داستان خواجہ بخارا کی

اردو زبان میں لکھے جانے والے شہکار ناول، آن لائن پڑھئے اور ڈاونلوڈ کیجئے
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

(۲۵)

یہ اطمینان کرلینے کے بعد کہ بازار میں جھگڑا ختم ھورھا ھے تقدس مآب امیر نے فیصلہ کیا کہ وہ دربار خاص میں درباریوں کے پاس جائے گا۔ اس نے یہ دکھانے کی کوشش کی کہ وہ پرسکون ھے لیکن اس کو کچھ تکلیف ضرور ھے۔ وہ نہیں چاھتا تھا کہ کوئی درباری یہ سوچنے کی جرأت کرسکے کہ اس کے شاھانہ دل میں خوف نے جگہ پائی ھے۔

امیر جب وھاں پہنچا تو درباری خاموش رھے کیونکہ ان کو یہ ڈر تھا کہ کہیں ان کی آنکھیں اور چہرے اس بات کی غمازی نہ کردیں کہ وہ امیر کے صحیح جذبات سے بخوبی واقف ھیں۔

امیر اور درباری دونوں خاموش تھے۔ آخرکار یہ خوفناک سکوت امیر نے یہ کہہ کر توڑا:

"تم ھم سے کیا کہنا چاھتے ھو؟ تمھارا کیا مشورہ ھے؟ یہ سوال ھم تم سے پہلی بار نہیں پوچھ رھے ھیں!"

سب چپکے سے سرجھکائے سناٹے میں کھڑے رھے۔ اچانک امیر کا چہرہ غصے سے بگڑ گیا۔ نہ معلوم کتنے سر جلاد کے تیغے کے نیچے جھک جاتے۔ نہ جانے کتنی خوشامدی زبانیں ھمیشہ کے لئے بند کردی جاتیں جو موت کی اذیت سے اس طرح خون سے عاری ھونٹوں سے باھر لٹک پڑتیں جیسے وہ زندہ لوگوں کو ان کی دولت ناپائیدار، اپنی پرغرور اور بیکار تمناؤں، کوششوں کی یاد دلا رھی ھوں۔

لیکن سر شانوں پر برقرار رھے، زبانیں فی البدیہہ خوشامد کے لئے تیز رھیں کیونکہ اس وقت داروغہ محل نے آکر اعلان کیا:

"خدا مرکز جہاں کو سلامت رکھے! محل کے پھاٹک پر ایک اجنبی کھڑا ھے اور اپنا نام بغداد کا دانا مولانا حسین بتا رھا ھے۔ وہ کہتا ھے کہ وہ بہت ضروری کام سے آیا ھے اور اسے فوراً جہاں پناہ کے حضور میں حاضر ھونا چاھئے۔

"مولانا حسین!" امیر نے اشتیاق سے کہا۔ "اس کو آنے دو! اس کو یہاں لے آؤ!"

دانا اندر آیا نہیں بلکہ بھاگ کر اندر گھسا حتی کہ جلدی میں اپنے گردآلود سلیپر بھی اتارنا بھول گیا۔ تخت کے سامنے منہ کے بل گرگیا:

"مشہور اور پرعظمت امیر کو، سارے جہاں کے آفتاب و ماھتاب کو، دنیا کے لئے رحیم و قہار کو میرا سلام! میں دن رات منزلیں طے کرتا آیا ھوں تاکہ امیر کو ایک ھولناک خطرے سے آگاہ کرسکوں۔ امیر بتائیں کہ کیا آج وہ کسی عورت کے پاس گئے؟ امیر، میرے آقا، اس خادم کی بات کا جواب دیجئے۔۔۔ میں آپ سے التجا کرتا ھوں!۔۔۔"

"عورت؟" امیر نے متحیر ھو کر دھرایا "آج؟۔۔ نہیں۔ ھمارا ارادہ تھا لیکن ابھی تک ھم نے ایسا نہیں کیا ھے۔"
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

دانا اٹھ کر کھڑا ھوگیا۔ اس کا چہرہ زرد تھا۔ اس نے انتہائی ھیجان کی حالت میں امیر کے جواب کا انتظار کیا تھا۔ اس کے ھونٹوں سے ایک طویل اور گہری آہ نکلی۔ رفتہ رفتہ اس کے گالوں کا رنگ واپس آیا۔

"الحمدللہ" اس نے زور سے کہا "اللہ نے عقل اور رحمت کی روشنی کو گل ھونے سے بچا لیا۔ اے امیر! رات کو ستارے اور سیارے ایسے برجوں میں تھے جو حضور کے بے حد خلاف پڑتے ھیں۔ اور میں نے، اس ناچیز نے جو امیر کے پیروں کی گرد کو بھی بوسہ دینے کے قابل نہیں ھے مشاھدہ کرکے سیاروں کے مقام کا حساب لگایا۔ میں جانتا ھوں کہ جب تک وہ پھر سازگار اور نیک فال کے مقامات تک نہ پہنچ جائیں امیر کو کوئی عورت چھونا نہ چاھئے، نہیں تو ان کی تباھی لازمی ھے۔"

"رکو، مولانا حسین" امیر نے بیچ میں کہا "تم ایسی باتیں کر رھے ھو جو سمجھ میں نہیں آتیں۔۔۔"

"الحمدللہ کہ میں وقت پر پہنچا" دانا کہتا رھا (جو حقیقت میں خواجہ نصرالدین تھے) "میں اپنی آخری سانس تک اس بات پر فخر کروں گا کہ میں نے امیر کو آج عورت چھونے سے روک دیا۔ اس طرح میں نے دنیا کو ایک زبردست غم سے بچا لیا۔"

اس نے یہ بات اس قدر مسرت اور خلوص سے کہی کہ امیر کو اس پر یقین ھی کرنا پڑا۔

"جب مجھ کو جو ایک حقیر چیونٹی کی مانند ھے اعلی حضرت نے سرفراز کیا، مجھ ناچیز کو یاد کیا اور مجھے بخارا آکر امیر کی خدمت میں رھنے کا فرمان ملا تو ایسا معلوم ھوا کہ جیسے میں بے مثال مسرت کے سمندر میں غوطہ زن ھوں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ میں امیر کا فوراً حکم بجا لایا اور سفر کے لئے چل پڑا۔

"لیکن پہلے میں نے چند دن امیر کا زائچہ کھینچنے میں گزارے۔ پھر میں نے فوراً ان کی خدمت اس طرح شروع کی کہ ان کی قسمت کے سیاروں اور ستاروں کا مطالعہ شروع کردیا۔ کل رات آسمان دیکھنے پر معلوم ھوا کہ ستارے اور سیارے دونوں امیر کے لئے بری طرح خطرناک ھو رھے ھیں۔ ستارہ الشعلہ جو ضرب کی علامت ھے ستارہ القلب کی طرف جو دل کی علامت ھے خراب رخ رکھتا ھے۔ اس کے علاوہ میں نے تین اور ستارے الغفر جو عورت کی نقاب کی علامت ھے، دو ستارے الاکلیل جو تاج کی علامت ھیں اور ستارے السرطان دیکھے جو سینگوں کی علامت ھیں۔

"یہ سب منگل کو تھا جو سیارہ مریخ کا دن ھے اور یہ دن جمعرات کے برخلاف ، بڑے آدمیوں کی موت کی طرف اشارہ کرتا ھے اور امیروں کے لئے انتہائی مضرت رساں ھے۔ ان تمام علامتوں کو دیکھ کر اس ناچیز نے جانا کہ موت کی ضرب کسی صاحب تاج کے دل پر پڑنے والی ھے اگر اس نے عورت کی نقاب کو چھوا۔ اسی لئے میں انتہائی تعجیل کے ساتھ صاحب تاج کو آگاہ کرنے کے لئے آیا۔ میں نے دن رات سفر کیا۔ دو اونٹ مر گئے اور میں بخارا میں پیدل داخل ھوا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

"اے خدائے برتر!" امیر نے بے حد متائثر ھو کر کہا۔ "کیا یہ ممکن ھے کہ ھم کو ایسا خطرہ درپیش ھو؟ کیا تم کو قطعی یقین ھے کہ تم غلطی نہیں کر رھے ھو، مولانا حسین؟"

"غلطی؟ میں؟" دانا نے زور سے کہا۔ "اے امیر، بغداد سے بخارا تک دانائی، علم نجوم اور دست شفا میں میرا کوئی جواب نہیں ھے۔ میں غلطی نہیں کر سکتا۔ آقا، آفتاب جہاں، امیر اعظم آپ اپنے حکما سے پوچھئے کہ میں نے ستاروں کے صحیح نام بتائے ھیں یا نہیں۔ اور زائچے میں ان کو ٹھیک مقام دئے ھیں یا نہیں؟"

امیر کا اشارہ پا کر ٹیڑھی گردن والا دانا آگے بڑھا۔

"مولانا حسین، دانائی میں میرے بے نظیر ھم عصر نے ستاروں کے صحیح نام بتائے ھیں جن سے ان کے علم و فضل کا پتہ چلتا ھے جس پر کسی کو شک نہیں ھوسکتا، لیکن" دانا نے اپنی بات ایسے لہجے میں جاری رکھی جو خواجہ نصرالدین کو کینہ آمیز معلوم ھوتا تھا "مولانا حسین نے امیر کو چاند کا سولہواں برج اور وہ جھرمٹ نہیں بتایا جس میں یہ برج پیدا ھوتا ھے کیونکہ اس نشان دھی کے بغیر یہ دعوی بےبنیاد ھوگا کہ منگل جو سیارہ مریخ کا دن ھے قطعی طور پر بڑے آدمیوں کی موت کی نشانی کا دن ھے جن میں تاجدار بھی شامل ھیں کیونکہ مریخ قیام ایک جھرمٹ میں کرتا ھے، اس کا عروج دوسرے میں اور زوال تیسرے میں ھوتا ھے اور چوتھے جھرمٹ میں وہ غروب ھوجاتا ھے۔ ان کے مطابق سیارہ مریخ کی چار مختلف علامتیں ھیں نہ کہ صرف ایک جیسا کہ انتہائی لائق اور دانا مولانا حسین نے کہا ھے۔"

دانا چالاکی سے مسکراتا ھوا خاموش ھو گیا۔ درباری ایک دوسرے سے اس بات پر خوش ھوکر کھسر پھسر کرنے لگے۔ ان کا خیال تھا کہ نووارد گھبرا گیا ھے۔ اپنی آمدنیوں اور اعلی عہدوں کی حفاظت کے لئے وہ باھر کے تمام آدمیوں کو دور ھی رکھنے کی کوشش کرتے تھے اور ھر نووارد کو خطرناک حریف سمجھتے تھے۔

لیکن جب خواجہ نصرالدین کوئی بات اٹھاتے تھے تو پھر ھار نہیں مانتے تھے۔ اس کے علاوہ انھوں نے دانا، درباریوں اور خود امیر کو بھانپ لیا تھا۔ انھوں نے ذرا بھی گھبرائے بغیر بڑے سرپرستانہ انداز میں جواب دیا:

