سفرنامہ پریوں‌کی تلاش چوتھی قسط وارث اقبال

اردو زبان میں لکھے گئے مضامین پرمبنی کتب
Post Reply
وارث اقبال
کارکن
کارکن
Posts: 69
Joined: Wed May 30, 2012 10:36 am
جنس:: مرد

سفرنامہ پریوں‌کی تلاش چوتھی قسط وارث اقبال

Post by وارث اقبال »

سفرنامہ جہاں‌سے چھوڑا تھا وہیں سے شروع کر رہا‌ہوں . غیر حاضری پر معذرت.
میں نے تاریخ میں کئی دفعہ دلا بھٹی کی داستان پڑھی۔ مجھے وہ ہمیشہ ایک باغی ہی دکھائی دیا لیکن جب میں نے پنڈی بھٹیاں کے انٹر چینج کے اس ریستوران میں بیٹھ کر تاریخ کے اوراق سے گرد اْتاری تو مجھے دْلا بھٹی آزادی کاا یک متوالا دکھائی دیا۔ جس نے پہلی اور آخری دفعہ ایک منظم لوک راج قائم کیا۔ جس نے ساندل بار کی زرخیز زمینوں اور محنتی لوگوں کو غلامی سے نجات دلوانے کے لئے جدوجہد کی اورپھر اپنے لہو سے اس خطے کی زمینوں کو سیراب کردیا۔ کہاجاتا ہے کہ لہو زمین کی زرخیزی کا باعث بنتا ہے۔ شاید اس علاقے کی زمینوں کی زرخیزی دلے بھٹی اور اس کے ساتھیوں کے لہو ہی کی وجہ سے ہے ۔
یہیں سے میرے عدو کا خمیر اٹھا تھا
زمین دیکھ کے میں تیغ بے نیام ہوا تھا
خبر نہیں ہے میرے بادشاہ کو شاید
ہزار مرتبہ آزاد یہ غلام ہوا ہے
(احمد جاوید)
میرے بیٹے نے میری توجہ میز پر رکھے برگر کی طرف دلائی تو مجھے میز پر ایک پلیٹ میں ایک چھوٹے سے لشکر جیسے فرنچ فرائز ، جری سپہ سالار نما برگر اور خلقِ خدا جیسی، سیاہ نصیبوں جلی پیپسی کی ایک بوتل دکھائی دی۔ میں نے فرنچ فرائز کے تین ٹکڑوں کا ایک نوالہ بنایا اور دانتوں کے سپرد کر دیا۔ جونہی میری زبان اور دانتوں نے فرنچ فرائز کا مزا چکھا تو مجھے یوں لگا کہ جیسے میں کسی لشکر میں موجود ہوں اور دن بھر کی تھکن کے بعد کھانا کھا رہاہوں۔ لیکن ایک خوف نے مجھے جکڑ رکھا تھا۔ خوف اس امر کا نہیں تھاکہ آج کی جنگ میں میری جان جائے گی یا میں کسی اور معرکہ میں جان دینے کے لئے بچوں گا۔ خوف اس چیز کا تھا کہ تاریخ لکھنے والا میرے ساتھ کیا سلوک کرے گا۔ مجھے دلابھٹی کے لشکر میں بٹھائے گا یا اکبرِ اعظم کے۔
______________________

