ہم اس کے ہیں - امجد اسلام امجد

اردوشاعری کی کتابیں پڑھیں اور ڈاونلوڈ کیجئے
Post Reply
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

ہم اس کے ہیں - امجد اسلام امجد

Post by سیدتفسیراحمد »

حد سے توقعات زیادہ کیے ُہوئے

حد سے توقعات زیادہ کیے ُہوئے
بیٹھے ہیں دل میں ایک ارادہ کیے ُہوئے

اس دشت بے وفائی میں جائیں کہاں کہ ہم
ہیں اپنے آپ سے کوئی وعدہ کیے ُہوئے

دیکھو تو کتنے چین سے اک درجہ مطمئن!
بیٹھے ہیں ارض پاک کو آدھا کیے ہوئے

ق

پاؤں سے خواب باندھ کے شام وصال کے
اک دشت انتظار کو جادہ کیے ہوئے

آنکھوں میں لے کے جلتے ہوئے موسموں کی راکھ!
درد سفر کو تن کا لبادہ کیے ہوئے

دیکھو تو کون لوگ ہیں!آئے کہاں سے ہیں !
اور اب ہیں کس سفر کا لبادہ کیے ہوئے

اس سادہ رُوکے بزم میںآتے ہی بجھ گئے
جتنے تھے اہتمام کا زیادہ کیے ہوئے

اُٹھے ہیں اُس کی بزم سے امجد ہزار بار
ہم ترک آرزو کا ارادہ کیے ہوئے
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

درو دیوار میں ،مکان نہیں

درو دیوار میں ،مکان نہیں
واقعہ ہے ،یہ داستان نہیں

وقت کرتا ہے ہر سوال کو حل
زیست مکتب ہے امتحان نہیں

ہر قدم پر اک نئی منزل
راستوں کا کہیں نشان نہیں

رنگ بھی زندگی کے مظہر ہیں
صرف آنسو ہی ترجمان نہیں

دل سے نکلی ہوئی سدا کے لیے
کچھ بہت دُور آسمان نہیں

کل کو ممکن ہے اک حقیقت ہو
آج جس بات کا گمان نہیں

شور کرتے ہیں ٹوٹتے رشتے
ہم کو گھر چاہیے مکان نہیں

خواب ، ماضی! سراب، مستقبل!
اور " جوہے" وہ میری جان"نہیں"

اتنے تارے تھے رات لگتا تھا
کوئی میلہ ہے آسمان نہیں


شاخ سدرہ کو چھو کے لوٹ آیا
اس سے آگے میری اُڑان نہیں

یوں جو بیٹھے ہو بے تعلق سے
کیا سمجھتے ہو میری زبان نہیں

کوئی دیکھے تو موت سے بہتر
زیست کا کوئی پاسبان نہیں

اک طرف میں ہوں اک طرف تم ہو
سلسلہ کوئی درمیان نہیں
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

کوئی بھی لمحہ کبھی لوٹ کر نہیں آتا

کوئی بھی لمحہ کبھی لوٹ کر نہیں آتا
وہ شخص ایسا گیا پھر نظر نہیں آیا

وفا کے دشت میں رستہ نہیں ملا کوئی
سوائے گرد سفرہم سفر نہیں آیا

پَلٹ کے آنے لگے شام کے پرندے بھی
ہمارا صُبح کا بُھولا مگر نہیں آیا

کِسی چراغ نے پُوچھی نہیں خبر میری
کوئی بھی پُھول مِرے نام پر نہیں آیا

چلو کہ کوچئہ قاتل سے ہم ہی ہو آئیں
کہ نخلِ دراپہ کب سے ثمر نہیں آیا!

خُدا کے خوف سے دل لرزتے رہتے ہیں
اُنھیں کبھی بھی زمانے سے ڈر نہیں آیا

کدھر کو جاتے ہیں رستے ، یہ راز کیسے کُھلے
جہاں میں کوئی بھی بارِدگر نہیں آیا

یہ کیسی بات کہی شام کے ستارے نے
کہ چَین دل کو مِرے رات بھر نہیں آیا

ہمیں یقین ہے امجد نہیں وہ وعد ہ خلاف
پہ عُمر کیسے کٹے گی ، اگر نہین آیا
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

ہم تو اسیرِ خواب تھے تعبیر جو بھی تھی

ہم تو اسیرِ خواب تھے تعبیر جو بھی تھی
دیوار پر لِکھی ہُوئی تحریر جو بھی تھی

ہر فرد لا جواب تھا ، ہر نقش بے مثال
مِل جُل کے اپنی قوم کی تصویر بھی تھی !

