سفرنامہ ’’ پریوں کی تلاش‘‘ تیرہویں قسط از وارث اقبال

اردو نثری قلم پارے اس فورم میں ڈھونڈئے
Post Reply
وارث اقبال
کارکن
کارکن
Posts: 69
Joined: Wed May 30, 2012 10:36 am
جنس:: مرد

سفرنامہ ’’ پریوں کی تلاش‘‘ تیرہویں قسط از وارث اقبال

Post by وارث اقبال »

شیو کے آنسو کی بازگشت وارث اقبال
خود فریبی سی خود فریبی ہے
پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے
اب توہوتا ہے ہر قدم پہ گماں
ہم یہ کیسا قدم اُٹھانے لگے
اس بدلتے ہوئے زمانے میں
تیرے قصے بھی کچھ پرانے لگے
ایک پل میں وہاں سے ہم اٹھے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے
(باقی صدیقی)
براستہ موٹروے اسلام آباد کی طرف سفر کرنے والے جب بھیرہ سے آگے پہنچتے ہیں تو انہیں پہاڑوں کا ایک نہ ختم ہو نے والا سلسلہ دیوار کی مانند دھندلا سادکھائی دیتا ہے۔ جوں جوں سفر آگے بڑھتا ہے ان پہاڑوں کے نقوش واضح ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور پھر یہ پہاڑ مختلف روپ دھارے کسی شاطر اور ماہر اداکاروں کی طرح یکے بعد دیگرے سامنے آتے اور غائب ہوتے رہتے ہیں۔ شروع میں آنے والے بنجر، اُداس اور بھورے لباس میں ملبوس یہ پہاڑ مسافر پر اداسی کی ایک دھند طاری کر دیتے ہیں مگر پھرسر سبز لباس زیبِ تن کئے،شاداب، ہنستے مسکراتے پہاڑوں کے سلسلے مسافر کواداسی کی اس دھند سے باہر نکال کر خوابوں کی بستی میں لے جاتے ہیں۔ ایسے میں وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ جس حسینہ کا لباس اتنا خوبصورت ہے تن کتنا ملکوتی ہوگا۔ جس کا ظاہر اتنا سحرناک ہے اُس کا باطن کتنا پُراسرار ہوگا۔ جب ان پہاڑوں کے اندر کی خوبصورتی آٹے میں نمک کے برابر بھی سا منے آ ٓتی ہے تو پھر ستائشی الفاظ کا ذخیرہ دماغ کی مٹھی سے اس طرح سرکنا شروع ہوتا ہےکہ جس طرح ہاتھ کی مٹھی سے ریت۔ لیکن قدرت کے کارخانے میں خوبصورت شاہکار ختم نہیں ہوتے۔ ایک کے بعد دوسرا اورپھر تیسر ا ۔۔۔ لگتا ہے کار خانۂ قدرت میں خام مال اور فنکار دونوں وافر مقدار و تعداد میں موجود ہیں کہ ان کی مورتیں کم ہی نہیں ہو نے پاتیں۔
انہی بدلتے رنگوں اور پُر اسرار مورتوں کو دیکھ کر انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ جنت کہیں انہی وادیوں میں چھپی ہوئی تو نہیں۔
جوں جوں مسافر آگے بڑھتا جاتا ہے ان پہاڑوں کے اندر جنت کے ہونے کا امکان بھی بڑھتا رہتا ہے۔ لیکن نہ پہاڑ اور وادیاں ختم ہوتی ہیں نہ جنت کے ہونے کا امکان ماند پڑتاہے۔ ان پہاڑوں، وادیوں اور بستیوں کے بارے میں بے انتہا قیمتی معلومات جب جستجو کے مالک شخص کے پاس آتی ہیں تو اُس کا حال اُس مزدور جیسا ہو جاتا ہے جس کے سامنے عید پر اچانک اور غیر متوقع طور پربونس کا چیک آجائے۔
یہی وہ قدیم قرۂ ارض ہے جہاں قدیم سے بھی قدیم زمانے میں سمندر کے اندرسے خشک خطہ ابھرا تھا، یہی وہ وادیاں اور پہاڑ ہیں جن کے اندر سے ڈائینوسارز کی طرح کے جانوروں سمندری مخلوق کے فوسلز اور ہڈیاں ملی تھیں۔ یہی وہ زمین ہے جہاں دنیا کی قدیم ترین تہذیب نے جنم لیا تھا۔
یہی وہ زمین ہے جہاں انواع و اقسام کی معدنیات کے ساتھ ساتھ نمک کا سب سے بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ یعنی اسی علاقہ میں نمک کی کانوں کی وجہ سے مشہور علاقہ کھیوڑہ موجود ہے۔ یہی وہ زمین ہے جہاں ہندو دھرم چند اشلوکوں سے نکل کرایک دھرم اور تمدن بن گیا۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں ہندوؤں کے ایک اہم تہوار شیورارتی کی وجوہات پیدا ہوئیں۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں شیوکا ایک آنسو موجود ہے۔یوں میرے سامنے دو منازل تھیں۔۔ایک شیو کا آنسو اور دوسرا کھیوڑا ۔۔۔جہاں تھیں نمک کی کانیں۔
پی ٹی ڈی سی کے ہوٹل کے ساتھ گھر جیسا تعلق بن گیاتھا۔ ہم دل والوں میں یہی خرابی ہوتی ہے جس سے ہاتھ ملایا اُسے اپناجگر سمجھ لیا اور جس چھت کے نیچے رات بتائی اُسے گھر سمجھ لیا۔
دل پر پتھر رکھا، کمرے کے رُخِ زیبا کے دو تین دیدار کئے اور آشنا لوگوں سے سلام دعا کے بعد نئی منزل کی طرف گامزن ہوئے۔
موٹر وے کے پیٹ کے نیچے سے گزرے تو ایک بوسیدہ کچی پکی سڑک نے خوش آمدید کہا۔ کہنے کو تویہ سڑک تھی لیکن دیکھنے کو نہر جیسی پکڈنڈی۔سڑک کے ارد گرد باغات نے ماحول کو خوشگوار بنائے رکھا تھا۔ لیکن کچھ دور جا کر یہ باغات ختم ہو گئے اور سڑک نے بھی نیا روپ دھار لیا۔ یہاں سے سڑک کی تعمیر کا پہلا مرحلہ شروع ہوا تھا کیونکہ سڑک پر بجری ڈالی گئی تھی۔ بجری پر گاڑی اسی طرح چل رہی تھی جس طرح کوئی شخص ننگے پاؤں کانٹوں پر چل رہا ہو۔ کچھ دور جا کر سڑک پھر اپنے پرانے روپ میں آ گئی۔۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کھیوڑہ تک سڑک کی یہی کیفیت تھی۔ پیچھے مڑناتو سیکھا ہی نہیں تھا اس لئے چلتے رہے۔
