پختون کی بیٹی

سید تفسیراحمد صاحب کی نوکِ قلم سے نکلنے والے منتخب ناول
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

شان نے کہا۔" لیڈیز فرسٹـ۔"

سعدیہ نے کہا " جناب پہلے آپ "

شان نے سعدیہ کو دونوں ہاتھ تھام کے اسکو کھڑا کیا۔سعدیہ کا چہرہ سمندر کیطرف تھا۔ سورج آدھا غروب ہوچکا تھا اور سورج کی کرنیں سمندر کے پانی پر قوس و قزح کے رنگوں کی طرح جھلملا رہی تھیں۔ سعدیہ کادل ، ریل کے اِنجن کیطرح دھک دھک کرنے لگا۔ اس نے خواہش کی کہ دل دھیرے چلے مگر دل نے اور ذیادہ ڈھڑکنا شروع کردیا۔ اس نے اپنی پوری توجہ دل سے ہٹا کر شان کیطرف کی۔

شان نے اپنا سیدھا گھٹنا ریت میں رکھ دیا اور سعدیہ کے دونوں ہاتھوں کو تھام کہا۔ " تم سمندر کی جل پری ہو، میں پہاڑوں کا باغی۔ میں یہ جانتا ہوں کہ تم اس ساحل سمندر سے محبت کرتی ہو۔ اسلے میں یہ سوال تم سے کرنے یہاں لایا ہوں۔ میری محبت تمہارے لئے اس سمندر کی طرح گہری ہے اور میری محبت اس سمندر کی طرح وسیع ہے۔ میں تم سے جدا نہیں رہ سکتا۔ میں تمہارا ہاتھ ہمشہ کیلے چاہتا ہوں ۔ سعدیہ تم اور میں ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے کے ہو جائیں۔ مجھ سے شادی کر لو۔

سعدیہ نے تو صرف یہ سننا ـ"سمندر، جل پری، میں باغی، ساحل، محبت ، جدا نہیں، ہاتھ، شادی" اور اس نے چلا کر کہا۔

" ہاں، میں، تم سے شادی کروں گی۔ میں تمہاری بن جاوں گی۔تم میرے ہو جاوگے"۔

سعدیہ کا دل اب نارمل اسپیڈ سے چل رہا تھا۔

شان نے کھڑے ہو کر سعدیہ کو گلے سے لگا کر اس کے لبوں پر پیارکیا۔ اور دونوں ایک دوسرے کو بے تحاشہ پیارکرنے لگے۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

6 ۔ اعلان


میں اگست میں گریجویٹ ہوگیا۔ اباجان اور اماجان سے دنیا دیکھنے کے بارے میں کافی عرصہ سے بات چیت کررہا تھا ۔ پارٹ ٹائم نوکری کی تنخواہ بھی اسی لئے جمع کررہا تھا۔ اباجان اور اماجان نے کہا تھاکہ وہ بھی اس میں مدد کریں گے۔ سعدیہ کو پتہ تھا کہ میں نے بچپن میں، سو گولز کو مکمل کرنے کی فہرست بنائ تھی۔ اِن گول میں سے کچھ مشکل تھے اورکچھ آسان۔ مشکل والوں گولوں کی فہرست میں 'ماونٹ ایوریسٹ' کی چوٹی کو فتح کرنا، انگلش چینل میں تیرنا، پانچ زبانوں میں بولنا اورکسی کی محبت میںگرفتار ہوجاناتھا۔ آسان والوں میں ساری دنیا کا سفر کرنا، پانچ براعظم پر رہنا، غزل لکھنا، افسانہ لکھنا، ناول لکھنا، سانپ کا دودھ دونا، گلایئڈر میں اڑنا تھا۔ میں نے بیس سال کی عمر میں پچھتّر گول مکمل کرلئے ہیں۔

جب میں نے اعلان کیا کہ میں چلا۔ کوئ بھی شخص میرے اس فیصلہ خوش نہیں تھا۔ اباجان اور اماجان کو پتہ تھا کہ میں گریجویشن کے بعد دنیا کا سفر کروں گا لیکن ان کے خیال میں یہ وقت سفر کے لے صحیح نہیں تھا۔ سعدیہ کو پتہ تھا کہ میں گرریجویشن کے بعد دنیا کا سفر کروں گا لیکن وہ مجھے اپنی ساتھ پختونستان لئے جانا چاہتی تھی۔ سکینہ اُداس تھی۔ اس نے بھی یہی سوچا تھا کہ میں اسکے گروپ کا حصہ بن جاؤں گا اور ہم دونوں کا مستقبل ساتھ ہوگا۔ میں سب کو سمجھا نے کی کوشش کی کہ یہ صرف چار سال کی بات ہے۔ زندگی بھر نہیں۔ میں پچیس سال کا صرف ایک دفعہ ہونگا۔ میں اپنے گول مکمل کرنا چاھتا ہوں اس کے بعد میں آپ لوگوں کو کوہاٹ میں جوائین کرلوں گا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

سین وان ماؤنٹین کی قدموں میں ، اوراس کے شمال میں اور کلوراڈو پٹھار ریگستان کے مغرب میں "ریج وے"ہے۔ میں جیمس ماونٹنیرینگ کے آفس پہنچا۔ کاونٹر پر ایک پیاری سی لڑکی کھڑی تھی۔اس کے گال سرخ سیب کی طرح تھے۔

"ہیلو۔" میں نے اسکے نیم ٹیگ پر نگاہ دوڑائ۔ " جیسمین "

"ہای۔ میں آپ کی کس طرح مدد کرسکتی ہوں؟ " گال سرخ سیب نے کہا۔

میں نے دل میں کہا میرے ساتھ ڈنر پر چلو آج شام۔ مگر زبان نے کہا۔

“ میں جیمس انڈرسن سے ملنا چاھتا ہوں۔"

اس نےحیرت سے مجھ کو دیکھا۔ "کیا آپ کے پاس اپائنٹ منٹ ہے؟"

" نہیں"۔ میں نے کھسیا کے کہا۔

" کیا میں آپ سے پوچھتی سکتی ہوں کے آپ کو مسٹر جیمس انڈرسن سے کیا کام ہے؟"

میں ماونٹ ایورسٹ کو چڑھنا چاھتا ہوں۔ اس سے پہلے میں alps سویزر لینڈ میں ٹرنینگ چاھتا ہوں۔ اور اس سے پہلے میں ایروبیک اور جسمانی ٹرنینگ چاہتا ہوں"۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

وہ زور سے ہنسی اور اسکے لب گلاب کی پنکڑی کیطرح علحیدہ ہوگے"۔ میں یہاں تین ماہ سے کام کررہی ہوں مگر میں نے جیمس انڈرسن کو صر ف ایک بار دیکھا ہے۔ انکے کلائینٹ تو پہلے سے ہی کامیاب climber ہیں اور صرف مشورہ کے لے آتے ہیں۔ویسے تو ہم سب سرٹیفایئڈ ہیں " ۔

