کمار سانو

اردو کے منتخب افسانے یہاں شیئر کریں
Post Reply
انور جمال انور
کارکن
کارکن
Posts: 119
Joined: Wed Sep 26, 2012 12:08 am
جنس:: مرد

کمار سانو

Post by انور جمال انور »

۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کمار سانو ۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کے دل کی حقیقی ترجمانی کوٸی کر سکتا تھا تو وہ یہی فنکار تھا ۔
اس نے نیا ریکارڈ پلیٸر خرید لیا جس کا ساٶنڈ اتنا زیادہ تھا کہ چوتھے محلے کی صاٸمہ تک بھی پہنچ جاتا ، مگر فی الحال اسے اتنی دور جانے کی ضرورت نہیں تھی ۔ ایک منزلہ عمارت میں اس کا کمرا چھت پر واقع تھا جہاں سے وہ جب بھی نیچے جھانکتا ، نگاہوں کی مراد بر آتی ۔
اس کی بھابھی جسے وہ ،بھرجاٸی ، کہتا تھا بڑے سے آنگن میں جھاڑو لگاتی یا برتن دھوتی یا بکریوں کو چارہ دیتی نظر آجاتی اور اس کا دل خوشی سے جھوم اٹھتا ۔ وہ ریکارڈ پلیٸر آن کرتا تو اس کا ترجمان کمارسانو اپنی مدھر آواز میں گانے لگتا ،
نظر کے سامنے جگر کے پاس کوٸی رہتا ہے ، وہ ہو تم تم تم ،،، اور جب جواب میں الکا یا سادھنا گاتی تو اسے لگتا یہ کوٸی اور نہیں بھرجاٸی کے اپنے بول ہیں اور وہ بھی اسے اتنا ہی چاہتی ہے ۔
حالانکہ یہ بات ابھی ثابت نہیں ہوٸی تھی کہ وہ سچ میں اسے کوٸی اہمیت دیتی ہے یا نہیں مگر اتنا ضرور تھا کہ کمار سانو کی پکار پر اس کا ڈوپٹہ ڈھلک ڈھلک جاتا اور برتن دھوتے دھوتے یا جھاڑو لگاتے لگاتے اس کے سینے کے ابھار کھل کر سامنے آ جاتے ۔
وہ چھت کی بلندی سے جب نیچے دیکھتا تو اکثر کرنٹ کھا کر پیچھے ہٹ جاتا اور اف اف کی آوازیں نکالنے لگتا ، یہ بھرجاٸی تو روز بہ روز نکھرتی جا رہی ہے ، وہ سوچتا ۔

حالانکہ وہ پکے رنگ کی تھی پہلے ۔ جب بھاٸی اس کی ڈولی لے کر آیا تھا تب بھی وہ اسے کوٸی خاص پسند نہیں آٸی تھی اور شادی سے پہلے تک تو وہ اسے بالکل ہی بیکار لگتی تھی ۔ پتہ نہیں ایک سال کے اندر اندر کیا ہوا تھا کہ اس نے خاص اداٶں کے ساتھ ساتھ اپنی جلد کو بھی تبدیل کر لیا تھا ۔
سوال “ کیا سانپ کی طرح کچھ خواتین بھی اپنی کینچلی تبدیل کر سکتی ہیں ؟
جواب ” پتہ نہیں ۔

بھرجاٸی اپنے کاموں سے فارغ ہو کر جب باہر گلی میں محلے کی عورتوں کے بیچ بیٹھتی تو کہتی ” بہن ،، رب کسے نوں حسن نہ دیوے ، سارے مرد پچھے پے جاندے نے ۔
( بہن خدا کسی کو حسن نہ دے ورنہ سارے مرد پیچھے لگ جاتے ہیں )
کوٸی حیران ہو کر پوچھتی ” ہاٸے بہنا کون تیرے پیچھے پڑا ہے تو بھرجاٸی فوراً اللہ توبہ کرتی ”ہاٸے ہاٸے میرے پچھے کون آوے گا میں اس دا منہ نہ توڑ دیاں ۔