شہر کے اندر ایک شہر
بچے کھاتے پیتے رہتے ہیں۔ ان کا کھانا پینا ہی ان کی تفریح ہوتی ہے۔ کھانے پینے فرصت پانے کے بعد ہم ایک بار پھر گاڑی کی طرف لوٹے۔ گاڑی میں بیٹھ کر یوں لگا جیسے ہم اپنے گھر پہنچ گئے ہوں۔ کچھ ہی دیر میں پیٹ نے بھی احساس دلانا شروع کر دیا کہ ظلِ سبحانی اکبرِ اعظم کے نین نقش والا جابر برگر اپنا کام دکھا کر طبیعت کے بوجھل پنے کا باعث بن رہاتھا۔ کیاکر سکتا تھا ، پیٹ پر ہاتھ رکھا، دھوپ کی عینک کو ناک پر بٹھا کر آنکھیں بند کیں اور کچھ دیر سستانے کی کوشش شروع کر دی ۔
مگر بے وطنی میں آرام کہاں۔ ہمیں اپنے سفر کی تمام تر تکالیف یہ سمجھتے ہوئے برداشت کر لینی چاہئیں کہ یہ ہمارے سفر کا ایندھن ہے۔ عابد صاحب پڑول پمپ پہ لے آئے۔ دوسری طرف متاثرِ برگر پیٹ نے سیون اپ کاتقاضاشروع کر دیا جو اس کی عادت ہے۔ اس لئے میں سیون اپ کی تلاش میں ٹک شاپ پر چلا گیا۔ سیون اپ لی اور پیسے دینے کے لئے کاؤنٹر پر گیاہی تھا کہ اچانک کاؤنٹر پر رکھے ایک اخبار پر نظر پڑ گئی۔ اخبار تو روز ہی دیکھتے ہیں لیکن یہ اخبار اس لئے اہم تھا کہ اس میں ایک فیکٹری ’ کریسنٹ باہو مان ‘ کااشتہار تھا۔ اس فیکٹری کے بارے میں کچھ عرصہ پہلے مجھے ایک دوست نے بہت کچھ بتایاتھا ۔ اس اشتہار نے وہ سب کچھ یاد دلا دیا۔ یہاں اگر اس فیکٹری کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ فیکٹری بنانے والوں کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ ’ کریسنٹ باہو مان ‘ پنڈی بھٹیاں میں کریسنٹ والوں کااسٹیچنگ پلانٹ ہے۔ یہ ایک فیکٹری ہی نہیں بلکہ آٹھ سے دس ہزار آبادی پر مشتمل ایک مکمل ، آزاداور جدید شہر ہے۔ یہاں بجلی کا مسئلہ نہیں کیونکہ فیکٹری کا اپنا بجلی کاپلانٹ موجود ہے، یہاں تعلیم کا مسئلہ نہیں کیونکہ فیکٹری کے اندر ہی ایک جدید اسکول قائم ہے۔ یہاں رہائش کا مسئلہ نہیں کیونکہ فیکٹری کے اندرہی رہائش کا بھی انتظام ہے۔ یہاں کھیلنے کی جگہ کا مسئلہ نہیں کیونکہ فیکڑی کے اندر ہی تمام کھیلوں کے وسیع میدان موجودہیں ، جن میں گولف تک شامل ہے۔ مختصر یہ کہ اس شہر میں نہ سکیورٹی کا مسئلہ، نہ طبی سہولیات کا فقدان۔ بس لوگ فیکڑی میں کام کرتے ہیں اور سکون سے زندگی بسر کرتے ہیں۔ اس فیکڑی میں ڈینم جینز بنتی ہیں۔ دھاگہ سے لے کر حتمی استری تک یہاں مکمل جین تیار ہوتی ہے جو ناصرف ملکی ضرورت پورا کرتی ہے بلکہ باہر کے ملکوں میں بھی بھیجی جاتی ہے۔ یوں پنڈی بھٹیاں کا نام باہر کی دنیا میں اس فیکٹری کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ گویا پنڈی بھٹیاں پوری دنیا میں پاکستان کی شہرت کا باعث ہے۔ کا ش! مادرِ وطن کا ہر شہر اس طرح کا بن جائے کہ لوگ صرف کام کریں باقی تمام ذمہ داریاں حکومتی نظام ادا کرے۔ کاش! ہر فیکڑی، ہر کارخانہ، ہر مل ہر دکان اپنے مزدور کے ساتھ یہ معائدہ کرے تم صرف کام کرو تمہاری ذمہ داریاں ہم اٹھائیں گے۔ اُسے اور اُس کے بچوں کو صحت، صاف خوراک کی فراہمی کولازم بنایاجائے گا۔ اُس کے بچوں کو ان اداروں سے تعلیم دلوائی جائے گی جہاں اس فیکٹری کے مالک کے بچے پڑھتے ہیں۔
کاش ایسا ہو۔۔
کبھی ، اے کاش ، میں یہ معجزہ ِ ہُنر دیکھوں
تیرے مزاج پہ اپنے لہجے کا اثر دیکھوں
ترک ِ خواہش ہی ہوئی تکمیل ِ حسرت نہیں دیکھی
خواہش ہے کہ عُمر تیرے ساتھ کرکے بسر دیکھوں
ہم سب اپنی اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد دوبارہ گامزنِ سفر ہوئے کیونکہ اگلا پڑاؤ ہمارا منتظر تھا۔ سڑک پر آتے ہی عابد نے رفتار کے پائےدان پر اپنے پیر کی گرفت کچھ زیادہ ہی مضبوط کر لی اور خاصے جارحانہ انداز میں گاڑی سے سڑک پر حملے شروع کر دیئے۔ جب اسپیڈو میٹر میری بتائی ہوئی حد پار کرنے لگاتو میں نے عابد سے کہا، ’’ عابد آپ نے چائے پی ہے، ‘‘ عابد نے شیشے میں سے دیکھتے ہوئے انتہائی مختصر جواب سے نوازا، ’’ جی بھائی جان۔ ‘‘ ’’ کیسی تھی چائے؟ سناہے مرچیں کچھ زیادہ تھیں۔ ‘‘
’’ نہیں بھائی جان ایسی تو کوئی بات نہیں تھی ،اچھی تھی چائے۔ ‘‘ ’’ تو پھر خیریت ہے، کیا پریوں کی بجائے فرشتوں سے ملاقات کا ارادہ ہے۔ ‘‘ عابد نے ’ نئی بھائی جان ‘ کہہ کررفتار کو سنبھالا دیا۔ سب اپنے اپنے کام میں مصروف تھے۔ مسز اپنی نیند پوری کرنے کے منصوبہ پر عمل پیرا تھیں اور میں حیات کے بدلتے رنگوں میں گم تھا کہ اچانک مجھے گاڑی سے کچھ ناگوار سی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ میں انتظار کر رہا تھا کہ عابد کچھ فرمائیں اور شاید عابد کو یہ انتظار تھا کہ بھائی جان حسبِ عادت آوازوں کو سمجھیں اور مشورہ دیں۔ جب میرے صبر کا امتحان ا پنا نقطۂ عروج کوچھونے لگا تو میں نے عابد سے کہا ، ’’ عابد یہ آوازیں کیسی ہیں۔ ‘‘ ’’ اگلے ویل سے آ رہی ہیں جی۔‘‘ جو میرے لئے مسئلہ تھا وہ عابد کے لئے روزمرہ کاکھیل۔ ’’یار! کوئی خطرہ تو نہیں ،‘‘ ’’ نہیں جی خیر ہے۔ بھیرا جا کر چیک کرواتے ہیں۔ ‘‘ وقفہ وقفہ سے آنے والے نازک خراٹوں ، پارٹی سونگز ، میرے پیٹ کی غٹر غوں اور ان انجانی اور بے کیف سی آواز وں کے ساتھ ہم اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہے۔
______________________
Post Reply

Return to “اردومضامین”