سفر نامہ: پریوں کی تلاش
Posted: Thu Mar 26, 2015 12:47 pm
میں ایک مختلف نوعیت کا سفر نامہ لکھ رہا ہوں جس کی منزل پریوں کی تلاش ہے. +پ کو کچھ وقفوں کے بعد اس کی ایک قسط مل اکرے گی. اردو نامہ پہلافورم ہے جس پر میں یہ سفرنامہ چھپنے سے پہلے بھیج رہا ہوں. امید ہے کہ میرا یہ سفر نامہ سفرنامہ کی تاریخ میں ایک نیا باب ثابت ہو گا.
اب کے سفر ہی اور تھا‘ اور ہی کچھ سراب تھے
دشتِ طلب میں جا بجا‘ سنگِ گرانِ خواب تھے
خوابوں کے چاند ڈھل گئے تاروں کے دم نکل گئے
پھولوں کے ہاتھ جل گئے‘ کیسے یہ آفتاب تھے!
سیل کی رہگزر ہوئے‘ ہونٹ نہ پھر بھی تر ہوئے
کیسی عجیب پیاس تھی‘ کیسے عجب سحاب تھے!
عمر اسی تضاد میں‘ رزقِ غبار ہو گئی
جسم تھا اور عذاب تھے‘ آنکھیں تھیں اور خواب تھے
صبح ہوئی تو شہر کے‘ شور میں یوں بِکھر گئے
جیسے وہ آدمی نہ تھے‘ نقش و نگارِ آب تھے
آنکھوں میں خون بھر گئے‘ رستوں میں ہی بِکھر گئے
آنے سے قبل مر گئے‘ ایسے بھی انقلاب تھے
ساتھ وہ ایک رات کا‘ چشم زدن کی بات تھا
پھر نہ وہ التفات تھا‘ پھر نہ وہ اجتناب تھے
ربط کی بات اور ہے‘ ضبط کی بات اور ہے
یہ جو فشارِ خاک ہے‘ اِس میں کبھی گلاب تھے
اَبر برس کے کھُل گئے‘ جی کے غبار دُھل گئے
آنکھ میںرُونما ہوئے‘ شہر جو زیرِ آب تھے
درد کی رہگزار میں‘
پس منظر:
زندگی ایک سفر ہے اور سفر سے ہی مربوط۔ لیکن کچھ سفر ایسے ہوتے ہیں جو روح میں اس طرح رچ بس جاتے ہیں کہ اُن کی یادیں سرمایہ ٔ حیات کی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں۔ اس کی وجہ سفر نہیں حاصل سفر ہوتا ہے۔ جسے پانے کے لئے ہم کتنے ہی خواب دیکھتے ہیں اور کتنی ہی تدبیریں کرتے ہیں تب جا کر وہ حاصلِ سفر نصیب ہوتا ہے۔
میں جس سفر کی داستان رقم کرنے جارہاہوں وہ ایک ایسا سفر ہےجس کی یادیں حاصلِ سفر سے کہیں زیادہ سفر کی وجہ سے میرا سرمایہ ٔ حیات بن گئیں۔ اس سفر میں نہ وقت کی قید تھی اورنہ منزلوں کا کوئی واضح تعین۔ سفر کے دوران کسی بھی موڑ پر فیصلہ کیا اور راہِ سفر بدل لی۔ اس سفر کے یادگار ہونے کی وجہ یہ بھی تھی کہ میں نےاپنے بچوں کے ساتھ اس سفر کے خواب دیکھے تھے اور پھر اس خواب کی تعبیر پانے کے لئے کتنا ہی انتظار کیا تھا۔ یوں اس سفر کے یادگار ہونے کی ایک وجہ میرے ہم سفر بھی تھے۔
