افسانہ سائل از:۔ ایم مبین

اردو کے منتخب افسانے یہاں شیئر کریں
Post Reply
ایم مبین
کارکن
کارکن
Posts: 12
Joined: Tue Apr 07, 2009 12:59 pm

افسانہ سائل از:۔ ایم مبین

Post by ایم مبین »

افسانہ

سائل

از:۔ ایم مبین



امام نےسلام پھیرا اور اسی وقت عقب سےابھرنےوالی آواز کو سن کر تمام نمازی پیچھےمڑ کر دیکھنےلگے۔ ایک شخص کھڑا تھا ۔
” برادران ! میرا تعلق ریاست بہار سےہے۔ میری لڑکی کےدل کا آپریشن ہونےوالا ہےاس سلسلہ میں ‘ میں یہاں آیا ہوں ۔ آپریشن کےلئےلاکھوں روپیہ درکار ہے۔ آپ کی اعانت کا قطرہ قطرہ مل کر میرےلئےسمندر بن جائےگا ۔ میری بیٹی کی جان بچ جائےگی ۔ میری بیٹی کی جان بچا کر ثواب دارین حاصل کریں ۔ “اس شخص کی آواز سن کر کچھ نمازیوں کےچہروں پر ناگواری کےتاثرات ابھرےکچھ غیض و غضب بھری نظروں سےاسےدیکھنےلگے۔ کچھ بڑبڑانےلگے۔
” لوگوں نےدھندا بنا لیا ہے۔ خدا کےگھر میں بیٹھ کر بھی جھوٹ بولتےہیں ۔ “
” خدا کےگھر ‘ نماز کا بھی کوئی احترام نہیں ۔ نماز ختم بھی نہیں ہوئی اور حضرت شروع ہوگئے۔ “
” نماز کےدوران اس قسم کےاعلانات پر پابندی لگادینی چاہیئے۔ “ باتوں کا سلسلہ درمیان میں ہی منقطع ہوگیا ۔ کیونکہ امام نےدعا کےلئےہاتھ اٹھالئےتھے۔
پتہ نہیں کیوں اس شخص کی بات سن کر ان کےدل میں ایک ہوک سی اٹھی ۔ اس شخص کےبیٹھ جانےکےبعد بھی وہ بار بار اسےمڑ کر دیکھتےرہے۔ انہیں اس شخص کا چہرہ بڑا مسکین محسوس ہوا ۔ انہیں ایسا لگا جیسے یہ شخص سچ مچ مدد کا طالب ہےاور یہ جھوٹ نہیں بول رہا ہے۔ اسےایسا سچ مچ اپنی بیٹی کی جان بچانےکےلئےمدد درکار ہے۔ دعا ختم ہوگئی اور وہ اسی بارےمیں سوچتےرہے۔ وہ مسجد سےباہر نکلےتو انہیں وہ شخص مسجد کےدروازےکےپاس ایک رومال پھیلائےبیٹھا دکھائی دیا ۔ رومال میں کچھ سکےاور ایک دو ‘ ایک دو روپیہ کی نوٹیں پھیلی تھیں ۔ ایک لمحہ کےلئےوہ رک گئےجیب میں ہاتھ ڈالا اور پیسوں کا اندازہ لگانےلگےاور آگےبڑھ گئے۔
گھر آئےتو بہو اور بیٹا ایک آدمی کےساتھ باتیں کررہےتھے۔
” اگر آپ سیلنگ لگاتےہیں ؟“ وہ آدمی کہہ رہا تھا ۔ ” تو میں آپ کو بالکل نئےطرز کی سیلنگ لگا کر دوں گا ۔ اس طرح کی سیلنگ میں نےایک فلم اسٹار کےبیڈروم میں لگائی ہے۔ ایک بڑی کمپنی کےآفس میں بھی اسی طرح کی سیلنگ ہے۔ اگر آپ صرف سیلنگ لگائیں گےتو پورےفلیٹ میں سیلنگ لگانےکا خرچ پچیس ہزار روپےکےقریب آئےگا ۔ اگر آپ سیلنگ صرف بیڈروم میں لگانا چاہتےہیں تو دس ہزار روپےکےقریب خرچ آئےگا ۔ “
”پورےفلیٹ میں سیلنگ لگانےکی کوئی ضرورت نہیں ۔ صرف بیڈ روم میں ہی سیلنگ لگائیں گے۔ “ بہو بیٹےکی طرف سوالیہ نظروں سےدیکھ رہی تھی ۔ ابھی گذشتہ سال ہی تو بیس ہزار روپےخرچ کرکےسیلنگ لگوائی تھی ۔ ” اتنی جلدی سیلنگ بدلنےکی کوئی صرورت نہیں ہےہاں بیڈروم میںسیلنگ بدلنےکی سخت ضرورت ہےکیونکہ بیڈروم میں نیا پن تو ہونا چاہیئے۔ “