یہ ناٸنٹی سے ذرا پہلے کا دور تھا چنانچہ فراغت ہی فراغت تھی ۔ دن کاٹے نہیں کٹتا تھا ، صبح ہوتی تو دوپہر نہ ہوتی ،کسی طرح دوپہر ہوجاتی تو شام نہ آکر دیتی ۔
شام کو گلی میں ایک طرف عورتوں تو دوسری طرف محلے کے بڑے بوڑھوں کی بیٹھک لگتی ۔ ایک ایک چارپاٸی پر چار چار بزرگ بیٹھ کر حقہ گڑگڑاتے ، کھانستے اور نٸی نسل کی بے راہ روی کا رونا روتے ۔ انہیں پتہ ہی نہیں تھا کہ زمانہ کروٹ بدل رہا ہے ۔ کچھ ہی دنوں بعد ان کا موضوع سخن کچھ اور ہونے والا ہے ۔
کلر ٹی وی مارکیٹوں میں آ چکا تھا ۔ اب وی سی آر کی وبا پھیلنے والی تھی ۔ عورت کی شرم و حیا پر باتیں کرنے والے یہی بزرگ کل کو چھپتے چھپاتے جب وی سی آر کراٸے پر لاٸیں گے تو ان کی آنکھیں حلقوں سے باہر آجاٸیں گی اور اگلے دن حقہ گڑگڑاتے ہوٸے کانوں کو ہاتھ لگا لگا کر کہیں گے ” اللہ معاف کرے ، اے انگریز تے بڑے ہی بے غیرت نے ۔ پھر وہ دیر تک انگریز کی گندی حرکتوں کا ذکر کیا کریں گے جو انہیں نیلی فلموں میں دیکھنے کو ملیں گی ۔اور جب وہ نظر اٹھا کر گلی کے دوسرے سرے پر خوش گپیاں کرتی مٹیاروں کو دیکھیں گے تو سوچیں گے یہ تو بڑی ہی پاک دامن بیبیاں ہیں ، انہیں تو کچھ معلوم ہی نہیں ۔

بھرجاٸی کو اچھی طرح معلوم تھا کہ اس کا ایک عاشق ہے اور وہ اس عاشق کو اتنا تڑپانے والی ہے اتنا تڑپانے والی ہے کہ وہ اس کے آگے ناک رگڑ دے گا اور دونوں ہاتھ جوڑ جوڑ کر معافیاں مانگے گا ۔
کس بات پر معافیاں مانگے گا ، یہ بھی اسے معلوم تھا ۔
اسے تڑپانے کے لیے ہی وہ ہر وقت ہونٹوں پر سرخی لگاٸے رکھتی اور بڑے بڑے گلے والی قمیضیں پہنتی ۔اس کے ہونٹوں پر سرخی جچتی بھی بہت تھی ۔ پیارے پیارے مکھڑے پر جیسے کسی نے گلاب کی دو سرخ پتیاں سجا دی ہوں ۔
کمار سانو کا نیا آنے والا گیت بھی ان دو پتیوں کے بارے ہی تھا ۔یعنی
چوم لوں ہونٹ ترے دل کی یہی خواہش ہے
بات یہ میری نہیں پیار کی فرماٸش ہے ۔
جب اس گانے کی کیسٹ وہ خرید کر لایا تو اس نے تو اسے بجا بجا کر حد ہی کر دی اور بھرجاٸی کے سن سن کر کان پک گٸے اور تنگ آ کر وہ چھت کی طرف منہ اٹھا اٹھا کر کہنے لگی ” لے بھاٸی تو آکر چوم لے میرے ہونٹ اور جان چھوڑ ۔

اس کے بعد مارکیٹ میں ایک اور کیسٹ آگٸی ۔ کمارسانو چھا گیا تھا ، نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن بن گیا تھا ۔ اس نے ان کہے جذبات کو الفاظ دے دیے تھے ۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں جو کچھ ایکدوسرے کو کہنا چاہتے تھے وہ کمارسانو کی زبان سے کہہ ڈالتے ۔ اسی گلوکار کی وجہ سے بھرجاٸی بھی مجبور ہو چکی تھی اور ایک دن جب وہ چھت والا اوپر سے اتر کر نیچے آیا اور زبردستی اس کے ہونٹ چوم کر بھاگ گیا تو وہ کچھ بھی نہ کر پاٸی ، دیر تک ساکت ہو کر ایک مخملی کیفیت میں مبتلا رہی ۔ نگاہوں سے محبت کرنے والے نے آج اسے آ کر چھو لیا تھا ۔

