شرک اور اس کی اقسام
شرک اور اس کی اقسام
[center]شرک اور اس کی اقسام[/center]
قدیم زمانے سے لیکر آج تک تمام مشرک اقوام ایک بڑے قادر اور خالق کو مانتی رہیں مگر اسکے ساتھ ھی وہ لوگ یہ بہی سمجھتے تھے کہ اللہ تعالٰی نے اپنے کاموں کی تکمیل کے لئے کچھ فرشتوں اور نیک لوگوں کو شریک کر لیا ھے ۔مخلوق میں سے کچھ چیزوں کے برے میں یہ تصور پیدا ہوگیا کہ ان میں بھی نفع ونقصان کی قدرت موجود ھے کچھ لوگ ایسے طاقتور یا مقرب ھیں کہ وہ اللہ تعالٰی کے فیصلہ کو تبدیل کرواسکتے ھیں اور اللہ تعالی ان کی بات ماننے کا پابند ھے ۔کہیں یہ سمجھا جاتا ھے کہ جس طرح کسی بڑی شخصیت سے بات کرنے اور اپنی درخواست پیش کرنے کے لئے ماتحت عملے کا ذریعہ اختییار کرنا پڑتا ھے اسی طرح اللہ تعالٰی کے دربار میں اپنی عرض پیش کرنے کے لئے واسطوں اور وسیلوں کی ضرورت ھوتی ھے ۔شرک کی یہی قسمیں رسول اکرم کی بعثت کے وقت رائج تھیں اور آج بہی مشرک قوموں میں ان کا رواج ھے قرآن کریم نے ان تمام صورتوں کا بار بار مختلف انداز سے ذکر کرکے بتایا کہ اللہ تعالی نے اپنے اختییارات کسی کو نہیں دئے ۔کوئی چیز اللہ کی مرضی کے بغیر کسی کو نہ نفع پہنچاسکتی ھے نہ نقصان ۔اللہ کے فیصلے کو کوئی تبدیل نہیں کرسکتا ۔اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی اس کے سامنے کسی کی سفارش نہیں کرسکتا،اور اس کے دربار میں حاضری کے لئے کسی واسطے اور وسیلے کی ضرورت نہیں ۔ھر شخص براہ راست اللہ تعالٰی سے گفتگو کرسکتا ھے براہ راست اپنی درخواست پیش کر سکتا ھے اور اللہ تعالٰی سے کہ سکتا ھے
ایاک نعبد وایاک نستعین
جب مکہ معظمہ کے مشرکین اپنے بزرگوں کے ساتھ اس طرح کا معاملہ کرتے جو صرف اللہ تعالی کے ساتھ کرنا جائز ھے اور انہیں کہا جاتا کہ وہ ایسا کیوں کرتے ھیں تو وہ جواب دیتے کہ ھم انہیں خدا تو نہیں مانتے بلکہ
(مانعبدھم الا لیقربنا الی اللہ زلفی)
(بلکل اسی طرح کی باتیں آج کل کے بعض مسلمان بھی کرتے ھیں )
قرآن حکیم نے اس کو بھی شرک قرار دیا ھے آج کل کے مسلمانوں کے اس طرح کی باتیں کرنے کی وجہ ان کے دین سے دوری ھے قرآن حکیم نے شرک کو ظلم عظیم قرار دیا ھے اور بتایا ھے کہ شرک ایک ایسا گناہ ھے جسکی مغفرت نہیں،
ان الشرک لظلم عظیم
ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ ما دون ذالک لمن یشاء
قدیم زمانے سے لیکر آج تک تمام مشرک اقوام ایک بڑے قادر اور خالق کو مانتی رہیں مگر اسکے ساتھ ھی وہ لوگ یہ بہی سمجھتے تھے کہ اللہ تعالٰی نے اپنے کاموں کی تکمیل کے لئے کچھ فرشتوں اور نیک لوگوں کو شریک کر لیا ھے ۔مخلوق میں سے کچھ چیزوں کے برے میں یہ تصور پیدا ہوگیا کہ ان میں بھی نفع ونقصان کی قدرت موجود ھے کچھ لوگ ایسے طاقتور یا مقرب ھیں کہ وہ اللہ تعالٰی کے فیصلہ کو تبدیل کرواسکتے ھیں اور اللہ تعالی ان کی بات ماننے کا پابند ھے ۔کہیں یہ سمجھا جاتا ھے کہ جس طرح کسی بڑی شخصیت سے بات کرنے اور اپنی درخواست پیش کرنے کے لئے ماتحت عملے کا ذریعہ اختییار کرنا پڑتا ھے اسی طرح اللہ تعالٰی کے دربار میں اپنی عرض پیش کرنے کے لئے واسطوں اور وسیلوں کی ضرورت ھوتی ھے ۔شرک کی یہی قسمیں رسول اکرم کی بعثت کے وقت رائج تھیں اور آج بہی مشرک قوموں میں ان کا رواج ھے قرآن کریم نے ان تمام صورتوں کا بار بار مختلف انداز سے ذکر کرکے بتایا کہ اللہ تعالی نے اپنے اختییارات کسی کو نہیں دئے ۔کوئی چیز اللہ کی مرضی کے بغیر کسی کو نہ نفع پہنچاسکتی ھے نہ نقصان ۔اللہ کے فیصلے کو کوئی تبدیل نہیں کرسکتا ۔اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی اس کے سامنے کسی کی سفارش نہیں کرسکتا،اور اس کے دربار میں حاضری کے لئے کسی واسطے اور وسیلے کی ضرورت نہیں ۔ھر شخص براہ راست اللہ تعالٰی سے گفتگو کرسکتا ھے براہ راست اپنی درخواست پیش کر سکتا ھے اور اللہ تعالٰی سے کہ سکتا ھے
ایاک نعبد وایاک نستعین
جب مکہ معظمہ کے مشرکین اپنے بزرگوں کے ساتھ اس طرح کا معاملہ کرتے جو صرف اللہ تعالی کے ساتھ کرنا جائز ھے اور انہیں کہا جاتا کہ وہ ایسا کیوں کرتے ھیں تو وہ جواب دیتے کہ ھم انہیں خدا تو نہیں مانتے بلکہ
(مانعبدھم الا لیقربنا الی اللہ زلفی)
(بلکل اسی طرح کی باتیں آج کل کے بعض مسلمان بھی کرتے ھیں )
قرآن حکیم نے اس کو بھی شرک قرار دیا ھے آج کل کے مسلمانوں کے اس طرح کی باتیں کرنے کی وجہ ان کے دین سے دوری ھے قرآن حکیم نے شرک کو ظلم عظیم قرار دیا ھے اور بتایا ھے کہ شرک ایک ایسا گناہ ھے جسکی مغفرت نہیں،
ان الشرک لظلم عظیم
ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ ما دون ذالک لمن یشاء
-
- کارکن
- Posts: 42
- Joined: Sun Aug 16, 2009 2:23 am
Re: شرک اور اس کی اقسام
جزاک اللہ خیر مخلص بھائی بہت ہی اہم نکتہ بیان کیا آپ نے اللہ ہم سب کو شرک سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے
-
- معاون خاص
- Posts: 13369
- Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
- جنس:: مرد
- Location: نیو ممبئی (انڈیا)
Re: شرک اور اس کی اقسام
جزاک اللہ
Re: شرک اور اس کی اقسام
مخلص wrote:[center]شرک اور اس کی اقسام[/center]
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
جناب یہ میری جاب نہیں ھے کہ کسی کے دھاگے میں کوئی کمنٹس دوں مگر شائد آپ کو کوئی غلط فہمی ھے تو آپ کی غلط فمہی دور کرنے کے لئے یہاں حاضر ہو گیا ہوں۔
جناب یہ عنوان کے “شرک اور اس کی اقسام“ اقسام قسم کی جمع ہوتی ھے۔ مگر اس میں کہیں بھی شرک کی کوئی بھی قسم کا کوئی خاص ذکر نہیں کیا گیا اور یہاں عبادت اور دعا اور وسیلہ کو ذکر نظر آ رہا ھے۔
إِن تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا وَإِن تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌقدیم زمانے سے لیکر آج تک تمام مشرک اقوام ایک بڑے قادر اور خالق کو مانتی رہیں
مگر اسکے ساتھ ھی وہ لوگ یہ بہی سمجھتے تھے کہ اللہ تعالٰی نے اپنے کاموں کی تکمیل کے لئے کچھ فرشتوں اور نیک لوگوں کو شریک کر لیا ھے ۔مخلوق میں سے کچھ چیزوں کے برے میں یہ تصور پیدا ہوگیا کہ ان میں بھی نفع ونقصان کی قدرت موجود ھے
اگر تم دونوں اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرو (تو تمہارے لئے بہتر ہے) کیونکہ تم دونوں کے دل (ایک ہی بات کی طرف) جھک گئے ہیں، اگر تم دونوں نے اس بات پر ایک دوسرے کی اعانت کی (تو یہ نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے باعثِ رنج ہوسکتا ہے) سو بیشک اللہ ہی اُن کا دوست و مددگار ہے، اور جبریل اور صالح مومنین بھی اور اس کے بعد (سارے) فرشتے بھی (اُن کے) مددگار ہیں۔
التحريم، 66 : 4
کچھ لوگ ایسے طاقتور یا مقرب ھیں کہ وہ اللہ تعالٰی کے فیصلہ کو تبدیل کرواسکتے ھیں اور اللہ تعالی ان کی بات ماننے کا پابند ھے ۔
کہیں یہ سمجھا جاتا ھے کہ جس طرح کسی بڑی شخصیت سے بات کرنے اور اپنی درخواست پیش کرنے کے لئے ماتحت عملے کا ذریعہ اختییار کرنا پڑتا ھے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الْأَمْرِ مِنكُمْ.
