شاہ محمود قریشی کے الفاظ (فواد کیلئے)

تازہ ترین حالات و واقعات کی تصویر کشی، تبصرے ،تجزیئے اور بریکنگ نیوز
Forum rules
خبردار :
فحش اور دل آزار ویڈیوز شیئر کرنا سخت منع اور فورم کے قوانین کے خلاف ہے
انتظامیہ اردو نامہ فورم
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: شاہ محمود قریشی کے الفاظ (فواد کیلئے)

Post by چاند بابو »

فواد wrote:ميں آپ کو ايک عراقی تنظيم کی ويب سائٹ کا لنک دے رہا ہوں جس کا امريکی حکومت سے کوئ تعلق نہيں ہے۔ اس ويب سائٹ پر آپ عراق ميں ہلاک ہونے والے تمام شہريوں کے نام، ان کے کوائف اور ان واقعات کی تفصيل پڑھ سکتے ہيں جن کے نتيجے ميں يہ شہری ہلاک ہوۓ۔ يہ اعداد وشمار آپ کو عراق ميں بے گناہ شہريوں کے حوالے سے حقيقی صورت حال سمجھنے ميں مدد ديں گے۔
بہت خوب کیا بات ہے اس ویب سائیٹ کا لنک لگا کر سمجھتے ہو کہ تم اپنے آپ کو سچا ثابت کر سکتے ہو۔
یہ تمہارا ایک اور سب سے بڑا جھوٹ ہے، ارے عقل کے اندھے تم دنیا کے بہترین ٹی وی چینلز دنیا کے بہترین اخبارات و رسائل کو ایک ساعت میں ٹھکرا دیتے ہو سب یہ کہہ کر یہ کہ سب غیر مصدقہ باتیں ہیں اور ہم سے سمجھتے ہو کہ تمہاری اس بکواس ویب سائیٹ پر آنکھیں بند کر کے یقین کر لیں۔
ابے گدھے اخبار، ٹی وی اور رسائل وغیرہ کی خبروں کا ایک سورس ہوتا ہے اور وقت اور ضرورت کے پیشِ نظر وہ سورس بتایا بھی جا سکتا ہے۔
لیکن ویب سائیٹ کا تو کوئی ایسا سورس بھی نہیں ہوتا ہے تم جیسے دو تین احمق گدھوں کو بٹھا دو ں تو دو دن میں ایسی بیسیوں سائیٹس میں تیار کروا سکتا ہوں، پھر کیا تم اس پر بھی یقین کر لو گے۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: شاہ محمود قریشی کے الفاظ (فواد کیلئے)

Post by چاند بابو »

فواد wrote: ايران عراق جنگ ، الانفال کی تحريک يا 1991 ميں ہزاروں کی تعداد ميں عراقی شيعہ برادری کا قتل عام اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر صدام کا دور حکومت مزيد طويل ہوتا تو بے گناہ انسانوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری رہتا۔
بہت خوب یہ تمہاری ایک اور خباثت ہے جو تمہارے ذلیل ذہنوں کی تیار کردہ ہے۔
عقل کے اندھو، گدھو جب ایک ملک انتشار کا شکار ہو گا تو کیا اس انتشار کو کنٹرول کرنے کے لئے اس ملک کو کچھ نہیں کرنا چاہئے۔
جب ایک ملک پر دوسرا ملک چڑھ دوڑے تو کیا اسوقت اس ملک کو اپنے دفاع کی اجازت بھی نہیں۔
اور امریکیوں کا سب سے بڑا خبث ِ باطن یہ ہے کہ عراق اور ایران کی دس سالہ جنگ میں عراق کو ان ممنوعہ ہتھیاروں کے استعمال کی اجازت خود امریکہ نے دی تھی۔ عراق نے یہ اسلحہ امریکہ کے علم میں لانے کے بعد ایران اور اپنے عوام کے خلاف استعمال کیا تھا۔ امریکہ نہ صرف اس پر خاموش رہا بلکہ دوسرے ممالک جو ان ہتھیاروں کے غیر قانونی استعمال پر چیخ رہے تھے، ان کے الزامات مسترد کر دیتا تھا اور یہی سب سے بڑا ثبوت ہے کہ امریکی آشیرباد اس میں شامل تھی۔

جہاں تک دوسرے الزام کا تعلق ہے کہ صدام حسین کے دور میں عراق میں انسانی حقوق بری طرح متاثر ہوئے ہیں تو اس جرم میں بھی امریکہ برابر شریک کار ہے، کیونکہ ١٩٦٨ءکے انقلاب کا منصوبہ امریکہ نے بنایا تھا، جس کے نتیجے میں صدام حسین کو عراقی اقتدار سونپا گیا۔ اگرچہ دیگر پڑوسی ممالک بھی اس انقلاب میں شریک کار تھے مگر ان کی حیثیت تنقید کنندہ کی سی تھی۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: شاہ محمود قریشی کے الفاظ (فواد کیلئے)

Post by چاند بابو »