” اف اللہ “ کیفیت ختم ہوتے ہی اسے خوف نے آ لیا ، یہ میں کیا ظلم کرا بیٹھی ہوں اپنے ساتھ ۔ وہ سوچ سوچ کر ہلکان ہونے لگی ۔
منڈیر پر بیٹھا کالا کوا زور زور سے کاٸیں کاٸیں کرنے لگا ۔ وہ سہم گٸی کہ کہیں یہ کوا ہی نہ سب کو بتا دے ۔
اس نے ہش ، ہش ، کر کے کوے کو اڑانے کی کوشش کی مگر وہ ڈٹا رہا اور پورے جسم کا زور لگا کر کاٸیں کاٸیں کرتا رہا جیسے اسے ڈانٹ رہا ہو ۔ وہ دوڑ کر اپنے کمرے میں گٸی اور دروازہ بند کر کے بستر پر گر گٸی ۔

رات کو وہ نیند میں تھی جب اس کے شوہر نے اسے چوما ، وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی ۔ بدن اس خوف سے لرز گیا تھا کہ کہیں یہ دیور نہ ہو ۔ بچت ہوگٸی کہ یہ وہ نہیں تھا بلکہ وہ تھا جس کا سچ مچ حق بنتا تھا ۔ منہ ایک اور چومنے والے دو ۔
سوال ” کیا یہ سلسلہ چلنا چاہٸیے ؟
جواب ” نہیں ۔

وہ یہ سوچ کر دوبارہ سو گٸی کہ صبح کسی ایک کو وہ ضرور سختی سے منع کر دے گی ۔
صبح دونوں بھاٸی اٹھ کر کام پر چلے گٸے ۔ اسے بات کرنے کا موقع ہی نہیں ملا ۔ جبکہ مردود کوا صبح ہی صبح آن دھمکا ،، کاٸیں کاٸیں کاٸیں ۔ وہ گھر سے باہر نکل گٸی ۔ کچر کچر باتیں کرنے والی محلے والیوں میں جا بیٹھی ۔ تمام عورتیں جمیلہ کو اپنے جھرمٹ میں لیے اسے دلاسے تسلیاں دے رہی تھیں ۔ جبکہ جمیلہ محض سر کو جھکاٸے ہوٸے ناک کو سڑ سڑ کر رہی تھی ۔ آج اس کے شوہر نے اسے گھر سے نکال دیا تھا اور طلاق کی دھمکی بھی دے ڈالی تھی ۔قصور بیچاری کا صرف اتنا تھا کہ وہ سامنے والوں کے منڈے کے ساتھ ہنس ہنس کر باتیں کرتی پکڑی گٸی تھی ۔

