سفرنامہ ’’ پریوں کی تلاش ‘‘ چودہویں قسط از وارث اقبال

اردو نثری قلم پارے اس فورم میں ڈھونڈئے
Post Reply
وارث اقبال
کارکن
کارکن
Posts: 69
Joined: Wed May 30, 2012 10:36 am
جنس:: مرد

سفرنامہ ’’ پریوں کی تلاش ‘‘ چودہویں قسط از وارث اقبال

Post by وارث اقبال »

شہرِ نمک وارث اقبال

ت
را ہے وہم کہ میں اپنے پیرہن میں ہوں
نگاہ غور سے کر مجھ میں کچھ رہا بھی ہے
جو کھولوں سینہ ٔ مجروح تو نمک چھڑکے
جراحت اس کو دکھانےکا کچھ مزہ بھی ہے
(میر تقی میر)
سورج مشرق سے اُبھرا اور سر پر آ ٹہرا۔
ہم نے کٹاس چھوڑ اپنی گاڑی کا رخ مشرق کی طرف یعنی کھیوڑا کی طرف موڑ دیا۔ ٹوٹی سڑک، سیمنٹ کی فیکڑی، آئی سی آئی کی مصنوعی جھیل کا اصل نظارہ کرتے اور خطرناک موڑوں سے گزرتے ہوئے ہم کھیوڑا پہنچے۔کھانے کی دبی دبی پکار جو کٹاس سے شروع ہوئی تھی یہاں پہنچ کر احتجاج کی شکل اختیار کر گئی تھی۔ تلاش کرنے پر ایک چھوٹا سا ہوٹل ملا جہاں سے دال روٹی کھا کر نمک کی کانوں کی طرف بڑھے۔ چھوٹے سے بازارکے ارد گرد سر سبز پہاڑیاں مسکرا مسکرا کر آنے والوں کو خوش آمدید کہہ رہی تھیں۔ تھوڑی ہی دور آگے بڑھے تو لگا جیسے ہم انگریزوں کی کسی کالونی میں آ گئے ہوں وہی انداز ِتعمیر جو پرانی انگریزی فلموں میں دکھائی دیتاتھا۔ پتہ چلا کہ یہ کالونی 1876 میں بنائی گئی تھی۔ سیاحت کے فروغ کے لئے ایک استقبالیہ اور ریسٹ ہاؤس بھی موجود تھا۔ یہاں سےایک ریل بھی چلتی ہے جو نمک کی کان کے اندر تک جاتی ہے لیکن ہم نے پیدل ہی جانا مناسب سمجھا۔ یہ علاقہ عام لوگوں کے لئے بند تھا، یہیں سے نمک نکال کر کھیوڑہ سے باہر بھیجا جاتاتھا۔ ایک خشک نالہ پر لمبا پل تھا جس کے بالکل سامنے ایک سرنگ کو بڑا سا گیٹ لگایا گیاتھا۔ یہی ہماری منزل تھی۔ اگرچہ نالہ کا زیادہ تر حصہ خشک تھا لیکن اس کے اس روپ میں بھی خوبصورتی اور سر مستی تھی۔سرمئی رنگ کے پتھروں کو دھیرج سے چھو کر گزرنے والے معصوم اور خاموش بچے جیساپانی ہر دیکھنے والے کے لئے فرحت کاباعث بن رہا تھا۔
گرمی شدید تھی اورسورج بائیں طرف سے ہمارے چہروں پر تابڑ توڑحملے کر رہا تھا۔ نالہ میں جہاں تھوڑا سا پانی دکھائی دیتا توجسم ملاپ کا مطالبہ شروع کر دیتا لیکن نالہ اتنا نیچے تھا کہ اس تک پہنچنا ناممکن تو نہ تھا البتہ اس کڑاکے کی گرمی میں مشکل ضرور تھا۔ اوپرسے دال کی مرچوں نے پیٹ میں جاکر سکون کرنے کی بجائے اودھم مچایاہوا تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے پیٹ میں اپنی پسندیدہ جگہ کے حصول کے لئے سرخ کوئلوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی ہو۔ اب تو فائرنگ کی آوازیں بھی سنائی دینے لگی تھیں۔