اب آتے ہیں ان پوشیدہ مقاصد کی طرف جو امریکہ کے پیش نظر ہیں اور عراق پر امریکی قبضے کی اصل وجہ ہیں۔
اسلامی دنیا پر امریکی تسلط:
امریکہ کا ایک بڑا مقصد کل عالم اسلامی پر فوجی قبضہ کرنا ہے۔ عراق پر مکمل قبضے کے بعد ایک بعد دوسرے اسلامی ملک پر قبضہ کرنا اس کے وسیع ترین پروگرام میں شامل ہے۔ وہ خطہ جس میں کم وبیش ایک ارب نفوس رہتے ہیں اور جسے عالم اسلامی کہا جاتا ہے اس کا سیاسی نقشہ بالضرور تبدیل ہونا چاہیے۔ اب سابقہ سایکس پیکو معاہدے کے مندرجات تبدیل ہوں گے، اگرچہ خود سایکس پیکو کے تحت جو مسلم اکثریت والے ممالک آزاد ہوئے تھے وہ فوجی، لسانی اور جغرافیائی لحاظ سے اس طرح برطانیہ، فرانس اور امریکہ نے تقسیم کیے تھے کہ یہ کمزور ممالک ان کے مقاصد کے سامنے کبھی جم نہ سکیں۔
امریکہ کا دوسرا مقصد خام تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنا ہے۔
تیسرا مقصد
اسرائیل کے لیے بقاءکی ضمانت اور اس کے تحفظ کو یقینی بنانا، نیز دریائے نیل سے دریائے فرات کی اراضی تک اسرائیل کی رسائی کرانا۔
چوتھا مقصد اسلامی بیداری کا قلع قمع کرنا۔
خام تیل:
تمام ماہرین معاشیات کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صنعتی ممالک کا تمام تر انحصار خام تیل کی فراہمی پر ہے۔ جب تک ایندھن کے لئے کوئی دوسرا متبادل دریافت نہیں ہوتا۔ خام تیل پر ہی صنعت کاری کا انحصار رہے گا۔ مزید براں ایندھن کے لیے دوسرا متبادل قریب قریب ناممکن الوجود ہے جبکہ صنعتی ایندھن کے لیے دوسرے ذرائع مثلاً برقی رو یا کوئلہ، صنعت کاری کے لیے ناموزوں ہیں۔ اول الذکر گراں قیمت کی وجہ سے اور موخر الذکر کم پیداواری صلاحیت کی وجہ سے۔
عراق میں سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ١١٢ بلین بیرل خام تیل پایا جاتا ہے جو سعودی عرب کے بعد دوسرا اہم منبع ہے۔ لیکن غیر سرکاری اعداد وشمار کے مطابق عراق میں اس مقدار سے دوگنا خام تیل پایا جاتا ہے اور اگر یہ تخمینہ درست ہو تو پھر عراق اگلی دو صدیوں تک پوری دُنیا کو تیل فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
امریکہ میں پائے جانے والے خام تیل کے ذخائر وسیع رقبہ والے براعظم کے طول وعرض میں دور دور پھیلے ہوئے ہیں اور انہیں زمین سے نکالنے پر لاگت اس لاگت سے کئی گنا زیادہ ہے جو خلیج میں تیل کے اخراج کے لیے درکار ہوتی ہے۔ امریکہ اپنے خشک کنویں خلیج کے تیل سے بھرتا جا رہا ہے اور اس محفوظ تیل کو کسی شدید ضرورت کے علاوہ استعمال نہیں کرتا، تاکہ صنعت کاری پر وہ اکیلا قابض ہو جائے اور تمام ممالک صنعتی مواد کے لیے اس کے محتاج ہوں۔
خام تیل کے حصول کے لیے امریکہ ہر اقدام کرنے پر تیار رہتا ہے۔ بل کلنٹن نے اس وقت ذرا بھی تامل نہیں کیا جب روس نے خلیجی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات ازسرنو استوار کرنے کا عندیہ دیا تھا اور فوراً کہا کہ اگر روس نے پٹرول کے ذخائر تک رسائی کی کوئی کوشش بھی کی تو اُسے امریکہ کے خلاف اعلان جنگ سمجھا جائے گا۔
اسی طرح شاہ فیصل کو محلاتی سازش کے ذریعے امریکہ نے قتل کرایا تھا کیونکہ شاہ فیصل نے ١٩٧٣ءمیں خام تیل کی برآمد پر پابندی کی دھمکی دی تھی۔
امریکہ نے اِس اظہار میں کبھی خجالت نہیں سمجھی کہ خام تیل جہاں بھی پایا جاتا ہے وہ دراصل اس کی ملکیت ہے۔ امریکہ کا سابق صدر رچرڈ نکسن کہتا ہے:
”جس ملک کا مشرق کے معدنی تیل پر قبضہ ہوگا وہی ملک کل عالم پر قبضہ کرنے میں مشکلات کا شکار نہیں ہوگا“۔
وہ مزید لکھتا ہے:
”ہمیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ہر اقدام کے لیے تیار رہنا ہوگا، خواہ اس کے لیے فوجی حملہ ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ ہم جو دعویٰ کریں اُسے بروئے کار لائیں۔ کوئی شخص ہماری قوت دیکھ کر یہ نہ کہہ سکے کہ امریکہ اُس توپ کی طرح ہے جو گولے نہیں داغ سکتی۔ خلیجی ممالک سے ہمارے جو مفادات وابستہ ہیں، ان کے دفاع کے لیے خطرات میں کودنا پڑے گا“۔
رچرڈ نکسن کو ڈیموکریٹک پارٹی کی جاسوسی کرنے کے جرم میں قبل از وقت صدارت سے سبکدوش ہونا پڑا جس کی وجہ سے وہ خلیجی ممالک پر امریکی قبضے کو عملی جامہ نہیں پہنا سکا۔
صدر جمی کارٹر:
رچرڈ نکسن کے بعد اِس قسم کے بیانات جمی کارٹر نے بھی متعدد بار دہرائے۔ ایک موقع پر وہ کہتا ہے:
”کاش خلیجی ممالک کا تیل مشرق سے متصل مغرب میں پیدا ہوتا تو ہماری مشکلات یقینا آسان ہو جاتیں۔ امر واقع یہ ہے کہ عرب ممالک میں آبادی کا تناسب ١٠% ہے جبکہ ان کی سرزمین میں دُنیا کا ٧٥% تیل پیدا ہوتا ہے۔ جغرافیہ کی اس غلطی کو درست ہونا چاہیے اور ضرورت ہو تو عسکری طاقت سے بھی دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ بھلا کوئی بدوی برضا ورغبت اپنے تیل کے کنویں سے دست کش ہوگا، ہاں ہماری قوت اسے ممکن بنائے گی“۔
”ہماری معیشت اور اس کا مستقبل کا انحصار واشنگٹن پر نہیں ریاض پر ہے۔ اپنے ضروری مقاصد کی تکمیل کے لئے بزور سعودی عرب پر قبضہ ہی انہیں محفوظ بنا سکتا ہے“۔
سعودی عرب پر قبضے کے لیے جمی کارٹر نے ایک قانون کے تحت سریع الحرکت فوج تشکیل دی تھی اور یہ وہی جمی کارٹر کی تشکیل کردہ فوج ہی تھی جس نے عراق کی پہلی جنگ میں اپنی تشکیل کے تیس برس بعد کارکردگی دکھائی تھی۔
جمی کارٹر ایران سے مغوی امریکیوں کو رہا کرانے میں ہر طرح سے ناکام رہا اور یہی ناکامی دوسرے صدارتی الیکشن میں اُس کے اقتدار کے خاتمہ کا باعث بنی۔ جس کی وجہ سے وہ اپنے استعماری عزائم پورے نہیں کر سکا۔
صدر رونالڈ ریگن:
ریگن بھی رچرڈنکسن کے منصوبے کو عملی جامہ نہ پہنا سکا کیونکہ ریگن کا زمانہ صدارت سرد جنگ کا زمانہ تھا اور مسئلہ افغانستان اور روس کے ساتھ کسی ممکنہ تصادم سے نبرد آزما ہونے میں ہی وہ عرصہ بیت گیا۔
