20 numbar ka kamal column by zubair ahmed zaheer

اردو نثری قلم پارے اس فورم میں ڈھونڈئے
Post Reply
امکانات
کارکن
کارکن
Posts: 40
Joined: Mon Sep 08, 2008 9:24 pm

20 numbar ka kamal column by zubair ahmed zaheer

Post by امکانات »

زبیر احمد ظہیر

کیا امتحانی پرچوں کی دوبارہ جانچ پڑتال اور نمبروں میں اضافہ کرایا جاسکتا ہے؟ یہ ناممکن سوال فرح حمید ڈوگر کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے نے ممکن بنا دیا ہے آپ اس معاملے کو سیاست کے ہزار رنگ دیں مگر حقیقت یہ ہے کہ عوامی نوعیت کے فیصلوں کو جتنا بھی تاویلوں کا سہارا دیا جائے عوامی معاملات عوامی ہی رہتے ہیں۔ انہیں خصوصی اور استثنائی نہیں بنایاجاسکتا ۔اگر یہ مان لیا جائے کہ یہ خاص نوعیت کا معاملہ تھا اور یہ فیصلہ عدالتی فیصلوں کی نظیر نہیں بن سکتا تو اس کی خصوصیات گنوانی ہونگی ایک سادہ سا سوال ہے طلبہ کی جانب سے اضافی نمبروں کے لئے عدالتوں میں زیادہ درخواستیں کیوں آنا شروع ہوئیں۔ اس میں اگر دوچار سیاسی درخواستیں ہونگی مگر ایک دو تو واقعی ایسی ہونگی جنہیں فی الواقع اضافی نمبروں کی ضرورت ہوگی ۔

ہمارے ملک میںگریجویٹ اسمبلی سے لے کر ہر پڑھے لکھے شخص کو یوں مفت میں ملنے والے اضافی نمبروں کی ضرورت ہے درخواستیں دینے والے طلبہ نے دیکھا کہ جب ایک طالبہ کو اجازت مل گئی ہے تو انہوں نے بھی قسمت آزمانے کا فیصلہ کر لیا۔ اب اگر ان تمام درخواستوں کواضافی نمبروں کی اجازت ملنے لگ گئی توامتحانی بورڈ اور عدالتوں میں فرق کرنا مشکل ہوگااگر انہیں اضافی نمبروں نہیں مل پاتے تو قانون کی ساری دلیلوں کے باوجود یہ سوال ہر ذہن میں اٹھتا رہے گا کہ پھر فرح حمید کے اضافی نمبر کیسے درست قرار پائے یہ وہ سارے سوالات ہیں جو عام آدمی کے ذہن میں اُٹھ رہے ہیں ہم اس کیس کے سیاسی پہلو نہیں جانتے، ہم اس فیصلے کے سیاسی فوائد نہیں مانتے ہم تو پاکستان کے تعلیمی نظام کے نقصان کو جانتے ہیں کہ اس معاملے نے پاکستان کے تعلیمی اور امتحانی نظام میں موجودہ دبی ہوئی خامیوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ جس طرح اعلیٰ تعلیم پی ایچ ڈی کی بنیاد نرسری اور پہلی کلاس کی پہلی اینٹ پر استوار ہوتی ہے۔ اس طرح امتحانی نظام میں یونیورسٹی کی ڈاکٹریٹ کی ڈگری تک اعلیٰ تعلیم کی ساری عمارت میٹرک اور انٹر بورڈ کی دیوار پر کھڑی ہوتی ہے جس امتحانی نظام میں ازسرے نو جانچ پڑتا ل کے ذریعے اضافی نمبروں کا معاملہ عدالتوں میں پہنچ جائے اور اسے عدالت سے سند جواز مل جائے کیا اس عمل سے ملک کی اعلیٰ ڈگریوں پر سوالےہ نشان نہیں لگیں گے۔ ملک کی اعلیٰ ڈگریوں کو اس امتحانی نظام کی خامیوں کے الزامات سے کس طرح بچایا جاسکتا ہے ۔

یہ ہمارے تعلیمی ادارے اور یہ ہمارا امتحانی نظام ہمارے وہ اوزار اور ہتھیار ہیں جن کو لے کر ہم دنیا کا مقابلہ کرنے نکلے ہیں۔ اس وقت دنیا میں اعلیٰ تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں کی تعداد17 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ ان سترہ ہزار یونیورسٹیوں میں عالم اسلام کی یونےورسٹیوں کی تعداد پوری ایک ہزار سے بھی نہیں ۔ سپر طاقت امریکہ سمیت غیر مسلم ممالک اس وقت دنیا پر حکومت کر رہے ہےں ۔انکی طاقت کا سارا راز ان 16 ہزارایک سو یونیورسٹیوں کی کارکردگی میں ڈھکا ہوا ہے ۔

