سفر نامہ پریوں‌کی تلاش پانچویں قسط وارث اقبال

اردو زبان میں لکھے گئے مضامین پرمبنی کتب
Post Reply
وارث اقبال
کارکن
کارکن
Posts: 69
Joined: Wed May 30, 2012 10:36 am
جنس:: مرد

سفر نامہ پریوں‌کی تلاش پانچویں قسط وارث اقبال

Post by وارث اقبال »

5 فطرت کا دبستان
میں اپنی عادت کے مطابق سڑک کے دائیں بائیں سنگتروں کے باغات، دیہاتی گھروں اور درختوں کے بدلتے رنگوں کی خوبصورتی اور اصلیت کو اپنے اندر اْتارنے کی کوشش میں مصروف ہو گیا۔ سنگترے تو موجودنہیں تھے لیکن پودے اپنے حسن کا بھرپوراظہار کر رہے تھے۔سنگتروں کے اتنے باغات دیکھ کر میرے تو دماغ میں فوراً یہ بات آئی کہ یہاں سنگترہ تو بہت ارزاں ملتا ہو گا۔ لیکن یہ محض وہم تھا کیونکہ لاہور ان باغات سے اتنا دور نہیں کہ ان کی قیمت دس گنا بڑھ جائے۔ ایک سو روپے کے ایک درجن سنگتروں کاسوچ کر مجھے ان پودوں پر ترس آنے لگا جو چند مفاد پرستوں کے ہاتھوں استحصال کا شکار تھے۔ فطرت معصوم ہوتی ہے وہ ذخیرہ اندوزی نہیں کرتی، نہ استحصال کرتی ہے اور نہ ہی افراطِ زر پیدا کرتی ہے۔ اْس کے لئے سب ایک جیسے ہیں لیکن وہ سب کے لئے ایک جیسی نہیں۔ کچھ اْس کی خوبصورتی میں ڈوب جاتے ہیں، کچھ اْسے نظر انداز کر دیتے ہیں اور کچھ بد بخت ایسے ہوتے ہیں جو اْسے لوٹتے ہیں اور اس کا چہرہ بگاڑتے ہیں۔ فطرت محض خوبصورت ہی نہیں ہوتی پْرسکون بھی ہوتی ہے، یہ ایسا حْسن ہوتا ہے جسے چْھونے کی نہیں دیکھنے کی اور محسوس کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کی پاکی اور لطافت انسان کے اندرہی نہیں اْترتی بلکہ اندر کو اپنے اندر سموکر اپنی طرح پاک صاف اور لطیف بنا دیتی ہے۔ اس کی ان گنت تہیں ہیں، ان گنت جہتیں اور ان گنت روپ ہیں۔ مشہور فلسفی جارج سانٹایا نا(George Santayana)نے بہت خوبصورت بات کی ہے۔ ’’ زمین میں موسیقی ہے مگر اْن کے لئے جو اسےسننا چاہتے ہیں۔‘‘ اگر کسی کو فطرت بھا جائے تو وہ سمجھ لے کہ وہ خدا کے قریب ہے اور گناہوں سے دور ہے۔کیونکہ فطرت کے چاہنے والے فطرت کی لطافت وپاکیزگی، فطرت کے جلال و کمال اور فطرت کے جمال میں اپنے رب کو بہت آسانی سے محسوس کر لیتے ہیںَ۔ موٹرو ے بنانے والوں نے اس بات کا خاص خیال رکھا ہے کہ اْن کا مسافر کہیں بھی اکتاہٹ، تناؤ یا بے زاری کا شکار نہ ہو۔ چاہے میدانوں سے گذر رہا ہو، یاجنگلوں سے، بیابانوں سے یا بستیوں سے، سبزے سے لدی وادیوں سے یاسنگلاخ چٹانوں سے۔ جہاں بھی اْکتاہٹ کا جھونکا آتا ہے وہاں کوئی نہ کوئی منظر چْستی کا باعث بن جاتاہے۔ جو ں ہی تھکن کی گرم ہوا چلتی ہے تو کسی انٹر چینج پر بنے قیام و طعام کے مقامات اْسے فوراًسیدھا ہو کر بیٹھنے اور تھکن مٹانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ایک انٹر چینج ہمارے سامنے بھی تھا ۔ ’ بھیرہ انٹر چینج ‘ بھیرہ انٹر چینج پہنچ کر ہم اپنی گاڑی کے مکمل چیک اپ کے لئے مکینک کے پاس پہنچے تو جناب مکینک نے اگلے دونوں ویل کھول دئیے۔ موٹر وے کے مکینک بھی موٹر وے کی طرح کچھ مختلف ہیں۔ کم بول کر اور مسکراہٹ کو زبردستی دبا کر اپنے پڑھے لکھےہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ ویسے بھی جب مقابلہ میں کوئی نہ ہو تو مزاج میں سختی آہی جاتی ہے۔ خیر گاڑی اور عابد کو اس مکینک کے پاس چھوڑ کر ہم خود بھیرہ انٹر چینج کے طعام کے لوازمات اور یہاں بنے طعام و قیام کے مقامات کی خوبصورتی سے لطف اْٹھانے میں مصروف ہو گئے۔ اس انٹر چینج کی عمارت نا صرف بہت خوبصورت ہے بلکہ کھلی اور ہوا دار بھی ہے۔ یہاں ہم نے ایک گھنٹہ قیام کیا۔ اس دوران بے شمار گاڑیاں مسافروں کو لے کر آتی اور جاتی رہیں لیکن مجھےکسی لمحے ہجوم یا بدنظمی کا احساس تک نہ ہوا۔ یہاں ہر عمر کے افراد کے لئے لطف اندوز ہونے کا شرعی سامان موجود ہے۔ بھیرہ انٹر چینج پر پہنچے ہیں تو بھیرہ کا ذکر بہت ضروری ہے۔ اس انٹر چینج سے کچھ ہی فاصلے پر بھیرہ شہر موجود ہے۔ جو ہمارا اگلا پڑاؤ تھا۔





_______________________________________________________________________________
Post Reply

Return to “اردومضامین”