بچپن میں ہم اپنے ماموں کے پاس لیہ موسمِ سرماکی چھٹیا ں گزارنے جایاکرتے تھے۔ فیصل آباد سے چلنے والی بس ہمیں ٹرکو اڈا پر اتارتی۔ جہاں ہم اونٹوں پر بیٹھ کر گاؤں جاتے۔ اونٹ پر ایک کرسی بنی ہوتی تھی جسے کچاواکہا جاتا تھا۔ ایک کچاوے میں دو لوگ بیٹھتے تھے۔ اس پر سفر اس طرح ہوتا تھا کہ آگے پیچھے، آگے پیچھے۔ یعنی سوار آگے پیچھے آگے پیچھے مسلسل ہلتا رہتا۔ یوں چلتے چلتے دس بارہ میل کا سفر کٹ جاتاتھا۔ آج بھی مجھے اسی طرح لگ رہاتھا جیسے میں کچاوہ میں بیٹھا ہوں۔میں نے بچوں کو اپنا تجربہ بتایا تو انہوں نے بھی اونٹ کی سواری کی خواہش کا اظہار کیا لیکن نہ اونٹ میسر تھانہ کچاوا۔ میں نے کہا کہ اپنی گاڑی کو ہی اونٹ سمجھو۔ عابد نے اسٹیرنگ چھوڑ دونوں ہاتھ نہ کے لئے بلند کرتے ہوئے جھٹ کہا۔
”نہ بھائی جان نہ، میں اونٹ چلانے والا نہیں بن سکتا۔ اونٹ تو کاٹتا بھی ہے۔“
میں نے ہنستے ہوئے جواب دیا،
”اس کامطلب ہے کہ اب اونٹ کی سواری تم پر واجب ہے۔“
زین کو تو موقع خدا دے وہ بولا،
”واہ جی واہ! رہتے گاؤں میں ہیں اور اونٹوں سے ڈرتے ہیں۔“
شاہ زیب نے بھی کمان کستے ہوئے تیر پھینکا،
”ویسے انکل آپ نے اونٹ کا دودھ تو پیا ہو گا۔“
عابد کے لئے دونوں حملے پسپا کرناکافی مشکل تھے۔
”او بھائی ہمارے گاؤں میں اونٹ نہیں ہوتے گائے بھینسیں ہوتی ہیں۔“
”اچھاتو وہ جو آپ پٹھانوں کے گھر جایاکرتے تھے۔“
زین کے اس با حوالہ حملہ پر عابد کچھ دیر خاموش ہو گئے۔ مجھے لگا جیسے یاد کر رہے ہوں کہ شاید کبھی اونٹ کا دودھ پیا ہی ہو۔
میری مسز بھی سونف کو نگلتے ہوئے اس جنگ میں شریک ہو گئیں۔
” اور اگر کبھی کسی نے گدھے کا دودھ پیا ہو تو۔“
یہ ایک بڑا حملہ تھا جس کا ہدف سیدھا سیدھا میں تھا۔ اس سے پہلے کہ میں جواب دیتا زین نے فوراً کہا۔
”یخ۔“
میں اور حملہ پسپا نہ کروں، میں نے بھی بحث مباحث کے اصولوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے کہا۔
”یار کوئی مجھے یہ بتا دے کبھی گدھا بھی دودھ دے سکتا ہے۔“
عابد نے گئیر بدلتے ہوئے فوراًً کہا۔
”لیں بھائی جان گدھا دودھ نہیں دیتا تو کیا انڈے دیتا ہے۔“
شاہ زیب دبے سے انداز میں مسکرا رہاتھا۔
’’پاپاجی گدھا نہیں گدھی تو دودھ دیتی ہے نا۔“
”یار وہ میں نے نہیں پیا تھا۔“
میں نے جواب دیا۔
”بھائی جان کہانی کیا ہے۔“
عابد نے سوال کیا۔
اب کہانی بتانا تو واجب تھا اس لئے میں اپنے بالوں کو سیدھا کرتے ہوئے بولا۔
”او یا ر! کہانی کیاہونی ہے۔ بچپن میں ہم کوئٹہ رہتے تھے۔میں اور میرے بھائی کو شدید کھانسی شروع ہو گئی جو ٹھیک نہیں ہو رہی تھی۔ ہمارے ہاں ایک پٹھان عورت کام کرتی تھی۔ اس نے امی سے کہا کہ باجی یہ کالی کھانسی ہے یہ جلدی نہیں جائے گی۔ اس کا علاج ایک دوا ہے جو ہم اپنے بچوں کو دیتے ہیں اگر آپ کہیں تو میں لا دوں۔ امی نے کہا سو بسم اللہ لا دو۔ چنانچہ وہ جودوا لائی وہ دودھ جیسی کوئی شے تھی جو میرے بھائی کو پلائی گئی اور وہ ٹھیک ہو گئے۔ بعد میں اس نے بتایا کہ یہ دوائی نہیں تھی گدھی کا دودھ تھا۔“
زین نے کہانی سنی اور ہنستے ہوئے پوچھا۔
”تو پاپا آپ کی کھانسی کیسے ٹھیک ہوئی۔“
عابد بھی نکتہ جانے نہ دینا چاہتے تھے بولے۔
”بھائی جان نے کہاں اس گدھی کا دودھ پیاتھا وہ تو اپنے بھائی کو دیکھ دیکھ کر ٹھیک ہو گئے تھے۔“
”پتہ چل گیا پاپا جی۔“
دونوں لختِ جگر ایک ہو گئے تو میں نے پسپائی اختیار کرتے ہوئے نیا موضوع شروع کر دیا۔
”آپ لوگوں کو پتہ ہے کہ بی بی سی نے 2009 میں ایک رپورٹ پیش کی تھی کہ اونٹنی کے دودھ میں انسانی جسم میں موجود بیکٹیریا ختم کرنے کی صلاحیت موجودہے۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کی ایک رپورٹ کے مطابق روس اور قازقستان میں اکثر ڈاکٹر اونٹنی کا دودھ کئی مریضوں کو علاج کے لیے تجویز کرتے ہیں۔
بھارت میں اونٹنی کا دودھ یرقان، ٹی بی، دمہ، خون کی کمی اور بواسیر کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔اور ان علاقوں میں جہاں اونٹنی کا دودھ انسانی خوراک کا باقاعدہ طور پر حصہ ہے وہاں لوگوں میں ذیابیطس کی شرح بہت کم پائی گئی ہے۔“
بچے مطمئن نہ ہوئے، شاہ زیب نے کہا۔
”لیکن گدھے کے دودھ کا کیا چکر ہے۔“