جارج بش اول:
عراق پر قبضے کے لیے جارج بش نے ہی فضا ہموار کی اوراپنی خاموش رضا مندی سے صدام حسین کو کویت پر قبضے کے لیے اکسایا۔
عراق پر امریکی قبضے کی ایک اور وجہ پٹرول کے علاوہ اسرائیل کا تحفظ بھی تھا۔ عراق کے پاس ایران سے دس سالہ جنگ کا تجربہ اور جدید اسلحہ تھا۔ یہ تجربہ اور اسلحہ کسی وقت بھی اسرائیل کے خلاف استعمال ہو سکتا تھا، اس کی پیش بندی کے لیے عراق پر قبضے کی راہ ہموار کرنا جارج بش کی پالیسی تھی۔
جارج بش اگرچہ پہلی جنگ عراق میں عراق پر مکمل قبضے کا عہد اپنے عوام سے کر چکا تھا لیکن روس میں اچانک اتنی تیزی سے تبدیلی آئی کہ امریکہ کو نئی صورتحال سے نبٹنے کے لیے عراق سے توجہ ہٹانی پڑی۔
بل کلنٹن:
اگرچہ بل کلنٹن کی جیت اور جارج بش کی شکست میں یہودی پیش پیش تھے لیکن بل کلنٹن نے عراق پر قبضہ نہ کرنے کا اعلان کرکے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ بل کلنٹن کے دور میں کانگریس نے ٩٣ ملین ڈالر کی خطیر رقم بھی عراق پر قبضے کے لیے منظور کر لی تھی لیکن بل کلنٹن اس حملے پر آمادہ نہیں ہوا تھا۔ بل کلنٹن کی دلیل یہ تھی کہ عراق میں حزب مخالف جو امریکہ کے ساتھ ہے، غدار اور دھوکے باز افراد کا مختصر گروہ ہے جسے عراقی عوام میں کوئی پذیرائی حاصل نہیں ہے اور اِس حزب اختلاف کے تعاون سے عراق پر قبضہ برقرار رکھنا ناممکن ہوگا۔
جونیئر بش:
بل کلنٹن کے بعد عدالت عالیہ کے فیصلے کے مطابق جونیئر بش کو صدارتی عہدہ ملا۔ امریکی عدالتوں میں یہودی اثر ونفوذ ایک مسلمہ حقیقت ہے جو کام سینئر جارج بش نہیں کر پایا اُسے بیٹے نے یہودیوں کی بقا کے لیے کر ڈالا۔ کرایے کی فوج سے اسلامی ممالک کے ایک اہم تاریخی اور ثقافتی شہر پر تمام بین الاقوامی قوانین کو توڑتے ہوئے اور تمام انسانی قدروں کو پامال کرتے ہوئے قبضہ کرلیا۔ اس اعلان کے ساتھ کہ یہ جنگ صلیبی جنگ ہے۔ اس حملے میں جنگی قواعد وضوابط بھی روند ڈالے گئے، بے گناہ شہریوں پر بمباری کی گئی، شہروں میں آگ لگائی اور غذائی ذخیروں کو نشانہ بنا کر راکھ بنا دیا گیا۔ تعلیم یافتہ ملک کے درندہ صفت فوجیوں نے عبادت گاہیں، مکتبات، تعلیمی مراکز اور نادر قلمی نسخے، شفاخانے سب کو تاک تاک کر نشانہ بنایا۔ اُسی درندگی کا مظاہرہ ایک مرتبہ پھر بغداد میں دہرایا گیا جو بش سے پہلے ہلاکو خاں نے کیا تھا۔
علاقے میںاسرائیل کے تحفظ اور برتری کو یقینی بنانا:
قیام اسرائیل میں برطانیہ کا کردار سب کو معلوم ہے۔ برطانیہ نے ”معاہدہ بلفور“ کے ذریعے فلسطین میں اسرائیل کے قیام کا قانون بنایا اور اسرائیل برطانوی انتداب کے ذریعے قائم ہوا۔ لیکن اسرائیل کے قیام میں امریکہ کے کردار سے بیشتر دانشور لاعلم رہے ہیں۔ سابق امریکی صدر ولسن اسرائیل کے قیام کا پرزور حامی تھا۔ وہ یہودی نژاد تھا اور صہیونیوں سے دلی ہمدردی رکھتا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ نے ہی بذریعہ طاقت دُنیا کا جدید جغرافیہ مرتب کیا تھا اور ڈرا دھمکا کر دیگر ممالک کو اپنا حامی بنایا تھا۔ امریکہ نے ہی عرب ممالک کو دبائو میں رکھنے کے لیے اسرائیل کے قیام کی داغ بیل ڈالی تھی۔ عرب ممالک میں دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ اور فرانس کی بجائے امریکہ نے کردار ادا کرنا تھا۔ بعد ازاں صہیونی عقل امریکہ کے عیسائیوں پر ایسی حاوی ہوئی کہ آقا اپنے غلام کے ماتحت ہوگیا۔
"They Dare to Speak" کا مصنف کہتا ہے کہ اگر اسرائیل کہے کہ زمین بیضوی نہیں چپٹی ہے تو دوسرے دن امریکہ کی پارلیمنٹ اسرائیل کو اس جدید انکشاف پر مبارک باد پیش کرے گی۔
کم از کم دو امریکی سابق صدور بنیامین فرانکلن اور فورڈ اپنے عوام کو صہیونی خطرات سے خبردار کر گئے تھے مگر حکومتی عہدے داروں نے انہیں نظر انداز کردیا۔
امریکی سینٹ کارکن روگر جیٹس کہتا ہے۔ میرا ایمان ہے کہ امریکہ پر برکات کا سبب ہمارا وہ اقدام ہے جس کے تحت یہودی فلسطین میں جا کر آباد ہوئے ہیں۔ ان کی برکت کے طفیل ہمیں برکات ملتی ہیں۔ تلمود اور تورات کی تبدیل شدہ پیشین گوئیوں سے جان کینیڈی، کارٹر، ریگن اور دونوں بش سب سے زیادہ متاثر رہے ہیں۔
جان کینیڈی کیتھولک تھا لیکن ہر شرط پر صدر بننا چاہتا تھا۔ کیتھولک ہونے کی وجہ سے یہودیوں کو شک تھا کہ وہ اُن کے لیے بہتر صدر ثابت نہیں ہوگا، اس لیے انہوں نے کینیڈی سے یہ عہد لیا کہ وہ صرف اس صورت میں یہودی ووٹ کا مستحق ہوگا جب یہ عہد کرے کہ وہ اپنی کابینہ اور معاون یہودی رکھے گا۔
منتخب ہونے کے بعد جان کینیڈی نے اسرائیل کے وزیر اعظم بن غورین سے ملاقات کے دوران کہا کہ اسرائیل کے لیے کیا خدمت پیش کر سکتا ہوں؟ اپنی یادداشتوں میں اسرائیلی وزیر اعظم نے تحقیرانہ انداز سے لکھا ہے: یہ شخص کس درجے کا انسان ہے جو ایک سپر طاقت کا صدر کہلاتا ہے۔ اس خدمت کا صلہ یہودیوں نے جان کینیڈی کو قتل کرکے دیا۔ جان کینیڈی کے بعد اُس کا نائب جونسن منتخب ہوا، جس نے پہلی ملاقات اسرائیلی سفیر سے کی اور کہا کہ اگرچہ آپ ایک مخلص دوست سے محروم ہو گئے ہیں لیکن اُس سے بڑھ کر مخلص دوست آپ کو مل گیا ہے۔
اُس کے بعد جمی کارٹر امریکہ کا صدر بنا۔ جمی کارٹر اسرائیل کی بقاءکو اپنے ایمان اور عقیدے کا حصہ سمجھتا تھا، اُس نے ایک بار کہا: ”میں اسرائیل کو ضرر پہنچانے سے زیادہ اپنے لیے خود سوزی کو پسند کرتا ہوں“۔
جہاں تک باپ بیٹے کا تعلق ہے تو اول الذکر اپنے سیاسی حالات کے پیش نظر عراق کو نیست ونابود کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا مگر اس ادھورے فریضے کو بیٹا مکمل کرنے نکلا ہے۔
اسلامی بیداری:
