چاندنی چاند سے ہوتی ہے ۔

اردو کے منتخب افسانے یہاں شیئر کریں
Post Reply
انور جمال انور
کارکن
کارکن
Posts: 119
Joined: Wed Sep 26, 2012 12:08 am
جنس:: مرد

چاندنی چاند سے ہوتی ہے ۔

Post by انور جمال انور »

چاندنی چاند سے ہوتی ہے ____
۔
۔(مکمل تحریر )

میں نے چاندنی کے چرنوں میں ایک ہزار روپے رکھ دیے جو وہ مجھ سے کئی روز سے ادھار مانگ رہی تھی ۔
پیسے دیکھ کر انکھیں چمکاتے ہوئے اس نے مجھے ایک خاص ادا سے دیکھا ، اس کی اس طرح کی ادا کسی کو بھی دیوانہ کر سکتی تھی بولی شکر ہے آپ کو یاد تو ایا ,,
اس نے پیسے اپنے تکیے کے نیچے سرکا دیے ، پوچھنے لگی اور میرے پان لائے ہیں کہ نہیں ؟
میں نے پان کی پڑیا نکال کر اس کی طرف بڑھائی اور جب اس نے ہاتھ بڑھایا تو میں اس کے ہاتھ سے ہوتا ہوا ٹھیک اس کے گالوں تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا مگر اس سے پہلے کہ کوئی جھک مار سکتا کمرے کا واحد دروازہ دھڑ سے کھلا اور اس کے گنجے سرتاج نے ایک دم سے انٹری مار دی ۔
،، ہاں بھائی کیا ہو رہا ہے ؟
پتا نہیں یہ منحوس ہمیشہ موقع پر ہی چوکا مارنے کیسے ا جاتا تھا۔ خیر اس نے یہ سوال تو کر دیا مگر وہ دیکھ کچھ بھی نہیں سکا کیونکہ دروازے پر آہٹ ہوتے ہی میں چاندنی سے دو فٹ دور ہو چکا تھا۔
چاندنی میری بوکھلاہٹ پر جب طنزیہ مسکرائی تو مجھے اس کی یہ مسکراہٹ بھی اچھی لگی۔
تم میرے پان لائے ہو کہ نہیں؟ چاندنی نے یہی سوال اب اپنے گنجے سرتاج کے اگے رکھ دیا، میں نے جلدی سے اپنے ہاتھ کی پڑیا چھپا لی
پان وان چھوڑ ،، سرتاج جلدی سے کہنے لگا ،، لا مجھے کچھ پیسے دے،،
کیوں پیسے دوں ؟
ارے یار وہ میرے ایک دوست کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے ، اسے ہسپتال پہنچا کر ایا ہوں، مرہم پٹی کروانی ہے۔
تو تم کیوں کرواؤ گے پٹی؟ اس کے پاس پیسے نہیں ہیں کیا؟
یار اس کا ایکسیڈنٹ میری ہی گاڑی سے ہوا ہے ایک دم سے سامنے اگیا تھا وہ پاگل کا بچہ ۔
لعنت ہو اس صورتحال پر ،
میں جھنجلا کر اٹھ گیا اور چار فٹ مزید پیچھے جا کر بیٹھ گیا ,
کہاں وہ۔ حس لطافت کہ نازکی اس کے لب کی کیا کہییے ، پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا تھا میں اور کہاں یہ کثافت کہ کمرا کانٹوں سے بھرنے لگا تھا اور بحث پیسوں کی چل نکلی تھی ۔۔۔ تنگ آکر چاندنی نے میرا ہی ایک ہزار کا نوٹ نکال کر اسے تھما دیا جسے لے کر وہ فوراً رخصت ہوگیا ۔۔
اپنے پیسوں کی ایسی فوری بربادی میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی ۔۔۔ کتنا نٹ کھٹ ،پیارا شریر اور رومانوی بوسہ ہوتا جو میں ان پیسوں کے عوض حاصل کرنے والا تھا ،، کتنی مشکل سے کمائۓ تھے یہ سکے ، اتوار بازار میں ٹھیلا لگا کر کتنا چیخ چیخ کر پکارا تھا میں تب جا کر گاہک میرے سودے کی طرف متوجہ ہوئے تھے ، پھر دن بھر کی محنت کے بعد اپنے تھوڑے سے منافع میں سے ایک ہزار نکال کر یہاں آیا ، چاندنی کی خوشنودی حاصل کی ،، اس کے چرن چھوئے مگر سب برباد ۔
میں نے چاندنی کی طرف دیکھا ،، اب وہ میرے لیے نہیں اپنے مسائل کی وجہ سے چیں بہ جبیں ہو چکی تھی ، اب اگر میں پیش قدمی کرتا بھی تو وہ دھکا دے دیتی ۔
کہنے لگی ،، آپ جا کے ذرا دیکھو تو ،، یہ اسپتال ہی گئے ہیں یا کہیں اور ۔

