ڈی این اے (DNA)، قدرت کی صناعی کا شہکار جاسوس

طب کی دنیا میں ہونے والی پیش رفت
Post Reply
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

ڈی این اے (DNA)، قدرت کی صناعی کا شہکار جاسوس

Post by چاند بابو »

ڈی این اے (DNA) :: قدرت کی صناعی کا شہکار جاسوس

Image
یہ 21 نومبر 1983ء کا ایک سرد ترین دن کی دوپہر تھی جب برطانیہ کی ریاست لیسسٹر شائر (Leicestershire) کے گاؤں نربوروغ (Narborough) سے تعلق رکھنے والی 15 سالہ لینڈا مان (Lynda Mann) نزدیکی بستی میں موجود اپنی سہیلی سے ملنے گھر سے نکلی لیکن اس دوپہر کے بعد لینڈا پھر کبھی لوٹ کر گھر واپس نہ آئی شام تک اس کے واپس نہ آنے سے اس کے والدین پریشان ہوئے اور اس کی سہیلی کے گھر اسے لینے پہنچ گئے لیکن وہاں ان پر یہ انکشاف ہوا کہ وہ اپنی سہیلی کے گھر پہنچی ہی نہیں تھی۔ ابھی اس کی گمشدگی کو صرف چوبیس گھنٹے ہی گزرے تھے کہ اس کے والدین کو وہ دل دہلا دینے والی خبر ملی جسکا اس کے والدین تو کیا، دنیا کے کوئی بھی ماں باپ کبھی تصور تک نہیں کرسکتے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے انہیں بلیک پیڈ نامی علاقے سے ملنے والی لاش کی پہچان کرنے کے لیے بلایا۔ تفتیش کاروں کا ایک بچی کی لاش ملی تھی جسے ریپ کے بعد بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پھر گلا گھونٹ کر جان سے مار دیا گیا تھا۔ لاش دیکھنے پر اس بدقسمت خاندان پر قیامت ٹوٹ پڑی کیونکہ بد قسمتی سے یہ لینڈا مین کی لاش ہی تھی۔ لاش شناخت ہوجانے کے بعد لینڈا کے جسم سے ملنے والے خون کے نشانات کو اکھٹا کر کے محفوظ کر لیا گیا اور اس وقت تک دریافت ہونے والی جدید طبی تحقیق سے خون کے خلیوں کی جانج پڑتال کی گئی لیکن ناکافی تحقیق کی وجہ سے لینڈا کے ساتھ ہونے والی زیادتی اور اس کے بعد اس کے قتل اور اسے قتل کرنے والے سفاک قاتل کے صرف دس فی صد نتائج ہی حاصل ہو پائے جسکی بنیاد پر کوئی بھی نتیجہ اخذ کرنا یا کسی شخص کو قاتل قرار دینا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوتا ہے۔ ٹھوس شواہد اور گواہ نہ ہونے کے سبب معصوم بچی کو انصاف ملنے سے قبل ہی اس کے کیس کی فائل بند کردی گئی اور لینڈا مان کا کیس سرد خانے کی نذر ہوگیا۔

ابھی لینڈا مان کے قتل کو صرف تین سال ہی گزرے تھے کہ 31 جولائی 1986 کو اسی علااقے میں بالکل اسی طرز سے ریپ اور قتل کا ایک اور واقعہ رونما ہوا جس میں ڈان ایشورتھ (Dawn Ashworth) نامی بچی سکول سے واپسی پر اپنی سہیلی کے گھر جاتے ہوئے غائب ہو گئی اور جلد ہی اس کی لاش بھی اس علاقے کے نزدیکی مقام سے تقریبا اسی حالت میں ملی جس میں لینڈا کی ملی تھی۔ اس قتل کے بعد علاقہ مکینوں میں خوف و ہراس کی فضا قائم ہوگئی۔ لوگوں نے اپنی بچیوں کو گھروں کے اندر تک محدود کر دیا اور انہیں سختی سے ہدایت کی کہ کسی بھی صورت اکیلی گھر سے باہر قدم نہ نکالیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر دباؤ ڈالا جانے لگا کہ ان دونوں بچیوں کو قتل کرنے والوں کو جلد از جلد گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ اس علاقے کے لوگوں کے سروں سے خوف کی یہ کالی گھٹا چھٹ سکے اور لوگ پہلے کی طرح بے خوف و خطر آزادانہ فضا میں سکون کا سانس لے سکیں۔ قتل کے یہ دونوں کیس آپس میں گہری مماثلت رکھنے کے باوجود ابھی تک سوالیہ نشان بنے ہوئے تھے اور تفتیش کاروں کو ابھی تک کوئی ایسا ثبوت نہیں مل سکا تھا جس سے وہ کسی ایک شخص پر فرد جرم عائد کر سکتے، اداروں نے ایک بار پھر باقاعدہ نئے سرے سے اس قتل کے کیسوں کی تفتیش کا آغاز کیا اور شواہد کی بناء پر بہت جلد وہ اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ ممکنہ طور پر دونوں بچیوں کے قتلوں میں ایک ہی شخص ملوث ہوسکتا ہے۔ دونوں قتل کے کیسز میں مماثلت ہونے کی بناء پرپولیس نے نتیجہ اخذ کیا کہ دونوں وارداتوں میں ممکنہ طور پر ایک ہی شخص ملوث ہوسکتا ہے۔ اس ممکنہ قاتل کے حوالے سے اندازہ لگایا گیا کہ یہ کوئی سیریل کلر ہے جو اس علاقے میں چھوٹی بچیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتا ہے اور قتل کر دیتا ہے۔ دونوں قتل کیسز کے جائے وقوعہ میں صرف چند کلومیٹر کا فاصلہ ہی تھا اس کے علاوہ ڈان کے جسم سے ملنے والے شواہد کو لینڈا کی نعش کے پاس سے ملنے والے شواہد سے ملایا گیا تو دونوں میں بڑی حد تک مماثلت ملی جس سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اس اندازے کو تقویت ملی کہ دونوں بچیوں کا قاتل ایک ہی شخص ہے۔