”لیکن بیٹا بیماری میں تو کچھ چیزیں جائز ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پرانے وقتوں میں بچوں کوگلے کے انفیکشن کے لئے گدھی کا دودھ دیا جاتا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مصری حسینہ قلو پطرہ کے حسن کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ گدھی کا دودھ چہرہ پر ملتی تھی۔ باقی معلومات اس عورت کے پاس ہیں جس نے دودھ پلایا تھا۔“
میں نے جان چھڑاتے ہوئے جواب دیا۔
میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھاتھا اس لئے موسیقی پر میری اجارہ داری تھی۔ موسیقی میری دسترس میں ہو تو غزلیں نہ ہوں یہ کیسے ہو سکتا تھا۔ ناصر کاظمی کی یہ خوبصورت غزل شروع ہوئی تو میں نے والیم اونچا کر دیا۔ بچوں میں اور مجھ میں موسیقی کے حوالے سے قدرے مشترک یہ ہے کہ ہم موسیقی اونچی آواز میں سنتے ہیں۔ ویسے بھی گدھے کے دودھ کے موضوع سے نکلنے کا یہ موزوں ترین بہانہ تھا۔
اب کے سال پونم میں جب توآئے گی ملنے، ہم نے سوچ رکھا ہے رات یوں گزاریں گے
دھڑکنیں بچھادیں گے شوخ تیرے قدموں پہ، ہم نگاہوں سے تیر ی آرتی اتاریں گے
ہم تو وقت ہیں، پل ہیں، تیز گام گھڑیاں ہیں، بے قرار لمحے ہیں، بے تکان صدیاں ہیں
کوئی ساتھ میں اپنے آئے یا نہیں آئے، جو ملے گا رستے میں، ہم اسے پکاریں گے
(ناصر کاظمی)
بڑے کہتے ہیں کہ خواب ضرور دیکھنے چاہئیں، خواب دیکھیں گے، نیتیں ٹھیک رکھیں گے تو تعبیریں ملیں گی۔ ہم جیسے دیوانے بھی کیسے ہیں دولت شہرت کے نہیں فطرت اور ماضی کے قُرب کے خواب دیکھتے ہیں۔
دس سال پہلے میں اپنے دوستوں کے ساتھ کٹاس راج آیا تھا اور میں نے جاگتے میں یہ خواب دیکھا تھاکہ کاش کوئی وقت ایسا آئے کہ میں اپنے بچوں کے ساتھ یہاں آؤں۔ آج میرا خواب پورا ہونے جا رہا تھا۔
ایک بڑی سی انسانی بستی سے گذرے ہی تھے کہ کٹاس کے دُھندلے عکس واضح ہو نے لگے۔ وہی شان، وہی وجاہت جیسی میں نے سوچی تھی۔ سر سبز پہاڑوں میں موجودکھنڈرات۔۔۔۔ کسی طلسماتی دیس کی عمارات لگ رہےتھے۔ دھوپ اتنی شدید تھی کہ باہر کھڑا ہونابھی دشوار تھا۔ سکھوں کی حویلی اور پہاڑوں میں موجود غاروں پر طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے ہم اس کھنڈر کے اندر داخل ہوئے جسے کٹاس راج کہا جاتاہے۔ میرے سامنے کھنڈرات اس طرح پھیلے ہوئے تھے جیسے موسمِ خزاں میں بہت سے نیم کے درخت؛ ویران، چرنڈ مرنڈ۔۔ جیسے انہوں نے کبھی بہار دیکھی ہی نہ ہو۔ جیسے انہیں دیمک چاٹ گئی ہو، جیسے ان پر کبھی بھی کسی پرندے نے گھونسلا نہ بنا یا ہو۔۔۔ جیسے انہیں کبھی کوئی نگہبان ہی نہ ملا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بس کوئی ایسا حسین جس کو اپنے ہی کسی چاہنے والے کی نظر لگ گئی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسا قسمت کا مارا جو کسی کی آہ یا بددعا کا شکار ہو گیا ہو۔
مجھے یوں لگا جیسے یہ کھنڈر ہمیں دیکھ کر کہہ رہے ہوں،
داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے
لوگ اپنے دئیے جلانے لگے
کچھ نہ پا کر بھی مطمئن ہیں ہم
عشق میں ہاتھ کیاکیا خزانے لگے
(باقی صدیقی)
ہم ابھی مرکزی راہداری کی دوسری سیڑھی پر تھے کہ ایک گائیڈ نے ہمیں اپنی خدمات پیش کیں۔ جنہیں ہم نے قبول کر نے میں ہی عافیت جانا ۔ کچھ ہی دورایک درخت کے نیچے سندھ سے آیا ہواا یک ہندو خاندان یاترا کے بعد کھاناکھانے میں مصروف تھا۔ میں نے سامنے دائیں ہاتھ بارہ دری کا وہ حصہ دیکھا جو دس سال پہلے اس حالت میں تھا کہ ہم اس کی اوپری منزل پر بھی چکر لگاتے رہے تھے لیکن آج اُ س کا اوپری حصہ غائب تھا۔ گائیڈ کی زبان مسلسل چل رہی تھی ا ور میں ماضی کی اس بارہ دری میں کھویا ہوا تھا۔مختلف ذرائع سے حاصل شدہ ساری معلومات میرے دماغ کی جھیل پر جیتے جاگتے کرداروں کی طرح تیرنے لگیں۔
مجھے یوں لگا:
ہم گھوڑوں پر سینکڑوں میل کا سفر طے کرنے کے بعد اس ریاست کے مرکزی شہر کٹاس کے انتہائی قریب پہنچے تھے۔ جسے عام لوگ ’ست گرہ‘کہتے تھےیہ شہرسر سبز و شاداب اور فصیل نما پہاڑوں کے قدرتی حصار میں علاقہ کی اونچی جگہ پر بسایاگیا تھا۔ کئی میل تک پھیلی ہوئی فصیل اس شہر کے باسیوں کی شان و شوکت اور ہیبت و وجاہت کوظاہر کر رہی تھی۔ اس فصیل پر حفاظت کی غرض سے ہر ایک دو میل کے فاصلہ پر چھوٹے چھوٹے مینار بنائے گئے تھے۔ جہاں سے پورے علاقہ پر نظر رکھی جاتی ہوگی لیکن آج ان میں سپاہی موجود نہ تھے۔ ہر دو تین میل کے فاصلہ پر لکڑی کے دیو ہیکل دروازے تھے جو کھلے ہوئے تھے اور ان میں آمدو رفت کا سلسلہ جاری تھا۔ہم اس شہر سے کوسوں دور تھے کہ ہمیں مسلح گھڑ سواروں کے ایک دستہ نے اپنے حصار میں لے لیا تھا۔ ہر کوس پر مسلح دستہ ہمیں اگلے دستہ کے حوالے کر کے آگے چل پڑتا۔ہم جونہی مرکزی دروازہ پر پہنچے تو ہمیں بیرونی دیوار کی حفاظت پر معمور کئی مسلح گھڑ سواروں نے حصار میں لے لیا اور انتہائی عزت و احترام کے ساتھ مرکزی دروازہ تک لے گئے۔ ان کے ایک اشارہ سے مرکزی درواز ہ کھل گیا اور ہم قلعہ کے اندر داخل ہو گئے۔ وہ گھڑ سوار مسلسل ہمارے ساتھ تھے۔ قلعہ کی مختلف راہداریوں پر ہاتھیوں اور گھڑ سواروں کی آمد ورفت جاری تھی۔