"شاید میرے دانش مند اور لائق ھم عصر مجھ سے علم کی کسی شاخ میں بالاتر ھوں لیکن جہاں ستاروں کا تعلق ھے ان کے الفاظ ابن بجاع کی تعلیم سے قطعی لاعملی کا اظہار کرتے ھیں جو دانائے روزگار تھا اور جس نے اس بات کی تصدیق کی ھے کہ سیارہ مریخ کا قیام جھرمٹ حمل و عقرب میں، اس کا عروج جھرمٹ جدی میں، زوال جھرمٹ سرطان میں اور غروب جھرمٹ میزان میں ھوتا، بہرحال یہ صرف منگل کی خصوصیت ھے جس پر سیارہ مریخ اثرانداز ھوتا ھے جو تاجداروں کے لئے مہلک ھے۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

یہ جواب دیتے ھوئے خواجہ نصرالدین ذرا بھی نہیں ڈرے کہ ان پر جاھل ھونے کا الزام لگایا جائیگا کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ ایسے مباحثوں میں اسی کی جیت ھوتی ھے جو سب سے زیادہ چرب زبان ھوتا ھے اور اس میں ان کا مقابلہ شاید ھی کوئی کرسکتا ھو۔ وہ اب دانا کے اعتراضات کا اعتراض کرنے اور مناسب جواب دینے کے لئے تیار کھڑے تھے لیکن دانا نے معاملے کو نہیں اٹھایا اور خاموش رھا۔ اس کی یہ جرأت نہیں ھوئی تھی کہ وہ بحث کو زیادہ طول دے حالانکہ اس کو کافی شک تھا کہ خواجہ نصرالدین جاھل اور دھوکے باز ھیں لیکن اس کو اپنی جہالت کا خود کافی علم تھا۔ اس لئے اس نے نووارد کو گھبرانے کی جو کوشش کی تھی اس کا اثر الٹا ھوا اور درباریوں نے اسے خاموش کردیا۔ اس نے آنکھوں سے اشارہ کیا کہ حریف سے کھلم کھلا مقابلہ کرنا خطرناک ھے۔

یہ اشارے کنائے خواجہ نصرالدین نے بھی دیکھ لئے اور دل ھی دل میں کہا:

"ذرا ٹھہرو، بتاؤنگا تمھیں!"

امیر گہری سوچ میں پڑ گیا۔ ھر ایک ساکت تھا مبادا امیر کے غور و فکر میں خلل انداز نہ ھو۔

اگر تم نے تمام ستاروں کا نام و قیام صحیح بتایا ھے، مولانا حسین" امیر نے آخرکار کہا "تو واقعی تمھاری پیش گوئی ٹھیک ھے۔ لیکن ھماری سمجھ میں نہیں آتا کہ دو ستارے السرطان جن کی علامت سینگوں کی ھیں ھمارے زائچے میں کیسے آئے؟ واقعی مولانا حسین، تم عین وقت پر پہنچے کیونکہ آج صبح ھی کو ایک دوشیزہ ھمارے حرم میں لائی گئی ھے اور ھم تیاری کر رھے تھے کہ۔۔۔"

خواجہ نصرالدین نے بناوٹی دھشت سے اپنے ھاتھ ھلائے۔

"اس کو اپنے دماغ سے نکال دیجئے، امیر محترم، اس کو نکال دیجئے!" وہ چلائے جیسے یہ بھول گئے ھوں کہ امیر کو براہ راست حاضر کے صیغے میں مخاطب نہیں کرنا چاھئے۔ وہ جانتے تھے کہ اس بےادبی کو امیر سے وفاداری اور ان کی جان کی سلامتی کے لئے خوف کا زبردست جذبہ سمجھا جائے گا اور ان کے خلاف نہیں پڑیگا بلکہ اس کے برعکس امیر کے دل میں ان کے خلوص کے لئے زیادہ وقعت پیدا ھوگی۔

انھوں نے ایسے زوردار لہجے میں امیر سے درخواست اور التجا کی کہ وہ لڑکی سے اپنے کو مس نہ کرے تاکہ اس کو یعنی مولانا حسین کو آنسوؤں کا سیلاب نہ بہانا پڑے اور سیاہ ماتمی لباس نہ پہننا پڑے کہ امیر اس سے بہت متاثر ھوا۔

"مطمئن رھو، مولانا حسین۔ ھم اپنی رعایا کے دشمن تھوڑے ھی ھیں کہ ان کو رنج و غم میں مبتلا ھونے دیں۔ ھم تم سے یہ وعدہ کرتے ھیں کہ ھم اپنی قیمتی جان کی حفاظت کریں گے اور نہ صرف یہ کہ اس لڑکی کےپاس نہیں جائیں گے بلکہ عام طور پر اس وقت تک حرم میں داخل نہ ھوں گے جب تک تم ھیں یہ نہ بتاؤ گے کہ اب ھمارے ستارے سازگار ھیں۔ یہاں آؤ۔"
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

یہ کہہ کر امیر نے اپنے حقہ بردار کو اشارہ کیا اور ایک لمبا کش کھینچ کر خود اپنے ھاتھ سے حقے کی طلائی نال نووارد دانا کی طرف بڑھا دی جو اس کے لئے بڑی عزت و عنایت کا باعث تھا۔ گھنٹوں کے بل جھک کر اور نگاھیں زمین کی طرف کرکے دانا نے امیر کی عزت افزائی کو قبول کیا اور اس کے بدن میں جھرجھری آگئی۔ حاسد درباریوں کے خیال میں یہ جھرجھری خوشی کی تھی۔

"ھم مولانا حسین ایسے دانا کے لئے اپنی عنایتوں اور مہربانیوں کا اعلان کرتے ھیں۔" امیر نے کہا "اور ان کو اپنی سلطنت کا دانائے اعظم مقرر کرتے ھیں۔ ان کا علم و فضل اور عقل و دانش اور ھمارے ساتھ ان کی زبردست وفاداری ھر ایک کے لئے مثال بننی چاھئیں۔"

درباری واقعہ نویس نے، جس کا فرض یہ تھا کہ وہ امیر کے ایک ایک لفظ اور کاروائی کو مدحیہ انداز میں لکھے تاکہ ان کی عظمت آنے والی نسلوں کے لئے قائم رھے (جس کے لئے امیر سب سے زیادہ مشتاق تھا) اپنا قلم چلانا شروع کیا۔

"جہاں تک تمھارا تعلق ھے" امیر نے درباریوں کو مخاطب کرتے ھوئے کہا "اس کے برعکس، ھم تم پر اپنے عتاب کا اعلان کرتے ھیں کیونکہ خواجہ نصرالدین نے جو کچھ بدمزگی پیدا کردی ھے اور اس کے علاوہ تمھارے آقا کی جان تک کا خطرہ تھا پھر تم نے مدد کے لئے ایک انگلی تک بھی نہ اٹھائی! ان کو دیکھو! مولانا حسین، ان حماقت بھرے گاؤدیوں کودیکھو۔ ھیں نہ یہ بالکل گدھوں کی طرح؟ واقعی کسی بادشاہ کے بھی ایسے بیوقوف اور لاپروا وزیر نہ رھے ھوں گے!"

"محترم امیر کا فرمانا بالکل بجا ھے" خواجہ نصرالدین نے ساکت درباریوں کی طرف دیکھ کر اس طرح کہا جیسے وہ پہلی چوٹ کے لئے نشانہ لے رھے ھوں۔ "جہاں تک میں دیکھتا ھوں ان کے چہروں پر دانشمندی کی کوئی نشانی نہیں ھے۔"

"بالکل ٹھیک، بالکل ٹھیک" امیر نے بہت خوش ھو کر تصدیق کی۔ "بالکل ٹھیک، ان کے چہروں پر دانشمندی نہیں ھے، سنتے ھو تم احمقو؟"

"میں یہ اضافہ کرنا چاھتا ھوں" خواجہ نصرالدین نے اپنی بات جاری رکھی "کہ نہ تو ان کے چہروں پر نیک صفات اور ایمانداری ھی کی نشانی ھے۔"

"یہ چور ھیں" امیر نے دلی یقین کے ساتھ کہا "سب کے سب چور ھیں۔ یہ ھم کو دن رات لوٹتے رھتے ھیں۔ ھم کو محل کی میں ایک ایک چیز کی نگرانی کرنی پڑتی ھے۔ ھر بار جب ھم اپنی املاک کا جائزہ لیتے ھیں کوئی نہ کوئی چیز غائب ھوتی ھے۔ ابھی آج صبح ھی ھم اپنا ریشمی پٹکا باغ میں بھول گئے اور آدھہ گھنٹے میں وہ غائب ھوگیا!۔۔ ان میں سے کوئی اس کو۔۔۔ سمجھے نا، مولانا حسین!۔۔"
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

جب امیر یہ کہہ رھا تھا تو ٹیڑھی گردن والے دانا نے اپنی نگاہ بڑی ریاکاری سے نیچے جھکا لی۔ کوئی اور وقت ھوتا تو شاید اس طرف توجہ نہ جاتی لیکن اس وقت تو خواجہ نصرالدین بہت چوکنے ھو رھے تھے۔ انھوں نے فوراً بات تاڑ لی۔

بڑے اعتماد کے ساتھ وہ دانا کے پاس گئے، اپنا ھاتھ اس کی خلعت کے اندر ڈال کر ایک مرصع کار ریشمی پٹکا باھر کھینچ لیا۔

"کیا امیر اعظم اس پٹکے کے ضایع ھونے پر افسوس کر رھے تھے؟"

حیرت و خوف سے تمام درباری پتھر ھوگئے۔ واقعی نیا دانا بہت خطرناک ثابت ھورھا تھا کیونکہ پہلے ھی آدمی کو جس نے اس کی مخالفت کی جرأت کی تھی اس نے بے نقاب کرکے کچل دیا تھا۔ بہت سے داناؤں، شاعروں، عمائدین اور وزرا کے دل خوف سے کانپ گئے۔

"خدا کی قسم" امیر نے زور سے کہا "یہی میرا پٹکا ھے، واقعی مولانا حسین عقل و دانش میں تمھارا کوئی جواب نہیں! آھا!" اور وہ درباریوں کی طرف مڑا۔ اس کے چہرے پر بڑا اطمینان تھا۔ اس نے کہا "آھا، آخرکار رنگے ھاتھوں پکڑے گئے! اب تم ھمارا ایک تاگہ بھی چرانے کی جرأت نہ کروگے! تمھاری لوٹ مار سے ھم کو کافی نقصان پہنچ چکا ھے! جہاں تک اس کمبخت چور کا تعلق ھے اس کے سر، ٹھڈی اور جسم سے تمام بال اکھاڑ لئے جائیں۔ اس کے تلوؤں پر سو ضربیں لگائی جائیں اور منہ کی طرف پیٹھ کرکے گدھے پر ننگا بٹھا کر شہر میں گشت کرایا جائے اور اس کو عام طور پر چور مشتہر کیا جائے!"