بالکل سامنے اور قریب ہی دکھائی دینے والی دنیاکی دوسری بڑی نمک کی کانیں نزدیک آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔
ہم گرمی سے بچنے کے لئے اپنے پاس موجود اپنے تمام تر وسائل کو بروئے کار لائے ہوئے تھے۔ کسی نے ٹوپی کا سہارالے رکھاتھا تو کسی نے کسی رسالہ میں خود کو چھپا رکھا تھا اورکوئی اپنے دوپٹہ کی اوٹ میں چھپا ہوا تھا۔ اچانک میں نے ایک آواز سنی۔
”انکل جی“
میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا، ایک بچہ امرودوں کی چھوٹی سی چھابڑی اُٹھائے ہمارے سامنے کھڑا تھا۔ اُس کی سیب جیسی سرخ گالوں کے ہرمسام سے پسینہ رِس رہا تھا۔ ہم نے بغیر بھاؤ تاؤ کئے اُس سے امرود لئے اور آگے چل دئیے۔ میرے ہاتھ میں میرے حصہ کا ایک امرود آیا جو میری مٹھی میں قید ہو گیا۔
خدا خدا کر کےہم ان کانوں کے مرکزی دروازے پر پہنچے۔ محراب نما دروازے پر نیم گولائی میں لکھا تھا۔
ِ ’کان نمک کھیوڑہ 1916 ٹکٹ لیا اور اندر کی طرف چل دئیے۔ اندر نمک کی دیوار پر آراستہ ایک آیتِ مبارکہ نے ہمیں روک لیا۔ ”اور پہاڑوں کو نہیں دیکھتے کہ وہ کس طرح زمین سے ابھار کر کھڑے کئے گئے ہیں۔“
یہ آیت میں نے پہلے بھی کئی دفعہ پڑھی تھی اور اس کا ترجمہ بھی پڑھا تھالیکن اس طرح رک کر اور ٹہر کر اس کے معانی پر غور نہیں کیا تھاجس طرح یہاں آ کر کیا۔
سورۃ الغاشیہ کی اس آیت کا مطلب سمجھنے کے لئے اس سے پہلی آیت کا مطلب جاننا ضروری ہے۔
”اور آسمان کی طرف نہیں دیکھتے کہ کیسے بلند کیا گیا ہے۔“پھر فرما دیا،”ا ور زمین کی طرف نہیں دیکھتے کہ کیسے بچھائی گئی ہے۔“
اس سورۃ کے کلی مضمون میں سے اگر اس حصہ کو الگ کرکے دیکھیں تو ہمیں یوں لگتا ہے کہ اللہ رب العزت بھی ہمیں اپنے شاہکاروں کے مشاہدہ کا درس دے رہے ہیں۔ اور اپنی کبریائی بیان فرما رہے ہیں۔ اگر ہم اس پوری سورۃ کے معانی پر غور کریں تو ہمیں ہمارے بہت سے سوالوں کا جواب مل جاتاہے۔
کان کے اندر ایک ایسی ٹھنڈک کا احساس ہوا جو ہم نے پہلے کبھی محسوس نہیں کی تھی۔ ہمارے گائیڈ نے ہمیں بتایا کہ یہاں کان کا درجہ ٔحرارت اٹھارہ ڈگری کے قریب قریب رہتا ہے۔ یعنی یہاں سردیوں میں سردی نہیں ہوتی اور گرمیوں میں گرمی نہیں۔ ہمارے سامنے ایک بڑا اور کھلا غار تھا۔ جس میں چلتے ہوئے ہم نسبتاً چھوٹے غار میں دائیں جانب مڑ گئے۔ اس غار کی زمین پر ریل کی پٹری اور اوپر نمک کی چھت تھی۔ اس چھت پر مزید سترہ منزلیں تھیں۔ جب گائیڈ نے یہ معلومات ہمارے گوش گزار کیں تو مجھے گھٹن سی محسوس ہونے لگی۔ یوں لگا جیسے یہ سترہ منزلیں نیچے کی طرف آ رہی ہیں۔ گائیڈ نے میری پریشانی کاا ندازہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ کانیں اس طرح بنائی جاتی ہیں کہ ہر کان سے پچاس فیصد نمک نکالاجاتاہے اور پچاس فیصد چھوڑ دیاجاتاہے جو کان کی مضبوطی کے لئے کافی ہوتا ہے۔
ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ اس کان کے نیچے بھی ایک کان ہے اور جس کان میں ہم موجود تھے یہ 1872میں ایک انگریز نے سیاحت کے لئے خصوصی طور پر تیار کروائی تھی۔ گویا ہم کانوں کے اس پلازہ کی دوسری منزل پر تھے۔
ہم جوں جوں آگے بڑھ رہے تھے ایک نیا منظر اچانک ایک ایسے نٹ کھٹ بچے کی طرح ہمارے سامنے آجاتا جو کسی اوٹ میں چھپ کر کھڑا ہوتا ہے اور ہمیں ”ہاؤ“ کر کے ڈرا دیتا ہے۔ جب اس کی اس معصوم ادا پر ہم ذرا سے ڈرنے کا بہانہ کرتے ہیں تو وہ کھل کھلا کر ہنس دیتا ہے۔ یہی اُس کی خوشیاں ہیں۔
ہزاروں سالوں سے مقید یہ کانیں اسی بچہ کی طرح ہم سے اٹکھیلیاں کرتی ہیں اور ہمیں اپنے اچھوتا ہونے کا احساس دلاتی ہیں۔ یہاں کتنے جن ہوں گے اورکتنی بلائیں جو نا جانے کب سے یہاں کی مکین ہوں گی۔ انہوں نےکئی دفعہ یہاں سے باہر جانے کا ارادہ بھی کیا ہوگا مگر غار کے دھانے پر جا کر واپس لوٹ آتی ہوں گی، شاید باہر کی دھوپ اور ماحول انہیں باہر جانے سے روک دیتا ہوگا۔ اور وہ یہاں صدیوں سے اسی طرح مقید ہوں گی۔
دیواروں سے رستا نمکین پانی راستے میں ہی رک گیا تھا۔ یوں لگ رہا تھا کہ دیواریں رو رہی ہوں اور آنسو ان کی گالوں پر رک گئے ہوں امرودوں والے بچہ کی طرح۔ یہ کانیں پتہ نہیں کتنی صدیوں سے آنسو بہا رہی تھیں۔ شاید ان کے رونے کی وجہ وہ بچہ بھی ہو جس کے سر پر امرودوں سے بھری چھابڑی تھی کتابیں نہیں۔ اور شاید اُن کے آنسو اس لئے بھی نہ تھمے ہوں کہ انسان جو ان کاحاکم ہے یاخلیفۂ حاکم ہر پل اُن کا دل دکھانے کے لئے ایساکچھ نہ کچھ کرتا رہتا ہے کہ ان کے آنسوؤں کا سلسلہ تھمنے کا نام ہی نہیں لیتا۔
یہاں پہنچ کر انسان کو یقین ہی نہیں ہوتا کہ وہ نمک کی ایک دنیا میں پھر رہا ہے۔ ایک ایسا شہر جہاں کی ہر شے نمک کی ہو۔ سوائے یہاں چلتے پھرتے انسانو ں کے۔
خواب کتابوں میں رکھے پھولوں کی طرح نہیں ہوتے جنہیں کتابوں میں رکھا اور بھلا دیا۔ جب کبھی کتاب کھلی یاان کی یاد آئی، اُٹھایا تو ہاتھ میں چند مرجھائی پتیوں اور ایک سوکھی شاخ ناتواں کے سوا کچھ نہ آیا۔ یہ تو ایسے پھول ہیں جو اخلاص کی کیاریوں میں اُگائے جاتے ہیں اور جن کی پرورش محبت کی روشنی سے کی جاتی ہے۔ پھر ایک دن یہ خواب حقیقت کا روپ دھار لیتے ہیں۔