مرکزی دروازے کے قریب ہی رنگین اور سنہری رتھ اپنے جو شیلے گھوڑوں اور سپاہیوں کے ساتھ اس طرح کھڑے تھے کہ جیسے جنگ میں جانے کے لئے تیار ہوں۔ ان رتھوں کو دیکھ کر مجھے یونان کے رتھ یاد آگئے۔ ان سے یہ بھی اندازہ ہوا کہ یہاں کے باسیوں کا یونان سے خاص تعلق تھا۔ ہمارے ارد گرد گھاس کے بڑے بڑے میدان تھے جن میں راہداریاں اور پھولوں کی کیاریاں بنی ہوئی تھیں۔ ان میں سے کئی میدان مختلف پھلوں کے درختوں سے بھرے ہوئے تھے۔ ہمارے سامنے ایک اور فصیل تھی جس کے پیچھے ایک خوبصورت عمارت دکھائی دے رہی تھی۔ جس کے جھروکوں کے رنگین پردے باہر کی طرف اس طرح اڑ رہے تھے جیسے اندر کسی نے پوری رفتار سے پنکھے چلا رکھے ہوں۔ قلعہ کے کافی اندر تک چلنے کے بعد گھڑ سوار لکڑی کے بنے ہوئے ایک بڑے دروازے کے سامنے رکے۔ سونے کے پرتوں میں لپٹے ہوئے اس دروازہ پر سینکڑوں چوکٹھے بنے ہوئے تھے جن میں خوبصورت نقش و نگار اور قیمتی پتھر وں سے بنی مورتیاں آویزاں تھیں۔ ان پتھروں میں زمرد حاوی تھا۔ اگرچہ ان مورتیوں کوچاندی اور سونے کا ماحول نصیب تھا لیکن ان کے اندر ایک وحشت چھپی ہوئی تھی۔ بنانے والوں نے ان کی آنکھوں میں کوٹ کوٹ کر خوف بھر دیاتھا۔ دروازہ کھلا تو سامنے نیلے رنگ کی راہداری پر زرق برق لباس میں ملبوس امرا اور اہلکار ایک لمبی قطار بنا ئے کھڑے تھے۔ انہی رؤسا و امر امیں لال رنگ کی دھوتی اور سنہری کڑھائی سے بھری ہوئی سبز چادر میں ملبوس ایک شخص ہمیں دیکھ کر آگے بڑھ آیا۔ اس کے سر سے لپٹی نارنجی پگڑی اور گردن میں لٹکتی سونے کی مالا میں پروئے ہوئے قیمتی پتھر اس کی شان اور اہمیت کا اظہار کر رہے تھے۔ وہ شان سے آگے بڑھا اور ہاتھ باندھ کر جھکتے ہوئے سلام کرنے کے بعد ہمیں بتانے لگا کہ وہ امور مہمانداری کا ذمہ دار ہے اور ہماری خدمت کے لئے معمور ہے۔
اس کے بعد اُس نے ہمارا تعارف اپنے ساتھیوں سے اور ان کا تعارف ہم سے کروایا تو پتہ چلا کہ ہمارے زیادہ ترمیزبانوں کا تعلق راجہ کے خاندان سے ہے۔ ہمیں آگے بڑھنے کا اشارہ کیا گیااور ہم اس رنگین قطار میں چلتے ہوئے محل کے ایک کمرے میں پہنچ گئے۔ یہ کمرہ کیاا یک بارہ دری تھی۔ جس کے دروازوں پر باریک پردے ہوا کے دوش پر ایک دوسرے سے اٹکھیلیاں کر رہے تھے۔
ہوا کے لئے جھروکے اس طرح بنائے گئے تھے کہ ایک کے سامنے دوسرا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے ایک جھروکہ سے داخل ہونے والی ہوا کو دوسرا جھروکہ کھینچ کر باہر پھینک رہاتھا۔ ہر دیوار اور ہر ستون آرٹ کا نمونہ تھی۔ نارنجی رنگ پر نیلے رنگ سے بنائی گئی بیلیں گویا سونے کے پانی پر تیرتی نیلی بیلیں تھیں۔ محرابوں کے ستونوں پر سونے کے پرت یوں چڑھائے گئے تھے کہ یہ سونے کے ہی معلوم ہو رہے تھے۔ چھت پر ایک بہت بڑا فانوس جھلملا رہا تھا جبکہ ہر ستون پر چاندی کے مشعل دانوں میں رکھی مشعلیں مسکرا رہی تھیں۔ کمرے میں روشنی کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ جھروکوں سے آنے والی شمسی کرنیں جب فانوس میں جڑے قیمتی پتھروں پر پڑتیں تو وہ جگمگا اٹھتے۔
فرش پر مختلف رنگوں کے ایرانی قالین اس ریاست کے ایران کے ساتھ تعلقات کو ظاہر کر رہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں چار دوشیزائیں ہاتھوں میں چاندی کی طشتریاں اور پیالے اٹھائے کمرے میں داخل ہوئیں اور ہماری تواضع وہاں کے ایک مشروب سے کی گئی۔ مشروب پیتے ہی ہماری ساری تھکن مٹ گئی اور ہم ترو تازہ ہو گئے۔پتہ نہیں یہ اثر مشروب میں تھا یا مشروب پیش کرنے والے ہاتھوں میں تھا۔ ویسے بھی ساڑھیوں کے اُڑتے پلو کسی کو نیند کی وادیوں میں کب جانے دیتے ہیں۔
”ہمارے مہاراج کشمیر کی یاترا پر گئے ہوئے ہیں۔ اس لئے آپ کی خدمت کی ذمہ داری ہماری ہے۔ میرا نام کرشنا ہے۔“
گویاامور مہمانداری کے اس ذمہ دار نے ہمیں راجہ کی عدم موجودگی کا عذر پیش کیا۔
”آئیے میں آپ کو یہاں کا عجوبہ دکھاؤں۔“
