مشہور رصد گاہیں

خلا میں جھانکئے اور دیکھئے انسان علم کی کس معراج تک جاپہنچا
Post Reply
محمد شعیب
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 6565
Joined: Thu Jul 15, 2010 7:11 pm
جنس:: مرد
Location: پاکستان
Contact:

مشہور رصد گاہیں

Post by محمد شعیب »

انجینئر محمد فرقان سنبھلی کی کتاب "آئینۂ فلکیات" سے اقتباس
نوٹ: یہ مضمون اردو محفل فورم پر شئر کیا گیا تھا. بندہ وہاں سے کاپی کر کے پیش کر رہا ہے.
----------------------------------------------------------

علم الافلاک کی بنیاد انسانی زندگی کے آغاز پر منحصر ہے انسانی عقل کے ارتقاء نے اجرام فلکی اور کائنات کے پوشیدہ رازوں کو جاننے کا تجس پیدا کیا۔ کائنات کا مشاہدہ کرنے کے لئے انسان نے رصدگاہوں کی ایجاد کی دور حاضر میں علم الافلاک کو فروغ دینے میں رصدگاہوں کا اہم مقام ہے بلکہ یہ کہا جائے کہ عصر قدیم سے ہی فلکیات کا ارتقاء رصدگاہوں پر مبنی ہے تو غلط نہ ہو گا۔دنیا کے الگ الگ خطوں میں تعمیر کردہ صدر گاہوں میں آج بھی مشاہد ے اور تجرے کئے جا رہے ہیں ۔
ہندوستان میں رصدگاہ بنانے کا کام راجا جے سنگھ نے کیا۔ دہلی کے لوگ جے سنگھ کی تعمیر کردہ رصدگاہ کوجنتر منتر کہتے ہیں جے سنگھ اپنے زمانے کا مشہور ماہر فلکیات تھا۔ اس نے رصد گاہ کی عمارت میں چند الواح تیار کی تھیں ۔ جن کا استعمال اہل ہند آج بھی جنتریاں تیار کرنے میں کرتے ہیں اس رصدگاہ میں ایک بہت بڑی دھوپ گھڑی ہے جس میں پیتل کا پترلگا ہوا ہے ۔ یہ درجہ وارسنگ مرمر کی محرابوں پر مشمتل ہے ۔ اس کے علاوہ ایک اور بھی دھوپ گھڑی ہے جو درجہ دارنصف دائرے کی شکل کی ہے یہ ان اجرام فلکی کی بلندیوں کا مشاہدہ کرنے کے لئے ہے جو سمت الراس کے جنوب یا شمال کی طرف خط نصف النہار میں سے ہو کر گزرتا ہے ۔ دوا ور عمارتیں بھی قریب ہی واقع ہیں اور ایک ہی مقصد کے تحت بنوائی گئی ہیں ۔ تاکہ بیک وقت دو آدمی مشاہدے کر سکیں ۔ علاوہ ازین ایک نصف دائرہ بھی بنا ہوا ہے جس میں نظام شمسی کے بعض معمولی اجرام کی وضاحت کی گئی ہے ۔ اس رصدگاہ کو ۱۷۲۴ء میں مغل بادشاہ محمد شاہ کے کہنے پر تعمیر کروایا گیا تھا۔ راجا جے سنگھ نے ایسی کئی رصدگاہیں اجین (Ujjain)بنارس(Bnaras)متھرا(Mathura)جے پورJai pur)) میں بھی بنوائی تھیں ۔
خلیفہ مامون عباسی وہ پہلا شخص تھا جس نے عرب میں رصدگاہ کی تعمیر کرائی مامون نے بمقام شماسیہ (شام) میں ۲۱۴ھ میں ایک عظیم الشان رصدگاہ قائم کی اس رصدگاہ میں یحیٰ بن ابی المنصور، خالد بن عبد الملک مروزی، سنہ بن علی عباس بن سعید جو ہری وغیرہ ماہرین فلکیات نے سیارات، حالات، آفتاب کے میل مقدار اور دیگر مشاہدات انجام دیئے اسی رصدگاہ میں زیج جدید بھی تیار ہوئی اس کے علاوہ خلیفہ مامون نے ایک رصدگاہ بغداد میں بھی بنوائی۔ رصدگاہ میں ثابت بن قرہ حرانی نے (۸۳۶ تا ۹۰۱ء) حرکت آفتاب کا مطالعہ کیا۔
باب الطاق میں ایک رصدگاہ تعمیر ہوئی جس میں ۸۵۰ء تا ۸۷۰ء تک موسیٰ بن شا کر کے بیٹوں محمد، احمد اور حسین نے فلکیاتی مطالعہ کیا اسی صدی میں شیر ازنیشاپور اور ثمرقند وغیرہ میں بھی رصدگاہوں کا قیام عمل میں آیا۔ واضح رہے کہ باقاعدہ رصدگاہوں کے استعمال کی ابتداء ایران کے جنوب مغرب میں واقع ایک مقام جنید شاہ پور میں ہوئی تھی۔