کوئی ہسپتال وسپتال نہیں گیا ہو گا وہ ،،، سالا ایک نمبر کا حرامی ہے ۔۔ میں نے چڑچڑا کر جواب دیا ۔
گالی تو مت دیں ،، وہ جیسے بھی ہیں میرے شوہر ہیں ،،جائیں دیکھیں ، کیا پتا سچ میں ایکسیڈنٹ ہوا ہو ۔۔

چاندنی کے حکم پر مجھے جانا ہی پڑا مگر جاتے جاتے اپنی نامرادی کا اظہار بھی کر گیا ،، پان کی پڑیا اس کی طرف زور سے پھینک کر ۔۔

میرا شک بالکل صحیح تھا ، وہ مجھے کسی ہسپتال میں نہیں ملا ،، وہ وہیں ملا جہاں اسے ہونا چاہئیے تھا یعنی شمو رانی (shimmo)
کے اڈے پر ،، اس گنجے نے شادی کر لی ، بچہ پیدا کر لیا اپنے سارے بال گنوا لیے کسی بیماری کی وجہ سے مگر شم٘و کا پیچھا نہیں چھوڑا ،، جب وہ لڑکا تھی جب سے یہ اسے اپنی ساری کمائی کھلا رہا ہے ۔۔کمال کا خواجہ سرا ہے یہ شم٘و بھی ،اس کے ڈانس کے آگے تو مادھوری کا دھک دھک کرنے لگا ،، مورا جیارا ڈرنے لگا والا سونگ بھی پھیکا پڑ جاتا تھا ۔ اور جو شم٘و کے فیگر ہیں ،، اف توبہ ۔۔
دونوں ایک ساتھ بیٹھے چکن تکہ کھا رہے تھے ،
میں نے پیسوں کا حساب لگایا 600 کے دو تکے ، 40 40 کے دو پراٹھے ، ایک زنگر برگر 250 والا اور ایک اسٹنگ کی بوتل ،،
یعنی میرے پورے ہزار روپے کام آچکے تھے ۔۔
ابے بےغیرت کے بچے ،، میں چیخا ،، ان پیسوں سے دو دن کا راشن آجاتا تیرے گھر کا ،، میں نے جملے کس کس کر اس کے منہ پر مارے ،، وہ ہاتھ جوڑنے لگا ،، تاہم شم٘و لاپرواہی سے کھاتی رہی ۔
انکل ۔۔ اس کو مت بتانا یار ،، پلیز پلیز ،، مت بتانا ، میں راشن ڈلوا لوں گا ، کل مجھے پیسے مل جائیں گے کام پر سے ۔۔ یہ شم٘ی ہے نا ،، یہ بہت ضد کر رہی تھی آج یہ سب کھانے کے لیے ۔۔
میں دانت پیس کر رہ گیا ،، واپس جانے لگا تو شم٘و نے یہ کہہ کر اور خون کھولا دیا کہ انکل آجاؤ ،، تم بھی چکھ لو ۔

جاری ہے

صفحہ نمبر 2

گو کہ اس کا اشارا فاسٹ فوڈ کی طرف تھا میرے دل میں یہ بات آئی کہ کاش یہ لڑکا ( چاندنی کا شوہر ) سدھر جائے ، اہنی بیوی کو اپنی کل کائنات سمجھنے لگے ، یہاں نہ آیا کرے تو میں کبھی کبھی شم٘و رانی کو چکھنے آجایا کروں ۔۔

