سفرنامہ ’’ پریوں کی تلاش‘‘ از وارث اقبال گیارہویں قسط

اردو نثری قلم پارے اس فورم میں ڈھونڈئے
Post Reply
وارث اقبال
کارکن
کارکن
Posts: 69
Joined: Wed May 30, 2012 10:36 am
جنس:: مرد

سفرنامہ ’’ پریوں کی تلاش‘‘ از وارث اقبال گیارہویں قسط

Post by وارث اقبال »

انڈیانا جونز کا دیس وارث اقبال

جھیل کھبیکی پر تقریبا دو گھنٹے گزارنے کے بعد ہم اپنی اگلی منزل کی طرف چل پڑے۔ یہ تھی ’کنٹھئی گارڈن۔‘
یہ باغ انگریزوں نے بنا یاتھا۔ جس میں ہمارے جیسوں کے لئے بہت کچھ باعث کشش تھا۔ جھیل کے پیچھے ایک چھوٹاسا قصبہ ہے کھبیکی جس کے اندر سے گلی نما ایک چھوٹی سی سڑک گذرتی ہے جو آگے جا کر پہاڑوں کے ایک وسیع و عریض سلسلہ میں داخل ہو جاتی ہے۔ اسی سڑک پر چلتے ہوئے ہمیں اس باغ تک پہنچنا تھا۔ ہمارے ارد گرد خشک اور سبز ملی جلی جھاڑیا ں، کہیں کہیں سبز درخت اور پہاڑوں کا ایک نہ سمجھ آنے والاسلسلہ پھیلا ہوا تھا۔ اس سڑک پر قدم رکھتے ہی تنہائی کاشدیداحساس ہونے لگا. جوں جوں ہم آگے بڑھ رہے تھے اس احساس میں بتدریج اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔تاہم آگے جا کرجھیل کھبیکی کے ایک خوبصورت منظر نے ہمارے اس احساس کو کچھ دیر کے لئے کم کردیا۔ ہمارے بائیں جانب جھیل کھبیکی ایک پیالہ کی مانند دکھائی دے رہی تھی۔ سرسبز پہاڑوں کے درمیان میں اس جھیل کا منظر دیکھنے کے لائق تھا۔ نیلے پانی میں سر سبز پہاڑوں کا عکس سحر طاری کر رہا تھا۔ مجھے تو یوں لگ رہا تھا جیسے ارد گرد کے سارے پہاڑ اس حسینہ کے درِ نیاز پر جھکے ہوئے تھے۔ نیچے پیالہ نما جھیل کو دیکھ کر ہمیں اندازہ ہوا کہ ہم پہاڑوں کے اندر چلتے ہوئے کتنا اوپر آ چکے تھے۔ ہم گاڑی سے باہر نکلے اور حسبِ ضرورت تصاویر بنانا شروع کر دیں۔ میرا بیٹا شاہزیب جسے ہیرو بننے کا بہت شوق ہے وہ اپنے سیل فون سے سیلفیاں بنانے میں مصروف ہو گیا۔
جب ہم یہاں پہنچے تھے تو آسمان پر بادل تھے لیکن کچھ ہی دیر میں مطلع یوں صاف ہوا کہ جیسے کبھی بادل تھے ہی نہیں۔ سورج نے اپنا مکھڑا دکھاتے ہی آگ کے کرتب شروع کر دئیے۔ یعنی اپنے انداز میں ہمیں یہاں سے جانے کا حکم صادرکر دیا گیا۔ ہماری کیا مجال تھی جو حکم عدولی کرتے فورا ً گاڑی میں بیٹھے اور چل پڑے۔ گرمی کی شدت میں اضافہ ہورہا تھا اور ہم سب کی زبان سے کچھ وقفوں کے بعد ایک ہی جملہ نکل رہا تھا کہ یا اللہ بارش برسا دے لیکن ہمارے سارے جملے اس طلسمی جگہ پرہی کہیں ماحول میں گم ہو کر رہ گئے تھے۔ گرمی تھی کہ بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ بقول آتش
نہ پوچھ عالمِ برگشتہ طالعی آتش
برستی آگ جو باراں کی آرزو کرتے
ہمارے قہقہے، شوخیاں، مستیاں، فطرت کی خوبصورتی کی پذیرائی اور خیالات کی گہرائی بس یہاں تک ہی تھی کیونکہ یہاں سے آگے وحشت، خوف اور ڈر کا سفر شروع ہو رہا تھا۔ ایک تو سڑک چھوٹی، اوپر سے ٹوٹی پھوٹی۔ ہر پانچ چھ منٹ بعد ایک بھیانک کھڈا ہماری گاڑی کی پسلیاں ہلانے کے لئے تیار کھڑا ہوتا۔
یہ عابد کی مہارت اور چستی تھی کہ ہم سڑک کے ہر وار سے بچے ہوئے تھے ورنہ گاڑی تو کیا ہماری اپنی پسلیوں کے سب تار کھُل جاتے۔ اوپر سے بیابان اور دشت کی ویرانی۔ مجھے تو وہ سبھی کہانیاں یاد آرہی تھیں جن میں ایک شہزادہ یالکڑ ہارے کا بیٹا اپنے بادشاہ کی بیٹی کو کسی جن یادیوکی قید سے چھڑوانے کے لئے نکلتا ہے اور جب وہ دیو کی سلطنت میں پہنچتاتو اْسے ایسا ہی ماحول پاتا ہے
اس سڑک کے کنارے کہیں کہیں کسی بڑے درخت سے ملا قات ہو جاتی ورنہ ہر طرف گھنی جھاڑیوں کا ہی راج تھا، جنہیں نہ درخت کہا جا سکتا تھانہ جھاڑیاں۔ یہ جھاڑیاں سبز تو تھیں لیکن شاداب نہیں۔ ان کی کیفیت اْ س دوشیزہ کی سی تھی جو پیا کے دیس آکر اپنی ساری شادابیاں اور رعنائیاں بابل کے دیس ہی چھوڑ آئی ہو۔
وقت کی کرختگی اور نحوست نے اُس کے گالوں کا رنگ تک چوس لیا ہو۔ یہاں کے درختوں کا حال بھی کچھ اس دلہا جیسا ہی تھا۔ جس نے محبوب کو پانے کے لئے ہزار جتن کئے ہوں لیکن پانے کے بعد اپنے عشق کے دور کے ایک ایک لمحے کو کوستا ہو۔ چہرے پر حسرتوں کا غازہ اور آنکھوں میں تاریک مسقبل کا سرمہ سجائے ہر کسی سے یوں ملتا ہو جیسے ہارا ہوا سپہ سالار اپنے فوجیوں سے ملتا ہو۔
ان جھاڑیوں کی شاخیں اس طرح پھیلی ہوئی تھیں کہ بس ابھی کسی کو نگل لیں گی۔ ان کا حوصلہ اتنا بڑھا ہوا تھا کہ وہ منہ کھولے آہستہ آہستہ سڑک کو اس طرح نگل رہی تھیں کہ جیسے کسی سانپ نے کسی چوہے کو۔ اور سانپ کے منہ میں چوہے کی صرف دْم دکھائی دے رہی ہو۔
کچھ ہی دور ایک موڑ سے تھوڑا ساآگے کچھ خوبصورت سر سبز و شاداب جھاڑیوں نے سڑک کو اپنے آنچل میں چھپا رکھا تھا اور اس آنچل کے اندر اپنی ساری محبتیں سڑک پر نچھاور کر دی تھیں۔ میں پہاڑوں کو دیکھ دیکھ کر ہی راستے کا تعین کر رہا تھا۔ لگتا تھا جیسے یہاں نہ تو کوئی رہتا تھااور نہ ہی یہاں کبھی کوئی آیا تھا۔یہ سڑک ہمیں دنیا کے اْس کنارے پر لے جارہی تھی جہاں سے آگے دنیا نام کا کچھ وجود ہی نہیں تھا۔
یہاں پہنچ کرمجھے میر تقی میر اور غالب سب کی وحشت یاد آگئی اور میں حیران بھی ہو رہا تھاکہ غالب نے یہ کیوں کہاحالانکہ وہ کبھی یہاں آیاہی نہیں۔
ہر قدم دوریٔ منزل ہے نمایاں مجھ سے
میری رفتار سے بھاگے ہے، بیاباں مجھ سے
بیکسی ہائے شبِ ہجر کی وحشت، ہے ہے!
سایہ خْورشیدِ قیامت میں ہے پنہاں مجھ سے
نگہِ گرم سے ایک آگ ٹپکتی ہے، اسد!
ہے چراغاں، خس و خاشاکِ گْلستاں مجھ سے
(اسداللہ غالب)
خدا خدا کرکے دور دو اونٹ سواروں نے تنہائی کی وحشت کایہ سلسلہ ختم کیاجو اپنے صحت مند اونٹوں کے ساتھ پیدل چلے آ رہے تھے۔ ایک اونٹ پر سوکھی لکڑیاں لدی ہوئی تھیں اوردوسرے پر پانی کے گھڑے۔
ایک موڑ مڑتے ہی سڑک نے مزید چڑھائی شروع کی تو سرسبز جھاڑیوں نے ہمیں خوش آمدید کہا۔ ہمیں بھی ان کا اس طرح نکل آنا اچھا لگا،منظر بھی اچھا تھا اور ماحول بھی۔ لیکن نا جانے کیوں اندر خوف کا شہر بسا ہوا تھا۔ یہ خوبصورت منظر بھی ہمارے اس خوف کو کم نہ کر سکا۔
اب کوئی بات نئی بات نہیں میرے لیے
اب کسی بات پہ حیرت نہیں ہوتی مجھ کو
خواہش ِ وصل کہاں، عشق کہاں، باتیں کہاں
سانس لینے کی بھی فرصت نہیں ہوتی مجھ کو
اب سلگتا نہیں یادوں میں وہ مٹی کا دیا
تم سے ملنے کی بھی حسرت نہیں ہوتی مجھ کو...
(سعدیہ خان)
