سفر نامہ: پریوں کی تلاش

اردو زبان میں لکھے گئے مضامین پرمبنی کتب
Post Reply
وارث اقبال
کارکن
کارکن
Posts: 69
Joined: Wed May 30, 2012 10:36 am
جنس:: مرد

سفر نامہ: پریوں کی تلاش

Post by وارث اقبال »

سفر نامہ : پریوں کی تلاش ، ( دوسری قسط ) وارث اقبال
پریوں کی تلاش کا فیصلہ
نانی کی کہانیوںمیں ایک کہانی تھی ’ سیف الملوک ‘ ۔ ہماری اکثر داستانوں کی طرح یہ داستان بھی ایک شہزادہ اور ایک پری کے عشق کی ایک منظوم داستان ہے۔ اس کے شاعر ہیں میاں محمد بخش ۔ سیف الملوک ایک داستان ہی نہیں ہے بلکہ ہر خاص و عام کے لئے دبستانِ علم سے کم نہیں۔ ان کے انتہائی شہرت کے حامل دو اشعار کا ذکر کر کے آگے بڑھتے ہیں کیونکہ آگے جا کر اس داستان پر میں نے کہنے کے لئے کافی کچھ سنبھال رکھا ہے۔
دنیا تے جو کم نہ آوے اوکھے سوکھے ویلے
اس بے فیضی سنگی نالوں بہتر یار اکیلے
باغ بہاراں تے گلزاراں، بن یاراں کس کاری
یار ملن دکھ جان ہزاراں شکر کراں لکھ واری
ترجمہ: دنیا میں جو دکھ سکھ میں کام نہ آئے، اس بے فیضی دوست سے بہتر ہے کہ ہم اکیلے ہی رہیں۔ دوستوں کے بغیر باغ بہار اور گلزار کا کوئی فائدہ نہیں۔ یار مل جائے تو دکھ درد دور ہوجاتے ہیں۔ اور میں ہزارہا شکر کرتا ہوں۔
ہمارے لئے اس کہانی میں دو باتیں باعث کشش تھیں کہ سیف الملوک نے ملکہ خاتون کو اپنی جان پر کھیل کر ایک زور آور جن کی قید سے نجات دلائی تھی ۔ دوسری وجہ ٔ کشش تھی جھیل سیف الملوک ۔ جس پر پریاں اترتی ہیں۔
.زندگی خود سکھاتی ہے اور خود رہنمائی کرتی ہے۔ جوں جوں زندگی کے پودا بڑھتا گیا۔ جھیل سیف الملوک کے بارے میں معلومات اور کہانیوں میں اضافہ ہوتا گیا ۔ یوں جھیل سیف الملوک ہی نہیں اُس پر اُترنے والی پریوں کو دیکھنے کا مقصد بھی ہمارے اندرتقویت پکڑتا گیا۔ جب بھی کوئی دوست یا آشنا جھیل سیف الملوک جاتا تو میں اُس سے اس جھیل سے متعلق کہانیاں بہت غور سے سنا کرتا ۔ یوں میرے دماغ کی تجوری میں تصاویر کا بے پناہ خزانہ جمع ہوتا گیا ۔ خزانہ کی موجود ہو تو صاحبِ خزانہ بے چینی و بے قراری سے کس طرح دور رہ سکتا ہے۔ یہ خزانہ خود تازیانہ بن گیا اور میرے شوق کا گھوڑا آگے بڑھتا گیا لیکن افسوس منزل نصیب نہ ہوئی ۔جھیل سیف الملوک کی پریوں سے ملاقات کا خواب حقیقت نہ بن سکا ۔ کبھی تعلیمی مصروفیات ، کبھی روزگارِ حیات ، کبھی صحت، اور کبھی کوئی اور مسئلہ ہمارے خواب کی تعبیر کے راستے میں وجۂ رکاوٹ بنتا رہا۔
بہر حال یہ بھی حقیقت ہے کہ شوق، جذبہ اورولولہ ہو تو اسباب پیدا ہو ہی جاتے ہیں ۔ ایک دن میں نے اپنے بچوں کے ساتھ مل کر فیصلہ کیا کہ ا س سال ہم موسمِ گرما کی چھٹیوں میں جھیل سیف الملوک ضرور جائیں گے۔ بس پھر کیا تھا حالات بنتے گئے اور وہ دن بھی آگیاجس دن ہم اپنی گاڑی پر اسبابِ ضروری لاد کر گھر سے نکل پڑے۔ منزل تھی جھیل سیف الملوک اور اس کے اردگرد پریوں کی تلاش۔