لاحول ولا قوت ،، اب کیا اس عمر میں میں کھسروں کے پیچھے بھاگوں گا ؟ میں نے خود کو ملامت کی ۔
چائے کے ہوٹل پر دلشاد مل گیا ۔

دل شاد تھا کہ پھول کھلیں گے بہار میں ،،،، مارا گیا غریب اسی اعتبار میں ۔۔
ہم میں سب سے زیادہ غریب دلشاد تھا کیونکہ وہ شاعر تھا قرض کی چائے پیتا تھا اور سمجھتا تھا کہ ہاں ایک دن چاندنی کو ضرور پٹا لوں گا ۔
حسب عادت اور حسب معمول دلشاد نے جب منہ کھولا تو عرض کیا ہے کہہ کر شعر سنانے لگا

یار کے بند قبا آہستہ وا کرنے کو تھے
چوری چوری کچھ نہ پوچھو رات کیا کرنے کو تھے

لکھ لعنت ہو تیری شکل پر ،، میں شعر سن کر چیخا ،، ابے تجھے اور کوئی کام نہیں ہے ؟ جا یہ داڑھی کٹوا ، بال بنوا اور کوئی نوکری تلاش کر ،، کسی روزی روٹی سے لگ مر
اس پر کوئی اثر نہیں ہوا ،، پوچھنے لگا چاندنی کیسی ہے ؟ تو گیا تھا اس کے پاس ؟
ہاں میں گیا تھا ،، اپنے شوہر کو لے کر پریشان ہے تین مہینے کا کرایہ چڑھ گیا ہے اس کے اوپر ، مالک مکان نے گھر سے نکالنے کی دھمکی دے دی ہے ۔
کیوں دھمکی دی ،، نکال کے تو دکھائے اسے گھر سے ،، دلشاد آستینیں چڑھانے لگا ۔
تو کیا کر لے گا ،، تیرے پاس تو پچاس روپے نہیں ہوتے ،، میں نے طنز کیا
پچاس روپے کا سن کر دلشاد کا چہرا اتر گیا بولا ،، ہاں یار وہ مجھ سے ایک ہزار روپے مانگ رہی ہے ادھار اور میرے پاس تو سو روپے بھی نہیں ،، اس لیے میں اس کے پاس جا بھی نہیں رہا ،، کونسا منہ لے کر جاؤں ،، اتنا چاہتا ہوں اسے مگر اس کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتا ۔۔
اس کی بے بسی لائق _ نظارہ تھی اور اس کی آواز کچھ ایسی دردناک ہوگئی تھی کہ سو مرثیہ پڑھنے والے بھی سن کر رو پڑیں

میں نے کہا ،، جا پھر منہ کالا کروا اپنا ، تیرے اشعار سن سن کر اس کا پیٹ نہیں بھرے گا ،، پیٹ روٹی سے بھرتا ہے ، جو اس کی اور میری بھی دسترس سے باہر ہوتی جارہی ہے ۔۔ دلشاد دلگیر ہو کر اٹھ گیا ۔اور تھوڑی دیر بعد میں بھی ۔۔
یوں اٹھے آہ اس گلی سے ہم ،، جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے

اگلے روز پان والے سے پان لے کر میں نئی امید کے ساتھ بارگاہ _ حسن میں پیش ہوگیا ۔۔ جتنے پیسے اور پان میں اسے کھلا چکا تھا اس کے بعد میرا اتنا تو حق بنتا تھا کہ کم از کم صرف ایک بار ہی اسے پکڑ کر جی بھر کے پیار کر لوں ۔۔ پتا نہیں چاندنی میرے اس خود ساختہ حق کو تسلیم کرتی یا نہیں
چاندنی بچے کو دودھ پلا رہی تھی چنانچہ میں بچے کے آگے سر تسلیم خم کیے بیٹھا رہا کہ کون اس ننھے شیطان سے پنگا لے ایسا گلا پھاڑ پھاڑ کے چیختا تھا وہ کہ آسمان اور زمین ایک ہو جائیں ،،
کسی ماں کا بچے کو دودھ پلانا ایک مقدس فریضہ ہے مگر سامنے والے کی نگاہیں جب بے غیرت ہو جائیں تو وہ بار بار جا کر اس فریضے سے ٹکراتی رہتی ہیں ،، اور ماشاء اللہ ہماری چاندنی کھلے دل کی مالک تھی ، کوئی کچھ بھی دیکھتا ہے تو دیکھتا رہے بھاڑ میں جائے ،، تنگ آکر ہم نے بھی اس کو اتنا دیکھا جتنا دیکھا جا سکتا تھا ، لیکن آخر دو آنکھوں سے کتنا دیکھا جا سکتا تھا
دریں اثنا باہر کا دروازہ دھڑ سے کھلا اور گنجا سرتاج اچانک ایک بار پھر حاظر ہوگیا ۔۔
ہاں بھئ کیا ہو رہا ہے ؟
مقدس فریضہ جلدی سے ڈھک گیا اور بے غیرت نگایوں نے بھی فوراً اللہ سے لو لگا لی