خوبصورت جھاڑیوں کاجھنڈ پیچھے رہ گیا تھا، اب پھر ایک چھوٹا سا دشت نما میدان تھاجس میں سے ہم گذر رہے تھے۔ اچانک میرے بیٹے نے میری توجہ ایک چھوٹے سے ٹیلے پر کھڑی دو موٹر سائیکلوں کی طرف دلائی۔ اس بیابان میں موٹر سائیکلوں کا بغیر اپنے سواروں کے ہونا، ہمارے ذہنوں میں کئی سوالات پیدا کر رہاتھا۔ یوں ہمارے دلوں میں خوف کی ایک اور تہہ بیٹھ گئی۔
منزل کافی دور تھی اس لئے میں نے عابد سے کہا۔ ” ذرا جلدی، اب کہیں نہیں رکنا۔“ لیکن ایک عمارت کے کھنڈرات نما آثار نے ہمیں رکنے پر مجبور کر دیا۔
تاریخی اعتبار سے یہ علاقہ بہت زرخیز ہے اس پورے علاقہ میں آثارِ قدیمہ کا کافی بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ یہ عمارت اتنی اہم نہ تھی۔ پھر بھی ہم تصاویر اتارتے رہے۔ لیکن اندر اتناخوف تھا کہ وہاں کسی کو بھی اپنی مرضی کی فوٹو گرافی کرنے کا حوصلہ نہ ہوا۔ ہر طرف ہو کا عالم۔ سورج عروج پر اورجائے امان صرف گاڑی تھی۔ مجھ سمیت ہر کوئی خوف کاشکارتھا لیکن کوئی اظہار نہیں کر رہا تھا۔ اتفاق کی بات تھی کہ گاڑی کی ٹیپ چل رہی تھی اور اس پر حبیب ولی محمد کا فن اپنے جوہر دکھارہاتھا۔بچے اگر اپنے ہوش و حواس میں ہوتے تو کبھی بھی یہ موسیقی برداشت نہ کرتے۔ ویسے میں خود بھی اس خوف کی فضا میں اس مو سیقی سے کوئی خاص لطف اندوزنہیں ہو رہاتھا۔
خوف کہنے کو تین حروف پر مشتمل ایک لفظ ہے لیکن اپنے اثرات کے لحاظ سے بڑی مکروہ چیز ہے۔ اگر ہم اس کی تعریف کو دیکھیں تو بہت سادہ سی ہے،
”کسی بیرونی خطرے کے نتیجے میں اندر اٹھنے والاایک جذبہ۔“
خوف کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے جسم اوردل کی بجائے اپنے دماغ کے ساتھ ہوتے ہیں۔ ایک طرح سے ہم اپنے دماغ میں رہ رہے ہوتے ہیں جس نے ہمیں قیدی بنا کر رکھا ہوتا ہے وہ واہموں اور خدشات کا ایک ایسا جن ہمارے سامنے کھڑا کر دیتا ہے جس کا وجود ہی نہیں ہوتا۔ اگر ہم ایسی چیز سے ڈرتے ہیں جس کا وجود ہی نہیں تو اسے ہماری حماقت ہی کہا جائے گا۔ اور واقعی ہم احمق بن جاتے ہیں اور مختلف فوبیاز کا شکار ہو جاتے ہیں۔جس طرح حکومت صوبے بناتی ہے اور ان میں اپنے ناظم یا ذمہ دار بنادیتی ہے اسی طرح خوف بھی فوبیاکی حکومت کو جنم دیتا۔
ہاتھوں میں لگنے والے جراثیم سے شروع ہونے والا خوف اتنابڑھتا ہے کہ ہم اپنے اردگرد ایک حصار قائم کر لیتے ہیں۔ جتناخوف گہرا ہوتا جاتاہے اتناہی یہ حصار بھی مضبوط ہوتا جاتاہے۔ دیوارجتنی مضبوط ہو تی جاتی ہے ہماری شخصیت اُتنی ہی کمزور ہوتی جاتی ہے۔ پھر ہم رنگوں تک سے ڈرنے لگتے ہیں ۔
کسی نے خوف سے چھٹکارہ پانے کا بڑاخوبصورت طریقہ سمجھایاہے۔ کہ جب خوف میرے نزدیک آتا ہے تو میں کہتا ہو ں میرے اوپر سے گذر جا اور وہ گذر جاتا ہے۔ جب وہ گذر جاتا ہے تو میں اس کے راستہ پر اس کی تلاش میں نکلتا ہوں مگرخوف مجھے کہیں نہیں ملتا بلکہ میں ہر جگہ خود ہی کو پاتا ہوں۔ کسی نے کیاخوب حقیقت بیان کی ہے،
”جہاں خوف ہوتاہے وہاں خوشیاں نہیں ہوتیں۔“
خوف کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ہم ساری عمر یہی سوچنے میں گزار دیتے ہیں کہ دوسرے ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے۔ ہم یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے کہ ہم دوسروں کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔
جوں جوں ہم آگے بڑھ رہے تھے، ماحول میں ویرانی اور وحشت بھی بڑھتی جارہی تھی۔ سڑک کی بدحالی اور شکستگی اس وحشت میں مزید اضافہ کر رہی تھی۔ عابد سڑک کامقابلہ تو کر رہا تھالیکن ناخوشگواریت اور بے زاری اْس کی اداؤں سے عیاں تھی۔ ظاہر ہے اس شکستہ سڑک پراچھلتی ہوئی گاڑی کے کرب کو وہی محسوس کر سکتا تھا۔
” بھائی بڑا اُجاڑ ہے۔ جی۔یہاں حکومت کیوں نہیں ہے۔“
”ہے یار سب کچھ ہے حکومت بھی ایم پی اے بھی۔۔ مگر ویسے ہی جیسے باقی جگہوں پر ہیں۔“
” پاپا پیچھے ایک جگہ ایم پی اے کا بورڈ بھی لگا ہو اتھا کو ئی لیڈی ایم پی اے ہیں۔“
شاہزیب نے اپنی معلومات فراہم کیں۔ شاہزیب علم کا اظہار کرے اور زین جواب نہ دے۔
” پاپا اس بورڈ پر یہ بھی لکھا تھا کہ اْس ایم پی ا ے نے اپنے فنڈز سے یہ روڈ بنوائی تھی۔“
” یہ روڈ اگر اْس نے بنوائی ہے تو اْس سے ضرور ملناچاہئیے۔“
اس وقت عابد کی زبان نے اْ س کا سرگودھا کے ساتھ تعلق بڑے واضح انداز میں ادا کیاتھا۔ کچھ ہی دور گئے تھے کہ ہمیں ایک کچی سی بستی دکھائی دی۔ یہ بھی بڑے جابرلوگ ہیں، جہاں کوئی نہیں ہو گا وہا ں افغانی ضرور ہوں گے۔ ہم افغانیوں کی ایک چھوٹی سی بستی کے قریب سے گذر رہے تھے۔ پیلی مٹی سے بنے ہوئے گھر، اونٹ، بڑی بڑی فراکیں پہنے ہوئے مرد و خواتین کو دیکھ کر وحشت کے سائے کچھ کم ہوئے اور ہم کچھ نارمل ہو گئے۔ اس بیابان میں ان لوگوں کا ہونا بھی کسی رحمت سے کم نہیں، یہ لوگ بڑے جفاکش ہیں۔ اس چلچلاتی دھوپ میں بھی اپنے کاموں میں مگن تھے۔
” یہ گھر جی بڑے زبردست ہیں ان کے اندر گرمی کااحساس تک نہیں ہوتا۔۔۔“
عابد نے ایک گھر کے قریب سے گزرتے ہوئے کہا۔
”آپ کو کیسے پتہ؟“
زین نے پوچھا تو عابد نے جواب دیا۔
” اس طرح کے کچھ پٹھان سرگودھا میں ہمارے گاؤں کے قریب رہتے ہیں۔“
صُبح کے درِیچے میں جھانک اے شبِ ہِجراں
کر دِیا تجھے ثابت، بے ثبات پِھر میں نے
(قتیل ؔ شفائی)
اب ہم پہاڑوں کے درمیان میں تھے۔ یہ علاقہ بہت ہی عجیب ہے، انڈیانا جونز کی فلموں کی کوئی سائیٹ یا کو بوائز کادیس۔
مٹی کے ان اونچے اونچے پہاڑوں پر لا تعداد شبیہات اور اشکال دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ایک شبیہہ بدھا کے مجسمے کی طرح کی تھی ۔ یہ شبیہات کئی لحاظ سے حیران کن تھیں۔ ایک تو یہ کہ ان میں سے اکثر سمجھ نہیں آتیں، دوسرا یہ کہ یہ بہت اونچائی پر تھیں۔ سمجھ نہیں آتا کہ ان شبیہوں کو تراشنے والا کوئی انسان تھایا قدرت خود۔ تاریخ اس کا جواب تو دیتی ہے۔ لیکن یہ جواب بھی حتمی نہیں۔ کسی زمانے میں یہ علاقہ ہندو اور بدھ دھرم کا مرکز رہاتھا۔ ان پہاڑوں کے اندر مندروں اور ہندو خانقاہوں کے آثار ابھی تک موجود ہیں۔ ہو سکتاہے کہ ان مندروں اور خانقاہوں کے لوگ یا طالب علم یہ شبیہات بناتے رہے ہوں۔ یا پھر یہ کہ چونکہ یہ مٹی کے پہاڑ ہیں اس لئے بارش یا موسم نے اْن پر جو نشان چھوڑے وہ ہمیں شبیہیں لگتی ہیں۔ جو دراصل ہیں نہیں لیکن یہ ہماری سوچ ہے جو انہیں شبیہہ کی صورت دے رہی ہے۔
تاہم حقیقت یہ تھی کہ یہاں پہنچ کر میرے ہم سفروں میں کچھ دلچسپی پیدا ہوئی۔