جامع قسم کی تفتیش کے بعد پولیس نے نربوروغ سے تعلق رکھنے والے ایک سترہ سالہ نوجوان ریچرڈ بکلینڈ (Richard Buckland) کو گرفتار کیا جو ذہنی طور پر بیمار تھا اور اسے پڑھائی میں بھی دشواری کا سامنا رہتا تھا۔ لیکن وہ نہ صرف ڈان کو اچھی طرح جانتا تھا بلکہ اس کے پاس اس کیس کے حوالے سے ایسی معلومات بھی تھیں جو تفتیشی ذرائع نے ابھی تک عام نہیں کی تھیں۔ دوسری طرف ریچرڈ نے دوران تفتیش اعتراف جرم کیا کہ اسی نے ڈان ایشورتھ کا قتل کیا ہے ریچرڈ کے اس اعتراف جرم کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ نے اس کا داخلہ منسوخ کر دیا۔ 10 اگست 1986ء کو اس پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے گرفتار کر کے اسی روز اسے عدالت میں پیش کر دیا گیا جہاں اس نے لینڈا مین کے قتل سے انکار کرتے ہوئے اسے جاننے پہچانے سے بھی انکار کر دیا، جبکہ ڈان ایشورتھ نامی بچی کے قتل کا اعتراف کرتے ہوئے عدالت کو بیان دیا کہ اسے اس کا قتل کر کے کوئی شرمندگی یا افسوس نہیں ہے۔ لیکن چونکہ پولیس کو یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ دونوں بچیوں کا قاتل ایک ہی شخص ہے ایسے میں قاتل کا ایک قتل کا اعتراف اور دوسرے سے انکار نے پولیس اہلکاروں کو عجیب کش مکش میں ڈال دیا ان کے اندازے کہ مطابق یہ تو ریچرڈ جھوٹ بول رہا ہے کہ اس نے ایک قتل کیا ہے یا پھر دونوں قتل اسی نے کیے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوا کہ آخر مجرم جھوٹ کیوں بول رہا ہے اگر اس نے قتل نہیں کیے تو الزام اپنے سر کیوں لیے رہا ہے یہ تو وہ اصل مجرم کو بچانے کی کوشش میں ہے اور یا پھر یہ دونوں قتل اسی نے کیے ہیں۔

پولیس ان کیسوں کی تفتیش میں مصروف کار تھی کہ اسی دوران 10 ستمبر 1984 کو برطانیہ کے ماہر جینیات پروفیسر ڈاکٹر علیک جیفریز (Alec Jeffreys)نے یونیورسٹی آف لیسسٹر (University of Leicester) میں دورانِ تجربہ دریافت کیا کہ کس طرح مختلف بیماریاں وراثتی طور منتقل ہوتی ہیں۔ انہوں نے انسانی خلیوں سے ڈی این اے (DNA) کو علیحدہ کرکے انہیں فوٹوگرافک فلم سے منسلک کیا جس سے ان کی خاص ترتیب (Genetic Code) کا عکس حاصل ہوگیا۔ اس کے مشاہدے سے انہیں فوراً ہی معلوم ہوا گیا کہ جن افراد کے خلیے تجربے کے لیے حاصل کیے گئے تھے ان تمام خلیوں کے ڈٰی این اے کی ترتیب (Genetic Code) ایک دوسرے سے مختلف تھی، ساتھ ہی ساتھ انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ جس طرح ایک سے زیادہ انسانوں کی انگلیوں کے پرنٹس ایک دوسرے سے ہمیشہ مختلف ہوتے ہیں اور کوئی افراد کی انگلیوں کے نشانات ایک جیسے نہیں ہوسکتے اسی طرح ہر انسان کا ڈی این اے بھی مختلف ہوتا ہے جو کبھی بھی ایک دوسرے سے میل نہیں کھا سکتا۔ علیک جیفریز کے مطابق اس ٹیکنالوجی کو خونی رشتہ داروں کا تعین کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے اس حوالے سے انہوں نے 1986ء میں ایک تحقیقی مقالہ شائع کیا جس کے بعد انہوں نے کئی ایسے مختلف کیسز پر کام کیا جن میں کئی بچوں کو برطانیوی شہریت دینے سے صرف اس لیے انکار کر دیا گیا تھا کہ ان کے والدین کا تعلق برطانیہ سے نہیں تھا، صرف یہی نہیں بلکہ علیک جیفریز نے انکشاف کیا کہ ان کی یہ تحقیق مختلف جرائم میں ملوث مجرموں کی شناخت میں بھی ممدود و معاون ثابت ہوسکتی ہے۔