جاری ہے

صفحہ نمبر 3


پتا چلا کہ شوہر کتنا ہی گیا گزرا ہو اخر کو مجازی خدا ہوتا ہے ، ڈرنا چاہیے اس سے ،، سرتاج کا منہ لٹکا ہوا تھا ، چاندنی بھانپ گئی پوچھنے لگی کیا ہوا تم راشن لینے گئے تھے نا ؟
سرتاج کے بس آنسو نہیں نکلے باقی اس نے رونے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ،، کہنے لگا میری جیب کٹ گئی

جیب کٹ گئی ؟؟؟؟؟
چاندنی نے الفاظ ایسے دھرائے جیسے اس کا گلا کٹ گیا ہو
میرے منہ سے بھی خود بخود چیخ نکل گئی اور ساتھ میں یہ الفاظ بھی ، میں جانتا ہوں جیب کس نے کاٹی ہوگی ۔
کس نے ؟ چاندنی میرا منہ تکنے لگی
سرتاج جلدی سے بیچ میں آگیا ،، نہیں نہیں اس نے نہیں کاٹی ،، سچ میں کٹ گئی ۔سارے پیسے چلے گئے ،، پھر اس نے کٹی ہوئی جیب بھی ہمارے سامنے لہرادی ۔
مجھے سخت غصہ آیا ۔ میں نے کہا ،، بیٹا تو اور تیری بیوی اور تیرے گھر کا یہ سب سامان مجھے باہر گلی میں دکھ رہا ہے ۔کیونکہ کل اگر مالک مکان کو کرایہ نہیں ملا تو وہ چھوڑے گا نہیں ۔
چاندنی کا رنگ اڑ گیا ۔۔ آشیانہ چھن جانے کا خوف سب سے زیادہ صنف نازک کو ہی ڈراتا ہے ۔ آدمی تو فٹ پاتھ پہ بھی رہ لے گا ،، یہ کہاں جائے گی ۔
سرتاج جلدی سے جیب کترے کی تلاش میں نکل گیا ۔اور میں کچھ دیر بعد شم٘و کی تلاش میں جانے والا تھا کیونکہ قاتل اگر رقیب ہے تو تم گواہ ہو ۔
چاندی کے دل پر قیامت گزر گئی تھی ۔وہ صبح سے بھوکی تھی ، انتظار میں تھی کہ یہ سودا لے کر آئیں گے تو میں کچھ کھانے کو بنا لوں گی ۔
میں نے اسے دلاسا دیا ،، چاندنی تو فکر مت کر میں کچھ نہ کچھ کروں گا ۔
چاندنی کا گلا رندھ گیا کہنے لگی ،، مجھے کہیں کام پر لگوا دیں ، کسی کے گھر میں ماسی کا کام بھی کرلوں گی ۔اور تب اس کی آنکھیں بھی بھر آیئں اور تب ہی مجھے اس پر اتنا ترس آیا اتنا ترس آیا کہ صرف ہمدردی کی وجہ سے میں نے آگے بڑھ کر اس کو گلے سے لگا لیا ۔۔۔ اس وقت میرے ذہن میں کوئی بھی گندا خیال نہیں تھا ۔۔ چاندنی کے حالات ہی ایسے دکھ بھرے تھے ،، باپ نے پسند کی شادی پر اسے گھر سے نکال دیا تھا پھر جس کو اس نے پسند کیا تھا اس نے بھی ایک سال میں ہی اسے اپنے گھر سے نکال دیا ۔۔ اب جس سے شادی کی تھی وہ ایک نمبر کا کام چور اور آوارہ نکلا ۔۔
چائے کے ہوٹل پر دلشاد کو میں نے بتایا کہ آج چاندنی کس طرح روئی ہے ۔
دلشاد کا تو پہلے ہی اس معاشرے اور اس کی نا انصافیوں سے دل ٹوٹا ہوا تھا ، وہ کھڑے ہو کر سب کی ماں بھین ایک کرنے لگا ۔خوب گالیاں دیں اس نے مہنگائی کو بھی ، بے روزگاری کو بھی ، حکومت کو بھی اور فوج کو بھی ،، آخر کار چائے والے نے آکر اس کو ڈانٹا کہ یہاں سیاسی گالیاں دینا سخت منع ہیں تب وہ چپ ہوا ۔