سکندر بھی آنکھوں میں خواب سجائےاپنے گھر سے نکلا تھا اور اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ دیتے ہوئے یہاں پہنچا تھا۔
میں یقین سے کہہ سکتاہوں کہ اسکندر کے گھوڑے اگر اس شخص کے قریب آئیں جو ان کانوں کی سیر کر کے باہر نکلا ہو تو وہ اُسے بھی چاٹنے لگیں جس طرح انہوں نے آج سے ہزاروں سال پہلے یہاں پہاڑوں کو چاٹ کر یہ سمجھا دیا تھاکہ یہاں نمک موجود ہے۔
کان کے اندر دیواروں پر روشنیاں لگائی گئی تھیں تاکہ سیاح کسی مشکل کے بغیراپنے راستے پر چلتا رہے۔جبکہ یہ روشنیاں ان کانوں کی وحشت کو دور کرنے میں بھی بہت اہم کردار ادا کر رہی تھیں۔ یہ روشنیاں جس حصہ ٔچٹان یا دیوار پر پڑتیں وہاں ایسے رنگ پھیلادیتیں جو شاید ان چٹانوں سے باہر میسر نہیں۔
آگے بڑھے تو لکڑی کا بنا ایک روایتی پل دکھائی دیا۔ جو نمک کے پانی کے ایک تالاب کے اوپر بنایا گیاتھا۔ زرد روشنیوں میں گھرا ہوا یہ پل اور اس کا گرد ونواح بھی زرد تھا۔ اس پر پہنچ کر ہمیں یوں لگا جیسے ہم جنوں کی کسی بستی یا جنوں کے بارے میں بنائی جانے والی کسی فلم کے سیٹ پر پہنچ گئے ہوں۔
اس پُل کے ارد گرد نمک کی دیواریں لگتا تھا کسی ماہر سنگ تراش نے تراشی تھیں۔ لکڑی کے اس پُل کے نیچے عجیب رنگ کے پانی کا تالاب تھا جس میں کہیں زمرد کا رنگ اور کہیں سلیٹی کہیں سیاہ رنگ نمایاں تھا۔
میں نے جس بھی دیوار پر دیکھا مجھےکوئی نہ کوئی عجب شبیہہ دیکھنے کو ملی۔ میں ا س شبیہہ کی تلاش میں تھا جسے غور سے دیکھیں تو وہ مسکراتی ہے۔ ب کچھ سال پہلے جب میں اپنے دوستوں کے ہمراہ یہاں آیا تھا تو ہمارے ایک دوست نے یہ شبیہہ دریافت کی تھی ۔ہم نے اُسے شرارتی جن کا نام دیا تھا۔ وہ بے چارہ نمک کی چٹان میں اس طرح جکڑا ہوا تھا جیسے کسی فریم میں کوئی تصویر۔ ہمارے جس دوست نے وہ جن تلاش کیا تھا ہم اُسے کافی عرصہ تک اُ س جن کے حوالے سے تنگ کرتے رہے۔ اس پُل پر کھڑے ہوں تو انسان خود کو الف لیلوی کہانیوں کا ایک کردار سمجھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔یوں لگتا ہے جیسے یہیں کہیں کوئی راستہ ہوگا جو دیو کے محل تک جاتا ہوگا جہاں کوئی شہزادی قیدہوگی۔
آہ! ہمیں اپنی خواہشات کی شاہزادیوں کو دیو ِ حیات کی قید سے آزاد کروانے کے لئے کتنے جنوں اور دیووں کے محلات پر قبضہ کرناپڑتا ہے۔ کئی تالابوں کو عبور کرنے کے بعد ہم اس جگہ پہنچے جو ایک عجوبہ سے بھی بڑھ کر عجوبہ تھی۔ روشنیوں کا فرش ، روشنیوں کی چھت اورروشنیوں کی دیواریں۔ ماہر سنگ تراشوں اور معماروں نے راہداری میں نمک کی اینٹوں کو کچھ اس ا نداز میں تراش تراش کرلگایا تھا کہ پورا راستہ بقعۂ رنگ و نور بنا ہوا تھا۔