عابد کہنے لگے،
” بھائی جان اگر آپ کے پاس گن ہوتی تو ہم ان پہاڑوں کے اندر جاتے۔“
” ہم اب بھی جاسکتے ہیں تم جانے والے بنو۔“
”نہیں ذرا اسلحہ پاس ہو تو کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔“
”امریکہ کے پاس ایٹم بم ہے، مزائل ہیں، توپیں ہیں لیکن امریکن پھر بھی خوف میں ڈر میں کیوں رہتے ہیں۔ اسلحہ اگر حفاطت کرتا ہوتا تو ۹ نومبر کا واقعہ نہ ہوتا۔“
عابد ”جی۔۔۔۔“ کہہ کر سڑک پر متوجہ ہو گیا۔ جیسے وہ کہہ رہا ہو آپ سے بات کرنا ہی سو کا گھاٹا ہے۔
سڑک نہ ہونے کے برابر تھی۔ ا یک سڑک سے کئی سڑکیں یا پکڈنڈیاں نکل رہی تھیں جو کہیں جنگل نما جھاڑیوں میں جاکر گم ہو جاتیں یا پھر بل کھا کر کسی موڑ کی گود میں چھپ جاتیں۔ یہاں ہمیں ایک بار پھر ویرانی اور وحشت نے گھیر رکھا تھا۔تاہم اچانک کسی موڑ پر یا جھاڑیوں کے پیچھے سے کوئی اونٹ سوار برآمد ہوتا تو ہمیں آگے بڑھنے کا حوصلہ ملتا۔ جھاڑیوں اور چھوٹے درختوں کا سلسلہ اتنا گھنا اور دور تک پھیلاہوا تھا کہ اْس نے لکیر نما سڑک کو اس طرح چھپا رکھا تھا کہ جس طرح کوئی ماں آندھی میں اپنے بچے کو اپنی چادر میں چھپا لیتی ہے۔
یہاں پہنچ کر مجھے احساس ہوا کہ ہم راستہ بھول گئے ہیں۔ لیکن میں کسی سے اظہار نہیں کررہا تھا اور اس انتظار میں تھا کہ کوئی انسان دکھائی دے تو اس سے راستہ پوچھوں۔ راستہ تو بھول چکے تھے لیکن میرا اندازہ اور تجربہ بتا رہاتھا کہ ہم اپنی منزل پر پہنچنے ہی والے تھے۔ گاڑی میں عابدہ پروین جو سنا رہی تھیں وہ اس وقت حسبِ حال تھا۔ لگتا تھا کہ شاعر واصف علی واصف نے یہ شاعری کی ہی ہمارے لئے تھی۔
میں نعرۂ مستانہ، میں شوخیٔ رِندانہ
میں تشنہ کہاں جاؤں، پی کر بھی کہاں جانا
میں پْھول ہوں، شبنم ہوں، میں جلوۂ جاناناں
میں واصفِ بسمل ہوں، میں رونقِ محفل ہوں
اِک ٹْوٹا ہوا دل ہوں، میں شہر میں ویرانہ
واصف علی واصفؔ کی یہ غزل سن کر میں خود اپنے آپ سے یہ سوال کرنے پر مجبور ہو گیا۔
میں کیاہوں، کیاچاہتا ہوں۔ لوگ تو اپنے بچوں کو رونق میلے دکھانے کے لئے نکلتے ہیں لیکن میں انہیں اس ویرانہ میں کیوں لایا ہوں۔ لوگ تو اپنے بچوں کو فلمیں دکھانے لے کرجاتے ہیں اور میں انہیں یہ پتھر دکھانے کیوں نکلا ہوں۔ لوگ اپنے بچوں کوآرام و آسائش کی جگہوں پر لے کر جاتے ہیں میں انہیں اس دشت میں کیوں لایا ہوں۔
پھر کسی پہاڑ کے پیچھے سے، کسی جھاڑ کے اندر سے، کسی پتھر کے نیچے سے بیک زبان یہ جواب ملتا ہے، تو دشت ہے دشت سے ملنے آیاہے، تو تنہائی ہے تنہائی سے رفاقت نبھانے آیا ہے، تو گداز ہے، پھولوں سے ملنے آیاہے۔تو یہاں کیوں نہ آئے یہ تیرا ہی تو ہے،تیرے مالک نے تیرے لئے ہی تو پیدا کیا ہے، تو کسی ویرانے یا دشت میں نہیں آیا۔بلکہ تُو تو اپنے مالک کے بنائے ہوئے شاہکار کے اندراترنے کے لئے آیا ہے۔
پہاڑ وں نے مجھے کہا۔
”اپنا غصہ، اپنی نفرتیں، اپنے حسد، اپنی کدورتیں اور اپنے اندر کی گھٹن ہمیں دے دو اور یہاں سے پھولوں کی نرمی و گداز لے جاؤ، یہاں سے پھلوں کی شیرینی لے جاؤ۔ یہ سودا کوئی مہنگا تو نہیں۔“
میں نے سوچا، یہاں وہ علم ملتا ہے جو کسی یونیورسٹی میں نہیں ملتا۔ یہاں پاپی من چلا چلا کر کہتا ہے، میں ناہیں سب تو، اے خالقِ قدرت میں ناہئیں سب تو۔ میں تیرا عاجز، ناکارہ معمولی سا بندہ۔
یہاں میں حبیب جالب کو بھی نہیں بھول سکتا۔
پُھول کھِلے تو دل مُرجھائے، شمع جلے تو جان جلے
ایک تمہارا غم اپنا کر، کتنے غم اپنائے ہیں
ایک قیامت کا سنّاٹا، ایک بلا کی تاریکی
ان گلیوں سے دُور، نہ ہنستا چاند، نہ روشن سائے ہیں
پیار کی بولی بول نہ جالب ؔ! اس بستی کے لوگوں سے
ہم نے سُکھ کی کلیاں کھو کر، دُکھ کے کانٹے پائے ہیں
جب ہم جھاڑیوں کے چھپر نما جھُنڈ سے نکلے تو سامنے ایک چھوٹے سے پُل کے پیچھے ایک باغ کو پایا تو سکون ملا کیونکہ یہی ہماری منزل تھی۔ جونہی ہم اُس پل پر پہنچے تو اس کے نیچے بہتے ہوئے نالی نما نالے نے ہمیں رکنے کا اشارہ کیا لیکن ہم نے اُس کی بات نہ مانی کیوں کہ مجھے پتہ تھا جہاں سے یہ پانی آرہا ہے ہم وہاں کچھ ہی دیر میں پہنچ جائیں گے۔ اور ایسا ہی ہوا ہم کچھ ہی دیر میں باغ کے اندر تھے۔
ہمارے سامنے دائیں جانب ایک سرکاری عمارت تھی۔ جو بنانے والوں نے تو شاندار بنائی ہو گی لیکن سنبھالنے والوں نے اس کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا تھا۔ دوملازم اپنی سائیکلوں سمیت دکھائی دئیے لیکن کچھ دیر بعد غائب ہوگئے۔ لگتا تھا یہاں کچھ ملازم ہیں ضرور اور وہ کچھ کام بھی کرتے ہیں لیکن حاضری لگا کر چلے جاتے ہیں۔باغ میں داخل ہوں تو ایک چھوٹے سے صاف پانی کے نالے پر بنے چھوٹے سے لکڑی کے پل سے گزرنا پڑتا ہے اس سے پہلے ایک بورڈ آپ کو ا س باغ کے حوالے سے کچھ معلومات فراہم کرتا ہے۔ یہ باغ 1933 میں بنایا گیا، یہاں تقریبا ہر قسم کا پھل دار درخت موجود ہے۔ اس کے علاوہ چھ قسم کی مچھلی اور آٹھ قسم کے جانور موجود ہیں۔ باغ کے اندر جا کر پتہ چلتا ہے کہ محکمہ زراعت خوشاب کے زیرِ سایہ چلنے والا یہ باغ ایک خوبصورت باغ ہے۔ جس کی محکمہ نے اچھی حفاظت بھی کر رکھی ہے۔ اس باغ کی شہرت کی وجہ اور اس باغ کی جان ایک چشمہ ہے جو چٹانوں کے اندر سے رستے ہوئے نکلتا ہے۔ صاف پانی کا ایسا چشمہ جو اپنے ماخذ کے ساتھ موجود ہو کم ہی دیکھنے کو ملتاہے۔ اس کے پانی کو چھوٹے چھوٹے نالوں کے ذریعے اس باغ کے ہر حصہ میں پہنچایا گیاہے۔ اس طرح یہ چشمہ باغ کی سیرابی کے بعد باغ سے باہر چلا جاتا ہے۔
اس باغ میں ایک ٹریک بھی بنایا گیا ہے جو باغ کے چاروں اطراف گولائی میں گھومتا ہے۔یہاں آکر ایک لمحہ کے لئے بھی احساس نہیں ہوا کہ ہم اتنا وحشت ناک سفر کر کے آئے تھے۔ ہم چونکہ اتنامشکل سفر کر کے یہاں پہنچے تھے ا س لئے یہاں رکنے کو جی چاہ رہا تھا، ہم سب اس باغ کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہونا چاہتے تھے، چشمہ کے صاف پانی کو دیکھ کر میرے بچوں کی رگِ تیراکی پھڑک رہی تھی، میں اس باغ کے ارد گرد ایک چکر لگانا چاہتا تھا اور میری مسز یہاں کے پھل چکھناچاہتی تھیں۔ لیکن راستے کی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے میں اور عابد یہاں سے جلدی نکلنا چاہتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ یہاں صرف ایک گھنٹہ گزارنے کے بعدہم گاڑی میں بیٹھ کر اپنی نئی منزل کے لئے روانہ ہوئے۔