شروعات میں علیک کی باتوں پر یقین کرنا کچھ مشکل تھا لیکن ریچرڈ بکلینڈ (Richard Buckland) کا کیس سامنے آنے کے بعد پولیس اور دیگر تفتیشی اداروں نے اس کش مکش سے نکلنے کے لیے علیک جیفریز سے رابطہ قائم کیا اور اس کیس میں عیلک سے مدد کی درخواست کی جس پر عیلک فوراً راضی ہوگئے اور انہوں نے دونوں لڑکیوں کی لاشوں سے ملنے والے شواہد اور ریچرڈ کے خون کے خلیوں کے نمونوں کا اپنی لیب میں مکمل جائزہ لیا اور انکشاف کیا کہ دونوں لڑکیوں کا قاتل ایک ہی شخص ہے جس نے زیادتی کرنے کے بعد گلا گھونٹ کر انہیں جان سے مار دیا۔ لیکن ساتھ ہی انہوں نے انکشاف کیا کہ ریچرڈ بکلینڈ (Richard Buckland) وہ شخص ہر گز نہیں ہے جس نے یہ قتل کیئے ہیں اور وہ اس کیس میں بالکل بے گناہ ہے اور نہ ہی وہ جائے وقوعہ پر موجود تھا۔ علیک کے اس انکشاف نے سب کو چکرا کے رکھ دیا سب حیران تھے کہ کوئی شخص کیوں بلاوجہ قتل کسی کا الزام اپنے سر لے گا اس لیے انہوں نے علیک کی رپورٹ کو رد کرکے دوبارہ ٹیسٹ کرنے کا مطالبہ کیا، تین بار ٹیسٹ دہرانے کے بعد ہر بار ولی نتیجہ وہی نکلا تو ریچرڈ (Richard Buckland) کو بے قصور قرار دے کر رہا کر دیا گیا۔ یہاں دلچسپ صورتحال سامنے آئی کہ چوں کہ وہ اس دوران تین ماہ جیل میں قید تھا اور اس کے اس کیس میں ملوث ہونے کی بناء پر یونیورسٹی سے اس کا داخلہ منسوخ ہو گیا تھا اور یہی ریچرڈ بکلینڈ (Richard Buckland) کا مقصد تھا جس کے سبب وہ قتل کا الزام اپنے سر لینے کے لیے تیار ہوگیا تھا۔
ایک بار پھر نئے سرے سے پولیس اہلکاران اصل قاتل کی تلاش میں مصروف ہو گئے۔ ڈی این اے کی تیکنیک استعمال کرتے ہوئے ہی پولیس نے اس کیس کو حل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ اس میں کافی وقت در کار تھا، انہوں نے نربوروغ (Narborough) اور نواحی علاقوں کے تمام ایسے افراد جو 1953 سے 1970 کے درمیان پیدا ہوئے اور اس علاقے کے رہائشی تھے یا کام اور ملازمت کی غرض سے اس علاقے میں مقیم رہے کے خون کے نمونے لے کر ٹیسٹ کروانے کا فیصلہ کیا ایسے تمام افراد کو بذریعہ خط رضاکارانہ طور پر طلب کیا گیا۔ اس کام کے لیے انہوں نے دو سینٹر قائم کیے ایک مقامی اسکول میں اور ایک کونسل آفس میں جہاں ہفتے میں تین دن صبح اور شام کے اوقات میں خون کے نمونے حاصل کیے گئے۔
شروعات میں بعض افراد نے خون کے نمونے دینے سے انکار کیا لیکن پھر وہ کیس کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے راضی ہو گئے اس طرح تقریبا ایک سال بعد اگست 1987ء میں پولیس اصل قاتل کولین پیچرفورک (Colin Pitchfork) اور اس کے ساتھی تک پہنچ گئی، جس کی مدد سے وہ خون کا نمونہ دینے سے بچنے کی کوشش کر رہا تھا۔ بعد میں پولیس کے سامنے کولین پیچرفورک (Colin Pitchfork) نے اقبالِ جرم کرلیا کہ اسی نے دونوں معصوم لڑکیوں کو زیادتی کے بعد جان سے مار دیا تھا۔ جب کولین (Colin Pitchfork) کو عدالت میں پیش کیا گیا تو اس نے اعتراف جرم کر لیا جہاں سے اسے عمر قید کی سزا سنائی گئی اس وقت کے برطانوی قانون کے مطابق عمر قید کی مدت تیس برس تھی جو 13 نومبر 2017 کو پوری ہو گئی اور یوں کولین (Colin Pitchfork) کو سزا مکمل ہونے پر جیل سے رہا کر دیا گیا۔
Image
دوستو یہ ڈی این اے (DNA) کی دریافت اور اس کے شروعات ٹیسٹ کی کہانی تھی جس نے انسانی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا اور دنیا کی توجہ ڈی این اے (DNA) کی طرف مبذول ہوئی ایک طرف تو یہ واقعہ پہلے ڈی این اے (DNA) ٹیسٹ کی وجہ سے مجرم کی شناخت کی وجہ سے بہت مشہور ہوا اور دوسرا دنیا میں بڑے پیمانے پر خون کے نمونے کسی ایک جرم کی شناخت کے لئے بھی پہلی بار لیئے گئے تھے۔ پھر تھوڑے عرصے میں ہی دنیا ڈی این اے (DNA) کے بارے میں بہت کچھ جان گئی اور آج اگر یہ کہا جانے کے ڈی این اے (DNA)، قدرت کی صناعی کا شہکار جاسوس ہے تو وہ بے جا نہ ہو گا۔

