Page 5 of 6

ناامیدی اور مایوسی

Posted: Tue Sep 01, 2015 2:42 pm
by nizamuddin
رونے میں کوئی برائی نہیں ہے۔ نم آنکھیں، نرم دل ہونے کی نشانی ہیں اور دلوں کو نرم ہی رہنا چاہئے۔ اگر دل سخت ہوجائیں تو پھر ان میں پیار و محبت کا بیج نہیں بویا جاسکتا اور اگر دلوں میں محبت ناپید ہوجائے تو پھر انسان کی سمت بدلنے لگتی ہے۔ محبت وہ واحد طاقت ہے جو انسان کے قدم مضبوطی سے جمادیتی ہے اور وہ گمراہ نہیں ہوتا۔
بس ان آنسوؤں کے پیچھے ناامیدی اور مایوسی نہیں ہونی چاہئے۔ کیونکہ ناامیدی ایمان کی کمزوری کی علامت ہوتی ہے۔ اللہ سے ہمیشہ بھلائی اور اچھے وقت کی آس رکھنی چاہئے۔ وہ اپنے بندوں کو اسی چیز سے نوازتا ہے جو وہ اللہ سے توقع کرتے ہیں۔
(فاطمہ عنبریں کے ناول ’’رستہ بھول نہ جانا‘‘ سے اقتباس)

Re: اردو ناولز سے لئے گئے اقتباسات۔۔۔۔۔۔ نظام الدین

Posted: Tue Sep 01, 2015 3:30 pm
by ایم ابراہیم حسین
بہت عمدہ مواد
اللہ آپ کو خوش و سلامت رکھے آمین

Sent from my LenovoA3300-HV using Tapatalk

محبت

Posted: Wed Sep 02, 2015 4:07 pm
by nizamuddin
[center]محبت[/center]
محبت دوڑ نہیں ہوتی، طوفان نہیں ہوتی، سکون ہوتی ہے۔ دریا نہیں ہوتی، جھیل ہوتی ہے۔ دوپہر نہیں ہوتی، بھور سمے ہوتی ہے۔ آگ نہیں ہوتی، اجلا ہوتی ہے۔ اب میں تجھے کیا بتاؤں کہ کیا ہوتی ہے۔ وہ بتانے کی چیز نہیں، بیتنے کی چیز ہے۔ سمجھنے کی چیز نہیں، جاننے کی چیز ہے۔
(ممتاز مفتی کی کتاب ’’سمے کا بندھن‘‘ کے افسانے ’’عینی اور عفریت‘‘ سے اقتباس)