یہ کہہ کر اُس نے مشرقی دروازہ کا پردہ اٹھا دیا۔ جب ہم نے نیچے جھانکا تو ہماری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ ہمارے سامنے ایک جھیل مسکرا رہی تھی۔ لگتا تھاجھیلوں کا سارا حسن اس کے اندر سمٹ آیا تھا۔ سنہری عمارات کے درمیان وہ انگوٹھی میں زمرد کے نگینے کی طرح دکھائی دے رہی تھی۔ ارد گرد کی الف لیلوی داستانوں کی عمارات کی طرز کی شاہی عمارات کے سائے نے اُسے مزیدسحر انگیز بنادیا تھا۔ لگتا تھاان عمارات کی بنیا د محبت اور حسن پر رکھی گئی تھی۔ جب ہوا ٹہرے ہوئے پانی میں ڈبکیاں لگاتی تو جھیل مسکرا اٹھتی اور یوں لگتا جیسے وہ ہمیں گلے ملنے کی دعوت دے رہی ہو۔
”ہمارے بھگوان شیو دیوتا بھی یہیں رہا کرتے تھے۔ شیو جی اور ستی دیوی میں بے انتہامحبت تھی۔ بس سمجھئے کہ جسم دو تھے لیکن جان ایک۔ مہارانی تھی بھی بہت عقل مند حکومت کے سارے معاملات میں شریک ہوتیں۔ پھر ایسا ہوا کہ دیوی کو برہما نے اپنے پاس بلالیا۔ شیو مہاراج کی تو دنیا ہی اجڑ گئی تھی۔ بس مہارانی کی یاد تھی اور شیو جی۔ پھر ایک دن مہاراجہ شیو اپنی پتنی کی یاد میں اتنا روئے کہ ان کی آنکھوں سے بڑے بڑے دوآنسو نمودار ہوئے جن میں سے ایک یہاں گرااوردوسرا راجستان میں۔ جو یہاں گرا اُس آنسو سے یہ جھیل بن گئی۔ اس جھیل کو آنسوؤں کی ندی بھی کہا جاتا ہے۔ اسی واقعہ کی وجہ سے اس راج کانام کٹاکشا پڑ گیا۔ سنسکرت میں اس لفظ کامطلب ہے برساتی آنکھیں۔ مہابھارت میں اس جھیل کو محبت کی جھیل بھی کہا گیا ہے۔“
ابھی اس کی بات نامکمل ہی تھی کہ دیوتا جیسے ایک خوبصورت جوان نے اپنی چادر سیدھی کرتے ہوئے بتایا،
”یہی وہ جگہ ہے جہاں مہاراجہ شیو کا ستی دیوی سے بندھن ہوا تھا۔ اس لئے پھاگن کے مہینے میں اماوس کی رات یہاں مہاراجہ شیو اور ان کی پتنی کی شادی کی یاد کی رسومات ادا کی جاتی ہیں۔ اس تہوا رکو شیو راتری کہا جاتا ہے۔ پورے ہند سے ہندو اس تہوار میں شرکت کے لئے یہاں آتے ہیں۔ لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کے بچوں کے شادیوں کے بندھن کی رسمیں یہیں ادا ہوں۔ ہماری مذہبی کتابیں رگ وید اور مہابھارت بھی یہیں پر لکھی گئی تھیں۔ رگ وید کے مطابق اس جھیل کے اندر ایک دریابہتا ہے۔ اس جھیل میں نہانے والوں کو طاقت ملتی ہے۔“
اس کے بعد وہ ہمیں بارہ دری سے باہر لے گیا۔ یہ ایک چھوٹا سا صحن تھا۔ جس کے ایک طرف ایک مندر تھا۔
”یہ شیو جی کا مندر ہے اور یہ دائیں طرف ہماری مہارانی کی خواب گاہ ہے۔“کرشنا نے اپنے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی اُٹھاکر ایک بارہ دری کی طرف اشارہ کیا۔بارہ دری کیاتھی خواب نگر کا کوئی محل تھا یا پرستان کا کوئی شہر ۔ رنگ برنگی ساڑھیوں اور چھوٹی چھوٹی کرتیوں میں ملبوس داسیاں ادھر ادھر بھاگتی پھر رہی تھیں۔ بارہ دری کے جالی کے پردے ہوا سے اُڑ اُڑکر ایک دوسرےسے گلے مل رہے تھے اور ان میں بندھے ہوئے قیمتی پتھر ٹکرا ٹکرا کرایک سحرناک موسیقی پیدا کر رہے تھے۔ کبھی کوئی شرارتی پردہ جذبات میں بہتا ہو اآتااوران حسینوں کے بوسے لے کر لوٹ جاتا۔ اچانک مجھے اپنی بائیں طرف کچھ شور سا محسوس ہوا۔ میں نے تھوڑا سا آگے بڑھ کر دیکھا بارہ دری کے پچھلے حصہ سے بہت سی خواتین اندر داخل ہو رہی تھیں۔ میری نظر ان کے درمیان پیلے رنگ کی ساڑھی میں ملبوس ایک پری صورت پر جا رکی، پتہ نہیں وہ پری تھی کہ چاندکی شہزادی، کہکشاں سے اُترا کوئی تارا تھی یا کسی شاعر کی غزل کا استعارہ۔ دیواروں میں لگی سفید روشنیوں میں سے کوئی روشنی اس کی ساڑھی کو چھوتی تو قوسِ قزاح پیدا ہو جاتی۔ لگتا تھا اُسے فرشتوں نے دودھ سے نہلایاتھا اور پریوں نے سونےچاندی سے سجایا تھا۔ کسی ماورائی طاقت نے اُس میں بانکپن اور نزاکت کوٹ کوٹ کر بھر دی تھی۔اُس کا طلسماتی چہرہ نازک اور زیورسے بھری گردن پر اس طرح کھِلا ہوا تھا جیسے کسی نازک شاخ پرگلابی گلاب۔ کاجل سے بھری پلکیں جب اٹھتیں تو دیکھنے والوں کی پلکیں تاب نہ لاتے ہوئے عقیدت میں جھک جاتیں۔ فانوس کی روشنیاں جب اُ س نازنین کے چہرہ پر پڑیں تو کرشنا کا من بھی ڈول گیا کہنے لگا،
”یہ ہماری چھوٹی رانی ہیں اور کشمیر کے راجہ کی پُتری ہیں۔“
اسی اثنا میں وہ حسینہ ناز دکھاتی ہوئی بارہ دری کی طرف مڑی تو باہر سےآنے والے ہوا کے ایک شوخ جھونکے نے اُس کی ساڑھی کا اوپری پلوکسی مرمریں دروازے کے پردے کی طرح اُڑادیا۔پلو ہٹا اور کمر سے بندھا ہوا سونے کا کمر کس جھلمل کرتانمایاں ہوگیا۔ گویا کتاب ِ حُسن کادیباچہ کھل گیا۔ سونے کے کمر کس اور اُس کے ریشمی ماحول نے حُسن کی ساری کہانی کہہ دی۔ مجھے تو ہیرے جواہرات سے جڑا ہوا وہ سونے کاکمر کس ایک ایسا تعویز لگا جو اُس کے مرمریں پیٹ کے گرد نظرِ بد سے بچانے کے لئے باندھا گیا تھا۔ سونا تو یہاں ایسےتھا جیسے شادی بیاہ کی کسی تقریب کے ہال میں روشنیاں۔ لیکن اُس مومی پیٹ پر چمٹے ہوئے سونے کا بانکپن ہی نرالا تھا۔ وہ پیٹ تھا کہ پارس اگر لوہا بھی اُسے چھو جاتا تو سونا ہو جاتا۔