عالم اسلام میں اس وقت سب سے زیادہ یونیورسٹیاں انڈونیشیا میں ہیں۔ اس ملک کی آبادی23 کروڑ ہے لہٰذا آبادی کی اس ضرورت پر اس کی یونےورسٹیاں عالم اسلام میں سب سے زیادہ ہیں۔ انڈونیشیامیں یونیورسٹیوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ کوئی خاص ترقی کی دوڑ نہیں بلکہ آبادی کی ضرورت نے ان کی تعداد میں اضافہ کروا دیا۔ یونیورسٹی سٹی کے حوالے سے دنیا میں دو شہروں کو یہ اعزاز حاصل ہے جن میں ایک آکسفرڈ برطانیہ کا شہر ہے اور دوسرا ایران کا شہر قم ہے۔ یونیورسٹی سٹی کہلانے والے یہ دونوں عالمی شہر مذہبی لوگوں نے آباد کیے ہیں یہ بھی حیرت انگیز بات ہے عام طور پر مذہب کو سائنس سے دور سمجھا جاتا ہے مگر دنیا کو علمی شہر دینے والے مذہبی افراد تھے۔ ایران دنیا میں دوسرا ملک ہے جس کے پاس ایسا شہر ہے جسے یونیورسٹی سٹی کا درجہ حاصل ہے۔ یونیورسٹی سٹی کہلانے کے باوجو د عالم اسلام میں یونیورسٹیوں کی تعداد کے لحاظ ایران دوسرے نمبر پر نہیں۔ یہ اعزاز پاکستان کو حاصل ہے اس کی پرائیویٹ اور سرکاری یونیورسٹیوں کی تعداد ایک سو20ہے جن میںنصف سرکاری یونیورسٹیاں ہیں ۔ایرانی یونیورسٹیوں کی کل تعداد 1 سو18 ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب عالم اسلام میں سعودی عرب نے حرمین (مکہ مدینہ) کو یونیورسٹی سٹی کادرجہ دلانے کے لئے تعلیمی اداروں کا جال بچھانا شروع کردیا ہے۔

ہم عالم اسلام میں یونیورسٹیوں کی تعداد میں دوسرے نمبر پر ہونے کے باوجود ہم کسی شہر کو یونیورسٹی سٹی کا درجہ دلانے کی کوشش کرتے یہ خام خیالی رہی ایک طرف۔ اس کی منصوبہ بندی دور دور نظر نہیں آتی مگر ہم نے آگے بڑھنے کی بجائے اپنے امتحانی نظام کی بنیاد کھودنا شروع کر دی ہے اور اضافی نمبر دلانے کی راہیں تلاش کر لی ہیں جس سے ہماری یونیورسٹیوں کی تعداد نے اہمیت کھو دی ہے اور اب ان پر اعتماد بھی سوالیہ نشان بن گیا ہے آج ہم یہ فخر بھی نہیں کرسکتے کہ دنیا کی17 ہزار یونیورسٹیوں میں ایک سو20 ہماری بھی ہیں ۔

ان ایک سو20 یونیورسٹیوں کے آگے ہمارا امتحانی نظام آگیا ہے جس میں حاصل کردہ نمبروں میں کمی یا اضافہ کسی وقت بھی کیاجاسکتا ہے امتحان کا وقت گزرنے پر نمبروں میں کمی یا اضافہ یہ کھلی دھوکہ دہی کے سواءکچھ نہیں۔دکھ یہ نہیں کہ ہم 1 سو20 یونیورسٹیوں کی بنیاد پر کسی شہر کو یونیورسٹی سٹی نہیں بناسکے۔ دکھ یہ ہے کہ ہم ایک سو 20 یونیورسٹیوں کا وقار بھی نہیں بچاسکے یہ ہماری ایک سو20 یونیورسٹیاں بظاہر17 ہزار کے مقابلے میں کچھ نہیں مگر ہمارے لئے یہ ہی یونیورسٹیاں آکسفرڈ بھی ہیں اورہارورڈبھی ہیں۔ یہ ہمارا قومی تعلیمی سرمایہ ہیں اگر ہم آج ایٹمی قوت ہیں اور اگر ڈاکٹر عبدالقدیر ہمارے محسن ہیں تواس اعزاز کی بنیاد ہمارے ان ہی تعلیمی اداروں نے فراہم کی ہے۔ محسن پاکستان کو تعلیمی بنیاداورابتدائی تعلیم ہمارے ان ہی اسکول کالجز سے میسر آئی ۔ اس امتحانی نظام نے انہیں آگے بڑھنے اور بیرون ملک جاکر اعلی تعلیم تک لے جانے میں ابتدائی مدد دی ۔ ہمارے2 لاکھ سرکاری تعلیمی ادارے ہی ہمارا کل قومی تعلیمی سرمایہ ہیں ۔

دکھ کی بات یہ ہے کہ صرف 20 نمبروں نے2لاکھ تعلیمی اداروں اور ایک سو20 یونیورسٹیوں کے وقار کو مجروح کر دیا ہے کسی ترقی پزیر ملک کے لئے عالمی اعزاز اتنا اہم نہیں ہوتا ہے جتنا اس ملک کے اندر اس کے اداروں کا وقار اہم ہوتا ہے ہمارا تعلیمی لحاظ سے کسی ملک سے مقابلہ نہیں مگر ہمارے ملک کو جس تعلیمی قابلیت کی ضرورت ہے اس کے لئے عالمی اعزاز نہیں قومی وقار ضروری ہے ہم نے صرف 20 نمبروں کی خاطر وہ وقار وہ اعتماد وہ عزت مجروح کر دیا ہے اب ہمیں یہ جاننے کی ضرورت نہیں رہی کہ ہمارے نوجوان ڈگریاں لے کر بے روز گارکیوں گھومتے ہیں؟۔۔۔
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

بہت خوب زبیر احمد ظہیر بھیا۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
امکانات
کارکن
کارکن
Posts: 40
Joined: Mon Sep 08, 2008 9:24 pm

Post by امکانات »

چاند بابو wrote:بہت خوب زبیر احمد ظہیر بھیا۔
شکریہ چاند بابو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

امکانات بھیا اپنے باقی کالم بھی یہاں لگائیں نہ کافی عرصہ ہوا آپ کو اپنے کالم دیئے ہوئے۔
:lol:
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Post Reply

Return to “نثر”