” ٹھیک ہے! “ بیٹا اس آدمی سےکہنےلگا کہ تم کل آفس آکر پانچ ہزار روپےاڈوانس لےلینا اور پرسوں سےکام شروع کردینا ۔ کام دو تین دنوں میں ختم ہوجانا چاہیئی۔ “
” صاحب ! دو تین دنوں میں کام ختم ہونا تو مشکل ہےکم سےکم آٹھ دن تو لگیں گےہی ۔ “ وہ آدمی کہنےلگا ۔
” ٹھیک ہے! لیکن کم سےکم وقت میں کام ختم کرنا اگلےماہ میم صاحب کی برتھ ڈےہے۔ اس برتھ ڈےکی پارٹی میں میں اپنےاور میم صاحب کےدوستوں کو سرپرائز گفٹ دیناچاہتا ہوں ۔ “ بیٹا کہہ رہا تھا ۔
” آپ فکر نہ کریں کام وقت پر ہوجائےگا ۔ “ وہ آدمی اٹھ کر جانےلگا ۔
” ارےہاں ! مجھےاپنی اس برتھ ڈےپر کوئی قیمتی گفٹ چاہیئےجو کم سےکم بیس ہزار روپےکا ہو اور پھر پارٹی پر بھی تو دس بارہ ہزار روپےخرچ تو ہوں گےہی ۔ پھر یہ سیلنگ کا کام ۔ اتنےپیسےہیں بھی یا نہیں ؟ “
” تم فکر کیوں کرتی ہو ۔ سارا انتظام ہوجائےگا ۔ “ بیٹا بولا ۔ اچانک اس کی نظر ان پر پڑی ۔ ” ارےابا جان ! آئیے۔ ہم لوگ آپ ہی کا انتظار کررہےتھے۔
” چلئےجلدی سےہاتھ منہ دھولیجئے۔ نرگس ذرا کھانا لگانا ۔ “
” ابھی لگاتی ہوں ۔ “ کہتی ہوئی بہو اٹھ گئی ۔ کھانا لگا گیا اور وہ ساتھ میں کھانا کھانےلگے۔ کھانا کھاتےوقت بھی ان کا ذہن کہیں اور ہی الجھا ہوا تھا ۔ بیٹا فلیٹ کی چھت بدلنےپر دس بیس ہزارروپےخرچ کرنےپر تیار ہے۔ بیوی کی سالگرہ پر دس بیس ہزار روپےکا تحفہ دینےکےلئےتیار ہےسالگرہ کی پارٹی پر دس بارہ ہزار روپےخرچ کرےگا۔ خدا نےاسےوہ آسودگی عطا کی ہے۔جس کےلئےمیں زندگی بھر ترستا رہا ۔
مریم ! لگتا ہےہمارےبرےدن دور ہوگئےہیں تمہاری بھی ساری دکھ تکلیفیں دور ہونےوالی ہیں ۔ تمہیں بہت جلد اس موذی مرض سےنجات ملنےوالی ہےرات کو سونےکےلئےلیٹےبھی تو ذہن میں بیٹا ہی چھایا ہوا تھا ۔
” بیٹےعامر !ایسا لگتا ہےتم میرےسارےخوابوں کو پورا کردوگے۔ تمہارےبارےمیں میں نےجو جو خواب دیکھےتھےوہ سارےخواب پورےکردوگے۔ خدا تمہیں زندگی کےہر امتحان میں کامیاب کرے۔ اور ساری دنیا کی مسرّتیں ‘ خوشیاں آکر تمہاری جھولی میں جمع ہوجائیں ۔ ان کی آنکھوں کےسامنےپانچ چھ سال کےعامر کی تصویر گھوم گئی ۔ جب وہ کھیتوں میں کام کررہےہوتےتو عامر اپنےننھےننھےہاتھوں میں تختی تھامےدوڑتا ہوا آتا تھا اور دور سےان سےچیخ کر کہتا تھا کہ ابا ! آج ماسٹر جی نےہمیں الف سےلےکر ت تک الفاظ سکھائےہیں ۔ مجھےاب پ ‘ ت سب لکھنا آتا ہےدیکھئےمیں نےلکھا ہے۔ وہ آکر ان سےلپٹ جاتا تھا ۔ اور اپنی تختی ان کی طرف بڑھا دیتا تھا ۔ تختی پر لکھےننھےننھےحروف پر نظر پڑتےہی ان کا دل خوشی سےجھوم اٹھتا تھا ۔
” بیٹےمیرا دل کہتا ہےتو میرا نام ساری دنیا میں روشن کرےگا ۔ تُو ایک دن پڑھ لکھ کر بہت بڑا آدمی بنےگا۔ “ اور سچ مچ عامر نےنچلی جماعتوں سےہی ان کا نام روشن کرنا شروع کردیا تھا ۔
گاو