یہ ایک سفر ہی نہیں تھا بلکہ ایک جستجو اورکھوج بھی تھا۔ یہ جستجوکسی سوغات کے حصول کے لئے نہیں تھی بلکہ ہر اس شے کو پانے کے لئے تھی جو اچھوتی ہویا عجیب ۔ چاہئے تاریخ کے بوسیدہ اوراق ہوں ، یا لوگوں کےروئیے؛ اجناس اور کھانے کی چیزیں ہوں یا طرزِ رہائش وزیبائش؛ داستانیں ہوں یا کہانیاں؛ ٹوٹی پھوٹی خستہ حال دیواریں ہوں یا جدید عمارات، صوفیوں اور مریدوں کے عقیدت بھرے قصے ہوں یا شاعروں ادیبوں کی باتیں۔ بس جو ملا جھولی میں ڈال لیا ۔
اس سفر کو قلمبند کرنے کی دو وجوہات ہیں ۔ پہلی تو یہ کہ جب میں نے بے گھری اور سفر کی اتنی صعوبت اٹھائی ہے اور انواع واقسام کی معلومات سے جھولی بھری ہے تو پھر اُ سے دوسروں تک ضرورپہنچایا جائے۔ دوسری وجہ ایک واقعہ تھا جو جھیل سیف الملوک پر پیش آیا جس نے مجھے مجبور کیاکہ میں یہ سفر ضرور قلمبند کروں۔
نانی یا ایک پری
خبرِ تحیرِ عشق سن، نہ جنوں رہا، نہ پری رہی
نہ تو تُو رہا، نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی
بات بھی ایک عجیب بات ہوتی ہے،کبھی ہوتی ہی نہیں جب ہو جائے تو پہاڑوں سے گرتا ہو ا جھرنا بن جاتی ہے اور ختم ہونے کانام ہی نہیں لیتی۔ کبھی کسی سینے پر یوں گرتی ہے جیسے زمین پر کیمیکل زدہ بارش اور کبھی کسی حسینہ کے لبوں کی مسکراہٹ بن کر اندر ایک انجانی سی کھلبلی مچا دیتی ہے۔ یہ بات ہی ہےجس سے ایک نئی بات نکلتی ہے اور کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہے۔کبھی نئے گھر بسانے کا سبب بنتی ہے اور کبھی بسے بسائے گھر اجاڑ نے کی وجہ بن جاتی ہے۔ یہ بات ہی تھی جو بڑھتے بڑھتے باتیں بن گئی اور انہی باتوں کو کسی ذی فہم نے کہانی کا نام دے دیا۔ نہ باتیں ختم ہوئیں نہ کہانیاں ، نہ باتوں کی قدر کم ہوئی اور نہ ہی کہانیوں کی افادیت میں کمی آئی۔ کہانیوں سے کہانیاں بنتی گئیں اور باتوں سے باتیں ۔ یوں یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
میں جب بھی کسی بات کی بات کر نا چاہتا ہوں تو اُس کی کوئی نہ کوئی کڑی میری نانی اماں کی باتوں سے جا ملتی ہے۔ سرِ شام ہی ہمارے گھر کے درو دیوار میں ان کی بھاری اور سحر انگیز دیوتاؤں جیسی آواز گونج جاتی ، ’’ بچو! جلدی کرو کھانا کھا لو ، بستر میں آجاؤ اورپھر میں تمہیں ایک نئے دیس کی بات سناؤں گی۔ ‘‘ نئی بات کے چکر میں ہم کھانا بھی کھا لیتے اور وقت پر بستر میں بھی پہنچ جاتے اور ہماری ماں چیخنے چلانے کے کرب سے بھی بچ جاتیں۔ میری نانی انبالہ کی تھیں چنانچہ انبالہ اُن کی باتوں ، لباس ، مسکراہٹوں اور آہوں میں یوںرچا بساتھا جس طرح دودھ میں شکر ۔ کبھی ہم دودھ کے لالچ میں شکر کھا لیتے اور کبھی شکر کے لالچ میں دودھ پی لیتے۔