اے مرد ذات تے بہت ہی شکی ہوندی اے ۔ عورتیں مرد ذات کی اس عادت پر بہت ہی نالاں نظر آٸیں اور دیر تک لعنت ملامت کرتی رہیں ۔
بھرجاٸی کا اپنا بھی ماتھا ٹھنکا تھا ۔ جمیلہ کی یہ حالت دیکھ کر اسے اپنی بھی فکر پڑ گٸی تھی ۔ اس نے سبق سیکھا کہ کسی غیر کے آگے کبھی بھی ہنس ہنس کر باتیں نہیں کرنی ۔ ۔ اس نے سوچا ، غیر تو غیر اب وہ اپنے دیور کے سامنے بھی کبھی نہیں ہنسے گی ۔
بھرجاٸی وہاں بیٹھی دیر تک خیالوں میں کھوٸی رہی ۔ بظاہر وہ محلے والیوں کی ہاں میں ہاں ملا رہی تھی مگر اسے نہیں پتہ تھا کہ وہ کیا کہہ رہی ہیں ۔
گلی میں بیٹھا ایک کتا زور سے بھونکا تو اسے ہوش آیا ۔ کتا ایک بلی کے پیچھے بھاگا تھا ۔ بلی اس طرف دوڑ گٸی جس طرف بڑے بوڑھے اپنی بیٹھک جماٸے ہوٸے تھے ۔ وہ اٹھی اور اپنے گھر کی طرف بڑھ گٸی ۔
شام کو جب دیور گھر آیا اور آتے ہی اس نے کمار سانو کو بجانا شروع کیا تو وہ غصے سے پاٶں پٹختی چھت پر جا پہنچی ۔
یہ دعا ہے میری رب سے تجھے عاشقوں میں سب سے میری عاشقی پسند آٸے ۔ میری عاشقی پسند آٸے ۔ کمار سانو کہہ رہاتھا مگر بھرجاٸی نے جاتے ہی ڈیک کا تار کھینچ دیا ۔ ۔ ۔ وے تینوں شرم نٸیں آندی ۔ ۔ ۔ وہ پنجابی زبان میں صلواتیں سنانے لگی جس کا متن یہ تھا کہ یہ تم کیا بجاتے رہتے ہو فضول میں ۔ اور یہ کیا حرکت کری تھی کل تم نے ۔ اگر تمہارے بھاٸی کو پتہ لگ گیا تو کیا ہوگا کبھی سوچا ہے ۔ اور جب میرا رشتہ لے کر میرے گھر والے آٸے تھے تو اس وقت تم نے انکار کر دیا تھا ۔اس وقت تمہیں میں اچھی نہیں لگتی تھی ۔ اپنے آپ کو بڑا ہیرو سمجھتے تھے تم ۔ اب تمہارے بھاٸی سے میرا بیاہ ہوگیا ہے تو مر رہے ہو ۔ اب کیا فاٸدہ ۔
پتہ نہیں بھرجاٸی ڈانٹ رہی تھی یا اپنے دل کی بھڑاس نکال رہی تھی ۔ یہ تو سچ ہی تھا کہ اس کا رشتہ آیا تھا مگر انکار کے بعد وہی رشتہ دوسرے بھاٸی کے ساتھ طے ہو گیا تھا ۔ وہ اس کی طرف سے ٹھکرا دی گٸی تھی ۔ اور یہ ٹھکرایا جانا وہ کبھی فراموش نہیں کر پاٸی تھی ۔ اسے انتقام لینا تھا ایک ایسا انتقام جو مسلسل جاری رہے ۔ اس کے لبوں کی لالی اس کی نکھری ہوٸی جلد اور بے ڈوپٹہ سینے کے دونوں ادھ کھلے ابھار ہی دراصل اس کے انوکھے انتقام کی ایک شکل تھی ۔
وہ پنجابی میں خوب ڈانٹ پلانے کے بعد نیچے اپنے کمرے میں آگٸی ۔ اور پتہ نہیں کس وجہ سے رونے لگی ۔
سوال ” کیا عورت کبھی سمجھ میں آ سکتی ہے ؟
جواب ” نہیں “

کمار سانو کا منہ بند ہو چکا تھا ۔ اور دیور جی نے نہ رات کا کھانا کھایا نہ صبح کا ۔ منہ اندھیرے ہی کہیں نکل گیا ۔
بھرجاٸی کو فکر ستانے لگی ۔ سوچا کاش اسے اس طرح ذلیل نہ کرتی ۔ جب وہ دوپہر کو گھر آیا تو پوچھا کام پر کیوں نہیں گٸے اور ناشتہ بھی نہیں کیا ؟ وہ کچھ نہ بولا ، چپ چاپ سیڑھیاں چڑھ گیا ۔ اس کی آنکھیں لال سرخ ہو رہی تھیں ۔ بھرجاٸی کے دل پر کوڑے پڑ گٸے ۔ وہ سمجھ گٸی کہ یہ رات بھر روتا رہا ہے ۔ وہ بے چین ہوگٸی ، پریشان ہو گٸی ، چکی کے دو پاٹوں میں آ گٸی ۔ رشتوں کے تقاضے اپنی جگہ مگر اسے یہ بھی کب منظور تھا کہ کوٸی اس کی وجہ سے کھانا پینا چھوڑ دے اور رو رو کر آنکھیں سجا لے ۔
اس نے کھانا گرم کر کے اسے کھانے کو دیا مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا ، گردن لٹکاٸے ہونٹ کاٹتا رہا۔
چل کھانا کھا لے ۔ ۔ چھوڑ پرے ۔۔ ۔
وہ نرمی سے کہنے لگی
وہ نہ مانا
اچھا چل کھانا تو کھا “ وہ زور دے کر کہنے لگی ۔
میں نہیں کھاٶں گا ۔ آخرکار ایک پتلی سی آواز برآمد ہوٸی ۔
کیوں نہیں کھاٸے گا ؟ مرنا ہے تجھے ؟
وہ منہ گھما کر دوسری طرف دیکھنے لگا ۔
اچھا ادھر تو دیکھ ۔ وہ لاڈ سے کہنے لگی ۔
مجھے نہیں دیکھنا ۔
دیکھ تو سہی ۔ وہ یوں دیکھنے کو کہہ رہی تھی جیسے ابھی آنکھوں ہی آنکھوں سے سارے معاملات درست کرلے گی ۔