(النساء : 59)
’’اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی اطاعت کرو اوراپنے میں سے (اہلِ حق) صاحبانِ اَمر کی‘‘
كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌO
(المجادله 21 : 58)
’’اللہ تعالیٰ نے یہ لکھ دیا ہے کہ میں اور میرا رسول ضرور غالب آ کر رہیں گے۔ بیشک اللہ تعالیٰ طاقت ور (اور)زبردست ہے۔‘‘
یہاں آپ خود اقرار کر رہے ہیں کہ “ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی اس کے سامنے کسی کی سفارش نہیں کرسکتا “ اس سے تو صاف مطلب نکلتا ھے کہ کوئی تو ہے جو اللہ کی اجازت سے کسی کی سفارش کر سکتا ھے
اسی طرح اللہ تعالٰی کے دربار میں اپنی عرض پیش کرنے کے لئے واسطوں اور وسیلوں کی ضرورت ھوتی ھے ۔شرک کی یہی قسمیں رسول اکرم کی بعثت کے وقت رائج تھیں اور آج بہی مشرک قوموں میں ان کا رواج ھے قرآن کریم نے ان تمام صورتوں کا بار بار مختلف انداز سے ذکر کرکے بتایا کہ اللہ تعالی نے اپنے اختییارات کسی کو نہیں دئے ۔کوئی چیز اللہ کی مرضی کے بغیر کسی کو نہ نفع پہنچاسکتی ھے نہ نقصان ۔
اللہ کے فیصلے کو کوئی تبدیل نہیں کرسکتا ۔
اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی اس کے سامنے کسی کی سفارش نہیں کرسکتا،
من ذا الذی يشفع عنده الا باذنه
۔ ترجمہ: کون ایسا شخص ہے جو اس کے حضور اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرسکے۔
(سورہ بقرہ 255)
صحیح بخاری شریف میں شفاعت سے متعلق ایک طویل حدیث پاک ہے اس کا جز ملاحظہ ہو:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
فيقال يا محمد ارفع رأسک و اشفع تشفع و سل تعطه۔
ترجمہ:
فرمایا جائے گا ائے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سر اٹھائیے اور شفاعت کیجئے‘ آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی اور مانگئے آپ کو عطا کیا جائے گا۔
(صحیح بخاری شریف‘ کتاب احادیث الانبیائ‘ حدیث نمبر 3092)
صحیح مسلم شریف میں حدیث پاک ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
انا سيد ولد آدم يوم القيامة و اول من ينشق عنه القبر و اول شافع و اول مشفع۔
ترجمہ:
بروز قیامت مَیں ہی تمام بنی آدم کا سردار رہوں گا‘ اور سب سے پہلے میری ہی مزار (مبارک) کھلے گی‘ اور میں ہی سب سے پہلے شفاعت کرنے والا رہوں گا اور سب سے پہلے میری ہی شفاعت قبول کی جائے گی۔
(صحیح مسلم شریف‘ کتاب الفضائل‘ حدیث نمبر 4223
اور اس کے دربار میں حاضری کے لئے کسی واسطے اور وسیلے کی ضرورت نہیں ۔
إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ
بیشک تمہارا (مددگار) دوست تو ﷲ اور اس کا رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہی ہے اور (ساتھ) وہ ایمان والے ہیں جو نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہ (اﷲ کے حضور عاجزی سے) جھکنے والے ہیں۔
المائدة، 5 : 55
یہ تو ہر مسلمان جو 5 وقت کی نماز پڑھتا ھے یا کسی مجبوری سے جتنی بھی نمازیں پڑھتا ھے یا جو اپنی روز مرہ کی مصروفیات میں بھی سورت فاتحہ پڑھتا ھے اس کی زبان پر اسی کا ورد ہوتا ھے جزاک اللہھر شخص براہ راست اللہ تعالٰی سے گفتگو کرسکتا ھے براہ راست اپنی درخواست پیش کر سکتا ھے اور اللہ تعالٰی سے کہ سکتا ھے
ایاک نعبد وایاک نستعین
یہ کونسے مسلمان ہیں مثلاً ! کان سیدھا پکڑو یا گھما کے بات ایک ہی ھےجب مکہ معظمہ کے مشرکین اپنے بزرگوں کے ساتھ اس طرح کا معاملہ کرتے جو صرف اللہ تعالی کے ساتھ کرنا جائز ھے اور انہیں کہا جاتا کہ وہ ایسا کیوں کرتے ھیں تو وہ جواب دیتے کہ ھم انہیں خدا تو نہیں مانتے بلکہ
(مانعبدھم الا لیقربنا الی اللہ زلفی)
(بلکل اسی طرح کی باتیں آج کل کے بعض مسلمان بھی کرتے ھیں )
قرآن حکیم نے اس کو بھی شرک قرار دیا ھے آج کل کے مسلمانوں کے اس طرح کی باتیں کرنے کی وجہ ان کے دین سے دوری ھے قرآن حکیم نے شرک کو ظلم عظیم قرار دیا ھے اور بتایا ھے کہ شرک ایک ایسا گناہ ھے جسکی مغفرت نہیں،
ان الشرک لظلم عظیم
ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ ما دون ذالک لمن یشاء
إِن تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا وَإِن تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ
اگر تم دونوں اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرو (تو تمہارے لئے بہتر ہے) کیونکہ تم دونوں کے دل (ایک ہی بات کی طرف) جھک گئے ہیں، اگر تم دونوں نے اس بات پر ایک دوسرے کی اعانت کی (تو یہ نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے باعثِ رنج ہوسکتا ہے) سو بیشک اللہ ہی اُن کا دوست و مددگار ہے، اور جبریل اور صالح مومنین بھی اور اس کے بعد (سارے) فرشتے بھی (اُن کے) مددگار ہیں۔
التحريم، 66 : 4
والسلام
[center]کعنان[/center]
-
- کارکن
- Posts: 6
- Joined: Sun Sep 27, 2009 10:30 am
Re: شرک اور اس کی اقسام
السلام علیکم محترم کعنان بھائی !! بہت خوشی ہوئی کہ آپ نے اتنی تفصیل سے دلائل سے بات کا رد کیا لیکن مجھے بھی آپ چند سوالات پوچھنے کی اجازت دیجیے !!
وَلَئِن سَأَلْتَہُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَیَقُولُنَّ اللَّہُ فَأَنَّی یُؤْفَکُونَ
وَلَئِن سَأَلْتَہُم مَّن نَّزَّلَ مِنَ السَّمَاء ِ مَاء ً فَأَحْیَا بِہِ الْأَرْضَ مِن بَعْدِ مَوْتِہَا لَیَقُولُنَّ اللَّہُ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّہِ بَلْ أَکْثَرُہُمْ لَا یَعْقِلُونَ
اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ زمین و آسمان کا خالق اور سورج اور چاند کو کام میں لگانے والا کون ہے ؟ تو ان کا جواب یہی ہو گا کہ اللہ تعالیٰ ۔ پھر کدھر الٹے جا رہے ہین؟!!