دیواروں میں نمک کی ایسی اینٹیں لگائی گئی تھیں کہ جیسے یہ سونے کی ہوں اور سونا بھی ایسا جیسے ابھی کان سے نکل کر آیا تھا۔ ہر اینٹ کا سونا مختلف اور ہر سونے کا رنگ الگ۔ سامنے ایک بہت بڑامحراب سونے کی اینٹوں سے سجایا گیا تھا۔ جس سے کچھ ہی فاصلے پر ایک بڑے دالان میں رنگ و نور میں ڈوبی ہوئی شاہی مسجد ہم جیسے کتنے ہی پاپیوں کونماز کا درس دے رہی تھی۔ اس کا ہر گوشہ اور ہر کونہ بس اپنے مالک کی کبریائی کے گن گا رہا تھا۔ اور سمجھا رہا تھا کہ میں اتنا خوبصورت ہوں تو میرا مالک کتناخوب صورت ہوگا۔
اسی دالان میں مینارِ پاکستان تھاجس کے ہر جھروکے سے نئی روشنی پھوٹ رہی تھی۔ یہی وہ روشنی تھی جس کا خواب اُن لوگوں نے دیکھا تھا جنہوں نے اپنا سامان ایک بیل گاڑی پر لادا اور چل دئیے۔ ایک ایسے جہان کی طرف جہاں رنگ ونور کی بارش ہوتی ہوگی۔ جہاں اندھیرے نہیں بس روشنیاں ہی روشنیاں ہوں گی۔ جہاں نہ ظلم ہو گا نہ استحصال، نہ مذہبی پنڈت نہ راجواڑے ہوں گے۔ ایسا دیس جہاں نہ سماجی، اقتصادی غلامی ہوگی اور نہ تعصبات کا عفریت۔ ایک ایسی بستی جہاں پاگل اور دیوانہ اختیار نہیں ہوگا بلکہ محبت، مروت اور ایثار کی حکمرانی ہوگی۔ اس راہ مسافت میں انہوں نے ہر موڑ پراپنے پیاروں کو اپنے سامنے خون میں نہاتے دیکھا اور خون کی کتنی ندیاں عبور کرنے کے بعد وہ اپنے اس طلسماتی جہان میں پہنچے۔
قابل تحسین ہیں وہ ماہرین اور اذہان جنہوں نے پہاڑوں کے اندر، کانوں کی گہرائی میں خوب صورتی اور رنگ ونور کا یہ جہان بسایا، اُسے سنوارا، نکھارہ اور پتھروں کو اس روپ میں پیش کیا کہ وہ منبع حسن و نور بن گئے۔
ہمارا گائیڈ ہمیں اس حصہ میں بھی لے گیا جہاں سے نمک نکالاجارہا تھا۔ اگرچہ خطرہ کی وجہ سے ہم وہاں زیادہ دیر نہ رک سکے تاہم یہ ضرور جان سکے کہ پاکستانی محنت کش ہتھیلی پر جان رکھ کر کس مہارت سے مشینی آلات استعمال کرتے ہوئے نمک نکال رہے تھے۔ یہاں سے نمک نکالنے کا ہنر اور اس سے متعلقہ تمام مہارتیں ان کے خون میں شامل تھیں۔ جبھی تو وہ اتنا مشکل کام کر رہے تھے۔
جب میں پہلے یہاں آیا تھا تو یہاں ایک بزرگ سے ملاقات ہوئی تھی جنہوں نے بتایا تھا کہ ان کانوں میں سے کشیر حصہ ان کے قبیلہ کی ملکیت تھا جو اب حکومت کے پاس ہے اور وہ اُس وقت سے یہاں کام کر رہا ہے جب سے اُس نے ہوش سنبھالا۔