¿ں کا ہر فرد جانتا تھا کہ عامر پڑھنےلکھنےمیں بہت ہوشیار ہے۔ ہمیشہ کلاس میں اول آتا ہے۔ دسویں کےامتحان میں تو وہ پورےبورڈ میں تیسرا آیا تھا اور اس کی اس کامیابی سےنہ صرف ان کا بلکہ سارےگاو

¿ں اور گاو

¿ں کی اس چھوٹی سی اسکول کا نام بھی روشن ہوگیا تھا اور اس کےبعد عامر کوا علیٰ تعلیم کےلئےشہر جانا تھا ۔ یہ تو بہت پہلےہی طےہوچکا تھا کہ وہ عامر کو اعلیٰ تعلیم کےلئےشہر بھیجیں گے۔
مریم نےاپنےکلیجےپر پتھر رکھ لیا تھا اور پتھر رکھ کر اس نےعامر کو اعلیٰ تعلیم کےلئےشہر روانہ کیا تھا ۔ جس کو وہ ایک لمحہ اپنی آنکھوں سےجدا نہیں ہونےدینا چاہتی تھی ۔ آخر اس کی ایک ہی تو اولاد تھی ۔ دو تین بچےتو نہیں تھےجن سےدل بہلا سکے۔ پتہ نہیں کیوں قدرت نےانہیں عامر کےبعد اولاد نہیں دی ۔
عامر کا داخلہ ایک اچھےکالج میں ہوا ۔ اچھےنمبروں کی وجہ سےیہ داخلہ ممکن ہوسکا تھا ۔ لیکن کالج کی فیس تو ادا کرنی ہی تھی ۔ فیس اتنی زیادہ تھی کہ ان کی ساری بچت بھی کم پڑ رہی تھی اور مریم کےگہنےفروخت کرنےکےبعد بھی فیس کےپیسےجمع نہیں ہورہےتھے۔
یہ طےکیا گیا کہ کھیت کا ایک ٹکڑا فروخت کردیا جائے۔ بچےکےمستقبل اور اس کی پڑھائی سےبڑھ کر کھیت نہیں ہے۔ آخر یہ سب تو اسی کا ہے۔ اگر یہ اس کےکام نہیں آئےتو اس کی کیا وقعت ۔ کھیت کا ایک ٹکڑا فروخت کرکےعامر کی فیس ادا کردی گئی اور اس کی پڑھائی کےاخراجات کا انتظام بھی کرلیا گیا ۔ بڑھتی عمر کےساتھ ان سےکھیتوں میں کام نہیں ہوتا تھا ۔ کھیت میں مزدور لگوا کر ان سےکام لیتےتھے۔ کبھی کبھی جب وہ کسی کام سےگاو