اور اگر آپ ان سے سوال کریں کہ آسمان سے پانی اتار کر زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کس نے کیا؟ تو یقینا ان کا جواب یہی ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے ۔ آپ کہہ دیں کہ ہر تعریف اللہ تعالیٰ ہی کے لیے سزاوار ہے ۔ بلکہ ان میں سے اکثر بےعقل ہیں
(قُلْ اَرَئَ یْتَکُمْ اِنْ اَتَاکُمْ عَذَابُ اللّٰہِ اَوْ اَتَتْکُمُ السَّاعَةُ اَغَیْرَاللّٰہِ تَدْعُوْنَ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۔ بَلْ اِیَّاہُ تَدْعُوْنَ فَیَکْشِفُ مَا تَدْعُوْنَ اِلَیْہِ اِنْ شَآئَ وَ تَنْسَوْنَ مَا تُشْرِکُوْنَ) (الانعام :40,41/6)
''(ان سے)کہیئے' اپنا حال تو بتائو کہ اگر تم پر اللہ کا کوئی عذاب آ جائے یا قیامت آ پہنچے تو کیا تم اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے۔ اگر تم سچے ہو۔ (تو بتائو) بلکہ تم اسی کو پکارتے ہو پھر جس دکھ کے لیے تم پکارتے ہو' اگر وہ چاہتا ہے تو اس کو دور کر دیتا ہے اور جن کو تم شریک بناتے ہو اس وقت ان سب کو بھول جاتے ہو۔''
ان آیات سے واضح ہوتا یے کہ مشرکین مکہ اللہ کو خالق و قادر مانتے تھے.. کیا آپ اس بات سے متفق ہیں؟
(وَالَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہ مَا یَمْلِکُوْنَ مِنْ قِطْمِیْرٍ)
''اور جن لوگوں کو تم اس کے سوا پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے برابر بھی تو کسی چیز کے مالک نہیں۔'' (الفاطر :13/35)
(قُلْ لَّااَمْلِکُ لِنَفْسِیْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا اِلَّا مَاشَآئَ اللّٰہُ)
(یونس : 49/10)
''کہہ دو میں تو اپنے لیے نفع و نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جتنا اللہ چاہے۔'' (الاعراف: 188/7' میں بھی یہی بات کہی ہے)
(قُل اِنِّیْ لَا اَمْلِکُ لَکُمْ ضَرًّا وَّلاَ رَشَدًا ) (الجن :21/72)
''کہہ دو کہ میں تمہارے لیے نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتا۔''
وَاِنْ یَّمْسَسْکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلا کَاشِفَ لَہ اِلَّا ھُوَ) (الانعام :17/6)
''اور اگر اللہ تعالیٰ تجھے کوئی تکلیف پہنچانا چاہے تو اس کے سوا کوئی اس تکلیف کو دور کر نے والا نہیں۔''
آپ درج ذیل آیت سے کس بات کی دلیل دینا چاہ رہے ہیں؟ کیا اس بات کی کہ اولی الامر اتنے طاقتور اور مقرب ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے کو تبدیل کروا سکتے ہیں؟ اور اللہ تعالیٰ ان کی بات ماننے کا پابند ہے؟
مجھے تو اس آیت کے ترجمے یا تفسیر میں کہیں بھی ایسی کوئی بات نہیںملی.
؎؎الا لہ الخلق والامر
خبردار مخلوق بھی اسی کی ہے اور حکم بھی اسی کا ہے
؎؎ان الحکم الا للہ
حکم صرف اللہ ہی کا ہے
لیکن چونکہ رسول اللہ ﷺ خالص منشا الہی ہی کا مظہر اور اس کی مرضیات کا نماءندہ ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے حکم کو بھی مستقل طور پر واجب الاطاعت قرار دیا۔اور امرا ء و حکام یا علماء و فقہا کی اطاعت بھی ضروری ہے کیونکہ وہ یہا تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام کا نفاذ کرتے ہیں یا امت کے اجتماعی مصلاح کا انتظام اور نیگہداشت کرتے ہیں ۔ لیکن ان کی اطاعت علی الاطلاق نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے ساتھ مشروط ہے۔ اس لیے اطیعواللہ کے بعد اطیعوا الرسول کہا کیونکہ یہ دونوں اطاعتیں مستقل اور واجب ہیں لیکن اطیعو اولی الامر نہیں کہا کیونکہ اولی الامر کی اطاعت مستقل نہیں ۔ اور حدیث میں ہے :؎؎لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق
مشکاۃ 3696
انما الطاعۃ فی المعروف
صحیح بخاری کتاب الاحکام باب نمبر 4
علماء و فقہا کی اطاعت صرف اس وقت کی جائے گی جب تک وہ عوام کو صرف اللہ اور اس کے رسول کی بات بتاءیں لیکن اگر وہ اس سے انحراف کریں عوام کے لیے ان کی اطاعت بھی ضروری نہیں
کیا آپ اولی الامر کے حکم کو اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے برابر جانتے ہیں؟
(١) کبھی بادشاہ سفارش قبول کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
(٢) کبھی بادشاہ کو سفارش کرنے والے سے کوئی غرض ہوتی ہے۔
(٣) کبھی اسے سفارش کرنے والے کی سرکشی کا خوف ہوتا ہے۔
(٤) کبھی سفارش کرنے والے کے کسی احسان کا بدلہ دینا مقصود ہوتا ہے۔
(٥) اور کبھی وہ سفارش کرنے والے کی محبت میں مجبور ہو کر قانون تبدیل کر کے اس کی سفارش قبول کرتا ہے۔
جبکہ اللہ کے متعلق ایسا سوچنا کفر و شرک ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(یٰاََ یُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْااَنْفِقُوْامِمَّارَزَقْنٰکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْم لَّا بَیْع فِیْہِ وَلاَ خُلَّة وَّلَا شَفَاعَة وَّالْکٰفِرُوْنَ ھُمُ الظَّلِمُوْنَ)
(البقرة :254/2)
''اے ایمان والو! جو مال ہم نے تمہیں دیا اس کو اس دن کے آنے سے پہلے پہلے خرچ کر لو جس میں نہ اعمال کا سودا ہو گا نہ دوستی اور نہ سفارش کام آئے گی اور کافر ہی ظالم ہیں۔
اس آیت سے آپ نے کیا دلیل لی ہے؟مجھے تو اس آیت سے یہ سمجھ آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے تمام رسول ) کیونکہ یہاں پر جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے( غالب آکر رہیں گے یعنی اس دنیا میں اللہ اور اس کے رسولوں کا دین غالب آ کر رہے گا . اگر میں نے غلط سمجھا تو پلیز آپ اس آیت کی تفسیر بیان کر دیں:
كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌO
(المجادله 21 : 58)
’’اللہ تعالیٰ نے یہ لکھ دیا ہے کہ میں اور میرا رسول ضرور غالب آ کر رہیں گے۔ بیشک اللہ تعالیٰ طاقت ور (اور)زبردست ہے۔‘‘
اسی طرح اللہ تعالٰی کے دربار میں اپنی عرض پیش کرنے کے لئے واسطوں اور وسیلوں کی ضرورت ھوتی ھے ۔شرک کی یہی قسمیں رسول اکرم کی بعثت کے وقت رائج تھیں اور آج بہی مشرک قوموں میں ان کا رواج ھے قرآن کریم نے ان تمام صورتوں کا بار بار مختلف انداز سے ذکر کرکے بتایا کہ اللہ تعالی نے اپنے اختییارات کسی کو نہیں دئے ۔کوئی چیز اللہ کی مرضی کے بغیر کسی کو نہ نفع پہنچاسکتی ھے نہ نقصان ۔
اللہ کے فیصلے کو کوئی تبدیل نہیں کرسکتا ۔
تو پھر ان آیات کا کیا مطلب ہے؟؟؟
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
(وَاِذَاسَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْب اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ) (البقرة:186/2)
''اور (اے رسول) جب میرے بندے آپ سے میرے متعلق سوال کریں تو (آپ کہہ دیں) کہ میں بے شک قریب ہوں۔ جب کوئی پکارنے والا مجھ سے دعا کرتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں۔''یہ بھی فرمایا :
(وَادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ) (الاعراف :29/7)
''اور (اے لوگو) دین کو خالص اللہ کے لیے مانتے ہوئے اللہ ہی کو پکارو۔''
یہ بھی فرمایا :
( اُدْعُوْارَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَةً ) (الاعراف:55/7)
''(لوگو) اپنے رب سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو۔''
(وَ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ) (ق:16/50)
''ہم شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔''
دَعْوَةُ الْحَقِّ وَالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہ لَا یَسْتَجِیْبُوْنَ لَھُمْ بِشَیْئٍ اِلَّاکَبَاسِطِ کَفَّیْہِ اِلَی الْمَآئِ لِیَبْلُغَ فَاہُ وَمَاھُوَ بِبَالِغِہ وَمَا دُعَآئُ الْکَافِرِیْنَ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ) (الرعد:14/13)
''اسی کو پکارنا سود مند ہے۔ اور جو اس کے سوا اوروں کو پکارتے ہیں وہ ان کو کوئی جواب نہیں دے سکتے۔ اس کی مثال پانی کی طرف ہاتھ پھیلانے والے کی مانند ہے (جو چاہتا ہے کہ) پانی اس کے منہ میں آ جائے حالانکہ وہ نہیں آ سکتا اور کافروں کی پکار بے کار ہے۔''
معلوم ہوا اللہ کے سوا دوسروں کو پکارنا ایسا ہی ہے کہ آدمی کنویں کے پانی کو کہے کہ وہ اس کے منہ میں آ جائے۔ یہ بھی فرمایا :
(وَالَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہ مَایَمْلِکُوْنَ مِنْ قِطْمِیْرٍ۔اِنْ تَدْعُوْھُمْ لَا یَسْمَعُوْادُعَآئَ کُمْ وَلَوْ سَمِعُوْامَااسْتَجَابُوْالَکُمْ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَکْفُرُوْنَ بِشِرْکِکُمْ) (الفاطر:13,14/35)
''اور جن کو تم اس کے سوا پکارتے ہو وہ کجھور کی گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں ہیں۔ اگر تم ان کو پکارو' تمہاری پکار نہ سنیں گے اور اگر سن لیں تو تمہاری درخواست قبول نہیں کر سکتے اور قیامت کے دن وہ تمہارے شرک کا انکار کر دیں گے۔''
معلوم ہوا کہ غیر اللہ کسی کو نفع دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔ یہ بھی فرمایا :
(وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَنْ لَّا یَسْتَجِیْبُ لَہ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَةِ وَھُمْ عَنْ دُعَآئِھِمْ غٰفِلُوْنَ۔ وَاِذَاحُشِرَالنَّاسُ کَانُوْا لَھُمْ اَعْدَآئً وَّ کَانُوْابِعِبَادَتِھِمْ کٰفِرِیْنَ) (الاحقاف:5,6/46)
''اس شخص سے بڑھ کر گمراہ کون ہو سکتا ہے جو اللہ کے سوا ان کو پکارتا ہے جو قیامت تک اس کو جواب نہ دے سکے اور وہ ان کے پکارنے ہی سے غافل ہیں اور جب لوگ جمع کئے جائیں گے تو وہ ان کے دشمن ہو جائیں گے اور ان کی عبادت کا انکار کر دیں گے۔'
(اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ عِبَاد اَمْثَالُکُمْ)(الاعراف :194/7)
(مشرکو) ''بے شک تم اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہو وہ تم جیسے بندے ہی ہیں۔''اور فرمایا :
(اَمْوَات غَیْرُ اَحْیَآئٍ وَّمَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ)(النحل :21/16)
''وہ تو بے جان لاشیں ہیں۔ ان کو یہ بھی معلوم نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے۔''
جن اولیاء اللہ کو مشرکین پکارتے ہیں ان کے بارے میں بتایا :
(وَاِذَاحُشِرَ النَّاسُ کَانُوْا لَھُمْ اَعْدَآئً وَّکَانُوْا بِعِبَادَتِھِمْ کٰفِرِیْنَ) (الاحقاف :6/46)
''اور جب (قیامت کے دن) لوگ جمع کئے جائیں گے' وہ ان کے دشمن ہو جائیں گے اور ان کی عبادت کا انکار کر دیں گے۔''
ان تینوں آیات سے ثابت ہوا کہ مشرکین کے معبود اللہ کے بندے تھے اور وہ قیامت کے دن اٹھائے جائیں گے۔
(وَاِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَحْدَہُ اشْمَاَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ وَاِذَا ذُکِرَالَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِہ اِذَاھُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ) (الزمر:(45/39
''اور جب تنہا اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل تنگی محسوس کرتے ہیں اور جب اس کے سوا اوروں کا ذکر کیا جاتا ہے تو وہ خوش ہو جاتے ہیں۔''
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
(ذٰلِکُمْ بِاَنَّہ اِذَادُعِیَ اللّٰہُ وَحْدَہُ کَفَرْتُمْ وَاِنْ یُّشْرَکْ بِہ تُوْمِنُوْافَالْحُکْمُ لِلّٰہِ الْعَلِیِّ الْکَبِیْرِ) (المؤمن :/40 12)
''جب تنہا اللہ کو پکارا جاتا تھا تو تم انکار کر دیتے تھے اور اگر اس کے ساتھ شرک کیا جاتا تھا تو تم تسلیم کر لیتے تھے۔ حکم تو اللہ ہی کا ہے جو سب سے اوپر اور سب سے بڑا ہے۔''
والسلام
قدیم زمانے سے لیکر آج تک تمام مشرک اقوام ایک بڑے قادر اور خالق کو مانتی رہیں
وَلَئِن سَأَلْتَہُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَیَقُولُنَّ اللَّہُ فَأَنَّی یُؤْفَکُونَ
وَلَئِن سَأَلْتَہُم مَّن نَّزَّلَ مِنَ السَّمَاء ِ مَاء ً فَأَحْیَا بِہِ الْأَرْضَ مِن بَعْدِ مَوْتِہَا لَیَقُولُنَّ اللَّہُ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّہِ بَلْ أَکْثَرُہُمْ لَا یَعْقِلُونَ
اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ زمین و آسمان کا خالق اور سورج اور چاند کو کام میں لگانے والا کون ہے ؟ تو ان کا جواب یہی ہو گا کہ اللہ تعالیٰ ۔ پھر کدھر الٹے جا رہے ہین؟!!
اور اگر آپ ان سے سوال کریں کہ آسمان سے پانی اتار کر زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کس نے کیا؟ تو یقینا ان کا جواب یہی ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے ۔ آپ کہہ دیں کہ ہر تعریف اللہ تعالیٰ ہی کے لیے سزاوار ہے ۔ بلکہ ان میں سے اکثر بےعقل ہیں
(قُلْ اَرَئَ یْتَکُمْ اِنْ اَتَاکُمْ عَذَابُ اللّٰہِ اَوْ اَتَتْکُمُ السَّاعَةُ اَغَیْرَاللّٰہِ تَدْعُوْنَ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۔ بَلْ اِیَّاہُ تَدْعُوْنَ فَیَکْشِفُ مَا تَدْعُوْنَ اِلَیْہِ اِنْ شَآئَ وَ تَنْسَوْنَ مَا تُشْرِکُوْنَ) (الانعام :40,41/6)
''(ان سے)کہیئے' اپنا حال تو بتائو کہ اگر تم پر اللہ کا کوئی عذاب آ جائے یا قیامت آ پہنچے تو کیا تم اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے۔ اگر تم سچے ہو۔ (تو بتائو) بلکہ تم اسی کو پکارتے ہو پھر جس دکھ کے لیے تم پکارتے ہو' اگر وہ چاہتا ہے تو اس کو دور کر دیتا ہے اور جن کو تم شریک بناتے ہو اس وقت ان سب کو بھول جاتے ہو۔''
ان آیات سے واضح ہوتا یے کہ مشرکین مکہ اللہ کو خالق و قادر مانتے تھے.. کیا آپ اس بات سے متفق ہیں؟
مشرکین کے اس عقیدے کو رد کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:مگر اسکے ساتھ ھی وہ لوگ یہ بہی سمجھتے تھے کہ اللہ تعالٰی نے اپنے کاموں کی تکمیل کے لئے کچھ فرشتوں اور نیک لوگوں کو شریک کر لیا ھے ۔مخلوق میں سے کچھ چیزوں کے بارے میں یہ تصور پیدا ہوگیا کہ ان میں بھی نفع ونقصان کی قدرت موجود ھے
(وَالَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہ مَا یَمْلِکُوْنَ مِنْ قِطْمِیْرٍ)
''اور جن لوگوں کو تم اس کے سوا پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے برابر بھی تو کسی چیز کے مالک نہیں۔'' (الفاطر :13/35)
(قُلْ لَّااَمْلِکُ لِنَفْسِیْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا اِلَّا مَاشَآئَ اللّٰہُ)
(یونس : 49/10)
''کہہ دو میں تو اپنے لیے نفع و نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جتنا اللہ چاہے۔'' (الاعراف: 188/7' میں بھی یہی بات کہی ہے)
(قُل اِنِّیْ لَا اَمْلِکُ لَکُمْ ضَرًّا وَّلاَ رَشَدًا ) (الجن :21/72)
''کہہ دو کہ میں تمہارے لیے نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتا۔''
وَاِنْ یَّمْسَسْکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلا کَاشِفَ لَہ اِلَّا ھُوَ) (الانعام :17/6)
''اور اگر اللہ تعالیٰ تجھے کوئی تکلیف پہنچانا چاہے تو اس کے سوا کوئی اس تکلیف کو دور کر نے والا نہیں۔''
اگر آپ کے خیال کے مطابق نفع و نقصان کا مالک اللہ کے سوا کوئی اور بھی ہو سکتا ہے تو اوپر دی گئی آیات کا کیا مطلب ہے؟محترم بھائی آپ نے اس آیت سے کیا مطلب لیا ہے؟ پلیز ذرا وضاحت کر دیں ..
إِن تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا وَإِن تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ
اگر تم دونوں اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرو (تو تمہارے لئے بہتر ہے) کیونکہ تم دونوں کے دل (ایک ہی بات کی طرف) جھک گئے ہیں، اگر تم دونوں نے اس بات پر ایک دوسرے کی اعانت کی (تو یہ نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے باعثِ رنج ہوسکتا ہے) سو بیشک اللہ ہی اُن کا دوست و مددگار ہے، اور جبریل اور صالح مومنین بھی اور اس کے بعد (سارے) فرشتے بھی (اُن کے) مددگار ہیں۔[/color]
التحريم، 66 : 4
کچھ لوگ ایسے طاقتور یا مقرب ھیں کہ وہ اللہ تعالٰی کے فیصلہ کو تبدیل کرواسکتے ھیں اور اللہ تعالی ان کی بات ماننے کا پابند ھے
آپ درج ذیل آیت سے کس بات کی دلیل دینا چاہ رہے ہیں؟ کیا اس بات کی کہ اولی الامر اتنے طاقتور اور مقرب ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے کو تبدیل کروا سکتے ہیں؟ اور اللہ تعالیٰ ان کی بات ماننے کا پابند ہے؟
مجھے تو اس آیت کے ترجمے یا تفسیر میں کہیں بھی ایسی کوئی بات نہیںملی.