ارسلان بیک کا اشارہ پاتے ھی جلادوں کے فوراً دانا کو پکڑ لیا، اس کو گھسیٹتے ھوئے باھر لے گئے اور اس پر ٹوٹ پڑے۔ چند لمحے بعد اس کو پھر کھینچ کر ھال میں بالکل ننگا، بےبال اور انتہائی ناگفتہ بہ حالت میں لایا گیا۔ اب سب پر یہ بات واضح ھوگئی کہ ابھی تک اس کی داڑھی اور زبردست عمامہ اس کی کوتاھی، عقل اور حماقت کو چھپائے تھے جو اس کے چہرے مہرے سے نمایاں تھیں اور ایسا ریاکارانہ چہرے والا آدمی سوائے بدمعاش اور چور کے کچھ نہیں ھوسکتا۔

"لے جاؤ اس کو" امیر نے حقارت سے حکم دیا۔

جلاد اس کو گھسیٹ کر لے گئے۔ ذرا دیر بعد ھی کھڑکی سے ڈنڈوں اور لاتوں کی دھمک کے تال پر چیخوں کی آواز آنے لگی۔ آخر میں اس کو ایک گدھے پر ننگا بٹھا دیا گیا، اس کا منہ گدھے کی دم کی طرف کرکے نفیریوں اور نقاروں کی گونج میں بازار لے جایا گیا۔

امیر بڑی دیر تک نئے دانا سے باتیں کرتا رھا۔ درباری چاروں طرف بے حس و حرکت کھڑے تھے جو ان کے لئے شدید ترین اذیت تھی۔ گرمی بڑھ گئی تھی اور قبا کے اندر ان کی پیٹھوں میں بری طرح کھجلی ھو رھی تھی۔

وزیراعظم بختیار جو سب سے زیادہ نئے دانا سے ڈرا ھوا تھا کوئی منصوبہ سوچنے کی کوشش کر رھا تھا جس سے وہ اپنے حریف کو ختم کرنے کے لئے درباریوں کی مدد حاصل کرسکے۔ دوسری طرف درباری متعدد علامتوں سے یہ اندازہ لگا کر کہ اس مقابلے کا نتیجہ کیا ھوگا، یہ سوچ رھے تھے کہ بختیار کے ساتھ ایسے وقت غداری کس طرح کی جائے جو ان کے لئے بہت ھی اچھا ھو اور اس طرح نئے دانا کا اعتماد اور خوشنودی حاصل کی جائے۔

امیر نے خواجہ نصرالدین سے خلیفہ کی خیریت دریافت کی، بغداد کی خبروں اور ان کے سفر کے واقعات کے بارے میں پوچھا جن کا جواب انھوں نے بڑی ھوشیاری سے دیا۔ سب کچھ ٹھیک رھا اور امیر نے باتوں کے تکان سے تھک کر آرام گاہ ٹھیک ٹھاک کرنے کا حکم دیا ھی تھا کہ اچانک ھنگامہ اور ایک چیخ سنائی دی۔ داروغہ محل تیزی سے دیوان کے اندر داخل ھوا اور اعلان کیا:

"آقائے نامدار کی خدمت میں عرض ھے کہ کافر اور امن شکن خواجہ نصرالدین گرفتار کر لیا گیا ھے اور محل لایا گیا ھے!"

ابھی اس نے یہ اعلان کیا ھی تھا کہ اخروٹ کی لکڑی کے نقشیں پھاٹک پٹو پٹ کھل گئے۔ اسلحہ کی فاتحانہ جھنکار ھوئی اور پہرے دار ایک عقابی ناک، سفید داڑھی والے آدمی کوسامنے لائے جو زنانے لباس میں تھا۔ انھوں نے تخت کے نیچے قالین پر اس کو ڈھکیل کر گرادیا۔

خواجہ نصرالدین کے بدن میں کاٹو تو لہو نہیں تھا۔ ھال کی دیواریں ان کی نگاہ کے سامنے ناچ رھی تھیں اور درباریوں کے چہرے سبزی مائل دھند میں چھپے معلوم ھونے لگے۔۔۔

اختتام باب 25
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

(۲۶)

بغداد کا دانا، اصلی مولانا حسین، اسی پھاٹک پر دھر لیا گیا جس کے پار وہ نقاب کے اندر سے ھر سمت جانے والی سڑکیں دیکھ سکتا تھا۔ ھر سڑک اس کو بدبختی سے نجات پانے کی راہ معلوم پڑتی تھی۔

لیکن پھاٹک کے پہرے داروں نے اس کو ٹوکا "اے عورت، کہاں جا رھی ھے تو؟"

دانا نے آواز بنا کر اس طرح جواب دیا کہ معلوم ھوا کوا بول رھا ھے:

"میں عجلت میں ھوں، اپنے خاوند کے پاس جا رھی ھوں۔ بہادر سپاھیو، مجھے جانے دو۔"

آواز پر شبہ کرتے ھوئے پہرے داروں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ ایک نے اونٹ کی مہار تھام لی۔

"تم کہاں رھتی ھو؟"

"یہیں، بالکل قریب" دانا نے اور بھی باریک آواز میں جواب دیا۔ اس کوشش میں اس کو کھانسی آگئی اور دم پھول گیا۔ پہرےداروں نے اس کا نقاب پھاڑ دیا۔ ان کو بے حد خوشی ھوئی۔

"وھی ھے، وھی!" وہ چلائے "پکڑ لو! باندھ لو! پکڑلو!"

اس کے بعد وہ بڈھے کو محل لائے اور راستے میں اس پر بات چیت کرتے رھے کہ کس طرح اس کو موت کی سزا ملے گی اور تین ھزار تانگے کا انعام جو ان کو ملنے کی امید تھی۔ ان کا ایک ایک لفظ بڈھے کے لئے جلتے ھوئے انگارے کی طرح تھا۔

وہ تخت کے نیچے پڑا کانپ رھا تھا اور رو رو کر رحم کی بھیک مانگ رھا تھا۔

” اس کو ھٹاؤ“ امیر نے حکم دیا۔

پہرے داروں نے اس کو پیروں پر کھڑا کیا۔ ارسلان بیک درباریوں کے مجمع سے آگے آیا اور بولا:

”حضور، غلام کی بھی ایک بات سنیں۔ یہ آدمی خواجہ نصرالدین نہیں ھے۔ خواجہ نصرالدین نوجوان ھے، تیس سال سے کچھ اوپر اور یہ آدمی کافی معمر ھے۔“

پہرے دار ھراساں ھوگئے۔ انعام ان کے ھاتھ سے نکلا جا رھا تھا۔ ھر آدمی خاموش اور چکرایا ھوا تھا۔

تو نے عورت کا بھیس کیوں بدلا؟ امیر نے دھمکی آمیز لہجے میں سوال کیا۔

”میں امیر معظم و محترم کے محل کی طرف آرھا تھا“ بڈھے نے کانپتے ھوئے جواب دیا۔ ” لیکن میری ملاقات ایک آدمی سے ھوئی جو بالکل اجنبی تھا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ میرے بخارا آنے سے پہلے ھی امیر نے میرا سر قلم کرنے کا حکم دے دیا ھے۔ میں نے خوف سے بھیس بدل کر بھاگ نکلنے کا فیصلہ کیا۔“
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

امیر نے یہ ظاھر کرتے ھوئے کہ وہ سب سمجھتا ھے قہقہہ لگایا:

” تم ایک آدمی سے ملے۔۔۔ ایک اجنبی سے اور فوراً اس کی بات کا یقین کر لیا؟۔۔۔ کیا لاجواب قصہ ھے! ھم تمھارا سر کیوں قلم کرنے والے تھے؟“

” کیونکہ کہا جاتا ھے کہ میں نے بالاعلان اس بات کی قسم کھائی تھی کہ امیر معظم کے حرم میں گھسونگا۔۔۔ لیکن خدا گواہ ھے کہ میں نے اس بات کا کبھی خیال بھی نہیں کیا ! میں بڈھا اور ضعیف ھوں اور مدتوں ھوئے خود اپنے حرم تک کو ترک کر چکا ھوں۔“

”ھمارے حرم میں گھس جاؤ گے؟“ امیر نے اپنے ھونٹ بھینچتے ھوئے دھرایا۔ اس کا چہرہ صاف بتا رھا تھا کہ بڈھے کے خلاف اس کے شکوک میں اضافہ ھو رھا ھے۔ ”تم ھو کون اور کہاں سے آئے ھو؟“

”میں ھوں بغداد کا دانا حکیم مولانا حسین۔ میں امیر معظم کے حکم کے مطابق بخارا آیا ھوں۔“

”مولانا حسین؟“ امیر نے دھرایا۔ ” تم مولانا حسین ھو! تمھارا نام مولانا حسین ھے! ارے کمبخت بڈھے، یہ تو سفید جھوٹ ھے!“ وہ اتنی زور سے گرجا کہ ملک الشعراء اچانک گھٹنوں کے بل گر پڑا۔ ” جھوٹ بولتا ھے ! یہ رھے مولانا حسین!“

امیر کا اشارہ پا کر خواجہ نصرالدین بڑی فرمانبرداری کے ساتھ آگے بڑھے اور بڈھے کے سامنے تن کر کھڑے ھوگئے اور نڈر ھو کر اس کی طرف دیکھنے لگے۔

بڈھا حیرت سے پیچھے ھٹ گیا لیکن دوسرے ھی لمحے اپنے کو سنبھال کر چلایا:

”آقا ، ارے یہ تو وھی آدمی ھے جو مجھے بازار میں ملا تھا اور اسی نے مجھ سے کہا تھا کہ امیر میرا سر قلم کر دینا چاھتے ھیں!“

”یہ کیا کہہ رھا ھے، مولانا حسین!“ امیر نے انتہائی پریشان ھو کر کہا۔

” یہ مولانا حسین نہیں ھے!“ بڈھا چیخا۔ ”میں مولانا حسین ھوں۔ یہ دھوکےباز ھے! اس نے میرا نام چرا لیاھے!“

خواجہ نصرالدین نے امیر کے سامنے بہت جھک کر کہا:

” معظم بادشاہ میری گستاخی معاف ھو لیکن یہ بڈھا واقعی بے حد بے حیا ھے! کہتا ھے کہ میں نے اس کا نام چرا لیا اور شاید یہ بھی کہے گا کہ میں نے اس کی عبا پر قبضہ جما لیا ھے؟“

”ھاں ھاں !“ بڈھا چلایا۔ ”یہ عبا میری ھی ھے!“

” ممکن ھے کہ یہ عمامہ بھی تمھارا ھی ھو؟“ خواجہ نصرالدین نے مذاق اڑاتے ھوئے پوچھا۔

“ ھاں ، ضرور ! یہ میرا ھی عمامہ ھے! تم نے میری عبا اور عمامے کو زنانے لباس سے بدل لیا تھا۔“

” اچھا“ خواجہ نصرالدین نے اور طنز سے کہا۔ ”اور یہ پٹکا بھی غالباً تمھارا ھی ھے؟“

” میرا ھی ھے!“ بڈھے نے غصے کے ساتھ زور دیکر کہا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

خواجہ نصرالدین تخت کی طرف مڑے اور بولے” حضورِ والا، امیر معظم نے خود دیکھ لیا کہ یہ کس قسم کا آدمی ھے۔ آج یہ جھوٹا اور بیہودہ بڈھا یہ کہتا ھے کہ میں نے اس کا نام چرا لیا، یہ عبا اس کی ھے، یہ عمامہ اس کا ھے اور یہ پٹکا اس کا ھے اور کل یہ کہے گا کہ یہ محل اس کا ھے اور ساری سلطنت اس کی ھے اور بخارا کا اصلی امیر وہ عظیم اور آفتاب جیسا بادشاہ نہیں ھے جو اس وقت ھمارے سامنے تخت پر جلوہ فرما ھے بلکہ یہ بے ھودہ جھوٹا ھے! اس سے ھر بات کی توقع کی جاسکتی ھے۔ وہ بخارا کیوں آیا؟ کیا وہ امیر کے حرم میں اس طرح گھسنے نہیں آیا جیسے کہ اس کا خود کا حرم ھو؟“