" تب تو میں جیسمین سے ٹرنینگ لوں گا "۔

وہ دوبارہ زور سے ہنسی۔ " تم کہاں پر ٹہرے ہو؟ "

" فی الحال تو کہیں نہیں۔ میں سیدھا ایئرپورٹ سے آرہا ہوں "۔

"میرا اپارٹمیٹ دو کمرے کا ہے اور میر ے اکیلے کے لیے منہگا ہے۔ چاہو توکرایہ کا آدھا آدھا حصہ کرلیں "۔

" تم تو فرشتہ ہو !" میں نے ہنس کر کہا۔

"میں آدھ گھنٹے میں یہاں سے فارغ ہوں گی۔ تب میں تم کو اپنی گاڑی میں لے چلوں گی“ ۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

7 ۔ سیر سپاٹا


پیارے بھیا۔

میں خیریت سے کو ہاٹ پہنچ گی ہوں۔ شان اور میں لاس انجلس سے پندرہ جولایئ کو آٹھ بجے نکلے ۔ لاس انجلیس سے لندن کا سفر آٹھ گھنٹے کا تھا۔ لندن کا وقت آٹھ گھنٹے آگے ہے۔اسلئے لند ن میں بارہ بجے رات کو پہنچے۔ ہم نے لندن میں دو دن قیام کیا اور شہر کی مشہور جگاہیں دیکھیں۔ ہماری خوش قسمتی کہ ددنوں دن موسم خوشگوار تھا۔ ورنہ اس مہینہ میں عموماً بارش، اور حبس ہوتا ہے۔ کیونکہ زیادہ وقت نہیں تھا اسلے ہم نے نارمن ٹوورس کو گھومنے کے لے بلایا۔ٹور سات گھنٹے کا تھا۔ ہم نے بکنگھم پیلس، ویسٹ منسٹر ایبی، بِگ بین، ہاوس آف پارلیمینٹ، پیکاڈلی سرکس، ٹرافالگر اسکوائر ، نمبر ٹین ڈاوننگ اسٹریٹ اور کنسنگٹن پیلس کی سیر کی۔

دوسر ے دن ہم نے لندن انڈر گراونڈسب وے لیکر ناٹینگ ہم ہلز گے ۔ اس علاقے میں بہت پاکستانیوں اور انڈین ہیں۔ ہم بازاروں میں گھومے ۔ ٹھیلے والوں سے دہی بڑے، چاٹ خرید کرکھایئ او رگول گپوں کا پانی پیا۔ اسکے بعد قلفی کھایئ۔ شام میں ہم نے افغان کچن میں چکن پلاؤ، کباب اور نان کھائے۔ یہ چیزوں کو کھانے میں بہت مزا آیا اور بھیا میں نے شان سے مرچوں کی بھی شکایت نہیں کی ساری رات پیٹ سے آوازیں آتی رہیںاور پیٹ میں درد بھی ہوا۔

لندن سے دوبیئ ہوتے ہوئے ہم کراچی اترے۔کراچی لاس انجلس کی طرح ایک بڑا شہر ہے۔ مگر گرمی اور حبس نے میرا بُرا حال کردیا۔ اور ہم نے پشاور کی ایر کیڈیشن ٹرین کراچی کے سنڑل اسٹیشن پکڑی۔ پشاور میں سکینہ اور نیدو لینے آیئں۔

میں اباجان اور اماجان سے آپ کے بارے میں ہر دوسرے دن سنتی ہوں مگربھیا میں آپ کو بہت یاد کرتی ہوں۔ دن میں تو میں بہادر بنتی ہوںلیکن شام سے آپکی یاد آتی ہے۔ اور میں تکیہ میں منہ چھپا کر روتی ہوں۔ آپ مجھ سے ملنے کے لیے کب آئیں گے؟۔

آپکی ننھی۔ سعدیہ
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

8 ۔ ٹریننگ


" چلو، اُٹھو"۔

"کیا ہے؟ سونے دو"۔

" فِٹ نیس سینٹر جانا ہے"۔

" چلی جاؤ"

" اب اُٹھ بھی جاؤ۔ مجھ سات بجے دو سرے کلائیٹ کو ٹرین کرنا ہے"۔

" اس ہفتہ کا اسکیجول ۔ ویٹس۔ ایروبِکس۔ ایروبِکس ۔ریسٹ ۔ ویٹس اورایروبِکس۔ رن یا جاگینگ(آہستہ بھاگنا)۔ لمبے ایروبکس "
" میں نے پہاڑ پر چڑھنا سیکھنا ہے۔ویٹ لفٹر نہیں بننا"

"تم پہاڑ پر بھی چڑھنا سیکو گے لیکن ابھی اس قابل نہیں ہو"۔

" پہاڑ پر چڑھنے کے لئے ویٹس، ایروبِکس اور صحیح طریقے سے سانس لینا بہت ضروری ہے"۔

" اورھیڈ پریس، لیٹ ریز ، اسٹیندینگ رو، بیک ارچ، ریورس فلایئ، لیٹ پُل ڈاون، سیٹیڈ رو، بیک ارچ اوراَرم کرل ۔ ہر اکسرسایئس کا ایک سیٹ پہلے تین ہفتہ۔ اس کے بعد دو سیٹ"۔

" میں یہ سب کچھ نہیں سن رہا" ۔

" ایروبِکس کے لے تیس منٹ تک چلو یا بھاگو۔ اور اس کو بڑھا کر ایک گھنٹہ تک لے جاؤ ۔ اور یہاں تک کہ تم ایک گھنٹے تک تیس پاونڈ کا وزن لیکر چل سکو"۔

" آرام کے دن بہت پانی پئیو۔ کچھ اسٹریچنگ کرو ور مالش کرواؤ"۔

" چلو میں تم سے جیم تک دوڑ لگتی ہوں۔ اگر میں جیتی تو تم کو میرے لئے ناشتہ خریدنا ہوگا" ۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

9 ۔میٹر ہارن

زرمٹ سویزرلینڈ کا شمار دنیا کے مشہور پہاڑی گاوں میں ہوتا ہے۔ زرمٹ چار طرف پہاڑوں سے گھرا ہوا ایک وادی میںواقع ہے۔ جسے ہی آپ لال سویز ٹرین سے اترتے ہیں۔ زرمٹ میں کار کے بجائے بغیرپییوں کی گھوڑا گاڑی کا استعمال ہوتا ہے۔ سڑکیں پتھر کی ہیں۔زرمٹ ٢٩ پہاڑوں میں تیراہزار فٹ سے اونچے پہاڑوں کا گھر ہے۔ یورپ کی دس میں سے نو بلند چوٹیاں زرمٹ کے اردگرد ہیں۔٩ اسنو اکی لفٹ اوران میں سے ایک لفٹ بارہ ہزار آٹھ سو تیئس فٹ کی بلندی تک جاتی ہے۔ ایک ہفتہ سے اس اونچا یئ اور آب و ہوا سے جسم اور ذہن کو عادی کرنے کیے لیئے ہم زرمٹ میں سے تھے اور پہلے تین دن ہرروز چا ر گھنٹے چہل قدمی کی۔