جو سامنے ہے ، سب ہے یہ ،اپنے کیسے کا پھل
تقدیر کی تو چھوڑئیے، تقدیر جو بھی تھی

آیا اور اِک نگاہ میں برباد کر گیا
ہم اہلِ انتظار کی جاگیر جو بھی تھی

قدریں جو اپنا مان تھیں ، نیلام ہوگئیں
ملبے کے مول بِک گئی تعمیر جو بھی تھی

طالب ہیں تیرے رحم کے ہم ‘ عَدل کے نہیں
جیسا بھی اپنا جُرم تھا، تقصیر جو بھی تھی

ہاتھوں پہ کوئی زخم نہ پیروں پہ کُچھ نشاں
سوچوں میں تھی پڑی ہُوئی، زنجیر جو بھی تھی

یہ اور بات چشم نہ ہو معنی آشنا
عبرت کا ایک درس تھی تحریر جو بھی تھی

امجد ہماری بات وہ سُنتا تو ایک بار
آنکھوں سے اُس کو چُومتے، تعزیر جو بھی تھی
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

منظر کے اِرد گِرد بھی اور آر پار دُھند

منظر کے اِرد گِرد بھی اور آر پار دُھند
آئی کہاں سے آنکھ میں یہ بے شمار دُھند!

کیسے نہ اُس کا سارا سفر رائیگاں رہے
جس کا روانِ شوق کی ہے رہگزار دُھند!

ہے یہ جو ماہ و سال کا میلہ لگا ہُوا
کرتی ہے اِس میں چُھپ کے مِرزا انتظار دُھند

آنکھوں وہ بزم، جس کا نشاں ڈولتے چراغ
دل وہ چمن، کہ جس کا ہے رنگِ بہار دُھند

کمرے میں میرے غم کے سِوا اور کُچھ نہیں
کھڑکی سے جھانکتی ہے کسے بار بار’ دُھند

فردوسِ گوش ٹھرا ہے مبہم سا کوئی شور
نظّار گی کا شہر میں ہے اعتبار، دُھند

ناٹک میں جیسے بکھرے ہوں کردار جا بجا
امجد فضائے جاں میں ہے یوں بے قرار دُھند!
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

اُداسی میں گِھرا تھا دِل چراغِ شام سے پہلے

اُداسی میں گِھرا تھا دِل چراغِ شام سے پہلے
نہیں تھا کُچھ سرِ محفل چراغِ شام سے پہلے

حُدی خوانو، بڑھاؤ لَے، اندھیرا ہونے والا ہے
پہنچا ہے سرِ منزل چراغِ شام سے پہلے

دِلوں میں اور ستاروں میں اچانک جاگ اُٹھتی ہے
عجب ہلچل، عجب جِھل مِل چراغِ شام سے پہلے

وہ ویسے ہی وہاں رکھی ہے ، عصرِ آخرِ شب میں
جو سینے پر دھری تھی سِل، چراغِ شام سے پہلے

ہم اپنی عُمر کی ڈھلتی ہُوئی اِک سہ پہر میں ہیں
جو مِلنا ہے ہمیں تو مِل، چراغِ شام سے پہلے

ہمیں اے دوستو اب کشتیوں میں رات کرنی ہے
کہ چُھپ جاتے ہیں سب ساحل، چراغِ شام سے پہلے

سَحر کا اوّلیں تارا ہے جیسے رات کا ماضی
ہے دن کا بھی تو مُستَقبِل، چراغِ شام سے پہلے


نجانے زندگی اور رات میں کیسا تعلق ہے !
اُلجھتی کیوں ہے اِتنی گلِ چراغِ شام سے پہلے

محبت نے رگوں میں کِس طرح کی روشنی بھردی !
کہ جل اُٹھتا ہے امجد دِل، چراغِ شام سے پہلے
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

