Page 2 of 6

Posted: Tue Nov 11, 2008 1:14 pm
by سیدتفسیراحمد
[list]میں نے اباجان سے معذرت کرتے ہوۓ کہا کہ اگرمیرا بس چلے تومیں اس بہن کو تکیوں سےاتنا ماروں کہ یہ رو دے اور میں کرسی پر بیٹھ گیا“۔

سعدیہ اُٹھ کر میرے پاس آئ اور پیچھے سےگلےمیں باہیں ڈال کر کہا۔ ” بھائ جان۔ آئیندہ میری چٹکی بہت ذیادہ تکلیف دہ ہوگی“۔ اس نے جھک کرمیرے سر پر پیار کیا اور واپس جا کراپنی کرسی پر بیٹھ گئ۔

ا باجان نے کہا۔ ” میں نے تمہاری گل کی داستاں پڑھی۔ تم نےاس کو لکھ کرسکینہ اور سعدیہ کوتوخوش کردیا۔ مگر میں تم سے یہ پوچھتا ہوں کہ تم اپنی دوسری بہنوں کو اس ظلم سے کس طرح نجات دلاؤگے“۔

” ابا جان سعدیہ اور میں نے اس پرگھنٹوں بحث کی ہے، پچاس سال سے پختون ، پاکستان اور صوبۂ سرحد کی حکومتیں اس مسئلہ پرکام کر رہی ہیں مگر یہ مسئلہ حل ہونے کے بجاۓ اور بھی خراب ہورہا ہے ہم دونوں اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ یہ لوگ اس مسئلہ کی بنیاد کو سمجھنے سے قاصِر ہیں“۔

” وہ کیسے؟ “ ماں نے پو چھا۔

” کسی بھی مسئلے کو حل کرنے سے پہلے اس کی صحیح وجہ کا جاننا ضروری ہے“۔ میں نے سوچتے ہوۓ کہا۔

” غلط وجہ متعین کریں اورآپ غلط راہ پر چل نکلیں گے“۔ سعدیہ نے میرا جملہ مکمل کیا۔


” ہماری سوچ یہ ہے کہ یہ مسئلہ عورتوں کا ہے۔ عورتیں ہی اس مسئلہ کو حل کرسکتی ہیں“۔ [/list]

Posted: Tue Nov 11, 2008 1:15 pm
by سیدتفسیراحمد
[list]سعدیہ نے بات جاری رکھی۔

” اس لیے میں سعدیہ کے ساتھ اس پرکام کروں گا“۔ میں کہا۔

” ہم نےاس مسئلہ کا مکمل تجزیہ کیا ہے اور اس تجزیے کو لکھا ہے۔ آپ دونوں کے لیے میں نےاس کی نقل بھی بنائ ہیں۔ ابھی ہم آپ کو صرف اس کا نتیجہ بتاتے ہیں“۔ سعدیہ بولی۔

مسئلہ کیا ہے؟“ میں نے سعدیہ سے پوچھا۔

”عورتوں پر ظلم ، ان کی بے حرمتی، ان سے زنا بالجبر، ان کا بدل ، سوارہ“۔

کیونکہ یہ مسئلہ اسلامی بھی ہے اس لیے یہ مسئلہ بین الاقوامی طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن ہمارا فوری سُروکار گُل اور اس کی تقربیاً آٹھ کروڑ پختون بہنیں ہیں“۔

” اس مسئلہ کے مرکزی کردارکون ہیں؟“ میں نے سعدیہ سے پوچھا۔


پختون کی بیٹیاں۔ مرکزی مظلوم

غیر مرکزی مظلوم، پاکستان کی اوراسلام کی بیٹیاں “ـ سعدیہ کی آواز میں درد تھا۔


” پاکستان کی اوراسلام کی بیٹیاں اس لۓغیرمرکزی ہیں کیونکہ پاکستان میں سینکڑوں پڑھی لکھی عورتیں ان کے مسئلہ پر کا م کررہی ہیں“ ـ سعدیہ نے کہا۔

” مگر پختونخواہ کی پڑھی لکھی لڑکیوں کی توجہ اس طرف نہیں ہے۔ میں نے انٹرنیٹ پرریسرچ کی مگرایک بھی پختون کی مشہور پڑھی لکھی لڑکی نہیں ملی“۔ سعدیہ نے کہا۔

” جن پختون عورتوں نے اعلٰی تعلیم حاصل کی ہے وہ یا تو گھر بیٹھی ہیں یا حکومت پاکستان کے لیے کام کررہی ہیں“۔

اچھا”۔ توچلو ، ورنہ میں لیٹ ہو جاؤں گا“۔
“۔[/list]

Posted: Tue Nov 11, 2008 1:16 pm
by سیدتفسیراحمد
[list]
مرکزی ظالم پختون کا مرد

اور غیر مرکزی پاکستان اور اسلام کا مرد ہے“۔

اماجان نے سوال کیا”۔ ظلم کی وجہ؟


” پہلی اور اہم وجہ

پختون قوم کے پرانے رسم و رواج۔ ان رسم و رواج کا مجموعہ پختون ولی کہلاتا ہے۔


” دوسری وجہ

شریعہ اور اسلامی قانون کی غلط تفسیر اور


” تیسری وجہ

حدود ارڈینینس قانون جوکہ عورتوں کےحقوق کومارتا ہے۔ ان کےساتھ نا انصافی اور ذیادتی کرتا ہے“۔

میں نے کہا۔” غُربت اور بےعلمی“۔

” سعدیہ نے کہا۔ غربت اور بے علمی ظلم کو کرنے کی بنیادی وجہ نہیں ہیں۔ فارغ البالی اور تعلیم سے مدد ملے گی لیکن مسئلہ حل نہیں ہوگا“۔

” کیا اور بھی وجوہ ہیں؟“

” بڑھتی ہوئ آبادی ، بےکاری ، جرائم، نشہ ، بچوں کی مزدوری ، بڑھاپا، رشوت ستانی، پرانی رسموں کی حفاظت اور مقامی علاقائ مفاد“۔

” کیا ان دوسرے مسئلوں کو حل کرنے پرکام ہو رہاہے؟“

[/list]

Posted: Tue Nov 11, 2008 1:17 pm
by سیدتفسیراحمد
[list]” ہاں ، ناں گورنمینٹل ایجینسیز۔انٹرنیشنل سوشل ریلیف ایجینسیز۔ یو-این ، حکومتِ صوبہ سرحد کے مختلف شعبے، حکومتِ پاکستان کے مختلف شعبے ان مسائل کی اصلاح میں لگے ہوۓ ہیں۔ لیکن رسم و رواج ، شریعہ اور اسلامی قانون کی غلط تعمیل، پاکستان کا حدود اورڈینیس ان مسئلوں میں ان کے ہاتھ باندھے ہوۓ ہیں اور وہ بنیادی مسئلہ کو حل نہیں کرسکتے “۔