Urdu Litrature,Safernama,Waris Iqbal,Peryoun Ki Talash,Keler Kahar,Salt mines ,Khabiki lack, ochali lake
سفرنامہ،اردو ادب، وارث اقبال ،پریوں کی تلاش،کلر کہار، کھبیکی لیک، اوچھالی لیک










وہ دن جو ہمارا نہ تھا۔ وارث اقبال

کیا کِسی نے دستک دی پِھر کسی ستارے پر
رقص کرتے دیکھی ہے کائنات پِھر میں نے
شاید اِس طرح دُنیا میری رہ پہ چل نکلے
قریہ قریہ بانٹی ہے اپنی ذات پِھر میں نے
(قتیل ؔ شفائی)

جس طرح کے سفر پر ہم نکلے تھےایسے سفرمیں کبھی کبھی ایسے عجیب و غریب واقعات بھی رونما ہو جاتے ہیں جن کی ہر شخص اپنی اپنی تعبیریں نکالتاہے۔ ہم باغ سے نکل کر اُس نالے کے پل پر پہنچے جہاں سے آتے ہوئے ہم باغ میں داخل ہوئے تھے۔ اس پُل کے نیچے چشمے کا ہی پانی تھا جوبصورت نالہ بہہ رہا تھا۔ میں نے اُ س نالہ کے کنارے پرکھڑے ایک عمر رسیدہ شخص کو دیکھا جو ہمیں رکنے کا اشارہ کر رہا تھا۔ عابد نے پتہ نہیں اُسے دیکھا تھا یا نہیں لیکن میں اُسے دیکھ رہا تھاوہ ہمیں گاڑی کے پیچھے کی طرف دیکھنے کا اشارہ کر رہاتھا۔ میرے کہنے پر عابد نے گاڑی روکی اور میں اُتر کر گاڑی کے پیچھے جا کر گاڑی کو دیکھنے لگا۔نیچے سڑک کے عین درمیان میں بہتے ہوئے تیل کی ایک لمبی لکیر کافی دور تک جا رہی تھی۔ لگا جیسے یہ تیل ہماری گاڑی سے گرا تھا لیکن جب ہر طریقہ سے اطمینان کر لیا تو پتہ چلا کہ یہ تیل ہماری گاڑی سے نہیں گرا تھا۔ پھر بھی ہم ہر طرح سے اطمینان کرنے کے بعد گاڑی میں بیٹھے اور چل پڑے۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہاں وہ عمر رسیدہ شخص موجود نہیں تھا۔ لیکن میں نے اُس کی غیر موجودگی کو یکسر نظر انداز کر دیا۔
ہم اپنی منزل کی طرف گامزنِ سفر تھے، موسیقی جاری تھی اور کھانے پینے کی اشیا پر بھی ہاتھ صاف ہورہا تھا۔ ہم سب مصروف تھے لیکن عابد بے چین تھے اور گاڑی سے چھیڑ چھاڑ بھی کر رہے تھے۔ میں نے ان کی بے چینی دیکھ کر پوچھا، ” عابد کیا بات ہے، خیر تو ہے؟“
”گاڑی پِک نہیں پکڑ رہی، بھائی جان۔“