متبرک تحفہ

Posted: Thu Sep 03, 2015 4:07 pm
by nizamuddin
ایک روز ایک بے حد مفلوک الحال بڑھیا آئی۔ رو رو کر بولی کہ میری چند بیگھہ زمین ہے جسے پٹواری نے اپنے کاغذات میں اس کے نام منتقل کرنا ہے لیکن وہ رشوت لئے بغیر یہ کام کرنے سے انکاری ہے۔ رشوت دینے کی توفیق نہیں۔ تین چار برس سے وہ طرح طرح کے دفتروں میں دھکے کھارہی ہے لیکن کہیں شنوائی نہیں ہوئی۔
اس کی دردناک بپتا سن کر میں نے اسے اپنی کار میں بٹھایا اور جھنگ شہر سے ساٹھ ستر میل دور اس کے گاؤں کے پٹواری کو جاپکڑا۔ ڈپٹی کمشنر کو اپنے گاؤں میں یوں اچانک دیکھ کر بہت سے لوگ جمع ہوگئے۔ پٹواری نے سب کے سامنے قسم کھائی کہ یہ بڑھیا شر انگیز عورت ہے اور زمین کے انتقال کے بارے میں جھوٹی شکایتیں کرنے کی عادی ہے۔ اپنی قسم کی عملی طور پر تصدیق کرنے کے لئے پٹواری اندر سے ایک جزدان اٹھا کر لایا اور اسے اپنے سر پر رکھ کر کہنے لگا۔ ’’حضور دیکھئے میں اس مقدس کتاب کو سر پر رکھ کر قسم کھاتا ہوں۔‘‘ گاؤں کے ایک نوجوان نے مسکرا کر کہا۔ ’’جناب ذرا یہ بستہ کھول کر دیکھ لیں۔‘‘
ہم نے بستہ کھولا تو اس میں قرآن شریف کی جلد نہیں بلکہ پٹوار خانے کے رجسٹر بندھے ہوئے تھے۔ میرے حکم پر پٹواری بھاگ کر ایک اور رجسٹر لایا اور سر جھکا کر بڑھیا کی انتقال اراضی کا کام مکمل کردیا۔
میں نے بڑھیا سے کہا۔ ’’بی بی، لوتمہارا کام ہوگیا۔ اب خوش رہو۔‘‘
بڑھیا کو میری بات کا یقین نہ آیا۔ اپنی تشفی کے لئے اس نے نمبردار سے پوچھا۔ ’’کیا سچ مچ میرا کام ہوگیا ہے؟‘‘
نمبردار نے اس بات کی تصدیق کی تو بڑھیا کی آنکھوں سے بے اختیار خوشی کے آنسو بہنے لگے۔ اس کے دوپٹے کے ایک کونے میں کچھ ریزگاری بندھی ہوئی تھی۔ اس نے اسے کھول کر سولہ آنے گن کر اپنی مٹھی میں لئے اور اپنی دانست میں دوسروں کی نظر بچا کر چپکے سے میری جیب میں ڈال دیئے۔ اس ادائے معصومانہ اور محبوبانہ پر مجھے بھی بے اختیار رونا آگیا۔ یہ دیکھ کر گاؤں کے کئی دوسرے بوڑھے بھی آبدیدہ ہوگئے۔
یہ سولہ آنے واحد ’’رشوت‘‘ ہے جو میں نے اپنی ساری ملازمت کے دوران قبول کی۔ اگر مجھے سونے کا ایک پورا پہاڑ بھی مل جاتا تو میری نظر میں ان سولہ آنوں کے سامنے اس کی کوئی قدر و قیمت نہ ہوتی۔ میں نے ان آنوں کو ابھی تک خرچ نہیں کیا۔ کیونکہ میرا گمان ہے کہ یہ ایک ایسا متبرک تحفہ ہے جس نے مجھے ہمیشہ کے لئے مالا مال کردیا۔

(شہاب نامہ سے اقتباس ۔ از قدرت اللہ شہاب)

سادہ دل

Posted: Thu Sep 03, 2015 4:08 pm
by nizamuddin
ہم بہت ترقی یافتہ نہیں ہیں۔ بہت پڑھے لکھے بھی نہیں ہیں۔ دھوکہ دہی، رشوت زنی، قتل و غارت اور بہت سی برائیوں میں بھی ملوث ہیں۔ ہمارے ہاں ظلم کھلے عام کیا جاتا ہے اور مظلوم بھی ہم ہی ہوتے ہیں۔ ہم پسماندہ بھی ہیں اور پست ذہن کے بھی۔ لیکن اس کے باوجود جہان سکندر! ہم دل کے برے نہیں ہیں۔ ہمارے دل بہت سادا، بہت معصوم اور بے حد پیارے ہوتے ہیں۔
(نمرہ احمد کے ناول ’’جنت کے پتے‘‘ سے اقتباس)

پانسہ

Posted: Sat Sep 05, 2015 2:38 pm
by nizamuddin
زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب آپ اپنا سارا دماغ، ساری طاقت، ساری ترکیبیں اور ساری صلاحیتیں صرف کرچکے ہوتے ہیں اور پانسہ پھینک چکے ہوتے ہیں۔ اس وقت سب کچھ خدا کے ہاتھ میں ہوتا ہے، اور آپ کچھ نہیں کرسکتے۔
(’’بابا صاحبا‘‘ از اشفاق احمد سے اقتباس)

Re: اردو ناولز سے لئے گئے اقتباسات۔۔۔۔۔۔ نظام الدین

Posted: Tue Sep 08, 2015 6:10 pm
by بلال احمد
بہت عمدہ اقتباسات کی شیئرنگ کے لیے شکریہ محترم

