.۔۔۔ سرکٹا۔۔۔۔

اردو کے منتخب افسانے یہاں شیئر کریں
Post Reply
انور جمال انور
کارکن
کارکن
Posts: 119
Joined: Wed Sep 26, 2012 12:08 am
جنس:: مرد

.۔۔۔ سرکٹا۔۔۔۔

Post by انور جمال انور »

... سرکٹا...

آوارہ کتوں کا خوف ہی کیا کم تھا کہ اب ایک سرکٹا بھی بستی میں گھس آیا تھا..
یہ بستی ویسے ہی بیس پچیس گھرانوں پر آباد تھی جہاں شام ڈھلتے ہی گھپ اندھیرا ہر شے پر یوں کالا رنگ چڑھا دیا کرتا کہ آدمی کو نہ بھی ڈرنا ہو تو ڈرے..
گلی میں کھیلتے کودتے بچے اب شام سے پہلے ہی گھروں کو لوٹ آتے. سرکٹے انسان کو سب سے پہلے آصف نے دریافت کیا تھا یعنی دیکھا تھا... وہ ہم بچوں میں سب سے دراز قد اور طاقتور تھا. یوں سمجھیں ہمارا لیڈر تھا..
آصف نے ہمیں بہت سے کمالات سکھائے تھے مثلاً،، جادو،، یعنی یہ جادو کہ آپ ایک سے نو تک کے درمیان کوئی سی بھی رقم سوچ لیں،،، سوچ لیا؟ اب آپ نے جو بھی رقم سوچی ہے اتنی ہی رقم اپنے دوست کی بھی شامل کر لیں، دونوں کو جمع کر کے اس میں میرے بھی دس روپے ملا لیں،، ٹھیک ہے؟ اب ٹوٹل رقم میں سے آدھی رقم فقیر کو دے دیں اور دوست کے جو پیسے شامل کیے تھے وہ اسے واپس کر دیں... اب میں جادو سے آپ کو بتا سکتا ہوں کہ آپ کے پاس پانچ روپے بچے ہیں.
ہاہاہا.... دیکھا... پانچ روپے ہی بچے ہیں ناں...
میں اپنی جماعت کا سب سے ذہین طالب علم تھا اور اس وقت ہم سب چھٹی جماعت میں تھے. اس سے آپ ہماری عمروں کا اندازہ لگا سکتے ہیں. تاہم آصف تھوڑا سا بڑا تھا. اس کی وجہ اس کا پچھلی جماعتوں میں ایک سے زیادہ مرتبہ فیل ہونا تھا.
آصف نے مجھے کئی اور بھی جادو کی باتیں بتا رکھی تھیں، وہ خاص طور پر مجھے ہی انتخاب کرتا جب اسے کوئی دلچسپ بات بتانی ہوتی.... اسکول میں ہمارا ساتھ تو رہتا ہی،، مگر چھٹی کے بعد بھی ہم ایک دوسرے سے جدا نہ ہو پاتے تھے.. یہاں،، ہم،، سے مراد آصف ہی کو لیں... کہ مجھے تو گھر جانے کی جلدی ہوتی تھی مگر وہی مجھے بکری کے بچے کی طرح ادھر ادھر لیے لیے گھومتا..