ظاہر شِمال میں کوئی تارا ہُوا تو ہے

ظاہر شِمال میں کوئی تارا ہُوا تو ہے
اِذنِ سفر کا ایک اِرشارا ہُوا تو ہے

کیا ہے! جو رکھ دیں آخری داؤ میں نقدِ جاں!
ویسے بھی ہم نے کھیل یہ ہارا ہُوا تو ہے

وہ جان، اُس کو خیر خبر ہے بھی یا نہیں!
دل ہم نے اس کے نام پہ وارا ہُوا ہے

پاؤں میں نارسائی کا اِک آبلہ سہی
اِس دشتِ غم میں کوئی ہمارا ہُواتو ہے

اُس بے وفا سے ہم کو یہ نسبت بھی کم نہیں
کُچھ وقت ہم نے ساتھ کزارا ہُوا تو ہے

اپنی طرف اُٹھے نہ اُٹھے اُس کی چشمِ خوش!
امجد کِسی کے درد کا چارا ہُوا تو ہے
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

--------------------------------------------------------------------------------
آنکھوں کو التباس بہت دیکھنے میں تھے


آنکھوں کو التباس بہت دیکھنے میں تھے
کل شب عجیب عکس مِرے آئنے میں تھے

سارے دھنک کے رنگ تھے اُس کے لباس میں
خُوشبو کے سارے اَنگ اُسے سوچنے میں تھے

ہر بات جانتے ہُوئے دِل مانتا نہ تھا
ہم جانے اعتبار کے کِس مرحلے میں تھے

وصل و فراق دونوں ہیں اِک جیسے ناگزیر
کُچھ لطف اُس کے قُرب میں، کُچھ فاصلے میں تھے

سیلِ زماں کی موج کو ہر وار سہہ گئے
وہ دن، جو ایک ٹاٹے ہُوئے رابطے میں تھے!

غارت گری کے بعد بھی روشن تھیں بستیاں
ہارے ہُوئے تھے لوگ مگر حوصلے میں تھے!

ہِر پھر کے آئے نقطئہ آغاز کی طرف
جتنے سفر تھے اپنے کِسی دائرے میں تھے

آندھی اُڑاکے لے گئی جس کو ابھی ابھی
منزل کے سب نشان اُسی راستے میں تھے

چُھولیں اُسے کہ دُور سے بس دیکھتے رہیں!
تارے بھی رات میری طرح، مخمصے میں تھے

جُگنو، ستارے، آنکھ، صبا، تتلیاں، چراغ
سب اپنے اپنے غم کے کِسی سلسلے میں تھے!

جتنے تھے خط تمام کا تھا ایک زاویہ
پھر بھی عجیب پیچ مِرے مئسلے میں تھے

امجد کتابِ جاں کو وہ پڑھتا بھی کِس طرح !
لکھنے تھے جتنے لفظ، ابھی حافظے میں تھے
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

اُلجھن تمام عُمر یہ تارِ نفس میں تھی!


اُلجھن تمام عُمر یہ تارِ نفس میں تھی!
دِل کی مُراد عاشقی می یا ہوس میں تھی!

دَر تھا کُھلا، پہ بیٹھے رہے پَر سمیٹ کر
کرتے بھی کیا کہ جائے اماں ہی قفس میں تھی!

سَکتے میں سب چراغ تھے’ تارے تھے دم بخُود!
مَیں اُس کے اختیار میں’ وہ میرے بس میں تھی

اَب کے بھی ہے ‘ جمی ہُوئی، آنکھوں کے سامنے
خوابوں کی ایک دُھند جو پچھلے برس میں تھی

کل شب تو اُس کی بزم میں ایسے لگا مجھے!
جیسے کہ کائنات مِری دسترس میں تھی

محفل میں آسمان کی بولے کہ چُپ رہے
امجد سدا زمین اسی پیش و پس میں تھی
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

سب کی اِک اوقات " عشق نہ پُو چھے ذات"


سب کی اِک اوقات " عشق نہ پُو چھے ذات"
بالکل بُھول گئے کرنی تھی کیا بات

سَستا کر دے گئی زر کی یہ افراط!
اَب سے تیرے ہیں میرے دن اور رات

سچُے جذبوں سے مہنگی ہوگئی دھات
اب کے خُوب ہوئی بِن موسم برسات

کٹ ہی جاتی ہے کیسی بھی رات !
باسی ہوئی جائے دل میں رکھی بات

کچّی ڈور، میاں! کب تک دیتی ساتھ!
گِر ہیں کھولے گا جانے کب وہ ہاتھ !