” ہمارے خیال میں یہ مسئلہ اُس وقت تک حل ہوسکتا جب پختون لڑکیاں اس میں حصہ لیں اور خاص طور پرپختون زادیاں ، ملک زادیاں اور پڑھی لکھی پختون عورتیں بھی حصہ لیں”ہم دونوں نے یکجا ہوکرکہا“۔

ناشتہ کے بعد ابا جان نے ماں سے کہا“۔ چلو شیری، ہم ان کے تجزیے کا مطالعہ کرتے ہیں“۔

میں نے بھائ جان سے کہا“۔ بھیا آپ مجھےگاڑی میں اسکول پر چھوڑ دیں؟“ [/list]

Posted: Fri Nov 14, 2008 2:34 am
by سیدتفسیراحمد
[list]3 -تعمیل کا منصوبہ

شام کی چاۓ پرہم لوگ پھر جمع ہوۓ۔ مسئلہ کی تشخیص ہوچکی تھی۔ حل کی نشان دہی بھی ہو چکی تھی۔ اب سوال پختون کی خان زادیوں اور ملک زادیوں کی تعلیم اور ٹرینینگ کرنے کے منصوبے کا تھا۔ مگر اس سے پہلےسعدیہ اور مجھے بھی ابا جان سے کامیابی کے اصول اور اماں جان سے تنظیم کا سلیقہ سیکھنا تھا۔ ہمارا طریقِ کار یہ بنا کہ سعدیہ ہمارے مقاصد کو صاف کرے گی۔ اباجان مختلف نشستوں میں کامیابی کے اصولوں کا جائزہ لیں گے اوراماں جان ہمیں پھر معاشی فلاح و بہبود ، پختونخواہ کی تاریخ اور رسم و رواج سے، اسلام کے اصول ، فقہ اور حدیث، اسلام کے بہبودِ عامہ کے ادارے ، سیاست، سائکولوجی کی تعلیم دیں گیں تاکہ ہم اس علم کو اپنے مقصد کے حصول کے لیے استعمال کریں۔ میں سعدیہ کی مدد کروں اور سعدیہ اور سکینہ دوسری پختون اور پاکستان کی لڑکیوں کی مدد سے اس حل کو عملی جامہ پہنائیں گی۔
سعیدہ کیونکہ صرف 15سال کی ہے اس لیے اس کی شخصیت کو چھپانے کے لیے وہ ’ افغانہ ‘ کہلاۓگی۔ اباجان بولےـ بیٹا اس ظلم کوجو پختون مرد ، آٹھ کروڑ پختون عورتوں پر رسم و رواج کےنام پر کر رہے تعلیم یافتہ پختون لڑکیوں کوختم کرنا ہوگا ـ“
ابا جان نے سعیدہ سے پوچھا”۔ اس کے حل کے متلعق تم نے سوچا ہے“۔
سعد یہ اٹھ کر اباجان کے پاس گئ اوران کےگلے میں باہیں ڈال کرکہا”۔ ابا جان آپ کو پتہ ہے نا ہم اس صبح کیوں جمع ہوۓ ہیں کہ آپ ہم کو اس کے جواب کو تلاش کرنے میں مدد دیں گے“۔
اباجان نے کہا۔” لیکن تمہیں اس کے حل کا علم ہے”۔
” اچھا۔ وہ کیسے؟“
اباجان نے ماں سے مسئلہ کی تشخیص کو پھر سے دُ ہرانے کو کہا۔اور سعدیہ سےکہا کہ ماں کو غور سے سنے۔
اماں جان نے کہا۔

[/list]

Posted: Fri Nov 14, 2008 2:36 am
by سیدتفسیراحمد
[list]۔” اس ظلم کو جو پختون مرد ، آٹھ کروڑ پختون عورتوں پر رسم و رواج کے نام پر کر رہے ہیں تعلیم یافتہ پختون لڑکیوں کو ختم کرنا ہوگا“۔
ماں نے کس چیز کو تبدیل کرنے کا اشارہ کیا ہے۔
” رسم و رواج کو بدلناہے“۔ سعدیہ نے فوراً جواب دیا۔
” کیا ہم پختون ولی کے تمام رسم و رواج چھوڑ دیں؟“ اباجان نے مجھ سے پوچھا۔
” نہیں ، صرف ’ فرسودہ رسم و رواج‘ کو بدلناہے کیوں کہ پختون ولی میں اچھے رسم و رواج بھی ہیں“۔ میں نے کہا۔
” اس کام کی ذمہ داری کس کی ہے؟“
” پختون تعلیم یافتہ لڑکیوں کی“ میں نے کہا۔
اباجان نے سعدیہ سے یہی سوال کیا“۔ اس کام کی ذمہ داری کس کی ہے؟“
سعدیہ نے کہا۔” جب ہم میں سے کسی ایک ملک ، نسل، یا فرقہ پر ظلم ہوتا ہے تو انسان ہونے کی حیثیت سے ہم سب پرلازم ہے کہ اپنے آسائش سے باہر نکلیں اور اس کےخلاف احتجاج کریں۔ یہ میری ذمہ داری ہے یہ آپ کی ذمہ داری ہے۔ یہ پاکستان کی عورتوں کی ذمہ داری ہے۔یہ ہر عورت کی ذمہ داری ہے۔ لیکن سب سے بڑھ کر یہ مظلوم کی ذمہ داری ہے کہ خود بھی اس کےخلاف احتجاج کرے۔ خاص طور پر پختون تعلیم یافتہ لڑکیاں ان کے بغیر یہ کام نہیں ہوسکتا“۔
اباجان نے مجھ سے سوال کیا۔” بیٹا، جب تم ان پختون خانزادیوں اور ملک زادیوں سے مسینجر پر بات کرتے ہو تو وہ کیا کہتی ہیں؟”
” اباجان، ہماری شہزادیاں بھی رسم و رواج کے ظلم کا شکار ہیں۔ لیکن ان کو بہتر سہولتیں عطا ہیں اور ان کی زندگی ان کی بہنوں سے بہتر ہے۔ یہ عطائیں اُن کی توجہ کو اس مسئلہ سے دور رکھتے ہیں۔ مثلاً ان میں سے کچھ کوشش کے بعد تعلیم حاصل کرسکتی ہیں۔ کوشش کے بعد ان میں سے کچھ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ استعمال کرسکتی ہیں۔ان کی شادی ہم عمرکزن سے ہوگی۔ جو ان ہی کی طرح تعلیم یافتہ بھی ہوگا۔ نتیجہ یہ ہے کہ ان کے لیے زندگی ذرا اچھی ہے“۔
” مگر ان کے دوسرے مسئلے وہی ہیں جس کا شکار ہر پختون عورت ہے“۔
ابا جان نے سعدیہ سے پوچھا کہ کیا اب تم کواس مسئلے کا جواب معلوم ہوا؟ [/list]

