السلام علیکم .... :) بات ھے احساس کی........!!
Posted: Mon Jun 29, 2015 12:19 am
مسجد سے حمدیہ اشعار اور نعتوں کی مترنم صدا سنائی دے رہی تھی۔ وہ اٹھ بیٹھا۔ بوسیدہ سی چارپائی پر بیٹھا وہ یہی سوچ رہا تھا کہ ا سے کس ونا کس یہ کام کرتا تھا, آخر کو گھرمیں ضعیف ماں, بچے اور صابرو شاکر بیوی تھی, اسکے وجود سمیت پورا گھر سناٹے کی لپیٹ میں تھا,وہ بے دھیانی میں نظروں سے ادھر اُدھر کچھ تلاش کرتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا_______
اسی اثنا گھر کے ایک کونے سے برتن ٹکڑانے کی ہلکی سی آواز سنائی دی, وہ بے خیالی میں آواز کی سمت چل پڑا____
اسکی بیوی نے چولہے پر ابالنے کیلئے پانی چڑھا رکھا تھا, یہ دیکھ کے اس کے دل کودھچکا لگا کہ چولہے پہ رکھے پانی کے علاوہ ایک پانی اور بھی تھا جو اس کی بیوی کی آنکھوں سے ابل رہا تھا۔
وہ وہی بیوی کے پاس بیٹھ گیا, جیسے کسی گاؤں کے وڈیرے کی کچہری میں فریادی بیٹھا ہو______
اب پانی نے جیسے کسی آسیبی ماحول کے زیرِ تحت برتن سے ھوتے ہوئے اس کی بیوی کی آنکھوں کے ذریعے اسکی آنکھوں سے بہنے کا رستہ ڈھونڈ لیا تھا۔
بیوی نے امڈتے آنسو کو باز رکھنے کے لئے ڈوپٹے کے پلو کا سہارا لیا تو اپنے پاس "اس" کی موجودگی کو محسوس کر کے اپنی حالت کو چھپانے کی نا کام کوشش کی۔
"وہ" سن ذہن اور سلے ہو نٹوں کے ساتھ کچھ دیر خاموش رہا تو بیوی ماحول کی کیفیت کو ختم کرنے کے لئے دھیمے لہجے میں بول پڑی_____
" کچھ سویاں رکھی تھیں___ عید کے لئے---- وہی بنا رہی ہوں, بچے سو رھے ھیں اور امّاں چاشت کے نوافل ادا کررہی ھیں"
وہ بنا کچھ کہے اٹھ کر نل کی جانب چل دیا, وضو کر کے بیوی کے ملگجی سے ڈوپٹے کے ساتھ منہ ہاتھ صاف کرتا ہوا اسی سے مخاطب ہوا " بچوں کو اٹھا کر کھلا دینا میں کچھ دیر میں آتا ہوں"
یہ کہہ کر وہ مسجد کی طرف روانہ ہو گیا,
_____مسجد اس کے گھر کی گلی کے موڑ پرواقع تھی, وہ خود کلامی کرتا ہوا بڑی بے چینی سے مسجد میں داخل ہوا, مولوی صاحب کو باادب سلام کیا اور محلّے کے چند اشخاص سے سلام دعا کر کے ایک طرف بیٹھ گیا۔
اسی بے چینی میں "وہ" کئی باراٹھا اور مسجد کے گیٹ تک جاتا اور پھر آ کر ایک طرف بیٹھ جاتا, نمازیوں کی تعداد وقت کے ساتھ ساتھ بڑھنے لگی, نماز کا وقت قریب تھا, مولوی صاحب واعظ ارشاد فرما رھے تھے,
" معززین....!!
