٹھونک دئیے گئے ہیں۔ لوہے کے ستون اور ملکہ وکٹوریا کا مجسمہ زنگ آلود ہو گئے ہیں۔ اس حویلی کے درو بام ایک ایک کر کے زمین بوس ہو رہے ہیں۔
سجان حویلی کی طرح ہی باغ سرداراں بھی بنایا گیا تھا۔ جو اپنے زمانے کی خوبصورت سیر گاہ تھی۔ اور ا س کا گوردوارہ بھی اجڑ چکا ہے، صرافہ بازار کا پرانا قلعہ تو پہچانا ہی نہیں جاتا کہ کسی زمانے میں یہ کوئی پروقار عمارت تھی، اب اس کے صدر دروازے کے سامنے کپڑے سینے والوں کا بازار ہے، یہاں دن بھر خواتین کی گہماگہمی رہتی ہے۔ صدر میں واقع سجان سنگھ بلڈنگ اب فاطمہ جناح یونی ورسٹی میں تبدیل ہو چکی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس حویلی اور باغ سرداراں کے درمیان زیر زمین سرنگی رابطے تھے، واللّٰہ اعلم۔“
وہاں سے واپسی پر ریلوے اسٹیشن کے قریب سے گذر ہوا تو ہم نے سوچا ادھر بھی ایک نظر ڈال لی جائے۔ یہ ریلوے اسٹیشن انگریزوں نے1880 میں بنوایا تھا۔ ریلوے اسٹیشن کیا تھا ایک پُر اسرار محل تھا۔ اندر گئے تو وہی بدحالی جو کسی بھی سرکاری عمارت کی ہوتی ہے۔ زنگ آلود جنگلے، ٹوٹے دروازے اور دقیانوسی نظام مواصلات۔ویسے بھی جب ٹرین ہی بند ہو تو ریلوے اسٹیشن کے چہرے پر شوخی کیسے آ سکتی ہے۔ اللہ نہ کرے کہ کبھی ایسا ہو کہ آنے والے وقت میں ہم اپنے بچوں سے کہیں،’’ یہاں ریلوے اسٹیشن ہوا کرتا تھا۔ بچو آپ کو یقین نہیں آئے گا لیکن یہی وہ جگہ ہے جہاں ریلوے پٹڑی ہوا کرتی تھی۔ ‘‘
راولپنڈی کے بطن میں بھی بہت سی داستانیں قید ہوں گی لیکن ایک داستان ایسی ہے جو اس نظام کائنات کے فلسفہ کو سمجھنے کے لئے بہت ضروری ہے۔ تقریبا سو سال پہلے جہلم کا ایک امیر زادہ راج سہگل ایک بائی ’بدھاں بائی ‘کے حسن کا ایسا شکار ہوا کہ زندگی اُ س کے نام کردی۔ تھا امیر زادہ چنانچہ شاہوں کی نقل کرتے ہوئے اپنی محبوبہ کو ایک حویلی راولپنڈی میں بنو اکر دی۔یہ حویلی ”سہگل حویلی“ کے نام سے مشہور ہوئی۔ ابھی یہ حویلی اپنی مالکن کے حسن کی کچھ ہی پرتوں سے فیض یاب ہوئی تھی کہ پاکستان بن گیا۔ راج سہگل کو مجبوراً ہندوستان جاناپڑا مگر بدھاں بائی اُس کے ساتھ یا اُس کے پیچھے بھارت نہیں گئی۔ کہنے والے کہتے ہیں اور لکھنے والے لکھتے ہیں کہ پھر لوگوں کو پتہ چلا کہ بدھاں اماں جی جنگلوں میں غائب ہوگئی ۔ بدھاں کسی کو حویلی میں دکھائی دیتی کسی کوکسی راستے پر کسی کو جنگل میں۔ رونے کی آوازیں، چیخوں کی آوازیں یہ سب کچھ اس حویلی کے ساتھ جُڑتا گیااور یہ حویلی روحوں کی حویلی کے نام سے مشہور ہو گئی۔کوئی اس حویلی کو خریدنے کے لئے تو کیا اس کے پاس جانے کے لئے بھی تیار نہ تھا۔ پھ بھابڑا بازار کے ایک مکین شیخ رشیدنے 1985 میں یہ حویلی خرید لی اور اب یہ حویلی لا ل حویلی کے نام سے مشہور ہے۔
http://dailypakistan.com.pk/real-estate ... 2015/26710
اب بھی یہاں سے رونے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں لیکن اس حویلی کے مالک کی جو غریبوں کے حقوق کے لئے چیختا اور چلاتا ہے۔
Post Reply

Return to “نثر”