Posted: Fri Nov 14, 2008 2:37 am
by سیدتفسیراحمد
[list]سعدیہ نے کہا ہاں ہم کو پختون تعلیم یافتہ لڑکیوں کوخود مختار کرنا ہوگا۔
اماں جان نے اپنے نوٹس میں دوسرے پوائنٹ کا اضافہ کیا۔
1۔ اس ظلم کو جو پختون مرد، آٹھ ملین پختون عورتوں پر رسم و رواج کے نام پر کر رہے ہیں تعلیم یافتہ پختون لڑکیوں کو ختم کرنا ہوگا۔
2۔ ہم کو پختون تعلیم یافتہ لڑکیوں کوخود مختار بنانا ہوگا۔
میں نے ہنس کر سعدیہ سے پوچھا۔” لڑکیوں کو خود مختارکرنے کا مطلب ہوا کہ مردوں کی کِشتی ڈوب جاۓگی“۔
سعدیہ نےماں سے کہا۔” اماں میں نے کہا تھا نا آپ سے کہ میرے بھائ جان بالکل بدھو ہیں۔ آپ اب خود سے دیکھ لیں“۔
اماں جان نے توجہ کومسئلہ کی طرف لاتے ہوۓ کہا۔
” اختیاری ، اخذ کی ہوئ چیزوں پر احتراز کرتی ہے۔
اختیاری بنیادی ، امرِ قیاسی، طاقت، ا مداد ، حصول اورکامیابی کے بارے میں ہماری راۓ کو بدلتی ہے۔
اختیاری کے حاصل کرنے سے مرد اور عورت کے درمیان ’ توازنِ طاقت‘ برابر ہوجاتا ہے اور عورت کی ’ قوت‘ بڑھتی ہے۔
اباجان نے کہا۔ اختیاری دو درجوں پر کام کرتی ہے۔ انفرادی اور مجموعی۔
انفرادی اختیاری، پختون عورتوں کو خود اعتمادی د ےگی۔
مجموعی اختیاری، پختون عورت کو پختونخواہ میں ایک سیاسی قوت بنا ۓ گی۔پختون عورتوں کواپنے شعور کو بلند کرنا ہوگا ۔اجتماعیت سیکھنی ہوگی۔ منظّم ہونا ہوگا۔
اماں نے اپنے نوٹس میں تیسرے اور چوتھے پوائنٹ کا اضافہ کیا۔
1۔ پختون تعلیم یافتہ لڑکیوں کووہ ظلم ختم کرنا ہوگا جو پختون مرد آٹھ میلین پختون عورتوں کے اوپر رسم و رواج کے نام پہ کر رہے ہیں۔
2۔ پختون تعلیم یافتہ لڑکیوں کو خود مختار بنانا ہوگا۔
3۔ انفرادی طو رپر پختون عورتوں کو خود اعتمادی پیدا کرنی ہوگی مجموعی طور پر پختون عورت کو پختونخواہ میں ایک سیاسی قوت بنانا ہوگا۔
4۔ پختون تعلیم یافتہ لڑکیوں کواپنے شعور کو بلند کرناہوگا۔ منظّم ہونا ہوگا۔
ماں نے کہا مجھے معاشی فلاح و بہبود کا تجربہ ہے۔ پختونخواہ کی تاریخ اور رسم و رواج سے واقف ہوں۔ اسلام کے اصول ، فقہ اور حدیث، اسلام کے بہبود کے ادارے ، سیاست، سائکولوجی، تعلیم سے بھی وا قفیت ہے۔ [/list]

Posted: Fri Nov 14, 2008 2:38 am
by سیدتفسیراحمد
[list]سعدیہ نے کہا۔ میں گل کے سپاہیوں کی سردارنی ہوں۔ میں خان زادیوں اور ملک زادیوں کا ذریعہ اور وسیلہ ہوں۔
اور تم بھائ جان؟
” میری قابلیت کمپیوٹر کا استعمال ہے گراس رُوٹ اورگینیشن بنانے میں ہے۔اور میں تمہارا اکلوتا "سکینڈ اِن کمانڈ" ہوں“۔ میں نے ہنستے ہوۓ کہا۔
” وہ کیوں بھیا؟“
” میں اس خان زادی سے پھر ملنا چاہتا ہوں“۔
” ہاں آپ کے خوابوں میں وہ بھی شاید“۔ سعدیہ نے قہقہہ ما رکر کہا۔
ابا جان نے کہا کہ میں’ کامیابی کے اصول‘ سے شروع کروں گا۔

” سوچ
کے ساتھ
مقصدِ مقرر،
قائم مزاجی
اور
خواہشِ شدید
کو
شامل
کریں توا ِسکا نتیجہ
مکمل کامیابی
ہوتا ہے-

کامیابی کے عناصر :
یقین کا مل ،
تعلیم خصوصی ،
تصور ،
منظم منصوبہ بندی ،
فیصلہ ،
ماسٹر ماینڈ
ہیں
ہمارا پہلا اجتماع” سوچ” سے مطالق ہے ۔
اور ان اصولوں کا ایک ایک کر کے جائزہ لینا شروع کریں گے“ ۔ ابا جان نے کہا ۔
ہم لوگ کھا نے کے وقت ملیں گئے ۔[/list]

Posted: Fri Nov 14, 2008 2:40 am
by سیدتفسیراحمد
4 ۔ سوچ ایک طریقہ ہے
[list]
کھانے کے بعد ہم سب کتب خانہ میں جمع ہوۓ۔
اباجان اور اماں جان اپنی پسندیدہ آرام دہ کرسی پر بیٹھ گۓ۔ میں نے اور سعدیہ نےصوفہ کا رخ کیا۔
جب ہم سب لوگ آرام سے بیٹھ گۓ تو اباجان نے مجھ سے کہا۔ ” ایسا لگتا ہے کہ تم اور تمہاری بہن اتفاقاً اس مسئلہ سے آگاہ ہوۓ جس نے تم کو ذہنی اور جذباتی طور پر دُکھ دیا ہے۔اوراب تمہاری بہن مسئلے کوحل کرنے کی ابتداء کرنا چاہتی ہے۔ سکینہ جب تم سے مخاطب ہوئ تو وہ جانتی تھی کہ اس مسئلے کو جاننے کے بعد تم اس سے جدا نہ ہوسکو گے۔کیا حقیقت میں یہ ایک اتفاق تھا؟ میں تم کو اس کا خود فصیلہ کرنےدوں گا۔ میرا کام اب یہ ہے کہ تم کو بتاؤں کہ وہ کیاخصوصیات ہیں جو ایک شخص استعمال کرکے ہرمشکل میں اپنا راستہ دیکھ سکتا ہے اور وہ زندگی کی تمام مشکلات کو عبورکرکے اپنےعزیزخوابوں کو پورا کرتا ہے۔ جبکہ دوسرا شخص تمام کوششوں کے باوجود ناکام ہو جاتا ہے“۔
کمرے میں مکمل خاموشی تھی۔ اس خاموشی میں اپنے سانس کو سن رہا تھا۔
” سوچ ایک خیال ہے۔ جب اس سوچ میں مقصدِ مقرر ، قائم مزاجی اورخواہشِ شدید کو شامل کریں تو اس کا نتیجہ مکمل کامیابی ہے“۔ ابا جان نے کہا۔
” دماغ جو سوچتا ہے اوراُس سوچ پریقین رکھتا ہے تو دماغ اس سو چ کا وسیلہ حاصل کر لیتا ہے“۔
سعدیہ اٹھ کراباجان کے پاس گئ اوراُن کےگلے میں باہیں ڈال کرکہا۔
” اباجان آپ میری زبان میں بولیں نا۔ مجھ کوالفاظ تو سمجھ میں آگۓ لیکن معنی سمجھ نہیں آۓ“۔ [/list]

