سفرنامہ: پریوں کی تلاش (تیسری قسط) وارث اقبال

اردو زبان میں لکھے گئے مضامین پرمبنی کتب
Post Reply
وارث اقبال
کارکن
کارکن
Posts: 69
Joined: Wed May 30, 2012 10:36 am
جنس:: مرد

سفرنامہ: پریوں کی تلاش (تیسری قسط) وارث اقبال

Post by وارث اقبال »

سفرنامہ پریوں کی تلاش (تیسری قسط) وارث اقبال
بھٹیوں کی سر زمین
ہمارا پہلا عارضی پڑاؤ پنڈی بھٹیاں جا کر پڑا۔ ۔ جونہی ہم گاڑی سے باہر آئے تو ہمیں موسم ِ گرما کی محبتوں کا اندازہ ہوا۔ انٹر چینج کا جائے طعام وقیام دھوپ نے جھلسا کر رکھ دیا تھا ۔ ہر مرجھایا اور کملایا ہوا تھا۔ ہم نےباہر بیٹھنے کی بجائے ریسٹوران کے اندر جانے کا فیصلہ کیا۔اندر بہت سکون تھا، موسم بھی خوشگوار اورصرف ہم ہی ہم۔ اس لئے ویٹرز نے ہماری خدمت کے لئے اپنی ساری کی ساری توانائی صرف کر دی۔ ہم نے اپنی اپنی مرضی کی ضروریات بتائیں اور اپنی اپنی نشستوں پر براجمان ہو گئے ۔ میرے پیچھے درواز تھا اور سامنے ریستوران کا ڈیسک ۔ جہاں دو لڑکے چابکدستی سے ہمارے لئے لوازمات تیار کر رہے تھے۔ انہیں تکتے رہنا مجھے کچھ مناسب نہ لگا ۔لہذا میں کرسی کو پیچھے کی طرف موڑ کر دروازے کی طرف منہ کر کے بیٹھ گیا۔ جہاں سے انٹرچینج کی پارکنگ پٹرول پمپ اور اس کے پیچھے موٹر وے کا ایک حصہ دکھائی دے رہا تھا۔ یہاں بیٹھے ہوئے یوں لگ رہا تھا جیسے باہر کا ہر منظر سورج کی حشر سامانی سے محفوظ ہے لیکن اندر کی کہانی اور تھی اور باہر کی اور۔
میری نظریں سڑک پر چلنے والی ٹریفک پر جمی ہوئی تھیں اور دماغ اپنے نہاں خانوں میں کچھ تلاش کرنے میں مگن تھا۔ وہ کچھ اوراق کو رد کرتے ہوئے کچھ کو اپنے فعال حصے پر منتقل کر رہا تھا۔ کچھ ہی لمحوں میں یہ عمل تیز ہوگیا اب تصویروں سے سجےتاریخ کے اوراق سیلابی پانی میں پتوں کی طرح بہے چلے آرہے تھے۔ داستانیں ، کہانیاں ، ہیرو، دشمن ، شہزادے شہزادیاں اور لہلہاتے کھیتوں کو روندتے ، پاگلوں کی طرح بھاگے پھرتے بیرونی افواج کے لشکر درلشکر۔ اگر اُن کے راستہ میں کوئی بچہ آ گیاتو زندگی ہار گیا ، اگر کوئی عورت آ گئی تو حیوانیت کا شکار ہو گئی اور اگر کوئی مرد تو درندگی کی نئی تاریخ رقم ہونے لگی۔
جی ٹی روڈ پر چلتے ہوئے لشکروں کے لشکر اپنی اغراض کے لئے اس زمین کو روندتے رہے، لوٹتے رہےاور بنبھوڑتے رہے۔ یہ سب یہاں کے لوگوں کے لئے ناقابلِ برداشت تھا ۔ ا س لئے یہاں کے لوگ بیرونی حکومتوں کے خلاف علمِ بغاوت بلند کر کے اپنے ہونے کا احسا س دلاتے رہتے۔ بیرونی حملہ آور خود تو چلے جاتے لیکن اپنے امیر کے نام پر ایک اور مصیبت یہاں چھوڑ جاتے اور پھرر یہاں ایک اور ہی سلسلہ شروع ہو جاتا کبھی یہ علاقہ کسی کی امارت کا حصہ بن جاتااور کبھی کسی کی جاگیر ۔ ہر فاتح امیر اسے ناصرف لوٹتابلکہ سازشوں کا جال بھی پھیلا دیتا۔
ساندل بار
سلطنتِ دہلی پر اکبرِ اعظم کی قیادت میں مغل اپنی حکومت مضبوط بنانے میں کامیاب ہوگئے ۔ دریائے راوی اور دریائے چناب کے درمیان سرسبز اور زرخیز زمینوں کے مالک اور آئے دن کی لوٹ مار سے اُکتائے بھٹی ، راجپوت اور جاٹ ساندل بھٹی کی قیادت میں سلطنتِ دہلی سے آزادی کا اعلان کر چکے تھے۔اور یہ علاقہ ساندل بار کے نام سے مشہور تھا۔

یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اکبر جیسا حکمران ہو اور اس کا ایک علاقہ آزاد۔ اُس جیسے حکمرانوں کے ہاں تو آزادی کامطلب بغاوت ہوتا ہے۔ اس نے تو اپنی آنکھ کے تارے ، کلیجہ کی ٹھنڈک اور لختِ جگر جہانگیر تک کو بغاوت کی کتاب کے دوچار سبق تک نہ پڑھنے دئیے اور کچل کر رکھ دیا۔ وہ بھٹیوں کی بغاوت کیسے برداشت کرتا۔ حملہ کیا ، رگیدا، کچلا اور پھر ختم۔
قیدیوں کے ہجوم میں ساندل بھٹی کی بہو اور فرید بھٹی کی بیوی اپنی گود میں ایک چھوٹے سے بچے کو اُٹھائے اکبر کے دربار میں پیش کی گئی۔ اکبر نے جب اس بچہ کے خوبصورت چہرے کی طرف دیکھا تو اُس چہرے پر موجود دو معصوم آنکھوں نے مسکرا کر اُس کا استقبال کیا۔ لیکن اپنے وقت کا ذہین ترین اور مردم شناس حکمران اکبر اُس بچہ کی معصوم آنکھوں میں مستقبل کی ساری کہانی پڑھ چکا تھا۔ وہ سوچ میں پڑ گیا کہ اگر بچہ کو مارتاہوں تو اس علاقہ کے وہ راجپوت ، بھٹی اور جاٹ جو مغلوں کے اطاعت گذار ہو گئے ہیں وہ مغلوں کی اطاعت چھوڑ دیں گے۔ اگر اس بچہ کو چھوڑتا ہوں تو یہ بھٹیوں میں بغاوت کی بھٹی ہمیشہ تپائے رکھے گا۔ اس لئے بھٹیوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے اور انہیں یہ احساس دلانے کے لئے کہ اکبر ان کاخیر خواہ ہے اکبر دُلا بھٹی کو اپنے ساتھ محل میں لے گیا۔ حکم دیا کہ اس کی اس طرح پرورش کی جائے کہ وہ اکبر کو اپنا باپ اور بھٹیوں کو سلطنت کا باغی سمجھتے ہوئے جوان ہو۔ یوں عبداللہ بھٹی عرف دُلا اکبر کے زیرِ سایہ محل میں اکبر کے بیٹے کے ساتھ پرورش پانے لگا۔ جو تعلیم اکبر کے بیٹے جہانگیر کو دی جاتی وہی دلا کو بھی مل رہی تھی جو آسائش اُ س کے اپنے بیٹے کو حاصل تھی وہی عبداللہ کو۔
اکبر جانتا تھا کہ راجپوت اور بھٹی کبھی بھی سر اٹھا سکتے ہیں اس لئے اُن کا مستقل بندوبست کیا جانا ضروری تھا۔ لہذا شیخپورہ کا قلعہ کی مضبوطی کی طرف دھیان دیاگیا، علاقہ میں لوگوں کو انعام و اکرام ومراتب سے نوازہ گیا۔ اپنے اپنے علاقوں میں امن و امان اور مغلیہ وفاداری کو یقینی بنانے کی شرط پر علاقہ کی زمینیں امرا اور جا گیر داروں میں بانٹ دی گئیں۔سالہا سال گذر گئے۔ اور بھٹیوں کے دماغ اور زمین سے بغاوتوں کے آثار اور خیال مٹ گئے۔
دُلا جب جوان ہوا تو اُ س کی خوبصورتی،جوانی اور جسم کی مضبوتی دیکھ کر لوگ اش اش کر اُٹھتے۔ علم کا میدان ہوتا تو دُلا ایسےدلائل دیتا کہ لوگوں کی زبانیں بند ہو جاتیں ، تلوار چلاتا تو لوگ سکتے میں آجاتے اور نیزہ پھینکتا تو نشانہ دیکھ کر لوگ گنگ ہوجاتے۔ جب اپنے گاؤں گیا تو قبیلہ کے لوگ خود پر فخر کرنے لگے، بڑے بزرگ اُس میں اُس کے باپ دادا کو تلاش کرنے لگے، چنچل مٹیاریں اُسی کو اپنے خوابوں کا شہزادہ سمجھنے لگیں، بڑی بوڑھیاں دیکھتیں تو بے ساختہ بین ڈالنے لگتیں ، ’’ ہائے! ساندل بھٹی کا پوتا اور فرید بھٹی کا بیٹااپنے باپ پر گیا ہے شین جوان۔۔ کیسا اندھیر ہے سامنے ہوتے ہوئے بھی باپ کے قاتلوں کو نہیں پہچانتا۔‘‘