میں نے کہا۔
”تیل پانی چیک کر لو۔“
ہم نے گاڑی روک کر اُس کا چیک اپ شروع کیا، گاڑی اس مریض کی طرح تھی جو خود تو ایک لفظ نہ بولے لیکن اُس کے گھر والے بیماری کی نوعیت جاننے کے لئے اپنے اپنے طریقہ سے اُسے چیک کر رہے ہوں۔ ہمارے پاس کوئی اوزار تو تھا نہیں بس علامات کے ذریعے مریضہ کی بیماری تک پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ایسی صورتِ حال میں جب ڈاکٹرز کو کچھ سمجھ نہ آرہا ہو تو بس یہ کہہ کر جان چھڑاتے ہیں،
”ڈیپریشن ہے جی۔“
لیکن ہم تو اس وقت یہ بھی نہیں کہہ سکتے تھے۔ گاڑی نہ گرم تھی اورنہ ہی اس میں سے کوئی ناخوشگوار بو آ رہی تھی، میں نے خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کرایکسیلیٹر کو دبا کر چیک کیا، سب کچھ ٹھیک تھا۔ جب ہم گھر سے نکلے تھے تو ہم نے گاڑی کے تمام ٹیسٹ کروائے تھے جن میں یہ معصوم مکمل طور پر صحت مند قرار پائی تھی۔ خیر مشین تھی کیا کیا جا سکتا ۔
اپنا اطمینان کرلینے کے بعد ہم دوبارہ گاڑی میں آ گئے۔ لیکن گاڑی کی وہی صورتِ حال تھی۔
عابد کہنے لگا، ”بھائی جان! لگتا ہے جیسے کوئی گاڑی کوپیچھےسے کھینچ رہا ہو۔“
ہم سب نے پیچھے مڑکر دیکھا۔ کچھ نہ تھا۔ میں نے ہنستے ہوئےعابد سے کہا۔
” یار یہ گاڑی کوئی دوشیزہ تو نہیں جس پر کسی جن کا سایہ ہوجائے، کسی سایہ دار جگہ پر گاڑی روکو اور اس کے ویل جیک لگا کر چیک کرلو، کوئی ویل جیم نہ ہو۔“
عابد نے ایک اچھی اور گھنی سایہ دار جگہ گاڑی روکی تو ہم نے ایک ایک ویل کو جیک لگا کر چیک کیا۔ سب کچھ ٹھیک تھا۔ اس کام میں ہمیں کوئی آدھا گھنٹہ لگ گیا۔ لیکن گاڑی کی چلن درست نہ ہوئی جونہی اونچی جگہ آتی گاڑی اوپر چڑھنے سے انکار کر دیتی اور ہم سب گاڑی سے اُترنے پر مجبور ہو جاتے۔
جب بچوں کو پتہ چلا کہ گاڑی کسی نامعلوم عارضہ میں مبتلا ہے تو وہ اپنے شگوفے چھوڑنے لگے۔
’’ لیں جی آگیا کہانی میں ٹوسٹ‘‘
’’ آج بکریوں کا دودھ پیناپڑے گا۔‘‘
’’ بچو گے تو پیوگے۔‘‘
’’ اللہ اللہ کرو یار ۔۔۔ ایسی باتیں نہیں کرتے۔‘‘
’’ رات کہاں رہیں گے ماما۔‘‘
’’ اُ س پہاڑ کی غار میں۔‘‘
اس حالت میں ہمارا سفر ایک نیا رخ اختیار کر چکا تھا۔ کچھ دیر بعد تو مجھے یوں محسوس ہونے لگا جیسے میں صحرائے گوبی میں ہوں اور میرا اونٹ بیمار ہو گیا ہے۔ دور نزدیک نہ کوئی طبیب ہے نہ کوئی مسیحا۔
آہ!
غریب الوطنی بڑی عجیب ہوتی ہے
یہاں فطرت ہی رفیق ہوتی ہے
پڑجاتے ہیں چھالے جب چل چل کر
تو فطرت ہی طبیب ہوتی ہے
وہ موڑ اور پکڈنڈیاں جن کی خوبصورتی سے ہم آتے ہوئے لطف ا ندوز ہو رہے تھے۔ وہی وحشت بکھیر رہے تھے۔ وہ راستے جو وحشت ناک تھے کرب ناک بن گئے تھے۔ جوں جوں ہم آگے بڑھ رہے تھے گاڑی کامزاج زیادہ خراب ہو تا جارہا تھا۔ اب ہمیں زیادہ پیدل چلنا پڑ رہا تھا۔ پہاڑی سڑک پر پیدل چلنا اتنا آسان نہیں۔ کہیں کہیں پیدل چلنے والے اتنے نڈھال ہو جاتے کہ کچھ دیر کے لئے گاڑی کو روکنا پڑتا۔ کہیں گاڑی چلنا بند کر دیتی تو پیدل چلنے والوں کو روکنا پڑتا۔
کوئی کسی کو چھوڑ کر آگے نہیں جا سکتا تھا۔ کھانے پینے کی اشیا کا بڑا حصہ تو باغ میں ہی ختم ہو گیا تھا، جو بچاتھا وہ راستے میں ختم ہو گیا۔ چونکہ ہم زیادہ کوک اور پیپسی پی رہے تھے اس لئے پیاس بھی زیادہ لگ رہی تھی۔ کوک اور پیپسی سے بات پانی پر پہنچی اور پھر پانی بھی ختم ہو گیا۔ سورج تھا کہ آگ کا گولا بنا ہو اتھا۔ درختوں اور پودوں میں سے ٹھنڈی ہو کر آنے والی ہوا سورج کی گرمی کی شدت کو کچھ کم کر رہی تھی۔ لیکن پیاس کاکیاکرتےحلق سوکھنا شروع ہوگئے پانی کی ایک بوند نہ تھی اور کھانے کو ایک ذرہ نہیں۔ شکر تو یہ تھا کہ ہم صبح ہوٹل سے جلدی نکلے تھے ورنہ ابھی تک شام ہو جاتی۔ یوں ہمارے پاس زادِ راہ میں سے اگر کچھ باقی بچا تھا تو وہ تھا وقت۔۔۔ جواس وحشت،مصیبت اور خوف میں واحد سہاراتھا۔ منزل کو دور پا کر اور اپنی سواری کی بیماری کو دیکھ کر میرے ذہن میں ایک سوال نے جنم لیا،
”اگر ہمیں یہاں اس ویرانہ میں رات بتانی پڑے تو ہم کیاکریں گے۔“
جواب ملا،
”نہیں، ہر گز نہیں۔ ہم یہاں نہیں رک سکتے ہمیں دوپہر ڈھلنے سے پہلے ہر صورت میں مین روڈ پر پہنچنا ہے۔ یا پھر افغانیوں کی بستی میں۔“
اس حالتِ افتاد و ابتلا میں تہذیبی،تمدنی اور سیاسی تمام فاصلے مٹ چکے تھے۔ وہی بستی جو کچھ گھنٹے پہلے ہمارے لئے اجنبی تھی اب امید کی کرن بن رہی تھی۔آگے جا کر گاڑی کی طبیعت میں اتنا سدھار آیاکہ اُ س نے ہمیں سوار ہونے کا موقع دے دیا اور ہمیں بٹھا کر بھی چلتی رہی۔ یو ں جو سفر ایک گھنٹے میں کٹ رہا تھاوہ آدھ گھنٹے تک پہنچ گیا۔ راستے میں افغانیوں کی بستی آئی، شبیہوں والے پہاڑ آئے۔۔۔ اور پھر جب سڑک نے نیچے اترنا شروع کردیا۔ جوں جوں ہم نیچے جا رہے تھے گاڑی کی رفتار بھی تیزہو تی جارہی تھی۔ یو ں خدا خدا کر کے ہم اس مقام پر پہنچے جہاں سے ہم نے جاتے ہوئے بہت نیچے کھبیکی جھیل کے پانیوں کو پیالے میں بیٹھے دیکھا تھا۔ یہاں نظارہ اتناخوبصورت تھا کہ اگر حالات ہمارے قابو میں ہوتے تو ہم یہاں ضرور رکتے لیکن مجبوری کی وجہ سے گاڑی سے ایک بھی قدم باہر رکھنا گوارا نہ کیا۔
جوں جوں ہم آگے جا رہے تھے ہماری گاڑی کی طبیعت بحال ہو رہی تھی۔ ایسے مریض کی طرح جسے ڈرپ لگائی گئی ہو اور جوں جوں ڈرپ آگے بڑھےمریض کی طبیعت میں بھی بہتری آ تی جائے۔ عابد کو تھوڑا سا سکون ملا تو کہنے لگے،
”بھائی جان! پیچھے کچھ تھا ضرور کوئی ایسی شے جو ہمیں روک رہی تھی ہم جوں جوں آگے بڑھ رہے ہیں گاڑی کی پک ٹھیک ہو رہی ہے۔“