تجھ کو چاہوں مَیں کیا میری اوقات!
کیسے اُجڑ گئے ؟ خوابوں کے باغات

(ق)

وقت سمندر میں ایک سے ہیں دن رات
آگے گہری کھائی پیچھے ہے ظُلمات!
____

غم کے دھاگوں سے امجد خوشیاں کاٹ !
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

زمین جلتی ہے اور آسمان ٹوٹتا ہے،


زمین جلتی ہے اور آسمان ٹوٹتا ہے،
مگر گریز کریں ہم تو مان ٹوٹتا ہے !!

کوئی بھی کام ہو انجام تک نہیں جاتا !
کسی کے دھیان میں پَل پَل یہ دھیان ٹوٹتا ہے

کہ جیسے مَتن میں ہر لفظ کی ہے اپنی جگہ
جو ایک فرد کٹے، کاروان ٹوٹتا ہے

نژادِ صبح کے لشکر کی آمد آمد ہے
حصارِ حلقئہ شب زادگان ٹوٹتا ہے

اگر یہی ہے عدالت ! اور آپ ہیں مُنصِف!
عجب نہیں جو ہمارا بیان ٹوٹتا ہے

وفا کے شہرکے رستے عجیب ہیں امجد
ہر ایک موڑ پہ اِک مہربان ‘ ٹوٹتا ہے
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

کہتا ہے دَر پن


کہتا ہے دَر پن
میرے جیسا بن!

تار یکی کی موت!
ایک نحیف کِرن

محنت اپنا مال
وقت ، پریا دَھن

بات نہ کرنے سے
بڑھتی ہے اُلجھن

اپنے دِل جیسا !
کوئی نہیں دشمن

دُنیا۔! لو ٹا دے
میرا اپنا پن

جُھولے جی اُٹّھے
جاگ پڑے جامن

روز وہی قِصّہ!
روز وہی اُلجھن!

صدیاں لُوٹ گئی
پائل کی چَھن چَھن

یہ تو برسے گا
ساون ہے، ساون!

سارے خاک سَمان
تَن اور مَن اور دَھن

اپنوں ہی سے تو
ہوتی ہے اَن بَن

سب سے اچّھا ہے
اپنا گھر آنگن!

پیاس بڑی ہے یا
سونے کا برتن؟

کیا اُفتاد پڑی!
لگتا نہیں مَن

آدم زاد نہیں ،
بستی ہے یا بَن!

کیسا بھی ہو رُوپ!
مٹی ہے مدفن

سَکّے کے دو رُخ
بِرہن اور دُلہن

دھوکہ دیتے ہیں
اُجلے پیرا ہن

راہ میں کِھلتا پُھول
بیوہ کا جوبن

دونوں جُھوٹے ہیں
ساجن اور سَاون

آہٹ کِس کی ہے
تیز ہُوئی دھڑکن

اُتنی خواہش کر
جِتنا ہے دامن


ہم تم دونوں ہیں
دَھرتی اور ساون

عکس بنے کیسے؟
دُھند لا ہے درپن

زیر آب ہُوئے
خوابوں کے مسکن

ٹھر گیا ہے کیوں!
آنکھوں میں ساون !


(ق)

کچّا سونا ہی
بنتا ہے کُندن

اِک دِنِ نکھرے گا
سچّا ہے گر، فن!