Posted: Fri Nov 14, 2008 2:41 am
by سیدتفسیراحمد
[list]اباجان نے کہا”تم یہاں میرے پاس بیٹھواور غور سے سنو“۔
بجلی کے بلب کا نام لو تو فوراً ایڈیسن کا خیال آتا ہے۔ایڈیسن کا کاروبار بہت بڑا تھا، ایڈیسن نے ہزارہا چیزیں ایجاد کیں۔ ان میں سے ایک ڈیکٹاٹینگ کی مشین بھی ہے۔
ایڈوین۔سی۔بارنیس ایک معمولی شخص تھا۔ اس کی آرزو تھی کہ ایڈیسن کے کاروبار کا حصہ دار ہوجاۓ۔ اس کی خواہش شدیداورمقررتھی۔ جب یہ خواہش، سوچ میں تبدیل ہوئ تواس کو دو مشکلات نظرآئیں۔ ایک اس کے پاس ریل کے ٹکٹ کوخریدنے کے پیسے نہ تھے۔ دوسرے وہ ایڈیسن کونہیں جانتا تھا۔لیکن نہ صرف اس نے کسی نہ کسی طریقے سے ریل کا ٹکٹ خریدا بلکہ وہ ایڈیسن کے آفس میں پہنچ گیا۔
” میں آپکا شریکِ کاروبار بننا چاہتا ہوں“۔ بارنیس بولا۔
ایڈیسن نے ایک غیراہم شخص کو اپنے سامنے دیکھا۔ ایڈیسن عالم اور تجربہ کار تھا۔ اس نےدیکھا کہ بارنیس اپنےارادے کا پکا ہے۔اور یہ آسانی سے نہیں جاۓ گا اوراس وقت بارنیس اس قابل نہیں جو وہ چاہتا ہے۔ ایڈیسن نے بارنیس کو اپنے آفس میں ایک معمولی سی نوکری دے دی۔ کئ سال گزرے، بارنیس آفس میں سیلزمین کی باتیں سنتا اور اس سے سیکھتا تھا۔
جب ایڈیسن نے ڈیکٹاٹینگ مشین ایجاد کی۔تواس کے سلیزمین پُرجوش نہیں تھے ان کاخیال تھا کہ لوگ اس میں دلچسپی نہیں لیں گے اوراس کونہیں خریدیں گے۔ انہوں نے ڈیکٹاٹینگ مشین کو بیچنے میں بالکل دلچپسی نہ لی۔
بارنیس نے ایڈیسن سے درخواست کی وہ اس ڈیکٹاٹینگ مشین کو بیچنے کا کام کرنا چاہتا ہے۔ دوسرے تیار نہ تھے تو ایڈیسن نے بارنیس کو اجازت دے دی۔ بارنیس نے اپنی جان کی بازی لگادی اور ان اصولوں کو استعمال کیا جو اس نےاس آفس میں سنے اور سیکھے تھے۔ وہ کامیاب ہوا ، ایڈیسن نے اس کو پورے امریکہ میں ڈیکٹاٹینگ مشین کے کاروبار کا شریکِِ کار بنا لیا۔
” بیٹا سعدیہ۔ بارنیس ایڈیسن کا شریکِ کاروبار بننے میں کیوں کامیاب ہوا؟“ [/list]

Posted: Fri Nov 14, 2008 2:41 am
by سیدتفسیراحمد
[list]سعدیہ کہا”۔ اباجان اگر آپ نے مجھ کواس طرح پہلے بتایا ہوتا تو سمجھ گئ ہوتی۔ یہ تو بالکل صاف معاملہ ہے۔ بارنیس کی یہ خواہش کہ و ہ ایڈیسن کا شریکِ کاروبار بنے خواہشِ مقرر اور شدید تھی۔ وہ مستقل مزاجی اور اصرارِمسلسل سے اس لگن کو مکمل کرنےمیں لگا رہا۔ اس نے یہ نہیں سوچا کہ میں نہ تو انجینئیر ہوں اور نہ ہی میرے پاس شریکِ کاروبار بننے کے لیے سرمایہ ہے اور نہ ہی بیچنے کی تربیت ہے۔ اُس کو یہ لگن تھی کہ وہ ایڈیسن کا شریکِ کاروبار بنے“۔
اباجان نے مجھ سے پوچھا“۔ تمہارا کیا خیال ہے؟
” میرا خیال ہے کہ سعدیہ صحیح سمجھی۔اس سے ہم یہ سبق سیکھتے ہیں کہ خیالات کےغیرمحسوس بہاؤ کو مادی فائدے یا نتیجہ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے“۔
سعدیہ چلائ۔” اباجان میں نے یہ تو نہیں کہا۔ کیا میں نے یہ کہا ماں ؟“
ماں نے کہا۔ ” تم دونوں نے اس بات کو مختلف طر یقے سے دہرایا ہے۔ لیکن تم دونوں نے سمجھا ایک ہی طرح سے ہے۔ تم نے کہا خواہش۔ بھائ نے کہا غیرمحسوس خیال۔ تم نے کہا شدّت۔ بھائ نے کہا بہاؤ۔ تم نے کہا لگن۔ بھائ نے کہا فائدے یا نتیجہ “۔
” اب سوال یہ ہے کہ خیالات کے غیر محسوس بہاؤ یا خواہش کو ایک فائدے یا نتیجہ میں کس طرح تبدیل کیا جاسکتا ہے؟“۔
” اماں ہم کیوں نا اس گفتگو کو صبع ناشتہ پر جاری رکھیں۔ مجھے میری فرینڈ جنیفرکے ساتھ ایک فلم دیکھنا ہے“۔ سعدیہ نے ماں سے گزارش کی۔
ابا جان نے مسکرا کر کہا“۔ ٹھیک ہے“۔
” اچھا۔ لیکن جانے سے پہلے یہ بتاؤکہ سوچ کیاہے؟
” سوچ ایک خیال ہے اگر طریقۂ سوچ ، مقررمقصد ، قائم مزاجی اور شدیدخواہش کو یک جا کردیں تو اس کا نتیجہ کامیابی ہے“۔
” یہ میری بیٹی ہے“۔ اباجان نے فخرسے کہا۔[/list]