چڑھائی کا پہلا دن ۔ کیوںکہ میرا ایک سال سے کم کا ماونٹین پر چڑہنے کا تجربہ تھا۔ لیڈر نے ہارن لیریج راؤٹ چنا اس راستہ پر مشکل حصوں میں مستقیل رسّیاں موجود ہیں۔ ہم گروپ سے زرمٹ میں ملے اور فلو الپ ہٹ تک پیدل چلے۔ فلو الپ سے اونچایئ کے پہلے ماونٹین ہٹ تک کیبل کار میں سفر کیا۔ چڑھنے کے لے پہلا بیس اسٹیشن آٹھ ہزار ساتھ سو ننوے فٹ پر رِمپیش ھارن ہے۔ رِمپیش ہارن کی چوٹی تیرا ہزار سات سو تیہتر فٹ اونچی ہے۔ جیسمین نے کہا کے اس ہٹ کا کھانا بہت مشہور ہے۔اور واقعی وہ صحیح تھی۔ کھانا بہت لذیذ تھا۔

دوسرا دن ۔ رِمپیش ہارن ۔سورج نکلنے سے پہلے ہم سب اپنے چڑھایئ کے گیئر پہن چکے تھے۔ ہم نے گلیشیر پر چڑھنا شروع کیا۔گلیشیر کے بعد بغیر برف والا حصہ تہہ کیا۔ یہاں سے اوپردیکھو تو میڑہارن بڑا خوبصورت نظر آتا ہے۔ اور ماونٹ روزا ماسیف، زرمٹ کا گاوںاور ساسفی بھی دِکھتا ہے۔ شام کو ہم زرمٹ واپس آگئے۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

تیسرا دن۔ رِفّل ہارن کی اونچایئ نو ہزار چھ سو فٹ ہے ۔یہ اگرچہ ذیادہ بلندی پر نہیں ہے لیکن یہاں ہم اپنے اپ کو میٹر ہارن کی چڑھایئ کیلے تیاری کرتے ہیں۔اس چھوٹی پہاڑی پر ہم مختلف چڑھا یؤں کی مشق کرتے ہیں۔میڑہارن یہاں سے اور بھی ذیادہ خوبصورت نظر آتا ہے۔

چوتھا دن۔ ہارنلی ہٹ ۔ ہم کیبل کار کے ذریعہ اوپر جاتے ہیں اور پھر کیبل ا سٹیشن سے دو گھنٹے چلنے کے بعد ہارنلی ہٹ پہنچتے ہیں۔ یہ دس ہزار چھ سو تیرانوے فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ ہٹ دو بلڈنگ ہیں ، ایک لال اور دوسری سفید۔ لال بلڈنگ کے سامنے سویزر فلیگ لہرارہا ہے۔ سہ پہر میں ہم ہارنلی پرمشق کرتے ہیں۔ کیونکہ دوسری صبح ہم اندھرے میں یہاں سے گزریں گے۔ہم کھانے کی درمیان میٹرہارن پر چڑھنے کا منصوبہ تیار کرتے ہیںاور صبح جلد اٹھنے کے کیلے سوجاتے ہیں۔

پانچواں دن ۔میٹرہارن کی چڑھائ۔ہم سورج کے نکلنے سے پہلے نا شتہ کرتے ہیں۔ ہم چھوٹی رسیوں کی مدد سے ٹیلوں پر چڑھایئ کرتے ہیں۔ ساڑھے پانچ گھنٹے میں ہم میٹرہارن چودہ ہزار چھ سوچورانوے فٹ کی چوٹی پر پہنچ جاتے یہاں میٹرہارن پر سویز۔اٹالین سرحد ملتی ہے۔ یہ دن بہت اچھا ہے ۔ سب اس اونچایئ سے چاروں طرف کا نظارہ کرتے ہیں۔ ہارنلی ھٹ تک واپسی میں چار گھنٹے لگتے ہیں۔ ہم ایک گھنٹہ آرام کرنے کے بعد کیبل کار کے اسٹیشن کو چلتے ہیں۔کیبل کار میں ایک مختصر سفر کے بعد ہم زرمٹ میں ہیں۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

11 - چترال

پیارے بھیا۔

مجھے آپ کا یورپ کا سفر اور میٹرہارن کی چڑھائ کا پڑھ کر بہت مزہ آیا۔ آپ کو یاد ہے جب آپ نے سو’ گول‘ پچیس سال کی عمر سے پہلے ’حاصل کرنے ‘ کے لیے بناۓ تھے! میں نے صرف ایک ہی گول بنایا تھا”ایسا اچھا کام کروں کہ سارا جہاں سعدیہ کو جان جاۓ”۔ اور میں نے کہا تھا کہ باقی گول میں، میں بھی آپ کے ساتھ ہوں گی۔ میں نے وعدہ کیا تھا کہ میں آپ کی دیکھ بھال کروں گی۔ میں نے اپنا وعدہ نہیں نبھایا۔ میں سوچتی ہوں، کیا جیسمین آپ کی اس طرح سے دیکھ بھال کرتی ہے۔ جیسےمیں کرتی؟

میں پچھلے چھ ماہ سے ’ افغانہ ‘ ویب سائٹ کے انگلش اور اردو رومن سیکشن پر کام کررہی ہوں اور گومل یونیورسٹی کوہاٹ میں پشتو بھی سیکھ رہی ہوں۔ بازار میں سب لوگ مجھے پختون سمجھتے ہیں۔ نسیمہ نے مجھے تربیت دے کر کہا کہ وہ اب صرف پشتو اوراردو کی ویب سائٹ کو سنھبالے گی۔ بھیا اب میں بالکل اکیلی ، انگلش اور اردو رومن سیکشن کو سنھبالتی ہوں۔ تم دیکھنا۔ تم اپنی سعدیہ پر فخر کروگے!