صفحہ نمبر 2

اسکول سے باہر آکر سب سے پہلے تو ہم اس درخت کے پاس جاتے جس پر شہد کی مکھیوں نے بڑا سا چھتا بنایا ہوا تھا. ہم اسے پتھر مارتے اور جب مکھیوں کے غول پیچھے پڑتے تو اندھا دھند بھاگتے،، دگڑ، دگڑ، دگڑ،، اور ساتھ ہی ساتھ ہنستے جاتے،، ہا ہا ہا،،، ہی ہی ہی،، جیسے کوئی بڑا کارنامہ کیا ہو.
مکھیوں کو ریس میں ہرانے کے بعد جب پلٹ کر دیکھتے تو اسکول کی عمارت بہت دور نظر آتی.. اب ہمارے چاروں طرف کھیت ہی کھیت ہوتے.. ہرے بھرے کھیت، لہلہاتی فصلوں والے کھیت اور پگڈنڈیوں کی تیڑھی میڑھی لائنیں اور ان لائنوں کے کنارے کنارے سایہ دار درخت.. ان درختوں کے نیچے ہر وقت ہوا چلتی رہتی، ٹھنڈی ٹھنڈی اور فرحت بخش خوشبو سے معطر ہوا،،
آصف کہتا تم تھک گئے ہو، کچھ دیر یہیں بیٹھ جاتے ہیں دیکھو تمہارا چہرہ لال ہو رہا ہے، مجھے معلوم تھا تیز دوڑنے کے سبب میری سانسیں پھول جاتی تھیں اور چہرے کا رنگ لال ہو جاتا،، ہونٹ تو ہمیشہ ہی سرخ رہتے تھے،، شاید مجھے بتانا چاہئیے کہ میں حد سے زیادہ پر کشش تھا ان دنوں..
ہم کسی پیڑ کی چھاؤں میں بیٹھ جاتے، سامنے دور گلاب کے پودے نظر آتے جن کی ٹہنیوں پر آدھ کھلی کلیاں ہوا کے زیر اثر جھومتی ہوئی تبسم فرماتیں تو دل خوامخواہ کسی کا منہ چومنے کے لیے بیقرار ہو جاتا،، ایسا آصف کا کہنا تھا.. شاید انہی کلیوں کی حوصلہ افزائی سے ہمت پا کر ہی ایک دن اس نے مجھے اپنے قریب تر کرنے کی کوشش کی تھی اور میں نے اسے زور کا تھپڑ مار دیا تھا. اس مشینی تھپڑ کے پیچھے کسی قسم کا غصہ تو کارفرما نہیں تھا البتہ خوف حد سے بڑھا ہوا تھا.. میں ڈر گیا تھا،، میں تو وہ تھا جو کسی کی بھرپور نگاہ سے بھی کانپ جایا کرتا تھا...
آصف مجھے بے یقینی سے تک رہا تھا. ایسا تھپڑ اگر وہ مجھے مارتا تو شاید میں مر ہی جاتا،،. میں کمزور تھا اس کے آگے،،، بہت کمزور،، اسکول میں جس بچے سے بھی میرا جھگڑا ہوا اس سے ہمیشہ مار ہی کھائی.. مگر آصف سے دوستی کے بعد اب کسی کی ہمت نہ ہوتی تھی کہ مجھ سے پنگا لے.. مگر آج میری اور اس کی دوستی ناگہاں ٹوٹ گئی تھی... میں ڈبڈبائی آنکھوں سے گھر واپس آیا..

صفحہ نمبر 3

اگلے روز وہی کلاس تھی، وہی سارے کلاس فیلو، وہی ہمارے غصہ ور استاد جی اور وہی کتابوں کے مشکل مشکل اسباق.. بس ایک چیز معمول سے ہٹ کر تھی اور وہ یہ کہ میں اور آصف ایک دوسرے سے بہت دور بیٹھے تھے، یوں کہنا چاہئیے کہ میں ہی اس سے دور بیٹھا تھا کیونکہ وہ تو اپنے ہی ڈیسک پر تھا اور اس نے میرے لیے جگہ بھی بچا رکھی تھی.
اس دن اسکول میں سب کو پتہ چل گیا کہ ہم ایکدوسرے سے روٹھے ہوئے ہیں.
اب میں اسکول سے چھٹی ہوتے ہی گھر واپس آجاتا. گلاب کے پھولوں کا تو پتہ نہیں مگر شہد کی مکھیاں ہماری لڑائی سے کافی سکون میں تھیں. وحید اب میرا نیا دوست تھا، ہم دونوں ہمسائے تھے ایک ساتھ اب اسکول آتے اور جاتے پھر شام کو بڑے میدان میں جا کر گلی ڈنڈا کھیلتے،، وحید میں بس ایک ہی بری عادت تھی، وہ راستہ چلتے ہوئے ہمیشہ ایک بازو میری گردن میں حمائل رکھتا اور اس،، دلخراش،، منظر کو دیکھ دیکھ کر آصف جل جل کر کوئلہ ہوتا جاتا..
بڑے میدان میں بستی کے سارے ہی بچے شام کو جمع ہوتے تھے جو اتنا غل غپاڑہ کرتے کہ بس ہٹو بچو،، یہ شور عموماً امرودوں کے باغ کی حفاظت کرنے والے کتوں کو پسند نہ آتا اور وہ اپنے لمبے لمبے دانت نکال کر ہم پر بھونکتے اور کاٹنے کو آتے..
ان کتوں کا بھی ایک سردار تھا، وہ بھورے رنگ کا بھاری بھرکم کن کٹا کتا تھا جس کا ایک کان شاید کسی گھمسان کی رن میں شہید ہو چکا تھا،، سب سے پہلے اسی کو غصہ آتا تھا پھر اس کی سربراہی میں دوسرے کتے بھی ہم پر حملہ آور ہو جاتے.. اس ایک کان والے بھورے کتے کے خلاف ایک بار میں نے اور آصف نے منصوبہ بھی بنایا تھا کہ اسے کیوں نہ زہر دے کر مار دیا جائے مگر پھر یہ نہ معلوم ہو سکا کہ زہر ملتا کونسی دکان پر ہے.
ان پاگل کتوں کا خوف اپنی جگہ مگر اب اس سرکٹے انسان نے تو گویا جان ہی نکال دی تھی، بچے بری طرح دہشت زدہ ہو گئے تھے.. اسے سب سے پہلے آصف نے دیکھا تھا.