آج تعلقات و رشتوں میں اس قدر بے رغبتی اور بے حسی پیدا ہو گئی ہے کہ مسلمان نہ قرابت کا خیال کر رہا ہے اور نہ ہمسائیگی کا ۔بلکہ ہمسایہ سے تو اس طرح نفرت کی جاتی ہے کہ جیسے ازلی دشمن ہو ۔نبی آخر الزماں ﷺ کا امتی ہمسایہ سے ویسے ہی سلوک کرے گاجس طرح ہمارے آقا ﷺ نے حکم فرمایا ہے ۔اگر آج ہمسائیگی کا اسلامی طریقے کے مطابق خیال رکھا جائے تو معاشرہ سے 50%برائیوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور ایک بار پھر ہمارا معاشرہ دنیا کا اعلیٰ ترین معاشرہ بن سکتا ھے"
اب نمازی اب وقفے وفقے سے آنے لگے, کوئی اکا دکا_____ , مولوی صاحب زور و شور سے واعظ کہہ رھے تھے, نمازی ساکت بیھٹے بہت غور سے واعظ سن رھے تھے۔کچھ وقت یونہی گزرا, پھر وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور وضو کرنے والی جگہ کے پاس چند منٹ شش و پنج میں کھڑا رہا, مجمعے پر ایک محتاط انداز میں نظر ڈالی اور مسجد کے گیٹ کی طرف بڑھا----
نمازیوں کے جوتے عبورکرتے ھوئے اپنا جوتا پہنا اور باہر نکل آیا۔
مولوی صاحب واعظ جاری رکھے ھوئے تھے,
"ہمسایہ کے حقوق کی ادائیگی بڑی اہم ہے کیونکہ ہمسایوں کا تعلق رشتہ داروں کے قریب قریب پہنچ جاتا ہے ۔ معززین_____ مسلم, بخاری سے روایت ھے, حضور اکرم ﷺ نے اس بات کا اظہار یوں فرمایا ہے ؛” حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا مجھے جبرائیل پڑوسی کے حقوق کے بارے میں تاکید کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے گمان کیا وہ اسے وراثت میں شریک کر دیں گے"
واعظ جاری تھا کہ اچانک ایک شور اٹھا,
چوررر ___چورر___ اس نے چوری کی ﷲ کے گھر سے____توبہ توبہ استغفار____ چور__مسجد کے گلّے سے پیسے چوری کر رہا تھا-----------
شور سن کرمولوی صاحب کے ھمراہ سب نمازی مسجد کے گیٹ پر پہنچ گئے.....
تین گھر چھوڑ کر چھوٹے گھر میں رہنا والا اسی کا ہمسایہ "اسے" بُری طرح وقفے وقفے سے تھپڑ رسید کر رہا تھا,
مولوی صاحب کے ساتھ نمازیوں کو آتا دیکھ کر وہ برق رفتاری سے بولا
"یہ مسجد کے گلّے سے پیسے چرا رہا تھا, حرکت دیکھو سب اس کی, جھاڑو کے تنکے کو شاید الفی لگا کر______ابھی 20 روپے ہی چرائے تھے اس نے, میں موقع پر پہنچ گیا اور پکڑ لیا, ورنہ یہ مسجد کا چندہ لے اڑتا" حرامی
ان میں سے ایک کم عمر جذباتی بولا " پولیس کے حوالے کرو اسے"
ایک اور آواز آئی " اتنا بڑا گناہ _____ مسجد کے پیسے چرانے کی کوشش, ﷲ کے گھر میں ڈاکہ____ توبہ توبہ,
کانوں کو ہاتھ لگاتے ھوئے مذید بولا " ہم اسے کتنا نیک, صابر اور شاکر سمجھتے تھے کہ غریب ہوتے ھوئے بھی اتناخوددار ھے کہ کسی سے سوال نہیں کرتا, لیکن یہ تو ____ استغفرﷲ_____
" وہ سب کے درمیان تین دن سے بھوکا گردن جھکائے کھڑا تھا, اس کی کیفیت سے بے خبر سب اپنی اپنی بولی بول رھے تھے,
ہمسائے کے حقوق پر واعظ دینے والے مولوی صاحب آگے بڑھے اور "اس" کے منہ پر طماچہ دے مارا,
" اس کی آنکھ سے پہلا آنسو گرا, اب تک وہ تماشا بنا لفظوں اورہاتھوں کی مار کھاتا رہا مگر لفظوں کی مار ہاتھوں کی مار سے ذیادہ تکلیف دہ اور کربناک تھی"
چند ثانیے یہ مجمع یونہی لگا رہا اور پھر مولوی صاحب مسجد کے اندر چل دیے, اور ان کی تقلید کرتے ھوئے سب نمازی ان کے پیچھے پیچھے نماز پڑھنے چل پڑے.......!!