لیکن مجھے بے چینی رہتی ہے۔ مجھے شان کو دیکھنے کا موقع بہت کم ملتا ہے۔ وہ فیلڈ میں ہوتا ہے اور دنوں تک اس سے بات نہیں ہو پاتی۔ اس کے کام میں بہت خطرہ ہے اور مجھے ہمیشہ اس کی فکر رہتی ہے۔ میں اب اس کے ساتھ کام کرنا چا ہتی ہوں تا کہ میں اس کی دیکھ بھال کر سکوں۔

ہمارے خان زادیوں کے نیٹ ورک میں اب تمام صوبہ سرحد کے ضلعوں میں کم از کم ایک خان زادی خفیہ ممبر ہے۔ کئ ضلعوں میں، مثلاً کوہاٹ میں تو ہر تحصیل سے ایک یا دو خان زادیاں ممبر ہیں۔

پچھلے مہینے ہمیں ایک مخبر سے پتہ چلا کہ چترال میں ’ خاو‘ خاندان میں ایک بارہ سالہ لڑکی کی شادی زبردستی کی جا رہی ہے اور اس نے ہماری خفیہ خان زادی ممبر سے مدد مانگی ہے۔ بھائ یقین کر یں کہ یہ خان زادیاں اپنے خاندان کے مردوں سی اتنی ڈرتی ہیں کہ ہمیں بھی اپنے نام اور پتہ نہیں بتا تیں۔ لیکن شان نے دوسرے ذرائع سے ان کے متلعق معلومات جمع کی ہیں۔ مثال کے طورپر اس خان زادی نے نہ تو اپنا نام دیا اور نہ ہی تحصیل کا۔ تھوڑی دیر مخبر سے بات کرنے سے ہم کو لڑکی اور تحصیل کے نام کا پتہ چلا۔

اس صورت میں شان اس لڑکی کو اسلام آ باد تک پہنچانے کا انتظام کرے گا۔ پشاور سے ایک دوسری تنظیم اس لڑکی کو ملک کے کسی حصہ میں ایک خفیہ گھرمیں بھیج دے گی۔

شان کے ساتھی اکبر بھائ کو جاڑے دار بخار آیا تھا۔ شان کو ایک ساتھی کی ضرورت تھی۔ میں نے بڑی خوشامد کی۔ شان بڑی مشکل سے راضی ہوا کہ میں اس کے ساتھ جاؤں۔

آپ کی ننھی۔ سعدیہ
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

12 ۔ افغانہ


پیارے بھیا۔

پہلا کام پشاور سے چترال کے راستہ کی نشان دہی کرنا تھا۔ چترا ل سے پشاور ، ہوائ جہاز کے سفر میں پکڑے جانے کا خطرہ تھا ، اور فلائٹ صرف پہلی اپریل سے بیس اگست تک تھیں۔ فلائٹ کا بھروسہ نہیں تھا ، کبھی پرانے فوکرجہازوں کی مرمت کی وجہ سے اور کبھی موسم خراب ہونے کی وجہ سے فلائٹ نہیں جاتی۔ لیکن اچھے موسم میں پچاس منٹ میں چترال پہنچ سکتے ہیں۔ سڑک بہتر ذریعہ تھا۔ درگئ ملاکنڈ کےراستے روڈ سوات تک ، دِیر اور پھر لواری ٹاپ۔ لیکن لواری ٹاپ سردی کےموسم میں بند ہو جاتاہے۔ اگرچہ دِیر سے چترال صرف ستر کلومیٹر ہے لیکن خراب سڑک موسم اور مڈ سلائڈنگ کی وجہ سے پانچ سے چھ گھنٹے لگ سکتے ہیں۔ 4x4 چھوٹی میلٹری جیپ گاڑی ہو نا ضروری ہے۔

“ ہم پشاور سے’ دیر‘ تک بس بھی لے سکتے ہیں”۔شان نے کہا۔

“ صرف ایک راستہ آنے جانے کا ہے اگر ہمارا راز کھل گیا تو آسانی سے پکڑے جائیں گے۔ دوسرا راستہ شندور پاس سےگلگت جانے کا ہے جس کا سفر 25 گھنٹے کا ہے۔ شا ن نے کہا کہ ہمیں جنگل کے متعلق معلومات ہونے چاہیں”۔

میں نے کہا”۔ .جنگل میں جپسی قوم’گوجر‘ رہتی ہے”۔

“ لڑکی کے متعلق ہمیں اور کیا پتہ ہے؟”

میں نے شان کو بتایا کہ عمر 12 سال ہے۔ قد 4 فٹ 6 انچ ، وزن 50 پاؤنڈ اور رمپور وادی میں رہتی ہے۔ زبان ’ کھوار‘ ہے۔ تھوڑی سی پشتو بولتی ہے اور سکول جاتی ہے”۔

“ کیا یہ لڑکی پکے ارادے والی ہے ؟ کیونکہ اگر اس نے ارادہ بدل دیا تو یہ سفر بہت مشکل ہوجاۓ گا”۔ شان جانا چاہتا تھا۔

ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم وقت بچانے کے لیے ہوائی جہاز میں سفر کریں گے۔ اور ہمارے پاس واپسی کے تین ٹکٹ ہوں گے۔ لڑکی اور ہمارا ـ” ٹارگٹ” ہم سے علحیدہ سفر کرے گی۔ اگر اس کام میں کوئ رکاوٹ نہ ہوئ تو ہوائی جہاز سے ہی واپس لوٹیں گے ورنہ جنگل کا راستہ اخیتار کریں گے۔ میں ایک فرانسیسی عورت کا کردار کروں گی اور شان ایک گائیڈ کا۔ شان نے گائیڈ کا اور ایک ٹرانسپورٹ آپریٹرکا بھی پرمٹ اپنے ساتھ رکھ لیا۔ میں نے ایک برقعہ اور ایک پاکستانی کپڑوں کا جوڑا رکھ لیا اورایک بارہ ، تیرہ سال کی عمرکے لڑکے اور لڑکی کی لیے ڈھیلی قمیض، اسکارف ، پتلون اور جوتے، بھی خرید کر رکھ لیے۔ ان کے علاوہ 45 آدھے لیٹر والی واٹر بوتل بھی رکھ لیں۔ میں نے جنگل survival کی کلاس ہائی سکول میں لی تھی اس لیے مجھ کو پتہ ہے کہ کیا چیزیں ضروری ہیں۔ میں نے آرمی واٹر فلاسک ، ٹارچ ، چار خیمہ کو لگانے والی سلاخیں، سو فٹ لمبی رسی اور latches ، تین space age کمبل، اور inflateable تکیے اور اور ایک چھوٹا مچھلی پکڑنے کا جال ، ڈفل بیگ میں رکھ لے۔اور survival کی دوسری اشیاء بھی۔ ایک ڈیڑھ فٹ کی hechete کو چمڑے کے کیس میں رکھ کر ڈفل بیگ کی بیرونی جیب میں رکھ لیا۔ شان ڈفل بیگ رکھےگا اور میں ایک بیک پیک رکھوں گی۔بیک پیک میں قطب نما، واٹر پروف ماچس، سویز آرمی چاقو، 45 پروٹین بار، نمک، کالا نمک، سرخ مرچ ، انٹی بایوٹِک گولیاں، فرسٹ ایڈ باکس اور واٹر کو صاف کرنے والی گولیاں بھی رکھ لیں۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