”یہ بارہ دری ہے جی یہاں راجاؤں کا خاندان بستا تھا۔“
گائیڈ کے اس جملے نے مجھے خوابوں کی دنیا سے اس طرح باہر نکالا جیسے کسان مولی کو کھینچ کر زمین سے باہر نکالتاہے۔ ”آئیے اندر چلتے ہیں۔“
گائیڈ نے کہا اور ہم ا س کے پیچھے چل دئیے لیکن جونہی ہم نے ”کشمیر کی پُتری، چھوٹی مہارانی جی“ کی خواب گاہ کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھا بھڑوں کے ایک دستے نے ہم پر اس طرح حملہ کیا جس طرح کوئی فوج اپنی دشمن فوج پر حملہ کرتی ہے۔
ہم بھی بھاگنے میں ماہر تھے اس لئے گائیڈ کے، ”اندر جائیے یہ کچھ نہیں کہیں گی۔“ کہنےکے باوجود ہم نے پیچھے مڑ کی بھی نہ دیکھا۔ اب ہمیں مہارانی کا وہ کمر بند پیتل کا دکھائی دینے لگا اور مومی پیٹ پتھر کا جس کے پیچھے سے یہ بھڑیں نکل رہی تھیں۔ پتہ نہیں ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق وہ سارا قافلہ ٔحُسن ہمارے دور میں بھڑیں بن کر دوبارہ پیدا ہو گیا تھا۔ ہم نے یہ بھی جاننے کی کوشش نہیں کی کہ ان بھڑوں میں ملکہ کون سی تھی اور داسی کون سی۔ ہم بھاگ کر چھوٹے سے صحن کے پار دوسرے صحن میں آگئے۔ ہمارے گائیڈ نے ہماری کیفیت اور جذبات کو بالکل نظرا نداز کر دیا۔ ایسے چھوٹے موٹے واقعات دیکھنے کی یا تواُسے عادت تھی یا پھر اُسے جلدی تھی کہ ساری معلومات جو اُس نے رٹ رکھی تھیں ہمارے اندر انڈھیل دے۔
”یہ وہ دیوار ہے جس میں فوسلز جڑے ہوئے ہیں۔“
گائیڈ نے جلدی سے اپنی معلومات کی کتاب کا اگلا صفحہ پلٹ دیا۔
ہم نے اشتیاق میں پوچھا ،
’’ کہاں ہیں۔‘‘
اُس نے عجیب سے سیمنٹ پر دو چار انگلیاں پھیر کر ہمیں مطمئن کر دیا۔
”یہاں سے مچھلیوں اور سمندری جانوروں کے فوسلز ملتے تھے جنہیں یہ لوگ دیوار میں پرو دیتے تھے اس طرح دیوار مضبوط رہتی تھی۔“
جب ہم اس دیوار کے پاس گئے تو اس نے مزید بتایا۔
” یہاں کی پہاڑیوں سے ڈائنو سارز جیسے جانوروں کے بھی فوسلز ملے ہیں۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ علاقہ کتنااہم اور قدیم ہے۔“
اس دیوار کے ساتھ ہی ایک مندر تھا جس کے دروازے پر تالا پڑا تھا۔
”یہ سب سے پرانا مندر ہے۔ اسی کے پیچھے مندر کے پروہتوں کی رہائش گاہیں تھیں جو اب مٹ چکی ہیں۔ اسی جگہ سنسکرت نے بھی ایک زبان کا روپ اختیار کیاتھا۔“
گائیڈ نے مندر کے لکڑی کے دروازے کا تالا کھولتے ہوئے بتایا۔
یہ ایک پراناسا کمرہ تھاجس میں جھروکے بنے ہوئے تھے جنہیں بند کر دیاگیا تھا۔ اندر ہندؤوں کا ایک مذہبی عَلم ا َلم کی داستان سنا رہا تھا۔ دیواروں اور چھت کا رنگ اور نقش و نگار تو کب کے ختم ہو گئے تھے البتہ اس عمارت کے زخم چھپانے کے لئے یہاں سفیدی کر دی گئی تھی۔ زمین پر شیو لنگ کا بت پڑا تھا۔
”اس بت کی نو بیاہتا جوڑے عبادت کرتے ہیں یا مرد۔ بچوں کو اجازت نہیں۔“
گائیڈ نے مزید معلومات فراہم کیں۔
”کیا لوگ اب بھی یہاں آتے ہیں۔“
میں نے مندر کی فعال حیثیت کو دیکھتے ہوئے گائیڈ سے پوچھا۔
”بمبئی حملوں سے پہلے تو جی شیو راتری کے تہوار پر پوری دنیا سے ہندو آیا کرتے تھے لیکن اب صرف سندھ سے ہی ہندو پوجا پاٹ کیلئے آتے ہیں۔“
ہم اس مندر سے باہر آئے تو گائیڈ نے اس کے دروازے پر پھر قفل چڑھا دیا۔ اور چبوترے پر بنی ایک عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔
”وہ سامنے ہنومان کا مندر ہے۔ آئیے وہاں چلتے ہیں۔“
اس عمارت میں چھوٹے چھوٹے کئی ستون بنائے گئے تھے۔ ایک چھوٹی مگر اونچی سیڑھی پر مندر کا دروازہ تھا۔ جس پر قفل پڑا تھا۔
”یہاں مہارانیاں اور رانیاں پوجا پاٹ کے لئے آتی تھیں۔“
اُس نے مندر کا دروازہ کھولتے ہوئے بتایا۔دروازے کے دونوں اطراف بیٹھنے یا کھڑےہونے کی جگہ دیکھ کر میں نے پو چھا۔
”لگتا ہے یہاں داسیاں اور داس پھولوں کے ہار لئے کھڑے ہوتے ہوں گے۔“
”شاید جی۔“
یہ کہہ کر اُ س نے میری توجہ مندر کے اوپر بنی ایک ایسی مورتی کی طرف دلائی جو اب اپنے نقوش کھو چکی تھی۔
”یہ شیو جی کا مجسمہ ہے۔“
جی کا لفظ سن کر میں نے حیران ہو کر پوچھا۔
”آپ بھی ہندو ہیں کیا۔“
” نئیں جی، الحمد اللہ مسلمان ہوں، آپ کو کیسے شک ہوا۔“
اُسے میری یہ بات پسند نہیں آئی۔ میں نے ندامت چھپاتے ہوئے کہا۔
’’ آپ کی تعظیم کی وجہ سے۔‘‘
”نہیں جی عادت بن گئی ہے، یہی کام کرتے جوان ہوئے ہیں یہاں ہر طرح کا ٹورسٹ آتا ہے اور ہمیں ہر طرح کی زبان استعمال کرنا پڑتی ہے۔“