شہزادی
جب میں مڈل اسکول میں تھا تو میرے بہت سے دوستوںمیں ایک دوست اشتیاق بھی ہوا کرتا تھا۔ اللہ اُسے زندگی دے، اُس کے ابا کا موٹر سائیکلوں کا شو روم تھا۔ جب بھی ان کے پاس کوئی نئی گاڑی آتی تو وہ ہمیں آ کر بتاتا، ’’ کل میں نے اسپورٹس چلائی ،کیا شہزادی گاڑی ہے۔ کل میں نے نسان چلائی کیا شہزادی گاڑی ہے۔ ‘‘ اُس نے گاڑی چلائی تھی یا نہیں لیکن ہم بچپن کے بھول پنے میں اس کی باتوں پر اسی طرح یقین کر لیتے جس طرح اس تماشا کرنے والے کی باتوں پر جو تماشا دکھاتے ہوئے ہر پانچ منٹ بعد لو گو کویہ خبر دیتا تھا کہ کچھ ہی دیر میں انہیں سنہری سانپ کی دید کا موقع ملے گا۔ اشتیا ق سچ کہتا تھا یا جھوٹ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اُس نے ہمیں خیالوں ہی خیالوںمیں گاڑی چلانا ضرور سکھا دیا۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ہمیں پریوں ،شہزادیوں کو دیکھنے کے شوق کاٹیکاضرور لگا دیا ۔
میں جب بھی موٹر وے پر پہنچتا ہوں تو مجھے اشتیاق ضرور یاد آتا ہے۔ اس سڑک پر آ کر میرے منہ سے بے ساختہ نکلتا ہے ، ’’ واہ کیا شہزادی سڑک ہے۔ ‘‘ اس شہزادی سڑک پر آ کر اشتیاق کے علاوہ مجھے دو شخص اور یاد آتے ہیں ، ایک ہمارے مہربان نواز شریف صاحب اور دوسرا شیرشاہ سوری۔
کہاجاتا ہے کہ شیرشاہ سوری نے جب جی ٹی روڈ بنائی تو سب سے پہلے اُس سڑک کومحفوظ بنانے کے انتظامات کئیے ، پھراُس نے مسافروں کے لئے جائے قیام و طعام وغیرہ کو ممکن بنایا ۔ یہی خصوصیات ہمیں موٹر وے میں ملتی ہیں۔ جب گاڑی کے ٹائر اپنی اس میزبان کے لبوں کو چومتے ہیں تومسافر کو تحفظ ، امن، قانون کی حکمرانی اور خوبصورتی کے ساتھ ساتھ ایک عجیب سے اطمینان کابھی احساس ہوتا ہے۔ مجھ جیسوں کو یہ احساس کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے جو اپنی روزمرہ استعمال کی سڑکوں سے اُکتائے اور بےزار ہوتے ہیں۔ اندرون ملک سڑکوں اور گلیوں کاڈسا جب اس سڑک پر آتا ہے تو اُسے کچھ دیر کے لئے یقین ہی نہیں ہوتا کہ وہ اپنےوطنِ عزیز کی سرزمین ِ پاک پر موجود ہے یا دیارِ غیر میں۔ جب یقین آتا ہے تو پھر واہ واہ کر اُٹھتا ہے، واہ کیا پاکستانی ہیں چاہیں تو کیمیکل ملا کر دودھ بڑھا لیں اور چاہیں تو سنگلاخ چٹانوں کا سینہ چیر کر دودھ کی نہریں بہادیں۔جہاں تک اس سڑک پر آنے والے مسافروں کا تعلق ہے تو انہیں دیکھ کر تو شانِ قدرت یاد آجاتی ہے۔ کیا پاکستانی ہیں،جنہوں نے زندگی میں کبھی بھی قانون کی پاسدار ی نہ کی ہو وہ یہاں آ کر ایسے پاسدارِ قانون بن جاتے ہیں جیسے ابھی دودھ سے دُھل کر آئے ہوں۔