پی۔آئ۔ اے نے موسم کی وجہ سے فلائٹ کینسل کردی۔ شان نے ویلی ایم تھرٹی ایٹ جیپ کرایہ پر لی۔ چترال جانے کے تین راستے ہیں۔ پشاور سے چلیں اور اگرکوئ رکاوٹ نہ ہوتو چکدرہ، دیر اور ل لواری ٹاپ سے تو بارہ گھنٹے کا راستہ ہے۔سیدو شریف(سوات) ، دیر اور لواری درہ سے دس گھنٹے کا راستہ ہے۔ اگر گلگت سے چلیں تو گوپس، پھندار اور شندور درہ بیس گھنٹے میں پہنچیں گے۔ ہم پشاور میں تھے ہمارا راستہ چارسدہ، پہاڑوں میں بٹ خیلہ ، اوچ، تِمرگرہ، دیر خاص اور پھر چترال۔ راستہ بہت خوبصورت ہے۔ سٹرک پر درختوں کی قطار لگے ہیں۔ فضا گنّے کی خوشبو سے مہک رہی ہے۔

ایک آدھ گھنٹے میں تخت بھائی سےگزرے۔ شہر میں کافی چہل پہل ہے۔تخت بھائ کے کچھ میلوں کے بعد پہاڑوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ سڑک اب بل کھا تی ہوئ اوپر چڑھتی ہے۔سڑک کےساتھ ساتھ دریاۓ پنچکوڑہ بھی سانپ کی طرح بل کھاتا ہے۔ دل چاہتا ہے کہ ہر موڑ پرگاڑی روک کر تصویریں لوں۔ نقاب پہنی ہوئ ننھی بچیاں بکریوں کی چرواہے ہیں۔ کہیں لڑکے پانی کے تیز بہاؤ میں کھیل رہے ہیں۔ کہیں لوگ چرخی، ٹوکری اور رسی کی مدد سے دریا کو پار کر رہے ہیں۔

پہلا پولیس چیک پوسٹ تمرگرہ ہے۔ پولیس گارڈ نے ہم کو ہاتھ کے اشارے سے جانے دیا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ ’ دیر‘ میں ایک گھنٹہ ٹھہریں گے۔ ہاتھ منہ دھویں گے اورکھانا کھائیں گے۔ دیر پہنچ کر ہم ہوٹل المنصور ٹھہرتے ہیں۔ ہمارا کمرہ چھت پر ہے۔ یہاں سے آپ تریچ میر جو ہندو کش کی 23000 بلند چوٹی کا نام ہے اور جس کا ترجمہ ’ بڑا بزرگ ‘ ہے کا نظارہ کر سکتے ہیں۔ اس وقت ٹمپریچر 75F ہے۔اور موسم خوشگوار ہے۔ میں نے برقعہ پہنا اور ہم نے شہر کی مین بازار اور دریا کی پار کرنے کی جگہ کا جائزہ لیا۔ اس کے بعد ہم نے نیچےجانےوالے دروازے کی کنڈی لگادی اور چار پایاں کھلے برآمدہ میں لگادیں۔شان اور میں نے آسمان پر جنوبی ستارہ تلاش کیا۔ میں نے شان کو بتایا کہ ستاروں کی مدد سے کس طرح سے صحیح راستہ اختیار کرتے ہیں۔

ہم صبح ناشتہ کے بعد لواری درہ کی طرف چلے۔ راستے میں ہم نے سڑک کا ٹیکس دیا۔ دوپہر تک ہم چترال کے شہر میں پہنچے۔ میں نے ہوٹل پی۔ٹی۔ڈی۔سی میں بُکنگ کرائ تھی۔ ہوٹل بازارمیں ہے۔ میں نے پاکستانی شلوار اور قمیض اوردوپٹہ پہن رکھا تھا۔ ہم نے چابیاں لیں اور کمرے کھولے۔ کمرے میں ہر چیزموجود تھی۔

ہم نے شہر کی بڑی سڑک پر چہل قدمی کی۔ شاہی مسجد کے پاس دریا کے کنارے قلعۂ چترال ’ نوغورے ‘ کو دیکھا۔سہ پہرمیں ہم گرم چشمہ( ایک مقام کا نام جہاں پر گرم پانی کا چشمہ ہے) دیکھنےگۓ۔ پولو کا کھیل چترال ہی میں شروع ہواہے۔ یہاں پولو امیروں کا کھیل نہیں ہے بلکہ سب لوگ کھیلتے ہیں۔ دو گھنٹے دور وادیوں میں چھپا "کیلاش" قبیلہ ہے۔ یہ لوگ کافر ہیں اور مشہور ہے کہ ان کے ابا و اجداد سکندر اعظم کی فوج سے ہیں۔ بہت حسین اور خوبصورت لوگ ہیں۔

شام کو واپسی پر ہمیں ایک گھبرایا ہوا جوان لڑکا ہوٹل کے باہرملا۔ اس نے شان کو روکا اور پشتو میں با تیں کرنے لگا۔ میں پیچھے دور کھڑی ہوگئ۔ بات کو جلدی ختم کرکے وہ تیزی سے لمبے قدم اٹھاتا ہوا گلی کے نُکّڑ پرغائب ہوگیا۔

شان نے کہا۔” لڑکی کے ماں اور باپ کو کس طرح سے پتہ چل گیا ہے کہ ہم یہاں کیوں آۓ ہیں۔ ہمیں یہاں سے جلد نکلنا ہے۔ صرف ڈفل بیگ اور بیک پیک لینے کا وقت ہے۔ تم کرایہ نمٹاؤ اور قلعہ پرلڑکی سے مل کر میرا انتطار کرو۔ میں اوپر سے سامان لے کرآتا ہوں اورجیپ کو واپس کرکے تم دونوں سے ملتا ہوں۔ ہمیں جنگل کا راستہ لینا ہو گا“۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

قلعہ میں اندھیرا تھا۔ میں قلعہ کے باہر روک گئ۔

میں نےجان کر بلند آواز سے انگلش میں کہا۔ ” میرا نام افغانہ ہے“۔

ایک کانپتی ہوئ لڑکی قعلہ کی دیوار کے پیچھے سے سامنے آئ۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور جنگل کا رخ کیا۔اورہم دونوں درخت کے پیچھے چھپ گۓ۔ تھوڑی دیرمیں قلعہ کے سامنےایک سایہ نظر آیا۔ میں نے ایک پرندے کی آواز نکالی جس سے شان واقف تھا۔ شان تیزی سے ہماری طرف دوڑا۔

” ہمار ے پاس پندرہ منٹ کی lead ہے۔ سرچ پارٹی اس وقت دریا کے کنار ے پر ہوگی“۔ شان نے کہا۔

میں نے ڈفل بیگ سے ٹینیس شوزاور ڈھیلی پتلون اور قمیض نکال کرلڑکی کودی اورکہا شلوار پر پہن لو۔شان نے ڈفل بیگ کندھے پر چڑھایا۔ میں نے قطب نما میں سمت دیکھی، بیک پیک پہنا اور فلیش لائٹ سنھبالی۔