Posted: Fri Nov 14, 2008 2:43 am
by سیدتفسیراحمد
[list]5 ۔ خواہش

پاول گیٹی ، ایک بہت بڑی تیل کی کمپنی کا مالک تھا۔اس کی وفات اُنیس سوچھہتر میں ہوئی۔ وہ دنیا کے بڑے امیرلوگوں میں سے تھا۔ وہ ایک ہمدردِ بنی نوعِ انسان ( فیلانتھروفیسٹ) بھی تھا۔ اس نے کروڑوں ڈالر انسان کی فلاح و بہبود کے لیے دۓ۔ سانتامونیکا کے پہاڑوں میں گیٹی میوزیم ایک پہاڑی کے اوپر واقع ہے۔ ملاقاتی اس جگہ سے لاس اینجلس کے مختلف روپ دیکھ سکتا ہے۔ بحرالکاہل ، سان گِبرئل کے پہاڑ ، لاس اینجلس شہر کی شاہراہیں اور یونیورسٹی آف کیلی فورنیا ایٹ لاس اینجلس (اُکلا)۔ جب آپ پہاڑی کے نیچے پہنچتے ہیں تو دو کمپیوٹر کنٹرولڈ ٹرام اُوپر لے جانے کے لیے منتظر ہوتے ہیں۔ اوپری سطح پر سولہ ٹن کا ’ ٹراورٹین‘ کا پتھر ہے۔ یہ خاص طور سے اٹلی سے منگوایا گیا ہے۔ سیدھے ہاتھ پر ریسٹورانٹ ہے اور سامنے ’ برآمدہ ‘ ہے اس برآمدے سےگزرکر آپ کُھلےاحاطہ میں پہنچتے ہیں آپ کے سامنے وسطی باغ ہے۔ الٹے ہاتھ پرمیوزیم اور اس کے برابر میں ایگزیبیشن ہال ہے۔ سیدھے ہاتھ پر ریسرچ انسٹیٹیوٹ ہے۔ گیٹی میوزیم کے بنانے کی قیمت ایک ِبلیین ڈالر سے ذیادہ ہے۔ گیٹی میوزیم میں بیسویں صدی سے پہلے کی یورپی مصوری، ڈرائنگ، مصودہ ( مصودہ لفظ سمجھ نہیں آیا کہ اس سے کیا مراد ہے۔ جویریہ)، مجسمے اور امریکہ کے اُنیسویں اور بِیسویں صدی کے فوٹوگراف ہیں۔آج یہاں رمبرانٹ کے ‘ آخری مذہبی صورتیں‘ کی نمائش لگی تھی۔
” ہم آج گیٹی کے میوزیم کو دیکھیں گے“۔ سعدیہ نے کہا۔
سعدیہ تم بھول گئیں کہ اباجان ہم سے ’ مقصد حاصل کرنے کے اصول‘ کے دوسرے قدم کا تذکرہ کرنے والے ہیں؟
ماں نے کہا۔ ”اور ناشتہ کا کیا ہوگا؟“
سعدیہ بولی۔ " اماں میں نے اس مسئلہ کوحل کرلیا"۔
” وہ کیسے؟“ ماں چونک گئ۔ [/list]

Posted: Fri Nov 14, 2008 2:45 am
by سیدتفسیراحمد
[list]” ہم گیٹی کی میوزیم میں جائیں گے وہاں ایک ریسٹورانٹ ہے جہاں پر آپ تیار کیا ہوا ناشتہ ڈبوں میں لے سکتے ہیں۔ وہاں ایک پکنک کی جگہ ہے۔ جہاں آپ تالاب کے نزدیک بیٹھ کر ناشتہ کر سکتے ہیں۔ وہ جگہ پُرسکون ہے اور آپ بیٹھ کر باتیں بھی کرسکتے ہیں“۔
اباجان نے سعدیہ سے پوچھا۔” تم آج ضرور جاناچاہتی ہو۔ یا تمہاری خواہش ہے کہ آج جاؤ۔ یا صرف یہ اچھا ہوتا کہ آج تم جاتیں“۔
سعدیہ بڑی ہوشیار ہے۔ وہ سمجھ گئ کہ اباجان اس کی مدد کرنے کے لیے تیار ہیں۔
سعدیہ نے کہا ـ” ابا جان میں آج ضرور جانا چاہتی ہوں“۔
اباجان نے میری طرف دیکھا اور کہا سعدیہ نے’ آرزو‘ اور’ خواہش‘ کے بجاۓ ’ چاہنا ‘ کیوں استعمال کیا۔ میں نے کہا۔ اگر ہم ان الفاظ کو ’ ضرورت‘ اور ’ مقصد‘ کے لحاظ سے دیکھیں تو سب سے چھوٹا درجہ آرزو کو دیں گے۔آرزو سب سے کمزور ہے اور چاہت سب سے مضبوط ۔ چاہت کے لیے جس چیز کی کمی ہوتی ہے، اس چیز کو حاصل کرنے کی لگن۔ انسان کے دل میں کوئ چیز ہے جو اس چاہت کو حاصل کرنے کے لیے اُ کساتی ہے۔
اباجان نے ہنس کرکہا۔” بیٹا تم صحیح کہتے ہو“۔
میں نے سعدیہ کا جملہ دُہرایا۔” اباجان میں آج ضرور جانا چاہتی ہوں“۔
سعدیہ نے اس جملے میں دوا لفاظ ایسے استمال کیے ہیں جو اس کے ارادہ کومقرر اور شدید کرتے ہیں۔
” سعدیہ بیٹا وہ کیا ہیں؟“
” آج اور ضرور“ سعدیہ نے کہا۔
سعدیہ کیا چا ہتی ہے؟
گیٹی کے میوزیم میں جانا۔
کب جانا چاہتی ہو؟ “
” آج“
”اس چاہت کو کونسا لفظ "شدید" کرتا ہے؟“
” ضرور“
[/list]