نہیں یار یہ محض اتفاق بھی توہو سکتاہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ گاڑی میں کچھ خرابی ہو۔“
میں نے جواب تو دے دیامگر اندر سے میں بھی سوچ رہا تھاکہ اس انڈیانا جونزکے دیس میں جن بھوت تو ہوتے ہوں گے۔۔۔ دوپہر کا وقت۔۔۔۔ پُرا سرار شبیہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ عمررسیدہ شخص۔۔۔۔۔۔۔ پھر ہمیں ہر شخص یہی کہہ رہاتھاکہ یہاں جن بھوت ہیں۔۔۔۔۔ ہوسکتاہے اور یہ بھی ہو سکتاہے کہ انہی شرارتی اور شیطان صفت جنوں اور بھوتوں کے ڈر سے پریاں یہاں سے بھاگ گئی ہوں گی۔ پریوں کا اس وحشت سے کیا تعلق۔ ویسے سچ تو یہ ہے کہ کھبیکی کا ہم نے ایسا حال کر دیاہے کہ پریاں تو کیا پرندے بھی یہاں اترتے ہوئے سو بار سوچتے ہوں گے۔
جب بہار آئی تو صحرا کی طرف چل نکلا
صحنِ گُل چھوڑ گیا، دل میرا پاگل نکلا
ہم سکوں ڈھونڈنے نکلے تھے، پریشان رہے
شہر تو شہر ہے، جنگل بھی نہ جنگل نکلا
کون ایوب پریشاں نہیں تاریکی میں
چاند افلاک پہ،دل سینے میں بے کل نکلا
(ایوب رومانی)
کچھ ایسی ہی سوچیں اور خیالا ت لئے ہم مین رو ڈ پر پہنچے،چھوٹی سی مارکیٹ پر رکے، کچھ کھانے پینے کی چیزیں لیں اور مکینک کا پتہ پوچھا۔لیکن پتہ چلا کہ یہاں کوئی مکینک نہیں۔ مکینک کے لئے ہمیں کوئی بیس میل دور نوشہرہ جانا ہو گا۔ شکر ہے نو شہرہ ہمارے راستہ میں بھی تھا اور اب ہماری منزل بھی۔
جونہی گاڑی مین روڈ پر آئی تو ایسے چلنے لگی جیسے کچھ ہوا ہی نہ تھا۔ گاڑی کو رواں بھاگتے دیکھ کر عابد نے پھر کہا۔
”دیکھ لیں بھائی جان گاڑی بالکل ٹھیک ہے، آپ مانیں یا نہ مانیں وہاں کچھ تھا ضرور۔۔“
ابھی عابد کی بات مجھ سے ہضم نہیں ہوئی تھی کہ شاہ زیب نے کہا۔
”پاپا وہ بابا نہیں تھاکوئی جن تھا۔“
میری مسز اور زین نے بھی شاہ زیب کی ہاں میں ہاں ملائی۔
زین سے ہم توقع نہیں کرتے کہ وہ شاہ زیب کی ہاں میں ہاں ملائے۔ پتہ نہیں اُ س کی کیا مجبوری تھی۔ ورنہ اُس نے یہاں کوئی سائنسی توجیح پیش کر کے بحث کے نئے در کھول دینے تھے۔
”بہر حال نوشہرہ پہنچ کر گاڑی چیک کروانا۔ اگر وہ جن ہی تھا تو ہو سکتا ہے کہ اُس نے ہماری گاڑی میں کوئی خرابی پیدا کر دی ہو۔“
میں نے یہ کہہ کر بات ختم کرنے کی بجائے مزید الجھا دی۔
” بھائی جان آپ تو مذاق کر رہے ہیں۔“ عابد کو میری بات کچھ پسند نہیں آئی۔
”ہو سکتا ہے آگے جن کاکو ئی کزن وزن رہتا ہو۔۔۔۔“
میں نے گفتگو کا سلسلہ بڑھانے کی کوشش کی لیکن عابد نہیں چاہ رہے تھے کہ ہم مزید بات کریں۔
شاہ زیب نے شرکت فرماتے ہوئے کہا۔ ” ان کی حکومت بھی تو ہوسکتی ہے۔“
زین کو شاہ زیب کی بات ہضم نہ ہوئی،
”او بھائی! یہاں شہباز شریف اور زرداری کی حکومت ہے۔۔۔ کسی جن کی نہیں۔“
عابد کو زین کی بات بہت اچھی لگی، ”تو زین وہ کون ہیں۔“
عابد کا جملہ زین کے سر سے گذر گیا۔
”آف کورس سیاستدان۔“
عابد نے اونچی آواز میں قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔
”شکر ہے زین تم نے یہ نہیں کہا ہمارے رہنما۔“
زین کہاں ہار ماننے والا تھا۔
”آف کورس۔۔۔۔ آپ کے نہیں ہوں گے میرے تو ہیں۔۔۔۔ میرے ہی نہیں پوری قوم کے ہیں۔“
”ٹھیک کہہ رہے ہو زین، اگر تمہارے اوپر ایک نک کٹا حکمران مسلط کر دیا جائے تو تم اُس کی بھی اطاعت کرو۔“
”لیکن وہ تو ٹھیک ٹھاک ہیں عابد انکل۔“
”ٹھیک ہیں تو اس طرح کے ہیں اور اگر۔۔۔۔“
”یہاں نک کٹے کا لفظ صرف Simboliclly استعمال ہوا ہے۔۔ کچھ سمجھیں بھی عابد انکل۔“
زین نے جواب دیا۔ شاہ زیب کو زیادہ بحث پسند نہیں اس لئے اس نے اس بحث سے نجات موسیقی میں تلاش کی، جونہی آوازِ سرتال بلند ہوئی سب خاموش ہوگئے۔ ہم نوشہرہ کے چھوٹے سے بازار میں داخل ہو ئے تو بغیر مشقت اور بھاگ دوڑ کے مکینک مل گیا۔ اُس نے یہ جملہ بول کر ہم سب کوحیران کر دیا۔
”گاڑی تو ٹھیک ٹھاک ہے جی۔“
میں نے مکینک سے کہا۔
”بھیادوبارہ دیکھ لو ہم نے بہت دور جانا ہے۔“
اُ س نے تقریبا تیس منٹ گاڑی کا مکمل چیک اپ کرنے کے بعدجواب دیا،
”گاڑی ٹھیک تھی ویسے میں نے احتیاطا ً ٹیونگ کر دی ہے۔“
گاڑی کا خراب ہونا تو سو قسم کے سوالات اور اعتراضات کو جنم دے سکتاہے لیکن گاڑی کا ٹھیک ہونا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم سب پریشان تھے۔
گاڑی میں بیٹھتے ہی شاہ زیب نے دوبارہ بحث کے لئے نکتہ پیش کیا،
”دیکھا، وہ جن ہی تھا۔“
عابد نے جی کو کھنچتے ہوئے کہا۔ ”جی ہاں۔“
زین مسلسل باہر دیکھ رہا تھا۔
”یار کوئی اچھی سی جگہ دیکھ کر رکنا کچھ کھا پی لیں۔“
سب کو خاموش پا کر میں نے عابد سے کہا تو زین بولا،
”عابد انکل گاڑی میں پٹرول دیکھیں ختم ہونے والا ہے۔“
”ہاں ابھی بھرواتے ہیں۔“
”جب پٹرول کم ہو تو چڑھائی پر پٹرول ٹینکی کے پچھلے حصے میں چلا جاتاہے۔ اور تھوڑا تھوڑا کر کے آتا ہے جس کی وجہ سے گاڑی پِک نہیں پکڑتی۔“
زین جو کافی دیرسے سوچ رہا تھا بالآخر ایک دلیل نکالنے میں کامیاب ہو ہی گیا۔
سب اپنی اپنی سوچوں میں مگن ہو گئے اور دماغ میں اس توجیح کا پوسٹ مارٹم شروع ہو گیا۔
عابد کچھ دیرخاموش رہنے کے بعد بولے،
”زین یہ جو بھائی جان ہیں نا یہ کبھی ہو ہی نہیں سکتا کہ پٹرول ڈلوائے بغیر ایسی جگہ چلے جائیں۔ انہوں نے سب کچھ پہلے سے ہی پلین کیا ہوتا ہے اس لئے یہ ممکن نہیں۔ دوسرا یہ کہ ابھی دیکھو آدھی ٹنکی پڑی ہے اور ہم پڑول ڈلوانے لگے ہیں۔“
زین اچھا کہہ کر خاموش ہوگیا۔
پڑول ڈلوایاگیا، ایک چھوٹے سے ہوٹل سے کھانا کھایاگیااور چائے پینے کے بعد ایک سیدھی سڑک پر چلتے ہوئے ہم اوچھالی جھیل پر جا پہنچے۔