ہم لوگ مشرق کی طرف بھاگنے لگے۔ پندرہ منٹ بعد ہم لوگ تقریباً ایک میل دور تھے۔ لڑکی ہانپ رہی تھی۔ میں کہا کہ ہم ہر پندرہ منٹ کے بعد پانچ منٹ آرام کریں گے۔ ہم درختوں سے ٹیک لگا کر بیٹھ گۓ۔

میں نے پانی کی ایک ایک بوتل بانٹی اور کہا میں ہردن صرف ایک بوتل دوں گی اورخالی بوتل مجھ کو واپس کرنا۔ اس کا مطلب ہے ہر دفعہ جب ہم رُکیں تو صرف ایک بڑا گونٹ پینا، ذیادہ نہیں۔ ہمارے پاس ہر شخص کے لیے صرف 15 پانی کی بوتل اور15 پروٹین بار ہیں اور ہم کو’ دیر‘ جانا ہے جو ایک سو پچاس میل دور ہے“۔

لڑکی نے شان سے پشتو میں کہا”کیا تم مرد نہیں ہو؟ یہ تم پرحکم چلاتی ہے“۔

شان نے کہا” یہ ہم کو زندہ رکھنا چاہتی ہے۔اس کا کہنا مانو“۔

میں نے پشتو میں کہا”۔ ہم اس علاقہ سے واقف نہیں۔ ہمیں نہیں پتہ کہ میٹھا پانی کہاں ہوگا؟”۔

لڑکی کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔

میں نے قطب نما میں سمت دیکھی ، دریاۓ پنچکوڑہ کو سیدھے ہاتھ پر رکھا اور مشرق کی طرف تیزی سے چلنا شروع کردیا۔ ہم اندھیرے کی وجہ سے حفاظت سے تھے۔ جنگل کی نباتات کی وجہ ہے رفتار میں کمی آگئ تھی۔ چھ گھنٹے بعد ہم نے رُکنے اور سونے کا منصوبہ بنایا۔ شان نے دو درخت ایسے تلاش کیے جوایک دوسرے سے سات یا آٹھ فٹ دور تھے اور ان کے درمیان صاف زمین تھی۔میں نے کچھ سوکھے پتے اٹھا کرچھوڑے پتے شمال کی طرف اُڑاۓ۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

” یہ کیوں کرتی ہو؟“ لڑکی نے پوچھا۔

” میں ہوا کا رخ معلوم کررہی ہوں“۔ میں نے اس کو بتایا۔

ہمارا خیمہ جنوباً شمالً ہوگا اور ڈھکا ہوا حصہ جنوب میں ہوگا۔ شان نے کمر کی اونچائی کے مطابق رسی درختوں کے درمیان باندھ لی۔ میں نے ٹارپ رسی پرلٹکایا۔ شان نے ٹا رپ کو خیمہ کی طرح دوسلاخوں کی مدد سے زمین میں گاڑھ کر باندھا۔ اور درمیان میں تیسری سلاخ پہلی دو سلاخوں کے درمیان برابر فاصلہ پر لگا کر اس سے بھی ٹارپ باندھ دیا۔ میں نے ایک دری ٹارپ کے نیچے بچھائی ، اور ڈفل بیگ اور بیک پیک کو اونچا لٹکادیا۔

” لڑکی نے پوچھا یہ کیوں؟”

” تاکہ جانور گھسیٹ کر نہ لے جا ئیں“۔ میں نے جواب دیا۔

شان نے اپنی گھڑی میں چھ بجے کا الارم لگایا۔ ہم تینوں دری پر لیٹ کرسوگۓ۔ صبح ، شان اور میری آنکھ الارم کے بجنے سے پہلے کھلی۔ صبح کی روشنی ہونے لگی تھی۔ ہم نے قریبی ٹیلے پر چڑھ کرچاروں طرف دیکھا۔ دور دور تک صنوبر ، سرو کے درخت نظر آرہے تھے۔لیکن ایک طرف ہم پانی کی لہروں کی چٹانوں سے ٹکرانے کی آوازسن رہے تھے۔ درختووں کے درمیان سے اب ہم نے پانچ سوگز کے فاصلہ پر دریا کو بہتا دیکھا ۔

شان نے کہا۔ ” چلو نہائیں“۔

اور ہم دوڑ کے دریا کے کنارے پر پہنچے۔ کنارے پر بڑے پتھروں کے درمیان ایک پانی کا تالاب سا بن گیا تھا۔ شان نے اپنی قمیض اتاری اور میں نے اس کو گدگدی کرنا شروع کردیا۔ اس نے پیچھا چھوڑانے کی کوشش کی جب کام نہیں بنا تو مجھ کو گود میں لے کر تالاب میں پھینک دیا۔ پانی ٹھنڈا تھا اور میں بھیگ گئ۔ میں نے اپنے کپڑے اتارے اور تیرنے لگی۔ شان پہلے تو ہچکچایا لیکن پھر وہ بھی کپڑے اتار کر پانی میں آگیا۔ اُ س نے میری طرف تیرنا شروع کیا۔ جب وہ میرے پاس پہنچا تو میں کھڑی ہوگئ میں نے اپنی باہیں شان کےگلے میں ڈال دیں۔ اُس نے مجھے اپنی باہوں میں لے کر میر ی پشانی کوچوما۔ پھر میری ناک پر پیار کیا اور میرے نیچلے ہونٹ کو پیار کیا۔ اور ہم دونوں ایک دوسرے کو بے تحاشہ پیار کرنے لگے۔

میں نے شان سے کہا۔ ” اب ہم لوگوں کو یہاں سے چل دینا چاہیے اس سے پہلے کہ وہ ہم کو ڈھونڈ لیں“۔

ہم نے جلدی جلدی کپڑے پہنے لڑکی ا بھی تک سو رہی تھی۔

” چلوا ُٹھو۔ جاؤ دریا میں منہ دھو کر آؤ۔ میں چاۓ بناتی ہوں۔

” تم کیسے چاۓ بناؤگی، آگ تو نہیں ہے“۔

” آگ بنانا سیکھے گی؟“ اس نے کہا ہاں۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

am

” دیکھو ہم اس درخت کے نیچے چولہا بناتے ہیں تاکہ دھواں اوپر کھلی فضا میں نا پہنچ سکے۔ اب تم اس چھوٹی کدال سے ایک آٹھ سے دس انچ چوڑا اور اتنا ہی گہرا گڑھا کھودو۔ میں بھی ایک گڑھا تمہارے گڑھے سے آٹھ سے دس انچ دور اتنا ہی چوڑا اور مگرتمہارے گڑھے سے دو سے چار انچ ذیادہ گہرا کھودوں گی۔ میرا گڑھا ہوا کے رخ میں ہے۔جب دونوں گڑھے تیار ہوجائیں گے ہم ددنوں گڑھوں کو نیچے سے ملادیں گے۔ ہوا میرے گڑھے سے داخل ہوکر تمہارے گڑھے میں نیچے سے داخل ہوگی اور آگ کو جلتا رکھے گی“۔