دُنیا کے طول وعرض میں اسلامی بیداری کی لہر نے بے شمار غافل مسلمانوں کو جھنجھوڑ کر بیدار کر دیا ہے۔ ان گنت اسلامی تنظیمیں اپنے اپنے طریقہ کار کے مطابق دُنیا بھر میں فعال ہیں اور ان سب کا ہدف ایک ہی منزل، اسلامی خلافت کا قیام ہے۔ اپنے شرعی مفہوم میں نہ کہ سیاسی مفہوم میں۔ اسی منزل میں صہیونیوں کو اپنی موت نظر آرہی ہے اور وہ اس لہر کو پوری قوت سے دبا دینا چاہتے ہیں۔ دونوں ملکوں کا اس بات پر ایمان ہے کہ فریقین کے درمیان مسئلہ جغرافیائی حد بندی کا نہیں بلکہ ایک کے وجود اور دوسرے کے نابود ہونے کا مسئلہ ہے۔
اسلامی بیداری کی ابتداءبیسوی صدی کے تیسرے عشرے سے شروع ہوئی، پچاس کی دہائی میں اس میں پختگی آگئی اور اس پختہ اسلامی بیداری سے ہی مغربی ممالک خائف ہیں، چنانچہ دہشت گردی کے عنوان سے امریکہ اور اسرائیل دراصل اِس اسلامی بیداری کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں۔ صرف مسلمان ہی اسرائیلی وجود کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں اور نہ ہی کسی غیر مسلم کی حکمرانی قبول کرتے ہیں۔
اِسی اسلامی بیداری کے فعال ہونے کا خدشہ اسرائیل کا پہلا وزیر اعظم بل غورین اس طرح کرتا ہے: مجھے اس بات کا خطرہ ہے کہیں پھر سے کوئی محمد پیدا نہ ہو جائے۔
عہد اور سیف کا یہودی نژاد امریکی مصنف اپنی کتاب میں اس خطرے کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے۔
اسرائیل کے قیام میں اس بات کو یقینی سمجھا گیا ہے کہ ایک نہ ایک دن عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کر لیں گے، اس ماحول کو سازگار کرنے کے لیے عرب ممالک کے شدت پسندوں کا خاتمہ ناگزیر ہے۔ اور یہ شدت پسند علماءاور ان کے نوجوان پیروکار ہیں۔
نیا مشرق وسطیٰ جو شمعون پیریز کی کتاب ہے۔ اس میں وہ رقمطراز ہے۔
”علاقے میں امن کی اس وقت تک کوئی ضمانت نہیں ہے جب تک اسلام کے ہاتھ میں ننگی تلوار ہے، ہم اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھ سکتے جب تک یہ تلوار ہمیشہ کے لیے ٹوٹ نہیں جاتی“۔
یہودی اقوام کے لیے یہ ایک مشکل وقت ہے کہ اسلام میں اقدام کرنے کا رحجان ہے اور جو روز بروزبڑھ رہا ہے، یہی ہمارے بدترین دشمن ہیں، جو اسرائیل کے مستقبل کے لئے خطرہ ہیں۔
اسرائیل کے ایک اور مصنف موشی دیان جو اسرائیل کا وزیردفاع بھی رہا ہے۔ لکھتا ہے:
”مغربی ممالک خاص کر امریکہ کو اسرائیل کو اہمیت سمجھنی چاہیے۔ ایران سے بنیاد پرستی کا جو طوفان اٹھا ہے، اُس کے تدارک کے لیے اسرائیل ہی مغرب کے لیے ڈھال بن سکتا ہے۔ اس کا بروقت تدارک نہیں کیا جاتا تو خطرہ ہے کہ اس قسم کا انقلاب ترکی یا افغانستان یا کسی اور اسلامی ملک میں رونما نہ ہو جائے“۔
وہ مزید لکھتا ہے:
”مغرب کے لیے اسلام کا خطرہ اشتراکیت سے بڑھ کر ہے۔ اشتراکیت جیسی بھی ہے اس کا خمیر مغربی ممالک سے اٹھا ہے اور اس میں کسی موقع پر لچک آسکتی ہے، لیکن اسلام کے ساتھ نبرد آزما ہونے کے لیے صرف تلوار کی زبان استعمال ہو سکتی ہے“۔
اسرائیل کی خفیہ تنظیم کا سربراہ ارون باریف لکھتا ہے:
” میرے خیال میں عرب اپنی موجودہ طاقت کے ساتھ اسرائیل کے لیے خطرہ نہیں ہیں۔ ہاں اگر بنیاد پرست کسی انقلاب کے نتیجے میں ان ممالک پر قابض ہو جاتے ہیں تو پھر یہ ایک سنجیدہ خطرہ بن سکتے ہیں۔ لیکن عرب ممالک کے موجودہ حکمران ہمارے دوست ہیں اور اُن سے اس ابھرتے ہوئے خطرے کو دبانے کی اُمید کی جا سکتی ہے“۔
صدر جمی کارٹر نے اپنے ایک بیان میں اسلامی بیداری کے خطرے پر یوں اظہار خیال کیا تھا:
”دُنیا بھر میں اسلامی تنظیموں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کو وائٹ ہائوس نہایت تشویش کی نظر سے دیکھتا ہے، اس کی پیش بندی کے لیے امریکہ اور اس کے دوست مسلم حکمران مشترکہ طور پر حکمت عملی مرتب کریں، تاکہ دُنیا میں کسی جگہ اسلامی انقلاب رونما نہ ہو سکے۔ امریکہ کسی صورت میں اسلام کے شدت پسندانہ طرز عمل کو برداشت نہیں کرے گا“۔
جمی کارٹر جس شدت پسند اسلام کو خطرہ سمجھتا ہے وہ اسلام میں عقیدہ جہاد ہے۔
جمی کارٹر سے پیشتر اسلامی بنیاد پرستی کے سدباب کے لئے رچرڈ نکسن ایک مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے کی تجویز پہلے ہی دے چکا تھا۔
فتح بلا جنگ میں نکسن لکھتا ہے:
”اسلامی بنیاد پرستی پر کاری ضرب لگانے کے لیے امریکہ اور روس مشترکہ طور پر حکمت عملی بنائیں، اس ضمن میں امریکہ کو اپنی ذمہ داری کے لیے بھرپور قوت فراہم کرنا ہوگی اور ایک آزاد دُنیا کی رہنمائی کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا ہوگا، تیسری دُنیا میں ہمارا سب سے بڑا دشمن اسلامی بنیاد پرستی ہے“۔
محول بالا سطور میں جو اقتباسات قاری کے سامنے پیش کیے گئے ہیں وہ کسی صحافی یا تجزیہ نگار کے نہیں ہیں بلکہ اُن سیاست دانوں کے ہیں جو نہ صرف صدارت جیسے اہم سرکاری منصب پر فائز تھے بلکہ منصوبہ ساز اور مذہبی وفلسفی شخصیات میں بھی شمار ہوتے ہیں۔
عراق پر قبضے سے نہ صرف وہ اہم مادی فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں بلکہ اسلامی بیداری کا بھی سدباب کرنا چاہتے ہیں۔
عراق میں جو تحریک مزاحمت شروع ہو چکی ہے وہ بین الاقوامی قانون کی رُو سے ایک مفتوح قوم کا حق ہے۔ عراقی مجاہدین کا یہ دفاعی جہاد صرف عراق کے لیے خیر کا کام نہیں ہے بلکہ ہر اُس انسان کا مستقل اِس جہاد سے وابستہ ہے جو امریکی عزائم کا ہدف ہے۔ خود امریکی شہریوں کے لیے بھی فلاح کا راستہ ہے جن پر چند درندہ صفت افراد حاکم بنے ہوئے ہیں۔ بنا بریں اس مبارک جدوجہد میں دُنیا بھر کے انصاف پسندوں کو اپنا فرض ادا کرنے کے لیے اٹھنا ہوگا، عزم، حوصلے اور پامردی کے ساتھ، اللہ کی نصرت کے آنے تک، فتح تک، انشاءاللہ۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Zarah-e-bey Nishan
کارکن
کارکن
Posts: 148
Joined: Fri Nov 27, 2009 9:10 pm