______________________


اوچھالی جھیل وارث اقبال

جھیل کی طرف جانے والی سڑک حکومت کی نگاہِ مستانہ کی منتظر توتھی ہی مگر جھیل پر پہنچ کر یہ احساس شدت اختیار کرگیا کہ اس عجوبۂ قدرت کی نگہبانی کی ذمہ دار ساری زمینی قوتیں پہاڑوں میں موجود ڈاک بنگلوں میں خواب ِخرگوش میں مگن ہیں اور جھیل کو عوام الناس کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیاہے۔
قدرت نے اس جھیل کو وہی حسن دیا ہے جو کسی بھی جھیل کے پاس ہوناچاہئے چاروں طرف پہاڑوں میں گھری ہوئی یہ جھیل سائیبیریا کے پرندوں کا پسندیدہ مسکن ہے جو سخت موسم سرما میں یہاں آتے ہیں اور پھر چلے جاتے ہیں۔ سورج اس جھیل کا پانی تک اُبالنے پرتُلا ہوا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کی چاروں طرف دھند کا پہرا تھا۔ لگتا تھا جیسے کسی نے اس جھیل کو جکڑ رکھا ہو۔ سمندر جیسی یہ جھیل کناروں سے سوکھی ہوئی تھی۔ جیسے یہ موسمِ برسات کے انتظار میں ہو جب ناصرف یہ بھرے گی بلکہ اس کے ارد گرد کے پہاڑ بھی سبز لباس زیبِ تن کر لیں گے۔ جھیل کے اندر ایک سڑک بنائی گئی ہے جو جھیل کے اندر تک جاتی ہے۔ یوں ہم بغیر کشتی کے اپنی گاڑی میں ہی جھیل کے اندر تک چلے گئے۔ جہاں کچھ لوفر لڑکوں نے ڈیرا جما رکھاتھا۔ گاڑی پارک کرتے ہوئے سامنے ایک بورڈ پر نظر پڑی جس پر لکھا تھا۔

Bird Hide& Ecotourism Point
Uchali lake
Inaugurated by
Nasir Pracha
Base Commander PAF Base Camp Sakesar

اسی بورڈ کے پیچھے ایک اور بورڈ تھا جس پر ہدایات برائے ماحول دوست سیاحت کے عنوان کے تحت لوگوں کو ہدایات دی گئی تھیں۔ اس بورڈ کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا گیاتھا جو ہماری قوم بڑوں کی نصیحتوں کے ساتھ کرتی ہے۔
جنگلوں، ویرانوں میں جہاں جہاں آپ کو جانے کا اتفاق ہو وہا ں وہاں افواجِ پاکستان کی بنائی ہوئی سڑکیں موجود ہیں۔ اگر افواج اس طرف دھیان نہ دے تو شاید ملک کے کئی حصے ملک سے کٹے رہیں۔ افواج اپنے فنڈز استعمال کرتی ہے عوام کے ٹیکسز جن سے سڑکیں بننی چاہئیں جانے کس کی تجوری میں جاتے ہیں۔
شام ہونے کو تھی، تھکا ہارا سورج پہاڑوں کے پیچھے چھپنے کے لئے تیار تھا۔ جھیل کے ایک پہلو پر دکھائی دینے والے دو گاؤں اوچھالی اور چٹا دھند میں جکڑے ہوئے الف لیلوی گاؤں کا منظر پیش کر رہے تھے۔ دھوپ سے تنگ آئے پرندے شام ہوتے ہی اپنے مسکنوں سے باہر نکل آئے تھے۔ یہ مرغابیاں تھیں جو جانے کب سے یہیں رہتی ہیں۔ کچھ مہاجر پرندے بھی ہوں گے کیونکہ ہم نے ایک عجیب سی چڑیا دیکھی تھی جو ہماری ہزار کوشش کے باوجود ہمارے کیمرے کی آنکھ میں قید نہ ہوئی۔ اُ س کی پھرتیاں بتا رہی تھیں کہ وہ کسی غیر دیس سے آئی تھی اور اس کے گھر والوں نے اسے اچھی طرح سمجھا کر بھیجا تھا کہ پاکستانیوں سے کس طرح بچنا ہے۔ اس جھیل سے آگے سکیسر اور سکیسر بیس کیمپ ہے جو اس وادی کی سب سے اونچی پہاڑی پر قائم کیاگیا ہے۔ سنا ہے کہ وہاں سے اوچھالی اور وادی کا منظر بہت خوبصورت دکھائی دیتا ہے۔ چونکہ ہمارے پاس سرکاری پروانہ ٔ دید نہیں تھا ا س لئے جو دیکھا اسی پر قناعت کی اور واپسی کاسفر اختیار کیا۔
اسی جھیل کے پیچھے انگہ کا علاقہ ہے جو تاریخی اہمیت کے ساتھ ادبی اہمیت کا بھی حامل ہے کہ احمد ندیم قاسمی کا تعلق بھی وہیں سے ہے۔
بچے تصویریں بنانے میں مگن تھے اور میں پرندوں کی تلاش میں لیکن مجھے جہاں بھی کسی پرندے کے ہونے کی بھنک پڑتی وہیں سے کوئی بوتل یا شاپنگ بیگ دستیاب ہوتا۔ کائی سے بھرے ہوئے پانی میں کاغذ، لفافے، بوتلیں اور شاپر اس طرح تیر رہے تھے جیسے انہوں نے اسی جھیل کے ہی بطن سے جنم لیا تھا۔ ہوا کے ساتھ پانی کی لہروں میں آنے والی تبدیلی انہیں مزید نمایاں کر رہی تھی۔
میرے اندر ان بوتلوں اور شاپنگ بیگز نے کھلبلی مچائی ہوئی تھی۔ کیا ہم میلوں سفر طے کر کے ا س جھیل کو گندگی کا تحفہ دینے کے لئے آتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ تحفہ کی خوبصورتی کا تعلق تحفہ لانے والے پر ہو تا ہے۔ تو کیا ہم اتنے گندلا چکے ہیں کہ ہم قدرت کے ان شاہکاروں کی خدمت میں بھی گندگی کا تحفہ پیش کرتے ہیں۔ ایک بوتل یا چپس کا ایک پیکٹ ہم کہیں سے خریدتے ہیں، کئی میل اٹھا ئے پھرتے ہیں اور پھر اُسے استعمال کرکے جھیل میں پھینک دیتے ہیں۔کیا استعمال کرنے کے بعد اس کا بوجھ بڑھ جاتا ہے جو ہم اسے اٹھا کر واپس نہیں لے جا سکتے۔
سورج ڈوب رہا تھا۔ آگ کا ایک گولہ آ سمان پر تھا اور ایک جھیل پر۔ لگتا تھا جیسے آگ کا گولہ جھیل کے پانی پر تیر رہا ہو۔ یا کوئی پانی کے اندر سے روشنی باہر پھینک رہا ہو۔ سرمئی رنگ نے چاروں اطراف جھیل کوگھیر رکھا تھا اور اس سارے سرمئی رنگ میں آگ کا یہ گولہ اور اس کے اطراف پھیلے رنگ ناممکنات کو ممکنات میں بدل رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہیں پیلے، کہیں لال،کہیں نارنجی اور کہیں ایسے کہ شاید ان کے لئے کوئی نام ہی نہ تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کے لئے بے نام ہونا ہی بہتر تھا۔ ہوا جب جھیل کے پانی سے مستیاں کرتی تو رنگوں کا یہ گولا بھی تھرکنے لگتا۔ میں ساری عمر نہ اس کے رنگ بھول سکتا ہوں نہ اس گولے کا تھرکنا۔ اُ س دن مجھے تھرکنے کے معنی سمجھ آئے۔ سیاہ مرغابیاں جب روشنیوں کے ان دائروں میں آتیں تو ان کےبھی رنگ بدل جاتے۔ لگتا تھا جیسے سرمئی رنگ کے تالاب میں سنہری کھلونے تیر رہے ہوں۔ سارا دن یہ مرغابیاں دھوپ سے بچ کر اپنے مسکنوں میں قید رہیں مگر اب اسی دھوپ کے منبع کے ساتھ کھیل رہی تھیں۔
جب شام کے سائے بڑھنے لگے تو ہم نے واپسی کا قصد کیا۔
رنگوں کا گولا بھی اوچھالی کے پانیوں کے بستر میں گھس گیا تھا۔ کچھ بہادر اور نڈر مرغابیاں آوازیں نکال نکال کر یہ بتا رہی تھیں کہ ہمارے گھر جانے کا وقت ابھی نہیں آیا۔
سورج کو جھیل اوچھالی کی گود میں اترتے ہوئے ہم بہت پیچھے چھوڑ آئے تھے کیوں کہ ہمارے گائیڈز نے ہمیں نصیحت کی تھی کہ رات سے پہلے واپس آجائیے۔ لیکن اب تولگ رہا تھا کہ راستے میں رات سے ملن ضرور ہو گا۔
عابد نے گاڑی سے کھیلنا شروع کر دیا۔ اہل ِ اقتدار اس سڑک کوبنا کر بھول چکے تھے۔ سڑک کی بیماری کافی بڑھ چکی تھی لیکن اس کے علاج کی طرف کوئی توجہ نہ دی گئی تھی البتہ پانی نے سڑک کا وہ حصہ ہی کاٹ دیا تھا جو اُسے زیادہ بیمار لگاتھا۔
رات کے خوف میں مبتلا عابد گاڑی کو اسی بیمار سڑک پر بھگا رہا تھا۔ جب گاڑی سڑک کے زیادہ بیمار حصے سے گذرتی تو اُسے نیچے سے سڑک ایسا گھونسا مارتی کہ وہ کئی فٹ اوپر اچھل جاتی اوراُس کے جسم کے کسی نہ کسی حصہ سے ایک چیخ نما آواز بھی بلند ہوتی۔ ایک جگہ توایسا خوف ناک جھٹکا لگا کہ سوئے ہوئے تو بیدار ہو ہی گئے تھے اگر گاڑی کی چھت مضبوط نہ ہوتی تو میں نے چھت سے نکل کرگاڑی کے بونٹ پر پہنچ جانا تھا۔ میں نے اپنے سر کو زور زور سے سہلایا۔ عابد نے پیچھے مڑ کر دیکھا لیکن اُس کی نگاہیں وہاں نہ رک سکیں اور میری زبان سے کچھ بھی نہ نکل سکا۔ البتہ گاڑی کی رفتار کچھ کم ہو گئی۔ بقول مجروح سلطان پوری:
جلوۂ گل کا سبب دیدۂ تر ہے کہ نہیں
میری آہوں سے بہاراں کی سحرہے کہ نہیں
راہ گم کردہ ہوں کچھ اس کو خبر ہے کہ نہیں
اس کی پلکوں پہ ستاروں کا گزر ہے کہ نہیں
ہم روایات کے منکر نہیں لیکن مجروح
زمزمہ سنج مرا خونِ جگر ہے کہ نہیں
پہاڑو ں کے سائے بڑھتے جارہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں یہ سائے مزید بڑھ گئے۔ صبح ہم انہی پہاڑوں کی خوبصورتی کے گن گاتے ہوئے جارہے تھے اور ان کے گلے مل مل کر تصویریں اُتار رہے تھے۔ لیکن اب یہی پہاڑ وحشت کی آماجگاہ بنے ہوئے تھے۔ دنیا کی مشہور جھیلوں میں سے ایک اوچھالی جھیل کافی پیچھے رہ گئی تھی۔ اسی جھیل کے پیچھے ایک تاریخی مقام امب شریف ہے جو اپنے قدرتی حسن، چشموں، بزرگانِ دین اور تاریخی اثرات کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس سے کوئی دو کلومیٹر دور امب کا قلعہ ہے۔ اس کے بارے میں کہاجاتاہے کہ یہ ایک راجہ امبریک نے تعمیر کروایا تھا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں راجہ سیفل اور اس کی محبوبہ کے عشق کی داستان وجود میں آئی۔ راجہ نے اپنی محبوبہ کے دیدار کے لئے اُ س کی خواب گاہ کے سامنے اپنی خواب گاہ تعمیر کروائی تھی۔ جہاں سے بیٹھ کر وہ اپنی محبوبہ کا دیدار کیا کرتا تھا۔گویا اس راجہ کا تعلق عشاق کے اُس خاندان سے تھا جو اپنی محبوبہ کی گلی میں کھڑے ہونا ہی اپنی زندگی کا مشن سمجھتے ہیں۔ بقول مومن خان مومن
قہر ہے موت ہے قضا ہے عشق
سچ تو یہ ہے بری بلا ہے عشق
یوں اسی راہ گزرپر گھنٹوں سفر کرتے ہوئے واپس ہم اپنی مچان پر پہنچے اور پھر سب نے خود کو رات کی آغوش کے سپرد کر دیا۔
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: سفرنامہ ’’ پریوں کی تلاش‘‘ از وارث اقبال گیارہویں قسط