اسی اثنا گھر کے ایک کونے سے برتن ٹکڑانے کی ہلکی سی آواز سنائی دی, وہ بے خیالی میں آواز کی سمت چل پڑا____
اسکی بیوی نے چولہے پر ابالنے کیلئے پانی چڑھا رکھا تھا, یہ دیکھ کے اس کے دل کودھچکا لگا کہ چولہے پہ رکھے پانی کے علاوہ ایک پانی اور بھی تھا جو اس کی بیوی کی آنکھوں سے ابل رہا تھا۔
وہ وہی بیوی کے پاس بیٹھ گیا, جیسے کسی گاؤں کے وڈیرے کی کچہری میں فریادی بیٹھا ہو______
اب پانی نے جیسے کسی آسیبی ماحول کے زیرِ تحت برتن سے ھوتے ہوئے اس کی بیوی کی آنکھوں کے ذریعے اسکی آنکھوں سے بہنے کا رستہ ڈھونڈ لیا تھا۔
بیوی نے امڈتے آنسو کو باز رکھنے کے لئے ڈوپٹے کے پلو کا سہارا لیا تو اپنے پاس "اس" کی موجودگی کو محسوس کر کے اپنی حالت کو چھپانے کی نا کام کوشش کی۔
"وہ" سن ذہن اور سلے ہو نٹوں کے ساتھ کچھ دیر خاموش رہا تو بیوی ماحول کی کیفیت کو ختم کرنے کے لئے دھیمے لہجے میں بول پڑی_____
" کچھ سویاں رکھی تھیں___ عید کے لئے---- وہی بنا رہی ہوں, بچے سو رھے ھیں اور امّاں چاشت کے نوافل ادا کررہی ھیں"
وہ بنا کچھ کہے اٹھ کر نل کی جانب چل دیا, وضو کر کے بیوی کے ملگجی سے ڈوپٹے کے ساتھ منہ ہاتھ صاف کرتا ہوا اسی سے مخاطب ہوا " بچوں کو اٹھا کر کھلا دینا میں کچھ دیر میں آتا ہوں"
یہ کہہ کر وہ مسجد کی طرف روانہ ہو گیا,
_____مسجد اس کے گھر کی گلی کے موڑ پرواقع تھی, وہ خود کلامی کرتا ہوا بڑی بے چینی سے مسجد میں داخل ہوا, مولوی صاحب کو باادب سلام کیا اور محلّے کے چند اشخاص سے سلام دعا کر کے ایک طرف بیٹھ گیا۔
اسی بے چینی میں "وہ" کئی باراٹھا اور مسجد کے گیٹ تک جاتا اور پھر آ کر ایک طرف بیٹھ جاتا, نمازیوں کی تعداد وقت کے ساتھ ساتھ بڑھنے لگی, نماز کا وقت قریب تھا, مولوی صاحب واعظ ارشاد فرما رھے تھے,
" معززین....!!