کیسے روک سکے!
خُوشبو کو گلشن

امجد میرے ساتھ
اَب تک ہے بچپن!
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

کِسی ترنگ ، کسی سر خوشی میں رہتا تھا
یہ کل کی بات ہے، دل زندگی میں رہتا تھا

کہ جیسے چاند کے چہرے پہ آفتاب کی لَو
کُھلا کہ میں بھی کِسی روشنی میں رہتا تھا

سر شتِ آدم خاکی، ذرا نہیں بدلی !
فلک پہ پہنچا مگر، غار ہی میں رہتا تھا

کہا یہ کِس نے کہ رہتا تھا مَیں زمانے میں
ہجومِ درد، غمِ بے کسی میں رہتا تھا


(ق)


کلام کرتا تھا قوسِ قزح کے رنگوں میں
وہ اِک خیال تھا اور شاعری میں رہتا تھا

گُلوں پہ ڈولتا پھرتا تھا اوس کی صُورت!
صدا کی لہر تھا اور نغمگی میں رہتا تھا

نہیں تھی حُسنِ نظر کی بھی کُچھ اُسے پروا
وہ ایک ایسی عجب دلکشی میں رہتا تھا

وہاں پہ اب بھی ستارے طواف کرتے ہیں
وہ جس مکان میں ، جِس بھی گلی میں رہتا تھا

_____

بس ایک شام بڑی خاموشی سے ٹُوٹ گیا
ہمیں جو مان ، تری دوستی میں رہتا تھا

کِھلا جو پُھول تو بر باد ہوگیا امجد
طلسم رنگ مگر غنچگی میں رہتا تھا
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

سب دیکھتے تھے اور کوئی سوچتا نہ تھا


سب دیکھتے تھے اور کوئی سوچتا نہ تھا
جیسے یہ کوئی کھیل تھا ، اِک واقعہ نہ تھا !

لکھتے بیاضِ وقت پہ ہم کیا تاثرات
سب کچھ تھا درج اور کوئی حاثیہ نہ تھا

آپس کی ایک بات تھی’ دونوں کے درمیان
اے اہلِ شہر آپ کا یہ مئسلہ نہ تھا !

تیری گلی میں آئے تھے بس تجھ کو دیکھنے!
اس کے سِوا ہمارا کوئی مدّ عا نہ تھا

تھے ثبتِ حُکم ہجر پہ اُس کے بھی دستخط
تقدیر ہی کا لِکّھا ہُوا فیصلہ نہ تھا

اِک سمت پاسِ عشق تھا، اِک سمت اپنا مُان
کیسے گُریز کرتے ! کوئی راستہ نہ تھا !!

امجد یہ اقتدار کا حلقہ عجیب ہے
چاروں طرف تھے عکس کوئی آئنہ نہ تھا
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

جب تک رستے جائیں یوں ہی چلتے جائیں

جب تک رستے جائیں یوں ہی چلتے جائیں
آئینوں سے کیوں؟ عکس مُکر تے جائیں!
آنکھیں ہیں آباد! خواب اُجڑ تے جائیں

ایسی آندھی میں ! خاک سنور تے جائیں !!
اپنی سوچوں سے آپ ہی ڈرتے جائیں

عکس کریں تو کیا نقش بگڑتے جائیں
جلتی آنکھوں میں سپنے بُجھتے جائیں

جتنا دُھتکارے او ر لپٹتے جائیں
رو لیں خُود پر ہی کُچھ تو کرتے جائیں !

(ق)

بیٹھے بیٹھے ہی ہاتھ نہ ملتے جائیں

ایک چراغ سہی راہ میں دَھرتے جائیں
سچّی بات لکھیں جب تک لِکھتے جائیں

جو کچھ بس میں ہے وہ تو کرتے جائیں
رزمِ ہستی سے لڑتے لڑتے جائیں

مُرد ہ مٹی کر زند ہ کرتے جائیں
جب تک زندہ ہیں آگے بڑھتے جائیں

(ق)

آؤ ہم او ر تُم ایسا کرتے جائیں
آنکھوں آنکھوں میں باتیں کرتے جائیں

باتوں باتوں میں غُنچے کِھلتے جائیں
رنگوں میں نِکلیں خوشبو ہوتے جائیں

اُمّید یں پُھوٹیں خدشے مرتے جائیں
امجد سب کے دل اور نِکھرتے جائیں
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

گُزرے کل سا لگتا ہو جب آنے والا کل

گُزرے کل سا لگتا ہو جب آنے والا کل
ایسے حال میں رہنے سے تو بہتر ہے کہ چل

کرتی ہیں ہر شام یہ بِنتی ، آنکھیں ریت بھری
روشن ہوا ے امن کے تارے، ظُلم کے سُورج ، ڈھل

اپنا مطلب کھودیتی ہے دِل مین رکھی بات
رونا ہے تو کُھل کے رو اور جلنا ہو تو ، جل

لمحوں کی پہچان یہی ہے ، اپڑتے جاتے ہیں
آنکھوں کی دہلیز پہ کیسے ٹھر گیا ، وہ پَل !