¿ں سےباہر جاتےتو یہ کام مریم کو کرنا پڑتا تھا۔ مریم کی پرانی بیماری کا زور بڑھتا ہی جارہا تھا ۔
رات میں جب ٹھنڈی ہوائیں چلتیں تو دمیّ کا زور کچھ اتنا بڑھ جاتا تھا کہ انہیں مریم کو سنبھالنا مشکل ہوجاتا تھا ۔ موسم کےبدلنےسےدمّہ سےکچھ راحت ملتی تو گردےکی پتھری زور کرتی تھی اور انہی دو بیماریوں کی وجہ سےانہیں مریم کو بار بار شہر لےجانا پڑتا تھا ۔ گاو

¿ں میں آنےوالےڈاکٹر مریم کی ان بیماریوں کا صحیح طور پر علاج نہیں کرپاتےتھے۔ شہر کےایک اچھےڈاکٹر کےعلاج سےتھوڑا ا

©فاقہ ہوجاتا تھا ۔ مریم کی دواو

¿ں کا خرچ عامر کی پڑھائی کےخرچ کےبرابر تھا ۔ کھیت میں نئی فصل آتےہی وہ سب سےپہلےدونوں کےخرچ کےپیسےالگ اٹھا کر رکھ دیتےتھے۔ لیکن نہ تو عامر کی پڑھائی کےخرچ کی کوئی حد تھی اور نہ مریم کی بیماری کےخرچ کی ۔ دونوں بار بار اپنی حدود کو پار کرجاتےتھےاور ان کا سارا بجٹ گڑبڑا جاتا تھا ۔ ایسےمیں مریم ایثار کی مورتی بن جاتی تھی۔ وہ لاکھ تکلیفوں کو برداشت کرلیتی تھی اور ان سےکہتی تھی کہ میری طبیعت ٹھیک ہے۔ ڈاکٹر کےپاس جانےکی ضرورت نہیں ہے۔ پیسےعامر کو بھیج دو ۔ وہ بیوی کےایثار کو سمجھتےتھےلیکن اس معاملےمیں بیوی سےبحث نہیں کرپاتےتھے۔ کیونکہ بیٹےکی پڑھائی سامنےسوالیہ نشان بن کر کھڑی ہوجاتی تھی اور عامر ہر بار اچھےنمبروں سےپاس ہوتا تھا ۔ اور اس کی کامیابی سےوہ خوشی سےجھوم اٹھتےتھے۔ کہ عامر کےلئےوہ جو عبادت کررہےہیں ۔ قدرت انہیں ان کی اس عبادت کا پھل دےرہا ہے۔ آخر وہ دن آپہونچا جب عامر نےاپنی تعلیم اچھےدرجےسےپوری کرلی ۔
” ابا ! اب آپ کو دن بھر دھوپ آگ میں کھیتوں میں کام کرنےکی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اب ہمیں کھیتی کرنےکی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ نےچاہا تو مجھےبہت جلد کوئی اچھی نوکری مل جائےگی اور مجھےاتنی آمدنی ہوگی کہ اس آمدنی سےآسانی سےمیں آپ لوگوں کی دیکھ بھال کرسکوں گا ۔ امی کا کسی اچھےڈاکٹر سےعلاج کرسکوں تاکہ امی کی بیماری جڑ سےہمیشہ کےلئےختم ہوجائے۔
عامر کی بات سچ بھی تھی ۔ عامر نےجو تعلیم حاصل کی تھی اس تعلیم کی وجہ سےاسےایسی نوکری تو آسانی سےمل سکتی تھی کہ اس میں ان تینوں کا گذر بسر ہوجائی۔ کھیتوں میں کام نہ کرنےکےعامر کےفیصلےسےوہ بھی مسرور تھےاب ان سےبھی دھوپ میں کھیتوں میں کام کرنےوالےمزدوروں کی نگرانی کا کام نہیں ہوتا تھا ۔ وہ کھیت میں ہوتےتھے۔ لیکن ان کا سارا دل گھر میں لگا ہوتا تھا ۔ مریم کیسی ہوگی پھر کہیں درد کا دورہ تو نہیں پڑگیا ؟ کئی بار ایسا ہوا جب وہ کھیت سےواپس آئےتوانہوں نےمریم کو کبھی پتھری کےدرد سےیا کبھی دمےکےدورےکےدرد سےتڑپتا ہوا پایا ۔ بس اسی وجہ سےمریم کو چھوڑ کر جانےکو ان کا دل نہیں چاہتا تھا ۔
تعلیم ختم کرنےکےبعد عامر ایک دو ہفتہ ان کےپاس آکر رہا تھا ۔ پھر نوکری کی تلاش میں واپس شہر چلا گیا ۔ ایک ہفتےکےاندر اس کا خط آیا کہ اسےایک اچھی نوکری مل گئی ہے۔ دو مہنےبعد آیا تو کہنےلگا ۔ پہلےسےبھی اچھی جگہ نوکری مل گئی ہے۔ اس لئےاس نےپہلی نوکری چھوڑ دی ہے۔
تین چار مہینےکےبعد اس کا خط آیا کہ اس نےایک چھوٹا سا کمرہ لےلیا ہی۔ وہ لوگ چاہیں تو آکر اس کےساتھ رہ سکتےہیں ۔ عامر کےپاس جاکر رہنا ایک تضاد کا معاملہ تھا ۔ دونوں اس کےلئےراضی نہیں تھے۔ اپنا گاو