خیر بات توہورہی تھی اُس سڑک کی۔ جب ہم اس سڑک کو اپنی گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھ کر دیکھتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے ہم سلیٹی رنگ کے ایک دریا میں بہے جا رہے ہوں۔ اس دریا کے کناروں پر اُگے ہوئے درخت ہر ساعت ایک نیا رنگ رنگ بدلتے ہیں اور کھیت ہر موڑ پر نیا لباس زیبِ تن کرتے ہیں۔
بتانے والے بتاتے ہیں کہ اس سٹرک کی لمبائی چھ سو انہتر کلو میٹر ہے اور یہ ایشیا کی پہلی موٹر وے ہے۔ اس سڑک کو ایک اعزاز یہ بھی حاصل ہے کہ اس میں کچھ ایسے خطرناک نقص ہیں جنہیں پوری دنیا کے انجنئیرز ٹھیک نہیں کرپائے لیکن داد طلب ہیں پاکستانی انجنئیرز جنہوں نے اس سڑک کو بے خطر بنایا ہوا ہے۔اس سڑک کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ہنگامی حالات میں اسے جنگجو طیاروں کے رن وے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
چپس کی چر چر
میرے دو عدد برخورداروں نے حسبِ عادت ٹول پلازہ عبور کرتے ہی اپنی پسند کا میوزک ’ آن ‘ کر دیا۔ کچھ ہی دیر میں مجھے شک ہونے لگا کہ انہوں نے اس دفعہ بھی ہمارے ساتھ ہاتھ کر دیا ہے۔ میوزک کی تیاری کا کام اپنے ذمہ لے کر یو ایس پی ڈرائیو میں سارا میوزک اپنی پسند کا بھر رکھا ہے۔ پھر بھی مجھے یقین تھا کہ آٹے میں نمک برابر ہمارا حصہ ضرور رکھا ہو گا۔ اس لئیے میں انتظار کرنے لگا اس لمحے کا جب آٹے میں سے نمک برامد ہوگا۔ لیکن ہمیشہ کی طرح ہمیں اس لمحے کا بس انتظار ہی رہا۔ اور ہم بے میوزک ہی سڑک کے کنارے درختوں کے بدلتے رنگوں کی ہیت اور ترتیب پر غور کرتے رہے۔ موٹر وے کے ارد گرد بسے دیہات ، اُن کے گھر ، گھروں میں بندھے جانور اور گھروں کے باہر پھیلے سر سبز کھیت اور ان کی شادابی ایک جادوگر کی طرح مسافر کو اپنے سحر میں قید کر لیتے ہیں ۔ یوں موٹر وے ایک اچھی میزبان سڑک کے طور پر بھی ابھر کر سامنے آتی ہے جو اپنے رنگ بدل بدل کر اپنے مہمان کو اکتاہٹ اور بےزاری سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔ یہ چلتے چلتےکہیں سے اونچی ہو جاتی تو کہیں سے نیچی، کہیں سے چھوٹی سڑکوں پر چڑھائی کرتی ہے تو کہیں نہروں دریاؤں کو مسخر کرتی ہے، کہیں ٹہرے پانی کی طرح بن جاتی ہے کہیں چھلانگیں لگاتی ہے۔ اگر اس کا مہمان ذرا سی بھی جمالیاتی حسن رکھتا ہے تو وہ اس سڑک کے ارد گرد بدلتے رنگوں سے اپنے دماغ کو ترو تازہ ضرور کرتا ہے۔
