یادیں

اردو نثری قلم پارے اس فورم میں ڈھونڈئے
Post Reply
علی عامر
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 5391
Joined: Fri Mar 12, 2010 11:09 am
جنس:: مرد
Location: الشعيبہ - المملكةالعربيةالسعوديه
Contact:

یادیں

Post by علی عامر »

انشائیہ:
[center]یادیں[/center]
یادیں ماضی کے وہ خوش رنگ پرندے ہیں جو ہر آدمی کے آسمانِ قلب پر پرواز کرتے رہتے ہیں اور جنہیں صرف وہ آدمی ہی دیکھ سکتا ہے۔ حال کے تلخ اور نا ملائم حالات نے انسان کو چاروں طرف سے اس طرح گھیر رکھا ہے کہ سکھ اور شانتی کا گزر کم کم ہوتا ہے۔ ناسازگار حالات کی تپش سے وقتی طور پر نجات حاصل کرنے کے لےے ان خوشنما پرندوں کے ہمراہ پرواز کرنے سے بڑھ کر کوئی اور نسخہ تیر بہ ہدف نہیں۔
جس شخص کا ماضی درخشندہ اور تابندہ اور حال تکلیف دہ اور مخدوش ہو۔ فرصت کے چند لمحات ملتے ہی وہ یادوں کی شاداب وادی یعنی اپنی گم گشتہ جنت میں پہنچ جاتا ہے۔ وہاں اسے وہ سب کچھ مل جاتا ہے جو ماضی میں اسے میسر تھا۔ بدقسمتی سے جن لوگوں کے ماضی میں تیرگی افزوں ہو۔ ان کی بھی ایک جنت گم شدہ ہوتی ہے۔ ہر آدمی کے اندر ایک چھلنی ہوتی ہے۔ جس میں چھان کر وہ خوشگوار اور ناخوشگوار واقعات کو الگ کرتا رہتاہے۔ تلخ اور تکلیف دہ یادیں انسان کے اندر کے کسی نامعلوم قبرستان میں دفن ہو جاتی ہیں اور خوشگوار لمحات کی خوشبو اس کے دل و دماغ کو معطر کرتی رہتی ہیں۔
انسان کی زندگی میں تین ادوار کو نہایت اہمیت حاصل ہے۔ بچپن، جوانی اور بڑھاپا۔ پہلے دو ادوار ہاتھ سے نکل جائیں تو پھر پکڑ میں نہیں آتے اور تیسرا دور آ جائے تو لاکھ جتن کے باوجود واپس نہیں جاتا بلکہ آہستہ آہستہ بدن پر اپنی پکڑ مضبوط کرتا رہتا ہے اور بالآخر انسان کو اپنے ساتھ لے کر موت کے اندھے غار میں غائب ہو جاتا ہے۔ یادیں ہی وہ آئینہ ہے جس میں گذشتہ دونوں ادوار کا عکس دیکھا جا سکتا ہے۔ اس لےے دیرینہ سال لوگوں کو یہ بے حد عزیز ہے اور ان کی نظر میں اس کی قیمت جام جمشید سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ یہ آئینہ ان کے بڑھاپے کا عصا ہوتا ہے جس کے سہارے وہ حال کی ٹوٹی پھوٹی اور ناہموار سڑکوں پر اپنی زندگی کا سفر جاری رکھتے ہیں۔ اگر یہ عصا ان سے چھین لیا جائے تو ان کے لےے قدم اٹھانا مشکل ہی نہیں تقریباً نا ممکن ہو جائے گا۔ نقاہتوں، بیماریوں، ذہنی اذیتوں اور تنہائی کے بوجھ تلے دب کر وہ کسی وقت بھی ڈھیر ہو سکتے ہیں۔ ہمارے محے کے ایک بزرگ اپنی جوانی کے واقعات میں رنگ بھر کر اتنے دلکش انداز میں سناتے ہیں کہ نوجوانوں کو ان واقعات میں اساطیری کہانیوں کا سا لطف آتا ہے۔ اگر بزرگ محترم کے پاس حسین یادوں کا وافر ذخیرہ موجود نہ ہوتا تو نوجوان اس کے پاس بھی نہ پھٹکتے اور تنہائی کی چڑیل اپنے نوکیلے پنجوں سے اسے بری طرح ادھیڑتی رہتی۔ یہ یادوں کا فیضان ہی تو ہے کہ اسی برس کا طویل عرصہ گزارنے کے باوجود وہ ذہنی اور جسمانی طور پر پوری پوری طرح نقاہت اور قباحت کی زد میں نہیں آئے اور دوسرے بوڑھوں کی نسبت اپنا بڑھاپا زیادہ احسن طریق پر گزار رہے ہیں۔