اُن کی باتوں میں ایک نہر ضرور ہوتی تھی جسے وہ ندی کہتی تھیں ۔ وہ اکثر بتایا کرتی تھیں کہ اُن کے انبالہ والے گھر کے قریب سے ایک ندی گذرتی تھی جسے لوگ بڈھی کہتے تھے۔‘ ہم ان سے سوال کرتے ’’ اماں یہ بڈھی کیا ہوتی ہے ۔‘‘ وہ جواب دیتیں ، ’’ جیسے تمہاری اماں بڈھی اور ابا بڈھے۔ ‘‘ ہم سب بیک زبان بولتے، ’’ نہیں اماں۔ ‘‘ ایک دن ہمارے ابا جی نے یہ بتا کراس جھگڑے کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا کہ لاہور میں بھی ایک بڈھا دریا ہے ۔ جو دریا سوکھ جاتا ہے اُسے بڈھا دریا کہا جاتا ہے۔ نانی اماں جب پریوں
کی کہانیاں سناتیں تو مجھے تو اُن پر ایک پری ہونے کا گمان ہوتا۔ اور میں سوچتا کہ نانی اماں بھی کسی دیس کی پری ہی ہوں گی جنہیں کسی جن نے نانی اماں بنا دیا۔ بھلا اتنی کہانیاں کوئی نانی اماں کیسے یاد رکھ سکتی ہیں۔ اور اور تو اور انہیں ہماری ہر شرارت اور مستی کا پہلے سے ہی علم ہوتا۔ بھلا ایک نانی اماں ایسا کس طرح کر سکتی ہیں۔
ایک بوری اور ایک سوٹ کیس
نا جانے اللہ کے ہاں اس میں کیا مصلحت تھی کہ عین جوانی میں ہماری چاند جیسی نانی اماں کی دودھ جیسی سفید چادر پر بیوگی کا داغ لگ گیا اور کچھ ہی عرصہ بعد مالکِ کائنات نے اُن سے دیکھنے کی صلاحیت بھی واپس لے لی۔لیکن بیوگی اور اندھیرے ان کی علم سے محبت کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکے۔
نانی ہمارے ماموں کے پاس شور کوٹ میں رہتی تھیں لیکن ان کا زیادہ وقت ہمارے ساتھ گزرتا ۔ ہم ابا جی کی سرکاری ملازمت کی وجہ سے شہر شہر پھرتے رہتے۔ ہم جہاں بھی رہے، جہاں بھی گئے نانی ہمارے پاس پہنچ جایا کرتی تھیں۔ یہاں تک کہ بلوچستان کے دوردراز علاقوں : لورالائی ، خضدار اور مستونگ تک نانی بغیر کسی خوف و خطر سفر کرتی رہیں۔ یہ اُن کا حوصلہ تھا کہ جس کے سامنے اُن کی آنکھوں کے اندھیرے شکست کھا چکے تھے یاپھر ہماری محبت جو اُن کی انگلی پکڑ کر اُن کی انجانی راہوں پر رہنمائی کرتی رہی۔
نانی اماں کو کتابوں سے عشق تھا۔ دو چیزیں اس نابینا عورت کے ہمراہ شہر شہر گھومتی تھیں ۔ یہ تھیں ایک بوری اور ایک سوٹ کیس ۔ بوری جس میں ان کی کتابیں اور بڑی بڑی تسبیحاں ہوا کرتی تھیں اور سوٹ کیس میں ان کا کفن ۔ اس کے علاوہ ضرورت کی کوئی شے ان کے ہمراہ نہ ہوتی۔ حتی ٰ کہ لباس بھی نہیں۔ وہ اپنا لباس اپنے ساتھ نہیں رکھتیں ،جہاں جاتیں وہیں کا لباس زیبِ تن کر لیتیں ۔ جب وہ شورکوٹ ہوتیں تو اپنا آبائی لباس گھاگرا اور کرتی پہنا کرتی تھیں۔ جب ہمارے پاس آتیں تو شلوار قمیض زیبِ تن کر لیتیں ۔
