عمرفاروق wrote:جس ادارے کی بات کررہاہوں
یہ بنگلادیش،تھائی لینڈ،اور ملیشیاء کے روہنگیا مسلمانوں کو تعاون کرتی ہے
رقم کی صورت میں اور راشن کی صورت میں
لیکن مسئلہ ہے کہ ان میں دھڑے بندی ہورہی ہے .. جس کی وجہ سے گزشتہ محفل منعقد کی تھی اور اسی پر میں گیا تھا
ادارے کی بنیاد ایک سال پہلے رکھی گئی تھی ..
حال ہی میں پاکستانی چینلز میں کچھ سعودی روہنگیا کے مطالق یہ خبر نشر ہوئی تھی کہ یہ لوگ را کے ائجنٹ ہیں
جس کے بعد سے اختلافات شدت اختیار کرگئے ہیں .. اس وجہ سے اچھا کام چلتے چلتے خراب ہوگیا ہے
جو حوالےقرآن کریم سے چاند بھائی نے دیئے ہیںاس کو میںنے ایک بندے کو پیش کیا ہے اور ان کے گروپ میں بھی شئیر کیا ہے
جس کے بعد انہوں نے اس حوالے کو بطور بیعت اس کو تسلیم کرنے پر غور کیا ہے ..اراکین اس آیت پر بیعت کریں کہ ان تمام نقاط کی پاسداری کریں گے
اور کوئی ایسی بنیادی باتیں جس کو لیکر اس میں اتحاد اتفاق پیدا کرسکتے اور ایک رول وضع کریں تاکہ ہرفرد انفرادی طور پر اس کو
پڑھ کر سمجھ سکیں اور چل سکیں .
عمرفاروق بھیا آپ کی بات پڑھ کر خاصہ صدمہ ہوا کہ اچھے بھلے ایک نیکی کے کام میں رکاوٹ آ گئی.
دراصل اسلام دشمن طاقتیں ہر اس قوت کے خلاف ہیں ہر اس عمل کے خلاف ہیںجو مسلمانوں کی طرف سے بھلائی کی طرف شروع کیا جائے.
ہو سکتا ہےکہ خبریں واقعی درست ہوں اس ان کی صفوں میں گھس کر را اپنے مقاصد کے حصول کی کوششیں کر رہی ہو.
مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ان لوگوںکو ایک نیک عمل ترک کر دینا چاہئے.
انہیں اپنی صفوں میں چھپے ایسے عناصر کی نشاندہی کرنی اور انہیں نکال باہر کرنا ہو گا اور اگر ہر رکن اپنے اردگرد اور اپنے مشیران کی طرف نظر دوڑائے گا تو اسے ایسے مشکوک عناصر کا یقینا علم ہو جائے گا جو تنظیمی مقاصد سے ہٹ کر کام کر رہے ہیں یا پھر تنظیمی مقاصد کو ایک خاص سمت دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں.
اس میں شک نہیں ہے کہ قوموں کی کامیابی و کامرانی کا ایک راز ان کا آپس میں اتحاد و اتفاق رہا ہے. جس طرح پانی کے قطرات کے مل جانے سے بہت بڑے دریا بنتے ہیں اسی طرح انسانوں کے اتحاد اور جمع ہونے سے ایسی صفیں تشکیل پاتی ہیں کہ جن پر نگاہ ڈالتے ہی دشمن وحشت زدہ ہو کر رہ جاتا ہے اور پھر کبھی بھی ان کے خلاف کچھ کرنے کا تصور تک نہیں کرتا:
( تُرْہِبُونَ بِہِ عَدُوَّ اﷲِ وَعَدُوَّکُمْ)(1)
ترجمہ:تم صف بندی کے ذریعہ اپنے اور خدا کے دشمنوں کو خوف زدہ کرو۔
خداوند تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ مشرکوں کے مانند آپس میں اختلاف اور اس پر فخر و مباہات مت کریں:
(ولاتَکُونُوا مِنْ الْمُشْرِکِینَ مِنْ الَّذِینَ فَرَّقُوا دِینَہُمْ وَکَانُوا شِیَعًا کُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَیْہِمْ فَرِحُونَ)(٢)
ترجمہ:اور خبردار مشرکین میں سے نہ ہوجانا جنھوں نے دین میں تفرقہ پیدا کیا ہے اور گروہوں میں بٹ گئے ہیں پھر ہر گروہ جو کچھ اس کے پاس ہے اسی پر مست و مگن ہے۔
اسلام نے نہ صرف ان اختلافات سے بچتے رہنے کی سخت تاکید کی تھی، بلکہ نہایت واضح طور پر وہ طریقہ بھی بتا دیا تھا، جس طریقہ پر عمل کر کے ان اختلافات سے محفوظ رہا جا سکتا تھا۔ اور ساتھ ہی اس طریقہ کی خلاف ورزی کے سبب سے پچھلی امتیں جن خرابیوں میں مبتلا ہو چکی تھیں، ان کی طرف بھی اشارہ کر دیا تھا تاکہ مسلمان ان کے انجام سے عبرت حاصل کر سکیں۔ قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیات ملاحظہ ہوں:
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلاَ تَفَرَّقُوْا وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖ اِخْوَانًا وَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْہَا کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَ، وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ، وَلاَ تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا مِنْ بَعْدِ مَا جَآءَ ہُمُ الْبَیِّنٰتُ وَاُولٰٓءِکَ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ. (آل عمران۳: ۱۰۳۔۱۰۵)
’’اور اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی کے ساتھ پکڑے رہو اور پراگندہ نہ ہو جاؤ اور اپنے اوپر اللہ کے اس فضل کو یاد رکھو کہ تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمھارے دلوں کو جوڑا اور تم اس کی رحمت سے بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے کھڈکے بالکل کنارے پر کھڑے تھے تو اللہ نے تم کو اس سے بچایا۔ اسی طرح اللہ تمھارے لیے اپنی آیتوں کو کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم راہ یاب ہو۔ اور تم میں سے ایک خاص گروہ ہونا چاہیے جس کا کام یہ ہو کہ وہ لوگوں کو بھلائی کی دعوت دے، معروف کا حکم کرے اور منکر سے روکے اور وہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔ اوران لوگوں کی طرح نہ بن جانا جو (اللہ کی رسی کو چھوڑ کر) پراگندہ ہو گئے اور خدا کی طرف سے کھلی کھلی آیتیں پانے کے بعد انھوں نے آپس میں اختلاف کیا۔ اور یہی لوگ ہیں جن کے لیے بڑا عذاب ہے۔‘‘
باقی رہی بات بدگمانی کی تو اس طرح کے معاملات میںایک عام انسان کے دل میںدوسرے کے لئے بدگمانی پیدا ہونا کوئی اچنبے کی بات نہیں البتہ ہمیں ہمارے رب اور پیارے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بد گمانی سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے.
قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے: ترجمہ ’’ اے ایمان والو! زیادہ تر گمانوں سے بچا کرو، بے شک بعض گمان ( ایسے) گناہ ہوتے ہیں (جن پر اُخروی سزا واجب ہوتی ہے)۔‘‘الحجرات،۹۴:۲۱
حضور نبی اکرم ﷺ نے درج ذیل احادیث مبارکہ میں بدگمانی کرنے کی مذمت اور ممانعت فرمائی ہے ۔ حضرت ابو ہریرہؓ روایت کر تے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ بدگمانی کرنے سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے، ایک دوسرے کے ظاہری اور باطنی عیب مت تلاش کرو۔‘‘
حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’حسن ظن رکھنا حسن عبادت میں سے ہے۔‘‘
ابو دائود، السنن، کتاب الادب، باب فی حسن الظن ،۴:۸۹۲،رقم:۳۹۹۴)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس آکردوسروں کی برائی کرنے والوں کو یہ کہہ کر برائی کرنے سے منع کر دیا کہ :
لا یبلغنی احد من اصحابی عن احد شیئا فانی احب ان اخرج الیکم وانا سلیم الصدر.(ابوداؤد، رقم ۴۸۶۲)
’’مجھے میرے ساتھیوں میں سے کوئی کسی کے بارے میں کوئی بات نہ پہنچائے اس لیے کہ میں یہ پسند کرتا ہوں کہ جب میں تم لوگوں میں آؤں تو میرا دل تم لوگوں کے بارے میں صاف ہو‘‘
اس کے بعد بات کرتے ہیںکچھ دنیاوی طریقوں کی جو دراصل اوپر موجود احکامات کی روشنی میںہی وضح کیئے جائیں.
1. اپنے تمام مالی معاملات کا کسی اچھی اور پروفیشنل فرم سے سخت آڈٹ کروایا جائے.چاہے اس پر کتنا ہی خرچ کیوںنہ ہو جائے کیونکہ اکثر اوقات بظاہر درست نظر آنے والے معاملات میں بہت ہیرپھیر ہوتا ہے.