اچھا غلطی بھی تیری اور ناراض بھی تو ہو رہا ہے ۔ چل میں تجھ سے معافی مانگ لیتی ہوں ۔ بھرجاٸی نے یہ بات کچھ اس انداز سے کہی کہ دیور جی کے ضبط کیے ہوٸے آنسو چھلکنے لگے ۔ وہ بے اختیار رو پڑا ۔
بھرجاٸی کے دل پر ایک اور کوڑے کی ضرب لگی اور وہ ایکدم سے بھول گٸی کہ اس کا شوہر کون ہے اور یہ اس کے سامنے کون ہے ۔ اس نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگا لیا ۔

منڈیر پر چغل خور کوا کاٸیں کاٸیں ہی کرتا رہ گیا ۔ اس کی ایک نہ چلی اور دور کھیتوں میں کسان نے نٸے بیج بو دیے ۔ اور باغوں میں اتنے پھول کھلے کہ مالی مالا مال ہو گیا ۔
گلی کا کتا بلی کے پیچھے دوڑتا تو وہ بھاگ کر بابوں کی چارپاٸی کے نیچے چلی جاتی اور دور سے اسے منہ چڑاتی ۔ محلے والیاں جمیلہ کا دکھ بانٹتیں اور بھرجاٸی کہیں اور ہی خیالوں میں کھوٸی رہتی ۔ یا کبھی کبھی کہتی ” نی بھینا مرد جدوں پیار وچ انھا ہو جاٸے تے فیر کج نٸیں ہو سکدا ۔ ( اے بہن مرد جب پیار میں اندھا ہو جاٸے تو پھر کچھ نہیں ہو سکتا )

کمار سانو کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا اب وہ روز شام کو اپنے سر بکھیرتا اور الکا منہ پھیرنے کی بجاٸے آگے بڑھ کر اس کا ساتھ دیتی ۔ دونوں مل کر گنگناتے ، پیار کے گیت گاتے ۔ ایکدوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے ۔ایکدوسرے کا ہاتھ تھام لیتے ۔ پھر وہی ہاتھ بانہوں میں تبدیل ہو کر ایک دوسرے کو کھینچ لیتے ۔ پھر دو پیاسے ہونٹ آگے بڑھتے اور ایکدوسرے کو اتنا چومتے اتنا چومتے کہ چہرہ لال کر دیتے یہاں تک کہ کالا کوا چیخ چیخ کر اپنا گلا سکھا لیتا اور بھرجاٸی ہنس کر کہتی ” تو جل جل کے اور کالا ہو جا کوے ۔

خوشی کے دن تھوڑے ۔ ۔ ۔ یہ کاٸیں کاٸیں ایک دن ابا جی کے کانوں تک پہنچ گٸی ۔ انہوں نے بہو کو بلایا ۔ حکم دیا کہ فوراً اپنے دیور کے لیے کڑی تلاش کر ۔ کب تک وہ کنوارا رہے گا ۔ اس کا بھی بیاہ کر دیتے ہیں تاکہ میں فارغ ہو جاٶں ۔ ابا جی نے دو چار گھروں تک بھی رہنمائی کی کہ وہاں جا کے پتہ کر اور رشتے کی بات چلا

بھرجاٸی جانتی تھی کہ یہ دن ایکدن آنے والا ہے ۔ مگر اتنی جلدی کیوں ۔ ۔ ۔ دو چار سال اور نکل جاتے ۔ اسے اتنا دیوانہ بنا دیتی کہ پھر وہ شادی کے قابل ہی نہ رہتا ۔ملنگ بن جاتا یا کسی مزار کا بابا یا مجنوں بن کر جنگل جنگل گھومتا ۔ جس نے اسے بوجہ غرور ٹھکرایا تھا اس کی ایسی سزا تو بنتی تھی ۔