اسی دوران دروازہ کھل چکا تھا۔دروازے کاکھلنا تھا کہ مجھے یوں لگا جیسے میں آرٹ گیلری میں آگیا ہوں۔ دیوار کیا، چھت کیاہر حصہ گل کاری اور چترکاری سے بھرا ہوا تھا۔ سامنے ایک محراب نما طاقچہ تھا جس میں کبھی کوئی بت رکھاجاتا ہو گا۔ چھت گولائی میں تھی جس پر ایک نمونہ لے کر گل کاری کی گئی تھی جس طرح ہمارے آج کل کے کپڑے میں ہوتا ہے کہ ایک ہی نمونہ پورے کپڑے پر دہرایا جاتا ہے لیکن وہ اس طرح جڑ اہوتا ہے کہ الگ الگ محسوس نہیں ہوتا۔ دیواروں پرآرٹ کے مختلف انداز اور ڈھنگ اختیار کئے گئے تھے۔ اس پر مختلف فریمز میں تصاویر بھی تھیں، منظر نگاری بھی اور گل کاری بھی۔ تصاویر اور منظر نگاری میں ہنومان اور دیویاں چھائی ہوئی تھیں۔
”کیا یہ اصل آرٹ ہے۔“
میں نے گائیڈ سے پوچھا۔“
”نہیں جی یہ والا حصہ پراناہے اور یہ باقی نیا بنا ہے۔“
میں تو دیکھ کر حیران رہ گیا نئے اور پرانے میں کوئی فرق نہیں تھا۔ سلام ہے اپنے وطن کے آرٹسٹوں کو۔ لیکن افسوس بھی کہ انہیں کوئی آرٹسٹ کامرتبہ ہی نہیں دیتا بلکہ انہیں مستری کہہ کر اُن کی تو ہین کی جاتی ہے۔ کیا عالم ہوتا ہو گا جب یہاں ماضی کے کسی راجہ کے زمانے میں پوجا ہوتی ہو گی۔ ہر طرف خوبصورتیوں کی بہار ہوتی ہو گی۔ داسیوں، یاتریوں، راجوں مہاراجوں، رانیوں اورمہارانیوں کے زرق برق لباس نے چار چاند لگا رکھے ہوں گے۔
اچانک میرے ذہن میں ایک سوال اُٹھا
”یا ریہ مندر عام لوگوں کے لئے تو نہیں ہو گا۔“
میرا سوال سن کر گائیڈ کچھ دیر رکا اور پھر کچھ سوچ کر بولا۔
”جی سر آپ کا اندیشہ درست ہے یہ صرف شاہی مندر تھے عام لوگوں کے لئے وہ نیچے بھی مندر بنائے گئے ہیں۔ جو ان سے بہت چھوٹے ہیں اور ان کے نام بھی یہی ہیں“
میں نے کہا۔ ”اسی لئے جھیل کے اس طرف رہائشی عمارات ہیں جہاں سے ارد گرد سب کچھ دیکھا جاسکتا تھا۔“
ان مندروں سے اوپر کچھ اور کمروں اور مندروں کے آثار موجود ہیں جو اصل میں پانڈوں کے چار شہزادوں کی یادگار ہے جنہوں نے یہاں چودہ سال سے زیادہ عرصہ جلاوطنی میں کاٹا تھا۔
یہ مندر اپنی شان و شوکت کھو چکے ہیں لیکن ان کے آثار بتاتے ہیں کہ یہ کسی زمانے میں بہت شان و شوکت کے مالک ہوں گے۔
رہاشی عمارتوں اور پانڈووں کے مندروں کے درمیان بدھوں کا ایک اسٹوپابھی ہے جو گھاس اور جھاڑیوں میں اس طرح چھپا ہوا ہے کہ لوگ اسے پہاڑی سمجھ کر نظرانداز کر دیتے ہیں۔
جھیل کے کنارے اوپری طرف کی رہائشی عمارات سے کئی سیڑھیاں نیچے جھیل تک آتی ہیں۔ غالباً انہی سیڑھیوں سے چل کر شاہی خاندان جھیل پر آتا ہو گا۔ انہی عمارات کے پیچھے سرنگ نما ایک لمبا ساکمرا ہے جس میں دائیں اور بائیں دونوں دیواروں کے ساتھ بیٹھنے کے لئے ایک لمبا چبوترا ہے۔ اس کمرے کاایک حصہ جھیل کی طرف کھلتا ہے اوردوسرا شاہی محلات کی طرف۔ غالب امکان ہے کہ یہاں محلات کی خواتین غسل کے لئے آتی ہوں گی۔ یہ تمام عمارات پہاڑیوں پر بنائی گئی ہیں اور یقینا ان کی حفاظت کا مناسب انتظام ہوتا ہو گا۔ ان عمارات میں کھڑے ہو کرمشرق کی طرف دیکھیں تو پہاڑیوں میں غاریں دکھائی دیتی ہیں جہاں ہندو پوجا بھی کرتے تھے اور ان میں جلے مُردوں کی راکھ بھی ڈالی جاتی تھی اسی پہاڑی پر شیوراتری میں شادیوں کے لئے ایک مندر بنایا گیا ہے جو صرف باہر سے آنے والے یاتریوں کے لئے ہے۔ یہیں سکھوں کی ایک حویلی بھی ہے جو آج کل حکومت کے استعمال میں ہے۔ جھیل کنارے بہت سی عمارات قرۂ ارض سے مٹ چکی ہیں۔ اسی جگہ سے کچھ دور نندنہ گاؤں میں بیٹھ کر البیرونی نے زمین کا مرکز تلاش کیا شاید انہی عمارات میں یا موجودہ کسی عمارت میں بیٹھ کراس نے کتاب الہند لکھی ہو گی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے ہندوؤں کے ساتھ کیسے تعلقات تھے۔
میں چاہتا تھا کہ مجھے کوئی ایسا ہندو مل جائے جس سے میں یہ جان سکوں کہ ہندو کی حیثیت میں وہ یہاں آ کر کیا سوچتا ہے۔ یعنی ہمیں اُن لوگوں کے احساسات کا اندازہ ہو جن کے کے لئے یہ جگہ اہم تھی۔ لیکن کو شش کے باجود ایسا نہ ہوا۔ سندھی خاندان کے تمام افراد نے مجھے سرکار کا کارندہ سمجھتے ہوئے اجتناب برتا۔ بس ا ن کے منہ سے ایک ہی بات نکلتی رہی حکومت ہمارے لئے بہت کچھ کر رہی ہے۔
آج جب میں اس سفر کاحال لکھنے بیٹھا تو انٹرنیٹ پر تحقیق کے دوران مجھے ڈان کی ویب سائیٹ پر ایک مضمون ملا ۔جس کے راوی نبیل احمد ڈہکو ہیں۔ یہ مضمون انگریزی میں لکھا گی تھا ۔ اس مضمون کا مصنف یاتریوں کے کارواں کے ساتھ یہاں آیا تھا۔ میر ا درجِ ذیل بیان اسی مضمون سے ماخوذ ہے۔