ڈی این اے (DNA) کیا ہے؟
Image
DNA دراصل Deoxyribonucleic acid کا مخفف ہے اور اس کے نام کے اجزا کے معنی اور ان کے اردو متبادل یوں ہیں
De = کم ہوجانا، نکل جانا
oxy = آکسیجن
ribo = رائبوز (ایک قسم کی شکر کا نام)
nucleic = مرکزہ (خلیہ کا)
acid = ترشہ (تیزابی خاصیت رکھنے والا)
گویا اردو میں DNA کا مکمل نام فقید آکسیجن رائبو مرکزی ترشہ ہے۔ یہاں ڈی آکسی رائبو سے مراد ایک آکسیجن جوہر کم رکھنے والا رائبوز ہے جبکہ نیوکلئس سے مراد خلیہ کا مرکزہ ہے اور ایسڈ ترشہ کو کہتے ہیں گویا اردو میں DNA کی وضاحت یوں کی جاسکتی ہے کہ — ایک آکسیجن جوہر کم رکھنے والا مرکزی ترشہ۔ رائبوز کا لفظ دراصل گوند عربی (Gum Arabic) سے حاصل ہونے والی ایک شکر عریبینوز (arabinose) سے ماخوذ ہے، گوند عربی جنوبی صحرائے اعظم (sub-sahara) میں پائے جانے والے پودے اکیشیا (acacia) سے حاصل ہوتا ہے ۔

ڈی این اے یعنی ڈی آکسی رائبو نیوکلیک ایسڈ (Deoxyribonucleic acid) انسانوں سمیت تمام جانداروں میں پایا جانے والا وراثتی مادہ ہے اس پیچیدہ میڈیکل ٹرم کو ہم آسان الفاظ میں یوں کہ سکتے ہیں کہ انسانی جسم کی بنیادی اکائی سیل (Cell) یعنی خلیہ ہوتی ہے یہ لاتعداد خلیات کا مجموعہ ہے۔ جسم کا ہر ایک خلیہ ایک مالیکیول پر مشتمل ہوتا ہے ان مالیکیولز کے درمیان میں نیوکلئیس (Nucleus) یعنی مرکزہ پایا جاتا ہے، اور اس مرکزے یا نیوکلئس (Nucleus) کے اندر ڈی این اے ہوتا ہے۔ قدرت کا کرشمہ ہے کہ اس دنیا میں کسی ایک جسم کے تمام خلیوں میں ایک جیسا ہی ڈی این اے پایا جاتا ہے۔ مگر جڑواں بچوں کے علاوہ اس دنیا میں ہر انسان کا ڈی این اے دوسرے سے بالکل مختلف ہے۔ ہر انسان اپنے ڈی این اے کا 50 فی صد حصہ اپنی ماں اور 50 فی صد اپنے باپ سے حاصل کرتا ہے۔ ان دونوں کے ڈی این اے کے مخصوص مرکب سے انسان کا اپنا ڈی این اے بنتا ہے جو اس انسان کا اپنا مخصوص جینیاتی کوڈ (Genetic Code) ہے۔ اس جنیاتی کوڈ (Genetic Code) سے انسان کے بارے میں تمام معلومات حاصل ہوتی ہیں مثلاً اس کی جنس، بالوں کا رنگ، ،آنکھوں کی ساخت، سونے کے اوقات، عمر اور جسمانی ساخت وغیرہ اس کے علاوہ اسے کون کون سی بیماریاں لاحق ہیں یہ بھی اس کے ڈی این اے سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں اسے کون کون سی بیماریاں اپنی وراثت میں حاصل ہو سکتی ہیں۔ڈی این اے کا سیمپل جاندار کے خون ،تھوک ،سیمن، بال اور یہاں تک کہ کسی انسان کے ٹوتھ برش سے لیا جا سکتا ہے جسے وہ استعمال کرتا رہا ہو یہی وجہ ہے کہ کسی بھی ناگہانی آفت ،حادثے یا دہشتگردی کی صورت میں لاشوں کو ڈی این اے کی مدد سے شناخت کیا جاتا ہے، حال ہی میں‌پاکستان کے ایک ہسپتال میں آگ لگنے سے فوت ہوجانے والے بچوں کی جب آگ کی وہ سے شناخت ناممکن ہو گئی تو اسی ڈی این اے ٹیسٹ کی بدولت ہی ان کے والدین کی پہچان کی گئی، اس کے علاوہ مشہور مذہبی شخصیت جنید جمشید کے طیارہ حادثے میں پہچان کے لئے بھی ڈی این اے ٹیسٹ کا سہارا لیا گیا۔

چونکہ ڈی این اے ایک تقابلی شناختی نظام ہے اس لئے دنیا بھر میں ڈی این اے سیمپل کا ڈیٹا محفوظ رکھا جاتا ہے تاکہ کسی بھی واردات کی صورت میں مشکوک افراد کو گرفتار کئے بغیر ہی یہ سراغ لگا لیا جائے کہ اس میں کون ملوث ہے برطانیہ میں پانچ ملین افراد کے ڈی این اے پروفائلز لیبارٹریو ں میں محفوظ کئے گئے ہیں۔ ڈی این اے نے کریمنالوجی اور فرانزک سائنس کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا ہے اور ڈی این اے کو عدالتوں میں بطور شہادت تسلیم کئے جانے کے بعد نہ صرف مدتوں سے زیرِ التوا مقدمات حل ہو رہے ہیں بلکہ کئی ایسے بے گناہ لوگ بھی جیلوں سے رہا ہو رہے ہیں جنہیں غلط تفتیش اور جھوٹے گواہوں کی مدد سے سزا دیدی گئی مگر اب ڈی این اے کی مدد سے اصل مجرم پکڑے گئے اسی طرح سانحہ قصور کا مجرم عمران علی نقشبندی جس نے زینب اور سات دیگر معصوم بچیوں کو اپنی ہوس کی بھینٹ چڑھا دیا اسے بھی ڈی این اے کی مدد سے ہی گرفتار کیا گیا ہے