Re: اردو ناولز سے لئے گئے اقتباسات۔۔۔۔۔۔ نظام الدین

Posted: Tue Sep 08, 2015 7:16 pm
by افتخار
v;g

عزت نفس

Posted: Wed Sep 09, 2015 3:57 pm
by nizamuddin
ہمارے مسئلے اور ہماری پریشانیاں بھی راز ہی ہوتی ہیں۔ ان کا دوسروں کے سامنے اشتہار نہیں لگاتے! جو انسان اپنے آنسو دوسروں سے صاف کرواتا ہے وہ خود کو بے عزت کردیتا ہے اور جو اپنے آنسو خود پونچھتا ہے وہ پہلے سے بھی مضبوط بن جاتا ہے۔
(نمرہ احمد کے ناول ’’جنت کے پتے‘‘ سے اقتباس)

خوش گمان

Posted: Wed Sep 09, 2015 3:57 pm
by nizamuddin
ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں درندگی، بے ایمانی، سفاکی، بدعنوانی اور حیوانیت عام ہے۔ ہم جس کی مدد کرتے ہیں وہی بری طرح ہمارا استحصال کرتا ہے۔ ہم جسے تربیت پرواز دیتے ہیں، وہ اڑتے ہوئے ہمیں ہی اپنے پنجوں میں جھپٹ لیتے ہیں۔ ایسے میں بندہ خوش گمان کیسے رہ سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟
(صائمہ اکرم چوہدری کے ناولٹ ’’بات عمر بھر کی ہے‘‘ سے اقتباس)

Re: اردو ناولز سے لئے گئے اقتباسات۔۔۔۔۔۔ نظام الدین

Posted: Wed Sep 09, 2015 7:32 pm
by بلال احمد
عمدہ اقتباسات r;o;s;e r:o:s:e ;fl;ow;er;

معاوضہ

Posted: Thu Sep 10, 2015 4:05 pm
by nizamuddin
بڑے سالوں کی بات ہے ایک شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا۔ ’’دعا کریں مجھے کام مل جائے۔‘‘
میں نے کہا۔ ’’تم یقین سے کہتے ہو تمہیں کام کی تلاش ہے؟‘‘
کہنے لگا۔ ’’حد کرتے ہو، پچھلے دو سال سے بیکار ہوں، اگر مجھے کام کی تلاش نہ ہوگی تو کسے ہوگی؟‘‘
میں نے کہا۔ ’’اچھا اگر تمہیں کام مل جائے اور اگر معاوضہ نہ ملے تو پھر؟‘‘
وہ حیران ہوکر میری طرف دیکھنے لگا تو میں نے کہا۔ ’’اچھا اگر تمہیں کام مل جائے اور کام کرنے کی تنخواہ نہ ملے پھر؟‘‘
گھبرا کر کہنے لگا۔ ’’مجھے ایسا کام نہیں چاہئے جیسا کہ تم کہہ رہے ہو، مجھے نوکری والا کام چاہئے، ایسا کام جس کے دام ملیں۔‘‘
میں نے کہا۔ ’’اچھا! اگر تم کو تنخواہ ملتی رہے اور کام نہ کرنا پڑے پھر؟‘‘
کہنے لگا۔ ’’سبحان اللہ، ایسا ہوجائے تو اور کیا چاہئے۔‘‘
میں نے کہا۔ ’’پھر تمہیں کام کی تلاش نہیں، تنخواہ اور معاوضے کی تلاش ہے۔‘‘
اسی طرح ہم خدا کے ساتھ کرتے ہیں، بظاہر عبادت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باطن کسی اور شے کا طلب گار ہوتا ہے۔
(اشفاق احمد از ’’بابا صاحبا‘‘ سے اقتباس)