Posted: Fri Nov 14, 2008 2:46 am
by سیدتفسیراحمد
  • اباجان نے کہا۔ ”میں تم کو اب ایک سچی کہانی سناتا ہوں“۔
    بہت عرصہ پہلے ایک مشہور مسلمان سپہ سالارکو ایک مشکل فیصلہ کرنا پڑا جو اس کو جنگ میں کامیاب کردےگا۔ وہ اپنی فوجوں کوایک ایسے دشمن سے لڑنے کے لیے لے جا رہا تھا جس کی فوجیں تعداد میں اس کی فوجوں سے کئ گنا بڑی تھیں۔ اُس نے اپنے سپاہیوں کوکشتیوں میں سوار کیا اورکشتیوں کو اسلحہ سے لاد دیا۔ جب وہ دشمن کے ملک پہنچا تواس نے کشتیاں جلانے کا حکم دے دیا جو ان سپاہیوں کووہاں لائ تھیں۔اُس نے اپنے بہادروں سے کہا۔ ” تم اُن کشتیوں کو جلتا دیکھتے ہو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس جنگ کو جیتے بغیر ہم زندہ واپس نہیں جا سکتے۔ جیتو یا مرجاؤ“ ـ سپہ سالارطارق بن زیاد کواسپین فتح کرنے میں کامیابی ہوئ۔
    ماں نے کہا”سعدیہ بیٹی کامیابی کی کنجی کیا ہے؟“
    سعدیہ جلدی سے بولی”۔ میں نے ابھی تو ابو کے سوال کا جواب دیا تھا۔ اب تو بھیا کی باری ہے“۔
    ” سعدیہ کو اس سوال کا جواب نہیں پتہ“۔میں نے قہقہہ لگایا۔
    ” سوچ، مقرر، شدت“۔ سعدیہ نے اپنے کانوں کو پکڑ کر مجھے اپنی لمبی زبان دکھائ۔
    جوکھوں اور عزیمت کے ارادوں میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو اپنی کشتی کوجلادیتے ہیں۔اس کشتی کو جلانے کے عمل سے دماغ کو روحانی کیفیت ملتی ہے یہ کیفیت جیتنے کی چاہت پیدا کرتی ہے جوکہ کامیابی کے لیے بہت ضروری ہے۔
    ” جیتنے والا منزلِ مراد ( definiteness of purpose) عزمِ عالی شان ( burning desire ) اور مکمل علمِ چاہت (knowledge of what one wants ) کی خصوصیات کا مالک ہوتا ہے“۔

Posted: Fri Nov 14, 2008 2:48 am
by سیدتفسیراحمد
[list]یقین و ایمان

“ ایمان تم جنت میں لے جائےگا اورایمانِ کامل جنت کو تمہارے پاس لائے گا” ۔

ہم لوگ Self Realization Fellow Ship at Lake Shrine کے باغیچے میں بیٹھے تھے۔ یہ
Pacific Coast Highway and Sunset Blvd کےکونے پر واقع ہے۔1950 میں پاراماہانس یوگاندا نے اسے شروع کیا۔ ہر روز لوگ اس خوبصورت سینکچوری کی زیارت کرنے آتے ہیں۔اس دس ایکڑ کے باغیچے میں ایک قدرتی چشمے سے بنی ہوئ جھیل ہے جس کے تین طرف اونچے پہاڑ ہیں۔ اس میں راج ہنس (سوان) اور بطخیں تیرتی ہیں اور کنول کے پھول کھلتے ہیں۔ایک حصے میں دنیا کے اولین مذاہب کے احترام میں ا یک کورٹ بنایا گیا ہے۔ جس میں ہندو، بدھ ، یہودیت ، عیسایت، اور اسلام کی یادگاریں ہیں۔ ایک چھوٹی جگہ میں گاندھی کی متبرک راکھ بھی رکھی ہے۔
ہم نے ایک الگ سی جگہ تلاش کی اور چادر بچھا کر بیٹھ گۓ۔ سعدیہ کو اس جگہ سے بہت محبت ہے اور جب کبھی بھی ہم آۓ وہ ہمیشہ ماں سے ان کی شادی کا قصہ سننے پر اصرارکرتی ہے۔
” جب آپ پہنچیں تواباجان باہر پارکینگ لاٹ میں کھڑ ے آپ کا انتظار کررہے تھے“۔ سادہ نے پرجوش ہوکر کہا۔
ماں نے مسکرا کر کہا۔
” ہاں“۔
” اورانہوں نے آپ پر پروگرام تبدیل کروادیا جب کہ آپ اس سفید کشتی میں بیٹھ کریہاں آنا چاہتی تھیں۔
” ہاں“۔ ماں نے ہنس کر کہا۔
” ابا جان کو آپ کا انتظار یہاں کرنا تھا“۔
” ہاں“۔ ماں نے ہنس کر کہا۔
” ماں آپ نے سنہرے گنبد کے نیچے اس سفید محراب کے سامنے کھڑے ہوکر اباجان سے ساری زندگی ساتھ دینے کا وعدہ کیا“۔
” ہاں“۔ ماں نے کہا۔
” اور آپ چوبیس سال کی تھیں“۔ سعدیہ نے جوش میں کہا۔
” ہاں“۔ ماں نے کہا۔
” ماں۔ میں بہت خوش ہوں کہ آپ کو اباجان سے محبت ہوگی اور ان کو آپ سے“۔
” میں بھی“۔ماں نے کہا۔
[/list]

Posted: Fri Nov 14, 2008 2:49 am
by سیدتفسیراحمد
  • ” ابا جان۔ میں بہت خوش ہوں کہ آپ کو اماں سے محبت ہوگی اور ان کو آپ سے”۔
    ” ہاں بیٹا، میں بھی“۔اباجان نے ہنس کر کہا۔
    سعدیہ نے وہی جملے دُہراۓ جو کہ اس نے دسیوں دفعہ پہلے بھی دہراۓ تھے۔
    ماں اور سعدیہ نے پکنک کا باکس نکال کر کھانا میز پوش پر لگانا شروع کیا۔
    میں اور اباجان جھیل کے کنارے پر چہل قدمی کرنے لگے۔
    کھانے کے بعد اباجان نے کہا اب ہم اب ’ یقینِ کامل ‘ کا ذکر کریں گے۔
    ” یقینِ کامل دماغ کا کیمیاگر ہے۔ جب یقینِ کامل اورسوچ کی آمیزش ہوتی ہے۔ تو تحت الشعور ان کے مضطرب ہونے کو محسوس کر لیتا ہے اور اس کو روحانی برابری میں تبدیل کر دیتا ہے۔اور اس کو لا محدود حکمت میں منتقل کردیتا ہے۔ جس طرح کہ عملِ دعا ہے۔
    تمام جذبات جو انسان کو فائدہ پہنچاتے ہیں ان میں یقین، لگن اور ہم آغوشئ جذبات سب سے ذیادہ طاقتور ہیں۔ جب یہ تین ملتے ہیں تو خیالات کو اس طرح رنگ دیتے ہیں کہ خیالات ایک دم سے تحت الشعور میں پہنچ کر لامحدود حکمت سے جواب لاتے ہیں۔ ایمان ایک ایسی دماغی کیفیت ہے جو کہ لامحدود حکمت کو جواب دینے کی ترغیب دیتی ہے”۔ اباجان نے کہا۔
    ” اباجان ، میں تو صرف 15 سال کی ہوں۔ آپ مجھ سے اردو میں بولیں نا۔ یہ تو یونانی معلوم ہوتی ہے۔ ہے نا بھیا“۔سعدیہ بولی۔
    ” ہاں اباجان۔ سعدیہ صحیح کہتی ہے“۔ میں نے ماں کی طرف دیکھا۔ ماں نے میرا ساتھ دیا۔
    اماں جان نے ہنس کر ابو سے کہا۔” بچوں کو کیوں ڈرا رہے ہو؟“
    ” تم ان سے یہ کیوں نہیں کہتے کہ ایمان ایک ایسا جذبہ ہے جس کو ایک ایسی دماغ اغرق ہو نے کی کیفیت کہہ سکتے ہیں جو ہم اظہار حلقی کے دہرانے سے پیدا کرسکتے ہیں”۔
    ماں نے ہماری سمجھ کو سلجھانےکی ناکام کوشش کی۔
    ” بھائ جان، مدد یہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں“۔ سعدیہ نے مجھ سے ہاتھ جوڑ کر کہا۔
    میں نے کہا۔” ماں نے بتایا نا“۔
    ” ماں نے بتایا نا“۔ سعدیہ نے میری نقل اُتاری اور مجھےگھاس پردھکا دے دیا۔