جاری ہے

صفحہ نمبر 4

عام طور پر میں دلشاد کی شاعری اور اس کی گالیاں بڑے انہماک سے سنتا ہوں لیکن آج پتا نہیں کیا ہوا تھا کہ میرا دھیان کہیں اور تھا ۔۔ مسلسل کوئی بات تھی جو کھٹک رہی تھی ۔ کوئی بات تھی جو معمول سے ہٹ کر دل پر دستک دے رہی تھی ۔
رات میری کروٹوں کا عالم دیکھنے والا تھا ، اک شمع جو نوید سحر تھی خموش تھی ۔۔۔ ایک اور شعر جو دلشاد نے سنایا تھا ،،، وہ کیا تھا کہ اے شمع تجھ پہ رات یہ بھاری ہے جس طرح
ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح
میرا مسلہ یہ تھا کہ اس علاقے میں گھروں کے کرایے بھی میں ہی وصول کرتا تھا ۔۔ اگر چاندنی نے کرایہ نہ ادا کیا تو دوسری طرف مجھے گھر خالی کرانے کا حکم بھی ملا ہوا تھا ۔۔
میں کیسے اسے گھر سے بے گھر کر دوں ،، وہ جس طرح سے روئی تھی میرے سامنے میرے گلے سے لگ کر جیسے باپ کے گلے سے لگ کر بیٹیاں روتی ہیں ۔۔
ایکدم سے میں بستر پر اٹھ کر بیٹھ گیا ۔۔ مجھے میری آج رات کی بیقراری کا سبب معلوم ہو گیا تھا ، جو پھانس دل میں اٹکی ہوئی تھی سامنے آگئی تھی ۔ تو گویا چاندنی اپنے باپ کو بہت مس کرتی ہے ، دنیا میں اس کا ایک ہی واحد اور جینوئن سہارا تھا جو چھن گیا تھا ، باقی تو سب سہارے عارضی اور اپنے اپنے مفاد کے لیے تھے ۔
مجھے بھی تو چاندنی سے کوئی فائدہ ہی اٹھانا تھا مگر جب وہ رو رہی تھی تو ایک لمحے کے لیے مجھے بھی یہ لگا کہ وہ کوئی چھوٹی بچی ہے ۔
صبح ناشتہ کرنے کے بعد میں نے سب سے پہلے اپنے رات والے خیالات اٹھا کر گھر سے باہر پھینکے اور ٹھیلا لے کر نکل گیا ۔۔۔کونسا باپ اور کس کا باپ ۔۔ جذباتی لمحے تو انسانوں کی زندگی میں آتے ہی رہتے ہیں اور آکر چلے بھی جاتے ہیں ۔۔۔میں سب کے ساتھ اتنی ہمدردی کرنے لگا تو کسی سے بھی کرایہ وصول نہیں کر پاؤں گا ، الٹا اپنی کمائی دے کر آجاؤں گا ۔۔
دلشاد کو چائے پلاتے ہوئے میں نے کہا ، یار ہم نے نیکی اور بھلائی کا ٹھیکہ اٹھایا ہوا ہے کیا ،، ایک تو ہمارے اپنے پاس کچھ نہیں ہے اوپر سے دوسروں کا بھی خیال کرنا پڑتا ہے ،، ہٹاؤ بھئ اب کسی کے ساتھ نیکی نہیں کرنی ۔۔
دلشاد نے جیب سے ایک ہزار روپے نکال کر گنے اور فرط شوق سے ایک شعر بھی سنایا پھر کہا ،، آج میں چاندنی سے ملنے جا رہا ہوں