”تم ٹھیک کہتے ھو، مولانا حسین“ امیر نے کہا ۔ ” ھاں ، ھم کو یقین ھو گیا ۔ بڈھا مشکوک اور خطرناک آدمی ھے اور اس کے ارادے بد ھیں۔ ھماری رائے میں اس کا سر فوراً جسم سے جدا کر دیا جائے۔“

بڈھا آہ بھر کر گھٹنوں کے بل گر پڑا۔ اس نے اپنا چہرہ ھاتھوں سے ڈھک لیا۔

بہر حال خواجہ نصرالدین یہ نہیں گوارا کر سکتے تھے کہ ان کے اُوپر جو الزامات تھے ان کی بنا پر کسی بے گناہ کو موت کے گھاٹ اُتارا جائے چاھے وہ آدمی درباری دانا ھی کیوں نہ ھو جو اپنے جعل سے بہتوں کی تباھی کا باعث بن چکا تھا۔ اس لئے انھوں نے امیر کے سامنے بہت جھک کر عرض کیا:

”امیر معظم میری بات سننے کی زحمت گوارا فرمائیں۔ اس کا سر جب چاھے قلم کیا جاسکتا ھے۔ لیکن پہلے کیا یہ اچھا نہ ھوگا کہ اس کا اصلی نام اور بخارا آنے کا سبب معلوم کیا جائے؟ ممکن ھے کہ سازش میں اس کے ساتھی ھوں۔ ممکن ھے کہ وہ کوئی بد طینت جادوگر ھو جو ستاروں کی خرابی سے فائدہ اٹھانا چاھتا ھو۔ اگر ایسا ھے تو امیر معظم کے قدموں کے نیچے کی مٹی لیگا اور اس کو چمگادڑ کے بھیجے میں ملا دیگا اور پھر اس کو امیر حقے میں رکھ دیگا اور اس طرح ان کی صحت کو نقصان پہنچائے گا۔ امیر معظم اس کی جان بخشی کریں اور اس کو مجھے حوالے کریں۔ وہ معمولی پہرے داروں پر اپنے جادو سے قابو پا لےگا لیکن میرے خلاف اس کا زور نہیں چل سکتا کیونکہ اپنے علم سے میں جادوگروں کی ساری چالیں جانتا ھوں اور ان کے جادو کے توڑ کے سب طریقے معلوم ھیں۔ میں اس کو بند کر کے قفل پر ایسی دعا پڑھ دونگا جو صرف مجھ کو معلوم ھے۔ اس طرح صرف اپنے جادو کی طاقت سے وہ قفل نہیں کھول سکے گا۔ پھر رفتہ رفتہ اس کو اذیت پہنچا کر میں اس کو سب کچھ قبولنے پر مجبور کرونگا۔“

” اچھا“ امیر نے کہا ” مولانا حسین، تم معقول بات کہہ رھے ھو۔ اس کو لے جاؤ اور جو جی چاھے کرو لیکن ھوشیار رھنا کہیں یہ بھاگ نہ جائے۔“

” میرا سر قلم کر دیجئے گا۔“

آدھہ گھنٹہ بعد خواجہ نصرالدین جو اب امیر کے مشیر خاص اور نجومی بن چکے تھے اپنی نئی جائے رھائش پر آگئے جو ان کے لئے محل کی فصیل کے ایک برج میں خاص طور سے سجی گئی تھی۔ ان کے پیچھے سخت پہرے میں سر جھکائے ملزم تھا ، اصلی مولانا حسین۔

خواجہ نصرالدین کی قیام گاہ سے اوپر برج میں ایک چھوٹا سا گول کمرہ تھا جس میں سلاخ دار کھڑکی تھی۔ خواجہ نصرالدین نے ایک بہت بڑی کنجی سے زنگ لگا ھوا پیتل کا قفل اور بکتر بند دروازہ کھولا۔ پہرے داروں نے بڈھے کو اندر ڈھکیل دیا۔ اسے کولی بھر پیال لیٹنے کے لئے دی۔ خواجہ نصرالدین نے دروازے میں قفل لگا دیا اور اس پیتل کے قفل پر بڑی تیزی سے کچھ اس طرح پڑھتے رھے کہ پہرے داروں کی سمجھ میں صرف جابجا اللہ کا نام آتا تھا۔

خواجہ نصرالدین اپنی قیام گاہ دیکھ کر بہت خوش ھوئے۔ امیر نے ان کو بارہ گدے، آٹھ تکئے اور سامانِ خانہ داری دیا تھا اور ایک ٹوکری نانیں، شہد اور بہت سی دوسری لطیف اور مزیدار چیزیں کھانے کے لئے اپنے دستر خوان سے بھیجی تھیں۔ خواجہ نصرالدین بہت تھکے اور بھوکے تھے لیکن کھانا کھانے سے پہلے انھوں نے چھ گدے اور چار تکئے قیدی کو پہنچا دئے۔

بڈھا ایک کونے میں سمٹا سمٹایا پڑا تھا ، اس کی آنکھیں اندھیرے میں غضبناک بلی کی طرح چمک رھی تھیں۔

” اچھا“ خواجہ نصرالدین نے سہج سے کہا ”ھم اس برج میں تم تکلیف نہ ھونے دیں گے۔ میں نیچے ھوں اور تم اوپر جیسا کہ تمھاری عمر اور دانائی کے لئے زیبا ھے۔ ارے یہاں کتنی گرد ھے! میں ذرا اس کو صاف کردوں۔“

وہ نیچے سے پانی کا ایک گھڑا اور جھاڑو لائے ۔ انھوں نے اچھی طرح پتھر کا فرش دھویا ، گدے بچھائے اور تکئے لگائے۔ پھر انھوں نے نیچے کا ایک اور چکر لگایا اور نان ، شہد ، حلوہ اور پستے لائے جن کو انھوں نے ایمانداری کے ساتھ قیدی کے سامنے دو حصوں میں تقسیم کیا اور کہا:

” تم بھوکے نہیں رھو گے ، مولانا حسین، ھم کھانے کا کافی انتظام کر لیں گے۔ یہ رھا حقہ اور تمباکو۔“

ھر چیز انھوں نے اس طرح سجا دی کہ یہ چھوٹا سا کمرہ خود ان کے اپنے کمرے سے بہتر معلوم ھونے لگا۔ اب خواجہ نصرالدین رخصت ھوئے اور دروازے میں قفل لگا دیا۔

بڈھا اکیلا پڑا رھا۔ وہ بہت بد حواس تھا۔ بڑی دیر تک وہ سوچتا اور گتھیاں سلجھاتا رھا لیکن اس کی سمجھ میں کچھ بھی نہ آیا کہ اس کا کیا حشر ھو رھا ھے۔ گدے بہت نرم تھے اور تکئے بھی آرامدہ تھے۔ نہ تو نان میں اور نہ شہد یا تمباکو میں کوئی زھر تھا۔۔۔ سارے دن کے ھنگامے سے تھکے چور بڈھے نے اپنی قسمت کا فیصلہ اللہ پر چھوڑ کر سونے کا ارادہ کیا۔اس دوران میں وہ آدمی جو اس کی تمام مصیبتوں کا باعث تھا نیچے کے کمرے میں کھڑکی پر بیٹھا شفق کو رات میں ڈھلتے دیکھ رھا تھا اور اپنی غیر معمولی طوفانی زندگی اور محبوبہ کے بارے میں سوچ رھا تھا جو یہاں اس سے بہت ھی قریب تھی لیکن اس کے متعلق کچھ نہیں جانتی تھی۔ کھڑکی سے ٹھنڈی ھوا آنے لگی۔ مؤذنوں کی گونجتی ھوئی پُر سوز آواز شہر کے اوپر کسی نقرئی فیتے کی طرح پھیل گئی۔ سیاہ آسمان میں تارے جھلملانے لگے۔ ان کی چمک اور جھلملاھٹ ایک خالص ، سرد اور دور دراز کی آگ سے ملتی تھی۔ وھاں ستارہ القلب چمک رھا تھا جو دل سے تعلق رکھتا ھے اور تین ستارے الغفر تھے جو کسی دوشیزہ کے نقاب کی نشانی ھیں اور دو ستارے السرطان تھے جو دو سینگیں پیش کرتے ھیں اور صرف ستارہ الشعلہ جو نحس اور موت کی نشانی ھے آسمان کی تاریک بلندیوں پر نہیں دکھائی دے

اختتام باب 26
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

باب 27

Post by سیدتفسیراحمد »

از: سیدتفسیراحمد بتاریخ: جمعہ اگست 29, 2008 4:35 pm

(۲۷)

خواجہ نصرالدین نے امیر کا اعتماد اور عنایات حاصل کر لیں اور تمام معاملات میں اس کے خاص مشیر بن گئے۔ خواجہ نصرالدین فیصلے کرتے تھے۔ امیر کا کام صرف ان پر دستخط کرنا اور وزیر اعظم بختیار کا فرضِ منصبی صرف ان پر مہر لگانا تھا۔

" اللہ اکبر ! ھماری ریاست میں اب یہ نوبت پہنچ گئی ہے !"

بختیار نے ٹیکس کے خاتمے ، سڑکوں اور پلوں کے مفت استعمال اور بازار کے نرخ کم کرنے کے بارے میں امیر کا فرمان پڑھ کر کہا "جلد ھی خزانہ خالی ھو جائے گا! یہ نیا مشیر، خدا اس کو غارت کرے، اس نے تو ایک ھفتے میں وہ سب ڈھا دیا جو میں نے دس سال میں بنایا تھا !"

ایک دن اس نے اپنے شبہات امیر کے گوش گذار کرنے کی جرأت کی لیکن امیر نے جواب دیا :

"مجہول انسان تو کیا جانتا ھے اور کیا سمجھتا ھے؟ ھم کو بھی یہ فرمان جاری کر کے رنج ھوتا ھے جو ھمارے خزانے کو خالی کرتے ھیں لیکن ھم کیا کر سکتے ھیں اگر ستاروں کا یہی حکم ھے؟ بختیار گھبراؤ نہیں! یہ صرف تھوڑے دن کے لئے ھے جب تک ستارے سازگار نہیں ھوتے۔ مولانا حسین ، اس کو یہ سمجھاؤ !"