Re: شاہ محمود قریشی کے الفاظ (فواد کیلئے)

Post by Zarah-e-bey Nishan »

v;g v;g v;g v;g v;g v;g
[center]کٹی اِک عمر بیٹھے ذات کے بنجر کناروں پر
کبھی تو خود میں اُتریں اور اسبابِ زیاں ڈھونڈیں[/center]
فواد
کارکن
کارکن
Posts: 83
Joined: Tue Dec 21, 2010 7:30 pm
جنس:: مرد

Re: شاہ محمود قریشی کے الفاظ (فواد کیلئے)

Post by فواد »

Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

عراق کے تيل پر قبضے کی امريکی سازش

يہ وہ نقطہ ہے جس کو بنياد بنا کر پاکستانی ميڈيا ميں بہت کچھ لکھا گيا ہے۔ اس فورم پر بھی کچھ دوستوں نے عراق پر حملہ بلکہ افغان جنگ کو بھی عراق کے تیل پر امريکی قبضے کی ايک عالمگير سازش قرار ديا ہے۔ يہ تاثر بھی عام ہے کہ امريکہ حکومت کے صدام حسين کے ساتھ دیرينہ تعلقات رہے ھيں۔ اور پھر يہ دليل بھی دی کہ امريکہ نے عراق پر تيل کے ليے حملہ کيا۔ اگر امریکہ کے صدام کے ساتھ تعلقات اتنے ہی ديرينہ تھے تو اسےاربوں ڈالرز کی لاگت سے جنگ شروع کر کے اپنے ہزاروں فوجی جھونکنے کی کيا ضرورت تھی۔ امريکہ کے ليے تو آسان راستہ يہ ہوتا کہ وہ صدام کے توسط سے تيل کی درآمد کے معاہدے کرتا۔

اس حوالے سے ميں نے يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے جو اعداد وشمار حاصل کيے ہيں وہ آپ کے سامنے رکھ کر ميں فيصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں کہ سچ کيا ہے اور افسانہ کيا ہے۔

عراق جنگ پر امريکی حکومت ماہانہ کئ بلين ڈالرز خرچ کر رہی تھی ۔ اگر ان اخراجات کا مقابلہ عراق ميں تيل کی مجموعی پیداوار سے لگايا جاۓ تو يہ حقيقت سامنے آتی ہے کہ عراق پر امریکی حکومت کے اخراجات عراق کی مجموعی پيداوار سے کہيں زيادہ ہيں۔ لہذا معاشی اعتبار سے يہ دليل کہ عراق پر حملہ تيل کے ليے کيا گيا تھا، بے وزن ثابت ہو جاتی ہے۔ يہ بھی ياد رہے کہ عراقی حکومت تيل کی پيداوار کے ذريعے ہی ملک کی معيشت چلا رہی ہے۔

ايک اور تاثر جو کہ بہت عام ہے اور اس کو بنياد بنا کر پاکستانی ميڈيا ميں بہت کچھ لکھا جاتا ہے وہ يہ ہے کہ امريکہ میں تيل کے استعمال کا مکمل دارومدار عرب ممالک سے برامد کردہ تيل کے اوپر ہے لہذا امريکی حکومت عرب ممالک اور اس کی حکومتوں پر اپنا اثرورسوخ بڑھانا چاہتی ہے۔ اس حوالے سے کچھ اعداد وشمار پيش خدمت ہيں۔

امریکہ اس وقت دنيا ميں تيل کی مجموعی پيداوار کے حساب سے تيسرے نمبر پر ہے۔ 1973 سے 2007 تک کے درميانی عرصے ميں امريکہ نے تيل کی مجموعی ضروريات کا 57 فيصد حصہ خود پورا کيا ہے۔ باقی 43 فيصد ميں سے صرف 8 فيصد تيل کا استعمال گلف ممالک کے تيل پر منحصر ہے۔ مغربی ممالک سے تيل کے استعمال کا 20 فيصد حصہ پورا کيا جاتا ہے اور 15 فيصد تيل کی ضروريات توانائ کے ديگر ذرائع سے پوری کی گئ۔

http://img522.imageshack.us/my.php?imag ... 811xz8.jpg

جہاں تک تيل کی درآمد کا تعلق ہے تو 1973 سے 2007 کے درميانی عرصے ميں امريکہ نے تيل کی مجموعی درآمد کا 47 فيصد حصہ مغربی ممالک سے درآمد کيا جو کہ امريکہ ميں تيل کے استعمال کا 20 فيصد ہے۔ اسی عرصے ميں 34 فيصد افريقہ، يورپ اور سابق سوويت يونين سے درآمد کيا گيا جو کہ امريکہ ميں تيل کے استعمال کا 15 فيصد بنتا ہے۔ گلف ممالک سے درآمد کردہ تيل کا تناسب صرف 19 فيصد رہا جو کہ مجموعی استعمال کا محض 8 فيصد ہے۔

http://img253.imageshack.us/my.php?imag ... 539xs7.jpg


اسی حوالے سے اگر آپ دنيا کے ديگر ممالک کا گلف مما لک کے تيل پر انحصار اور اس حوالے سے اعدادوشمار ديکھیں تو يہ حقيقت سامنے آتی ہے کہ جاپان امريکہ کے مقابلے ميں گلف ممالک کے تيل پر کہيں زيادہ انحصار کرتا ہے۔ 1992 سے 2006 کے درميانی عرصے ميں جاپان نے اوسطا 65 سے 80 فيصد تيل گلف ممالک سے درآمد کيا۔ اس کے علاوہ گزشتہ چند سالوں ميں امريکہ کے مقابلہ ميں جاپان کا گلف ممالک پر انحصار بتدريج بڑھا ہے۔ مندرجہ ذيل گراف سے يہ بات واضح ہے کہ گزشتہ چند سالوں ميں امريکہ کا گلف ممالک کے تيل پر انحصار مسلسل کم ہوا ہے۔

http://img253.imageshack.us/my.php?imag ... 245hl7.jpg

يہاں يہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ امريکی حکومت بذات خود تيل کی خريدوفروخت کے عمل ميں فريق نہيں ہوتی۔ بلکہ امريکہ کی نجی کمپنياں اپنے صارفين کی ضروريات کے تناسب سے سروس فراہم کرتی ہيں۔ امريکی کمپنياں انٹرنيشنل مارکيٹ ميں متعين کردہ نرخوں پر عراق سے تيل درآمد کرتی ہيں جو کہ عراق سے برآمد کيے جانے والے مجموعی تيل کا محض ايک چوتھائ حصہ ہے۔ باقی ماندہ تيل عراقی حکومت کی زير نگرانی ميں نا صرف دوسرے ممالک ميں برآمد کيا جاتا ہے بلکہ عراق کی مجموعی توانائ کی ضروريات پوری کرنے پر صرف ہوتا ہے۔ عراق تيل کے توسط سے ماہانہ 2 بلين ڈالرز سے زيادہ کا زرمبادلہ حاصل کرتاہے۔