ڈی این اے کے جنیاتی کوڈ (Genetic Code) کیا ہیں؟

کیا کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ ہماری شکلیں، عادات حتی کہ انداز و اطوار اپنے والدین سے اتنے ملتے جلتے کیوں ہیں، کیوں ہمارا قد ہمارے والدین کے قد پر ہی جاتا ہے، کیوں اگر ہمارے خاندان میں کوئی موروثی بیماریاں پائی جاتی ہیں تو وہ ہمارے جسم میں کیسے منتقل ہو جاتی ہیں کیوں ہمارے بالوں کا رنگ سنہرا یا کالا ہے یا پھر اگر ہمارے والد اور ان کے والد کے سر کے بال وقت سے پہلے جھڑ گئے تھے تو ہمارے بال بھی کیوں جھڑنا شروع ہو گئے ہیں؟ جی بالکل اس کی بنیادی وجہ یہی جنیاتی کوڈ (Genetic Code) ہے جو ہر انسان کے ڈی این اے میں موجود ہوتا ہے اور انسان اسے اپنے آباؤ اجداد سے حاصل کرتا چلا آ رہا ہے۔
ڈی این اے کا جنیاتی کوڈ دراصل خلیے کی پراسرار مملکت کا ڈکٹیٹر ہے۔ یہ سخت گیر منتظم تمام خلیوں کو اپنے حکم پر چلاتا ہے۔ ڈی این اے ہی خلیے کے تمام نظاموں کو ہدایت دیتا ہے کہ کسے کیا کرنا ہے۔ کیا بننا ہے۔ اس کے لیے کیا کہاں سے اور کس قدر حاصل کرنا ہے۔ ڈی این اے کو آپ ایک آرکیٹیکٹ سے تشبیہ دے سکتے ہیں جس کا کام عمارت کی تعمیر سے پہلے اس کا نقشہ یا بلو پرنٹ تیار کرنا ہوتا ہے۔ یہ نقشہ بعد میں ٹھیکیدار کو دے دیا جاتا ہے جو عمارت تعمیر کرتا ہے۔ لیکن آرکیٹیکٹ عمارت تعمیر ہونے تک کام کی نگرانی کرتا رہتا ہے۔
وہ خلیہ جس کے ذریعے ایک نئے انسان کی تخلیق کا آغاز ہوتا ہے‘ ماں اور باپ کے تیئس تیئس کروموسومز سے وجود میں آتا ہے اور وجود میں آتے ہی اپنی جیسی کاپیاں بنانا شروع کردیتا ہے۔ ایک سے دو‘ دو سے چار‘ چار سے آٹھ‘ سولہ‘ بتیس اسی طرح نو ماہ یا اس سے کم عرصے میں ایک مکمل انسان وجود میں آجاتا ہے۔ یہ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو کم و بیش پچاس ٹریلین (50,000000000000000000)خلیوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ ان خلیوں کی تیزی سے کاپیاں تیار کرنے کی پراسرار صلاحیت تو اپنی جگہ لیکن خلیے کے اندر قدرت کا سب سے بڑا معجزہ دراصل اس کا ڈی این اےہے۔ ماں اور باپ کے کروموسومز سے جو خلیہ وجود میں آتا ہے اس میں ڈی این اے ایک دوسرے سے لپٹی ہوئی دو ڈوریوں کی مانند ہوتا ہے۔ بچے کے مستقبل کے لامحدود امکانات‘ ناقابل شمار اطلاعات‘ معلومات اور پروگرام اسی ڈی این اے میں اسٹور ہوتے ہیں۔ اسی کی مدد سے ایک ننھا سا خلیہ اپنے اندر معلومات کا ایک سمندر چھپائے ہوتا ہے۔ ڈی این اے پر موجود معلومات کو اگر لفظوں کی شکل دے کر لکھا جائے تو کتابوں کی بہت بڑی لائبریری وجود میں آسکتی ہے۔ بچے کے جسم کی تعمیر اورتاحیات اسے قابل استعمال رکھنے کے لیے جس نقشے کی ضرورت ہوتی ہے وہ نقشہ یا بلو پرنٹ ڈی این اے کی شکل میں ہر خلیے میں موجود ہوتا ہے۔ اعضاءکی تیاری‘ بناوٹ‘ تعمیر‘ تنصیب‘ کارکردگی‘ سروس کوالٹی یہ سب تفصیلات پہلے ہی سے ہر خلیے کے DNAمیں کوڈز کی شکل میں موجود ہوتی ہیں۔
مثلاً جسم کا سب سے اہم اور مرکزی کیمیکل پلانٹ‘ جگر کس طرح تعمیر ہوگا‘ کب مکمل ہوگا اور کب کام شروع کرے گا‘ اس کی تعمیر کے لیے کس قسم کا خام مال درکار ہوگا‘ یہ مال کہاں سے کس طرح درآمد کیا جائے گا‘ یا یہ کہ بچے کے بالوں اور آنکھوں کا رنگ کیسا ہوگا‘ کون سے عضو کی تعمیر کا کام کب اور کس مقام پر روک دیا جائے گا۔ بڑے ہونے کے بعد انسان کا مزاج کیسا ہوگا‘ کون سی بیماریاں اسے پریشان کریں گی یا یہ کہ بچے میں ماں باپ‘ دادا‘ دادی اور نانا نانی کی کون کون سی خصوصیات موجود ہوں گی وغیرہ وغیرہ۔
حیران کن بات یہ ہے کہ ایک جیسا ننھا سا خلیہ جو مائیکرو اسکوپ کے بغیر نظر تک نہیں آتا اتنی عظیم قوت اور صلاحیت رکھتا ہے کہ ایک خلیہ انسان کی تعمیر کرتا ہے‘ دوسرا خرگوش کی اور تیسرا وھیل مچھلی کی! (دودھ پلانے والے تمام حیوانوں کے خلیے ایک سے ہوتے ہیں) یہ محیر العقول معجزہ دراصل DNAکا مرہون منت ہوتا ہے۔ خلیے میں ٹھیکیدار کا کردار RNAیعنی Ribo Nuclic Acidانجام دیتا ہے۔ تعمیر کے بارے میں تمام تفصیلات DNAمیں ڈوریوں کی شکل میں موجود ہوتی ہے۔ RNAانہیں اچھی طرح سمجھتا ہے اور DNAکی زیر نگرانی نقشے کے مطابق تعمیر کا ابتدائی کام شروع کردیتا ہے۔ مثلاً سب سے پہلے وہ ایک پروٹین کی تیاری شروع کرتا ہے اس مقصد کے لیے اسے امائنو ایسڈ کے مختلف اجزاءکو جمع کرنا ہوتا ہے۔ RNAان اجزاءکو موتیوں کی طرح پرونا شروع کردیتا ہے۔ اس طرح جو چیز وجود میں آئے گی‘ ممکن ہے وہ انسان کے دل کا پٹھا (Muscle)ہو یا ممکن ہے اس سے ٹانگوں کو سکیڑنے اور پھیلانے والا پٹھا بن جائے لیکن اسے وہی چیز بننا ہوتا ہے جس کے بارے میں DNAنے اسے ہدایت دی ہوں۔
دلچسپ یہ ہے کہ آپ کی آنکھ کے ستائیس کروڑ چالیس لاکھ خلیوں میں سے ہر خلیے میں موجود DNA وہ تمام تکنیکی معلومات اور صلاحیتیں رکھتا ہے جن کے ذریعے ایک مکمل انسانی بچہ دنیا میں آتا ہے۔ اسی طرح کان کے خلیوں میں یہ صلاحیت بھی موجود ہوتی ہے کہ وہ کان کی بجائے وہاں پیر تعمیر کردیں لیکن خلیے کبھی ایسا نہیں کرتے اس لیے کہ خلیے صرف وہی کرسکتے ہیں جس کا انہیں اوپر سے حکم ملتا ہے۔ یہ سب خلیے ہر فن مولا ہیں لیکن قدرت ان کی اضافی صلاحیتیوں کو بلاک یعنی معطل کردیتی ہے۔ خلیے اپنی طرح کی کروڑوں کاپیاں تیار کرسکتے ہیں اور بس۔
حدِ بصارت سے بھی بالاتر ایک خلیے میں ڈی این اے بلاشبہ اللہ کے عظیم معجزات میں سے ایک زندہ معجزہ ہے۔ ڈی این اے کے ایک دوسرے پر لپٹے ہوئے ان نادیدہ دھاگوں کو اگر تخلیق کا بلوپرنٹ یا نقشہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ تخلیق کا یہ بلو پرنٹ آج سے ساٹھ ستر سال پہلے تک بھی انسانوں کے لیے غیب کا درجہ رکھتا تھا اور آج بھی عام انسانوں کو نظر نہیں آتا لیکن ہم اور ہمارے اردگرد موجود تمام ذی حیات تخلیق کے اسی بلو پرنٹ کے سبب عالم وجود میں آئے ہیں۔