خواجہ نصرالدین وزیر اعظم کو علحدہ لے گئے اور اس کو گدوں پر بٹھا بڑی تفصیل کے ساتھ بتایا کہ لوھاروں ، ٹھٹھیروں اور اسلحھ سازوں کے مزید ٹیکس فوراً ختم کرنے کی ضرورت کیوں ھے۔

"جھرمٹ قوس میں البلدہ ستارے جھرمٹ عقرب میں صد بلا ستاروں کے خلاف ھیں" خواجہ نصرالدین نے کہا "دانائے روزگار وزیر آپ سمجھتے جیں ناں کہ وہ خلاف ھیں اور دونوں کے قران کا امکان نہیں ھے۔ "

"اچھا ، تو اس سے کیا ھوتا ھے؟" بختیار نے جواب دیا۔ "وہ پہلے بھی قران میں نہیں تھے پھر انھوں نے ھم کو ٹیکس وصول کرنے سے نہیں روکا۔ "

"لیکن آپ جھرمٹ ثور میں ستارہ الدبران کو بھول گئے!" خواجہ نصرالدین نے زور سے کہا "وزیر محترم ، آپ آسمان کو دیکھئے خود پتہ چل جائے گا۔ "

"میں آسمان کیوں دیکھوں" ضدی وزیر نے کہا "میرا کام ھے خزانے کی حفاظت کرنا اور اس کو دولت سے بھرنا اور میں دیکھتا ھوں کہ جب سے آپ محل میں آئے ھیں خزانے کی آمدنی گھٹ گئی ھے اور ٹیکسوں کا آنا کم ھو گیا ھے۔ یہی وقت شہر کے کاریگروں سے ٹیکس وصول کرنے کا ھے، بتائیے ، ھم انھیں کیوں نہ وصول کریں؟"
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

" کیوں؟" خواجہ نصرالدین چیخے "میں ایک گھنٹے سے آپ کو یہی سمجھا رھا ھوں ۔ کیا اب بھی آپ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ ھر منطقہ البروج پر چاند کے دو محل ھوتے ھیں ایک تہائی کے ساتھ۔۔۔"

"لیکن مجھے ٹیکس تو وصول کرنا ھی ھیں!" وزیر نے پھر بات کاٹ کر کہا "ٹیکس، سمجھتے ھیں نا آپ ۔ "

"صبر کیجئے" خواجہ نصرالدین نے بختیار کو روک دیا "ابھی میں نے آپ سے الثریا کے مجموعہ نجوم اور النعیم کے آٹھ ستاروں کے بارے میں تو بتایا ھی نہیں۔۔۔"

اب خواجہ نصرالدین نے ایسا پیچیدہ اور طویل بیان شروع کر دیا کہ وزیر اعظم کے کان سنسنانے لگے اور آنکھیں دھندلی پڑ گئیں۔ وہ اٹھ کھڑا ھوا چلا گیا اور خواجہ نصرالدین نے امیر کی طرف مخاطب ھو کر کہا:

"آقائے نامدار، چاھے عمر نے ان کے سر کو چاندی سے ڈھک دیا ھو اور اس سے ان کا سر بیش قیمت ھو گیا ھو لیکن جو کچھ اندر ھے وہ سونا نہیں بنا ھے۔ وہ میرے علم و فضل کو سمجھنے سے قاصر رھے۔ وہ کچھ بھی نہیں سمجھے آقا ! کاشکہ ان کو امیر کی ذھانت کا جو خود لقمان کی فراست کو مات کرتی ھے ھزارواں حصہ ھی ملا ھوتا !"

امیر بڑی مہربانی اور خود پسندی سے مسکرایا۔ ان دنوں خواجہ نصرالدین بڑی محنت سے اس کو یقین دلا رھے تھے کہ اس کی فراست کا کوئی جواب نہیں ھے اور اس کوشش میں خواجہ پوری طرح کامیاب ھوئے تھے چناچہ جب وہ کوئی بات امیر کے سامنے ثابت کرنے لگتے تو امیر اس کو بڑے غور سے سنتا اور اس پر بحث نہ کرتا کیونکہ اس کو یہ ڈر تھا کہ کہیں اس کی ذکاوت کا پول نہ کھل جائے۔

۔۔۔دوسرے دن بختیار نے اپنے دل کی بات درباریوں کے ایک گروہ سے کہی :

"یہ نیا دانا، مولانا حسین ھم سب کو تباہ کر دیگا! جس دن ٹیکس جمع کئے جاتے ھیں اسی دن ھم بھی اس ابلتے ھوئے چشمے سے سیراب ھوتے ھیں جو امیر کے خزانے کی طرف بہتا ھے۔ لیکن جب سیراب ھونے کا وقت آتا ھے تو یہ مولانا حسین ھماری ساری امیدوں پر پانی پھیر دیتا ھے! وہ ستاروں کا محل بتانے لگتا ھے۔ بھلا کبھی کسی نے یہ سنا ھے کہ یہ ستارے جو اللہ کے احکام کے تابع ھیں امرا و شرفا کے بھی خلاف پڑے ھوں اور حقیر کاریگروں کے لئے سازگار رھے ھوں جو، میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ھوں ، اپنی کمائی ھمیں دینے کی بجائے خود بڑی بے شرمی سے چٹ کر رھے ھیں! بھلا کسی نے ستاروں کی ایسی گردش کے بارے میں سنا ھے؟ اس طرح کی کوئی کتاب نہیں لکھی جاسکتی تھی کیونکہ وہ کتاب فوراً جلا دی جاتی اور اس کے مصنف کو بہت بڑا کافر ، منکر اور مجرم ٹھہرا کر سولی پر چڑھا دیا جاتا !"

درباریوں نے کچھ نہیں کہا کیونکہ انھیں قطعی یقین نہیں تھا کہ کس کی طرفداری کرنا مفید ھوگا بختیار کی یا نئے دانا کی؟

"ٹیکس کی وصولیابی روزبروز کم ھوتی جاتی ھے" بختیار نے اپنی بات جاری رکھی " اور کیا ھوگا؟ اس مولانا حسین نے امیر کو یہ کہہ کر دھوکا دیا ھے کہ ٹیکس چند دن کے لئے ختم کئے گئے ھیں اور بعد میں پھر ان کو لگا کر اضافہ بھی کیا جا سکتا ھے۔ امیر کو اس بات کا یقین ھے لیکن ھم جانتے ھیں کہ کسی ٹیکس کو ختم کرنا آسان ھے لیکن کوئی نیا لگانا بہت ھی مشکل ھے۔ آدمی اپنا پیسہ اس وقت جلدی دے دیتا ھے جب وہ اس بات کا عادی ھو جاتا ھے کہ وہ پیسے کو کسی دوسرے کا سمجھے لیکن ایک بار وہ اپنے اوپر یہ رقم خرچ کر لے تو پھر دوسری بار اس کو اسی طرح خرچ کرنا چاھے گا۔ "

" خزانہ خالی ھو جائے گا اور ھم یعنی امیر کے درباری تباہ ھو جائیں گے۔ زربفت کے لباس کی بجائے ھمیں موٹے کپڑے پہننا پڑیں گے۔ بیس بیویوں کی بجائے ھمیں دو ھی پر قناعت کرنی پڑیگی۔ چاندی کی پلیٹوں میں کھانے کی بجائے مٹی کے برتن ھوں گے اور نرم میمنے کے نرم گوشت کے بجائے ھمیں گائے کے سخت گوشت کا پلاؤ کھانا پڑیگا جو صرف کتوں اور دستکاروں کے لئے ھی موزوں ھے۔ یہی مولانا حسین ھمارے لئے کرنے والا ھے۔ جو اس کو نہیں سمجھتا وہ اندھا ھے اور لعنت ھو اس پر!"
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

اس طرح کہہ کر بختیار نے نئے دانا کے خلاف درباریوں کو بہکانے کی کوشش کی ۔ لیکن اس کی کوششیں بے سود رھیں۔ مولانا حسین کو اپنے منصب میں برابر کامیابیاں ھوتی گئیں۔ وہ خاص طور سے "یومِ مدح سرائی" کے موقع پر ممتاز رھا۔ ایک پرانے رواج کے مطابق ھر مہینے تمام وزراء و امراء ، حکما و شعراء کا امیر کے سامنے مقابلہ ھوتا تھا جس میں امیر کی مدح و ثنا کی جاتی تھی ۔ مقابلے میں جیتنے والے کو انعام ملتا تھا۔

ھر شخص نے اپنا قصیدہ پیش کیا لیکن امیر خوش نہیں ھوا۔ اس نے کہا :

"یہی باتیں تم نے پچھلی بار بھی کہی تھیں۔ ھم دیکھتے ھیں تم اپنی تعریفوں میں زیادہ گہرے نہیں ھو۔ تم اپنے دماغوں پر زور دینا نہیں چاھتے ھو۔ ھم تم سے سوالات کرینگے اور تم ان کا جواب اس طرح دو کہ تعریف و تشبیہ دونوں کا امتزاج ھو جائے۔ غور سے سنو، ھمارا پہلا سوال ھے ۔ اگر ھم ، امیر اعظم بخارا تمھارے دعوے کے مطابق طاقتور اور ناقابلِ تسخیر ھیں تو پڑوسی اسلامی ممالک کے حکمرانوں نے ابھی تک ھمارے یہاں اپنے ایلچی اور قیمتی تحائف ھماری مکمل اطاعت کے پیغام کے ساتھ کیوں نہیں بھیجے ھیں؟ ھم تمھارے جواب کے منتظر ھیں۔ "

درباری گھبرا گئے ۔ وہ براہ راست جواب دینے کی بجائے منہ ھی منہ میں بدبدانے لگے۔ صرف خواجہ نصرالدین پرسکون تھے۔ جب ان کی باری آئی تو وہ بولے:

"میں اپنے حقیر الفاظ امیر کے گوش گذار کرنے کی التجا کرتا ھوں ۔ ھمارے شاہ کے سوال کا جواب آسان ھے۔ پڑوسی ملکوں کے تمام حکمراں ھمارے آقا کی قدرت کامل سے برابر لرزاں و ترساں رہتے ھیں ۔ وہ یہ سوچتے ھیں: "اگر ھم بخارا کے عظیم، صاحب شان و شوکت امیر کو بیش قیمت تحفے بھیجیں تو وہ یہ سوچ سکتے ھیں کہ ھمارا ملک زرخیز ھے جو ان کے لئے اس بات کی ترغیب ھوگی کہ وہ فوجیں لے کر ھم پر چڑھ آئیں اور ھمارے ملک پر قبضہ کرلیں۔ اگر اس کے بر عکس ھم ان کو حقیر تحفے بھیجیں تو وہ ناراض ھو جائیں گے اور اپنی فوج ھمارے خلاف بھیج دیں گے۔ بخارا کے امیر عظیم، صاحب شان و شوکت اور طاقتور ھیں اس لئے یہی بہتر ھے کہ ھم ان کو اپنے وجود کی یاد ھی نہ دلائیں۔۔۔ "

" یہ ھیں خیالات جو بادشاھوں کے دماغوں میں ھیں اور اس کا سبب کہ وہ بیش بہا تحفوں کے ساتھ اپنے سفیر بخارا کیوں نہیں بھیجتے ھمارے بادشاہ کی قدرتِ کامل کے مستقل خوف میں تلاش کیا جا سکتا ھے۔ "

"اھا" خواجہ نصرالدین کے جواب سے مسرور ھو کر امیر نے کہا "امیر کے سوال کا جواب اسی طرح دینا چاھئے ! سنی تم لوگوں نے مولانا حسین کی بات، ارے بیوقوفو، گاؤدیو ! ان سے سیکھو ! واقعی مولانا حسین کی عقل و دانش تم سے دسیوں گنی زیادہ ھے۔ ھم ان کا شکریہ ادا کرتے ھیں۔"

درباری باورچی نے فوراً لپک کر خواجہ نصرالدین کا منہ حلوے اور شیرینی سے بھر دیا۔ خواجہ نصرالدین کے گال پھول گئے اور گلا گھٹنے لگا۔ میٹھی رال ان کی ٹھڈی تک بہہ نکلی۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