” مگر ہم گڑھے کیوں کودیں۔ زمین پر بھی آپ جلا سکتے ہیں؟“

” ہم زمین کے اندر اس لیے آگ جلارہے ہیں کہ اس کو چھپانے میں آسانی ہوگی“۔

شان سوکھی چھال، سوکھی گھاس ، سوکھی لکڑیاں لے کر آیا۔

میں نے پہلے سوکھی چھال لڑکی کےگڑھے میں بچھائ۔

یہ سوکھی چھال سوختہ کہلاتی ہے۔ یہ چمک کر جلتی ہے۔

میں نے اس پرسوکھی گھاس بچھائ۔یہ آگ کو سلگاتی ہے ۔

اس پر میں نے سوکھی لکڑیاں رکھ دیں۔ یہ ایندھن ہے میں نے ماچس سے آگ جلا دی۔ ” اب تم جاؤ منہ دھو کر آؤ“۔

میں نے کیتلی میں تین کپ پانی ڈال کر آگ پرکھ دیا۔ جب لڑکی واپس آئ۔ چاۓ تیار تھی اور شان نے تمام چیزیں ڈفل بیگ میں بھر لیں تھیں۔ ہم تینوں نےگرم گرم چاۓ پی اور ایک ایک پروٹین بار کھائ۔ میں اور لڑکی نے آگ کےگڑھوں کو مٹی سے بھر دیا۔ اور ہمارے وہاں موجود ہونے کے نشانات مٹادۓ۔ شان نے تین مضبوط سی بیت کی طرح شاخیں بنائیں۔کچھ پتھر جیب میں رکھنے کے لیے دے اور لڑکی سے ہنس کر کہا۔

”ہوسکتا ہے کہ تیندوے سے ملا قات ہوجاۓ تو مڑنا یا جھکنا مت اور نا ہی بھاگنا۔ اپنے ہاتھ اوپر اٹھانا تا کہ بڑی لگو۔ اگر وہ حملہ کی تیاری کرے تو اس پر پتھر پھینکنا۔ بلی کے تمام رشتہ دار بلیوں کی طرح حملہ کرتے ہیں۔ کبھی بلی کو پرندے کی تاک میں بیٹھا دیکھا ہے؟“

لڑکی نے کہا۔ ” ہاں دیکھا ہے نا اس کی دم ہلنے لگتی ہے اور کان کھڑے ہوجاتے ہیں“۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

اب ہم ایک گھنٹہ چلتے اور دس منٹ کا وقفہ لیتے۔ پانی پیتے اور ایک چوتھائی پروٹین بار کھاتے۔ ہم چار گھنٹے کے بعد دوپہر کا کھانا کھانےکے لیے رُکے۔

میں نے لڑکی سے آگ کے گھڑے بنانے کو کہا۔

شان شکار کی تلاش میں گیا۔ میں نے ایندھن جمع کی۔ شان نے جال میں چھ دریائ مچھلیاں پکڑیں۔ ہم نے سب کو صاف کرکے آگ پر سینک کر پکا یا۔ تازی مچھلی بڑی مزے دار تھی۔

لڑکی نے مجھ سے سوال کیا”۔ شان کے پاس گھڑی ہے لیکن تم کو بغیر گھڑی کے وقت کا پتہ ہوتا ہے“۔

میں نے درختوں سے دور ہو کر زمین پر ایک گول دائرہ بنایا۔ اس کے درمیان ایک نصف قطرکے برابر ڈنڈی گاڑھ دی۔ قطب نما سے شمال معلوم کیا اور ڈنڈی کا رخ اس کی طرف کردیا۔ سایہ ایک بجے پر تھا”۔ مگر تم تو یہ نہیں کرتی“۔

” میں دوسرے سایے استمعال کرتی ہوں جیسے درخت ، پہاڑی وغیرہ “۔

اپنی موجودگی کے نشان مٹانے کے بعد ہم نے اپنا سفر جاری رکھا۔ شام کو پھر ہم نے کیمپ کیا اور دوپہرکی تیار کی ہوئ مچھلی کھائ۔ دریا سے خالی بوتلیں بھریں۔ ہم تینوں رکے ہوۓ پانی میں تیرے ( کپڑوں کے ساتھ۔ بھائی جان )۔ یہ لڑکی بہت متجسس اور کھوجی تھی۔ اس نے مجھ سے معلوم کیا کہ اگر ہمارا قطب نما کھوگیا تو کیا ہم بھی کھو جائیں گے۔

میں نے ہنس کر کہا”۔ نہیں۔ لوگوں نے ہمیشہ ستاروں کی مدد سے سفر کیا ہے۔ تم نے عقدِ ثریا (dipper) یا ’ سات سہیلیوں کا جھمکا ‘ کا نام سنا ہے“۔

” جی نہیں۔ شمالی ستارہ کا؟“۔

” جی ہاں“۔

” آسمان میں دیکھو کیا تم شمالی ستارے کو دیکھ سکتی ہو؟ “

” ہاۓ اللہ وہاں تو ہزارہا ستارے ہیں مجھے کیا پتہ کون سا ہو گا؟“

سات چمکتے ستاروں کو ڈھونڈو وہ سب سے ذیادہ روشن ہوں گے۔ وہ سب مل کر ایک ہینڈل والے کھانا پکانے کے برتن کی طرح لگیں گے۔ ہینڈل میں تین ہوں گے اور چار پیالے کی شکل بنائیں گے۔

” ہاں مجھے نظر آرہا ہے باجی۔اور پیالے کے اوپر ایک بڑا اور ان سے بھی ذیادہ روشن ستارہ ہے“۔

” یہ شمالی ستارہ (قطب تارا) ہے“۔ میں نے کہا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

میں باجی کا نام سن کر چونک گئ بھیا نے فیلڈ ورکر کی ٹریننگ میں کہا تھا کہ لڑکیوں سے ذاتی اورجذباتی رشتہ مت قائم کرنا ، ورنہ یہ تم دونوں کے لیے تکلیف کا باعث ہوگا۔

” ہمارا کام ان کو ظلم سے بچانا ہے ان سے دوستی نہیں“۔

یہ لڑکی تو اتنی بہادر ہے کہ اس نے ماں باپ بہن اور بھائ کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا۔ بہت سمجھدار ہے۔ سیکھتی جلدی ہے۔ بہت معصوم ہے کہ خطرے کا احساس نہیں۔ بہت پیاری ہے اور مجھے باجی کہتی ہے۔ مگر نہیں میں ذاتی اورجذ باتی رشتہ نہیں قائم کروں گی۔