Posted: Fri Nov 14, 2008 2:50 am
by سیدتفسیراحمد
[list]” اچھا، اچھا۔ میں بتاتا ہوں“۔ اباجان نے کہا۔
” تبسم، تمہاری سہیلی پانچ وقت کی نماز پڑھتی ہے اور ہر نماز کا اختتام اللہ سے دعا مانگنے پر کرتی ہے”۔
” یہ تو مجھے پتہ ہے اور وہ ایک نیک مسلمان ہونے کی دعا مانگتی ہے۔ تو! “۔ سعدیہ نے حیرت سے کہا۔
” کیوں؟“ اباجان نے سعدیہ سے پوچھا۔
سعدیہ کے دماغ میں بجلی کی طرح خیال پیدا ہوا“۔ اقرار آرزو سے ایمان، اظہارحلقی۔وہ اپنے آپ سے ایک نیک مسلمان بننے کا اقرار کرتی ہے اور کم از کم دن میں پانچ دفعہ اس اقرار کو دہراتی ہے“۔
اباجان اگرآپ نے پہلے ہی تبسم کی بات کی ہوتی تو میں جلدی سمجھ جاتی۔
میں نے کہا " امی سعدیہ کو سیدھی سی بات کو سمجھنے میں بڑی دیر لگتی ہے"۔
سعدیہ نے ہاتھ بڑھا کر میرے بازو میں زبردست چٹکی لی۔" ہمholy shrine میں تھے۔ میں نے اپنی چیخ کو روک لیا" ۔
ابا جان نے کہا”۔” اگر آپ کسی بات کو بار بار دُہرائیں تو تحت الشعور اس پر یقین کرنے لگتا ہے“۔
سوچ کا جذباتی حصہ (ایمان و یقین) ، سوچ کو زندگی بخشتا ہے اور اس پرعمل کرنے پر اکساتا ہے۔یقین اور لگن کے جذبات یکجا ہوکرسوچ کو بہت بڑی قوت بنا دیتے ہیں۔
کسی چیز کو حاصل کرنے میں کامیابی کا پہلااصول اس چیز کی زبردست خواہش اور دوسرا اصول اپنی کامیابی کا یقین ہونا ہے۔[/list]

Posted: Fri Nov 14, 2008 2:52 am
by سیدتفسیراحمد
[list]آٹوسجیشن
سعدیہ بہت دنو ں سے کیلیفورنیا سائنس سینٹر جانا چاہتی تھی تاکہ وہ انسان کا اندرونی جسم3 ڈی فلم ایمیکس کے تھیٹرمیں دیکھے۔ ہم دونوں نے ہفتہ کو جانے کا پروگرام بنایا۔ امی اور اباجان کو ایکfund raising میں جانا تھا۔ ہم سب نے دوپہر کے کھانے پر ملنے کا پروگرام بنایا۔
یہ فلم زندگی کی حیرت انگیز کہانی دکھاتی ہے۔ جو اندرونی کام ، بلا ارادہ انسانی جسم میں ہر وقت جاری رہتے ہیں ان کی تفصیل عجیب اور خوبصورت انداز سے دکھاتی ہے۔
explotorium میں سینکڑوںexhibits دیکھنے کے قابل ہیں۔کھانے کا وقت قریب ہو رہا تھا۔ ہم نے سوچا کہ دوپہر کے کھانے کے بعد دو بارہ آکر دیکھیں گے۔ لیکن ایک اکزی بیٹ پر میری نظر پڑی اور میں نے سعدیہ کی توجہ اس طرف کی۔ دو اسپیکر پر دو مختلف گانے ایک ہی وقت میں بج رہے تھے اور گانے کی آواز ایک سیدھے ہاتھ کے اسپیکر سے آتی تھی اوردوسرے گانے کی آواز اُلٹے ہاتھ کے اسپیکر سے آتی تھی۔ جب آپ سیدھے ہاتھ کے اسپیکر کی طرف دیکھتے تو الٹے ہاتھ والے اسپیکر کا گانا پس منظر میں چلاجاتا۔ جب آپ الٹے ہاتھ والے اسپیکر کو دیکھتے تونے کی آواز اُلٹے ہاتھ کے اسپیکر سے آتی تھی۔
” بھیا یہ جادو کی طرح ہے نا“۔ سعدیہ نے حیرت سے کہا۔
میں نے سعدیہ سے مذاق میں کہا۔ " یہاں اگر کوئ میرا دوست اتفاق سے مل جاۓ تو اس کو کو مت بتانا کہ تو میری بہن ہے“ ـ
” وہ کیوں بھائ جان“۔ سعدیہ نے بڑی مصومیت سے پوچھا۔
دل نے کہا خاموش، دماغ نے کہا موقع اچھا ہے۔ میں نے سعدیہ کے ہاتھ کے پہنچ سے دور ہوکر کہا۔
” کیوں کہ تو بیوقوف اور ایک گدھی ہے“ ـ
سعدیہ نے چٹکی بھرنے کے لیے ہاتھ بڑایا۔ لیکن ہاتھ میری کمرتک نہیں پہونچ سکا۔
” آپ بالکل الّو ہیں۔ میں گھر چل کر ایک ایسی چٹکی ماروں گی کہ آپ کوزندگی بھر یاد رہے گی“۔ میں نے قہقہہ لگا کر کہا۔ جب اتوار کو سب خاندان کے لوگ جمع ہوتے ہیں توہر شخص ایک دوسرے سے باتیں کررہا ہوتا ہے۔جب تم کزِن عایشہ سے ’ فیوزن’ بینڈ کے متعلق باتیں کر رہی ہوتی ہو تو کیا تم کو پتہ ہے کہ تمارے دوسری طرف کھڑے کزِن عمران اور کزِن سونیا کیا باتیں کررہے ہیں؟
[/list]