اولی الامر کے معنی بعض کے نزدیک امراء و حکام ہیں اور بعض کے نزدیک علماء و فقہا ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہا صل اطاعت تو اللہ تعالیٰ ہی کی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الْأَمْرِ مِنكُمْ.
(النساء : 59)
’’اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی اطاعت کرو اوراپنے میں سے (اہلِ حق) صاحبانِ اَمر کی‘‘
؎؎الا لہ الخلق والامر
خبردار مخلوق بھی اسی کی ہے اور حکم بھی اسی کا ہے
؎؎ان الحکم الا للہ
حکم صرف اللہ ہی کا ہے
لیکن چونکہ رسول اللہ ﷺ خالص منشا الہی ہی کا مظہر اور اس کی مرضیات کا نماءندہ ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے حکم کو بھی مستقل طور پر واجب الاطاعت قرار دیا۔اور امرا ء و حکام یا علماء و فقہا کی اطاعت بھی ضروری ہے کیونکہ وہ یہا تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام کا نفاذ کرتے ہیں یا امت کے اجتماعی مصلاح کا انتظام اور نیگہداشت کرتے ہیں ۔ لیکن ان کی اطاعت علی الاطلاق نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے ساتھ مشروط ہے۔ اس لیے اطیعواللہ کے بعد اطیعوا الرسول کہا کیونکہ یہ دونوں اطاعتیں مستقل اور واجب ہیں لیکن اطیعو اولی الامر نہیں کہا کیونکہ اولی الامر کی اطاعت مستقل نہیں ۔ اور حدیث میں ہے :؎؎لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق
مشکاۃ 3696
انما الطاعۃ فی المعروف
صحیح بخاری کتاب الاحکام باب نمبر 4
علماء و فقہا کی اطاعت صرف اس وقت کی جائے گی جب تک وہ عوام کو صرف اللہ اور اس کے رسول کی بات بتاءیں لیکن اگر وہ اس سے انحراف کریں عوام کے لیے ان کی اطاعت بھی ضروری نہیں
کیا آپ اولی الامر کے حکم کو اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے برابر جانتے ہیں؟
اللہ تعالیٰ بادشاہوں جیسا نہیں کیونکہ بادشاہ سلطنت کا مکمل انتظام خود کرنے سے فطرتًا عاجز ہوتا ہے۔ اسے ایسے معاونین کی ضرورت ہوتی ہے جو نہ صرف امور سلطنت میں اس کی معاونت کرتے ہیں بلکہ درحقیقت یہ لوگ بادشاہ کی حکومت میں شریک ہوتے ہیں اور اس لیے :کہیں یہ سمجھا جاتا ھے کہ جس طرح کسی بڑی شخصیت سے بات کرنے اور اپنی درخواست پیش کرنے کے لئے ماتحت عملے کا ذریعہ اختییار کرنا پڑتا ھے
(١) کبھی بادشاہ سفارش قبول کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
(٢) کبھی بادشاہ کو سفارش کرنے والے سے کوئی غرض ہوتی ہے۔
(٣) کبھی اسے سفارش کرنے والے کی سرکشی کا خوف ہوتا ہے۔
(٤) کبھی سفارش کرنے والے کے کسی احسان کا بدلہ دینا مقصود ہوتا ہے۔
(٥) اور کبھی وہ سفارش کرنے والے کی محبت میں مجبور ہو کر قانون تبدیل کر کے اس کی سفارش قبول کرتا ہے۔
جبکہ اللہ کے متعلق ایسا سوچنا کفر و شرک ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(یٰاََ یُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْااَنْفِقُوْامِمَّارَزَقْنٰکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْم لَّا بَیْع فِیْہِ وَلاَ خُلَّة وَّلَا شَفَاعَة وَّالْکٰفِرُوْنَ ھُمُ الظَّلِمُوْنَ)
(البقرة :254/2)
''اے ایمان والو! جو مال ہم نے تمہیں دیا اس کو اس دن کے آنے سے پہلے پہلے خرچ کر لو جس میں نہ اعمال کا سودا ہو گا نہ دوستی اور نہ سفارش کام آئے گی اور کافر ہی ظالم ہیں۔
اس آیت سے آپ نے کیا دلیل لی ہے؟مجھے تو اس آیت سے یہ سمجھ آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے تمام رسول ) کیونکہ یہاں پر جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے( غالب آکر رہیں گے یعنی اس دنیا میں اللہ اور اس کے رسولوں کا دین غالب آ کر رہے گا . اگر میں نے غلط سمجھا تو پلیز آپ اس آیت کی تفسیر بیان کر دیں:
كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌO
(المجادله 21 : 58)
’’اللہ تعالیٰ نے یہ لکھ دیا ہے کہ میں اور میرا رسول ضرور غالب آ کر رہیں گے۔ بیشک اللہ تعالیٰ طاقت ور (اور)زبردست ہے۔‘‘
اسی طرح اللہ تعالٰی کے دربار میں اپنی عرض پیش کرنے کے لئے واسطوں اور وسیلوں کی ضرورت ھوتی ھے ۔شرک کی یہی قسمیں رسول اکرم کی بعثت کے وقت رائج تھیں اور آج بہی مشرک قوموں میں ان کا رواج ھے قرآن کریم نے ان تمام صورتوں کا بار بار مختلف انداز سے ذکر کرکے بتایا کہ اللہ تعالی نے اپنے اختییارات کسی کو نہیں دئے ۔کوئی چیز اللہ کی مرضی کے بغیر کسی کو نہ نفع پہنچاسکتی ھے نہ نقصان ۔
اللہ کے فیصلے کو کوئی تبدیل نہیں کرسکتا ۔
اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی اس کے سامنے کسی کی سفارش نہیں کرسکتا،
جزاک اللہ خیر آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں یہ بات وضاحت سے بیان کر دی بارک اللہ فیکیہاں آپ خود اقرار کر رہے ہیں کہ “ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی اس کے سامنے کسی کی سفارش نہیں کرسکتا “ اس سے تو صاف مطلب نکلتا ھے کہ کوئی تو ہے جو اللہ کی اجازت سے کسی کی سفارش کر سکتا ھے
من ذا الذی يشفع عنده الا باذنه
۔ ترجمہ: کون ایسا شخص ہے جو اس کے حضور اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرسکے۔
(سورہ بقرہ 255)
صحیح بخاری شریف میں شفاعت سے متعلق ایک طویل حدیث پاک ہے اس کا جز ملاحظہ ہو:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
فيقال يا محمد ارفع رأسک و اشفع تشفع و سل تعطه۔
ترجمہ:
فرمایا جائے گا ائے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سر اٹھائیے اور شفاعت کیجئے‘ آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی اور مانگئے آپ کو عطا کیا جائے گا۔
(صحیح بخاری شریف‘ کتاب احادیث الانبیائ‘ حدیث نمبر 3092)
صحیح مسلم شریف میں حدیث پاک ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
انا سيد ولد آدم يوم القيامة و اول من ينشق عنه القبر و اول شافع و اول مشفع۔
ترجمہ:
بروز قیامت مَیں ہی تمام بنی آدم کا سردار رہوں گا‘ اور سب سے پہلے میری ہی مزار (مبارک) کھلے گی‘ اور میں ہی سب سے پہلے شفاعت کرنے والا رہوں گا اور سب سے پہلے میری ہی شفاعت قبول کی جائے گی۔
(صحیح مسلم شریف‘ کتاب الفضائل‘ حدیث نمبر 4223
اور اس کے دربار میں حاضری کے لئے کسی واسطے اور وسیلے کی ضرورت نہیں ۔
یعنی اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ایمان والے جو مسجدوں میں نماز ادا کر رہے ہیں یا زکاۃ ادا کر رہے ہیں ہم ان سب کے وسیلے اور واسطے سے اللہ سے دعا مانگ سکتے ہیں؟إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ
بیشک تمہارا (مددگار) دوست تو ﷲ اور اس کا رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہی ہے اور (ساتھ) وہ ایمان والے ہیں جو نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہ (اﷲ کے حضور عاجزی سے) جھکنے والے ہیں۔
المائدة، 5 : 55
تو پھر ان آیات کا کیا مطلب ہے؟؟؟
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
(وَاِذَاسَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْب اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ) (البقرة:186/2)