صفحہ نمبر 4

آصف نے اسے کہاں دیکھا تھا؟ کس وقت دیکھا تھا؟ اور کیوں دیکھا تھا؟ کیا واقعی اس کا سر نہیں تھا؟ تو پھر وہ زندہ کیسے تھا اور کیسے چل پھر رہا تھا؟ ان سب سوالوں کے جواب کے لیے مجھے مجبوراً اس سے ملنا پڑا،،،
اس سے یعنی آصف سے،، سرکٹے سے نہیں.. حالانکہ سر کٹے کے پاس زیادہ بہتر جوابات ہو سکتے تھے.
آصف بولا میں ایک شرط پر تمہیں اس شیطان کے بارے میں معلومات دے سکتا ہوں اور اس سے بچنے کے طریقے بھی بتا سکتا ہوں اور وہ شرط،، یہ تھی وحید کا ساتھ چھوڑ کر ایک بار پھر اسے دوست بنا لوں..
میں راضی ہو گیا کیونکہ کسی سر کٹے کا ہماری بستی میں آ نکلنا کوئی معمولی واقعہ تو نہیں تھا، اگر آصف نے اسے دیکھا تھا تو اس سے نجات بھی وہی دلا سکتا تھا،، اس کی نانی اور بڑی پھپھو تعویز گنڈے کیا کرتی تھیں..
ہم بچوں کی ٹولی آصف کے ہمراہ چل پڑی،، بڑے میدان کے دوسرے سرے پر ایک ویران گھر کے سامنے ہم کھڑے تھے،، اس ویران مکان کے بارے میں پہلے ہی مشہور تھا کہ یہ آسیب زدہ ہے....
سرکٹا یہیں ہے،، آصف نے اعلان کیا، مگر ڈرنے کی بات نہیں،، دن کے وقت وہ سو رہا ہوتا ہے، کیا تم میں سے کوئی اسے دیکھنا چاھے گا؟
ہم سب کے تو رونگٹے کھڑے تھے،، تصور میں دیکھ سکتے تھے کہ ایک آدمی چپ چاپ سو رہا ہے اور اس کا سر غائب ہے.

سب سے پہلے محمود پلٹ کر بھاگا،، اس کے بعد ہم سب یوں دوڑے جیسے سرکٹے کی نیند پوری ہو چکی ہو اور اب اسے ایک عدد بچہ ناشتے کے لیے چاہئیے ہو،،