Posted: Fri Nov 14, 2008 2:54 am
by سیدتفسیراحمد
[list]” اگر میں ان کی طرف دیکھوں تو بتا سکتی ہوں۔ بھائ وہ تو یہی بات ہوئ جو ہم یہاں اسپیکر پر دیکھ رہے ہیں۔ یہ کوئ سمجھانے والا تو جواب نہیں ہوا۔ اب نہ صرف آپ الّو ہیں لیکن اب یہ بھی ثابت ہوگیا کی آپ گدھے بھی ہیں۔ یہاں اگر اتفاق سے میر ی کوئ سیہلی مل جاۓ تو دور چلے جایےگا۔ ورنہ مجھے تعارف کرانا پڑجاۓگا“۔
” کیوں کیا تم اپنی سیہلی کا دنیا کے سب سے شکیل و جمیل، چنچل، فیاض، میٹھی باتیں کرنے والا اور ابھی تک غیرشادی شدہ بندے سے تعارف نہیں کراوگی؟“
” جی میں ان کو یہ سب بتاؤں گی اوراس تعریف کو اس طرح مکمل کروں گی کہ میرا بھائ نہ صرف الّو ہے بلکہ گدھا بھی ہے“۔ سعدیہ نے پیار سے کہا۔
” میری پگلی، دماغ ان آوازوں کو علیحدہ کرتا ہے۔ کان نہیں۔ لیکن سائنس نےاس کی میکانیت کو اب تک مکمل طور پر نہیں جانا ہے“۔
سعدیہ نے کہا”۔ بھیا۔ سچ بتائیں کیا آپ کو یہ جواب پتہ تھا؟“۔
میں نے ہنس کر کہا”۔ نہیں ، میں یہاں آنے سے پہلے اس نمائش کے بارے میں پڑھا تھا“۔
” بھائ جان آپ نہ صرف الّو اور گدھے ہیں لیکن بدھو بھی ہیں“۔
” وہ کیوں“۔ میں نےحیرت سے کہا۔
” اس لیے کہ میں آپ کی قابلیت سے متاثر ہوچکی تھی“۔
” میں نے کہامجھے یہ پتہ ہے تجھ کو متاثر کرنے کے لیے مجھےکچھ بھی نہں چاہیے اگر میں دنیا کا سب سے بڑا بے وقوف انسان بھی ہوتا تب بھی تو مجھ سے یہی کہتی کہ دنیا میں آپ سے بڑھ کر کوئ نہیں“۔
” بھائ جان۔ آپ کے خوابوں میں“۔ سعدیہ نے زبان د کھا کرکہا اور مجھ سے لپٹ گئ۔
میں سینکڑوں لوگوں کے درمیان منہ کھولے کھڑا تھا۔
اچانک اماں جان کی آواز آئ ـ اب اس بھائی بہن کی محبت کو ختم کرو۔ تم لوگوں کو بھوک نہں لگی“؟
اباجان نے کھانا منگواتے ہوۓ کہا”۔ آنکھیں ذہنی تصویر بناتی ہیں۔ دماغ سمعی حرکت کو آواز میں تبدیل کرتا ہے۔ اور ناک سے سونگھنا، منہ سے چکھنا اور ہاتھوں سے چھونا سب دماغ کے کام ہیں۔ حواسِ خمسہ سے دماغ کو ہدایات ملتی ہیں اور دماغ ان پر عمل کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں آپ اس کوخود بھی اس طرح کی ہدایات دے سکتے ہیں۔ آٹوسجیشن یا خود کو دئ ہوئ ہدایات بھی دماغ کے اسی حصے میں پہنچتی ہیں جہاں تحت الشعور کے خیالات پر دماغ عمل کرتا ہے“۔
” وہ غلبہ کرنے والے خیالات جن کو آپ شعور(consciousness) میں رہنے کی جان کر اجازت دیتے ہیں خواہ نفیہ negative) ہوں یا اثباتی (positive)، آٹوسجیشن (خود کو ہدایت دینا) کی میکانیت اُن خیالات کو رضا کارانہ طور پرتحت الشعور (sub-consciousness) میں جانے دیتی ہے۔ اللہ تعالٰی نے انسان کو ان خیالات پرمکمل اختیار دیا ہے۔ یہ انسان پر ہے کہ انسان اس کو اچھے کاموں کے لیے یا بُرے کاموں کے لیے استعمال کرے۔[/list]

Posted: Fri Nov 14, 2008 2:54 am
by سیدتفسیراحمد
[list] اگر آپ کی کوئ خواہش ہے توانتظار نہ کریں کہ جب میرے پاس مکمل معلومات اور ذرائع ہوں گے تب ہی میں اس کام کو شروع کروں گا۔ اس کے حل کو تحت الشعور سے طلب کریں اور امید رکھیں کہ جواب آپ کے ذہن میں ایک بجلی کی طرح چھٹی حس کی وجہ سے چمکے گا۔ اس کو شاعر آمد، صوفی روحانی خیال اور خدا پرست آوازِ غیب کہتے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے ہر بدبختی، کم بختی ، آفت ، مصیبت ، نحوست کا علاج اس کے ساتھ بھیجا ہے“۔
اباجان نے ہم سے سوال کیا۔” اللہ تعالٰی نے ہر انسان کوکتنے دماغ عطا کیے ہیں“؟
سعدیہ نے کہا۔” ایک۔ اللہ تعالٰی نے ہر انسان کوایک دماغ دیا ہے“۔
میں بولا۔ ” لیکن دماغ کو علمِ نفسیات میں کاموں کے لحاظ سے تین حصوں میں بانٹاگیا ہے۔
شعور، تحت الشعور اور لا شعور“۔
” تو ہم ان دماغ کے مختلف حصوں کو کس طرح اپنی کامیابی لیے استعمال کرتے ہیں؟“
” سوچ + مقرر مقصد + قائم مزاجی + شدیدخواہش = کامیابئ مکمل”سعدیہ نے جواب دیا۔
” آٹوسجیشن کے استعمال سے کیا فائدہ ہوتا ہے؟” اباجان نے مجھ سے پوچھا۔
آٹوسجیشن کا استعمال ان خیالوں جن کو آپ شدت سے چاہتے ہیں، شعور سے تحت الشعور میں رضاکارانہ طور پر پہہنچا دیتا ہے“
خواہش < -- شدت < -- شدیدخواہش
(شعور) < -- ( آٹوسجیشن ) < -- ( تحت الشعور )[/list]