آہ سون اور اس کا بیٹا

بچوں کے لئے دلچسپ اور سبق آموز کہانیوں کا سلسلہ
Post Reply
زارا
کارکن
کارکن
Posts: 88
Joined: Sat Mar 19, 2011 6:46 pm
جنس:: عورت
Location: اللہ کی زمین
Contact:

آہ سون اور اس کا بیٹا

Post by زارا »

السلامُ علیکم

ہمارے ملک میں مختلف قوموں کے لوگ آباد ہیں۔ ان میں چین کے لوگ بھی شامل ہیں۔ کئی چینی میرے جاننے والے ہیں۔ آیئے سب سے پہلے میں آپ کو ان کی خوبیوں کے متعلق بتاؤں۔ چینی ہمیشہ ایمان دار ثابت ہوتے ہیں۔ وہ اپنا فرض ادا کرتے ہیں۔ اگر آپ ان سے اچھا سلوک کرتے ہیں تو وہ ہمیشہ اسے یاد رکھتے ہیں۔ اگر کوئی مصیبت میں گرفتار ہوتو وہ اس کی مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
میں ایک ایسے ہی چینی کو جانتا تھا جو بوڑھا اور خاصا بد صورت تھا۔ اس کا چہرہ ہمیشہ پریشانی کی لکیروں سے بھرا رہتا تھا۔ اس کا ایک ریڑھا تھا، جس پر وہ سبزیاں لاد کر بیچتا تھا۔ اس کا نام اس کے ریڑھے پر لکھا تھا یعنی۔۔۔۔ آہ سون۔اس کے ریڑھے کے آگے ایک مریل سا بوڑھا گھوڑا بندھا ہوتا اور وہ آہستہ آہستہ ریڑھے کو گھسیٹتا پھرتا تھا ۔۔۔۔ لیکن آہ سون اس کو ڈنڈے مار مار کر تیز چلنے کے لیے نہیں کہتا تھا، بلکہ وہ اور اس کا گھوڑا آہستہ آہستہ چلتے رہتے اور اسی طرح آہستہ آہستہ اپنی منزل پر پہنچ جاتے۔۔۔۔ انگریزی کے اس محاورے کی طرح کہ Slow and Steady Wins the Race وہ ہر پیر اور جمعہ کو ہمارے گھر آتا۔ ہم اس کو پسند کرتے تھے۔ میں اس وقت آپ ہی کی طرح کا ایک لڑکا ہوا کرتا تھا اور کھیت میں اپنے والد کا ہاتھ بٹاتا تھا۔
ایک سال فصل بہت بری ہوئی۔ آہ سون کی سبزیاں بھی صحیح طرح سے نہ اگ سکیں۔ ایک دن وہ ہمارے گھرآیا اور کہنے لگا:
"اس دفعہ سبزی آپ کے کھانے والی نہیں ہے۔ ہاں اگر آپ چاہیں تو اپنی گائے بھینسوں کو ڈال سکتے ہیں۔ میرے گھر آنا اور لے جانا۔"
میں اپنے والد کے ساتھ ان کے گھر گیا۔ وہاں میں اس کے بیٹے سے ملا اس کا نام "آہ سی" تھا۔ وہ چینی بچوں کی طرح خاموش، لیکن ہوشیار اور چہرے پر مسکراہٹ لیے ہوئے تھا۔ وہ مجھ سے ایک سال بڑا تھا۔ میری اس سے دوستی ہو گئی۔ وہ اسکول نہیں جاتا تھا۔ میں نے اسے پڑھانا شروع کر دیا اور اسے حساب کتاب کرنا سکھا دیا۔
ایک دن آہ سون کو ہمارے گھر کے قریب حادثہ پیش آ گیا۔ ریڑھے کا ایک پہیہ نرم زمین میں دھنس گیا اور ریڑھا الٹ گیا۔ آہ سون ریڑھے کے نیچے آکر شدید زخمی ہو گیا۔ ہم باپ بیٹا اس کی مدد کو دوڑے اور ریڑھے کو بڑی مشکل سے سیدھا کیا۔ ہمارے ساتھ "آہ سی" بھی تھا۔ وہ دوسری طرف بیٹھا ہوا تھا، اس لیے ریڑھے کے نیچے آنے سے بچ گیا تھا۔ ہم آہ سون کو اپنے گھر لے آئے، اسے تھوڑی دیر آرام کرنے دیا۔ پھر ریڑھے پر تکیے اور کپڑے رکھ کر اس کو آرام دہ کیا۔ میرے والد صاحب ریڑھا لے کر اس کے ساتھ ہسپتال گئے۔ ابا جان نے بتایا کہ سارا راستہ آہ سون میرا شکریہ ادا کرتا اور کہتا رہا کہ میں بالکل ٹھیک ہوں اور یہ کہ میں اگلے جمعہ پھر آؤں گا۔
لیکن آہ سون پھر کبھی واپس نہ آیا۔ اس کے پڑوسیوں نے بتایا کہ آہ سون واپس چین چلا گیا ہے۔ اس کا بیٹا بھی اس کے ساتھ تھا۔
کچھ ہی عرصے بعد ہم بھی اس جگہ سے چلے گئے۔ میرے والد نے کھیتی باڑی ترک کر دی اور آسٹریلیا کے بڑے شہر سڈنی میں جا کر ملازمت کر لی۔ سال گزرتے گئے ۔۔۔۔میرے والد انتقال کر گئے۔ اس کے بعد میری والدہ بھی فوت ہوگئیں اور میں اکیلا رہ گیا۔ میں ملازمتوں کے چکر میں جگہ جگہ گھومتا رہا۔ کبھی ایک شہر میں ملازمت کی تو کبھی دوسرے میں۔۔۔۔ آخر میں دوبارہ سڈنی آ گیا اور یہیں اپنا گھر آباد کر لیا۔