کان کے اندر سے نمک لانے والی ٹرالیوں کا منظر بھی دیدنی تھا۔ پہلے چیتے کی آنکھوں جیسی روشنی دکھائی دی پھر ان کی آواز سنائی دی۔ غار کے لمبے دھانے سے پہلے ایک ٹریکٹر نمودار ہوا اور پھر اس کے پیچھے ٹرالی۔ جوں جوں وہ قریب آ رہے تھے میرا خوف بڑھتا جا رہا تھاکہ یہ اب کسی دیوار سے ٹکرائی کہ اب ٹکرائی۔ لیکن لائقِ ستائش تھا وہ ماہر ڈرائیور جو بھرپور اعتماد اور ہنرکا مظاہرہ کرتے ہوئے کامیابی سے ہمارے سامنے سے گذر گیا۔
نمک کے اس شہر میں ہم نے دمہ کے مریضوں کے لئے بنایا گیاا یک خصوصی ہسپتال بھی دیکھا۔ بتانے والوں کے بقول اس ہسپتال میں رہنے والے دمہ کے مریض چند ہفتوں میں ہی اپنی بیماری سے نجات حاصل کر لیتے ہیں۔
تھکن سر کے بالوں سے چلتی ہوئی پیروں کے ناخنوں تک پہنچ گئی تھی مگر دل یہاں سے نکلنے پر راضی نہ تھا۔ جسم کا ہر انگ یہی تقاضا کر رہا تھا کہ یہاں کوئی ایک کمرہ ہو جہاں بیٹھ کریادِ الہی اور تصنیف و تالیف میں وقت گذار وں۔ بس اور کچھ نہیں۔
ہر جگہ ،ذی حیات اور شے کا ایک دوسرے سے بچھڑنے کا وقت مقرر ہے۔ یہ وقت بن بتائے چپکے سے سامنے آن کھڑا ہوتا ہے اور انسان کچھ نہیں کر پاتا بس اُس کی انگلی تھامتا ہے اور چل پڑتا ہے اُس کے ہمراہ۔ اس دیو مالائی جگہ سے اجازت لینے کا وقت آ پہنچا تو ہم اُس کا ہاتھ تھامے اُس کے ہمراہ ہولئے۔
شام ہونے کو تھی اور ہم اپنی نئی منزل راول پنڈی کی طرف گامزن تھے۔ گاڑی میں تھکا ہوا ٹولہ ایسے گوشے تلاش کر رہاتھاجہاں انہیں سستانے کاموقع ملے۔ میرے اپنے جسم کا رواں رواں درد سے آہیں بھر رہا تھا۔ میں نے یہ کلیہ ایجاد کر لیاتھا کہ جب ایسی صورتِ حال ہو تو اپنی توجہ کا اینٹیناباہر کی طرف کر لیتا تھا۔ عابد صاحب بھی کم تھکے ہوئے نہ تھے اور انہیں تو ابھی پنڈی تک جاگنا تھا۔ اس لئے انہوں نے بھی ایک کلیہ ایجاد کر رکھا تھا۔ وہ یہ کہ باتوں میں مصروف رہیں۔ اس لئے ایسے موقعوں پر وہ مجھ سے کوئی نہ کوئی سوال ضرور کرتے تھے۔ چنانچہ آج بھی انہوں نے خود کو مصروف رکھنے کے لئے سوال برائے سوال کیا۔
’’اچھا بھائی جان دیکھئے کہ سکندر ایک عظیم بادشاہ تھا، بڑا سمجھدار تھا۔ چونکہ وہ خود سمجھدار تھا اس لئے اس کے گھوڑے بھی سمجھدار تھے۔ جو انہوں نے پہاڑوں کو چاٹنا شروع کر دیاتھا۔“
میں نے جواب دیا،
”ہاں لیکن اصل سمجھدار تو وہ تھے نا جنہوں نے گھوڑوں کے اس عمل کو دیکھ کر اُسے نظر انداز نہیں کیا۔“
”یہ تو ہے۔۔۔لیکن بھائی جان اسکندر اگر اتنا دانا اور طاقتور حکمران تھا تو اُس نے اسلام نافذ کیوں نہیں کیا۔۔“
عابد نے سوال کیا کیاتوپ داغ دی۔
میں نے ہنستے ہوئے جواب دیا، ”اسلام۔۔۔۔۔“
اور پھر مجھے تاریخوں کے ساتھ حوالے دے کر پوری تاریخ سمجھنا نا پڑی۔