ڈی این اے ٹیسٹ (DNA Test) کیا کیسے جاتا ہے؟

جس شخص کا ڈی این اے ٹیسٹ کرنا ہو، اس کا نمونہ اس کے بال، خون، ہڈی، تھوک، گوشت یا ایسی ہی کسی چیز سے لیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے اس نمونے سے انسانی خلیے (Human Cell) میں سے ڈی این اے الگ کیا جاتا ہے اور پھر پولیمیریز چین ری ایکشن نامی طریقے کی مدد سے اس ڈی این اے کی لاکھوں کاپیاں بنا لی جاتی ہیں۔ جن کی مدد سے ڈی این اے کی جانچ بہتر طریقے سے ہو سکتی ہے۔ جب کسی شخص کا ڈی این اے کیا جاتا ہے تو 15مختلف پہلوئوں سے جائزہ لینے کے بعد اتنے ہی نمبرز کا ایک بار کوڈ مرتب کیا جاتا ہے۔ جس طرح ہمارے موبائل فون نمبرمیں سات اعداد ہوتے ہیں، ممکن ہے ان میں سے کوئی چھ اعداد ایک دوسرے سے ملتے ہوں مگر ساتوں اعداد ایک جیسے نہیں ہو سکتے اسی طرح ہرشخص کا ڈی این اے مختلف ہوتا ہے۔ ڈی این اے کو جانچنے کے بعد ڈی این اے فنگر پرنٹ بنایا جاتا ہے۔ دو مختلف نمونوں کے ڈی این اے فنگر پرنٹ میں مماثلت دیکھ کر ان میں کسی تعلق کا تعین کیا جا سکتا ہے۔