’’ کٹاس میں آئے ہوئے اُن غیر ملکیوں کی ہچکیوں اور آہوں کی آوازیں مندروں کی گھنٹیوں کی آوازوں میں دب گئی تھیں جو کٹاس کی جھیل کنارے اپنی پوجا میں مصروف تھے۔ وہ ہچکیاں لےلے کر رو رہے تھے جیسے انہیں ان کی زندگی کا حاصل مل گیا ہو۔ اُن میں سے اکثر نے یہاں تک پہنچنے کے لئے کئی جتن کئے تھے۔ سوچا تھا، پیسے جمع کئے تھے، ویزوں اور پاسپورٹ کے لئے کئی دفتروں کی خاک چھانی تھی اور میلوں کے سفر کی صعوبتیں برداشت کی تھیں۔ شیو کے اس آنسو پر آنسو اُن کے قابو میں نہیں تھے۔ وہ جھیل میں پھول گراتے ہوئے یا اپنی مذہبی رسومات اداکرتے ہوئے ہر موقع پرآنسو بہا رہے تھے۔ ایک خاتون ’راج شری جین‘ اپنی چھوٹی سی نوٹ بک میں ایک نظم لکھ رہی تھیں۔ ‘‘
اس کی آنکھوں سے بہتے آنسو اور اُ س کی قلم سے نکلنے والی ہچکیاں سن کر مجھے علامہ اقبال یاد آ گئے جنہوں نے قرطبہ کی مسجد میں اپنی مذہبی رسومات ادا کی تھیں اور ایک نظم لکھی تھی۔ وہ بھی بہت روئے ہوں گے ان کا قلم بھی بہت چیخا ہو گا۔ لیکن وہ کس سے احتجاج کرتے۔ کس سے کہتے کہ میری اس مسجد کو آزاد کردو۔ وہ کیسے اُ س مسجد کی زنجیریں توڑتے۔وہ کیسے اُس مسجد کے جذبات کو قلم بند کرتے۔ اس کے لئے تو ان کے پاس الفاظ ہی نہ تھے۔ اپنی عبادت گاہ کوزنجیروں میں قید دیکھنے کے کرب کو صرف اقبال ہی سمجھ سکتے تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ا لحمراکا تو مجھ پر کوئی زیادہ اثر نہیں ہوا لیکن مسجد کی زیارت نے مجھے جذبات کی ایسی کیفیت میں پہنچاد یاجو مجھے کبھی نصیب نہ ہوئی تھی۔
اس نظم کاایک اقتباس حاضر ہے:
اے حرم ِقرطبہ عشق سے تیرا وجود
عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت و بود
شوق میری لے میں ہے شوق میری نے میں ہے
نغمہ اللہ ہو میرے رگ و پے میں ہے
تیرے درو بام پروادیٔ ایمن کا نور
تیرا مینارِ بلند جلوہ گہ جبرائیل
جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی
روحِ اُمم کی حیات کشمکش انقلاب
آج راج شری جین بھی اپنی عبادت گاہ کے باہر بیٹھی کچھ لکھ رہی تھی۔ فرق صرف یہ تھا کہ اُ س کی عبادت گاہ آزاد تھی یہاں ہر کوئی جب چاہے آجا سکتا تھا ،اس کے لئے تاجِ برطانیہ سے خصوصی اجازت نامہ نہیں لینا پڑتا۔ یہی وجہ تھی کہ آج اُ س کا پورا معابد اُ س کے قبضہ میں دے دیا گیا تھا۔
’’ راج شری جین نے لکھا:
عیدہو ہر دن ہمارادیوالی ہر رات ہو
دل کو دل سے جیت لیں نہیں دل کی مات ہو
عید ہو ہر دن ہمارادیوالی ہر رات ہو
آئیں جیتیں دلوں کی جنگ اس طرح کہ کسی دل کی ہار نہ ہو
عید ہو ہر دن ہمارادیوالی ہر رات ہو
اُسے بس ایک ہی شکایت تھی۔
”میں سار اپاکستان پھرناچاہتی ہوں لیکن میرا ویزا مجھے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔“
ایک اور صاحب نے بتایاکہ بھارت میں کارواں در کارواں لوگ تیار بیٹھے ہیں لیکن انہیں یہاں آنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
ایک بزرگ کہنے لگے، ”خدا کے لئے مجھے میرا گھر میری گلیاں ایک مرتبہ دیکھنے دو۔ میں وہاں پیدا ہو اتھا۔ اُن گلیوں میں میں نے کل کے سپنے دیکھے تھے۔“
ایک خاتون نے یہ کہہ کر اس ساری بحث کو گنگ کر دیا۔
''For now, Lord Shiva continues to shed his tears for peace, but his teardrops are yet to reach the rulers of Pakistan and India.''
Lord Shiva weeps for peace by Nabeel Anwar Dhakku
http://www.dawn.com/news/1096571
مجھے یہاں قائد اعظم اور سروجنی نائیڈو کی وہ کوششیں یاد آرہی ہیں جو انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کے لئے کی تھیں۔ لیکن انتہا پسند ہندوؤں نے ان کی ایک نہ سنی اور سازشیں کرتے رہے۔ یہاں تک کہ قائد اعظم کو کہنا پڑا، ’’ اب راستے جدا جدا ہیں۔‘‘ یہی وہ ہندو تھے جنہوں نے بعد میں اپنے لیڈر گاندھی کو اس لئے مار دیا تھاکہ وہ بے گناہ مسلمانوں کا قتلِ عام رکوانے کے لئے باہر نکلے تھے۔

کاش! انسان میں اتنا حوصلہ پیدا ہو جائے کہ وہ جس کی جو چیز ہے اُسے لوٹا دے اس طرح ہر کسی کو اپنی اپنی چیزیں مل جائیں گی۔ چاہے حکومتیں کسی کی بھی ہوں۔


______________________
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: سفرنامہ ’’ پریوں کی تلاش‘‘ تیرہویں قسط از وارث اقبال

Post by چاند بابو »

آخ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ :puke: :puke: :puke: :puke: :puke: :
کیسی کیسی چیزیں پی رکھی ہیں‌آپ نے۔ :@ :@ :@

خیر بہت دلچسپ داستاں ہے، جاری رکھئے اگلی قسط کا شدت سے انتظار رہے گا۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Post Reply

Return to “نثر”