2. اپنی صفوں میں سے بے دین اور غیرایماندار لوگوں کو نکال باہر کیا جائے چاہے اس کا کوئی بھی خمیازہ کیوں نہ بھگتنا پڑے.
3. نئے شامل ہونے والے لوگوں کی سخت جانچ پڑتال کی جائے اور ان کا ماضی اور حال بہت اچھی طرح کھنگال کر انہیں ذمہ داری سونپنی چاہئے.
4. تنظیم میں کوئی ایسا فنڈ قبول نہ کیا جائے تو انہیں کسی خاص کام یا جگہ پر استعمال کرنے کی شرائط کے ساتھ دیا جائے. کیونکہ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ اس طرح کے ادارے فنڈز دیتے وقت ساتھ اپنی مرضی کی شرائط بھی مسلط کرتے ہیں تاکہ ان کے مزموم مقاصد کا حصول ممکن ہو سکے.
5. تنظیم سے جڑے افراد کے اثاثہ جات پر وقتا فوقتا نظر رکھی جائے اور اثاثہ جات میں کسی بھی غیر معمولی اضافہ یا اس کے لائف سٹائل میں تبدیلی کا ماخذ دریافت کیا جائے تاکہ پتہ چلے کہ اسے کسی طرف سے کسی ایسی مد میں پیسہ موصول تو نہیں ہو رہا ہے جو تنظیم کے لئے نقصان دہ ہے اور اگر ایسا شک گزرے تو اس رکن سے دریافت کیا جائے اور تسلی بخش جواب نہ ہونے کی صورت میں تنظیم سے علیحدہ کر دیا جائے.
6. تنظیم کا امیر نہایت ایماندار اور دین دار شخص کو بنایا جائے جو نہ صرف دینی بلکہ دنیاوی امور پر بھی دسترس رکھتا ہوں چاہے ایسے بندے کو رکھنے کے لئے تنظیم کو خرچہ بھی کرنا پڑے.
7. امیر کی اطاعت ہر رکن پر لازم ہو اور کوئی بھی کام اس کے حکم کے خلاف نہ ہو اور حکم عدولی کی صورت میں تادیبی کاروائی عمل میں لائی جائے.
8. امیر کے مواخذے کے لئے ایک شوریٰ مقرر کی جائے جو دین دار لوگوں پر مشتمل ہو جو امیر کے ایسے احکامات کو چیلنج کر سکے جو تنظیمی ڈھانچے کے برخلاف ہوں.
9. امیر کا ہر بڑا فیصلہ جس کے اثرات پوری تنظیم پر مرتب ہوں شوری سے توثیق کے بعد عمل میں لایا جائے.
10. ممکن ہو تو تنظیم سازی کے عمل میں سے حکومتی اداروں کو باہر رکھا جائے کہ عموما برے عناصر کا وار ان اداروں پر جلدی ہو جاتا ہے.
11. ہر فیصلے، ہر امداد، ہر فنڈ، ہر امر کو قرآن و سنت کی کسوٹی پر پرکھا جائے اور اگر یہ اس کسوٹی پر پورا اترتا ہو تو اس پر عمل پیرا ہوں اور اگر وہ اس کسوٹی پر پورا نہ اترتا ہو تو اس پر بالکل عمل نہ کیا جائے چاہے اس کا کتنا بھی تقصان کیوں نا اٹھانا پڑے.
12. ادارے کا ہر کام خالص اللہ کی رضا کے لئے ہو نہ کہ نمود و نمائش کےلئے.
13. جتنا زیادہ ہو سکے اراکین میڈیا سے درو رہیں اور اپنے اندرونی و بیرونی معاملات کی میڈیا پر تشہیر ہرگز نہ کریں.
14. اپنے کام کے لئے کسی این جی او کا سہارہ لینے سے ہرصورت گریز کیا جائے اور اگر کسی معاملہ میں تعاون ناگزیر ہے تو مخصوص شرائط باقاعدہ طے کر کے ان کے ساتھ کام کیا جائے اور انہیں اپنے اندرونی معاملات سے کوسوں دور رکھا جائے.
یہ چند آراء ہیں جن کی روشنی میں اسرنو تنظیم سازی کی جائے تو ان شاءاللہ اچھے نتائج حاصل ہونے کی توقع ہے.