حادثات کی صورت میں جب لاش کی شناخت بالکل نا ممکن ہو تب ڈی این کے ذریعے ہی شناخت کی جاتی ہے۔ ڈی این اے ٹیسٹ کی مدد سے جانچا جاتا ہے کہ اس لاش کا ڈی این اے کس خاندان سے مل رہا ہے۔ ڈی این اے میں موجود جینیٹک کوڈ کے تقابلی جانچ سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ دو مختلف اشخاص میں کوئی خونی رشتہ ہے کہ نہیں، اسی لیے جھلسی ہوئی یا ناقابل شناخت لاشوں کے ڈی این اے نمونے لے کر دعویٰ دار، لواحقین کے نمونوں سے ملائے جاتے ہیں۔ اگر جینیٹک کوڈ ایک جیسے ہوں تو خونی رشتہ ثابت ہو جاتا ہے اور لاش لواحقین کے حوالے کر دی جاتی ہے۔ ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد ابہام کی بالکل گنجائش نہیں ہوتی۔ پاکستان میں فرانزک لیب، فرانزک سائنس دان اور ماہر عملے کی کمی کے باعث اس ٹیسٹ کو انجام دینے میں کافی مشکلات کا سامنا رہتا ہے اور اس کو مکمل ہونے میں ہفتہ بھی لگ جاتا ہے۔

ڈی این اے ٹیسٹ (DNA Test) کن وجوہات پا کیا جاتا ہے؟

عام طور پر ڈی این اے ٹیسٹ کے درج ذیل مقاصد کے حصول کے لئے کیا جاتا ہے۔

٭…ولدیت ثابت کرنے کے لیے

اگر یہ جاننا ہو کہ کسی انسان کے حقیقی والدین کون ہیں تو اس شخص کی ولدیت کا دعویٰ کرنے والوں کے ساتھ ڈی این اے میچ کر کے دیکھا جاتا ہے۔ اگر دونوں کے ڈی این اے میں مماثلت ہو تو ولدیت کا دعویٰ درست قرار پاتا ہے۔

٭… مجرم کی شناخت کے لیے

ڈی این اے کی مدد سے مجرم کی شناخت بھی آسانی سے کی جا سکتی ہے۔ اگر جائے وقوع سے مجرم کا بائیولوجیکل نمونہ ملے جائے تو اس کا ڈی این اے حاصل کر کے مکمل رپورٹ مرتب کی جاتی ہے۔ بعدازاں اس رپورٹ کو کیس میں نامزد ملزمان کے ڈی این اے سے میچ کرکے مجرم کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔

٭… جین تھیراپی

اگر کسی خاندان میں کوئی مخصوص بیماری ہو تو وہ اپنے بچوں کی پیدائش سے پہلے ڈی این اے ٹیسٹ کی مدد سے جان سکتے ہیں کہ ان کے بچے میں بھی یہ بیماری منتقل ہوسکتی ہے یا نہیں۔

٭… جینیٹک جینیالوجی

اگر کوئی اپنے آبائو اجداد کے متعلق معلومات حاصل کرنا چاہے تو وہ بھی ڈی این ٹیسٹ کے ذریعے ممکن ہے۔

ماضی جاننے کے لئے ڈی این اے تیکنیک کا استعمال

مشہور لکھاری وہارا امباکر کی ایک تحریر کے مطابل ہماری موجودہ شناخت اور مکمل ماضی ہمارے جس میں ہی کے خلیہ میں ہی موجود ہے جسے ڈی این اے کہا جاتا ہے۔ البتہ ہمارا ڈی این اے ایک نازک چیز ہےجو خراب ہوتا رہتا ہے جس کی بڑی وجہ پانی ہے۔ البتہ جب تک ہم زندہ ہیں ہمارا جسم اس کی مرمت خودبخود کرتا رہتا ہے لیکن کسی بھی جاندار کے مرنے کے بعد مرمت کا یہ خوکار عمل ختم ہو جاتا ہے۔ ماضی میں زندگی کی تاریخ کو ہم دو الگ طریقوں سے پڑھتے آئے تھے۔
پہلے نمبر پر زمین سے ملنے والے فوسلز سے
دوسرے نمبر پر زندہ جانداروں کے خلیوں سے
زندگی کی تاریخ ان دونوں طریقوں سے معلوم کی گئی اور ان سے ملنے والے حیران کن مطابقت سے ہمیں علم ہو گیا کہ ہم جو پڑھ رہے ہیں غلط نہیں۔ لیکن کیا اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھا جا سکتا ہے؟ لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ ان دونوں کو ملایا جا سکے؟ یعنی فوسلز میں سے ڈی این اے کو بھی پڑھا جا سکے؟ اگر یہ سوال آپ پینتیس سال پہلے پوچھتے تو جواب تھا کہ نہیں۔ لیکن یہ جواب بدل چکا ہے۔