میری مسز نے بھی اچھی مصروفیت تلاش کر لی تھی۔ آج انہوں نے فیس بک کے استعمال کے تمام ریکارڈ توڑنے کا تہیہ کر رکھا تھا۔ اور اپنے ان ان دوستوں رشتہ داروں کو بھی پوسٹس بھیجنا شرو ع کر دیں جنہیں کم ہی یاد کیا جاتا ہے۔ ہماری گاڑی میں پانچویں سوار تھے عابد جنہیں گاڑی چلانے کا اعزاز حاصل تھا۔ چونکہ باہر سورج اپنی ساری حشر سامانیوں کے ساتھ براجمان تھا اس لئیے عابد اے سی سے اٹکھیلیوںمیں مصروف تھے اور کوشش کر رہے تھے کہ گاڑی میں بیٹھا ہر شخص اے سی سے بھرپور فائدہ اُٹھا سکے۔ ٹشو پیپر سے اپنی دھوپ کی عینک کو صاف کر کے اپنی ستواں ناک پر سجانا ان کا دوسرا محبوب مشغلہ تھا۔ کبھی کبھی اپنی نشست کی ایڈجسمنٹ بھی کرتے تاکہ پیچھے بیٹھے بھائی جان سے سنیں ،’’ عابد میرا خیال ہے کہیں رک جائیں۔‘‘
میرے دونوں بیٹے موسیقی کے ساتھ ساتھ اس خوراک پر بھی ہاتھ صاف کرنے پر مصروف تھے جو انہوں نے ایک پٹرول پمپ کی ٹک شاپ سے حاصل کی تھی۔ پیپسی کے کھلنے اور چپس کے چرنے کی آوازیں بے مزا اور بے رنگ موسیقی میں اپنا ہی رنگ بھر رہی تھیں۔ میں آنکھیں بند کرتا تو مجھے یوں لگتا جیسے افریقہ کے کسی خاندان کی بیٹی کی مہندی کی تقریب میں موجود ہوں جہاں نہ بولیاں سمجھ آتی ہیں نہ،موسیقی اور سچ پوچھیں تو حرکات بھی۔ ویسےیہ پاپی جی تو آنکھیں بند رکھنے پر ہی بضد تھا۔ کیوں نہ افریقنوں کی حر کات سے کچھ دیر مزید لطف اُٹھا لیاجائے۔ پر فیومز ، کار فریشنرز کی خوشبو میں چپس اور پیپسی کی خوشبو نے گاڑی کاماحول کافی بہتر رکھاہوا تھا۔
سورج کارخ میری مسز کی طرف تھا جواُن کے لئے خاصی مشکلات پیدا کر رہا تھا اور میں اضافی بلائینڈز کا رخ بدل بدل کر انہیں احساس دلارہا تھا کہ مجھے ان کی اسکن کا کافی خیال ہے۔
محمد شعیب
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 6565
Joined: Thu Jul 15, 2010 7:11 pm
جنس:: مرد
Location: پاکستان
Contact:

Re: سفر نامہ: پریوں کی تلاش

Post by محمد شعیب »

شئرنگ کا شکریہ
nizamuddin
ماہر
Posts: 605
Joined: Fri Mar 27, 2015 5:27 pm
جنس:: مرد
Location: کراچی، پاکستان
Contact:

Re: سفر نامہ: پریوں کی تلاش

Post by nizamuddin »

بہت اچھی شیئرنگ ہے۔۔۔۔ شکریہ
آن لائن اردو انگلش ڈکشنری
[link]http://www.urduinc.com[/link]
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: سفر نامہ: پریوں کی تلاش

Post by چاند بابو »

بہت خوب محترم وارث اقبال صاحب سفرنامہ کا آغاز نہایت شاندار ہے اور اس میں وہ تمام باتیں جن کا ایک سفرنامہ لکھنے والے کو خیال رکھنا چاہئے موجود ہیں.
امید کرتا ہوں کہ آنے والی اقساط اسی طرح دلچسپی بھری ہوں گی.
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Post Reply

Return to “اردومضامین”