نانی اماں کی قربت نے ہمیں نہ صرف کہانیوں کی قربت بخشی بلکہ ہمیں کتابوں سے اُنس بھی عطا کیا ۔ انہوں نےہیر رانجھااور سسی پنوں جیسی مشہور داستانیں ہمیں اس طرح سنائیں اور پڑھوائیں کہ ہمارے اندر عشق کاجراثیم ایساپیدا ہواکہ ہم سراپا عشق ہو گئے۔
یہ بوری ہمارے لئے پہلا کُتب خانہ تھا جس سے ہم نےدین اور دنیا کی تعلیم کا آغاز کیا۔ اور یہ سوُٹ کیس ہمارے لئے روحانی تعلیم
کے کسی مدرسہ سے کم نہ تھا۔ جس میں رکھے چھ گز کپڑے سے ہم نے یہ جانا کہ دنیا فانی ہے، انسان کی بساط کیا ہے، انسان کتنا بیچارہ ہے کہ اُسے یہ تک یقین نہیں کہ وقت ِآخراُس کے تن پر یہ چند گز لباس ہوگا بھی یا نہیں۔ اُسے اپنے کسی کا قرب تو کیا اغیار کی مسیحائی بھی نصیب ہو گی یا نہیں۔ اس کی قبر کو اپنوں کی آشنا قبروں کی قربت ملےگی یا دیار ِغیر کا کوئی انجانا شہرِ خموشاں اُس کا آخری مسکن ٹہرے گا۔ یا پھر یہ بھی نہیں۔
شورکوٹ سے پاکستان کے کسی بھی علاقہ میں اکیلے پہنچ جانے والی اس نابینا عورت نے ۱۹۸۳ میں اپنے حوصلے ہار دئیے اور شیخوپورہ کوہمیشہ کے لئے اپنا آخری مسکن بنا لیا۔ دنیا کے لئے توایک عورت اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئیں لیکن ہمارے لئے محبت و شفقت سے بھرا علم و عرفان کااک دبستان دو گز زمین کی قید میں چلاگیا۔
خلاصہ یہ کہ پریوں جیسی ہماری نانی اماں انبالہ کے کسی گاؤں کے کھیتوں میں کھیلتےکھلاتے ڈولی میں بیٹھ کر شور کوٹ کے ایک گاؤں میں چلی آئیں اور وہاں سے ٹرین میں بیٹھ کر وہ شیخوپورہ پہنچیں جہاں کا ایک نگرِ خموشاں انہیں اتنا پسند آیا کہ وہیں کی ہو رہیں۔
پریوں کی تلاش کا فیصلہ
نانی کی کہانیوںمیں ایک کہانی تھی ’ سیف الملوک ‘ ۔ ہماری اکثر داستانوں کی طرح یہ داستان بھی ایک شہزادہ اور ایک پری کے عشق کی ایک منظوم داستان ہے۔ اس کے شاعر ہیں میاں محمد بخش ۔ سیف الملوک ایک داستان ہی نہیں ہے بلکہ ہر خاص و عام کے لئے دبستانِ علم سے کم نہیں۔ ان کے انتہائی شہرت کے حامل دو اشعار کا ذکر کر کے آگے بڑھتے ہیں کیونکہ آگے جا کر اس داستان پر میں نے کہنے کے لئے کافی کچھ سنبھال رکھا ہے۔
جاری ہے بفضل خدا
اب کے سفر ہی اور تھا‘ اور ہی کچھ سراب تھے
دشتِ طلب میں جا بجا‘ سنگِ گرانِ خواب تھے
خوابوں کے چاند ڈھل گئے تاروں کے دم نکل گئے
پھولوں کے ہاتھ جل گئے‘ کیسے یہ آفتاب تھے!
سیل کی رہگزر ہوئے‘ ہونٹ نہ پھر بھی تر ہوئے
کیسی عجیب پیاس تھی‘ کیسے عجب سحاب تھے!
