ملالہ …مغرب کے چہر ے کا نقاب

ملکی اور عالمی‌ سیاست پر ایک نظر
Post Reply
محمد شعیب
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 6565
Joined: Thu Jul 15, 2010 7:11 pm
جنس:: مرد
Location: پاکستان
Contact:

ملالہ …مغرب کے چہر ے کا نقاب

Post by محمد شعیب »

محمد فیصل شہزاد کے قلم سے
............................
کل ظفر جی کی وال پر ملالہ کے حوالے سے ایک بحث چلی۔ اسی حوالے سے اپنی رائے پیش کی ہے۔۔۔!
دراصل ہم ہر معاملے کی طرح سازشی نظریات کے حوالے سے بھی دو انتہا پر موجود ہیں۔ایک انتہا تو یہ ہے کہ ہمیں" امت" اخبار کی طرح ہر چیز پر مغربی سازش کا گمان ہو تا ہے، کوئی پتہ کھڑکے یا بندہ پھڑکے، امریکی سازش ہو گی!۔۔۔ پولیو ویکسین سے لے کربینظیر حملے تک سب امریکی سازش ہے!!۔۔۔ دوسری انتہا یہ ہے کہ ہم انتہائی غیر معمولی مشکوک سرگرمیوں کے باوجود عقل کو ہاتھ نہ ماریں اور صرف "ملا" کی ضد میں اسلام و پاکستان کے دشمنوں کو تو سیف سائیڈ دیں اور دنیا کی ہر خرابی کو بے چارے "ملا" کے کھاتے میں ڈال دیں۔ایسے لوگ سوچتے نہیں کہ سازشی عناصر (غدار) دنیا کے ہرملک اور ہر آزادی کی تحریک میں رہے ہیں اور دشمن ہمیشہ اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے ان کو استعمال کرتا رہا ہے۔۔۔اب چاہے وہ بنگال کے سراج الدولہ کی خالہ گھسیٹی بیگم اور اس کا درباری میر جعفر ہو، حافظ الملک کے ساتھ غداری کرنے والا شجاع الدولہ ہو،میسور کے شیر دل حکمراں حضرت ٹیپو کے درباری میر صادق اور غلام علی ہوں یا آج کے پاکستان کے شکیل آفریدی اور ملالہ کا باپ ضیاء الدین یوسف زئی ہو!!۔۔۔
ملالہ کا معاملہ بھی اسی طرح ہے۔ اس مشکوک کہانی میں کئی انتہائی پراسرار پوائنٹ ہیں ۔ملالہ یوسف زئی کوصرف دو فٹ کے فاصلے سے گولی چھو کر گزر گئی!…بغیر سر سے بال ہٹائے دماغ کی سرجری ہو گئی!… یادداشت کم تو کیا ہوتی پہلے سے زیادہ بہتر ہو گئی!… ایک چھوٹی سی بچی راتوں رات عظیم دانشور باور کرا کے نوبل انعام سے نواز دی گئی۔۔۔ مگر چلیے یہ سب عقلی نکات اسلام پسند جذباتی نوجوانوں کی ذہنی اختراع سہی،لیکن ملالہ کی تصنیف ’’آئی ایم ملالہ‘‘ (جومشہور اسلام و پاکستان دشمن صحافی کرسٹینا لیمب کے ہاتھوں وجودمیں آئی ہے) سامنے آنے کے بعد اب اس سوال کا جواب محترمہ مونا بی بی کے ذمے ہے کہ کہ کیا ملالہ خود کوئی بہت بڑی مفکر اور مستقبل کی قائدخاتون ہے یا محض مغرب کے ہاتھوں میں کھیلتی ایک کٹھ پتلی ہے؟
کرسٹینا لیمب کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ وہ پاکستان سے شدید نفرت کرتی ہے۔ اپنی پاکستان دشمن حرکتوں کی وجہ سے ہی اسے 10 نومبر 2001 کوپاکستان سے باقاعدہ ڈی پورٹ کیا گیا تھا ۔اس تصنیف نے بتادیا کہ ملالہ کے اپنے منہ میں کوئی زبا ن ہے نہ دماغ میں کوئی سوچ اورفکر،وہ بے چاری بچی تو اپنے شقی القلب باپ ضیاء یوسف زئی اوراسلام دشمن طاقتوں کے ہاتھوں کا ایک کھلونا ہے۔ اس تصنیف میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کانام نامی لیتے ہوئے کہیں بھی صلی اللہ علیہ وسلم کالفظ بھی نہیں لکھاگیا، اسے اعتراض ہے کہ جنرل ضیا الحق کے آنے کے بعد نصاب کو اسلامی کر دیا گیاجس سے یوں لگنے لگا کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے!اسی ’جرم‘ کی پاداش میںوہ ضیاء الحق مرحوم کو ڈراؤناشخص کہہ کر ان کا مذاق اڑاتی ہے۔اس کے علاوہ وہ جا بجا لفظ’ ملا‘ کا تمسخر اڑاتی ہے اورایک جگہ تو اس نے حدہی کر دی ہے، وہ ملعون سلمان رشدی کی خباثتوں کو آزادیٔ رائے کے عنوان سے جائز قرار دیتی ہے! وہ ملک عزیزکے خلاف بھی ایک جگہ لکھتی ہے کہ پاکستان بننا ہی نہیں چاہیے تھا، اور اس کے والد 14اگست کو بازو پر سیاہ پٹی باندھتے ہیں…ان سب ہفوات کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ ملالہ اور اس کا والدضیاء الدین، شکیل آفریدی کی طرح باطل کے ایجنٹ ہیں جن کے ذریعے اسلام دشمن اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کر رہے ہیں ۔
ملالہ کوآج مشرق میں تعلیم کی سب سے بڑی نمائندہ کہا جارہاہے۔ سوال یہ ہے کہ اس نے تعلیم کے لیے کیا کیا ہے؟ وہ کرہی کیا سکتی تھی؟ اس کی طرف منسوب چند مضامین بھی اس کے اپنے لکھے ہوئے نہیں ۔پھر ان مضامین میں اور اس کتاب میں اپنے ملک ،معاشرے اور قوم کی تضحیک کے سو اہے ہی کیا۔اس نے بچیوں کو علم وہنر کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے آخر کیا کیا ہے؟ کیا وہ اس کی اہل تھی یا اب سترہ سال کی عمرمیں بھی وہ یہ کام کرسکتی ہے؟اس کے برعکس اس ملک میں سینکڑوں خواتین ایسی ہیں جنہوں نے علم کے لیے اپنی زندگیاں تج دی ہیں۔ ہم دینی مدارس کی بات نہیں کرتے،عصری تعلیمی اداروںمیں بھی علم وشرافت اورحب الوطنی کاپیکر اَن گنت ایسی مثالیں موجود ہیں جو اس کی اہل تھیں کہ انہیں سراہاجاتا،ان کی خدمات کا اعتراف کیا جاتا، مگر ان میں سے کسی کوکبھی کسی اعزاز سے نہ نوازاگیا۔ ابھی کچھ عرصے پہلے ایک خاتون ٹیچرنے اسکول وین کے حادثے کا شکار ہوجانے کے بعد ایک ایک بچی کو جان پر کھیل کر باہر نکالا اوراسی کوشش میں خود جان کی باز ی ہارگئیں۔ ا ن کانام عالمی میڈیا پرآیا نہ مغرب کو یہ تعلیم کی خدمت محسوس ہوئی۔مگر ملالہ کو نوبل انعام دے دیا گیا! کس لیے؟محض اس لیے کہ وہ اور اس کا باپ مغرب کے آلہ کار بننے کی ذلت پر راضی ہیں۔
امریکا اوراسلام دشمن طاقتیں چاہتی ہیں کہ ہم ملالہ کے غم میں رو روکرہلکان رہیں، مگرجس قوم کی مائیں روزانہ کتنے جنازے اٹھتے دیکھتی ہوں، جن پر روزانہ مصائب کے پہاڑ ٹوٹتے ہوں،ان کے سامنے ملالہ کو چھو جانے والی گولی کی کیا حیثیت ہے۔ ملالہ کی سوانح عمری، درحقیقت اس بات کا اعلان ہے کہ مغرب پاکستان میں لبرل ازم اور ماڈرن ازم کو ہر قیمت پر بطور مذہب نافذکرناچاہتاہے اوراس کے لیے زبردست سرمایہ کاری کررہاہے،مگر ان شاء اللہ اسے یہ سرمایہ کاری راس نہیں آئے گی۔ ملالہ کا جادوقوم کے سروں سے اتر چکا ہے۔
ایک ڈالر پسند صحافی نے کرسٹینا لیمب کے حوالے پریہ لکھا کہ اس میں ملالہ کا کیاقصور ! یہ تو کرسٹینا لیمب کی زبان ہے۔ انہیں چاہیے کہ پھر ملالہ کوبھی اسی نگاہ سے دیکھیں کہ اس کے چہرے کے پیچھے بہت سے کرسٹینائیں موجودہیں۔ہمارااختلاف بھی انہی سے ہے ۔ملالہ کا کیاہے ،وہ تو محض ایک نقاب ہے جسے مغربی میڈیا اوڑھ کراس کی آڑمیں اپنے مطلب کی بات کہہ رہاہے۔ بہرحال ہمارا بحیثیت ایک مسلمان اور پاکستانی یہ مطالبہ ہے کہ حکومت اس کتاب کے مندرجات کو بنیاد بناتے ہوئے ملالہ اور اس کے والد کی شہریت کو فوراًمنسوخ کرے اور اس کی کتاب پر پورے پاکستان میں پابندی لگائی جائے۔
Post Reply

Return to “سیاست”