¿ں ‘ کھیت اور گھر چھوڑ کر اجنبی شہر کہاں جائیں ؟ وہاں نہ کسی سےجان نہ پہچان ۔ پھر وہاں کےہزاروں مسائل ۔عامر کےبہت زور دینےپر وہ کچھ دن اس کےپاس رہنےآئے۔ لیکن آنےکےبعد دونوں کا یہی خیال تھا کہ وہ اس کےپاس شہر میں نہیں رہ سکتے۔ انہیں وہاں کا ماحول راس نہیں آیا تھا نہ ان میں وہاں کےمسائل کا سامنا کرنےکی تاب تھی ۔ اس درمیان میں عامر نےانہیں لکھا اس نےایک لڑکی پسند کرلی ہےاور لڑکی کےگھر والےاس کی شادی عامر سےکرنےکےلئےتیار ہیں ۔ آپ لوگ آکر اس معاملےکو طےکرجائیں ۔ اس بات کو پڑھ کر وہ خوشی سےجھوم اٹھی



تھے۔ عامر نےان کےسرکا ایک بوجھ ہلکا کردیا تھا ۔ انہیں عامر کےلئےلڑکی ڈھونڈنی نہیں پڑی تھی ۔ اس نےخود ڈھونڈ لی تھی ۔ شادی بیاہ کےبارےمیں وہ اتنےدقیانوسی نہیں تھےکہ عامر کی اس بات کا برا مان جائیں ۔ ان کا خیال تھا کہ عامر کو اس لڑکی کےساتھ زندگی گذارنی ہے۔ اس نےخود لڑکی پسند کی ہےتو لڑکی اچھی ہی ہوگی ۔
وہ ایک دن جاکر نرگس کو دیکھ آئےاور شادی کی تاریخ بھی پکی کر آئی۔ اس کےبعد انہوں نےبڑی دھوم سےعامر کی شادی کی ۔ گاو

¿ں کےجو لوگ بھی ان کےساتھ عامرکی شادی کےلئےشہر گئےتھےان کا بھی کہنا تھا کہ آج تک گاو