عمر اسی تضاد میں‘ رزقِ غبار ہو گئی
جسم تھا اور عذاب تھے‘ آنکھیں تھیں اور خواب تھے
صبح ہوئی تو شہر کے‘ شور میں یوں بِکھر گئے
جیسے وہ آدمی نہ تھے‘ نقش و نگارِ آب تھے
آنکھوں میں خون بھر گئے‘ رستوں میں ہی بِکھر گئے
آنے سے قبل مر گئے‘ ایسے بھی انقلاب تھے
ساتھ وہ ایک رات کا‘ چشم زدن کی بات تھا
پھر نہ وہ التفات تھا‘ پھر نہ وہ اجتناب تھے
ربط کی بات اور ہے‘ ضبط کی بات اور ہے
یہ جو فشارِ خاک ہے‘ اِس میں کبھی گلاب تھے
اَبر برس کے کھُل گئے‘ جی کے غبار دُھل گئے
آنکھ میںرُونما ہوئے‘ شہر جو زیرِ آب تھے
درد کی رہگزار میں‘
پس منظر:
زندگی ایک سفر ہے اور سفر سے ہی مربوط۔ لیکن کچھ سفر ایسے ہوتے ہیں جو روح میں اس طرح رچ بس جاتے ہیں کہ اُن کی یادیں سرمایہ ٔ حیات کی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں۔ اس کی وجہ سفر نہیں حاصل سفر ہوتا ہے۔ جسے پانے کے لئے ہم کتنے ہی خواب دیکھتے ہیں اور کتنی ہی تدبیریں کرتے ہیں تب جا کر وہ حاصلِ سفر نصیب ہوتا ہے۔
میں جس سفر کی داستان رقم کرنے جارہاہوں وہ ایک ایسا سفر ہےجس کی یادیں حاصلِ سفر سے کہیں زیادہ سفر کی وجہ سے میرا سرمایہ ٔ حیات بن گئیں۔ اس سفر میں نہ وقت کی قید تھی اورنہ منزلوں کا کوئی واضح تعین۔ سفر کے دوران کسی بھی موڑ پر فیصلہ کیا اور راہِ سفر بدل لی۔ اس سفر کے یادگار ہونے کی وجہ یہ بھی تھی کہ میں نےاپنے بچوں کے ساتھ اس سفر کے خواب دیکھے تھے اور پھر اس خواب کی تعبیر پانے کے لئے کتنا ہی انتظار کیا تھا۔ یوں اس سفر کے یادگار ہونے کی ایک وجہ میرے ہم سفر بھی تھے۔
یہ ایک سفر ہی نہیں تھا بلکہ ایک جستجو اورکھوج بھی تھا۔ یہ جستجوکسی سوغات کے حصول کے لئے نہیں تھی بلکہ ہر اس شے کو پانے کے لئے تھی جو اچھوتی ہویا عجیب ۔ چاہئے تاریخ کے بوسیدہ اوراق ہوں ، یا لوگوں کےروئیے؛ اجناس اور کھانے کی چیزیں ہوں یا طرزِ رہائش وزیبائش؛ داستانیں ہوں یا کہانیاں؛ ٹوٹی پھوٹی خستہ حال دیواریں ہوں یا جدید عمارات، صوفیوں اور مریدوں کے عقیدت بھرے قصے ہوں یا شاعروں ادیبوں کی باتیں۔ بس جو ملا جھولی میں ڈال لیا ۔
اس سفر کو قلمبند کرنے کی دو وجوہات ہیں ۔ پہلی تو یہ کہ جب میں نے بے گھری اور سفر کی اتنی صعوبت اٹھائی ہے اور انواع واقسام کی معلومات سے جھولی بھری ہے تو پھر اُ سے دوسروں تک ضرورپہنچایا جائے۔ دوسری وجہ ایک واقعہ تھا جو جھیل سیف الملوک پر پیش آیا جس نے مجھے مجبور کیاکہ میں یہ سفر ضرور قلمبند کروں۔
نانی یا ایک پری
خبرِ تحیرِ عشق سن، نہ جنوں رہا، نہ پری رہی
نہ تو تُو رہا، نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی
بات بھی ایک عجیب بات ہوتی ہے،کبھی ہوتی ہی نہیں جب ہو جائے تو پہاڑوں سے گرتا ہو ا جھرنا بن جاتی ہے اور ختم ہونے کانام ہی نہیں لیتی۔ کبھی کسی سینے پر یوں گرتی ہے جیسے زمین پر کیمیکل زدہ بارش اور کبھی کسی حسینہ کے لبوں کی مسکراہٹ بن کر اندر ایک انجانی سی کھلبلی مچا دیتی ہے۔ یہ بات ہی ہےجس سے ایک نئی بات نکلتی ہے اور کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہے۔کبھی نئے گھر بسانے کا سبب بنتی ہے اور کبھی بسے بسائے گھر اجاڑ نے کی وجہ بن جاتی ہے۔ یہ بات ہی تھی جو بڑھتے بڑھتے باتیں بن گئی اور انہی باتوں کو کسی ذی فہم نے کہانی کا نام دے دیا۔ نہ باتیں ختم ہوئیں نہ کہانیاں ، نہ باتوں کی قدر کم ہوئی اور نہ ہی کہانیوں کی افادیت میں کمی آئی۔ کہانیوں سے کہانیاں بنتی گئیں اور باتوں سے باتیں ۔ یوں یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
میں جب بھی کسی بات کی بات کر نا چاہتا ہوں تو اُس کی کوئی نہ کوئی کڑی میری نانی اماں کی باتوں سے جا ملتی ہے۔ سرِ شام ہی ہمارے گھر کے درو دیوار میں ان کی بھاری اور سحر انگیز دیوتاؤں جیسی آواز گونج جاتی ، ’’ بچو! جلدی کرو کھانا کھا لو ، بستر میں آجاؤ اورپھر میں تمہیں ایک نئے دیس کی بات سناؤں گی۔ ‘‘ نئی بات کے چکر میں ہم کھانا بھی کھا لیتے اور وقت پر بستر میں بھی پہنچ جاتے اور ہماری ماں چیخنے چلانے کے کرب سے بھی بچ جاتیں۔ میری نانی انبالہ کی تھیں چنانچہ انبالہ اُن کی باتوں ، لباس ، مسکراہٹوں اور آہوں میں یوںرچا بساتھا جس طرح دودھ میں شکر ۔ کبھی ہم دودھ کے لالچ میں شکر کھا لیتے اور کبھی شکر کے لالچ میں دودھ پی لیتے۔
اُن کی باتوں میں ایک نہر ضرور ہوتی تھی جسے وہ ندی کہتی تھیں ۔ وہ اکثر بتایا کرتی تھیں کہ اُن کے انبالہ والے گھر کے قریب سے ایک ندی گذرتی تھی جسے لوگ بڈھی کہتے تھے۔‘ ہم ان سے سوال کرتے ’’ اماں یہ بڈھی کیا ہوتی ہے ۔‘‘ وہ جواب دیتیں ، ’’ جیسے تمہاری اماں بڈھی اور ابا بڈھے۔ ‘‘ ہم سب بیک زبان بولتے، ’’ نہیں اماں۔ ‘‘ ایک دن ہمارے ابا جی نے یہ بتا کراس جھگڑے کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا کہ لاہور میں بھی ایک بڈھا دریا ہے ۔ جو دریا سوکھ جاتا ہے اُسے بڈھا دریا کہا جاتا ہے۔ نانی اماں جب پریوں
کی کہانیاں سناتیں تو مجھے تو اُن پر ایک پری ہونے کا گمان ہوتا۔ اور میں سوچتا کہ نانی اماں بھی کسی دیس کی پری ہی ہوں گی جنہیں کسی جن نے نانی اماں بنا دیا۔ بھلا اتنی کہانیاں کوئی نانی اماں کیسے یاد رکھ سکتی ہیں۔ اور اور تو اور انہیں ہماری ہر شرارت اور مستی کا پہلے سے ہی علم ہوتا۔ بھلا ایک نانی اماں ایسا کس طرح کر سکتی ہیں۔
ایک بوری اور ایک سوٹ کیس
نا جانے اللہ کے ہاں اس میں کیا مصلحت تھی کہ عین جوانی میں ہماری چاند جیسی نانی اماں کی دودھ جیسی سفید چادر پر بیوگی کا داغ لگ گیا اور کچھ ہی عرصہ بعد مالکِ کائنات نے اُن سے دیکھنے کی صلاحیت بھی واپس لے لی۔لیکن بیوگی اور اندھیرے ان کی علم سے محبت کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکے۔
نانی ہمارے ماموں کے پاس شور کوٹ میں رہتی تھیں لیکن ان کا زیادہ وقت ہمارے ساتھ گزرتا ۔ ہم ابا جی کی سرکاری ملازمت کی وجہ سے شہر شہر پھرتے رہتے۔ ہم جہاں بھی رہے، جہاں بھی گئے نانی ہمارے پاس پہنچ جایا کرتی تھیں۔ یہاں تک کہ بلوچستان کے دوردراز علاقوں : لورالائی ، خضدار اور مستونگ تک نانی بغیر کسی خوف و خطر سفر کرتی رہیں۔ یہ اُن کا حوصلہ تھا کہ جس کے سامنے اُن کی آنکھوں کے اندھیرے شکست کھا چکے تھے یاپھر ہماری محبت جو اُن کی انگلی پکڑ کر اُن کی انجانی راہوں پر رہنمائی کرتی رہی۔