اس ساری گفتگو نے مجھے یہ سوچنے پر ضرور مجبور کیا کہ وہ کون سی وجوہات ہیں کہ ہم چاہے پڑھے لکھے ہوں یا ان پڑ ھ اندر سے اسلام کا نفاذ چاہتے ہیں۔لیکن نہیں کر پاتے مگر کیوں۔ تو اس کا جواب یہی سمجھ آتا ہے کہ ہمارے مذہبی رہنماؤں نے ہمارے اندرایک خوف سا بٹھا دیاہے۔ اور ہم اس سے دور رہنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ چونکہ ہمارے مذہبی رہنماؤں کے ہاں سمجھوتہ نام کی کوئی شے نہیں اس لئے ہم بھی سمجھوتہ کے قائل نہیں۔ دوسرا یہ کہ ہم اسلام کو دوسروں پر تو نافذ کرنا چاہتے ہیں مگر خود پر نہیں۔
ہم سیمنٹ فیکڑیوں سے کافی آگے نکل آئے تھے۔ میں کھڑکی سے باہر نظریں لگائے سوچوں میں مگن تھا اور عابد سڑک پر نظریں جمائے سوچوں کی گھتھیاں سلجھانے میں لگا ہوا تھا۔ اُس کا بار بار ٹشو سے چہرہ صاف کرنا اور سیٹ پر ہلنا جلنا۔ یہ سب حرکتیں اس کی بے چینی کو ظاہر کر رہی تھیں۔ مجھے پتہ تھاوہ میری بتائی ہوئی تاریخ کے اوراق میں الجھا ہوا ہے۔میں بھی بے چین تھا اور الجھاہوا تھا، آخر ایسا کیوں ہے؟ سینکڑوں میل تک پھیلایہ علاقہ معدینات کی دولت سے مالا مال ہے۔ جگہ جگہ معدنیات نکالنے والی مشینیں اور مزدور کام کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن معدنیات کے اس عروس البلاد میں بھی مزدورغریبی اور مفلسی کا شکار ہے۔ مزدوریہاں معدنیات کی دنیا، گویا سونے کی دنیا میں بھی بے گھر ہے، بے آسرا ہے، نانِ شبینہ کو ترستا ہے اور ٹھیکیداروں کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہے۔ آئے دن ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں جس میں مزدور کانوں کے ملبے میں دب کر جان دے دیتے ہیں۔ایساکیوں ہے؟ حاکم حاکم کیوں ہے؟ ٹھیکدار ٹھیکیدار کیوں ہے اور مزدور مزدور کیوں۔ ان حاکموں کے، ان ٹھیکداروں کے پیٹ اتنے گہرے کیوں ہیں جو بھرنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ کیاظلم کرتے ہوئے انہیں اپنی قبر یاد نہیں آتی کہ جہاں خالی ہاتھ جانا ہوگا۔ کیایہ سکندر سے زیادہ مضبوط ہیں جوزندگی کی بھیک مانگتا ہو ا مرا۔ ایک دفعہ میں نے ایک صاحب سے جب اس طرح کی باتیں کیں تو اُس نے کہا۔
”موت کا تو ایک دن مقرر ہے۔“
ہاں مقرر ہے لیکن اس کے لئے تو دعا کی جاسکتی ہے کہ موت اچھے طریقے سے آئے۔ موت کی دعائیں مانگتے ہوئے نہ آئے اور ایسا وقت نہ آئے جب ہم موت کو حیات پر ترجیح دینے لگیں۔ پھر جواب ملا،
”جو قسمت میں لکھا ہے وہی ہوگا۔“