جاری ہے ۔
صفحہ نمبر 5

ہت تیرے کی ۔۔۔ میرے سینے پر سانپ لوٹ گئے ۔۔۔
یہ کمینہ ایک ہزار دے کر پتہ نہیں کتنے ہزار واپس لے گا ، خدشات سر اٹھا اٹھا کر پھنکارنے لگے، میں نے جلدی سے پوچھا،، تو کب جائے گا اس کے پاس ؟ کہنے لگا ابھی اور اسی وقت اور وہ اٹھ کر جانے بھی لگا پھر مڑ کر بولا ،،اجا تو بھی، دونوں ایک ساتھ چلتے ہیں۔
تب میں نے اطمینان کا گہرا سانس لیا حالانکہ میں جانتا تھا کہ دلشاد ایسا بندہ ہے بھی نہیں ۔ پھر بھی محبوب کے در پر جا کر کس کی کب لاٹری نکل ائے کیا پتا ،،
محبوب کے در پر پہنچے تو محبوب کی حالت غیر نظر ائی اس کا بچہ الٹیاں کر رہا تھا انکھیں اوپر کو چڑھ گئی تھیں،، جلدی سے رکشہ لاؤ اسے ہسپتال لے کر چلنا ہے ،،وہ چلائی ،،
دلشاد الٹے پیروں بھاگا ،میں نے چاندنی کو سنبھالنے اور اس کے انسو اس کے دوپٹے سے پونچھنے کی ناکام کوشش کی ۔۔
کچھ دیر بعد ہم ہسپتال میں تھے یہاں دلشاد کے ہزار روپے بہت کام آئے مگر بچے کی حالت خراب تھی اسے ایڈمٹ کرنا پڑ گیا
میں چاندنی کے شوہر کو بلانے شمو کے اڈے پر پہنچا جہاں دونوں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے نچ پنجابن والے گانے پر ڈانس کر رہے تھے