Post by چاند بابو »

بہت خوب محترم آخرکار طویل انتظار کے بعد آپ کے سفرنامہ کی اگلی قسط پڑھ ہی لی۔
میرے خیال میں اقساط کے نمبر میں آپ تھوڑا گڑبڑا گئے ہیں کیونکہ گیارہویں‌قسط پہلے ہی
اب ہم پہاڑوں کے درمیان میں تھے۔ یہ علاقہ بہت ہی عجیب ہے، انڈیانا جونز کی فلموں کی کوئی سائیٹ یا کو بوائز کادیس۔
اس لائن تک موجود ہے جو 9 مئی کو شائع ہوئی تھی۔ اس کے بعد بارہویں قسط
”نہیں، ہر گز نہیں۔ ہم یہاں نہیں رک سکتے ہمیں دوپہر ڈھلنے سے پہلے ہر صورت میں مین روڈ پر پہنچنا ہے۔ یا پھر افغانیوں کی بستی میں۔“
تک 14 مئی کو شائع ہو چکی ہے، البتہ اس کے بعد والی داستاں نئی ہے۔


ویسے آپ کے سفرنامہ کی اقساط تو بچپن کے پی ٹی وی کے ڈرامے سے بھی زیادہ طویل انتظار کرواتی ہیں اور جب نئی قسط آئی ہی ہے تو آدھے سے زیادہ وقت پچھلی اقساط کے ری کیپ میں گزر گیا اس کی وجہ کیا ہے؟
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
وارث اقبال
کارکن
کارکن
Posts: 69
Joined: Wed May 30, 2012 10:36 am
جنس:: مرد

Re: سفرنامہ ’’ پریوں کی تلاش‘‘ از وارث اقبال گیارہویں قسط

Post by وارث اقبال »

چاند صاحب تساہل پر معذرت۔۔۔اصل میں کسی بھی تخلیق پر تاثرات تخلیق کار کے لئے مہمیز کا کام کرتے ہیں۔ چونکہ فورم سست چل رہا تھا اس لئے میں بھی سست ہوگیا۔ لیکن اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہفتہ میں ایک قسط ضرور بھیج دوں گا چاہے آپ کے اکیلے ہی کے تاثرات پڑھنے کو کیوں نہ ملیں۔آ ؔپ کا بہت شکریہ قسط نمبر میں اپنی دانست میں 13 کر دیا ہے اب دو قسطیں گیارہویں ہوگی اور ؔآگے درست ہو جائے گا۔
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: سفرنامہ ’’ پریوں کی تلاش‘‘ از وارث اقبال گیارہویں قسط

Post by چاند بابو »

بہت بہت شکریہ۔
فورم پر ایکٹو ممبران بہت کم رہ گئے ہیں لیکن ٹریفک کے حساب سے آج بھی فورم بہترین جا رہا ہے اور روزانہ ایک ہزار سے زیادہ لوگ فورم کو وزٹ کرتے ہیں اس لئے آپ خاطر جمع رکھیں اور یہاں اپنا حصہ ڈالتے رہیں گو کہ آپ کو سراہنے والے کم ہیں مگر آپ کی تحاریر سے استفادہ کرنے والے ہزاروں میں ہیں اور بانٹنے کا یہ سلسلہ رکنا نہیں چاہئے۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Post Reply

Return to “نثر”