Posted: Tue Oct 21, 2008 5:16 am
مری دعا ترے رخشِ صبا خرام کے نام
مری دُعا ترے رخشِ صبا خرام کے نام!
کہ میں نے اپنی محبت سپرد کی ہے تجھے
سو دیکھ!میری امانت سنبھال کے رکھنا
اسے بہار کی نرماہٹوں نے پالا ہے
سو اس کو گرم ہوا سے بہت بچا رکھنا
یہ گُل عذار نہیں آشنائے سختی گل
یہ ساتھ ہو تو بہت احتیاط سے چلنا
مزاج اس کا ہَواؤں کی طرح سرکش ہے
سو اس کی جنبشِ ابرو کو دیکھتے رہنا
نہیں، یہ سُننے کا عادی نہیں رہا ہے کبھی
سو اس کی بات ‘ وہ کیسی ہو، مانتے رہنا
اطاعت اس کی بہر گام اَب ہے تیرا کام!
ہَوا کے ساتھ اُسے یہ پیام بھی پہنچے
کہ خوش نصیب ہے تو اس کا ہمسفر ٹھہرا
میں تیرہ بخت تھی، اس سے بچھڑ گئی کب کی
بھٹک رہی ہوں گھنے جنگل میں اب تنہا
تو اس کے لمس سے ہر روز زندگی پائے
میں اُس کے ہجر میں ہر رات لمسِ مرگ چکھوں
ترے گلے میں وہ ہر روز باہیں ڈالتا ہے
مرے بدن کو وہ حلقہ مگر نصیب نہیں
وہ تیرے جسم سے کتنا قریب ہوتا ہے
مگر میں اُس کے بدن کی مہک کہاں ڈھونڈوں
کہ اُس کے شہر کی پاگل ہوائیں___ میرے گھر
نجانے کون سی گلیوں سے ہوکے آتی ہے
کہ وہ مہک کہیں رستے میں چھوٹ جاتی ہے
اُسی کی یاد میں ہوتی ہے اب تو صبح وشام
ہَوا کے ہاتھ اُسے یہ پیام بھی پہنچے
کہ تیری عُمر خُدائے ازل دراز کرے
جو خواب بھی تیری آنکھوں میں ہو‘وہ پورا ہو
کہ تیرے ساتھ نے اُس کو بہت خوشی دی ہے
وہ اپنے سارے رفیقوں میں سربلند ہُوا!
شکستہ دل تھا مگر آج ارجمند ہُوا
غریبِ شہر کو جینے کا آسرا تو دیا
بہت اُداس تھا، تُونے اُسے ہنساتو دیا
(میں کس زباں میں ،بتا،تجھ کو شکریہ لکھوں)
دُعا یہ ہے کہ تجھے ہر خوشی میسر ہو!
اِسی طرح سے کبھی تو بھی سر اُٹھاکے چلے
کبھی تجھے بھی کوئی بھیجے تہنیت کا پیام!
ہَوا کے ساتھ اُسے یہ پیام بھی پہنچے
کہ اپنے آقا کے ہمراہ سیر کو نکلے
تواسپِ تازی،کسی دِن زقند ایسی بھرے
کہ اُڑکے میرے نگر،میرے شہر آپہنچے
تمام عُمر دعائیں رہیں گی اُس کے نام!!
مری دُعا ترے رخشِ صبا خرام کے نام!
کہ میں نے اپنی محبت سپرد کی ہے تجھے
سو دیکھ!میری امانت سنبھال کے رکھنا
اسے بہار کی نرماہٹوں نے پالا ہے
سو اس کو گرم ہوا سے بہت بچا رکھنا
یہ گُل عذار نہیں آشنائے سختی گل
یہ ساتھ ہو تو بہت احتیاط سے چلنا
مزاج اس کا ہَواؤں کی طرح سرکش ہے
سو اس کی جنبشِ ابرو کو دیکھتے رہنا
نہیں، یہ سُننے کا عادی نہیں رہا ہے کبھی
سو اس کی بات ‘ وہ کیسی ہو، مانتے رہنا
اطاعت اس کی بہر گام اَب ہے تیرا کام!
ہَوا کے ساتھ اُسے یہ پیام بھی پہنچے
کہ خوش نصیب ہے تو اس کا ہمسفر ٹھہرا
میں تیرہ بخت تھی، اس سے بچھڑ گئی کب کی
بھٹک رہی ہوں گھنے جنگل میں اب تنہا
تو اس کے لمس سے ہر روز زندگی پائے
میں اُس کے ہجر میں ہر رات لمسِ مرگ چکھوں
ترے گلے میں وہ ہر روز باہیں ڈالتا ہے
مرے بدن کو وہ حلقہ مگر نصیب نہیں
وہ تیرے جسم سے کتنا قریب ہوتا ہے
مگر میں اُس کے بدن کی مہک کہاں ڈھونڈوں
کہ اُس کے شہر کی پاگل ہوائیں___ میرے گھر
نجانے کون سی گلیوں سے ہوکے آتی ہے
کہ وہ مہک کہیں رستے میں چھوٹ جاتی ہے
اُسی کی یاد میں ہوتی ہے اب تو صبح وشام
ہَوا کے ہاتھ اُسے یہ پیام بھی پہنچے
کہ تیری عُمر خُدائے ازل دراز کرے
جو خواب بھی تیری آنکھوں میں ہو‘وہ پورا ہو
کہ تیرے ساتھ نے اُس کو بہت خوشی دی ہے
وہ اپنے سارے رفیقوں میں سربلند ہُوا!
شکستہ دل تھا مگر آج ارجمند ہُوا
غریبِ شہر کو جینے کا آسرا تو دیا
بہت اُداس تھا، تُونے اُسے ہنساتو دیا
(میں کس زباں میں ،بتا،تجھ کو شکریہ لکھوں)
دُعا یہ ہے کہ تجھے ہر خوشی میسر ہو!
اِسی طرح سے کبھی تو بھی سر اُٹھاکے چلے
کبھی تجھے بھی کوئی بھیجے تہنیت کا پیام!
ہَوا کے ساتھ اُسے یہ پیام بھی پہنچے
کہ اپنے آقا کے ہمراہ سیر کو نکلے
تواسپِ تازی،کسی دِن زقند ایسی بھرے
کہ اُڑکے میرے نگر،میرے شہر آپہنچے
تمام عُمر دعائیں رہیں گی اُس کے نام!!