کہا جاتا ہے کہ نشانہ بازی کرتے ہوئے ایک لڑکی کاگھڑا ٹوٹ گیا تو اُس نے طنز کرتے ہوئے کہا ، اپنے نشانہ پر بڑا مان ہے تو جاکر اپنا نشانہ اپنے باپ دادا کے قاتلوں پر آزماؤ۔‘‘ یہ تو اللہ جاتنا ہے کہ دُلےپر کس کا اثر ہوااُس لڑکی کے طنزکا یا کسی بوڑھی اماں کی ہمدردی کا یاپھر دُلے کی ماں کے سینے میں برسہا برس کی دبی انتقام کی آگ کا جو اُس نےاپنے بیٹے کے اندر یہ کہہ کرمنتقل کر دی ۔
تیرا ساندل دادا ماریا ، دتا بھورے وچ پا مغلاں
پُٹھیاں کھلاں لاہ کے بھریاں نال ہوامغلاں
ترجمہ: مغلوں نے تمہارے دادا ساندل کو قتل کرنے کے بعد لاش تہہ خانے میں ڈال دی اور ہمارے عزیزوں کے لاشوں کی کھالیں الٹی کھینچ کر اتروا لیں اور ان میں ہوا بھر دی
وجہ جو بھی بنی عبداللہ بھٹی عرف دُلا نے اپنے باپ دادا کے راستے پر چلتے ہوئے اکبر کے خلاف علمِ بغاوت بلند کردیا۔
پنجابی روبن ہڈ
دلا بھٹی کے نام کی دو وجہیں بتائی جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ عباللہ نام بگڑ کر دلا بن گیا ، دوسرا یہ کہ بھٹیوں نے اُسے بھٹیوں کا دولہا کہا جو وقت کے ساتھ ساتھ بگڑ کر دُلا بن گیا۔ بہر حال علاقے کے راجپوت اور جاٹ قبائل تو اس دن کے انتظار میں تھے جب انہیں کوئی بہادر رہنما ملے، فوراً دُلے کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے۔ دُلا بھٹی اور اس کے ساتھی مغل امرا سے دولت لوٹ کر غریبوں میں بانٹتے، بے سہاراجوان بچیوں کی شادیاں کرواتے، جہاں کہیں کسی عورت پر ظلم زیادتی کی اطلاع پاتے وہاں پہنچ جاتے اور ظالم کی گردن مار کر مظلوم کی دادا رسی کرتے۔ یوں ایک باغی ابنِ باغی، ایک جنگجو اور آزادی کا ایک متوالا اپنے عہد کی عوام الناس کا ہیرو بن گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اُ سنے پہلی اور آخری بار پنجاب میں لوک راج قائم کیا۔
پنجاب میں اُسے وہی حیثیت حاصل تھی جویورپ میں روبن ہوڈ کو سلطنتِ دہلی کاباغی اور پنجاب کے ایک بڑے حصے کا مسیحا دُلا بھٹی مقامی لوگوں کے گیتوں اور ماؤں کی لوریوں میں چپکے سے سرایت کر گیا۔ اس کے نعرے اور جنگی گیت جنہیں ‘وار‘ کہا جاتا تھاپنجاب کی پکڈنڈیوں اور کھیتوں میں سنائی دینے لگے۔ شاعروں نے اس کے کارناموں کو شاعری کی زینت بنانا شروع کر دیا اور یہ گیت پنجاب کی گلی گلی میں گائے جانے لگے۔ علما اور صوفیوں جن میں لاہور کے بزرگ صوفی مادھو لعل حسین شاہ خاص طور شامل تھےنے بھی دُلا بھٹی کی پذیرائی اور حمایت شروع کر دی۔