''اور (اے رسول) جب میرے بندے آپ سے میرے متعلق سوال کریں تو (آپ کہہ دیں) کہ میں بے شک قریب ہوں۔ جب کوئی پکارنے والا مجھ سے دعا کرتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں۔''یہ بھی فرمایا :
(وَادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ) (الاعراف :29/7)
''اور (اے لوگو) دین کو خالص اللہ کے لیے مانتے ہوئے اللہ ہی کو پکارو۔''
یہ بھی فرمایا :
( اُدْعُوْارَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَةً ) (الاعراف:55/7)
''(لوگو) اپنے رب سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو۔''
(وَ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ) (ق:16/50)
''ہم شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔''
دَعْوَةُ الْحَقِّ وَالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہ لَا یَسْتَجِیْبُوْنَ لَھُمْ بِشَیْئٍ اِلَّاکَبَاسِطِ کَفَّیْہِ اِلَی الْمَآئِ لِیَبْلُغَ فَاہُ وَمَاھُوَ بِبَالِغِہ وَمَا دُعَآئُ الْکَافِرِیْنَ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ) (الرعد:14/13)
''اسی کو پکارنا سود مند ہے۔ اور جو اس کے سوا اوروں کو پکارتے ہیں وہ ان کو کوئی جواب نہیں دے سکتے۔ اس کی مثال پانی کی طرف ہاتھ پھیلانے والے کی مانند ہے (جو چاہتا ہے کہ) پانی اس کے منہ میں آ جائے حالانکہ وہ نہیں آ سکتا اور کافروں کی پکار بے کار ہے۔''
معلوم ہوا اللہ کے سوا دوسروں کو پکارنا ایسا ہی ہے کہ آدمی کنویں کے پانی کو کہے کہ وہ اس کے منہ میں آ جائے۔ یہ بھی فرمایا :
(وَالَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہ مَایَمْلِکُوْنَ مِنْ قِطْمِیْرٍ۔اِنْ تَدْعُوْھُمْ لَا یَسْمَعُوْادُعَآئَ کُمْ وَلَوْ سَمِعُوْامَااسْتَجَابُوْالَکُمْ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَکْفُرُوْنَ بِشِرْکِکُمْ) (الفاطر:13,14/35)
''اور جن کو تم اس کے سوا پکارتے ہو وہ کجھور کی گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں ہیں۔ اگر تم ان کو پکارو' تمہاری پکار نہ سنیں گے اور اگر سن لیں تو تمہاری درخواست قبول نہیں کر سکتے اور قیامت کے دن وہ تمہارے شرک کا انکار کر دیں گے۔''
معلوم ہوا کہ غیر اللہ کسی کو نفع دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔ یہ بھی فرمایا :
(وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَنْ لَّا یَسْتَجِیْبُ لَہ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَةِ وَھُمْ عَنْ دُعَآئِھِمْ غٰفِلُوْنَ۔ وَاِذَاحُشِرَالنَّاسُ کَانُوْا لَھُمْ اَعْدَآئً وَّ کَانُوْابِعِبَادَتِھِمْ کٰفِرِیْنَ) (الاحقاف:5,6/46)
''اس شخص سے بڑھ کر گمراہ کون ہو سکتا ہے جو اللہ کے سوا ان کو پکارتا ہے جو قیامت تک اس کو جواب نہ دے سکے اور وہ ان کے پکارنے ہی سے غافل ہیں اور جب لوگ جمع کئے جائیں گے تو وہ ان کے دشمن ہو جائیں گے اور ان کی عبادت کا انکار کر دیں گے۔'
(اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ عِبَاد اَمْثَالُکُمْ)(الاعراف :194/7)
(مشرکو) ''بے شک تم اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہو وہ تم جیسے بندے ہی ہیں۔''اور فرمایا :
(اَمْوَات غَیْرُ اَحْیَآئٍ وَّمَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ)(النحل :21/16)
''وہ تو بے جان لاشیں ہیں۔ ان کو یہ بھی معلوم نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے۔''
جن اولیاء اللہ کو مشرکین پکارتے ہیں ان کے بارے میں بتایا :
(وَاِذَاحُشِرَ النَّاسُ کَانُوْا لَھُمْ اَعْدَآئً وَّکَانُوْا بِعِبَادَتِھِمْ کٰفِرِیْنَ) (الاحقاف :6/46)
''اور جب (قیامت کے دن) لوگ جمع کئے جائیں گے' وہ ان کے دشمن ہو جائیں گے اور ان کی عبادت کا انکار کر دیں گے۔''
ان تینوں آیات سے ثابت ہوا کہ مشرکین کے معبود اللہ کے بندے تھے اور وہ قیامت کے دن اٹھائے جائیں گے۔
(وَاِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَحْدَہُ اشْمَاَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ وَاِذَا ذُکِرَالَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِہ اِذَاھُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ) (الزمر:(45/39
''اور جب تنہا اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل تنگی محسوس کرتے ہیں اور جب اس کے سوا اوروں کا ذکر کیا جاتا ہے تو وہ خوش ہو جاتے ہیں۔''
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
(ذٰلِکُمْ بِاَنَّہ اِذَادُعِیَ اللّٰہُ وَحْدَہُ کَفَرْتُمْ وَاِنْ یُّشْرَکْ بِہ تُوْمِنُوْافَالْحُکْمُ لِلّٰہِ الْعَلِیِّ الْکَبِیْرِ) (المؤمن :/40 12)
''جب تنہا اللہ کو پکارا جاتا تھا تو تم انکار کر دیتے تھے اور اگر اس کے ساتھ شرک کیا جاتا تھا تو تم تسلیم کر لیتے تھے۔ حکم تو اللہ ہی کا ہے جو سب سے اوپر اور سب سے بڑا ہے۔''
والسلام
Re: شرک اور اس کی اقسام
جزاک اللہ الجنۃ یا ابا عبدالعزیز
-
- دوست
- Posts: 265
- Joined: Sun Aug 16, 2009 2:24 am
Re: شرک اور اس کی اقسام
[center]واللہ میرے دل کی ساری بات بڑی تفصیل سے ابا عبد العزیز نے بیان کر دی
واللہ مشکووووووووووور
سچ فرمایا ہمارے خالق نے
(وَاِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَحْدَہُ اشْمَاَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ وَاِذَا ذُکِرَالَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِہ اِذَاھُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ) (الزمر:(45/39
''اور جب تنہا اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل تنگی محسوس کرتے ہیں اور جب اس کے سوا اوروں کا ذکر کیا جاتا ہے تو وہ خوش ہو جاتے ہیں۔''
لا الہ الا اللہ
کے مفھوم سے آج بھی مسلمانوں کی اکثریت غافل ہے

اللہ اپنے توحید کے محافظوں کی حفاظت کرے
آمین[/center]
واللہ مشکووووووووووور
سچ فرمایا ہمارے خالق نے
(وَاِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَحْدَہُ اشْمَاَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ وَاِذَا ذُکِرَالَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِہ اِذَاھُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ) (الزمر:(45/39
''اور جب تنہا اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل تنگی محسوس کرتے ہیں اور جب اس کے سوا اوروں کا ذکر کیا جاتا ہے تو وہ خوش ہو جاتے ہیں۔''
لا الہ الا اللہ
کے مفھوم سے آج بھی مسلمانوں کی اکثریت غافل ہے

اللہ اپنے توحید کے محافظوں کی حفاظت کرے
آمین[/center]
-
- دوست
- Posts: 265
- Joined: Sun Aug 16, 2009 2:24 am
Re: شرک اور اس کی اقسام
Re: شرک اور اس کی اقسام
[center]ماشاءاللہ بہت خوب آپ سب نے کمال ہی کردیا ھے[/center]
Re: شرک اور اس کی اقسام
ابو عبدالعزیز wrote:السلام علیکم محترم کعنان بھائی !! بہت خوشی ہوئی کہ آپ نے اتنی تفصیل سے دلائل سے بات کا رد کیا۔ لیکن مجھے بھی آپ چند سوالات پوچھنے کی اجازت دیجیے !!