پہلا ہی رشتہ اتنا اچھا تھا کہ اس نے سر توڑ کوشش کر کے منع کروا دیا ۔ لڑکی حد سے زیادہ خوبصورت تھی ۔ اتنی خوبصورت لڑکی کو وہ اگر دیورانی بنا کر لے آتی تو اس کی اپنی کیا ویلیو رہ جاتی ۔ اسے تو ایسی لڑکی کی تلاش تھی جو اس سے کمتر ہو ہر معاملے میں ۔
اباجی نے رشتہ ڈھونڈنے کا کام اسے سونپا ہوا تھا چنانچہ وہ اپنے مطلب کی دیورانی تلاش کرنے میں ضرورت سے زیادہ ہی کامیاب ہو گٸی ۔ یہ ایک بے کشش اور بڑی عمر کی کوٸی عورت ٹاٸپ کنواری تھی ۔
کمار سانو کا چہیتا گھوڑی چڑھ گیا اور اپنی خود کی دلہن لے آیا ۔
بھرجاٸی بیاہ والے دن رونے دھونے کی بجاٸے مطمٸن اور مسرور تھی ۔ یقین رکھتی تھی کہ سہاگ رات کے بعد جو سورج طلوع ہوگا ۔ وہ سب کچھ واپس بحال کر دے گا ۔ پھر وہی کمار سانو کی آواز ہو گی اور وہی اس کا عاشق اس کے لیے جان قربان کرنے کو حاضر ہو جاٸے گا ۔
مگر یہ کیا ۔ ۔ ۔ ایکدن گزرا ۔دوسرا دن گزرا ۔ ۔ تیسرا دن بھی چلا گیا مگر عاشق تو ایک منٹ کے لیے بھی اپنا کمرا چھوڑنے کو تیار نہیں تھا ۔
اس نے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ نصیب دشمناں کہیں طبیعت تو خراب نہیں ۔ مگر پتہ چلا کہ بندہ ہشاش بشاش ہے ۔اسے اپنا کمرا بے حد پسند آگیا ہے ۔ کون بھرجاٸی ۔ کس کی بھرجاٸی ۔ کیسی بھرجاٸی ۔ جب کعبے کا رخ ہی چینج ہو گیا ۔ تو سجدوں کا رخ بھی کیوں نہ بدلے ۔
وہ سب کچھ بھول چکا تھا ۔ یہاں تک کہ اس نے مڑ کر کمار سانو کی بھی خبر نہ لی ۔ الکا حیران تھی کہ کوٸی یوں بھی بدل سکتا ہے کیا آن کی آن میں ۔

سوال ” کیا کوٸی یوں بھی بدل سکتا ہے ؟
جواب ” ہاں “

کالا کوا اب کاٸیں کاٸیں کی بجاٸے زور زور سے ہنستا ۔اور بھرجاٸی کا جی بھر کے مذاق اڑاتا ۔ ہتک محسوس کر کے وہ خود کو کمرے میں بند کر لیتی ۔
مہینوں انتظار کے باوجود عاشق اپنے پرانے موڈ میں واپس نہ آیا ۔ اس کے ہونٹوں کی لپ اسٹک سوکھ سوکھ کر مٹی ہو گٸی ۔ بڑے گلے کی قمیضیں سکڑ کے چھوٹی ہو گٸیں اور سینے کے ابھار دب کر کہیں سینے میں ہی گم ہو گٸے ۔۔ ایک دن گلی میں ریڑھی والا آیا اور پانچ روپے کلو کے حساب سے ساری کیسٹیں خرید کر لے گیا ۔
کچر کچر باتیں گھماتی محلے والیاں اب بھرجاٸی کے معاملے کو لے بیٹھی تھیں ، نجانے انہیں کس نے خبر دے ڈالی تھی کہ وہ اپنے دیور پر مرتی ہے ۔ عورتیں دبی زبان میں اسے دلاسے دیتیں مگر وہ اپنے ہی خیالات میں کھوٸی رہتی یا کبھی کبھی کہتی ” نی بھینا مرد صرف جسم دا بھکا ہوندا ای ۔
( اے بہن مرد صرف جسم کا بھوکا ہوتا ہے ۔)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انور جمال انور
User avatar
چاند بابو
منتظم اعلٰی
منتظم اعلٰی
Posts: 22224
Joined: Mon Feb 25, 2008 3:46 pm
جنس:: مرد
Location: بوریوالا
Contact:

Re: کمار سانو

Post by چاند بابو »

اففففففففف

اتنا بولڈ افسانہ۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
Post Reply

Return to “اردو افسانہ”