مثبت رخ

Posted: Fri Sep 11, 2015 4:00 pm
by nizamuddin
پتہ نہیں کیوں میرے دل میں جنت کی آرزو کبھی پیدا نہیں ہوئی۔ اگر اللہ جنت دے دے تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن اس کی آرزو کبھی پیدا نہیں ہوئی۔ دوزخ کا ڈر میں شدت سے محسوس کرتا ہوں لیکن دوزخ سے بچنے کے لئے ثواب کمانے کی آرزو نہیں رکھتا۔ مجھے اس آرزع سے دوکانداری کی بو آتی ہے۔ میرے ذہن میں نیکی، عادت، اذیت، وحشت، امکان ثواب سے بے تعلق چیز ہے۔ بے مقصد، بے نیاز۔ مجھے یہ آرزو بھی نہیں کہ اللہ والا بن جاؤں یا بزرگی مل جائے یا مست ہوجاؤں۔ مجھے مراتب کی طلب نہیں۔ میری دانست میں عام انسان بذات خود ایک عظیم مرتبہ ہے۔ مجھے صرف ایک آرزو ہے کہ میرا رخ مثبت رہے۔ انسانوں کی طرف، اللہ کی طرف۔
(ممتاز مفتی کی کتاب ’’لبیک‘‘ سے اقتباس)

کریلے

Posted: Thu Sep 17, 2015 2:52 pm
by nizamuddin
امی جی نے کریلے بہت شوق سے خریدے تھے۔ زیبا باجی نے بکتے جھکتے کاٹے تھے۔ امی جی نے عبادت کی طرح خاموشی اور لگن سے پکائے تھے، پر زیبا باجی خفا ہوگئی تھیں۔ اتنی زیادہ کہ کمرے سے باہر نہ نکل رہی تھیں۔ میں نے سوچا کہ ابا جی کو اس مقدمے کی پیروی کرنا ہی ہوگی۔ میں یہی سوچتی ہوئی ان کے کمرے کی طرف چل پڑی اور دروازے پر ہی جیسے میرے قدم ٹھہر سے گئے۔ امی جی رورہی تھیں۔ وہ کہہ رہی تھیں۔
’’مجھے سہیل بہت یاد آتا ہے جی۔ وہ پچھلی بار فون پر کہہ رہا تھا کہ وہ کبھی بھی گھر آسکتا ہے۔ آپ کو تو پتہ ہے اسے سرپرائز دینے کا کتنا شوق ہے۔ جانے کب میرا بیٹا گھر آجائے۔ اسے کریلے بہت پسند ہے نا جی، اسی لئے روز پکا لیتی ہوں۔ سوچیں بھلا کیا سوچے گا میرا بیٹا کہ ماں نے اس کی پسند کے کریلے تک نہ بنا کر رکھے۔ یہ لڑکیاں تو سمجھتی نہیں، آپ تو سمجھتے ہیں نا میری بات۔‘‘ اب امی جی یقیناً اپنی غلافی آنکھوں میں سرخ ڈوروں کے ساتھ ابا جی کو تائید میں دیکھ رہی ہوں گی اور ساتھ ساتھ اپنے نیلے سوتی دوپٹے سے اپنی آنکھیں بھی بے دردی سے صاف کرتی جارہی ہوں گی۔ مجھے یوں لگا جیسے میری ماں کے آنسو میری آنکھوں میں رہنے آگئے تھے۔
(ڈٓکٹر نگہت نسیم کے مضمون ’’کریلے‘‘ سے اقتباس)

وسوسے

Posted: Fri Sep 18, 2015 3:19 pm
by nizamuddin
محبت وسوسوں کا آئینہ ہوتی ہے، جس زاویے سے بھی اس کا عکس دیکھیں کوئی نیا وسوسہ، کچھ الگ ہی خدشہ سر اٹھاتا ہے۔ ایک پل پہلے مل کر جانے والا محبوب بھی موڑ مڑتے ہوئے آخری بار پلٹ کر نہ دیکھے تو دیوانوں کی دنیا اتھل پتھل ہونے لگتی ہے کہ جانے کیا ہوگا؟ کہیں وہ روٹھ تو نہیں گیا، کوئی بات بری تو نہیں لگ گئی اسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ اور پھر اگلی ملاقات تک سارا چین و سکون غارت ہوجاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی حال میرا بھی تھا لیکن میں کتنا بے بس تھا کہ اپنی مرضی سے قدم بھی نہیں اٹھا سکتا تھا۔ کبھی کبھی مجھے اس انسانی جسم کی لاچاری پر بے حد غصہ آتا تھا۔ ہمارے جسم کو ہماری سوچ جیسی پرواز کیوں نہیں عطا کی گئی، ایسا ہوتا تو میں اڑ کر اس بے پروا کے در جا پہنچتا کہ اس تغافل کی وجہ تو بتادے۔
(ہاشم ندیم کے ناول ’’عبداللہ‘‘ کے باب ’’من کی دیوار‘‘ سے اقتباس)