¿ں میں اتنی دھوم دھام سےکسی کی شادی نہیں ہوئی ۔
اس شادی میں ان کی ساری جمع پونجی اور مریم کےسارےزیورات کےساتھ زمین کا ایک ٹکڑا بھی بک گیا لیکن پھر بھی انہیں کوئی غم نہیں تھا ۔ وہ ایک اور فرض سےسبک دوش ہوگئےتھےجیسےان کی قسمت میں قدرت نےآرام لکھ دیا تھا ۔ عامر ہر ماہ اتنی رقم بھیجتا تھا کہ انہیں کھیتوں میں فصل اگوانےکی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی تھی اور اس رقم میں ان کا آرام سےگذر بسر ہورہا تھا ۔
معاملہ اس وقت گڑبڑا جاتا جب عامر رقم روانہ نہیں کرتا اور روانہ نہیں کرنےکی وجہ لکھ دیتا ۔ نرگس اسپتال میں تھی اس کی بیماری پر کافی خرچ ہوگیا ۔ نیا فلیٹ بک گیا اس کےپیسےبھرنےہیں۔ رنگین ٹی وی لیا ہےاس کی قسطیں ادا کرنی ہیں ۔ پھر مریم کی بیماریاں بھی زور پکڑنےلگیں ۔ کبھی کبھی ان کو بھی چھوٹی موٹی بیماریاں آگھیرتیں تب انہیں محسوس ہوتا کہ عامر پر تکیہ کرنا بےوقوفی ہی۔ چاہےکچھ بھی ہوجائےانہیں آرام کرنےکی بجائےکھیتوں میں کام کرنا چاہیئے۔ اور وہ پھر سےکھیتوں کی طرف متوجہ ہوگئے۔ اس وجہ سےان کی بیماریاں بھی بڑھنےلگیں اور مریم کی بھی ۔ مریم کو کبھی کبھی درد کےاتنےشدید دورےپڑتےتھےکہ محسوس ہوتا کہ ابھی اس کی جان نکل جائےگی۔ ڈاکٹر نےبھی صاف جواب دےدیا تھا ۔ اب تک میں دواو

¿ں سےدرد کو دبانےکی کوشش کےساتھ ساتھ پتھری کو ختم کرنےکی کوشش بھی کرتا رہا ہوں ۔ لیکن نہ تو پتھری ختم ہوسکی ہےاور نہ درد اور اس وقت جو صورتِ حال ہےاس کےپیشِ نظر آپریشن بےحد ضروری ہے۔ ورنہ کسی دن درد کا یہ دورہ جان لیوا ثابت ہوگا ۔
مریم کی زندگی کےلئےآپریشن بےحد ضروری تھا اور اس پر دس پندرہ ہزار روپوں کےخرچ کی امید تھی ۔ اتنی رقم ان کےپاس نہیں تھی ۔ ڈاکٹر نےجلد آپریشن کرنےپر زور دیا تھا ۔ اس لئےانہوں نےسوچا ساری صورتِ حال سےعامر کو مطلع کردیا جائے۔ وہ مریم کےآپریشن کا انتظام کردےگا ۔ اس کےلئےوہ عامر کےپاس آئےآتےہی ادھر ادھر کی باتوں کےبعد اور پھر رات کا کھانا کھا کر سونےکےلئےآلیٹے۔ سوچا سویرےاطمینان سےباتیں کریں گے۔
دوسرےدن ناشتےکی میز پر انہوں نےساری صورتِ حال بیٹےکےسامنےرکھ دی ۔ ” ابا میں نےآپ کو بار بار لکھا تھا کہ آپ امی کےعلاج سےکوتاہی نہ برتیں ان کی بیماری بہت خطرناک ہے۔ “
”ڈاکٹر کہتا ہےاب آپریشن بےحد ضروری ہے۔ “وہ بتانےلگے۔ ” ورنہ کسی دن بھی تمہاری امی کی جان جاسکتی ہے۔ آپریشن میں دس پندرہ ہزار روپےخرچ آئےگا۔ اس لئےمیں تمہارےپاس آیا ہوں ۔ اگر تم پیسوں کا انتظام کردو تو آپریشن کروا لوں۔ ڈاکٹر نےساری تیاریاں کرلی ہیں ۔ “
” آپریشن ؟ “ ان کی بات سوچ کر عامر کچھ سوچ میں ڈوب گیا ۔ ” دس پندرہ روپوں کا انتظام ؟ “ بہو بیٹےکا منہ دیکھنےلگی ۔
” ابا ! اب آپ سےکیا کہوں میں بھلا اتنی بڑی رقم کا انتظام کیسےکرسکتا ہوں ۔ آپ جانتےہیں میرےپیچھےکتنےخرچ ہیں ۔ آپ کو باقاعدگی سےپیسہ روانہ کرنا ہوتا ہے۔ اس فلیٹ کو خریدنےکےلئےجو قرض لیا تھا اس کی قسطیں کٹ رہی ہیں ۔ فرنیچر اور ٹی وی والوں کی ادھاری دینی ہے۔ سمجھ لیجئےاس وقت میں کاندھےتک قرض میں دھنسا ہوں اور آپ امی کےآپریشن کےلئےدس پندرہ ہزارروپےمانگ رہےہیں ؟ “
بیٹےکی بات سن کر حیرت سےوہ اس کا منہ تاکنےلگے۔ بیٹےنےنظریں چرالیں تو وہ فلیٹ کی چھت کو گھورنےلگےجہاں نئی طرز کی سیلنگ آویزاں تھی ۔ اچانک ان کی آنکھوں کےسامنےمسجد میں اپنی بیٹی کےدل کےآپریشن کےلئےلوگوں سےمدد مانگنےوالےاس آدمی کا چہرہ گھوم گیا اور وہ لرز اٹھے۔ انہیں لگا جیسےوہ بیٹےکےفلیٹ کےدروازےپر رومال بچھا کر اس سےماں کےآپریشن کےلئےمدد مانگ رہےہیں ۔
اعجازالحسینی
مدیر
مدیر
Posts: 10960
Joined: Sat Oct 17, 2009 12:17 pm
جنس:: مرد
Location: اللہ کی زمین
Contact:

Re: افسانہ سائل از:۔ ایم مبین

Post by اعجازالحسینی »

بہت خوب مبین صاحب

ایک باپ دس بیٹے پال سکتا ہے لیکن دس بیٹے ایک باپ کو نہیں پال سکتے ۔
[center]ہوا کے رخ پے چلتا ہے چراغِ آرزو اب تک
دلِ برباد میں اب بھی کسی کی یاد باقی ہے
[/center]

روابط: بلاگ|ویب سائیٹ|سکرائبڈ |ٹویٹر
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: افسانہ سائل از:۔ ایم مبین

Post by چاند بابو »

بہت خوب
محترم مبین صاحب بہت ہی حساس موضوع پر لکھا ہے ، اعجاز صاحب کی بات بالکل درست ہے لیکن اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ ہمیں ایسا بیٹا نہ بنائے۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
انصاری آفاق احمد
مشاق
مشاق
Posts: 1263
Joined: Sun Oct 25, 2009 6:48 am
جنس:: مرد
Location: India maharastra nasik malegaon
Contact:

Re: افسانہ سائل از:۔ ایم مبین

Post by انصاری آفاق احمد »

اسلام علیکم
دین سے دوری دنیا سے لگاو کے جو نقصانات ہیں ان میں سے بہت ہی معمولی سا ایک حصّہ اس افسانے میں ہے.
اخلاقی انحطاط کی بہت سی وجوہات میں سے ایک وجہ خود والدین کی ناقص تربیت اور عملی اعتبار سے دنیا کو دین پر فوقیت دینا ہے. جس کو دیکھ کر اولاد بھی شیر پر سوا شیر کے مصداق تیار ہوتی ہے.
کسی کتاب میں ایک واقعہ پڑھا تھا. ایک جوان اپنے بوڑھے باپ کو مارتا گھسیٹتا ہوا لے جارہا تھا. کسی کی ہمّت نہ تھی اسکو روک سکے. ایک مقام پر پہنچ کر بوڑھے نے کہا بس کر بیٹا اب اور اگے مت کھینچ، میں نے بھی اپنے باپ کو یہیں تک کھینچا تھا.
بحر حال مختلف وجوہات ہوسکتیں ہیں. مگر سب کی بنیاد بے دینی ہی ہے.
یا اللہ تعالٰی بدگمانی سے بد اعمالی سےغیبت سےعافیت کے ساتھ بچا.
Image
Post Reply

Return to “اردو افسانہ”