ان اعداد وشمار کی روشنی ميں يہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ يہ تاثر دينا کہ امريکہ عراق ميں تيل کے ذخائر پر قبضہ کرنے کے منصوبے پر عمل پيرا ہے يا امريکہ تيل کی سپلائ کے ليے سارا دارومدار عرب ممالک کے تيل پر کرتا ہے قطعی بے بنياد اور حقيقت سے روگردانی کے مترادف ہے۔



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDig ... 320?v=wall
علی خان
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 2628
Joined: Fri Aug 07, 2009 2:13 pm
جنس:: مرد

Re: شاہ محمود قریشی کے الفاظ (فواد کیلئے)

Post by علی خان »

تو پھر کیا تھمارے صدور نے پی رکھی تھی، جو وہ اسطرح کے بیانات دئیے.
میں آج زد میں ہوں خوش گماں نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں .
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: شاہ محمود قریشی کے الفاظ (فواد کیلئے)

Post by چاند بابو »

اشفاق بھیا آپ کی بات کا جواب اس فواد کی بے ربط بات کا جواب ایک ساتھ ہی دے دیتا ہوں۔
فواد wrote:جہاں تک تيل کی درآمد کا تعلق ہے تو 1973 سے 2007 کے درميانی عرصے ميں امريکہ نے تيل کی مجموعی درآمد کا 47 فيصد حصہ مغربی ممالک سے درآمد کيا جو کہ امريکہ ميں تيل کے استعمال کا 20 فيصد ہے۔ اسی عرصے ميں 34 فيصد افريقہ، يورپ اور سابق سوويت يونين سے درآمد کيا گيا جو کہ امريکہ ميں تيل کے استعمال کا 15 فيصد بنتا ہے۔ گلف ممالک سے درآمد کردہ تيل کا تناسب صرف 19 فيصد رہا جو کہ مجموعی استعمال کا محض 8 فيصد ہے۔
امریکہ درندہ تو ہے لیکن یقینا اتنا پاگل بالکل نہیں ہے جو اپنی اکانومی کا ایک بڑا حصہ کسی کی جنگ میں جھونک دے اور پس منظر میں اس کا مقصد صرف دنیا کو امن کا گہوارا بنانا ہے ۔
اس کے پس منظر کو جاننے کے لئے اس بات کو سرے اسے سمجھنا ہو گا۔
صدام حسین کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے عراق میں سارا تیل امریکہ اور برطانیہ کی یہود نواز کمپنیاں نکال رہی تھیں۔ ان کمپنیوں میں BP، Shell، Esso اور Mobicقابل ذکر ہیں۔ یہ کمپنیاں اس تیل کے عوض عراق کو 476 ملین ڈالر سالانہ دیتی تھیں۔ صدام حسین نے اقتدار سنبھالنے کے بعد تیل کی صنعت کو قومی تحویل میں لے لیا جس سے عراق کی آمدنی 26بلین ڈالر سالانہ ہوگئی۔ کچھ عرصہ بعدعراقی خزانے میں زرمبادلہ کی رقم 35 کھر ب ڈالر تک پہنچ گئی صدام نے اس رقم کے ذریعے فوج کی قوت بڑھانی شروع کر دی ،فوج کو جدید ترین اسلحہ سے لیس کرنے کیساتھ ساتھ بعث پارٹی نے ملک میں تعمیراتی اور سماجی بھلائی کے کام شروع کر دیے تیل کو قومی تحویل میں لینے کے اس اقدام سے امریکی مفادات کو شدید دھچکا لگا۔ ایک اندازے کے مطابق عراق میں تیل کے محفوظ ذخائر 130ملین بیرل ہیں جو دنیا میں دوسرے نمبر پرہیں۔ دنیامیں تیل کا سب سے بڑا ذخیرہ سعودی عرب میں ہے جس کے محفوظ ذخائر کا تخمینہ150ملین بیرل ہیں ۔ عراق کو تیل کے معاملے پراس لحاظ سے سعودی عرب پر فوقیت حاصل ہے کہ عراقی کنوئووں سے ایک بیرل تیل نکالنے پر ایک ڈالر خرچ آتا ہے جبکہ سعودی عرب کی زمین سے تیل نکالنے پر دو ڈ الر خرچ ہوتے ہیں ۔ (یہ تخمینہ 2004ء کا ہے )۔
ا مریکہ کے سابق صدر بش کے والد( سابق صدر سینئربش) سابق نائب صدر ڈک چینی اور وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس سمیت کئی دوسرے اہم امریکی عہدیدار تیل کا کاروبار کرتے ہیں ۔ سینئر بش کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ اس کے اسامہ بن لادن فیملی کے ساتھ کار لائل گروپ(car lail Group)کے حوالے سے بہت اچھے روابط رہے تھے لیکن یہ تعلقات اس وقت خراب ہوئے جب امریکہ چاہتا تھا کہ بحیرہ کیسپین سے گزرنے والی پائپ لائن کا ٹھیکہ امریکی کمپنیunical(جس کے مشیر ہنری کسنجر اور سابق امریکی سفیر رابرٹ اوکلے ہیں ) کو دیا جائے ۔ اسامہ بن لادن کا اصرار تھا کہ اس کا ٹھیکہ ارجنٹائن کی تیل کی کمپنی baridasکو دیا جائے ۔1991ء کی خلیجی جنگ کے بعد اس علاقے کے تیل کے ذخائر کو امریکہ نے اپنے قبضے میں لینے کا فیصلہ کیا ۔ ان عزائم کی تکمیل کے لیے امریکہ نے خلیج کے بیشتر ممالک میں اپنے فوجی اڈے بنا لیے جہاں سے وہ اپنے طیاروں کے ذریعے چند منٹ کی پرواز کے بعد تیل کی فراہمی کے علاقے اور اس کے بحری راستے پر کارروائی کر سکتا تھا، اس خطے میں امریکی عزائم کی راہ میں حائل واحد ملک اب عراق ہی رہ گیا تھا۔ امریکہ نے پوری دنیا کی رائے عامہ اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عراق پر حملہ کر دیا۔
ایک تجزیے کے مطابق عراق پر قبضے سے امریکہ کو اگلے پچاس سال تک کے تیل کے ذخائر پر عمل داری حاصل ہو گئی ہے ۔ اگر امریکہ عراق پر قبضہ قائم رکھ سکا تو آئندہ نصف صدی تک تیل کے معاملے میں اسے کسی قسم کی فکر نہ رہے گی بلکہ امریکہ کو عراق کا تیل عالمی منڈی میں فروخت کر کے کثیر دولت بھی حاصل ہو گی جس سے امریکی معیشت اور مضبوط ہو گی۔ ایک اندازے کے مطابق امریکہ ،عراق میں ایک ڈالر کے خرچ سے ایک بیرل تیل نکالے گا، اور یہی تیل عالمی مارکیٹ میں اگر 20 ڈالر فی بیرل کے حساب سے بھی فروخت کیا جائے تب بھی امریکہ کو ایک ڈالر خرچ کر کے 19ڈالر فی بیرل منافع حاصل ہو گا۔یہ تخمینہ بھی 2004کا ہے اس وقت تقریباً80ڈالرز فی بیرل فروخت کیا جا رہا ہے۔صدام حسین کی حکومت نے عراق میں جو تیل کے ذخائر دریافت کیے ان سے 50سال تک تیل نکالا جا سکتا ہے۔ جبکہ غیر دریافت شدہ ذخائر کا تخمینہ اس کے علاوہ ہے۔
دنیا بھر میں تیل کے ذخائر کا جو تخمینہ لگایا گیا ہے اس کے مطابق دنیا میں تیل کا سب سے بڑا ذخیرہ کیسپین کے علاقے میں ہے۔ یہ علاقہ سابقہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد قائم ہونے والی اسلامی ریاستوں آذر بائیجان، قازقستان، ترکمانستان ، ازبکستان، اور ایران کی ساحلی پٹی پر مشتمل ہے ۔ ان علاقوں میں تیل کا تخمینہ پندرہ ارب بیرل لگایا گیا ہے جبکہ گیس کے ذخائر کا اندازہ نو کھرب کیوبک میٹر ہے ۔بحیرہ کیسپین کے اس علاقے میں دریافت ہونے والے ذخائر کا اندازہ اس سے بھی زیادہ ہے۔ایک تخمینے کے مطابق کیسپین میں دریافت شدہ تیل کے ذخائر اگر مسلسل نکالے جائیں تب بھی وہ 150 سال کے لیے کافی ہو ں گے ۔