نانی اماں کو کتابوں سے عشق تھا۔ دو چیزیں اس نابینا عورت کے ہمراہ شہر شہر گھومتی تھیں ۔ یہ تھیں ایک بوری اور ایک سوٹ کیس ۔ بوری جس میں ان کی کتابیں اور بڑی بڑی تسبیحاں ہوا کرتی تھیں اور سوٹ کیس میں ان کا کفن ۔ اس کے علاوہ ضرورت کی کوئی شے ان کے ہمراہ نہ ہوتی۔ حتی ٰ کہ لباس بھی نہیں۔ وہ اپنا لباس اپنے ساتھ نہیں رکھتیں ،جہاں جاتیں وہیں کا لباس زیبِ تن کر لیتیں ۔ جب وہ شورکوٹ ہوتیں تو اپنا آبائی لباس گھاگرا اور کرتی پہنا کرتی تھیں۔ جب ہمارے پاس آتیں تو شلوار قمیض زیبِ تن کر لیتیں ۔
نانی اماں کی قربت نے ہمیں نہ صرف کہانیوں کی قربت بخشی بلکہ ہمیں کتابوں سے اُنس بھی عطا کیا ۔ انہوں نےہیر رانجھااور سسی پنوں جیسی مشہور داستانیں ہمیں اس طرح سنائیں اور پڑھوائیں کہ ہمارے اندر عشق کاجراثیم ایساپیدا ہواکہ ہم سراپا عشق ہو گئے۔
یہ بوری ہمارے لئے پہلا کُتب خانہ تھا جس سے ہم نےدین اور دنیا کی تعلیم کا آغاز کیا۔ اور یہ سوُٹ کیس ہمارے لئے روحانی تعلیم
کے کسی مدرسہ سے کم نہ تھا۔ جس میں رکھے چھ گز کپڑے سے ہم نے یہ جانا کہ دنیا فانی ہے، انسان کی بساط کیا ہے، انسان کتنا بیچارہ ہے کہ اُسے یہ تک یقین نہیں کہ وقت ِآخراُس کے تن پر یہ چند گز لباس ہوگا بھی یا نہیں۔ اُسے اپنے کسی کا قرب تو کیا اغیار کی مسیحائی بھی نصیب ہو گی یا نہیں۔ اس کی قبر کو اپنوں کی آشنا قبروں کی قربت ملےگی یا دیار ِغیر کا کوئی انجانا شہرِ خموشاں اُس کا آخری مسکن ٹہرے گا۔ یا پھر یہ بھی نہیں۔
شورکوٹ سے پاکستان کے کسی بھی علاقہ میں اکیلے پہنچ جانے والی اس نابینا عورت نے ۱۹۸۳ میں اپنے حوصلے ہار دئیے اور شیخوپورہ کوہمیشہ کے لئے اپنا آخری مسکن بنا لیا۔ دنیا کے لئے توایک عورت اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئیں لیکن ہمارے لئے محبت و شفقت سے بھرا علم و عرفان کااک دبستان دو گز زمین کی قید میں چلاگیا۔
خلاصہ یہ کہ پریوں جیسی ہماری نانی اماں انبالہ کے کسی گاؤں کے کھیتوں میں کھیلتےکھلاتے ڈولی میں بیٹھ کر شور کوٹ کے ایک گاؤں میں چلی آئیں اور وہاں سے ٹرین میں بیٹھ کر وہ شیخوپورہ پہنچیں جہاں کا ایک نگرِ خموشاں انہیں اتنا پسند آیا کہ وہیں کی ہو رہیں۔
پریوں کی تلاش کا فیصلہ
نانی کی کہانیوںمیں ایک کہانی تھی ’ سیف الملوک ‘ ۔ ہماری اکثر داستانوں کی طرح یہ داستان بھی ایک شہزادہ اور ایک پری کے عشق کی ایک منظوم داستان ہے۔ اس کے شاعر ہیں میاں محمد بخش ۔ سیف الملوک ایک داستان ہی نہیں ہے بلکہ ہر خاص و عام کے لئے دبستانِ علم سے کم نہیں۔ ان کے انتہائی شہرت کے حامل دو اشعار کا ذکر کر کے آگے بڑھتے ہیں کیونکہ آگے جا کر اس داستان پر میں نے کہنے کے لئے کافی کچھ سنبھال رکھا ہے۔
جاری ہے بفضل خدا