ابے کتے کے بچے ،، میں چلایا،،
تیرا بچہ مر رہا ہے اور تو گلچھرے اڑا رہا ہے یہاں ۔۔
دونوں مجھ سے پہلے ہسپتال پہنچ گئے پتہ چلا بچے کو ائی سی یو میں ڈال دیا گیا ہے اور اب بیس ہزار روپے فوری جمع کروانے ہیں۔۔
20 ہزار کا سن کر ہمارا وہ حال ہوا کے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں
کہاں سے اتے 20 ہزار ہمارے پاس تو 20 روپے نہیں تھے ۔۔ یہاں شمو رانی کے اندر کی انسانیت جاگ گئی ۔۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ اس نے کس سے کب کیا کام لینا ہے ۔۔وہ اپنے اڈے پر واہس گئی اور بیس ہزار لا کر ہماری جھولی میں ڈال دیے ۔۔ پھر دو دن بعد مزید چوبیس ہزار لے کر آئی ۔۔ آئی سی یو میں بچے کو رکھنے کے ایک دن کے 12 ہزار روپے لگ رہے تھے ۔۔اس کے بعد مزید پیسے مانگتے ہمیں شرم آئی ۔۔ یہ عطار کے لونڈے سے دوا لینے جیسا معاملہ لگ رہا تھا ۔۔
ہسپتال والوں نے تاڑ لیا کہ اب ان تلوں سے مزید تیل نہیں نکلے گا ۔۔تو بچے کو ڈسچارج کر کے ہمارے حوالے کر دیا ۔۔۔ کہا ،، فلاں خیراتی ہسپتال میں لے جائیں ۔۔ وہاں پہنچے تو کہا گیا یہاں جگہ خالی نہیں ہے آپ کہیں اور جائیں ۔۔
مجبورا ہم بچے کو لے کر گھر آگئے ۔۔ کچھ یہ وجہ بھی تھی کہ بچہ پہلے سے بہتر سانس لے رہا تھا ، ٹھیک ٹھاک ہی لگ رہا تھا ۔۔ چاندنی کے شوہر نے اسے بہت اطمینان دلایا کہ اب بچے کی حالت خطرے سے باہر ہے اس لیے تم زیادہ ٹینشن مت لو ۔۔۔ مگر ماں تو ماں ہوتی ہے ۔۔ پچھلے ایک ہفتے سے وہ سوئی بھی نہیں تھی ، اس کے بال بکھرے ہوئے اور خدوخال اجڑے ہوئے تھے وہ ایک ہفتے سے نہ کسی کی بیوی تھی نہ محبوبہ نہ کسی شاعر کی شاعری ،، بس ایک ماں تھی ۔۔
اے اللہ اسے اس کی خوبصورتی لوٹا دے اور اس کے بیٹے کو نئی زندگی دے ۔۔ میں دعائیں مانگتا ہوا اہنے گھر لوٹ آیا ۔
مگر افسوس اسی رات اس کا جگر گوشہ اللہ کو پیارا ہوگیا ۔۔
بہت کہتی رہی آندھی سے چڑیا
کہ پہلی بار بچے اڑ رہے ہیں
دلشاد نجانے کس شاعر کا کلام سنا رہا تھا ۔۔ اور میں سوچ رہا تھا کہ ابھی تو اس بچے نے پر بھی نہیں نکالے تھے ، پہلی اڑان تو بہت دور تھی۔۔
چاندنی کے رونے پیٹنے کا کیا ذکر کروں ،، چھوڑیں اسے بلکنے دیں ۔۔
ہمارے سامنے اب کفن دفن کے مسائل بھی تھے ۔۔اس کے لیے پیسے کہاں سے آتے ۔۔ پہلے ہی سب سے مانگ کر شرمندہ ہو چکے تھے ہم ۔۔ شاید اب کسی مخیر کے در پر جا کر جھکنا پڑے گا ،،اسے یقین دلانا پڑے گا کہ یہ لوگ اس کی خیرات کے صحیح حقدار ہیں جھوٹ نہیں بول رہے ۔۔
یہ سب سوچتے سوچتے اچانک مجھے ایک اچھوتا خیال آیا اور میں جلدی سے باہر نکل گیا ۔۔ سڑک پر آکر ایک رکشے والے کو ہاتھ دیا اور اسے ایک ایڈریس پر پہنچانے کا کہا ۔۔۔
میں حیران تھا کہ مجھے پہلے یہ خیال کیوں نہیں آیا ۔۔
ایک گھنٹے کی مسافت کے بعد جب میں ایک دروازے پر پہنچا تو انجانے خدشات کے تحت میرا دل دھک دھک کر رہا تھا ۔۔
دروازہ کھلا تو سامنے جو شخصیت نظر آئی اسے دیکھ کر مجھے فوراً ہی اندازہ ہوگیا کہ یہی چاندنی کے والد صاحب ہیں ۔۔
پھر مجھے نہیں یاد کہ میں نے انہیں کس کس طرح سے کیا کیا کہا ۔۔کیا کیا حالات بتائے چاندنی کے ۔۔۔ اس کے دکھوں کو کس کس طرح بیان کیا ۔کیسے انہیں قائل کیا کہ بچی سے ایک بار اگر غلطی ہو گئی تھی تو آپ اسے معاف نہیں کر سکتے تھے کیا ۔۔ آج بھی وہ آپ کو یاد کرتی ہے ،آج بھی وہ دل ہی دل میں آپ سے معافی مانگتی ہے ۔۔
جب میں اچھی طرح بول چکا تو میں نے دیکھا کہ باپ کتنا ہی سنگدل ہو آخر وہ باپ ہوتا ہے ۔۔ اس پتھر کو موم ہوتے زیادہ دیر نہیں لگتی ۔۔ انہوں نے فوراً اپنی کار نکالی اور ہم دونوں واپس چاندنی کے گھر کی طرف محو سفر ہو گئے ۔۔۔

ختم شد _____________

تحریر انور جمال انور
Post Reply

Return to “اردو افسانہ”