امریکی منصوبہ بندی کے پس منظر میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ عراق پر قبضے کے بعد امریکہ نے 50 سال تک کا تیل حاصل کر لیااور اگر وہ مستقبل میں کیسپین کے علاقے پر قبضہ کر لیتا ہے تو امریکہ کو آئندہ 200 سال تک تیل کے معاملے میں کوئی مشکل نہ ہو گی۔ اس کے علاوہ امریکہ کو دنیا بھر کی تیل کی منڈی پر بھی کنٹرول حاصل ہو جائے گا۔ اس خطے میں اگر ہم امریکہ کی پالیسی کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح طور پر سامنے آ جاتی ہے کہ امریکہ نے بحیرہ کیسپین کو ٹارگٹ بناتے ہوئے اپنی حکمت عملی پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے۔ وسطیٰ ایشیا کی ان ریاستوں کے علاوہ ترکی ، ایران،افغا نستان اور پاکستان کے بارے میں امریکی پالیسی کا گہرائی سے تجزیہ کرنے والوں کیلئے امریکی عزائم چھپے ہوئے نہیں ہیں۔ افغانستان پر امریکہ پہلے ہی قبضہ کر کے اپنی خواہش کے مطابق حکومت بھی تشکیل دے چکا ہے ۔ ترکی اور پاکستان کے پا س اس صورت حال میں امریکہ کا ساتھ دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔کیسپین کے علاقے سے ملحقہ وسطیٰ ایشیاء کی ریاستیں امریکہ کو فوجی اڈے فراہم کر چکی ہیں، اس خطے میں اب ایران ہی ایک ایسا ملک ہے جو کیسپین کے تیل کے ذخائر پر امریکی قبضے کے لیے رکاوٹ بن سکتا ہے۔ ایران کے بارے میں بھی امریکہ کی جارحانہ پالیسی کسی سے چھپی ہوئی نہیں ۔ امریکی پالیسیوں کا جائزہ لینے سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ امریکہ عراق کی تیل کی دولت پر قبضے کے بعد 20 سال سے 30 سال تک کیسپین پر قبضے کے لیے براہ راست جنگ میں ملوث نہیں ہو گا کیونکہ ابھی کیسپین کے علاقے سے تیل نکالنا کافی مہنگا ہے۔ اس وقت کیسپین سے تیل نکالنے پر فی بیرل 50 ڈالر سے زائد کا خرچ آتا ہے اس لئے یہاں سے تیل نکال کر منافع نہیں کمایا جا سکتا۔ جب تک عراقی تیل کے ذخائر کم نہیں ہوتے کیسپین کی خاطر امریکہ فوری جنگ نہیں کرے گا لیکن اپنی قومی حکمت عملی کے تحت اس آپشن (option) پر کام جاری رکھے گا کیونکہ امریکہ کا اندازہ ہے کہ 30سے40 سال بعد جب مشرق وسطیٰ میں تیل کے ذخائر کم ہو جائیں گے تو کیسپین کے علاقے سے تیل نکالنا Feasable ہو جائے گا۔ اس عرصے کے دوران امریکہ کیسپین کے گرد اپنا گھیرا تنگ کرتا رہے گا۔ اس کی کوشش ہو گی کہ جب یہ "پھل" پک کر تیار ہو توخود بخود امریکہ کی جھولی میں آ گرے اور کوئی ہمسایہ ملک رکاوٹ پیدا نہ کرے ، لیکن اگر امریکہ کو اپنے عزائم پورے کرنے میں مشکل پیش آئی تو وہ عراق کی طرح اس علاقے میں بھی خون ریز جنگ سے گریز نہیں کرے گا ۔ان علاقوں میں امن کے قیام اور دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر جو فوجی اڈے حاصل کیے جا رہے ہیں یہ اس جانب ایک اہم پیش رفت ہے۔ امریکہ کو یہ بھی خطرہ ہے کہ جس تیز رفتاری سے چین اپنی معیشت کو مضبوط بنا رہا ہے اور فوجی ترقی کر رہا ہے وہ اگلے 20 سال بعد اس علاقے میں امریکی عزائم کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہو گا۔ یہ فوجی اڈے عوامی جمہوریہ چین کو روکنے (Contain) میں بھی معاون ثابت ہو ں گے ۔
اس پس منظر میں اگر شرق اوسط اور جنوبی ایشیا میں امریکی سرگرمیوں پر نگاہ ڈالی جائےتو 1971ء کا منصوبہ جغرافیے اور سٹریٹجک کی تبدیلی کے ساتھ نئی طاقتوں کے خلاف دہرایا جا سکتا ہے۔ اگر ایران میں داخلی انتشار بڑھانے اور پابندیوں میں اضافے کے عمل کو دیکھا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ افغانستان میں فوجی طاقت بڑھا کر ایران کو غیرمعمولی صورتحال کی طرف دھکیلا جائے گا۔ چین توانائی کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے ایران اور شرق اوسط کی طرف دیکھ رہا ہے۔ یہ کوششیں افریقہ میں بھی جاری ہیں لیکن وہاں سے تیل کی فراہمی کی منزل ابھی دور ہے اس لئے چین کا زیادہ زور ایران اور گوادر کے ذریعے تیل کی سپلائی حاصل کرنے پر ہے۔ اس مقصد کے لئے وہ پاکستان اور افغانستان سے پائپ لائن کا راستہ بھی چاہتا ہے۔ اگر امریکہ خلیج سے جنگ یا بدامنی کے ذریعے تیل کی فراہمی میں خلل ڈال دیتا ہے تو اس سے مشرق بعید کے سارے ملک متاثر ہوں گے جن میں سے بیشتر ڈالروں کے ذخیرے لئے بیٹھے ہیں۔ خلیج سے تیل کی فراہمی معطل ہونے پر امریکہ اور یورپ زیادہ متاثر نہیں ہوتے کیونکہ 1971ء کے بعد یورپ روس سے توانائی حاصل کرنے کا راستہ ڈھونڈ چکا ہے۔ امریکہ کے پاس تیل کے محفوظ ذخائر اور خلیج کے بغیر تیل کی فراہمی کے انتظامات موجود ہیں۔ لیکن چین کا زیادہ انحصار شرق اوسط کے تیل پر ہے۔ جب تیل کا بحران پیدا ہو گا تو قلت کے ساتھ مہنگائی بھی آئے گی جس کے نتیجے میں ڈالر کی اہمیت بڑھے گی کیونکہ جس قدر تیل مہنگا ہو گا تیل کی تجارت پر قابض امریکی کمپنیوں کے منافعے بھی بڑھیں گے اور خلیجی ملکوں کے پاس جو دولت آئے گی اس کی منزل بھی امریکی بنک ہوں گے۔ اگر اس سٹریٹجک منصوبے سے حاصل ہونے والے فوائد کا اندازہ لگایا جائے تو افغانستان میں امریکہ کو پہنچنے والے نقصان کا ممکنہ فوائد سے جو تناسب ہو گا اسے امریکی آسانی سے برداشت کر سکیں گے۔ چین کی تیزرفتاری کے ساتھ ترقی کرتی ہوئی معیشت کو یہ جھٹکا لگ گیا تو اس کے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی آئے گی شرح ترقی نیچے گرے گی اور اس کی فوجی طاقت میں اضافے کی رفتار بھی متاثر ہو گی۔اس پورے کھیل کے لئے پاکستان افغانستان اور ایران کے علاقے بے حد اہمیت رکھتے ہیں۔ اگر یہ علاقے امریکہ کے زیراثر نہیں آتے تو یہاں بدامنی اور انارکی میں اتنا اضافہ کر دیا جائے گا کہ یہاں کوئی ترقیاتی کام یا تجارت کے راستے قابل عمل نہیں رہیں گے۔ جو کچھ میں نے بیان کیا ہے اگر واقعات اسی انداز سے آگے بڑھےتو 2010ء کا سال ہمارے لئے کافی بڑی تبدیلیاں چھوڑ کر جائے گا۔