صفحہ نمبر 5

میں آصف کی بہادری اور معلومات کا سخت معترف ہو چکا تھا، ہم شہد کی مکھیوں کو ایک بار پھر چھیڑنے لگے اور جب دوڑتے دوڑتے نڈھال ہو جاتے تو گلاب کے پودوں کے نزدیک ہی کہیں کسی پیڑ کے سامنے گر جاتے، پھر دیر تک سر کٹے کے بارے میں بات کرتے، پھر گلاب کے پھول توڑ لاتے، انہیں سونگھتے اور سونگھتے سونگھتے بے قابو ہو کر ایک دوسرے کو چومنے لگتے،،،
سر کٹا ہماری جان چھوڑنے کو تیار نہیں تھا، بڑے میدان میں کھیلتے پا کر وہ کئی بار ہمارے پیچھے آیا،، اس ویران مکان سے ایک ہیولہ سا نکلتے دکھائی دیتا،، ظاہر ہے ان دنوں سردیاں تھیں، دھند ہر وقت چھائی رہتی تھی تو سر کٹا واضح طور پر کیسے نظر آتا،،
سوچتا ہوں ان دنوں ہم کتنے بے وقوف تھے کوئی بھی آسانی سے ہمیں الو بنا سکتا تھا، اور بھولپن ان دنوں ایسا کہ ہنسی آجائے،، ایک بھولے بادشاہ کا بیان سنو،، کہہ رہا تھا میں نے ایک دن سرکٹے کو دیکھا،، اس کی لال لال آنکھیں تھیں جس سے وہ گھور رہا تھا،،
بندہ پوچھے جب اس کا سر ہی نہیں تو آنکھیں کہاں سے آ گئیں،، وہ بھی لال لال... ہم بچے بھی نا....

بہرحال ان دنوں سرکٹے اور آصف کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا اور گلاب کے پھول روز بہ روز کھلتے جا رہے تھے،، پیڑوں کے نیچے یخ بستہ ہوائیں چلتیں، ہمارے گرم کپڑے ان ہواؤں کو روکنے کیلئے ناکافی ہو جاتے تو مرتے کیا نہ کرتے ایک دوسرے سے چمٹ جاتے،، اسکول سے گھر پہنچنے میں روز دیر ہو جاتی اور روز ابا سے مار پڑتی،،، خیر ابا سے مار کھانے کے لیے اسکول سے لیٹ ہونا ضروری نہیں تھا اس کے لیے ہزار بہانے تھے، شفقت اور رحم جس چڑیا کا نام تھا وہ میرے گھر میں تو ہرگز نہیں تھی .. مجھے یاد ہے ابا نے کبھی گود میں لے کر پیار نہیں کیا تھا، بات بے بات وہ دھتکارتے اور مارتے،،