تاریخ کے لباس کا سارا تانا بانا یادوں کے دھاگوں ہی سے بنا جاتا ہے۔ تاریخ کا تعلق ماضی سے ہے اور یادیں ماضی کے وہ نقوش ہیں جن کی مدد سے ایک مورخ تاریخ رقم کرنے کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ یہ یادوں ہی کا کرشمہ ہے کہ سینکڑوں او رہزاروں سال بیتے ہوئے واقعات، حادثات اور سانحات تاریخ کا حصہ بن جانے کیپڑھ کر مجھے محسوس ہوا کہ ان میں سے ہر بیماری مجھے لاحق ہے کہ ہر ایک کی علامت مجھ میں موجود ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ان میں کوئی بیماری بھی مجھے لاحق نہیں تھی مگر بیمار پڑ جانے کا ایک خوف سا کلیشے بن کر میری رگ رگ میں اتر ا ہوا تھا جو صدیوں کے نسلی کلیشے کا رنگ اختیار کر چکا تھا۔کہ ہم مشرقی اور ترقی پذیر ممالک کے لوگ خوف کے کلیشے میں بری طرح مبتلا ہیں۔ حد یہ ہے کہ ہم پر غمگین کیفیت آشکار ہیں موسیقی تک ہمیں وہ پسند ہے جو غمگین ؟
ہمیں کلیشے کی اس قسم پر بھی غور کرنا پڑے گا جس کی طرف کبھی ہمارا دھیان نہیں گیا۔
ان حالات میں میں نے ایک نعرہ تخلیق کیا ہے کہ پرہیز علاج سے بہتر ،کہنے کی بجائے یہ کہا جائے کہ علاج پرہیز سے بہتر ہے "پرہیز علاج سے بہتر ہے"۔ میں کوف کا ایسا ہی کلیشے سانپ کی طرف کنڈی مارے ہمارے خون میں چھپا بیٹھا ہے جو ہر آن اندر ہی اندر ہمیں ڈستا چلا آ رہا ہے لہذا آج سے میں یہ کہوں گا کہ علاج پرہیز سے بہتر ہے اس میں ہمت کا اور حالات کا مقابلہ کرنے کا وہ جذبہ موجزن ہے جو انسان کی اصل قوت ہے ہمارے ایک دوست ہیں جو شوگر کے مریض ہیں مگر قلاقند کے مشتاق بھی ہیں ۔ہم نے ایک مرتبہ انہیں قلاقند کے ڈبے میں سر ڈالے قلاقند سے لطف اندوز ہوتے دیکھا تو حیران ہو کر پوچھا کہ انتظار بھائی شوگر کا مرض اور قلاقند کا شوق ؟
انہوں نے کہا اگر بھائی بیمار ہونے کے خوف سے میں اپنا شوق کیوں کھو دوں ۔ آخر دوائیاں سالی کس کام کےلئے ہیں؟ .... اور ڈاکٹروں کا روزگار کیسے چلے گا؟ میںزندگی کے لطف اس خوف ........لا یعنی خوف کی نذر نہیں کر سکتا جو شاید ہی کبھی حملہ آور ہو " اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بن شوگر شاید ہی کبھی حملہ آور ہوئی ہو تو میرا نعرہ ہے علاج پرہیز سے بہتر ہے ۔اور یقینا بہتر ہے ۔ کیہ یہی نعرہ ہمیں خوف کے کلیشے سے نجات بخش سکتا ہے جس نے ہمیں مرنے سے پہلے ہی مار رکھا ہے ........تو پھر کیوں نہ زندہ دلی سے زندہ رہا جائے۔
(مصنف: شفیع ہمدم)
انصاری آفاق احمد
مشاق
مشاق
Posts: 1263
Joined: Sun Oct 25, 2009 6:48 am
جنس:: مرد
Location: India maharastra nasik malegaon
Contact:

Re: یادیں

Post by انصاری آفاق احمد »

السلام عليكم ورحمۃ اللہ وبركاتہ
بہت خوب جزاک اللہ
ایمان خوف و امید کے درمیان ہے. اکثر اوقات خوف زیادہ ہو آخیر وقت امّید.... :cry: :cry: :cry:
یا اللہ تعالٰی بدگمانی سے بد اعمالی سےغیبت سےعافیت کے ساتھ بچا.
Image
شازل
مشاق
مشاق
Posts: 4490
Joined: Sun Apr 12, 2009 8:48 pm
جنس:: مرد
Contact:

Re: یادیں

Post by شازل »

بہت خوب
شکریہ
رضی الدین قاضی
معاون خاص
معاون خاص
Posts: 13369
Joined: Sat Mar 08, 2008 8:36 pm
جنس:: مرد
Location: نیو ممبئی (انڈیا)

Re: یادیں

Post by رضی الدین قاضی »

بہت خوب

جزاک اللہ
Post Reply

Return to “نثر”