یہ ہیں وہ اصلی مقاصد اور حالات جن کی خاطر امریکہ پوری دنیا میں دندناتا پھر رہا ہے۔اب ان حالات و واقعات کی روشنی میں فیصلہ آپ خود کر لیجئے کہ کیا امریکی جنگ تیل اور دیگر مقاصد کے حصول کے لئے ہے یا جو بکواس یہ فواد کر رہا ہے اس لئے۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

Re: شاہ محمود قریشی کے الفاظ (فواد کیلئے)

Post by اعجازالحسینی »

کھیچ کے رکھ تان کے رکھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔امریکی کتے باندھ کے رکھ
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
فواد
کارکن
کارکن
Posts: 83
Joined: Tue Dec 21, 2010 7:30 pm
جنس:: مرد

Re: شاہ محمود قریشی کے الفاظ (فواد کیلئے)

Post by فواد »

Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

ميں نے اس حقيقت سے بالکل انکار نہيں کيا کہ يونوکال طالبان کے دور حکومت ميں تيل کی پائپ لائن کے منصوبے ميں دلچسپی رکھتی تھی۔ جولائ 9 2002 کو يونوکال کے ترجمان بيری لين نے اپنے انٹرويو ميں واضح کیا تھا کہ پائپ لائن کا منصوبہ سال 1995 ميں تجويز کيا گيا تھا۔

آپ بيری لين کا انٹرويو اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں۔

http://emperors-clothes.com/interviews/lane.htm

بيری لين نے يہ بھی واضح کيا کہ يہ منصوبہ افغانستان ميں سيکيورٹی کی ابتر صورت حال کی وجہ سے ہميشہ تعطل کا شکار رہا۔ اس منصوبے کی راہ ميں سب سے بڑی رکاوٹ طالبان کی جانب سے دہشت گردی کی پشت پناہی ہے۔ تيل کا يہ منصوبہ دسمبر 1998 میں اس وقت منسوخ کر ديا گيا جب القائدہ کی جانب سے افريقہ ميں امريکی سفارت خانوں پرحملوں کے بعد يہ واضح ہو گيا کہ طالبان اسامہ بن لادن اور ان کی تنظيم القائدہ کی حمايت ترک کرنے کا کوئ ارادہ نہيں رکھتے۔

يونوکال وہ واحد کمپنی نہيں تھی جو سينٹرل ايشيا ميں تيل اور گيس کے ذخائر کے حوالے سے منصوبوں کی تکميل ميں دلچسپی رکھتی تھی۔ يونوکال درصل کئ ممالک پر مبنی سينٹ گيس نامی ايک عالمی کنسورشيم کا جزو تھا۔ اس کے علاوہ اس ميں ڈيلٹا آئل کمپنی (سعودی عرب)، ترکمنستان کی حکومت، انڈونيشيا پٹروليم لميٹڈ، انپيکس (جاپان)، اٹوچو آئل ايکسپلوريشن کمپنی لميٹڈ (جاپان)، ہنڈائ انجيرينگ اينڈ کنسٹرکشن کمپنی لميٹڈ (کوريا)، کريسنڈ گروپ (پاکستان) اور آر – اے- او گيزپروم (روس) شامل تھے۔

اگر تيل کا يہ معاہدہ کامياب ہو بھی جاتا تو اس کا يہ مطلب ہرگز نہيں تھا کہ امريکی حکومت کو خطے ميں تيل کی سپلائ پر کنٹرول حاصل ہو جاتا۔ يونوکال ايک پرائيوٹ کمپنی تھی اور وہ انھی شرائط اور معاہدوں کے تحت کام کرنے کی پابند تھی جو ميزبان ملک کی حکومت اور عالمی کنسورشيم کے ديگر مابين کے مابين طے ہو چکے ہوں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDig ... 320?v=wall
Post Reply

Return to “کرنٹ افیئرز : ویڈیوز”