امیر نے اور کئی ٹیڑھے سوال کئے لیکن ھر بار خواجہ نصرالدین ھی کا جواب بیترین رھا۔

"درباری کا اولین فرض کیا ھے؟" ایک ایسا ھی سوال تھا جس کا جواب خواجہ نصرالدین نے یوں دیا :

"اے صاحب شان و شوکت اور با عظمت بادشاہ ! درباری کا اولین فرض ھے کہ وہ روزانہ ریڑھ کی کسرت کرتا رھے تا کہ اس میں ضروری لچک پیدا ھو جائے کیونکہ اس کے بغیر وہ بجا طور پر اپنی وفاداری اور احترام کا اظہار نہیں کر سکتا۔ درباری کی ریڑھ کی ھڈی میں جھکنے کے ساتھ ساتھ چاروں طرف گھومنے مڑنے کی خوبی بھی ھونی چاھئے ۔ اس میں عام آدمی کی پتھرائی ھوئی ریڑھ کی ھڈی سے امتیاز ھونا چاھئے جس کو ٹھیک سے جھک کر سلام کرنا بھی معلوم نہیں ھے۔ "

"بالکل ٹھیک! "امیر نے خوش ھو کر زور سے کہا۔ " بالکل ٹھیک! اپنی ریڑھ کی ھڈی کی روزانہ کسرت! ھم دوسری بار مولانا حسین کا شکریہ ادا کرتے ھیں۔ "

ایک بار پھر خواجہ نصرالدین کا منہ حلوے اور شیرینی سے بھر دیا گیا۔

اس دن بہت سے درابری بختیار کے گٹ کو چھوڑ کر خواجہ نصرالدین سے آن ملے۔

اس دن شام کو بختیار نے ارسلان بیک کو اپنے گھر مدعو کیا۔ نیا دانا دونوں کے لئے مساوی طور پر خطرناک تھا اور اس کو ختم کرنے کی خواھش نے ان کی پرانی دشمنی کو عارضی طور پر دبا دیا تھا۔

"اگر اس کے پلاؤ میں کچھ ملا دیا جائے تو اچھا رھے گا" ارسلان بیک نے تجویز کی جو ایسے کاموں میں بڑا استاد تھا۔

"اور اس کے بعد امیر ھمارے سر قلم کر دیگا" بختیار جھٹ سے بولا۔ "نہیں محترم ارسلان بیک ھمیں دوسرا طریقہ اختیار کرنا چاھئے۔ ھمیں مولانا حسین کی عقلمندی کی ھر طرح تعریف کرنی چاھئے یہاں تک کہ امیر کے دل میں یہ شبہ پیدا ھو جائے کہ درباری مولانا حسین کو خود امیر سے زیادہ عقلمند سمجھتے ھیں ۔ ھمیں متواتر مولانا حسین کی تعریفوں کے پل باندھ دینا چاھئے اور ایک دن ایسا آئے گا جب امیر رشک کرنے لگے گا۔ وہ دن مولانا حسین کے عروج کا آخری دن اور اس کے زوال کیی ابتدا ھوگی۔"

لیکن قسمت خواجہ نصرالدین پر مہربان تھی اور ان کی غلطیاں بھی ان کے لئے مفید بن جاتی تھیں۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

جب بختیار ارسلان بیک نے نئے دانا کی مسلسل اور مبالغہ آمیز مدح و ثنا سے تقریبا اپنا مقصد حاصل کرلیا تھا اور امیر دل ھی دل میں اس سے رشک کرنے لگا تھا تو اتفاق سے خواجہ نصرالدین سے ایک فاش غلطی ھو گئی۔

خواجہ امیر کے ساتھ باغ میں ٹہل رھے تھے، پھولوں کی مہک اور چڑیوں کی چہکار سے لطف اندوز ھو رھے تھے ۔ امیر خاموش تھا۔ خواجہ نصرالدین نے یہ محسوس کیا کہ اس خاموشی میں کچھ ناراضگی پنہاں ھے لیکن اس کی وجہ نہ سمجھ سکے۔

"اور وہ بڈھا ، تمھارا قیدی کیسا چل رھا ھے؟" امیر نے پوچھ لیا۔ "کیا تم نے اس کا اصلی نام اور بخارا آنے کا سبب معلوم کر لیا؟ "

خواجہ نصرالدین اس وقت گل جان کے خیال میں محو تھے۔ اس لئے انھوں نے کھوئے پن سے جواب دیا:

"جہاں پناہ غلام کو معاف کریں! میں ابھی تک اس بڈھے سے ایک لفظ بھی معلوم نہیں کر سکا۔۔۔بس ، وہ تو بت کی طرح گونگا ھے۔ "

" لیکن کیا تم نے اس کو اذیت پہنچانے کی کوشش کی ؟ "

" ھاں ، ھاں ، خداوند نعمت! پرسوں میں نے اس کے جوڑوں کو کس دیا۔ کل میں نے گرم چمٹی سے اس کے دانت ھلانے میں سارا زور صرف کیا۔

" دانت ھلانا بڑی اچھی اذیت ھے" امیر نے تصدیق کی ۔ "حالانکہ یہ عجیب بات ھے کہ وہ خاموش ھے۔ کیا میں کوئی ماھراور تجربے کار جلاد تمھاری مدد کے لئے بھیجوں؟ "

"نہیں ، حضورِ والا اس فکر کی زحمت نہ کریں۔ کل میں ایک نئی اذیت آزماؤنگا۔ کل میں بڈھے کی زبان اور مسوڑے ایک لال انگارہ برمے سے چھیدونگا۔"

"ٹھہرو ! ٹھہرو!" امیر نے زور سے کہا۔ اس کا چہرہ یکایک خوشی سے چمک اٹھا۔ "بھلا وہ تمھیں اپنا نام کیسے بتائے گا اگر تم نے اس کی زبان جلتے ھوئے برمے سے چھید دی! مولانا حسین ! تم نے اس کی بابت کبھی نہیں سوچا تھا، ھے نا، اور ھم نے، امیر اعظم نے فوراً سوچ لیا اور تم کو ایک زبردست غلطی کا مرتکب ھونے سے بچا لیا۔ اس سے یہ ثابت ھوتا ھے کہ اگرچہ تم دانائے بے نظیر ھو ، ھماری عقل و فراست تم سے کہیں زیادہ ھے ، جیسا کہ تم نے ابھی ابھی دیکھا۔ "

وہ خوشی سے پھولا نہیں سما رھا تھا۔ مسرت میں سرشار اس نے درباریوں کو فوراً طلب کیا۔ جب وہ سب جمع ھو گئے تو اس نے اعلان کیا کہ اس دن وہ مولانا حسین سے عقل و دانش میں سبقت لے گیا ھےاور ایسی غلطی بچا لی ھے جو دانا کرنے ھی والا تھا۔

درباری واقعی نویس نے آنے والی نسلوں کے لئے امیر کے ایک ایک لفظ کو بڑی محنت سے لکھ لیا۔

اس دن سے امیر کے دل میں رشک و حسد نہیں رھا۔

اس طرح ایک اتفاقیہ غلطی نے خواجہ نصرالدین کے دشمنوں کی عیارانہ سازشوں کو ناکام بنا دیا۔

لیکن رات کی تنہائی میں ان کی پریشانی زیادہ بڑھنے لگی۔ پورا چاند شہر بخارا پر بلند ھو چکا تھا۔ بے شمار میناروں کے سروں پر روغن دار کھپرے چمک رھے تھے اور پتھر کی زبردست بنیادیں ایک نیلگوں دھندلکے میں مستور تھیں۔ ھلکی ھلکی ھوا چل رھی تھی۔ چھتوں پر تو خنک تھی لیکن نیچے جہاں زمین اور دھوپ سے جلتی ھوئی دیواروں کو ٹھنڈا ھونے کے لئے کافی وقت نہیں ملا تھا یہی ھوا گھٹن پیدا کر رھی تھی ۔ سب چیزوں پر نیند چھائی ھوئی تھی ۔ محل ، مسجدوں اور جھونپڑیوں پر۔ صرف الو اپنی تیز چیخوں سے اس مقدس شہر کے امن و سکوت میں خلل انداز ھو رھے تھے۔

خواجہ نصرالدین کھلی کھڑکی پر بیٹھے تھے ۔ ان کا دل یہ کہتا تھا کہ گل جان بھی نہ سوئی ھوگی اور انھیں کے بارے میں سوچ رھی ھو گی۔ شاید اس وقت وہ دونوں ایک ھی مینار کو دیکھ رھے ھوں لیکن ایک دوسرے کو نہیں دیکھ سکتے تھے کیونکہ وہ دیواروں، سلاخوں، خواجہ سراؤں اور مغلانیوں کے ذریعہ ایک دوسرے سے جدا تھے۔ خواجہ نصرالدین محل میں تو آ گئے تھے لیکن ابھی حرم تک پہنچ نہیں ھوئی تھی جس کا موقع قسمت ھی سے مل سکتا تھا۔ وہ انتھک اس موقع کے بارے میں سوچتے رھتے لیکن سب بے سود ھوتا ! وہ گل جان کو کوئی پیام تک نہ بھیج سکے تھے۔ وہ کھڑکی میں بیٹھے ھوا کو چوم کر یہ کہہ رھے تھے :

" تیرے لئے تو یہ بہت آسان ھے! آھستہ سے اس کی کھڑکی کے اندر جا کر اس کے ھونٹ چوم لے۔ گل جان کو میرا بوسہ اور پیام پہنچا! اسے بتا کہ میں اسے بھولا نہیں ھوں۔ اس سے کہہ کہ میں اسے نجات دلاؤنگا۔ "

لیکن ھوا خواجہ نصرالدین کو غم میں ڈوبا چھوڑ کر آگے بڑھ گئی۔

پھر حسب معمول ایک اور دن کاموں اور فکروں کے ساتھ شروع ھو جاتا۔ پھر خواجہ نصرالدین کو دربار میں حاضر ھونا پڑتا ۔ امیر کی آمد کا انتظار کرنا ھوتا ، درباریوں کی چاپلوسیاں سننا پڑتیں ، بختیار کی عیارانہ سازشوں کو سمجھنا اور اس کی خفیہ زھریلی نگاھوں کی نگرانی کرنی پڑتی تھی۔ پھر امیر کے سامنے جھکنا پڑتا ، اس کے قصیدے پڑھنے پڑتے اور اس کے بعد امیر کے ساتھ گھنٹوں تنہائی میں رہ کر ، اس کے پھولے اور مسخ چہرے سے نفرت کے باوجود ، اس کی احمقانہ باتوں کو غور سے سننا پڑتا اور اس کو ستاروں کی گردش کے بارے میں بتانا پڑتا ۔ خواجہ نصرالدین ان باتوں سے اتنے تنگ آ چکے تھے کہ وہ کوئی نئی بات نہ کہتے اور ھر چیز کی خواہ وہ امیر کا درد سرھو یا فصل کی خشک سالی اور غلے کی گرانی ایک ھی الفاظ میں اور ایک ھی ستاروں کے جھرمٹ سے تاویل کر دیتے ۔ وہ اکتائے ھوئے لہجے میں کہتے:

"سعد الذبیح کے ستارے جھرمٹ قوس کے خلاف ھیں جبکہ سیارہ عطارد اب جھرمٹ عقرب کے بائیں طرف آگیا ھے۔ امیر کو کل رات نیند نہ آنے کی وجہ یہ ھے۔ "

"سعد الذبیح کے ستارے سیارہ عطارد کے خلاف ھیں جبکہ۔۔۔ مجھے یہ یاد رکھنا چاھئے۔۔۔ مولانا حسین اس کو دھراؤ۔ "

بہر حال امیر اعظم کے ھاں حافظے کا فقدان تھا۔

دوسرے دن پھر اسی پر نئے سرے سے بات چیت شروع ھوتی:

" امیر اعظم ، پہاڑی علاقوں میں مویشیوں کی ھلاکت کو سبب یہ ھے کہ سعدالذبیح کے ستارے جھرمٹ قوس سے مطابقت کر رھے ھیں جبکہ عطارد عقرب کے خلاف ھیں۔"

"اچھا تو سعدالذبیح کے ستارے " امیر کہتا "مجھے یہ یاد رکھنا چاھئے۔ "

"اللہ اکبر ! کتنا احمق ھے یہ!" خواجہ نصرالدین عاجز ھو کر سوچتے۔ "یہ تو میرے سابق مالک سے بھی زیادہ گدھا ھے! میں تو اس سے تنگ آ گیا۔ نہیں معلوم مجھے اس محل سے کب نجات ملے گی!

