شہر سائیباں

اگر آپ کالم لکھنا چاہتے ہیں یا لکھتے ہیں تو اپنی نوکِ قلم کے شہکار یہاں شئیر کریں
Post Reply
User avatar
عدنان دانی
کارکن
کارکن
Posts: 138
Joined: Wed Nov 24, 2010 7:10 pm
جنس:: مرد

شہر سائیباں

Post by عدنان دانی »

مصنف: مشتاق احمد یوسفی
تحریر و تحقیق: عدنان دانی
پروف ریڈنگ: راجہ اکرام


ابن انشاء نے کہا ہے کہ ہم مزاح کے عہد یوسفی میں بستے ہیں، اور مشتاق احمد یوسفی لکھتے ہیں کہ اس کا مطلب میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے دامن پیچھے سے پھٹے ہوئے ہیں، اور آگے سے پھٹنے کی امید میں جی رہے ہیں۔ be;a

حاجی اورنگ زیب خان ٹمبر مرچنٹ ڈوبی ہوئی رقموں کی ادائیگی اور وصولی کی سلسلے میں اکثر پشاور سے کراچی آتے رہتے تھے۔وہ کہتے تھے کہ میں جب کراچی آتا ہوں حیران و پریشان رہتا ہوں، میرا دل بہت اداس ہوتا ہے۔ جس سے ملوں جس سے بولوں کراچی سے کچھ نہ کچھ گلہ ضرور رکھتا ہے۔ ایک شخص بھی ایسا نہیں ملا جو اپنے شہر پر فخر کرتا ہو۔
خان صاحب کہتے ہیں کہ اس کے دو سبب ہیں۔ پہلا تو یہ کہ یہاں فخر کے لائق کوئی چیز ہے ہی نہیں۔ دوسرا سبب بتانے کیلے انہوں اپنی انگشت شہادت ابھی سوئے پلک بلند کی ہی تھی کہ مرزا عبدالودود بیگ بیچ میں کود پڑے اور کہنے لگے صاحب، دوسرا سبب یہ کہ مہاجر،پنجابی، سندھی، بلوچ، پٹھان، سب اپنے رب کا فضل تلاش کرنے کیلے یہاں آ آکر آباد ہوئے ، کڑی دھوپ پڑ رہی تھی ، سب کے سروں پر کراچی نے مادر مہرابان کی طرح اپنی پھٹی پرانی چادر کا سائبان تھام لیا۔
ان پر بھی جو بسر کرنے کیلےفقط ٹھکانہ مانگتے تھےمگر پھر پھسرتے چلے گئے۔لیکن سب شاکی، سب آزردہ خاطر، سب برہم۔ مہاجر ہی کو لیجئے؛ دلی، لکھنو، بمبئی ، بارہ منکی،جونا گڑھ، حد یہ کہ اجاڑ جنجنوں ( میرا پرانا وطن ) کو یاد کر کے آہیں بھرتے ہیں۔ اسے یہ احساس نہیں کہ جنہیں یاد کر کے وہ خود پر دائمی رقت طاری رکھتا ہے، وہ چھوڑا ہوا شہر نہیں بلکہ اسکی روٹھی جوانی جو لوٹ کر نہیں آسکتی، کسی بھی شہر میں۔۔
پنجابی جنہیں سب سے پہلے سرسید احمد خان نے زندہ دلان پنجاب لا لقب دیا تھا جنت میں پہنچ کر بھی لاہور لاہوراے ہی پکارے گا۔ انہیں کراچی ذرا نہیں بھاتا۔ وہ سندھ کے چتی دار کیلے، چیکو ، اور پپیتے میں ملتان کے انور رٹول اور منٹ گمری کے مالٹے کا مزہ نہ پا کر سچ مچ اداس ہو جاتے ہیں۔

فرنٹیئرکا گل زمان خان چوکیدار ، شیر شاہ کالونی کے جونگھڑہ ( جھونپڑی) میں اپنے وطن کے کوہ و دشت اور دریا مانگتا ہے۔ کوئی نہیں جو اٹھا لائے گھر میں صحرا کو۔۔وہ صبح دلی کی نہاری کھاتا ہے، سہ پہر کو سیٹھ کی کوٹھی کے ایک اوجھل کونے میں اپنی مکئی کے بے موسم پودے کو بڑے لاڈ سے پانی ڈالتا ہے۔ اور یہ ٹپہ گاتا ہے۔
[center]پہ پردی وطن ہر یو غمگین ئی
ما پہ پردی وطن کرلی دی گلونہ[/center]
ترجمہ ( یوں تو پردیس میں ہر شخص غمگین رہتا ہیں،مگر مجھے دیکھو میں نے پرائی زمین میں اپنے وطن کے پھول کھلا دئے ہیں)
وہ دن بھرپشتو لہجے میں بمبئی اردو بولنے کے بعد شام کو ریڈیو پر پشتو گانوں سے دل پشوری کر لیتا ہے۔اور رات کو پشاور ریلوے سٹیشن کو آنکھوں میں بھر کے سڑک کے کنارے جھگی میں سو جاتا ہے۔ سڑک پر رات بھر پٹاخے چھوڑتی موٹر سائیکل، رکشے اور دھاڑتے ٹرک گزرتے رہتے ہیں، پر اسے خواب میں ڈھول سر، رباب ، اور گھڑے پر ٹپے سنائی دیتے ہیں۔
ادھر کوئٹہ اور زیارت سے آیا ہوا بلوچ کراچی کا نیلا سمندر دیکھتا ہے اور بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں اور ان پر چرتے دنبوں کو یاد کر کر کے آبدیدہ ہو جاتا ہے۔ جنکے وہ بڑے خستہ سجی کباب بنا سکتا تھا۔
اب رہا پرانا سندھی تو وہ غریب اس زمانے کو یاد کر کے آہیں بھرتا ہے جب یہ چاروں حضرات کراچی تشریف نہیں لائے تھے۔
[center]داستاں ختم ہونے والی ہے
تم میری آخری مخبت ہو
[/center]
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: شہر سائیباں

Post by چاند بابو »

بہت شکریہ دانی بھیا شئیر کرنے کا بہت بہت شکریہ.
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
اضواء
ٹیم ممبر
ٹیم ممبر
Posts: 40424
Joined: Sun Aug 15, 2010 4:26 am
جنس:: عورت
Location: {الدمام}المملكةالعربيةالسعوديه

Re: شہر سائیباں

Post by اضواء »

:clap: :clap:

بہترین شئرنگ پر آپ کا شکریہ
[center]یہ بھی انداز ہمارے ہے تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہے تمہیں کیا معلوم[/center]
Post Reply

Return to “اردو کالم”