یہ وہ آخری جملہ ہے جسے ادا کر کے ہم اپنی ساری ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہو جاتے ہیں۔ چلو جو قسمت میں لکھاہے وہی ہو گا۔ مان لیتے ہیں لیکن کیا ہم اس قابل ہیں کہ اگلے جہان جا کر نوری اور ناری مخلوق کو اپنامنہ دکھا سکیں۔ جب ہماری روح پر سے فنائیت کے پردے ہٹ جائیں گے اور ہمارے سامنے بھید اس طرح کھل جائیں گے جس طرح ہم روز آسمان کو کھلا دیکھتے ہیں تو کیا ہم اس پاک مخلوق کاسامنا کر پائیں گے۔ نہیں اس وقت ہم چھپناچاہئیں گے لیکن ہمیں چھپنے کے لئے کوئی جگہ نہیں ملے گی۔ہر شے، ہر جرم،ہر خطا، ہمارے سامنے آ کر کھڑی ہوجائے گی۔ میرا یقین ہے کہ وہ جھیل بھی سامنے آئے گی جس کو آلودہ کرنے میں ہم نے اپنا گھناؤناکردار ادا کیا،وہ بے گناہ پرندہ بھی ہمارے سامنےکھڑا ہو کر چلائے گاجسے ہم نے محض اپنے مزے کے لئے مار دیااور وہ شخص تو ہمار اگریبان ضرورپکڑ ے گا جس کو ہم نے اُ سکی مجبوریوں کا قیدی بنائے رکھا۔
اک نوالے کے لئے میں نے جسے مار دیا
وہ پرندہ بھی کئی روز کا بھوکا نکل
سورج دھرتی کی اوٹ میں چھپ رہا تھا،آسمان پر پرندوں کی واپسی شروع ہو گئی تھی۔ میں نے کھڑکی کا شیشہ نیچے کیا تو باہر دو آوازیں تھیں ایک ہماری گاڑی کی اور دوسری گھروں کو جاتے پرندوں کی۔ جو یا تو گھروں کو لوٹتے ہوئے خوشی کا اظہار کر رہے تھے یا پھر اپنے ساتھیوں کو اکٹھا کر رہے تھے۔ میری بائیں جانب کٹاس کے کھنڈرات پر کسی دوسری مخلوق کی حکمرانی شروع ہو چکی تھی۔ خاموش کھنڈرات مجھے چیخ چیخ کر سنا رہے تھے۔ ہم پکار ہیں کسی مستانہ کی، ہم مورت ہیں کسی دیوانہ کی، ہم میں اور تم میں کیا فرق ہے، تم لباس میں ہو اور ہم بے لباس ہیں، تمہاری دھڑکنیں رواں دواں ہیں اور ہم تھمی ہوئی رفتار ہیں، تم بے قرار ہو ہمیں قرار ہے، مگر ہم تم ہیں ایک ہی، تم اندر سے ٹوٹے ہم بھی اندر سے ٹوٹے، ہم بے لباس تم سوچوں میں عریاں، ہم کھوکھلے تم بھی کھوکھلے، ہم باہر سے شان دار تم بھی باہر سے وضح دار،ہم اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار تم بھی ردائے بیکار، ہم بھی نئے پلستر کے نیچے بے نشان، اور تم بھی نت نئے نقابوں کے باوجود بے نقاب، ہمارا بھی کل مٹی اور تمہارا بھی کل مٹی۔


______________________
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: سفرنامہ ’’ پریوں کی تلاش ‘‘ چودہویں قسط از وارث اقبال

Post by چاند بابو »

بہت خوب محترم چودہویں قسط شائع کرنے پر آپ کا بہت شکریہ۔
پڑھ کر مزہ آ گیا، آپ کا طرز تحریر بہت نکھرا ہوا ہے۔
شئیرکرنے کا بہت بہت شکریہ۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Post Reply

Return to “نثر”