اختتام باب 27
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

باب 28

Post by سیدتفسیراحمد »

(۲۸)

ایک دن امیر نے خواجہ نصرالدین کو بے وقت طلب کر لیا۔ صبح کا تڑکا تھا ، محل سویا ھوا تھا، فوارے کلبلا رھے تھے اور قمریاں کو کو کر کے اپنے پر پھڑپھڑا رھی تھیں۔

”اس کو مجھ سے کیا کام ھو سکتا ھے؟“ خواجہ نصرالدین نے شاھی کمرے کی طرف جانے والے یشب کے زینوں پر چڑھتے ھوئے سوچا۔

خواجہ کی مڈ بھیڑ بختیار سے ھوئی جو خوابگاہ سے نکل کر چپکے سے سائے کی طرح غائب ھو گیا۔ انھوں نے بلا رکے ھوئے صاحب سلامت کی۔ خواجہ نصرالدین تاڑ گئے کہ کچھ سازش ھے اور پھونک پھونک کر قدم بڑھانے لگے۔

خوابگاہ میں خواجہ سراؤں کا داروغہ موجود تھا۔ حضور عصمت مآب شاھی بستر کے پاس پٹ پڑے ھوئے بری طرح کراہ رھے تھے۔ سونے سے منڈھے ھوئے پام کے ایک بید کے ٹکڑے ٹوٹے ھوئے ان کے پاس قالین پر بکھرے ھوئے تھے۔

مخمل کے بھاری پردوں نے خوابگاہ میں صبح کی تازہ ھوا ، سورج کی شعاعیں اور چڑیوں کی چہچہاھٹ کو آنے سے روک رکھا تھا۔ کمرے میں ایک ٹھوس سونے کے لیمپ کی دھیمی روشنی تھی جو سونے کا ھونے کے باوجود معمولی مٹی کے چراغ کی طرح دھواں اور بو دے رھا تھا۔ ایک کونے میں نقشی عود دان سے بڑی بھینی بھینی تیز خوشبو نکل رھی تھی لیکن وہ بھیڑ کی چربی کی بو کو نہیں دور کر سکی تھی ۔ خوابگاہ کی فضا اتنی بھاری تھی کہ خواجہ نصرالدین کی ناک میں کھجلی ھونے لگی اور گلا گھٹنے سا لگا۔

امیر بیٹھا ھوا تھا۔ اس کے بالدار پیر ریشمی لحاف سے باھر نکلے ھوئے تھے۔ خواجہ نصرالدین نے دیکھا کہ شاہ کی ایڑیاں ایسی زرد تھیں جیسے اس نے ان کو اکثر اپنے ھندی عود دان کے اوپر سینکا ھو۔

”مولانا حسین ھم سخت پریشان ھیں“ امیر نے کہا ”اور ھمارے خواجہ سراؤں کا داروغہ جس کو تم یہاں دیکھتے ھو اس کا سبب ھے۔“

”شہنشاہ معظم!“ خواجہ نصرالدین نے زور سے کہا لیکن اندر سے برف ھوگئے ”اس کی یہ جرات کیسے ھوئی؟“

”ارے ، نہیں !“ امیر نے تیوری چڑھا کر ھاتھ جھٹکا۔ ”وہ کیسے کر سکتا تھا جبکہ ھم نے حسب معمول اپنی فراست و دانائی سے ھر چیز پہلے سے دیکھ لی اور اس کو خواجہ سراؤں کا داروغہ مقرر کرنے سے پہلے ھر بات اچھی طرح جانچ لی تھی۔ نہیں ، نہیں اس طرح کی کوئی بات نہیں ھے ۔ ھمیں آج یہ معلوم ھوا کہ یہ بدمعاش ، ھمارے خواجہ سراؤں کا داروغہ ، اس بات کو بھول گیا کہ ھم نے اس کو ھم نے اپنی سلطنت میں ایک بہت ھی اونچا منصب عطا کیا ھے اور اپنے فرائض سے غفلت برتنے لگا۔“
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

”اس بات سے فائدہ اٹھا کر کہ ھم آج کل اپنی داشتاؤں کے پاس نہیں جارھے ھیں اس نے تین دن حرم سے غائب رہ کر حشیش پینے کی لت میں مست رھنے کی جرأت کی۔ حرم کا نظم و نسق بگڑ گیا۔ ھماری داشتائیں بے مہار ھو کر ایک دوسرے سے لڑنے جھگڑنے ، ایک دوسرے کا منہ اور بال نوچنے لگیں۔ اس سے ھمارا کافی نقصان ھوا کیونکہ ھماری نگاہ میں وہ عورت حسین نہیں ھو سکتی جس کے چہرے پر کھرونچے ھوں اور سر کے کافی بال غائب ھو چکے ھوں۔ اس کے علاوہ ایک اور بات نے ھم کو رنج و غم میں غرق کر دیا ھے۔ ھماری نئی داشتہ بیمار پڑ گئی ھے اور تین دن سے کھانا نہیں کھا رھی ھے۔“

خواجہ نصرالدین چونک پڑے لیکن امیر نے ان کو اشارے سے روکا:

”رکو، ابھی ھم نے بات ختم نہیں کی ھے۔ وہ بیمار پڑ گئی ھے اور ممکن ھے کہ وہ اپنی جان ھی گنوا بیٹھے ۔ اگر ھم اس کے پاس صرف ایک ھی بار گئے ھوتے تو ھم کو اس کی بیماری ، حتٰی کہ اس کی موت کا بھی اتنا غم نہ ھوتا۔ لیکن تم سمجھ سکتے ھو، مولانا حسین ، کہ موجودہ حالت میں ھم کس قدر ناراض ھیں۔ اس لئے ھم نے فیصلہ کیا ھے“ امیر نے اپنی آواز بلند کر دی ”کہ مزید کوفتوں اور فکروں سے بچنے کے لئے ھم اس حشیش پینے والے بد معاش، پاجی کو برطرف کر دیں، اس کو اپنی عنایات سے محروم کر دیں اور اس کو دو سو درے لگوائیں۔ جہاں تک تمھارا تعلق ھے ، مولانا حسین، ھم نے اس کے برعکس فیصلہ کیا ھے کہ تم پر عنایت کرتے ھوئے اپنے حرم میں خواجہ سراؤں کے داروغہ کے عہدے پر فائز کریں۔“

خواجہ نصرالدین کو محسوس ھوا جیسے ان کے پیر سن ھو گئے ھیں ، ان کی سانس گلے ھی میں رک گئی ھے اور ان کے پیٹ کے اندر کسی نے برف کی سل رکھ دی ھے۔

امیر نے تیوری چڑھا کر دھمکی آمیز لہجے میں دریافت کیا:

”مولانا حسین ، ایسا معلوم ھوتا ھے کہ تم ھم سے بحث کرنے پر تُلے ھو۔ کیا ایسا ھے کہ تم بیکار اور وقتی خوشیوں کو مابدولت کی خدمت کرنے کی عظیم مسرت پر ترجیح دیتے ھو؟“

خواجہ نصرالدین نے اب تک اپنے کو سنبھال لیا تھا۔ وہ بہت جھک کر تعظیم بجا لائے اور بولے:

”خدا ھمارے مہربان بادشاہ کو سلامت رکھے۔ مجھ پر امیر کی عنایات بے انتہا ھیں۔ شہنشاہ معظم میں اپنی رعایا کے انتہائی خفیہ اور اندرونی آرزوؤں کو معلوم کرنے کی معجز نما خوبی ھے۔ اس طرح وہ اپنی رعایا پر متواتر اکرام کی بارش کرتے رھتے ھیں۔ میں نے، اس ناچیز نےاکثر یہ تمنا کی ھے کہ اس کاھل اور بیوقوف آدمی کی جگہ حاصل کروں جو منصفانہ سزا پانے کے بعد جس کا وہ خود سبب بنا ھے قالین پر پڑا کراہ رھا ھے اور فریاد کر رھا ھے۔ کتنی بار یہ خواھش میرے دل میں آئی لیکن میں نے امیر سے عرض نہیں کیا ۔ لیکن اب خود شہنشاہ اعظم نے فرمایا۔“
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

”تو پھر دیر کیوں ھو؟“ امیر نے خوش ھو کر دوستانہ انداز میں ان کی بات کاٹ دی۔ ”ھم حکیم کو طلب کرتے ھیں۔ وہ اپنے چاقو ساتھ لائے گا اور تم اس کے ساتھ تنہا جگہ میں چلے جاؤ گے۔ اس دوران میں ھم بختیار کو حکم دینگے کہ وہ تم کو خواجہ سراؤں کا داروغہ مقرر کرنے کا فرمان تیار کرلے۔ ارے!“ اس نے زور سے کہا اور تالی بجائی۔

”حضورِ اعلٰی میری حقیر بات بھی سن لیں“ خواجہ نصرالدین نے ھراساں دروازے کی طرف دیکھتے ھوئے جلدی سے کہا۔ ”میں بڑی خوشی کے ساتھ حکیم کے ساتھ فوراً کسی تخلئے کی جگہ جانے کو تیار ھوں لیکن صرف حضور کی سلامتی کی فکر مجھے ایسا کرنے سے روکتی ھے۔ اس عمل کے بعد مجھے کئی دن تک صاھب فراش رھنا پڑیگا۔ اس دوران میں نئی داشتہ مر سکتی ھے اور پھر امیر کے دل پر غم کے سیاہ بادل چھا جائیں گے جس کا خیال ھی ان کے غلام کے لئے ناقابل برداشت ھے۔ اس لئے میری تجویز یہ ھے کہ پہلے داشتہ صحت مند ھو جائے اس کے بعد میں حکیم کے پاس جاؤں اور خواجہ سراؤں کے داروغہ کے منصب کے لئے تیاری کروں۔“