السلام علیکم ابو عبدالعزیز بھائی صاحب
کسی وجہ سے ایڈمین کی گزارش پر مجھے عزت اور احترام سے اس فارم سے باہر ہونا پڑا تھا پھر ایک مرتبہ ایک انعامی مقابلہ پر نوٹیفیکیشن ملا تو اس میں میں نے حصہ لیا تھا
آج گوگل میں سرچ کے دوران یہ پوسٹ نظر سے گزری تو آپ کو چیلنج نظر آیا۔
تو بھائی میرے اگر آپ اس فارم میں موجود ہیں تو ایڈمین سے اجازت لے لیں آپ سے اسی موضوع پر کنورسیشن کر لیتے ہیں تاکہ آپ سے کچھ سیکھا جائے۔
شکریہ
والسلام
[center]کعنان[/center]
Re: شرک اور اس کی اقسام
[center]شرک کے کام[/center]
اسماعیل دہلوی کی کتاب تقویۃ الایمان میں درج ذیل امورشرک کے کام کے عنوان کے تحت درج ہیں
"بیماریوں سے بچانے کے لیے اپنے بیٹوں کو انھیں کی طرف منسوب کرتے ہیں کسی کا نام عبدالنبی کسی کا علی بخش کسی کا حسین بخش کسی کا پیربخش کسی کا سالار بخش کسی کا غلام محی الدین اور کسی کا غلام معین الدین رکھتے ہیں"
اسماعیل دہلوی ، تقویۃ الایمان صفحہ 40 ایڈیشن 2006
یاد رہے کہ اس کتاب کا مقدمہ جن صاحب نے لکھا ہے ان کا نام غلام رسول مہرہے صفحہ 34
اسی کتاب کے صفحہ 95 پر عبادت کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی ہے
"عبادت ان کاموں کو کہاجاتا ہے جو حق تعالیٰ نے اپنی تعظیم کے واسطے مقرر فرماکر سکھاے ہیں"
ایک دوسری جگہ کچھ اس طرح لکھاہوا ہے
قبروں کو چومے یا قبروں یا دیگرمقامات کیلے دورسے سفر کرکے جاے یا وہاں چراغ جلاے قبر پر چادر چڑھاے یا مور چھل جھلے یا شامیانہ تانے یا اس قسم کا کوی کام کرے تواس نے کھلا شرک کیا اس کو شرک فی العبادات کہتے ہیں"
تقویۃ الایمان صفحہ 50،49
ان عبارات کو پڑھ کر ایسا گمان ہوتا ہے کہ اسماعیل دہلوی جس خدا کو مانتے ہیں اس خدا نے اس سے کہا ہوگا کہ تم صرف میری ہی قبر کو چومنا صرف میری ہی قبر کی زیارت کیلے سفر کرنا صرف میری ہی قبر پر چادر چڑھانا مورچھل جھلنا یا شامیانہ تانہ اگر تم نے کسی اور کی قبر پر اس قسم کے کام کیے تو یہ کھلا ہوا شرک ہو گا اور شرک فی العبادات کہلاے گا اور یہ سارے امور اس کے خدا نے اہنی تعظیم کے واسطے مقرر کیے ہیں
اسماعیل دہلوی کی کتاب تقویۃ الایمان میں درج ذیل امورشرک کے کام کے عنوان کے تحت درج ہیں
"بیماریوں سے بچانے کے لیے اپنے بیٹوں کو انھیں کی طرف منسوب کرتے ہیں کسی کا نام عبدالنبی کسی کا علی بخش کسی کا حسین بخش کسی کا پیربخش کسی کا سالار بخش کسی کا غلام محی الدین اور کسی کا غلام معین الدین رکھتے ہیں"
اسماعیل دہلوی ، تقویۃ الایمان صفحہ 40 ایڈیشن 2006
یاد رہے کہ اس کتاب کا مقدمہ جن صاحب نے لکھا ہے ان کا نام غلام رسول مہرہے صفحہ 34
اسی کتاب کے صفحہ 95 پر عبادت کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی ہے
"عبادت ان کاموں کو کہاجاتا ہے جو حق تعالیٰ نے اپنی تعظیم کے واسطے مقرر فرماکر سکھاے ہیں"
ایک دوسری جگہ کچھ اس طرح لکھاہوا ہے
قبروں کو چومے یا قبروں یا دیگرمقامات کیلے دورسے سفر کرکے جاے یا وہاں چراغ جلاے قبر پر چادر چڑھاے یا مور چھل جھلے یا شامیانہ تانے یا اس قسم کا کوی کام کرے تواس نے کھلا شرک کیا اس کو شرک فی العبادات کہتے ہیں"
تقویۃ الایمان صفحہ 50،49
ان عبارات کو پڑھ کر ایسا گمان ہوتا ہے کہ اسماعیل دہلوی جس خدا کو مانتے ہیں اس خدا نے اس سے کہا ہوگا کہ تم صرف میری ہی قبر کو چومنا صرف میری ہی قبر کی زیارت کیلے سفر کرنا صرف میری ہی قبر پر چادر چڑھانا مورچھل جھلنا یا شامیانہ تانہ اگر تم نے کسی اور کی قبر پر اس قسم کے کام کیے تو یہ کھلا ہوا شرک ہو گا اور شرک فی العبادات کہلاے گا اور یہ سارے امور اس کے خدا نے اہنی تعظیم کے واسطے مقرر کیے ہیں
Re: شرک اور اس کی اقسام
جزاکہ اللہ شکریہ...
میں آج زد میں ہوں خوش گماں نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں .
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں .
-
- مشاق
- Posts: 1263
- Joined: Sun Oct 25, 2009 6:48 am
- جنس:: مرد
- Location: India maharastra nasik malegaon
- Contact:
Re: شرک اور اس کی اقسام
اسلام علیکم
کیا کہوں سمجھ میں نہیں آتا . کھلی ہوئی روشن واضح باتوں میں اپنے گمان کا سیاہ پردہ ڈال کر صاف صاف چیزوں میں شکوک پیدا کرلینا اور اس کو اپنی عقلمندی سمجھ لینا.بات کسی اور نہج کی سمجھائی جائے اور کسی اور جانب رخ کرکے ان باتوں کا الٹا سیدھا مطلب نکالا جائے.شائید اسی کو گمراہی کہتے ہیں. سبحان اللہ. اللہ تعالٰی ہم سب کو عقل سلیم عطاء فرمائے. افراط و تفریط سے عافیت کے ساتھ محفوظ فرمائے. جو کام واضح اور بلا اختلاف ہیں ان پر مکمل عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے. اور پھر دوسری جانب رخ کرنے اور اسکو سمجھنے والا بنائے. ورنہ میرا تو یہ حال ہے. کرنے والے کام ہوتے نہیں جن میں نفس کو لذّت ملے اور انا کو تسکین ان پر طبیعت خوب چلتی ہے.
کیا کہوں سمجھ میں نہیں آتا . کھلی ہوئی روشن واضح باتوں میں اپنے گمان کا سیاہ پردہ ڈال کر صاف صاف چیزوں میں شکوک پیدا کرلینا اور اس کو اپنی عقلمندی سمجھ لینا.بات کسی اور نہج کی سمجھائی جائے اور کسی اور جانب رخ کرکے ان باتوں کا الٹا سیدھا مطلب نکالا جائے.شائید اسی کو گمراہی کہتے ہیں. سبحان اللہ. اللہ تعالٰی ہم سب کو عقل سلیم عطاء فرمائے. افراط و تفریط سے عافیت کے ساتھ محفوظ فرمائے. جو کام واضح اور بلا اختلاف ہیں ان پر مکمل عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے. اور پھر دوسری جانب رخ کرنے اور اسکو سمجھنے والا بنائے. ورنہ میرا تو یہ حال ہے. کرنے والے کام ہوتے نہیں جن میں نفس کو لذّت ملے اور انا کو تسکین ان پر طبیعت خوب چلتی ہے.
یا اللہ تعالٰی بدگمانی سے بد اعمالی سےغیبت سےعافیت کے ساتھ بچا.


Re: شرک اور اس کی اقسام
اور اگر قرآن ہی سے ثابت ہوجاے کہ کسی غیر اللہ کو اللہ تعالٰی نے کجھور کی گٹھلی کے چھلکے سے بھی بہت بہت بہت ذیادہ کسی چیز کا مالک بنا دیا ہے پھر اس کو پکارنا کیسا ہوگا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟(وَالَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہ مَایَمْلِکُوْنَ مِنْ قِطْمِیْرٍ۔اِنْ تَدْعُوْھُمْ لَا یَسْمَعُوْادُعَآئَ کُمْ وَلَوْ سَمِعُوْامَااسْتَجَابُوْالَکُمْ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَکْفُرُوْنَ بِشِرْکِکُمْ) (الفاطر:13,14/35)
''اور جن کو تم اس کے سوا پکارتے ہو وہ کجھور کی گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں ہیں۔ اگر تم ان کو پکارو' تمہاری پکار نہ سنیں گے اور اگر سن لیں تو تمہاری درخواست قبول نہیں کر سکتے اور قیامت کے دن وہ تمہارے شرک کا انکار کر دیں گے۔''
معلوم ہوا کہ غیر اللہ کسی کو نفع دینے کا اختیار نہیں رکھتے
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 0
اے محبوب بے شک ہم نے تمہیں کوثر عطا کی0
سورۃ الکوثر 1
Re: شرک اور اس کی اقسام
اور قیامت کے دن بھی لوگ غیر اللہ ہی سے مدد کے طلب گار ہونگے
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قیامت کے روز سورج لوگوں کے بہت قریب آ جائے گا یہاں تک کہ (اس کی تپش کے باعث لوگوں کے) نصف کانوں تک (پسینہ) پہنچ جائے گا لوگ اس حالت میں (پہلے) حضرت آدم علیہ السلام سے مدد مانگنے جائیں گے، پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے، پھر بالآخر (ہر ایک کے انکار پر) حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مدد مانگیں گے۔‘‘
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : مَنْ سأل الناس تَکَثُّرًا، 2 / 536، الرقم : 1405، وابن منده في کتاب الإيمان، 2 / 854، الرقم : 884، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 30، الرقم : 8725، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 269، الرقم : 3509، والديلمي في مسند الفردوس، 2 / 377، الرقم : 3677، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 371، ووثّقه.