فاتمی خلیفہ العزیز نے قاہرہ میں ایک رصدگاہ قائم کی اسی رصدگاہ نے مصر میں فلکیاتی مطالعے کی بنیاد ڈالی ماہر فلکیات ابن یونس نے اپنی الزیج الحا کمی اسی رصدگاہ میں تیار کی تھی۔ نیشا پور میں ایک رصدگاہ جلال الدین ملک شاہ سلجونی نے بھی قائم کی تھی اس میں الخزائنی نے اپنی زیج سنجری تیار کی۔
الجیلی (۹۷۱ء تا ۱۰۲۹ء) نے شرف الددولہ کی قائم کردہ رصدگاہ میں ایک ہزار عیسوی میں ایک کتاب اصطرلاب پر تحریر کی اسی رصدگاہ میں الصغانی اور رستم الکوہی آلات فلکیات بنانے میں کافی مشہور ہوئے ۔
الحاکم اور العزیز نے مقتم کی رصدگاہ کو آلات رصد یہ سے آراستہ کیا اس میں ابوالحسن علی نے ۹۷۷ء تا ۱۰۰۷ء تک تجربات کئے ۔ ابو الحسن کو شیار ابن کنان الجیلی نے بھی ایک رصدگاہ قائم کی جس میں اس نے ’’زیج کوشیار‘‘’’زیج الجامع‘‘ والسامع تصنیف کی۔
۹۸۸ء میں شرف الدولہ نے شاہی باغ میں ایک رصد گاہ تعمیر کروائی تھی۔ جس میں ابوسہل ریحان بن رستم الکوہی اور ابوالوفا نے عرصہ دراز تک حرکات کواکب سے متعلق مشاہدات کیے ۔
البرونی نے ایک رصد گاہ غزنی میں تعمیر کروائی تھی اور یہاں وہ مشاہدات اور تجربات میں مصروف رہا کرتا تھا چونکہ وہ ۴۱۰ھ تک ہی غزنی میں رہا اس لئے اس کی تعمیر اس سنہ سے پہلے ہی ہوئی ہو گی۔ حالانکہ رصدگاہ کے مقام کے بارے میں ڈاکٹر عبد الحق اور برنی کے بیچ اختلاف ہے ڈاکٹر عبد الحق نے مقام غزنہ اور برنی نے جرجانیہ بتایا ہے ۔ لیکن البرونی کی کتابوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رصدگاہ غزنی میں واقع تھی۔
۱۲۵۹ء میں یورپ کی پہلی رصدگاہ بمقام مرگنہ متصل ٹارس قائم کی گئی تھی۔ہلا کونے مراغہ میں ۱۲۵۹ء میں بے بہا آلات رصدیہ سے آراستہ ایک رصدگاہ تعمیر کروائی اس کے اندر ایک لائبریری بھی قائم کی گئی تھی جس میں چار لاکھ سے زائد نادر کتابیں بھی موجود تھیں اس رصدگاہ سے فائدہ اٹھا کر ہی خواجہ ناصر الدین طوسی نے ایک ’’زیج ایلخانی‘‘ ترتیب دی۔ طوسی کے شاگردقطب الدین محمد شیرازی نے بھی اس رصدگاہ میں مشاہدات اور تجربات کیئے ۔
۸۲۳ء میں ثمرقند میں تیموری خاندان کے سلطان الغیبگ نے ایک عظیم الشان رصدگاہ تعمیر کرائی تھی۔ وہ خود بھی ماہر فلکیات تھا۔ اس نے کئی سال تک رصدگاہ مذکورہ میں تجربات اور مشاہدات میں حصہ لیا۔
ان کے علاوہ بھی تمام دنیا میں ہزاروں رصدگاہوں کا قیام عمل میں آ چکا ہے جن کے ذریعہ قدرت اور کائنات کے رازوں کو فاش کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں ۔ انسان نے فلکیات میں جو ترقی کی ہے ان میں رصدگاہوں کی اہمیت کسی سے چھپی نہیں ہے آنے والے وقت میں رصدگاہوں کے ذریعہ بہت سے نئے انکشافات ہونگے جس کے باعث فلکیات کو عروج نصیب ہو گا۔ ہندوستان کے سابق وزیر اعظم جواہرلال نہرو نے رصدگاہوں کی ضرورت اور اہمیت کو سمجھا انہوں نے رصدگاہوں سے متعلق ایک تقریر میں کہا تھا ’’ہماری رصدگاہیں ہماری توجہ نئے نئے پہلوں کی طرف کھنچنے کے وصیلہ ہیں میں ان رصدگاہوں کو اس نظر سے پرکھتا ہوں کہ وہ کون کون سے مسائل حل کرنے میں معاون ہو سکتی ہیں بلکہ ان کو میں سائنس کے مندر سمجھتا ہوں جو انسان کی خدمت کے لئے تعمیر کی گئی ہیں ۔‘‘ اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ ان رصدگاہوں نے تمام دنیا میں خود کفالت کو ایک حد تک حل بھی کیا ہے ۔ تمام رصدگاہوں میں تحقیقی کام آج تک ہو رہے ہیں اور مستقبل میں بھی ہوتا رہے گا۔
Post Reply

Return to “سپیس سائنس”