صفحہ نمبر 6

آصف کی نانی نے اسے ایک تعویذ پہنا دیا تھا جو سرکٹے کے علاوہ ہر طرح کی بلاؤں سے محفوظ رکھنے کے لیے کافی تھا. آصف نے ایک دن ہم سب بچوں کو جمع کر کے کہا کہ تعویذ کو سب باری باری ہاتھ سے چھوئیں اور اسے سرکٹے کے مکان کے باہر زمین کھود کر دفنا دیں تاکہ وہ یہاں سے چلا جائے.
ہم سب نے یہی کیا،، تعویذ کو دفنا دیا اور انتظار کرنے لگے،،
کہتے ہیں جس چیز کی بہت زیادہ آرزو کی جائے اللہ تعالیٰ اس کے لیے اسباب بنا دیتے ہیں.
سرکٹے پر تعویذ کا تو کچھ بھی اثر نہ ہوا البتہ اللہ کریم نے بستی میں ایک نئے لڑکے،، زلفی،، کو بھیج دیا.
زلفی شہری بابو تھا. کسی کے گھر مہمان آیا ہوا تھا. ہم بچوں کو حیران کرنے کے لیے اس کے پاس درجنوں آئٹم تھے. مثال کے طور پر کراٹے، ہائی جمپ، الٹی کلابازی اور ڈسکو ڈانس وغیرہ.. ہمارے فرشتوں کو بھی ان چیزوں کا نہیں پتہ تھا. وہ ایک دن بڑے میدان میں آیا تو اس کا آصف سے پھڈا ہو گیا.. ہماری آنکھوں کے سامنے زلفی نے آصف کو کھینچ کے کراٹے مارا اور اسے پچھاڑ دیا. آصف کی سب بہادری دھری کی دھری رہ گئی،، وہ مٹی چاٹ رہا تھا..
بچوں نے زلفی سے سرکٹے کی شکایت کی تو وہ قہقہہ مار کر ہنسا.. کوئی سرکٹا نہیں ہوتا،، وہ کہہ رہا تھا،، اگر کوئی ہے بھی تو میں اسے بھی کراٹے مار کر بھگا دوں گا. پھر وہ ہمیں لے کر بڑے میدان کے اس پار گیا اور آوازیں دینے لگا،، اگر کوئی سرکٹا ہے تو باہر آئے اور مجھ سے مقابلہ کرے، وہ چیخ چیخ کر چیلنج کر رہا تھا. ہماری تو سانسیں رکی جا رہی تھیں..
دیکھا کوئی سرکٹا نہیں ہے.. یہ سب باتیں ہوتی ہیں، وہ ہمیں یقین دلا رہا تھا اور واقعی کافی دیر بعد بھی وہ بلا باہر نہ نکلی تو بچوں کو بڑی مایوسی ہوئی..
ایک ہی دن میں بستی کی کایا پلٹ چکی تھی. بستی کا ہیرو زیرو اور ولن یعنی سرکٹا رفو چکر ہو چکا تھا.. لے دے کر ایک بھورا کن کٹا کتا ہی بچا تھا اسے بھی زلفی نے ایسی زوردار کک ماری کہ وہ چیاؤں چیاؤں کرتا اپنا لاؤ لشکر لے کر بھاگ نکلا.. اب میدان بالکل صاف تھا. سب بچوں نے زلفی کے ہاتھ پر ان دیکھی بیعت کر لی.. اب وہ ہمارا نیا ہیرو تھا...
پھر باغوں میں نئے پھول کھلنے لگے. شہد کی مکھیاں تازہ شہد کا ذائقہ متعارف کرانے لگیں اور درختوں کے سائے کسی نئے فرشتے کے پیار سے متاثر ہو کر مزید گہرے ہونے ہی والے تھے کہ میں نے دیکھا اگلے روز اسکول میں آصف کس طرح بالکل آخری کونے میں منہ لٹکائے بیٹھا ہے. مجھے اس پر بڑا ترس آیا. اس کی آنکھیں دیکھ کر کوئی بھی جان سکتا تھا کہ وہ رات بھر روتا رہا ہے. خوامخواہ خود کو حقیر محسوس کر رہا تھا.
یہ آصف وہ لڑکا تھا جس کے والدین بچپن میں ہی گزر گئے تھے. وہ مجھ سے کہا کرتا،، تمہارے ابو بہت مارتے پیٹتے اور گالیاں دیتے ہیں تو کیا ہوا،، وہ ہیں تو سہی،،
شاید وہ یہی سوچ کر رویا بھی ہوگا کہ آج اگر اس کے والد زندہ ہوتے تو وہ بھی شہر جا کر کراٹے سیکھ سکتا تھا.
جب اسکول سے چھٹی ہوئی اور وہ مجھے نظرانداز کر کے جھکے سر اور دل شکستہ قدموں کے ساتھ اپنے گھر کی طرف جانے لگا تو میں دوڑ کر اس کے پیچھے گیا اور ساتھ ساتھ چلنے لگا،
کیا ہوا ہے تمہیں؟ میں نے اسے پکارا مگر وہ کچھ نہ بولا، شاید اب اس کے آنسو آنکھوں کی بجائے حلق میں گر رہے تھے اور میں محض ایک میٹھی مسکراہٹ سے اسے دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ یہ سرکٹے کے نام پر مجھے بیوقوف بنانے والا خود کتنا بدھو ہے. اسے معلوم ہی نہیں کہ میں تو بہت پہلے سے جانتا ہوں کہ ایسی کوئی بلا صرف خیالوں میں ہوتی ہے.
اور جہاں تک کراٹے کا سوال ہے تو ضروری تو نہیں کہ ہر شخص ہر چیز ہی سیکھے..
_________________
انور جمال انور
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: .۔۔۔ سرکٹا۔۔۔۔

Post by چاند بابو »

اچھا افسانہ ہے مگر تھوڑا عجیب ہے۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Post Reply

Return to “اردو افسانہ”