ڈاکٹر محمد طاہرالقادری : المنہاج السوی من الحدیث النبوی
’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ راویت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارے کسی ایک شخص کا بھی دنیا میں کسی حق بات کے لئے تکرار کرنا اس قدر سخت نہیں ہو گا جو تکرار مومنین کاملین اپنے پروردگار سے اپنے ان بھائیوں کے لئے کریں گے جو جہنم میں داخل کئے جا چکے ہوں گے۔ وہ عرض کریں گے : اے ہمارے پروردگار! ہمارے یہ بھائی ہمارے ساتھ نمازیں پڑھتے تھے اور ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے اور ہمارے ہی ساتھ حج کرتے تھے اور تو نے انہیں دوزخ میں ڈال دیا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اچھا تم جنہیں پہچانتے ہو انہیں جا کر خود ہی دوزخ سے نکال لو۔ کہتے ہیں : وہ ان کے پاس جائیں گے اور ان کی شکلیں دیکھ کر انہیں پہچان لیں گے۔ ان میں سے بعض کو تو آگ نے پنڈلیوں کے نصف تک اور بعض کو ٹخنوں تک پکڑا ہو گا۔ وہ انہیں نکالیں گے اور پھر عرض کریں گے : اے ہمارے پروردگار! تو نے ہمیں جن کے نکالنے کا حکم فرمایا تھا انہیں ہم نے نکال لیا ہے، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا : انہیں بھی جا کر نکال لو جن کے دل میں ایک دینار کے برابر بھی ایمان ہے۔ پھر فرمائے گا : اسے بھی نکال لاؤ جس کے دل میں نصف دینار کے برابر ایمان ہے (پھر) یہاں تک فرمائے گا : اسے بھی (نکال لاؤ) جس کے دل میں ذرّہ برابر ایمان ہے۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اب جس شخص کو یقین نہ آئے تو وہ یہ آیتِ کریمہ پڑھ لے۔ ’’بیشک اللہ اِس بات کو نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور اس سے کم تر (جو گناہ بھی ہو) جس کے لئے چاہتا ہے بخش دیتا ہے۔‘‘(النساء، 4 : 48)۔
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : التوحيد، باب : في قول اﷲ تعالي : وجوه يومئذ ناضرة إلي ربها ناظرة، 6 / 2707، الرقم : 7001، والنسائي في السنن، کتاب : الإيمان وشرائعه، باب : زيادة الإيمان، 8 / 112، الرقم : 5010، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب : في الإيمان، 1 / 23، الرقم : 60، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 94، الرقم : 117، والحاکم في المستدرک، 4 / 626، الرقم : 8736، وَقَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِِ، وابن راشد في الجامع، 11 / 410.
ڈاکٹر محمد طاہرالقادری : المنہاج السوی من الحدیث النبوی
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قیامت کے روز سورج لوگوں کے بہت قریب آ جائے گا یہاں تک کہ (اس کی تپش کے باعث لوگوں کے) نصف کانوں تک (پسینہ) پہنچ جائے گا لوگ اس حالت میں (پہلے) حضرت آدم علیہ السلام سے مدد مانگنے جائیں گے، پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے، پھر بالآخر (ہر ایک کے انکار پر) حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مدد مانگیں گے۔‘‘
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : مَنْ سأل الناس تَکَثُّرًا، 2 / 536، الرقم : 1405، وابن منده في کتاب الإيمان، 2 / 854، الرقم : 884، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 30، الرقم : 8725، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 269، الرقم : 3509، والديلمي في مسند الفردوس، 2 / 377، الرقم : 3677، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 371، ووثّقه.
ڈاکٹر محمد طاہرالقادری : المنہاج السوی من الحدیث النبوی
’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ راویت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارے کسی ایک شخص کا بھی دنیا میں کسی حق بات کے لئے تکرار کرنا اس قدر سخت نہیں ہو گا جو تکرار مومنین کاملین اپنے پروردگار سے اپنے ان بھائیوں کے لئے کریں گے جو جہنم میں داخل کئے جا چکے ہوں گے۔ وہ عرض کریں گے : اے ہمارے پروردگار! ہمارے یہ بھائی ہمارے ساتھ نمازیں پڑھتے تھے اور ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے اور ہمارے ہی ساتھ حج کرتے تھے اور تو نے انہیں دوزخ میں ڈال دیا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اچھا تم جنہیں پہچانتے ہو انہیں جا کر خود ہی دوزخ سے نکال لو۔ کہتے ہیں : وہ ان کے پاس جائیں گے اور ان کی شکلیں دیکھ کر انہیں پہچان لیں گے۔ ان میں سے بعض کو تو آگ نے پنڈلیوں کے نصف تک اور بعض کو ٹخنوں تک پکڑا ہو گا۔ وہ انہیں نکالیں گے اور پھر عرض کریں گے : اے ہمارے پروردگار! تو نے ہمیں جن کے نکالنے کا حکم فرمایا تھا انہیں ہم نے نکال لیا ہے، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا : انہیں بھی جا کر نکال لو جن کے دل میں ایک دینار کے برابر بھی ایمان ہے۔ پھر فرمائے گا : اسے بھی نکال لاؤ جس کے دل میں نصف دینار کے برابر ایمان ہے (پھر) یہاں تک فرمائے گا : اسے بھی (نکال لاؤ) جس کے دل میں ذرّہ برابر ایمان ہے۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اب جس شخص کو یقین نہ آئے تو وہ یہ آیتِ کریمہ پڑھ لے۔ ’’بیشک اللہ اِس بات کو نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور اس سے کم تر (جو گناہ بھی ہو) جس کے لئے چاہتا ہے بخش دیتا ہے۔‘‘(النساء، 4 : 48)۔
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : التوحيد، باب : في قول اﷲ تعالي : وجوه يومئذ ناضرة إلي ربها ناظرة، 6 / 2707، الرقم : 7001، والنسائي في السنن، کتاب : الإيمان وشرائعه، باب : زيادة الإيمان، 8 / 112، الرقم : 5010، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب : في الإيمان، 1 / 23، الرقم : 60، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 94، الرقم : 117، والحاکم في المستدرک، 4 / 626، الرقم : 8736، وَقَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِِ، وابن راشد في الجامع، 11 / 410.
ڈاکٹر محمد طاہرالقادری : المنہاج السوی من الحدیث النبوی
-
- مشاق
- Posts: 1263
- Joined: Sun Oct 25, 2009 6:48 am
- جنس:: مرد
- Location: India maharastra nasik malegaon
- Contact:
Re: شرک اور اس کی اقسام
اسلام علیکمبہرام wrote:اور قیامت کے دن بھی لوگ غیر اللہ ہی سے مدد کے طلب گار ہونگے
ماشا اللہ آپ نے اسکو بڑے اچھے انداز میں سمجھایا . اب ایسے ہی اچھے انداز میں "شرک" جو گناہ عظیم ہے وہ کیا ہے یا کس کو کہتے ہیں وہ بھی اگر سمجھا دیں تو بہت نفع ہو.اس سے بچنا بھی آسان ہو جائے
یا اللہ تعالٰی بدگمانی سے بد اعمالی سےغیبت سےعافیت کے ساتھ بچا.


-
- دوست
- Posts: 220
- Joined: Fri Jun 11, 2010 5:04 pm
- جنس:: مرد
- Location: House#05,Gulberg# 1, Peshawar Cantt
Re: شرک اور اس کی اقسام
کنعان بھائی کیا بات ہے۔۔۔۔بہت عمدہ ۔
ہم ادھر سب کو ایک ہی مشورہ دیں گے کہ
دوسروں کا عقیدہ چھیڑو مت
اپنا عقیدہ چھوڑو مت
ہم ادھر سب کو ایک ہی مشورہ دیں گے کہ
دوسروں کا عقیدہ چھیڑو مت
اپنا عقیدہ چھوڑو مت
قال را بہ گزار مرد حال شو
پیش مرد کامل پامال شو (روم)
پیش مرد کامل پامال شو (روم)
-
- مدیر
- Posts: 10960
- Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
- جنس:: مرد
- Location: اللہ کی زمین
- Contact:
Re: شرک اور اس کی اقسام
بجا فرمایا آپ نے روحانی بابا صاحب
Re: شرک اور اس کی اقسام
السلام علیکم بابا جی بھیاrohaani_babaa wrote:کنعان بھائی کیا بات ہے۔۔۔۔بہت عمدہ ۔
ہم ادھر سب کو ایک ہی مشورہ دیں گے کہ
دوسروں کا عقیدہ چھیڑو مت
اپنا عقیدہ چھوڑو مت
بھیا میں یہاں پر ریگولر نہیں ہوں اور نہ میں عقیدوں پر لکھتا ہوں پھر بھی آپ کا ڈائیلاگ بہت پرانا ھے اور میچ بھی نہیں کرتا کبھی علمی گفتگو کرنے کو دل کرے تو میں حاضر ہوں عقیدوں والے کمبل سے باہر نکل آئیں بہت فائدہ ہو گا۔
والسلام
[center]کعنان[/center]