اس پر سب سے پہلے ہونے والا بریک تھرو ایک کواگا (تیس سے چالیس لاکھ سال پہلے کا جانور جو زیبرے سے ملتا جلتا تھا Quagga) کا تھا جس کو سب سے پہلی مرتبہ 1984 میں سیمپل کیا گیا۔ یہ انتہائی قیمتی تحقیق ثابت ہوئی اور ہمیں کے ماضی کو جاننے کے لئے اہم طریقہ ہاتھ آ گیا۔ محققین نے ڈی این اے سیکوینس کے سائز کے فرق سے پتہ لگایا کہ کواگا (Quagga)تیس سے چالیس لاکھ قبل پہاڑی زیبرا سے الگ ہو کر نئی نوع بنا تھا۔ پہاڑی زیبرا اور میدانی زیبرا ایک ہی جیسے لگتے ہیں لیکن ان کے راستے بھی بہت پہلے الگ ہو چکے تھے۔ یہ ڈی این اے ٹیسٹ ایک خشک مسل سے سیمپل لے کر کیا گیا تھا جو ایک میوزیم سے حاصل کیا گیا۔ اگلے کچھ سال اسی طریقے سے قدیم ڈی این اے کی سٹڈی ہوتی رہی۔ 1985 میں پہلی بار قدیم انسانی ڈی این اے کی سٹڈی ہوئی جو مصر کی ممی کا تھا۔ تسمانیہ کا بھیڑیا، میمتھ، مکئی کی سٹڈی کی گئی۔ (اسی سے متاثر ہو کر مائیکل کرچٹون نے جراسک پارک ناول لکھا)۔
انسانی باقیات سے قدیم ڈی این اے کے مطالعے سے ہمیں پتہ لگا کہ کب انسان دنیا میں کس طرح پھیلے؟ انسان، نینڈرتھال اور ڈینیسووان کے پچھلے ایک سے دو لاکھ سال پہلے رابطوں کا علم ہوا۔ 2014 میں اس مطالعے سے پتہ لگا کہ مڈغاسکر کا معدوم ہو جانے والا ہاتھی پرندہ شترمرغ کا نہیں بلکہ آسٹریلین کیوی کا قریبی رشتہ دار تھا۔ (پہلے ہمارا خیال اس کے برعکس تھا)۔ سات لاکھ سال پہلے یوکون کے گھوڑے کے ڈی این اے سے گھوڑوں کی ارتقائی تاریخ واضح ہوئی۔
اب 2016 میں ہمیں علم ہوا ہے کہ کچھ جگہوں کا ڈی این اے ہمارے پہلے اندازے سے بھی زیادہ رہ سکتا ہے، خاص طور پر کانوں کی ہڈی اور ہڈیوں کے اندر میں اور برف میں اس کی زندگی اور زیادہ ہو سکتی ہے۔ آج سے صرف تیس سال قبل یہ ناممکن سمجھا جاتا تھا کہ قدیم ڈی این اے کو بھی کبھی پڑھا جا سکے گا۔ خراب ڈی این اے بھی بکھرا پڑا ہوتا ہے۔ ڈائنوسارز کا قدیم ڈی این اے بھی ہمارے سامنے پڑا ہے لیکن ٹکڑے ٹکڑے ہو چکا۔ موجودہ ٹیکنالوجی کی مدد سے اسے نہیں پڑھا جا سکتا۔ ایک کتاب ہے جس کا ہر لفظ الگ پڑا ہے۔ کیا یہ پڑھنا ہمیشہ ناممکن رہے گا؟ شاید مستقبل میں، شاید اپنی زندگی میں ہی، ہم اس کوڈ کو بھی توڑ ڈالیں۔ ابھی عنبر میں محفوظ کیڑوں کا ڈی این اے ایک معمہ ہے جو حل ہونے کا انتظار کر رہا ہے۔ ماضی کی نشانیاں خود ہمارے اندر بھی ہیں اور ہمارے سامنے بھی۔ دیکھنے والوں کے انتظار میں اور ان کو دیکھنا ہمارے اختیار میں۔ قدیم ڈی این اے کا مطالعہ کرنے کی ٹیکنالوجی اس سفر میں ایک اہم قدم ثابت ہوا ہے۔

ڈی این اے قدرت کی شہکار صناعی
پہلے زمانے کے لوگ اثبات وجودِ خدا کے لیے معجزہ طلب کیا کرتے تھے۔ ان کی سمجھ ہی میں نہیں آتا تھا کہ جس وجود کو ہمارے حواس محسوس نہ کرسکیں اس کا اقرار کیسے کریں۔ بہرحال یہ ایام جاہلیت کی باتیں تھیں۔ آج سائنس کے مختلف شعبے ہرروز وجود خدا کے ایسے دستاویزی ثبوت پیش کررہے ہیں کہ انہیں نظر انداز کرنا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں رہا۔ ڈی این اے کا شمار اللہ رب العالمین کے ایسے ہی معجزوں میں ہوتا ہے۔ ڈی این اے انہیں دستاویزی ثبوتوں میں سے ایک ایسا اٹل ثبوت ہے کہ اسے جھٹلایا نہیں جا سکتا اور ساتھ ساتھ اس کائنات کو بنانے والے کی عزمت کا اعتراف کیئے بناء بھی کوئی چارہ نہیں کہ جس نے اتنے پیچیدہ نظام کو صرف ایک کن سے تخلیق کیا اور اس میں پہلے دن سے آخری زمانے تک کی تمام کوڈنگ کر دی۔ تو پھر تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Post Reply

Return to “طب”