محبت اور نفرت

Posted: Sat Sep 19, 2015 2:48 pm
by nizamuddin
محبت کا جذبہ نہایت مضبوط ہے لیکن نفرت کا جذبہ کہیں گہرا اور دیرپا ہے۔ محبت میں روح کے محض چند حصے مصروف ہوتے ہیں مگر نفرت میں روح اور جسم دونوں۔ نفرت دل میں کچھ اس طرح سما جاتی ہے اور خیالات میں یوں رچ جاتی ہے کہ ان کا اہم جزو بن کر رہ جاتی ہے۔
(شفیق الرحمٰن کی کتاب ’’مدوجزر‘‘ سے اقتباس)

ناامیدی

Posted: Tue Sep 22, 2015 3:43 pm
by nizamuddin
رونے میں کوئی برائی نہیں ہے۔ نم آنکھیں نرم دل ہونے کی نشانی ہیں اور دلوں کو نرم ہی رہنا چاہئے۔ اگر دل سخت ہوجائیں تو پھر ان میں پیار و محبت کا بیج نہیں بویا جاسکتا اور اگر دلوں میں محبت ناپید ہوجائے تو پھر انسان کی سمت بدلنے لگتی ہے۔ محبت وہ واحد طاقت ہے جو انسان کے قدم مضبوطی سے جمادیتی ہے اور وہ گمراہ نہیں ہوتا۔ بس ان آنسوؤں کے پیچھے ناامیدی اور مایوسی نہیں ہونی چاہئے کیونکہ ناامیدی ایمان کی کمزوری کی علامت ہوتی ہے۔ اللہ سے ہمیشہ بھلائی اور اچھے وقت کی آس رکھنی چاہئے۔ وہ اپنے بندوں کو اسی چیز سے نوازتا ہے جو وہ اپنے اللہ سے توقع کرتے ہیں۔
(فاطمہ عنبرین کے ناول ’’رستہ بھول نہ جانا‘‘ سے اقتباس)

Re: اردو ناولز سے لئے گئے اقتباسات۔۔۔۔۔۔ نظام الدین

Posted: Wed Sep 23, 2015 8:43 pm
by چاند بابو
بہت خوب محترم نظام الدین صاحب نہایت بہترین اقتسابات ہیں.

زینے

Posted: Tue Sep 29, 2015 2:57 pm
by nizamuddin
کسی بھی مشکل سے مت گھبراؤ۔ یہ کٹھن اور دشوار گزار موڑ جو سفر حیات میں آتے ہیں دراصل ہمیں ہماری منزلوں تک پہنچانے والے زینے ہوتے ہیں۔
(نمرہ احمد کے ناول ’’میرے خواب میرے جگنو‘‘ سے اقتباس)

اشفاق احمد کا سچ

Posted: Thu Oct 01, 2015 3:12 pm
by nizamuddin
اماں کو میری بات ٹھیک سے سمجھ آگئی۔ اس نے اپنا چہرہ میری طرف کئے بغیر نئی روٹی بیلتے ہوئے پوچھا۔ ’’تو اپنی کتابوں میں کیا پیش کرے گا؟‘‘
میں نے تڑپ کر کہا۔ ’’میں سچ لکھوں گا اماں، اور سچ کا پرچار کروں گا۔ لوگ سچ کہنے سے ڈرتے ہیں اور سچ سننے سے گھبراتے ہیں۔ میں انہیں سچ سناؤں گا اور سچ کی تلقین کروں گا ۔۔۔۔۔۔‘‘
میری ماں فکرمند سی ہوگئی۔ اس نے بڑی دردمندی سے مجھے غور سے دیکھا اور کوئلوں پر پڑی ہوئی روٹی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’اگر تونے سچ بولنا ہے تو اپنے بارے میں بولنا، دوسرے لوگوں کی بابت سچ بول کر ان کی زندگی عذاب میں نہ ڈال دینا۔ ایسا فعل جھوٹ سے بھی برا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔‘‘
(اشفاق احمد بابا جی کی کتاب ’’صبحانے فسانے‘‘ کا ایک اقتباس)