”ھونہہ“ امیر خواجہ نصرالدین کی طرف بے اعتباری سے دیکھتے ھوئے بڑبڑایا۔

”آقا ، اس نے تین دن سے کھانا نہیں کھایا ھے۔“

”ھونہہ“ امیر نے دھرایا۔ پھر وہ کراھتے ھوئے خواجہ سرا کی طرف مڑ گیا ”ارے، کمبخت مکڑی کے بچے جواب دے، کیا ھماری نئی داشتہ بہت بیمار ھے، کیا اس کی جان کا خطرہ ھے؟“

خواجہ نصرالدین بڑی بے چینی سے جواب کا انتظار کر رھے تھے۔ ان کے چہرے پر ٹھنڈا پسینہ بہہ رھا تھا ۔

خواجہ سرا نے کہا:

”شہنشاہ معظم، وہ ھلال کی طرح دبلی اور زرد ھوگئی ھے۔ اس کا چہرہ مومی ھوگیا ھے اور انگلیاں ٹھنڈی پڑ گئی ھیں۔ مغلانیاں کہتی ھیں کہ یہ بہت بری علامتیں ھیں۔۔۔“
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

امیر سوچ میں پڑ گیا۔ خواجہ نصرالدین تاریکی میں ھٹ گئے۔ وہ خوابگاہ کی اس دھواں دھواں سی نیم تاریکی کے شکرگذار تھے جس نے ان کے چہرے کی زردی چھپا لی تھی۔

”ھاں !“ آخرکار امیر بولا ”اگر ایسا ھے تو ممکن ھے کہ وہ مر جائے اور اس سے ھمیں بڑا رنج ھو گا۔ لیکن کیا تمھیں یقین ھے ، مولانا حسین ، کہ تم اس کو شفایاب کر سکو گے؟“

”بادشاہ سلامت جانتے ھیں کہ بخارا اور بغداد کے درمیان میرا جیسا کوئی حکیم نہیں ھے۔“

”جاؤ، مولانا ، اس کے لئے دوا تیار کرو۔“

”بادشاہ سلامت، پہلے مجھے اس کی بیماری معلوم کرنی ھوگی۔ مجھے اسے دیکھنا چاھئے۔“

”اسے دیکھنا چاھئے؟“ امیر نے حقارت سے ھنس کر کہا ۔

”مولانا حسین، جب تم خواجہ سراؤں کے داروغہ ھو جاؤ گےتو تم کو اسے دیکھنے کے لئے کافی وقت ملے گا۔“

”اعلیٰ حضرت!“ خواجہ نصرالدین زمین تک جھک گئے۔ ”مجھے ضرور۔۔۔“

”ذلیل غلام!“ امیر چیخا۔ ”کیا تو نہیں جانتا کہ ھماری داشتاؤں کے چہرے پر کسی آدمی نگاہ پڑنے کا انجام اس کی اندوھناک موت کے سوا کچھ بھی نہیں ھے۔“

”میں جانتا ھوں ، اعلٰی حضرت!“ خواجہ نصرالدین نے جواب دیا۔ ”لیکن میرا مطلب اس کے چہرے سے نہ تھا۔ میں اس کے چہرے کو دیکھنے کی کبھی جرأت نہیں کر سکتا۔ میرے لئے تو صرف اس کا ھاتھ دیکھنا کافی ھوگا کیونکہ میں اپنے پیشے میں کافی ماھر ھوں اور میں ھر بیماری کی تشخیص ناخونوں کا رنگ دیکھ کر کر سکتا ھوں ۔“

”اس کا ھاتھ؟“ امیر نے دھرایا۔ ”تم نے پہلے ھی کیوں نہ بتا دیا تاکہ ھمیں غصہ نہ آتا ؟ اس کا ھاتھ؟ ھاں ، یہ ممکن ھے۔ ھم تمھارے ساتھ حرم میں چلیں گے۔ ھمیں یقین ھے کہ کسی عورت کا ھاتھ دیکھنا ھمارے لئے نقصان کا باعث نہ ھو گا۔“

”اس کے ھاتھ پر نگاہ ڈالنے سے اعلٰی حضرت کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا“ خواجہ نصرالدین نے جواب دیا۔ وہ اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ چونکہ وہ گل جان سے کبھی تنہا نہیں مل سکیں گے کسی نہ کسی کی موجودگی لازمی ھے۔ اس لئے اگر وہ آدمی امیر خود ھی ھو تو کوئی ھرج نہیں۔ اس طرح امیر کو شک بھی نہ ھو گا۔

اختتام باب 28
Last edited by سیدتفسیراحمد on Thu Oct 16, 2008 6:47 am, edited 1 time in total.
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

باب 29

Post by سیدتفسیراحمد »

(۲۹)

اتنے دن انتظار میں بیکار گذارنے کے بعد بالآخر حرم کے دروازے خواجہ نصرالدین پر کھل گئے۔

پہرے دار تعظیم بجا لاتے ھوئے ایک طرف ھٹ گئے۔ خواجہ نصرالدین امیر کے پیچھے ایک پتھر کے زینے پر چڑھے اور پھر ایک چھوٹے دروازے کے ذریعہ حسین باغ میں آگئے۔ یہاں گلاب اور سوسن و سنبل کے تختے کھلے تھےاور ان کے درمیان سنگ مرمر اور سنگ اسود کے حوضوں میں فوارے اچھل رھے تھے۔ ان پر پانی کی ایک لطیف چادر سی پھیلی ھوئی تھی۔ پھولوں اور گھاس پر صبح کی شبنم چمک اور تھرک رھی تھی۔

خواجہ نصرالدین کا ایک رنگ آتا ایک جاتا۔ خواجہ سرا نے اخروٹ کا نقشیں دروازہ کھولدیا۔ مشک و عنبر اور گلاب کے عطر کا ایک زوردار بھبکا اندر کے پراسرار حصے سے آیا۔ یہ تھا حرم، امیر کے حسین قیدیوں کی غم انگیز رھائش گاہ۔

خواجہ نصرالدین نے ایک ایک کونے ، گذرگاہ اور موڑ کو اچھی طرح ذھن نشین کر لیا تا کہ جب وہ فیصلہ کن لمحہ آئے تو راستہ نہ بھولیں کیونکہ اس کا مطلب اپنی گل جان دونوں کی موت تھا۔

”دائیں طرف“ انھوں نے دل ھی دل میں دھرایا ”پھر بائیں۔ یہاں ایک زینہ ھے جس پر ایک بڈھی عورت پہرہ دے رھی ھے۔ اب پھر بائیں کو۔۔۔“

گذرگاھوں میں بہت مدھم روشنی تھی جو نیلے ، سبز اور گلابی چینی شیشوں سے چھن چھن کر آرھی تھی۔ خواجہ سرا ایک تنگ سے دروازے کے پاس رک گیا:

”آقا، وہ یہاں ھے۔“

خواجہ نصرالدین نے امیر کے پیچھے اس چوکھٹ کو پار کیا جو ان کی قسمت کا فیصلہ کرنے والی تھی۔

چھوٹا سا کمرہ تھا جس کی دیواریں اور فرش قالین سے ڈھکے ھوئے تھے۔ طاقچون میں سیپ کے ڈبے رکھے تھے جن میں کنگن ، بالیاں اور ھار بھرے ھوئے تھے اور دیوار پر ایک چاندی کے فریم کا آئینہ تھا۔ بیچاری گل جان نے تو یہ زروجواھر خواب میں ‌بھی نہیں دیکھے تھے! خواجہ نصرالدین کی نگاہ اس کی موتیوں سے مرصع چھوٹی سی جوتیوں پر پڑی اور وہ کانپ گئے۔ گل جان نے ان کے تلے گھس دئے تھے۔ ان کو اپنے جذبات کا گلا گھونٹنے کے لئے اپنی تمام قوتِ ارادی سے کام لینا
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

خواجہ سرا نے ایک کونے میں ریشمی پردے کی طرف اشارہ کیا۔ گل جان وھاں لیٹی تھی۔

”وہ سو رھی ھے“ خواجہ سرا نے سرگوشی میں کہا۔

خواجہ نصرالدین کے اندر ایک طوفان سا برپا ھو گیا۔ ان کی محبوبہ اتنی قریب تھی۔ ”اپنے دل کو فولاد کا بنا لو، سب جھیل جاؤ، خواجہ نصرالدین!“ انھوں نے اپنے آپ سے کہا۔

جب وہ پردے کے قریب گئے تو انھوں نے سوتی ھوئی گل جان کی سانس لینے کی آواز سنی۔ مسہری کے سرھانے کی طرف ریشمی کپڑا آھستہ آھستہ ھل رھا تھا۔ خواجہ نصرالدین کو ایسا لگا جیسے کسی کی آھنی گرفت نے ان کا گلا گھونٹ دیا ھے ، ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور ان کی سانس پھول گئی۔

”مولانا حسین، تم اس قدر سست کیوں پڑ گئے؟“ امیر نے پوچھا۔

”اعلٰی حضرت، میں اس کی سانس کی آواز سن رھا ھوں۔ میں اس پردے کے پیچھے سے آپ کی خاتون کے دل کی حرکت معلوم کرنے کی کوشش کر رھا ھوں۔ اس کا نام کیا ھے؟“

”اس کا نام گل جان ھے“ امیر نے کہا۔

”گل جان!“ خواجہ نصرالدین نے نرمی سے پکارا۔

مسہری کے سرے پر پردے کی حرکت اچانک رُک گئی ۔ گل جان جاگ اٹھی تھی اور بے حس و حرکت لیٹی تھی۔ اس کو یہ یقین نہیں تھا کہ وہ خواب دیکھ رھی ھے یا وہ واقعی اپنے محبوب کی آواز سن رھی ھے۔

”گل جان!“ خواجہ نصرالدین نے پکارا۔ گل جان کے منہ سے ھلکی سی چیخ نکل گئی لیکن خواجہ نصرالدین نے تیزی سے کہا:

”میرا نام مولانا حسین ھے۔ میں نیا دانا، نجومی اور حکیم ھوں جو بغداد سے امیر کی خدمت میں حاضر ھوا ھے۔ تم سمجھیں نا، گل جان۔ میں ھوں نیا دان، نجومی اور حکیم مولانا حسین۔“

”کسی وجہ سے وہ میری آواز سن کے ڈر گئی۔ غالباً اعلٰی حضرت کی غیر موجودگی میں یہ خواجہ سرا اس کے ساتھ سختی سے پیش آیا ھے۔“

امیر نے خواجہ سرا کو گھور کر دیکھا جو اپنی صفائی دینے کے لئے آواز نکالے بغیر کانپ کر زمین تک جھک گیا۔

”گل جان ، تمھارے لئے خطرہ ھے“ خواجہ نصرالدین نے کہا ”لیکن میں تمھیں بچا لونگا۔ تمھیں مجھ پر اعتماد کرنا چاھئے کیونکہ میرا فن ھر چیز پر قابو پا سکتا ھے۔“

”میں تمھاری بات سن رھی ھوں، مولانا حسین، بغداد کے حکیم۔ میں تم کو جانتی ھوں اور تم پر اعتماد کرتی ھوں اور یہ میں بادشاہ سلامت کے حضور میں کہتی ھوں جن کے قدم میں پردے کی درازوں سے دیکھ رھی ھوں۔“
Post Reply

Return to “اردو ناول”