دن میں ہم نے رفتار تیز رکھی۔ طویل فاصلے کو آسانی کے ساتھ مکمل کرنے میں ہمارا ہر ایک گھنٹے کے بعد دس منٹ کا آرام ہمیں مدد دے رہا تھا۔ شام ہو چکی تھی۔ سرو، صنوبر ، چنار اور جونیپر کے درختوں کی خوشبو سے جنگل مہک رہا تھا۔ سب سے پہلے شان نے تیندوے کو دیکھا۔ اس نے اپنے ہاتھ ہوا میں اٹھا دۓ۔ میں نے جلدی سے لڑکی کو اپنے اور شان کے درمیان کیا اور اپنے ہاتھ بلند کردۓ۔ لڑکی نے فوراً ہماری نقل کی۔ شان اور میں نے تیندوے کو بلند آواز میں ڈرانے کے لیے چیخنا چلانا شروع کیا۔ تیندوے نے ایک منٹ تک ہماری طرف دیکھا۔ پھر مڑ کر بھاگ گیا۔ میں نے لڑکی کی طرف دیکھا اس کا چہرہ زرد تھا۔ میں نے اس کو گلے سے چمٹا لیا۔

تیسرے روز ہمیں دو جوان گلہ بان نظر آۓ۔ شان نے ان سے بات کی۔

یہ نچلی ذات کے’ گوجر‘ ہیں اور’ دیر‘ تک جا رہے ہیں۔ ان کی مطابق یہاں سے دو دن کا راستہ ہے۔

” کیا خیال ہے ؟ کیا ہم ان کے ساتھ چلیں؟“ شان نے کہا۔

میں نے کہا”۔” کیا وہ ہماری حفاظت کریں گے؟“۔

” اگر وہ ہم کو اپنی پناہ میں لیں تو ضرور حفاظت کریں گے“۔شان نے کہا

” میں گروپ کے سردار سے مل کر آتا ہوں“۔

” کیا تم نے ان کو تیندوے کے متعلق بتایا“۔

” ہاں ، مگر تیندوے threatened list پر ہیں اور فارسٹ پولیس ان کی گنتی رکھتی ہے اس لیے اگر وہ آپ کی بکریاں بھی لے جاۓ تو آپ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے“۔

پاکستان میں تین کروڑ گوجر ہیں۔ گوجر ذات ، قوم، یا ایک برادری کو کہتے ہیں۔ گوجر، مسلمان، ہندو، سکھ یا عیسائ بھی ہوسکتا ہے۔ گوجر برادری میں تین رتبے ہیں۔ ایک گوجر وہ جو زمیندار ہیں اور زمین ، گاۓ، بھینس ، بکری اور دنبوں کے گلّوں کے ما لک ہیں۔ دوسرے گوجر وہ ہیں جو ایک جگہ رہتے ہیں اور زمیندار کے لیے زمین کی کاشت کاری اور گلہ بانی کا کام کرتے ہیں۔ تیسری کلا س کے گوجر خانہ بدوش گلّہ بان ہیں۔

گوجروں کا سردار مجھ سے مل کر بہت خوش ہوا اور جب اس کو پتہ چلا کہ میں پشتو بھی بولتی ہوں تو وہ امریکہ کے متعلق سب کچھ جاننا چاہتا تھا۔ شام کو کھانا کھانے کے بعد گانے اور ناچ کی محفل جمی۔ چترالیوں کو ناچ اور گانے کا بہت شوق ہے۔ اگرچہ وہ نسلی پٹھان نہیں ہیں لیکن انہوں نے اپنی مناسبت کے لحاظ سے ناچ کو اختیار کر لیا ہے۔ ہم نے دو دن گلہ بانوں کے ساتھ گزارے۔ ہم ان کے ساتھ ناچے، گاۓ اور لڑکی نےگلہ بانی سیکھی۔ ’ دیر’ میں ہم ان سے جدا ہوۓ اور ٹیکسی پر کوہاٹ پہنچے۔ ہم نے لڑکی کو کراچی بھیج دیا ہے جہاں وہ ایک نئی زندگی شروع کرے گی۔

آپ کی ننھی
۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

تقریظ


چھ سال کوہاٹ کے فلیڈ آفس میں کام کرنے کے بعد سعدیہ اور شان، اپنی کالج کی تعلیم کو مکمل کرنےلاس انجیلس چلےگے۔

وہ دونوں اب بایئس سال کے ہیں انکی ایک تین سالہ لڑکی ہےجس کا نام سکینہ ہے۔ سعدیہ اور شان نےچھ سال میں١یک سو ستر مصوم لڑکیوں کو ظلم سے بچایا۔ سکینہ 'خود اختیاریِ خواتینِ پختون' کی ڈائریکٹر ہے۔'خود اختیاریِ خواتینِ پختون' کی ممبر خان زادیاں ، ہرسال تقریباً پانچ سو لڑکیوں کو نئی تعلیم دے رہی ہیں۔ اس 'خود اختیاریِ خواتینِ پختون' کے ممبر پختونستان کے تمام ضلعوں اور تمام تحصیلوں میں ہیں۔ ممبروں کی تعداد اب پانچ ہزار کے قریب ہے۔

سکینہ نے اپنے کزن تسلیم سے شادی کرلی ہے اس کے شوہر تسلیم نے شان کا کام سنبھال لیا ہے۔ سکینہ اور تسلیم کی بھی ایک لڑکی ہے اور اسکا نام سادیہ ہے ۔ نیدو نے سیاست چھوڑ دی اور اس نے اپنے گاؤں میں بالِغو وں کا اسکول کھول لیا۔ وہ حکومت اور یو۔این کی مدد سے کوہاٹ کے ہرگاؤں میں بالغوں کا اسکول کھولے گی۔

جیسمین اپنی نوکری پر واپس لوٹ گی۔

میرے اور سعدیہ کے والدین ucla سے ریٹائرڈ ہو گے ہیں۔

اور میں ۔۔۔

میں ہر چھ ما ہ اپنی ننھی سے ملنے جاتا ہوں۔ میں کھٹمنڈو ، نیپال میں رہتا ہوں۔ میری اب تک یہ خواہش ہے کہ ماونٹ ایوریسٹ کو فتح کروں۔ خراب موسم کی وجہ سے میری دو کوششیں ناکامیاب ہو چکی ہیں۔ اس سال یہ میری تیسری کوشش ہوگی۔ میں مکمل یقین ہے کہ میں اس دفعہ کامیاب ہوں گا۔ اس کے بعد میں نے ارادہ کرلیا ہے کہ میں سعدیہ کی جگہ کوہاٹ میں لے لوں گا اور میری پختون بہنوں کے لئے میری ننھی کا دعدہ پورا کروں گا۔
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

ختم شد
پختون کی بیٹی
Post Reply

Return to “ناول”