میں نے شہر سے باہر ایک خوب صورت گھر کرائے پر لیا تھا۔ میرے گھر میں دو خوب صورت بچے بھی آ چکے تھے۔ پھر ایک روز میری ملازمت ختم ہو گئی اور دوسری ملازمت بھی نہ مل سکی۔ میں کوڑی کوڑی کو محتاج ہو گیا۔ میرے مکان کے مالک نے مجھے رعایت دیتے ہوئے کہا:
"میں ایک ماہ انتظار کروں گا۔ اس کے بعد تم نے کرایہ نہ دیا تو مکان سے نکال دوں گا۔"
میں نے مالک مکان کے علاوہ اور لوگوں کے بھی روپے دینے تھے۔ ان میں ایک سبزی فروخت کرنے والا چینی بھی تھا۔ ایک دن اس نے پوچھا کہ میں پریشان کیوں ہوں۔ میں نے اپنی ساری پریشانی اسے بتا دی۔
اس نے کہا: "پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ تم نے جو رقم مجھے دینی ہے، وہ بعد میں دے دینا۔ پہلے مالک مکان کا کرایہ دے دو۔"
نیک دل چینی بعد میں بھی مجھے سبزیاں پہنچاتا رہا۔ اس کے بعد مہینا ختم ہو گیا اور ایک مرتبہ پھر میرے لیے مکان کا کرایہ دینا مشکل تھا۔ میں نے سبزی فروش چینی سے کہا:
"بھائی، میں آپ سے معافی چاہتا ہوں۔ میں آپ کی رقم نہیں لوٹا سکوں گا، نہ ہی میں مکان کا کرایہ دے سکتا ہوں۔ کل مجھے اس مکان کو چھوڑنا ہوگا۔ معلوم نہیں میری قسمت میں کہاں کہاں کے دھکے لکھے ہیں!"
چینی نے جواب دیا: "بھائی، میں بھی جا رہا ہوں ۔۔۔۔ واپس چین۔" پھر اس نے خاموشی سے آج کی سبزی دروازے پر رکھ دی۔ اس کے ساتھ ایک خوب صورت ٹوکری بھی تھی۔ اس میں لذیذ اور میٹھے پھل تھے۔ ٹوکری رکھتے ہوئے اس نے کہا:
"یہ آپ کے بچوں کے لیے میری طرف سے آخری تحفہ ہے، قبول کیجئے۔"
"لیکن میں آپ کی رقم نہیں لوٹا سکتا اور نہ اس کی قیمت دے سکتا ہوں۔" میں نے بے بسی سے کہا۔
"آپ پریشان نہ ہوں۔ جب آپ کے پاس رقم ہو تو میرے کزن کو دے دیجئے گا۔ وہ مجھے چین پہنچا دے گا۔" یہ کہہ کر اس نے ایک خط میرے ہاتھ میں پکڑایا اور کہا: "یہ خط اپنے مالک مکان کو دے دینا۔ وہ آپ کو گھر میں رہنے کی اجازت دے دے گا۔" یہ کہہ کر وہ چلا گیا اور میں سوچنے لگا کہ اس خط میں ایسی کون سی بات ہے کہ مالک مجھے مکان سے نہیں نکالے گا۔ میں نے لفافے پر دیکھا تو وہاں کسی کا نام نہیں لکھا تھا۔ میں نے لفافہ کھول لیا۔ اس میں دو مہینے کے لیے کرایے کی رقم موجود تھی۔ ایک چھوٹا سا کاغذ کا ٹکڑا بھی تھا جس پر لکھا تھا:
"آہ سون کے بیٹے، آہ سی کی طرف سے۔"
مجھے اپنا پرانا چینی دوست یاد آ گیا، جس کی ہم نے مدد کی تھی۔ میں اس کو پہچان نہ سکا ۔۔۔۔ لیکن "آہ سی" نے مجھے پہچان لیا تھا۔ اس نے میرے والد کے احسان کا بدلہ چکا دیا تھا۔ میرے باپ نے اس کے باپ کی مدد کی تھی اور اس نے میری مدد کردی تھی۔
آہ سی کے جانے کے بعد اس کا کزن مجھے باقاعدگی سے سبزی پہنچاتا رہا۔ وہ بالکل اسی طرح کا تھا، جس طرح سب سے پہلے میں نے آہ سی کو دیکھا تھا۔
اس کے بعد جب مجھے ملازمت مل گئی تو میں نے وہ رقم آہ سی کے کزن کو دینا چاہی لیکن اس نے کہا:
"مجھے کچھ بھی نہیں معلوم ۔۔۔۔" گویا اسے آہ سی نے کرائے کی رقم کے متعلق کچھ نہیں بتایا تھا۔۔۔۔ میں نے اسے کئی دفعہ وہ رقم دینا چاہی لیکن وہ ہمیشہ مسکرا کر انکار کر دیتا۔


تحریر: نعیم احمد بلوچ
زاہد رند
کارکن
کارکن
Posts: 38
Joined: Wed May 19, 2010 5:16 pm
جنس:: مرد
Location: Dubai, UAE

Re: آہ سون اور اس کا بیٹا

Post by زاہد رند »

نیکی کبھی رائگاں نہیں جاتی بشرطیکہ خلوص نیت سے کی جائے،
Post Reply

Return to “بچوں کی کہانیاں”