عشق کے رستے لگ جائیں تو لوگ بھلے چنگے
ہوتے ہوتے ہوجاتے ہیں ، دیوانے ، پاگل !

موسم کی سازش ہے یا پھر مٹی بانجھ ہوئی !
پیڑ زیادہ ہوتے جائیں ، گھتا جائے پھل!

جُھکی جُھکی آنکھوں کے اُوپر بوجھل پلکیں تھیں
لیکن کیسے چُھپ سکتا تھا ! کاجل ہے کاجل !

زرد آور کے دستِ ستم میں دونوں گِروی ہیں
مزدوروں کا خُون پسینہ ، دہقانوں کا ہَل !

بُجھتے تاروں کی جِھلمل میں اوس لرزتی ہے
امجد دُنیا جاگ رہی ہے تُو بھی آنکھیں مَل
رضی الدین قاضی
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 13369
Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
جنس:: مرد
Location: نیو ممبئی (انڈیا)

Post by رضی الدین قاضی »

تفسیر wrote:گُزرے کل سا لگتا ہو جب آنے والا کل

گُزرے کل سا لگتا ہو جب آنے والا کل
ایسے حال میں رہنے سے تو بہتر ہے کہ چل

کرتی ہیں ہر شام یہ بِنتی ، آنکھیں ریت بھری
روشن ہوا ے امن کے تارے، ظُلم کے سُورج ، ڈھل

اپنا مطلب کھودیتی ہے دِل مین رکھی بات
رونا ہے تو کُھل کے رو اور جلنا ہو تو ، جل

لمحوں کی پہچان یہی ہے ، اپڑتے جاتے ہیں
آنکھوں کی دہلیز پہ کیسے ٹھر گیا ، وہ پَل !

عشق کے رستے لگ جائیں تو لوگ بھلے چنگے
ہوتے ہوتے ہوجاتے ہیں ، دیوانے ، پاگل !

موسم کی سازش ہے یا پھر مٹی بانجھ ہوئی !
پیڑ زیادہ ہوتے جائیں ، گھتا جائے پھل!

جُھکی جُھکی آنکھوں کے اُوپر بوجھل پلکیں تھیں
لیکن کیسے چُھپ سکتا تھا ! کاجل ہے کاجل !

زرد آور کے دستِ ستم میں دونوں گِروی ہیں
مزدوروں کا خُون پسینہ ، دہقانوں کا ہَل !

بُجھتے تاروں کی جِھلمل میں اوس لرزتی ہے
امجد دُنیا جاگ رہی ہے تُو بھی آنکھیں مَل
واہ جناب ، بہت ہی خوبصورت کلام پہش کیا ہے آپ نے ۔ شکریہ !
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

بڑے بھیا یہ غزل امجد اسلام امجد کی ہے یا امجد اسلم امجد کی؟ بہرحال ہے اچھی جس کی بھی ہے خوب لکھی ہے۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
سیدتفسیراحمد
مشاق
مشاق
Posts: 1004
Joined: Wed Jul 23, 2008 9:50 am

Post by سیدتفسیراحمد »

چاند بھیا

یہ امجداسلام امجد کا کلام ہے ۔ نام لکھنے میں غلطی ہے۔ کیا آپ اس کی تصحیح کردیں گے ۔ میرے پاس ایڈیٹ کے حقوق نہیں ہیں۔

دوسرے میں “ جاری ۔۔۔“ لکھنا بھول گیا۔ ابھی کچھ اور بھی شامل کرنا تھا ۔۔۔ :P
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Post by چاند بابو »

بڑے بھیا میں نے تصحیح کر دی ہے آپ جاری رکھیں جب سب مکمل ہو جائے تو مجھے بتا دیجئے گا میں فالتو پوسٹس کو حذف کر دوں گا۔ :lol:
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Post Reply

Return to “اردوشاعری”