آج تعلقات و رشتوں میں اس قدر بے رغبتی اور بے حسی پیدا ہو گئی ہے کہ مسلمان نہ قرابت کا خیال کر رہا ہے اور نہ ہمسائیگی کا ۔بلکہ ہمسایہ سے تو اس طرح نفرت کی جاتی ہے کہ جیسے ازلی دشمن ہو ۔نبی آخر الزماں ﷺ کا امتی ہمسایہ سے ویسے ہی سلوک کرے گاجس طرح ہمارے آقا ﷺ نے حکم فرمایا ہے ۔اگر آج ہمسائیگی کا اسلامی طریقے کے مطابق خیال رکھا جائے تو معاشرہ سے 50%برائیوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور ایک بار پھر ہمارا معاشرہ دنیا کا اعلیٰ ترین معاشرہ بن سکتا ھے"
اب نمازی اب وقفے وفقے سے آنے لگے, کوئی اکا دکا_____ , مولوی صاحب زور و شور سے واعظ کہہ رھے تھے, نمازی ساکت بیھٹے بہت غور سے واعظ سن رھے تھے۔کچھ وقت یونہی گزرا, پھر وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور وضو کرنے والی جگہ کے پاس چند منٹ شش و پنج میں کھڑا رہا, مجمعے پر ایک محتاط انداز میں نظر ڈالی اور مسجد کے گیٹ کی طرف بڑھا----
نمازیوں کے جوتے عبورکرتے ھوئے اپنا جوتا پہنا اور باہر نکل آیا۔
مولوی صاحب واعظ جاری رکھے ھوئے تھے,
"ہمسایہ کے حقوق کی ادائیگی بڑی اہم ہے کیونکہ ہمسایوں کا تعلق رشتہ داروں کے قریب قریب پہنچ جاتا ہے ۔ معززین_____ مسلم, بخاری سے روایت ھے, حضور اکرم ﷺ نے اس بات کا اظہار یوں فرمایا ہے ؛” حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا مجھے جبرائیل پڑوسی کے حقوق کے بارے میں تاکید کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے گمان کیا وہ اسے وراثت میں شریک کر دیں گے"
واعظ جاری تھا کہ اچانک ایک شور اٹھا,
چوررر ___چورر___ اس نے چوری کی ﷲ کے گھر سے____توبہ توبہ استغفار____ چور__مسجد کے گلّے سے پیسے چوری کر رہا تھا-----------
شور سن کرمولوی صاحب کے ھمراہ سب نمازی مسجد کے گیٹ پر پہنچ گئے.....
تین گھر چھوڑ کر چھوٹے گھر میں رہنا والا اسی کا ہمسایہ "اسے" بُری طرح وقفے وقفے سے تھپڑ رسید کر رہا تھا,
مولوی صاحب کے ساتھ نمازیوں کو آتا دیکھ کر وہ برق رفتاری سے بولا
"یہ مسجد کے گلّے سے پیسے چرا رہا تھا, حرکت دیکھو سب اس کی, جھاڑو کے تنکے کو شاید الفی لگا کر______ابھی 20 روپے ہی چرائے تھے اس نے, میں موقع پر پہنچ گیا اور پکڑ لیا, ورنہ یہ مسجد کا چندہ لے اڑتا" حرامی
ان میں سے ایک کم عمر جذباتی بولا " پولیس کے حوالے کرو اسے"
ایک اور آواز آئی " اتنا بڑا گناہ _____ مسجد کے پیسے چرانے کی کوشش, ﷲ کے گھر میں ڈاکہ____ توبہ توبہ,
کانوں کو ہاتھ لگاتے ھوئے مذید بولا " ہم اسے کتنا نیک, صابر اور شاکر سمجھتے تھے کہ غریب ہوتے ھوئے بھی اتناخوددار ھے کہ کسی سے سوال نہیں کرتا, لیکن یہ تو ____ استغفرﷲ_____
" وہ سب کے درمیان تین دن سے بھوکا گردن جھکائے کھڑا تھا, اس کی کیفیت سے بے خبر سب اپنی اپنی بولی بول رھے تھے,
ہمسائے کے حقوق پر واعظ دینے والے مولوی صاحب آگے بڑھے اور "اس" کے منہ پر طماچہ دے مارا,
" اس کی آنکھ سے پہلا آنسو گرا, اب تک وہ تماشا بنا لفظوں اورہاتھوں کی مار کھاتا رہا مگر لفظوں کی مار ہاتھوں کی مار سے ذیادہ تکلیف دہ اور کربناک تھی"
چند ثانیے یہ مجمع یونہی لگا رہا اور پھر مولوی صاحب مسجد کے اندر چل دیے, اور ان کی تقلید کرتے ھوئے سب نمازی ان کے پیچھے پیچھے نماز پڑھنے چل پڑے.......!!