یا دلبر یا مر کر پیارا
دُلے دے لعل لباں دے لارے
سُولی پر چڑھ لے ہلارے
آن ملیسی دلبر یارا
ییا دلبر یا مر کر پیارا



ترجمہ: یا دلبر سے پیار کر یا سر کو عزیز رکھ۔ تیرے سامنے دُلے کے لبوں کی سُرخی جلوہ دکھا رہی ہے۔ اُسے حاصل کرنے کی خاطر سُولی پر جھول جا۔ یار خودبخود مل جائے گا۔

ایک طرف عظیم ہندوستان کا عظیم مغل شہنشاہ اکبر، اکبرِ اعظم اور دوسری طرف یہ چھوٹا سا باغی ۔ لیکن اس باغی نے تقریباً بیس سال تک اس عظیم شہنشاہ کو ناکوں چنے چبوائے۔ پنجاب کے اس سپوت نے اکبر جیسے طاقتور بادشاہ کو مجبور کر دیا کہ وہ دہلی چھوڑ کر لاہور آبسے اور اس بغاوت کا قلع قمع کرے۔ اکبر نے اپنی تمام طاقتیں اور قوتیں اس باغی کا سر کچلنے میں جھونک دیں لیکن ناکام رہا۔ بادشاہ لوگ جب ناکام ہو جاتے ہیں تو پھر ان کی سازشیں کام آتی ہیں، جھوٹ اور مکاری کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ایک جال بنا جاتا ہےجس میں باغی پھنس جاتا ہے، شرائط سے انکار پر اُس باغی کا سر تن سے جد کر دیا جاتا ہے۔ یہی کچھ اس باغی کے ساتھ بھی ہوا۔ شاہ حسین نے نماز جنازہ پڑھائی اور لاہور کے اُس وقت کے ایک نامانوس اور شہر سے دوردراز علاقے کے ایک قبرستان میانی صاحب میں دفن کر دیاگیا۔ شہر سے دور دفن کرنے کے پیچھے بھی شاہ اور اس کے حواریوں کا یہی ڈر پنہاں تھا کہ کہیں دلا بھٹی کی قبر اس سے زیادہ مضبوط نہ بن جائے اور لوگ اُس کی قبر کو دیکھ کر اُسے یاد نہ رکھیں۔ لیکن وقت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ کچھ وقت کے بعد میانی صاحب کا قبرستان ایک مشہور قبرستان بن گیا۔ لیکن افسوس کہ دلا بھٹی کی شکستہ حال قبر کی وجہ سے نہیں بلکہ برینڈ کی وجہ سے۔ امرا اپنی زندگی میں ہی اپنے لئے دوگز زمین قبرستانوں کے اس ڈیفینس میں خریدلیتے یوں یہ ایک وی آئی پی قبرستان بن گیا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
جاری ہے........................
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: سفرنامہ: پریوں کی تلاش (تیسری قسط) وارث اقبال

Post by چاند بابو »

بہت خوب محترم وارث اقبال صاحب بہت اچھی منظر نگاری کر رہے ہیں.
مجھے آپ کا طرز تحریر بہت پسند آیا ہے.
آپ کا سفرنامہ بھی اردونامہ سرورق کی رونق بنا دیا گیا ہے.
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
محمد شعیب
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 6565
Joined: Thu Jul 15, 2010 7:11 pm
جنس:: مرد
Location: پاکستان
Contact:

Re: سفرنامہ: پریوں کی تلاش (تیسری قسط) وارث اقبال

Post by محمد شعیب »

بہت خوب
شئرنگ کا شکریہ
Post Reply

Return to “اردومضامین”